1857ء جنگ آزادی اسباب

115
ی ش ی ر ق م ی ح ر ل دا ب ع مد ح م۱۸۵۷ و ل ہ پ م ہ د ا# ن ح ے ک ادی# گ ا*ز# ن ح ی ک ء ں می ازے وا؟ اس ب ہ9 ے کیسا اوز و ہ ے س اں ہ ک# از# ا*غ وں کا ش ش و ک ہ# ان روش# ق ر س ی ک ے# ن را ک اد# و ا*ز ک لک م ے س سلط ی ے ک وں# ز ی ز گ# ب ا ں می[ ں ہ# ے د ک[ کہ اں# وب ی ک ‘ے ن ا ا ج ب ک ہ# ماز ن ش و ک وں ش ش و ک ی ک وی لc ہ لہ د ی ال ل اہ و ش رت# حض ر گ ں ۔ اn ی ہ ے ن ا ‘ے ج ن ا ر بp ظ# ن اط ق# ن ی کئ و ک ی ل دا ہ اب ا مد ش ح ا ات ی ب ہ پ اوز ھا ت ب ل ا# ال غ ب# ح ے کا# ن را ک اد# ے ا*ز س ز ی سلط اوز ا ی ے ک وں~ ی ہ ر م و ک ت# خ ت ہ ی ل# غ م ے ک ی لc ہ د ے س لک م د اوز ہ ج دو ج# لاف# ج ے ک وں# ز ی ز گ# ب ے کہ ا ہ ا ب شک ا ا ج ہ ک ہ و ن ت ی ھ ت ہ ی وج~ ز ی ی ک9 ے# ین د وت ع ے د لن ے ک لہ م حز ی[ اں ب س دو# ب ہ ر~ کٹ ا~ ں د ی ہ# ن ح ے# ن اں# وزدی ج ی غل وات# ت داز ب ی و ص ے ک گال# ن ی کہ ب ح وا ہ ت ق اس و# از# ا*غ کا ک ری ح ت ی ک ے# ن ر ک ر ہ ا کال ب# و ن ک[ اں کہ ی ھ ت ی ک ت ی ص و غد ن ے ک ے# ن ا# ب ی[ ں ی س# ی ا و ج کدولہ ال[ راج س واسہ# ت ے# ین ں ‘اn ی ہ ے ھن لک و ک اں# لہ وزدی ج د ال# ن حزا ا ب’’ ہ# ن# ز ی ر لٹ ہ# مان ·ی ی ر کا م ع ری مٹ ر گ ے ا ہ ل ص ں جا می[ اں ب س دو# ب ہ ں ی ہ# پ و ا ج ا# ب ھ ک ر زp ظ# ن شn ·ی ی ہ ش می ہ و ک وت ق ی اس ک وں ت و ق ی بر# مغ ۔# راغ چ رے مٹ ے ہ مہ# رے د ٹ ن ل ب م ک ب ی کس کام۔ ا ا ب ی ر د ک م ی# ح ے لن ے ک ہ ش می ہ و ک ہ ش ی د# ے اس اب لن ازے ہ م ت و ت ا وب ہ کا و چ ہ ا۔# رب ک ہ# ن ش ش و ک ی ک ے# ن ر ک اہ ب ی و ک وں ت و ق وں# ی ی ی ں می ت ق ی و ہ ک رو۔ای ک ل ص جا ق ی س ے س و ں ی م ر گ ر س ی س ا ب س ی ک[ اں ں می[ ں ک د وا ہ سا ی ر ا گ ا ا# ب ی ہ د# ن ت# از ی اج ک ے# ن ر ک ر مٹ ع ن عہ ل ق ے اوز# ھن ک ی ز ہ ا ب س ں ی ہ# پ ۔ ا ا~ بn ی ی و# ی س ا۔# ب~ وز ت و ک وت ق و ک وں# ز ی ز گ# ب ا ے ہل پ ے س ت س ں ۔ ی ہ# پزا ا ہ م ت گال# ن ی و ت‘‘ ود# ج د اوز# ن ح[ ں می ھ ‘ ا~ ٹ شی ب گ ج ھ زام‘ لٹر ‘ دز# عف ج ر مٹ ز مگ ھا ، ت ا ر دب ک روغ س ا# رب ک ل م عز ی ت ی ص ے اس و# ندولہ ال[ راج س و کدولہ ال[ راج س ں می ہ ج یª ی ی ے ک دازی# اوز غ# از ب# ے شاز س وں# ز ی ز گ# ب ی ا ک) ی ب ی~ ئ سی ھ گ( ساء# لی ر ا مہ الہ# ی ج کدولہ ال[ راج س1757 ء ی ھ ت ادزی ہ پ ی کال ل[ ں ہ و م ہ د اوز زاج ب ہ ش[ ر مدں مٹ ی ل ی اوز و ہ ا ب سداز ا# ے وق ک ی۔ اس~ ز ی ی# ب ھا ک ت س ک ش ے س وں# ز ی ز گ# ب ں ا می و ج ا ب گ و ہ م ئ ا ز ق ی گال# ن ی ہ ون ص ے ل ی وا# ب ‘ل اوز ا* مد ی وشا# ر ٹ# ج ز# ے ز س ت س ے ک[ اں ب س دو# ب ہً لا م ع[ زاج کا وں# ز ی ز گ# ب ی اوز ا ب* ہ ا# کا م ن

Upload: rzw101

Post on 29-Jul-2015

80 views

Category:

Documents


4 download

TRANSCRIPT

Page 1: 1857ء جنگ آزادی اسباب

قریشی عبدالرحیم محمد۱۸۵۷ پہلو اہم چند کے آازادی جنگ کی ء

۔ ہیں جاتے پائے نظر نقاط کئی میں بارے اس ہوا؟ کیسے اور ہوا سے کہاں آاغاز کا کوششوں سرفروشانہ کی کرانے آازاد کو ملک سے تسلط کے انگریزوںآازاد سے اثر اور تسلط کے مرہٹوں کو تخت مغلیہ کے دہلی میں ذہن کے ان کیونکہ جائے کیا نہ شمار کو کوششوں کی دہلوی اللہ ولی شاہ حضرت اگر

انگریزوں کہ ہے جاسکتا کہا یہ تو تھی وجہ بڑی کی دینے دعوت لئے کے حملہ پر ہندوستان کو ابدالی شاہ احمد بات یہی اور تھا غالب خیال کا کرانےجنہیں نے خاں وردی علی نواب صوبیدار کے بنگال جبکہ ہوا وقت اس آاغاز کا تحریک کی کرنے باہر نکال کو ان سے ملک اور جدوجہد خلاف کے

کہ ‘ تھی کی وصیت بعد کے بنانے جانشین کو الدولہ سراج نواسہ اپنے ہیں کولکھتے خاں وردی اللہ چند تارا ڈاکٹراس ’’ لئے تمہارے تو ہوتا چکا ہو نہ لبریز پیمانہ کا عمر میری اگر ہے حاصل میں ہندوستان انہیں جو رکھنا نظر پیش ہمیشہ کو قوت اس کی قوتوں مغربی

کرو۔ایک حاصل سبق سے ں سرگرمیو سیاسی کی ان میں دکن ۔ چراغ میرے ہے ذمہ تیرے تکمیل کی کام اس دیتا۔ کر ختم لیے کے ہمیشہ کو اندیشہکرنے تعمیر قلعہ اور رکھنے سپاہی انہیں ۔ بیٹا سنو توڑنا۔ کو قوت کو انگریزوں پہلے سے سب کرنا۔ نہ کوشش کی کرنے تباہ کو قوتوں تینوں میں وقت ہی

۔ نہیں تمہارا بنگال تو ہوا ایسا اگر دینا نہ اجازت ‘‘کی( ‘ ‘ النساء ‘ مہر خالہ کی الدولہ سراج خود اور چند امین سیٹھ جگت رام درلبھ جعفر میر ،مگر تھا دیا کر شروع کرنا عمل پر وصیت اس نے الدولہ سراج

کو ( الدولہ سراج میں نتیجہ کے غداری اور باز ساز سے انگریزوں کی بی سپاہی 1757گھسیٹی وفادار کے اس پڑی۔ کھانی شکست سے انگریزوں میں ء صوبہ والے آامدنی اور وسائل زرخیز سے سب کے ہندوستان اا عمل راج کا انگریزوں اور آائی نہ م کا بھی بہادری کی لال موہن راجہ اور شہید مدن میر ولی اور

تھا۔ ‘ ‘ محیط پر اڑیسہ اور بہار آاسام بنگال مغربی کے ملک ہمارے اور دیش بنگلہ کے آاج جو ہوگیا قائم پر بنگال۔ دیا کر تیز کو کوششوں کی ہتھیانے کو علاقوں کے ہند زمین سر سے بہانوں مختلف اور کو انیوں دو ریشہ اپنی نے انگریزوں بعد کے پلاسی جنگ اساور حیدرعلی کے میسور حکمرانوں ۔ رہیں جاری میں حصوں مختلف کے ملک بھی کوششیں کی ہند اہل خلاف کے قوت بیرونی اس ہی ساتھ کے اس

،مگر دیں شکستیں کو ان بار کئی اور ھھا رک روکے سے جمانے قدم میں ہند جنوبی کو انگریزوں نے سلطان سلطان 1799ٹیپو ٹیپو میں پٹنم رنگا سری کو نظام کو، مرہٹوں ، ہندوستانیوں سارے خلاف کے انگریزوں نے جنہوں سلادیا نیند کی موت کو حکمران ایسے کے ملک طرف ایک نے شہادت کیبن غلام کے انگریزوں عوام سارے اور ملک سارا میں نتیجہ کے خلفشار آاپسی کہ تھی کی کوشش کی کرنے آاگاہ کو ان اور کرنے متحد کو دوسروں اورہاتھ سے انگریزوں مرتبہ کئی نے مرہٹوں ہوگیا۔ قائم تسلط کا ان اور ہوگئی ختم مزاحمت خلاف کے انگریزوں میں ہند جنوبی طرف دوسری اور گے جائیں

قوت سہی رہی کی مرہٹوں سے شکست کی بھونسلے اور ہولکر اور ڈالدیے ہتھیار نے راؤپیشوا باجی تو کی کوشش کی کرنے ہاتھ دو دو جب اور ملایااور ہیں بھی ہندو میں جس ۔ ہے ملتا سلسلہ ایک کا آازمائی پنجہ ساتھ کے انگریزوں اور مزاحمت بعد کے پلاسی جنگ پر سطح عوامی گئی۔ ٹوٹ بھی

( ‘ تحریک کی اورسپاہیوں قبائل پہاڑی ۔ بھی عوام اور ہیں بھی علماء میں مسلمانوں بھی میں( 1733مسلمان قیادت کی شاہ مجنون کے فقیروں ئ حملے ) پر سلسلہ( 1776انگریزوں یہ ‘ 1822ئ میں ‘ قیادت کی وغیرہ شاہ مومن شاہ علی چراغ شاہ کرم ہوکر مسلح فقیر اور رہا جاری تک ء

نے ‘ ) اللہ شریعت حاجی کو جس تحریک فرائضی رہے بنے سر درد لئے کے تھا( 1781انگریزوں کیا شروع طور 1860میں بنیادی یہ رہی جاری تک کی ) نظام تیتو متاثر سے اس تھی۔ مشتمل پر کسانوں مسلم اکثریت بڑی بہت کی جس تھی تحریک کی کسانوں جس( 1831پر ۔ ہے تحریک کی ئ

تھی۔ ملی قوت سے کسانوں چھوٹے اور مزدوری رائے 1831کوکھیت احمد سید حضرت کہ آائندرہا خوش لئے کے انگریزوں سے اعتبار اس سال کا کو ہندوراجاؤں نے جنہوں تھی کی کوشش کی کرنے بیدار جذبہ کا جہاد خلاف کے انگریزوں مسلمانوں تک سرحد کر لے سے بہار نے جنہوں بریلوینقصان تلافی قابل نا کو تحریک اس سے جس ہوئے شہید میں معرکہ کے کوٹ بالا وہ تھی کی کوشش کی ملانے سے تحرک اپنی خلاف کے انگریزوں

وقربانی ) سرفروشی داستان کی پور صادق تا ۱۷۳۵پہنچا۔علمائے ۔ ( ۱۸۳۵ء ہے فراموش ناقابل بھی ء ( پٹنہ ۔ ہوئے واقعات کئی کے بغاوت کی سپاہیوں دیسی کے فوجوں انگریزی میں عرصہ ویلور( )1764اس بارکپور( )1808ئ پور ( )1824ئ ز فیرو ء

1849 / مارچ ( ) بارکپور راج ( 1857ء اور ہوتے قابض سے علاقوں کے ہندوستانی دوسرے بعد یکے انگریز باوجود کے مزاحمتوں سب ان پانڈے منگل ۔ ) رہے کرتے پور ‘ ‘ 1800قائم اوربدنا ھارود آاباد دولت رام پت مہی گورنر برارکے لیا۔ کر سودا کا مختاری خود اپنی ذریعہ کے معاہدہ ایک نے نظام میں ء

نورالامر ‘ اور نمبالکر رنبھا راؤ راجہ سکی۔ روک نے سے ہونے دستبردار سے وخودمختاری آازادی اپنی کو آاباد حیدر نظام بھی مخالفت کی داروں قلعہ کےچراغ کا کوششوں کی الدولہ مبارز شہزادہ گیا، دیا بدرکر گیا۔ 1856اکوشہر بجھ پر انتقال کے ان میں ء

۱۸۵۷ اہمیت کی آازادی جنگ کی ء۱۸۵۷ مشرق ‘ ‘ سے دہلی تک ہند وسط سے دکن تک پنجاب سے سندھ تھا۔ ہوچکا قائم تسلط الا عم کا انگریزوں پر ملک سارے اا تقریب پہلے سے ء

Page 2: 1857ء جنگ آزادی اسباب

کے ‘ اس ۔ تھے کرچکے قبول دستی بالا کی انگریزوں سب وہ تھے نواب مسلم یا راجہ ہندو بھی جو تھا کا ہی انگریزوں راج میں علاقوں سارے میںکا ہونے حکمران خود وہ کہ تھی جانتی بھی کمپنی اور تھا کیا نہیں تسلیم نے عوام ہندوستانی کو حق کا کرنے حکومت کے کمپنی انڈیا ایسٹ باوجود

کرکے ‘ وصول محصول زیادہ سے زیادہ تو مقصد اصل کا اس گا پہنچائے نقصان شدید کو مفاد کے اس اعلان ،ایسا کرسکتی نہیں یی دعو اور اعلانتھا۔ ‘ بٹورنا پیسہ بھی مقصد کا کرنے حاصل پرقبضہ علاقہ زیادہ زیادہ تھا بھرا کو تجوریوں اپنی خودکی اور کی داروں حصہ کے کمپنی میں انگلینڈ

۔ ہے رہی کر استعمال وہ کو اختیارات ملے سے بادشاہوں مغل کے دہلی کہ رہی کرتی ظاہر یہ اور رہی کرتی اظہار کا وابستگی اپنی سے تخت مغل کمپنیقرار حکمران کا ہندوستان کو خود وہ اگر کہ تھا احساس بھی یہ کو عہدیداروں کے کمپنی شبہ بلا رہی۔ کرتی کندہ بھی نام کے بادشاہوں مغل پر سکوں

اپنی کو دہلی وہ باوجود کے بنادینے خوار وظیفہ کواپنا بادشاہ مغل میں دہلی ۔ گا ہوجائے دشوار کرنا مقابلہ کا اس کہ ہوگی بغاوت ایسی تو ہے دیتیکو ‘ احساسات گہرے کے وابستگی کی ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہندوستانیوں سے مغلیہ تخت وہ کیونکہ رہے رکرتے گریز سے کرنے شامل میں عملداریجس ابھارا جذبہ لئے کے جنگ اس نے آارزو اسی تھی۔ موجود آارزو کی کرنے باہر نکال سے ملک کو انگریزوں بھی میں ہندوستانیوں ۔ تھے کرتے محسوس

یا بغاوت کی سپاہیوں انگریز ایک ) غدر ( MUTINY کو پچھلی رہا۔ جاتا دیا کانام آازادی جنگ کو جس سے طرف کی ہندوستانیوں اور رہے قراریتےمزاحمتوں ہوئی دوران کے نوعیت ) )RESISTANCES صدی علاقائی جنگیں اور مزاحمتیں تمام یہ ۔ ہو وبرباد تباہ مرکز دہلی کہ ہوا نہیں ایسا میں

دہلی ۔ سکیں بھڑکا نہیں آاگ کے لینے لوہا سے اورانگریزوں ہوئے کھڑے ااٹھ میں دلوں کے ہندوستانیوں دوسرے چنگایاں نکلی سے ان اور ۔ تھیں رکھتیتھا۔ کرتا حکومت پر دہلی جو تھا جاتا سمجھا اور مانا حکمران کا ہندوستان کو اس کہ تھی یہ حیثیت ‘۱۸۵۷کی تھا دہلی مرکز کا آازادی جنگ کی ء

اگر لئے اس ۔ بھڑکادی آاگ خلاف کے انگیریزوں میں چھاونیوں انگریزی کئی اور علاقوں کئی نے چنگاریوں کی لاوے پڑے ابل خلاف کے انگریزوں۔ ۱۸۵۷ ہے نہیں غلط تو ہے جاتا کہا آازادی جنگ کوپہلی ملک کو ء

بغاوت کی سپاہیوں کے چھاونی میرٹھ۱۸۵۷ آاغاز نقطہ کا آازادی جنگ کی کے / 10ء افسروں انگریز نے انہوں ۔ ہے بغاوت کی سپاہیوں دیسی کے چھاونی میرٹھ کی انگریزوں کو مئی

بادشاہ ‘ ’ ‘ مغل نے انہوں کر پہنچ دہلی ۔ ہوئے روانہ دہلی ساتھ کے نعرے کے چلودلی اور تاردیا اا گھاٹ کے موت کو ان لئے سنبھال ہتھیار خلافدیا۔ ) قرار شہنشاہ کا ہندوستان سارے اور اپنا کو ظفر اسلحہ ( ۸۲بہادرشاہ پاس کے ان کہ دیا کہ ساتھ کے گوئی صاف کو ان نے ظفر شاہ بہادر سالہ

۔ جاسکیں کئے برداشت اخراجات اور جاسکیں دی تنخواہیں کو ان کہ ہے نہیں خزانہ کوئی پاس کے ان جاسکے دیا جو ہے نہیں ذخیرہ کا وبارود گولہاپنے اور گے لیں کر حاصل کے کر پرقبضہ قانون اسلحہ کے انگریزوں بارود وگولہ اسلحہ وہ کہ کیا مظاہرہ کا اعتمادی خود نے سپاہیوں ان کے میرٹھ

پر ہندوؤں کے ذات اعلی اور برہمنوں اکثریت بھاری کی جن سپاہی یہ کے میرٹھ ۔ گے بنائیں نشانہ کو خزانوں کے کمپنی لئے کے تکمیل کی اخراجاتیہ ‘ ‘ ۔؟ کیوں ۔ رہے مصر پر بتانے ہند شہنشاہ ودولت مال نہ اور تھا خزانہ نہ پاس کے جس کو ظفر شاہ بہادر وسپاہ فوج بے العمر ضعیف تھی مشتمل

اور پھیلانے منافرت وارنہ فرقہ کے کر پیش پر طور کے تاریخ کی آاوزش و کشمکش مسلم ہندو کو تاریخ کی ہندوستان جبکہ میں حالات کے آاج سوالاہمیت بڑی ہے رہی جا کی کوشش کی رکھنے سامنے کے نسل جوان دنو نوخیز بالخصوص اور عوام میں انگیزانداز نفرت کو وکردار رول کے مسلمانوں

کی تاریخ اصحاب کوشاں لئے کے بنانے راشٹریہ ہندو کو ہندوستان وطن ہمارے کر ہوادے کو جذبات کے وعناد بعض خلاف کے مسلمانوں ہے رکھتاجن میں چھاونیوں فوجی کی انگریزوں ۔ کریں حاصل بصیرتیں لئے کے تعمیر کے مستقبل اور عبرت سے ان بجائے کی چرانے آانکھیں سے حقیقتوں

کائی بھیڑ کی برہمنوں آاگ یہ کہ تھے سمجھتے یہ افسر دوسرے اور کیننگ لارڈ جنرل گورنر کہ تھی اتنی تعداد کی برہمنوں میں ان کی بغاوت نے سپاہیوں۔ ہے ہوئی

Canning ..... wrote to the Secretary of state for India that he had no doubt that the ' rebellion' had been fomented by Brahmans on religious pretences and by others for political motives'

) Kaye and Malleson, History of Indian Mutiny, vol I )P 452-53 (کہ ہوں ہندو چاہے عوام کے ہندوستان کو ہی جانشین کے بابر اور وارث کے تخت مغل گردانا لئے اس شہنشاہ کا ہندوستان کو ظفر شاہ بہادر نے سب ان

ساتھ کے وانصاف عدل نے مغلوں کہ تھا لئے اس یہ کہ ہے ظاہر تھا۔ جاسکتا کیا نہیں قبول میں حیثیت اس کو اور ،کسی تھے کرسکتے قبول مسلمانچڑیا کی سونے کو ہندوستان میں حکومت دور کے ،مغلوں جاتا رکھا نظر پیش کو بھلائی عام کی رعایا بغیر کے فرق کسی کے ،مذہب تھی کی حکومتنے زیب نگ ،اور گئے بن بازو دست کے ہندومغلوں لیے اس کیا استفادہ نے سب اور پہنچا فائدہ کو سب سے دور کے خوشحالی اس اور لگا جانے کہااور ہیں تی کر بیان کہانی حقیقی کی دور ،اس حقیقتیں یہ کی تاریخ ۔ تھے ہندوراجپوت سالار سپہ کے ان کیا روانہ خلاف کے شیواجی کو فوجوں جن

سپاہی ہندو لیس سے ہتھیاروں کہ تھا سکتا نہیں ہی ہو یہ ۔ورنہ ہے کرتی واضح کو جھوٹ کے کہانیوں ہوئی گھڑی کی وستم ظلم پر ہندؤوں کے مغلوں۔ لگائیں بازی کی سردھڑ لیے کے بنانے مضبوط کو شہنشاہیت کی تاجدار مغل وارث کے بابر اور لیں کر قبضہ پر دہلی

جدوجہد مشترکہ کی مسلمانوں اور :ہندوؤںپلاسی ) جنگ تو ں ساتھ ( ۱۷۵۷یو کے دوسرے ایک مسلمان اور ہندو میں روائیوں کار مار چھاپہ اور لڑائیوں ، جنگجوں خلاف کے انگریزوں سے ہی ء

Page 3: 1857ء جنگ آزادی اسباب

اور کرنے واضح کو پہلو اس آاج ۔ نے ہندو کہ ہو کی شروع نے مسلمان ، تحریک یا ہو جنگ ،چاہے ہیں آاتے نظر کھڑے ملائے کاندھا سے کاندھےغائب سے نظروں اتحاد و اشتراک درمیان کے فرقوں ہندوستانی دونوں ان کہ ہے گیا دیا کر انداز نظر طرح بری اس کو پہلو اس ۔ ہے ضرورت کی ابھارنےوفاداری ساتھ کے سلطان ٹیپو ۔ ہے ملتا ذکر کم بہت کا فوج ہند کی ان اور کشمیری لال موہن سالار سپہ وفادار کے ان ساتھ کے الدولہ سراج ۔ ہے ہوگیا

تو اٹھایاگیا جنازہ جب کا شہید سلطان ٹیپو ۔ تھے شامل ساتھ کے سپاہپوں مرہٹہ سردار، مرہٹہ چند کہ حتی عہدیدار فوجی ہندو میں والوں لڑنے ساتھ کےکرنے انداز نظر کو واقعات ن ۔ا ہے ملتا ثبوت کا ہونے مقبول بھی میں ہندوؤں کے ان سے جس ، لگیں کرنے کوبی سینہ و ماتم آاکر عورتیں ہندو پر راستوں

جا کی کوشش کی کرنے ختم کو جس ، کیفیت کی بھروسہ اور اعتماد درمیان کے فرقوں دونوں میں ملک تاکہ جائے کیا پیش پر طور واضح بجائے کےہو۔ مضبوط ، ہے رہی

۱۸۵۷ تعداد بڑی ایک کی ان اور دیا نے مسلمانوں کے دہلی ساتھ کا ہندوسپاہیوں کے میرٹھ ، ہے آاتا نظر نمایاں بہت پہلو یہ میں جدوجہد کی ءجھانسی گا۔ رہے نامکمل بغیر کے تذکرہ کے کوششوں کی خان اللہ عظیم ذکر کا کارناموں کے پیشوا صاحب نانا ہوئی۔ کھڑی اٹھ خلاف کے انگریزوں

نام اصل کا جن نے ٹوپے تاتیا ۔ ہے بھی سرفروشی داستان کی توپچیوں و فوج سرداران مسلمان کے ان داستان کی سرفروشی کی بائی لکشمی رانی کیاور چھاونیوں کی ان بھڑکانا، آاگ کی بغاوت خلاف کے انگریزوں دی، کر تازہ یادگار کی مہارت میں لڑائیوں مار چھاپہ کی مرہٹوں تھا، پانڈورنگ رامچندر

حکمت کی ان یہ کرنا کوشش کی بچنے سے دوبدولڑائی اور ھنا ہوجا روانہ کو مقام دوسرے ساتھ کے رفتاری برق پھر اور کرنا حملہ اچانک پر مقامات فوجیاور کیا بلند جھنڈا اپنا میں سور منڈا نے شاہ فیروز ۔ کیا پریشان مسلسل راجپوتانہ اور ہند وسطی کی افواج بھاری کی انگریزوں نے انہوں ۔ ہے رہی عملیکے ٹوپے تاتیا اور پہنچے راجپوتانہ آاخر بال اور ہوے نمودار میں اودھ اور کھنڈ ارہیل ،پھر رکھا پیکار مصروف کو فوج انگریزی میں ہند وسطی بھی نے انہوں

پہنچا۔ نقصان سے غداری کی وفاساتھیوں بے کے ٹوپے تاتیا کو کاروائیوں مار چھاپہ کی دونوں ان ۔ گئے مل تاراچند ۱۸۵۷ساتھ ڈاکٹر میں بارے کے ء ہے افروز حقیقت بھی یہ : کا

میں ) اس کہ رہتا نہیں وشبہ شک کوئی میں بات اس سے جائزہ مجموعی بحیثیت کے صورتحال کی سپاہی ( ۱۸۵۷ہندوستان میں آازادی جنگ کی ء اور امیدوں کی حکمرانوں اور برعکس کے خیال عام کی۔ کوشش کی اٹھنے تختہ کا حکمرانوں بیرونی کر مل نے دونوں اور تھے شریک دونوں عوام، اور

دونوں مجموعی بحیثیت تاہم تھے اختلافات وارانہ فرقہ بعض پر مقامات بعض کہ اگرچہ کی۔ جنگ کر مل نے ہندوؤں اور مسلمانوں خلاف کے توقعاتاور لگادی پابندی پر قربانی کی گائے میں دہلی پر موقع کے بقرعید نے شاہ بہادر کی۔ مدد بھرپور کی دوسرے ایک اور لڑے ملاکر کاندھا سے کاندھے

لیڈروں ) ( باغی سے انگریزوں بنادیا۔ ناکام کو کوششوں کی انگریزوں کی بھڑکانے کو ہندوؤں خلاف کے مسلمانوں کے کھنڈ روہیل نے خان بہادر خانخاص بطور وہاں گیا کیا اعلان ھکا جنگ مقدس یا جہاد جہاں ۔ ۔ ۔ کیا تسلیم شہنشاہ کا ہندوستان پر طور جائز کو شاہ بہادر نے تعداد بڑی کی

( ) حکومت ) ) ہند حکومت انگریزی تاریخ کی آازادی تحریک کی سپاہیوں میں ہندوستان ، تاراچند ڈاکٹر ، ہے خلاف کے حکمرانوں عیسائی یہ بتادیاگیادوم بار ، جلد ۱۹۹۲معتمد صفحات ۲ء ،۶۹،۹۷)

نشانہ کا غضب و غیض کے انگریزوں ، مسلمان۱۸۷۵ میں علاقوں دوسرے کے ملک ہوگئیں داخل فوجیں انگریزی میں مہینہ کے ستمبر میں دہلی پالیا۔ قابو نے انگریزوں آاخر بال پر آازادی جدوجہد کی ء

اپنے نے انگریزوں مگر رہے لڑتے سے انگریزوں ہی دونوں اور کی شروع نے مسلمانوں اور ہندوؤں نے دونوں تو لڑائی یہ کی۔ حاصل کامیابی نے انگریزوں بھیلڑائی اگر نے افراد کے خاندانوں جن گیا، کرادیا خالی سے مسلمانوں دہلی سارا بنایا۔ کو مسلمانوں صرف نشانہ کا انتقام جذبہ گردانہ غارت اور سفاکانہ

جائیدادیں کی ان ۔ گئے کھدوادیئے گھر اور حویلیاں کی ان تو کی بھی کاروائی سی ہلکی کوئی خلاف کے انگریزوں اور تھا لیا حصہ بھی کچھ میںسرلیال میں سلسلہ اس ، گئے توڑے ظلم کے طرح طرح دیاگیا، کر جلاوطن لٹاکایاگیا۔ پر پھانسیوں کو ان ۔ گئیں لی کر اعتراف )Lyall( ضبط یہ کا

ہے ذکر : قابلبغاوت ) لیے اس سمجھا رقیب خطرناک کو ان پڑے پلٹ پر ان کر جان دشمن حقیقی اپنا کو مسلمانوں پر طریقہ خوفناک کا( ۱۸۵۷انگریز ناکامی کا ء

اس ) ( کھودیا۔ اا تقریب بھی وقار ماندہ باقی کا برتری پر ہندوؤں نے مسلمانوں نکلا۔ کن تباہ زیادہ نسبت بہ کی ہندوؤں لیے کے مسلمانوں کے ان نتیجہشہری سے دور اس اور رہے نہ بھروسہ قابل لیے کے حکمرانوں بیرونی وہ سے کی )Civil( وقت ان میں عہدوں تر کم و یی اعل کے خدمات فوجی اور

سرلیال ) سرالفریڈ لگی۔ گھٹنے اکثریت ء(۱۸۸۴عددی۱۸۵۷ میو لارڈ بعد کے )Mayo( ء رہی مہربان بڑی برعکس کے ان اور خلاف کے مسلمانوں ، حکومت برطانوی پر ہندوؤں تک بننے جنرل گورنر کے

گئی۔ بن پالیسی کی حکومت نوازی ہندو دیاگیا۔ ۱۸۵۷اور کر انداز نظر کو بغاوتوں کو ان خلاف کے انگریزوں اور رول کے ہندوؤں میں واقعات کے ء بنانے وقار بے کو ان میں سماج ہندوستانی اور بنانے وقلاش مفلس کو ان ، ڈھکیلنے پیچھے سے اعتبار ہر کو مسلمانوں دیاگیا۔ کر معاف کا ان قصور یہ

نے انگریزوں گئی۔ کی کوشش ممکن ہر کرنا ۱۸۵۷کی عمل نے انگریزوں ساتھ کے تیزی پر پالیسی اس کی کرو، حکومت اور ڈالو پھوٹ بعد کے ء دیا۔ کر بہایا، ۱۸۵۷شروع خون زیادہ سے سب کا ہی ان نے انگریزوں بعد کے اوراس بنائی تاریخ کی سرفروشی نے مسلمانوں دوران کے جدوجہد کی ء

Page 4: 1857ء جنگ آزادی اسباب

پر جس ، بھی مطالعہ کا قربانیوں ان کی ان اتارا، پر مسلمانوں غصہ سارا ۔ لیں کر ضبط جائیدادیں ، دیں اجاڑ بستیاں کی ان لٹکایا، پر پھانسیوں کو انہے۔ رکھتا اہمیت ، گئی دی نہیں توجہ

نظامی احمد خلیق۱۸۵۷ مطالعہ ایک ء۔

۱۸۵۷ کے ماضی سے جہاں ہے منزل وہ یہی درمیان کے وجدید قدیم ہے رکھتا حیثیت کی میل سنگ ایک میں تاریخ ثقافتی اور سیاسی کی ہندوستان ءپرورش نے تہذیب ایسی ایک میں دامن کے جس سلطنت ۔مغلیہ ہے جاسکتا لیا بھی ہ جائز کا امکانات کے اورمستقبل ہیں جاسکتے پڑھے بھی نقوش

پہنچ ں ،یہا تھی رہی ضامن کی وحدت سیاسی کی ہندوستان تک عرصہ ہوکرایک بالاتر سے امتیازات سارے کے وملت اورمذہب ونسل جورنگ تھی پائی۔ ہے ہوجاتا دورختم ایک کا تاریخ ساتھ کے اس ۔اور ہے ڑدیتی تو دم کر

پراکتفا توڑنے ہی سانچے فکرونظرکے صرف قوتیں سماجی اورنئی ہیں ہوجاتے سرنگوں سامنے کے تقاضوں نئے کے وقت نظریات اورپرانے نظام سماجی نا پراکہ ہے یہ ۔حقیقت ہیں دیتی محوربدل سارے کے زندگی بلکہ کرتیں ہندی ۱۸۵۷نہیں بلکہ نکلتا نہیں ہ جناز کا ہی نظام سیاسی ایک صرف میں ء

بربادہوجاتی تباہ طرح اس تھی رہی گہوارہ کا وتمدن اورتہذیب مرکز وہنرکا علم تک جوصدیوں ۔دہلی ہے ونابودہوجاتا نیست سرمایہ ساراتہذیبی کا ننوسطی قروہیں ااٹھتے پکار اختیار بے والے دیکھنے کہ ہے

تو اب بھی نشاں کے مٹانے تیرے گئے مٹہرگز ! مٹانا نہ زیادہ سے اس فلک اے

کی ہنگامہ کے سپاہیوں محض مطالعہ کا اس نے بعض ، ہے دی ترتیب نظرسے ہائے نقط مختلف نے مورخین داستان کی بربادی اورتمدنی سیاسی اسہوئے ڈوبتے کوایک اس نے مصنفین اورکچھ ہے دیکھی سرگرمی کی عناصر پسند رجعت چند صرف میں تحریک پوری نے بعض ہے کیا سے حیثیت

لئے اس ہیں لاتی سامنے پہلوکو ایک صرف کے حقیقت تعبیریں تمام کی طرح اوراس ۔یہ ہے کیا تعبیر سے کوشش کی سنبھالنے کے نظام جاگیردارانہ۔ ہیں طورپرغلط کلی لیکن طورپرصحیح جزوی

کے لوگوں سب والے لینے حصہ میں اس کہ گی ہوجائے واضح حقیقت تویہ جائے کیا مطالعہ سے تعصبی بے بھی کا تحریک کسی کی دنیاجب میں ۔فرانس ہوتے نہیں نظرایک ہائے جستجوکی cahiers مقاصداورمطمح کی لگانے پتہ کا اورمطالبات شکایت کی باشندوں فرانسیسی ذریعہ کے

ان کہ تھی شکایت یہ کوصرف جن تھے بھی ایسے لوگ کچھ ،وہاں تھے نالاں سے حکومت شخصی العنان مطلق لوگ کچھ جہاں ہواکہ تومعلوم گئیتھا۔ نہ انتظام معقول کوئی کا روشنی میں محلہ کے

وادیوں پیچ اپر ہی کتنی لئے کے پہنچنے تک منزل اپنی ااسے ہے اٹھتی بھی جوتحریک لئے کے کوتوڑنے نظام سیاسی محکم کسی کہ شاہدہے عالم تاریخہے ہوتا ایسابھی ،کبھی ہیں آائے نظر ہوئے دیتے کوشکست العین نصب مقاصداورحقیقی ،بنیادی مصالح اورعارض۔ی جذبات وقتی ۔کبھی ہے گزرناپڑتا سےکے تحریک ہمہ بایں لیکن رکھتے نہیں اہلیت کی قیادت بناپر کی درماندگی کی اورکردار پستی کی افکار اپنے ہے جاتی چلی میں ہاتھوں ان تحریک کہ

لگا اندازہ کا یاناکامی میابی کا کی اس سے اوراسی ہے کرتا متعین کو نوعیت کی اس وہی ہے ہوجاتا قائم میں ذہنوں کے معاصرین نقش کا منہاج مقصددمحکم کی اورمساوات ،اخوت حریت عمارت کی جس تھا تشکیل کی نظام ایسے اورایک استیصال کا شہنشاہیت مقصد کا فرانس ۔انقلاب ہے یاجاتا

۔ ۔ ؟۔ ہے رہا کا اورہرطبقہ نظرہمیشہ نقطۂ مرکزی یہی صرف میں تاریخ کی فرانس انقلاب کیا ہو،لیکن پرقائم بنیادوںکے اس لیکن تھے رکھتے نہ اہلیت کی قیادت کی جوتحریک آائے برسراقتدار عناصر ایسے ھہا بار میں دوران کے انقلاب کہ ہے کیا تسلیم نے مورخوں

دھارا کا ۔ scumred scumwhite باوجودتحریک بڑھتارہا جانب کی مقصد اپنے پرلئے سطح اپنی کو۱۸۵۷ سے حیثیت مجموعی لیکن کی جدوجہدبھی لئے کے حصول کے مقاصد اپنے عناصرنے پسند رجعت اور ہوئی بھی بغاوت کی سپاہیوں میں ء

تھا۔ کوبھی اورمدبروں صحافیوں معاصر بعض کے انگلستان احساس کا اوراس رہی کی ہی تحریک قومی خلاف کے اقتدار غیرملکی نوعیت کی تحریکاٹھ سے وجہ کی رتوسوں کا صرف تحریک زبردست اور وسیع اتنی کہ لیاجائے کر تسلیم کیسے تھاکہ کہا ہوئے تقریرکرتے میں عام ایوان نے سالسبری لارڈ

تھا لکھا میں زمانہ اسی اخبارنے ایک کے ۔لندن ہوئی : کھڑی’’ طلب فوجیں ی باربارانگریز کیوں ہند نت حکوم کہ آاتا نہیں میں سمجھ تو ہیں ساتھ ہمارے لوگ اورعام محدودہے ہی تک سپاہیوں صرف اطمینانی اگربے

مل آادمی اتنے سے وہیں توانہیں ہیں کرتے ڈائرکٹربیان کے وزیراورکمپنی کہ جیسا ہیں ساتھ کے حکومت اگرلوگ ؟ ہے تی کھڑکا اورتارپرتارکیوں ہے کرتی۔ لیں کر کھڑی فوجیں دس سے اان وہ کہ ہیں سکتے

انتقامی کومحض انسانوں گناہ بے اورہزاروں تھیں دی کوسزائیں ہندوستانیوں ساتھ کے اوربربریت بہیمیت بعدجس کے لینے کر قائم تسلط اپنا نے انگریز

Page 5: 1857ء جنگ آزادی اسباب

تھی نہ تک ہمت اتنی میں پیداہوگئی۔ہندوستانیوں کیفیت عام ایک کی دہشت اور خوف میں ملک سے ااس تھا اتارا گھاٹ کے موت ماتحت کے جذبے ’’ ’’ ۔ لگے غدر،،کہنے اسے خودبھی وہ کہاتو غدر،، کو تحریک نے ۔انگریز پرلاسکیں زباں نوک بھی حرف ایک متعلق کے نوعیت کی تحریک کہ

بھی تبدیلی میں نگاہ زاویئہ ساتھ ساتھ کے اوراسی ھگا ل ہونے بیدار بھی احساس کا نوعیت صحیح کی ،تحریک ہٹے پردے کے خوف سے دلوں ں جو جوں ’’ ہنگامہ ’’ ’’ ،، سے جا رستخیزبے ،اور ہوا بیجا،، رستخیز غدر،،سے لگی ‘‘۱۸۵۷پیداہونے ’’ ‘‘ قومی یا جنگ پہلی کی آازادی بعد کے آازادی اور ،، ء

معاصرین ‘‘ کہ ہوناچاہیے نہیں پیدا میں ذہن شبہ یہ ،لیکن دارہیں آائینہ فضاکی سیاسی ہوئی بدلتی الفاظ سب ۔گویہ ’’۵۷تحریک قومی کو مہ ہنگا کے ء ’’ خلاف ‘‘ کے انگریزوں ،لیکن تھا نہ میں دور تصوراس موجودہ کا قومیت کہ ہے ۔صحیح تھے کرتے نہیں تعبیر جدوجہد،،سے کی آازادی یا تحریک

’ ۔سیداحمدشہید تھا لگا کرنے کام میں ذہن ہندوستانی پہلے بہت رغدر،سے تصور کا ہونے ایک کے ہندوستان میں پورے ااس تھا لکھا ہندوراؤکوجوخط نے

دے’’ ‘‘ ! دعوت کی نکعمل اشترا خلاف کے دشمن کہ کومشتر آادمی گھرکے ہی ایک گویاوہ تھی شکایت کی ہوجانے پرقابض ہندوستان کے بیگانوں کوواضح نوعیت کی تحریک نے اانہوں پھربھی لیکن ہے پکڑلیا قلم پرسرسیدکا مقامات بعض نے وقت گومصلحت ہندمیں بغاوت اسباب ۔رسالۂ تھے رہے

۔ ۔ ۔ کہ لکھنا یہ طرف ایک کا اان ۔ کی نہیں سرموکوتاہی میں کرنےباقی لگانی آاگ میں شتابے کے اس تھاصرف ہوگیا جمع میگزین بڑا بہت اور تھیں جاتی ہوتی جمع میں دل کے لوگوں نتدرازسے مد ایک باتیں سی بہت

۔ تھیدی لگا آاگ میں اس نے بغاوت کی فوج میں گزشتہ سال ‘‘ کہ

۔ کہناکہ یہ طرف اوردوسری’’ سے میں واجبات میں ملک حکومت رعایاکی مداخلت کے گورنمنٹ اورپائداری اورخوبی اسلوبی واسطے کہ ہیں آائے چلے کرتے تسلیم لوگ سب

ہندوستان تمام جڑہے جو ہی بات ایک یہی پس ۔ ۔ ۔ ہو نہ میں ملک حکومت کی رعایا مداخلت کہ تک جب ہوتی حاصل نہیں بات یہ اور ۔ ۔ ۔ ہےہیں۔ شاخیں کی ااس سب وہ گئیں ہوتی اورجمع باتیں اورجتنی فسادکی کے

تھا راختیارکیا کا جوطریقۂ لیے کے کودبانے تحریک اس نے ۔خودانگریزوں تھے طورپرمعترف پورے کے حیثیت عوامی کی تحریک وہ کہ ہے کرتا ظاہر صافکہ حقیقت یہ محض کوسزائیں ہندوستانیوں طرح راہ ’’ ‘‘ ۱۸۵۷اورجس اورشہداء اللہ سبیل فی مجاہدین کو والوں گزرنے سے داروگیر مہ ہنگا کے ء

ہے کرتی بس لیے کے کوسمجھنے وابستگی گہری سے تحریک کی ۔ہندوستانیوں تھا دیاگیا درجہ کا ،، ! خدا۱۸۵۷ ہفتوں تین کہ تھا یہ عالم کا گیری ہمہ کی ۔تحریک تھا لیا حصہ نے لوگوں کے وملت ہرمذہب علاوہ کے اورپارسیوں سکھوں میں تحریک کی ء

اوربعض رہے علیحدہ سے تحریک علاقے بعض کے ہندوستان کہ جاسکتا کیا نہیں انکار سے ۔اس تھے ہوگئے شروع مے ہنگا میں ملک اندراندرسارے کےنے طبقات اورتمام علاقوں تمام میں آازادی یاجنگ تحریک قومی بھی ۔کسی پڑتا اثرنہیں پرکوئی نوعیت کی تحریک سے اس دیالیکن ساتھ کا انگریزوں نے

کر م کا میں موافقت کی اس اور ھھا ت چاہتا رکھنا کوقائم ہیت شہنشا تھاجو موجود طبقہ ایسا ایک میں ملک وقت کے فرانس نب ۔انقلا ہے کی نہیں شرکت۔ تھے رہے ر مددگا کے برطانیہ تاج لوگ سے بہت میں آازادی جنگ کی امریکہ طرح ۔اسی تھا رہا

کہ ہے پیداہوتا یہ سوال ایک کرنا ۵۷یہاں نہیں فراموش راز ایک کا انقلاب تاریخ میں سلسلہ اس رہی کیوں ناکام بھی ہوئے ہوتے عوامی تحریک کی ء کے میابی کا اس ہووہاں چینی بے شدید خلاف کے نظام کسی میں دل کے عوام کہ ہے ضروری یہ جہاں لئے کے ہونے بیدار کے جذبات ۔انقلابی چاہے

ہو۔ میں ذہن خاکہ واضح ایک تعمیرکا کی مستقبل کہ ہے لازمی ازبس رسے ۱۸۵۷لئے کا طریق اوربرطانوی نفرت شدید خلاف کے انگریزوں میں ء طاقتیں ! بھی جتنی وقت ااس بلکہ نہیں یہی ملتا نہیں نقشہ جدیدکا تشکیل بھی میں ذہن کے شخص ایک کسی لیکن ہے آاتی نظر ضرور بیزاری سخت

نے جس تھی محرومی ایسی ۔یہ تھی رکھتی نہ صلاحیت کی سنبھالنے بوجھ کا ہندنظام اکل ایک بھی کوئی سے میں ان تھیں عمل سرگرم میں میدان۔ تھی ہوجاتی ختم میں آارائی مہ ہنگا وقتی بجائے کے کرنے رہبری مقصدتک کسی مہم ہرفوجی ۔اور تھا دیا کر کومضمحل روح کی تحریک ساری

۔شخصی تھا معنی بے سوال نوکا تعمیر کی زندگی سیاسی لئے اس تھے ہوئے نہیں داخل میں شعور سیاسی ابھی افکار کے اورخوداختیاری جمہوریت ،، بائی لکشمی رانی ،، ایک ،، صاحب ،،نانا ایک ،، بہادرشاہ ۔ ۔ ۔ لوگ پر ہرمقام کہ تھا ہوچکا پیوست میں وریشہ رگ طرح اس تصور کا حکومت

کے ’’ اان اور علاج کا مصائب کے اان جو پاجائے تشکیل نظام ایسا کوئی سہارے کے ہی ان کہ اورچاہتے ۔ تھے کرتے تلاش کی قدر،، برجیس ایکعرصہ کا طاقت اجتماعی کی ۔مرہٹوں تھا رکھتا نہ صلاحیت کی رکھنے قابومیں کوبھی قلعہ ،لال کیا توسوال کا ہندوستان بادشاہ مغل سکے مداوابن دردکاکی آاری بر اورکار مدافعت طورپر ،مقامی تھے رہے کر م استحکا کا طاقت پراپنی مقامات مختلف وقت جواس چندسردار کے روہیلوں تھا۔ ہوچکا ہواخاتمہ

تک دور کا اس تھی ضرورت کی صلاحیت انتظامی ،تدبراور اندیشی دور جس لئے کے کرنے پرحکومت علاقہ وسیع ایک ،لیکن تھے تورکھتے صلاحیتصرف کونہ خاں بخت میں ۔دہلی تھے رہے کر م کا صر عنا ہی کتنے لئے کے توڑنے کوبھی رشتوں نازک کے ت عقید شخصی اس پھر تھا۔ نہ پتہ کہیں

لئے کے خاندان مغلیہ بھی اقتدار کا اس طرح کی شیرشاہ کہ گیا اکیا پروپیگنڈ یہ لئے کے توڑنے اثر کا اس بلکہ ہوسکا نہ حاصل تعاون کا شہزادوں مغل

Page 6: 1857ء جنگ آزادی اسباب

گا ہوجائے غلبہ کا سنیوں ہواتو قائم اقتدار سے مدد کی شاہ احمداللہ اگر کہ گئی بٹھائی بات یہ میں ذہن کے محل حضرت میں لکھنؤ ہوگا ثابت مہلکساتھ کے دہلی کرکے بدظن سے کوبہادرشاہ سکھوں نے گیا۔لارنس کیا برگشتہ سے سرداروں کوروہیلہ ہندوزمینداروں میں علاقوں کے روہیلوں طرح اسی

اگر باوجود کے ہیوں اورکوتا کمزوریوں تمام ان دیا۔ کر کوختم امکانات کے عمل اشتراک کے کویکجاکر ۱۸۵۷سکھوں صلاحیتیوں بہترین ہندوستان کا ء ۔ تھیں جاسکتیں ئی پہنا نہ سے آاسانی اتنی زنجیریں کی غلامی تویقینا دیتا

۱۸۵۷ انگریزوں قبل سے اس کہ ہوگا نہ صحیح لینا سمجھ ۔یہ بھی منزل ایک اور تھی بھی ابتداء کی جنگ خلاف کے اقتدار غیرملکی تحریک کی ءشعوراوربیداری سیاسی ۔یہ تھا ہوچکا طورپرتیار پورے خلاف کے تسلط ملکی غیر ذہن کا ہندوستانیوں تھا۔ ہوا نہیں اظہار کا جذبات کے نفرت خلاف کے

دہلوی اللہ ولی صاحب ( ۱۱۷۶ء ۱۷۶۲م ) شاہ ۔شاہ تھی ہوئی پیداکی کی گھرانے کے اوران کے ھ ہیت اورشہنشا ملوکیت میں تصانیف اپنی نے

کوبھی عوام ،بلکہ تھا کیا نہیں کومتوجہ ہی وحکام ،امراء طبقوں یی اعل صرف لیے کے اصلاح کی نظام اورسیاسی تھی آاوازاٹھائی جگہ جگہ خلافاحساس یہ میں ان اور تھے پرسمجھتے ،، انحصار،،عوام کا نظام سیاسی وہ تھاکہ پہلویہ پسند ترقی زیادہ سے سب کا تحریک کی ،ان تھا کیا مخاطب

کئے پیدا کے اوران ھیا بڑھا آاگے کو تحریک کی ان نے جانشینوں کے ان ہے ممکن علاج کا مصائب توسارے ہوجائیں تیار اگروہ کہ تھے چاہتے کرنا پیداعبدالعزیزصاحب شاہ ۔ کی رہبری کی ملک میں روشنی ستورکی د سیاسی ( ۱۲۳۹ء ( ۱۸۲۴م )ہوئے ۔ تھا کہا میں فتوی ایک نے ھ

رعایا،خراج اورہندوبست داری ملک کہ ہے یہ مطلب کا اورنافذہونے جاری حکم کا اوران ہے جاری دھڑک بے اور بلادغدغہ حکم کا نصاری روسائے یہاںبطورخودحاکم ) ( لوگ یہ میں معاملات تمام ان ،وغیرہ سزائیں کی ،جرائم تصفیے کے ،مقدمات سزائیں کو اورچوروں ،ڈاکوؤں پرٹیکس تجارت ،مال وباج

وہ میں چنداحکام کے اسلام جیسے ؤ گا ،ذبیحہ ،اذان ،عیدین جمعہ نماز بیشک نہیں دخل کوئی میں بارے کے اان کو ۔ہندوستانیوں ہیں مطلق اورمختارکی عوام ہیں دیتے رکر کومسما مسجدوں تکلف بے چنانچہ ہے اورپامال حقیقت ا�بے قطعا وہ ہے جڑاوربنیاد کی سب چیزان جو ،لیکن ڈالتے نہیں رکاوٹ

۔عام آاسکتا نہیں میں وجوانب اطراف کے اس ھیا شہر اس بغیر کے اجازت کی اان یاغیرمسلم مسلمان وکوئی کہ ۔انتہایہ ہے ہوچکی ختم آازادی شہریکے ۔اس خاطرہے کی نفع اپنے خود بلکہ بناپرنہیں کی آازادی شہری کی عوام مفادیا ملکی دنیابھی اجازت کی جانے آانے کوشہرمیں یاتاجروں مسافروں

سے ۔دہلی ہوسکتے نہیں داخل میں ملک اس بغیر کے اجازت کی ان بیگم اورولایتی الملک شجاع اا مثل حضرات اورنمایاں اورممتاز خاص خاص بالمقابلبراہ ہے لی کر قبول اطاعت نے رواؤں فرماں کے وہاں چونکہ پورمیں لکھنو۔رام د آابا حیدر مثلا بائیں دائیں کچھ ۔بیشک ہے عملداری کی انہی تک کلکتہ

عبدالغریزصاحب ( ۔شاہ ہوتے نہیں جاری احکام کے نصاری پہلا ’’ ‘‘ راست سے سب خلاف اقتدارکے کر،غیرملکی قراردے دارالحرب کو ہندوستان نے

کی ہندوستان ساتھ ساتھ کے مفہوم صحیح کے ،، دارالحرب جو ہیں سکتے سمجھ لوگ کووہ اہمیت کی فتوے ۔اس تھا ااٹھایا موثرقدم زیادہ سے اورسب۔سیداحمدشہید ہوں رکھتے علم صحیح بھی کا ثرات کا اللہی ولی پرخاندان شہید سیاست اسمعیل اقتدار مولانا انگریزی فکرمیں سیاسی اپنے نے وغیرہ

سیداحمدشہید ییییتھا فتو بنیادیہی کی ااس تھا دیا دے کوجودرجہ رنگ کا تحریک خلاف کے سکھوں نے اشخاص ممتاز ا�بعض مصلحتا کو جس تحریک کی

۔ جائے دیا نکال سے کوہندوستان انگریزوں کہ تھا یہی اولیں مقصد کا اان ۔ تھی کوشش منظم زیادہ سے سب خلاف کے ہی انگریزوں حقیقتا ، تھا دیا۔اگر مددملے میں کرنے تنظیم کی جنگ خلاف کے انگریزوں سے تھاجہاں ضروری استحکام کا پرطاقت مقام ایسے لیے کے حصول کے مقصد اس

ان ۔ تھے سکتے جم نہیں سے آاسانی اتنی قدم کے سامراج برطانوی میں توہندوستان ہوجاتے کامیاب میں استحکام کے طاقت اپنی وہ میں سرحداورپنجابتھا کولکھا ہندوراؤ راجہ نے جوانہوں ہے یاجاسکتا لگا سے خط اس ہ انداز کا مقاصد کے اان اور نوعیت کی تحریک :کی

’’ بڑے بڑے ہیں گئے بن مالک کے سلطنت والے سودابیچنے یہ تاجداراور کے جہان دنیا والے رہنے کے سمندرپار پردیسی کہ ہے معلوم کوخوب جنابمیدان مرد کے وسیاست جوحکومت ہے ملادیا میں خاک نے انہوں کو وحرمت عزت کی اوران حکومت کی حکومت اہل بڑے اوربڑے امارت کی امیروں

لیے کے خدمت کی دین کے اللہ اورمحض ہوگئے کرکھڑے باندھ کمرہمت سروسامان وبے غریب مجبوراچند لئے اس ہیں بیٹھے دھرے پرہاتھ ہاتھ وہ تھےکو ان کی ودولت مال ہیں اٹھے لئے کے خدمت کی دین کے اللہ محض ہیں نہیں طلب جاہ داراور ہرگزدنیا بندی کے اللہ ۔یہ آاے نکل سے گھروں اپنے

کوملیں لوگوں ان اورمنصب عہدے کے حکومت آاورہوگئیں بار کوششیں ہماری اور گا ہو خالی سے ملکیوں غیر ان ہندوستان وقت ۔جس نہیں برابرطمع ذرہ۔ ہوگی طلب کی کوان جن گے

شہید محمداسعیل مولاناشاہ راست اوردست مرید عزیزترین کے ہے سیدصاحب کیا طورپرپیش واضح اورزیادہ میں نامامت کومنصب فکر سیاسی کی اان نے

۔ ہے لعنت بڑی سے سب ملوکیت کہ ہے اوربتایاہیں فرماتے ہوئے ذکرکرتے کا وملوک : سلاطین

تنظیمی کی ں مسلمانو ہے نہیں شریعت حکم کرنا اطاعت نباقتدارکی ہرصاح ہے اسلام نن عی دینا کر کوفنا اوران ہے انتظام ،عین اکھاڑپھینکنا جڑسے کو انکوسیداحمدشہید اس تھا گیا رہ کچاسرمایہ بچا جوکچھ اورتدبرکا فہمی معاملہ قابلیت عسکری طورپران صلاحیت ۔وقتی کیا پراستعمال طریقہ بہترین نے

Page 7: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ رہا بھڑکتا طرح کی شعلہ وجگرمیں قلب تک عرصہ ایک وہ تھا دیا کر پیدا جوجذبہ کا سرفردشی نے تحریک کی ان لیکن ضرورہوئی کوناکامیپروانے میں بیں صورت چشم بھی کربجھے جل جلے

کا سوزاں شمع لیکن نام وہ کرگئے فروزاںسیداحمدشہید کہ ہے یہ نوعیت حقیقت کی تحریک کی ان نے انگریزوں سینچاگیا۔ میں پوداہندوستان کا آازادی سے خون کے ر کا رفقاء کے اوران

تو طرف ایک نے انہوں چنانچہ تھا۔ ہوئے کوگرمائے وجگر قلب کے نتمجاہدین جوجماع تھے خبرنہ بے بھی سے جذبہ اس اوروہ تھا لیا سمجھ کوخوبمتاخرین سے کرایاجس اور کیا پیش طرح کواس تحریک اس کرکے کوشش طرف اوردوسری کیا کوختم لوگوں کے نبخیال مکت کراس دے لقب کا وہابی

نے نیسری جعفرتھا محمد مولوی رکن ایک کے مجاہدین جماعت کہ ہے حدیہ ۔ تھا طرف کی سکھوں مح۔ض رخ کا اس گویا لگا ہونے محسوس کوایساتسلط برہندوستان فرنگ اورکفار ھیا د ،،کر خصال نکوہیدہ سکھاں جگہ ،،کی خصال نکوہیدہ نصاری اور کیا کومسخ مکتوبات کے ان میں عجیبہ نخ تواریتحریفات معنوی اور لفظی تمام ان سے وش کا جس مہرنے رسول غلام مولانا دیا۔ کر تبدیل میں یافتہ تسلط پنجاب برملک کہ مویاں کفاردراز ،،کو،، یافتہ

۔ چاہے کرنا شمار میں تحقیقات قدر قابل زیادہ سے سب کی دور کواس اس ہے کیا نقاب کوبے

شہید احمد بھر سید عمر خاندان پورا کا اس ہوگیا شامل میں تحریک کی ان بھی بار ایک شخص جو تھا۔ پھیلادیا نظام اپنا تک کلکتہ سے بالاکوٹ نے

۔ ہوگئی پیدا لگن کی آازادی میں دل کے انسانوں ہزاروں ۔ رہا کرتا تمنا کی جہاد

صاحب جنگ سید ۔ رہے ہوتے تک عرصہ ایک بعد کے شہادت کی ان مظاہرے کے اس تھی دی پھونک روح جو میں مسلمانوں نے تحریک کی

میں ) الزماں آاخر طریقہ یہ اور ہیں گزرے س بر پندرہ چودہ کے شہادت یعنی واقعہ اس تھا۔ لکھا نے خان احمد سید سر بعد سال پندرہ چودہ کے بالاکوٹآانحضرت ہوا ڈالا نیت ملسو هيلع هللا ىلصبنیاد بہ سے مختلفہ اوطان مجاہدین سال ہر اور دی۔ نہیں سے ہاتھ نے اللہ د عبا پیروی کی سنت اس تک اب ہے کا

۔ ہے رہتا پہنچتا کو مطہر روح کی آاپ ثواب کا نیک امر اس اور ہیں کرتے ہوا راہی طرف کی نواح اسی جہادجب : اور ہے لیا اٹھا سے نسلوں کمزور موجودہ کو ان نے یی تعال اللہ کہ تھا ہوگیا پیدا خیال یہ پر طور عام میں لوگوں بعد کے شہادت کی صاحب سید

۔ گے کریں رہنمائی ہماری طرف کی فتح کر ہو ظاہر صاحب امام تو گے کریں شروع جہاد خلاف کے کافروں انگریز ہوکر جان یک مسلمان کے ہندوستان۔ ۱۸۵۷چنانچہ ہیں ہوتے معلوم متاثر سے ونظریات افکار کے شہید احمد سید افراد سے بہت والے لینے حصہ ا� عملا میں تحریک کی خان ۳ء بخت

تھا۔ بتایاگیا العقیدہ وہابی کو ان میں دوران کے مقدمہ کے شاہ بہادر ۔ تھے متعلق سے ہی مجاہدین جماعت بھی وہ کہ ہے خیال ا ہمار متعلق ۴کے �

’’ سید میں زمانہ اس لفظ کا وہابی کہ گا کرے نہیں انکار سے اس ہے پڑھی مسلمان ہندوستانی ہمارے کتاب کی ہنٹر نے جس بھی شخص کوئی

‘‘ تھے ’’ الفاظ معنی ہم غدار اور وہابی ہنٹر بقول اور ۔ تھا جاتا کیا استعمال لیے کے علماء خیال ہم کے ان اور سے ۵صاحب علماء نے خان بخت

کے لینے حصہ میں تحریک وہ وقت جس تھے متاثر سے تحریک کی صاحب سید وہ کہ ہے ہوتا ظاہر یہی بھی سے س ،ا رکھے تعلقات کے نوع جسجے علاوہ کے ۔اس تھی آائی س پا کے ان سے ٹونک جماعت ایک کی علماء وہابی میں ہنگامہ دوران ۔ تھے ہمراہ کے ان ھما عل سو تھے پہنچے دہلی لیےکہ تھا اعتماد قدر اس کو خان بخت پر علماء ان ۔ تھے ہوگئے جمع گرد کے ان کر کھچ کھچ علماء کافی بھی سے آاگرہ اور حصار ہانسی بھوپال، پور،ذکاء مولوی تھا۔ جاتا لیا کر شریک کو علماء ان تھا ہوتا نہ شخص تیسرا کوئی کے بادشاہ اور کے ان سوائے میں جن میں مشوروں مخصوص ان کے تخلیہ

ہوا۔ بعد کے آانے دہلی کے خان بخت وہ ہوا حاصل چرچا اور اہمیت جو کو فتوے کے جہاد میں دہلی کہ ہے بیان کا دہلوی اللہایک ایک فرمائیے ملاحظہ مضمون کا اشتہارات دو ہوئے کئے شائع کے ان ۔ ہیں ہوتے معلوم مجاہد کے خیال نب مکت اسی بھی آابادی الہ علی لیاقت مولاناجو ہیں گئے کئیے نقل سے میں نظم یہ جہاد اس اشعار ستائیس تو میں اشتہار ۔ایک گا آائے نظر ہوا کرتا ترجمانی کی نزفکر اندا کے صاحب سید حرف

جمنٹ ر میں مروان سے کوششوں کی جن پوری صادق علی عنایت مولانا ۔ تھے کرتے پڑھا میں جنگ نن میدا مجاہدین کے صاحب بغاوت ۵۵سید نے ۔ تھے کارکن گرم سر کے مجاہدین جماعت اور خلیفہ کے صاحب سید تھی، کی

گڈھی علی شہید الجلیل عبد چیدہ مولانا ان ۔ تھے سے میں خلفاء کے ۔سیدصاحب کیا مقابلہ دلیرانہ سے قوت فرنگی میں گڈھ علی نے جنہوں

علاوہ کے رکھتے ۱۸۵۷شخصیتوں تعلق سے خیال نب مکت کے ان یا جماعت کی صاحب سید اشخاص سے بہت اور والے لینے حصہ میں ہنگامہ کے ء نے لوگوں بعض پر بنا اسی غالبا اور ۔ بری ۱۸۵۷تھے میں ہنگامہ اس نے مجاہدین کہ چند ہر ۔ تھا دیا قرار تحریک کی مسلمانوں کو ہنگامہ کے ء

پیمانے بڑے کسی نے ناکامی کی کوٹ بالا کہ یہ تو اول ، تھے وسبب د کے ۔اس سکے لے نہ میں ہاتھ اپنے ڈور باگ کی اس وہ لیکن دکھائی سرگرمیلوگ کے مذاہب مختلف اور طبقات تمام کے ہندوستان باعث کے نوعیت مذہبی کی مجاہدین تحریک کہ یہ دوسرے ۔ تھا دیا کر ختم حوصلہ کا تنظیم پر

لیا حصہ نمایاں بہت نے لوگوں کے خیال نب مکت اس نظر پیش کے حالات مقامی پر طور انفرادی چنانچہ ۔ تھے ہوسکتے نہیں متفق غالبا پر قیادت کی ان

Page 8: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ سکے لے نہ میں ہاتھوں اپنے قیادت کی تحریک لیکن ، رہے نہیں پیچھے سے کسی میں جدوجہد خلاف کے تسلط ملکی رغیر اوپھر اور ہے رہا ہوتا جمع مادہ آاتشیں نیچے کے سطح خاموش کہ ہے ہوا یہ اا ۔عموم ہوئے نہیں شروع سے سانحہ یا حادثہ اہم کسی انقلاب بیشتر کے دنیاامریکہ اور ۔فرانس ہے دیا کر پا بر طوفان میں فضا ،ساری تھا سکتا کر نہیں پیدا بھی تموج پر آاب سطح دیگر حالات بہ جو نے واقعہ سے معمولی کسی

۔یہی گئے چھا پر فضا ساری اور آاگئے اوپر عناصر بیتاب تمام میں مدت ہی تھوڑی لیکن ہوئی۔ سے واقعات معمولی معمولی ابتداء کی انقلابات کےایک ۱۸۵۷صورت خلاف کے انگریزوں ورنہ دیا، کر متحرک کو چینی بے کی سال سو نے جس تھا بہانہ ایک صرف تو کا کارتوسوں آائی۔ پیش میں ء

تھا۔ برپا ہیجان شدید میں جذبات سے عرصہنے مصنفین ولسن ۱۸۵۷بعض روفت کریک ۔ ہے دیا قرار نتیجہ کا سازش منظم کو ہنگامہ کے ء )Crocroft Wilson( کہ تھا خیال یہ کا

۔ہنگامہ کرتے نہیں تائید کی خیال اس شواہد تاریخی لیکن تھی سے پہلے بہت تیاری کی بغاوت وقت بیک پر مقامات فوجی اور چھاؤنیوں کی ہندوستانچلی لگتی آاگ وہاں پہنچی خبر کی ہنگامہ اس بھی جہاں لیے اس موجودتھے جگہ ہر سے پہلے جراثیم کے چینی بے چونکہ ،اور ہوا شروع اتفاقیہ بالکل

گئی۔ہل تھورن ۔ ہے کیا شمار میں بغاوت نب اسبا کو اس اور ہے دی اہمیت ضروری غیر کو تقسیم کی چپاتیوں نے مورخین )Thornhill( بعض بیان اس کے

تھیں ہوئی تقسیم چپاتیاں میں مدراس بھی قبل سے بغاوت کی ویلور کہ تقسیم ۱نے کی چپاتیوں میں بھر ملک ۔ ہے پہنچائی تقویت کو نظریہ ۔اس

،لیکن ہے ضرور انگیز تھا ۱۸۵۷حیرت بتایا میں بیان اپنے نے اللہ احسن ۔حکیم ہوسکا نہیں ثابت تک اب تعلق خاص کوئی سے اس کا تحریک کی ء تھا سکا سمجھ نہ مقصد کا ان کوئی اور تھے پڑگئے میں تعجب لوگ سب بھی میں معلی قلعہ پر تقسیم کی چپاتیوں ۱کہ

ایسا رہا۔ محتاج کا ثبوت بھی الزام ۔یہ تھا لیا کر باز ساز سے طاقتوں بیرونی نے سپاہیوں باغی اور شاہ بہادر کہ ہے گیا کیا ظاہر بھی یہ خیال ایک پھر۔ ہے مشتبہ صحت کی بیانات سب اور علاوہ سکے ۔ا تھا گیا کیا چسپاں پر مسجد جامع تھا منسوب طرف کی ایران شاہ جو اعلان ایک کہ ہوا ضرور

شکوہ سلیمان مرزا کہ تھا کہا میں بیان اپنے نے لال ۔مکند ہوسکا نہ ثابت یہ ۔لیکن تھے بھیجے ایران سفیر اپنے نے شاہ بہادر کہ تھا گیا کہا میں مقدمہتھی۔بعض بھی کی گفتگو میں سلسلہ کے کرانے قائم تعلقات درمیان کے ایران شاہ اور شاہ بہادر نے انہوں اور تھے آائے لکھنؤ وغیرہ احیدر مرز پوتے کے

مرے سفیر برطانوی میں ایران نے کے )Murray( مورخوں ہندوستان شمالی کہ ہے کیا نقل بیان کا عہدہ ایرانی ایک اس میں جس ہے کیا نقل خط کا

باوجود کے بیانات تمام ان ۔ تھے گئے بھیجے خطوط سے ایران لیے کے کرنے آامادہ پر بغاوت کو ریاست بیرونی ۱۸۵۷والیان کسی میں ہنگامہ کے ء ملتا۔ نہیں ثبوت کا مداخلت نمایاں کی طاقت

اس ۱۸۵۷ تھا اظہار قدرتی بالکل ۔یہ تھی سازش منظم کوئی پیچھے کے اس نہ ہوئی پیدا سے مداخلت کی طاقت بیرونی کسی نہ تحریک کی ءکے وں انگریز وہ کہ کی لیے اس قدمی پیش نے سپاہیوں تھی۔ ہورہی جمع میں دلوں سے عرصہ ایک خلاف کے انگریزوں جو کا چینی بے اور نفرت گہری

۔ تھے سکتے کر نہیں بھی برداشت کو انصافیوں نا ان تک عرصہ زیادہ وہ ہوئے ہوتے ماتحت کے قانون فوجی اور تھے ہوچکے عاجز سے برتاؤ منصفانہ غیربارلو ۱۸۰۶ سرجارج جب سے ء )Sir George Barlow( کئے عتراض پرا باندھنے صافہ اور رکھنے داڑھی ، لگانے تلک کے سپاہیوں نے

سے مدتوں خلاف کے سفر بحری میں ۔ہندوؤں تھا لازمی ہونا پیدا اشتعال میں جذبات کے ان سے جس تھا ہا ہور برتاؤ ایسا ساتھ کے فوج ،متواتر تھےگیا۔ کیا انداز نظر طرح اسی بھی کو جذبات کے پات ذات ۔ کیا احترام کا ان نہ سمجھا کو جذبات کے ان نہ نے انگریزوں تھی، تی آا چلی نفرت ایک

مختلف ازیں ۔علاوہ تھا بنتا کھانا ہوا پکا کا ہاتھ کے ہندوؤں انہیں نہ تھے کرسکتے ن اشنا نہ ہندوسپاہی میں کابل کہ تھا بتایا نے علی ہدایت بہادر سرداربددلی میں سپاہیوں سے ۔اس گیا کیا عمل خلاف کے ان بلکہ گیا کیا نہیں پورا کہ یہ صرف نہ کو ،ان تھے گئے کیے سے فوج وعدے جو میں اوقات

گئی دیا ۲پھیل کر پیدا کمتری احساس وہ نے فرق اس ۔اور تھا فرق کا آاسمان و زمین میں زندگی معیار اور تنخواہوں کی سپاہیوں انگریز اور ہندوستانی پھر

۔ ہے ہوتا محرک بڑا سے سب ہمیشہ کا جرم نب ارتکا بلکہ چینی بے صرف نہ جو تھافوج کی انگریزوں میں پر ۳۱۵۵۲۰ہندوستان اس تھی۔ مشتمل پر سے ۹۸۰۲۲۳۵۔اشخاص میں اس تھا۔ آاتا خرچ پونڈ ۵۶۶۸ ۱۱۰پونڈ

تعداد کل کی ان کہ جب میں صورت س ا یہ اور تھا ہوتا خرچ پر فوج ر ۵۱۳۱۶یورپین او ماہانہ روپیہ سات کو پیادہ ہندوستانی ایک تھی نہ زیادہ سے ڈیڑھ کو سپاہی ایک اوقات بعض کر کٹا کٹ بھی سے تنخواہ قلیل اس تھا پڑتا رکھنا گھوڑا اپنا کو ۔سوار تھی ملتی تنخواہ ماہانہ روپیہ ستائیس کو سوار

۔ ہے نہیں مشکل کچھ اندازہ کا چینی بے اور بددلی کی فوجیوں میں حالات ان تھے ملتے نہ زیادہ سے آانوں چند صرف میں صورتوں بعض اور ماہانہ روپیہ

بلکہ تھی۔ گئی پھیل بدگمانی زبردست میں ہندوستانیوں سے ان تھے کئے اختیار طریقے اور جوحربے لیے کے پھیلانے کو عیسائیت نے انگریزوں ازیں علاوہعیسائی ۔ گئیں بن ملامت نف ہد بھی ،وہ تھا اصلاح سماجی زیادہ سے مداخلت مذہبی مقصد کا جن تجاویز ایسی بعض کی ان کہ ہوا یہ نتیجہ کا اس

ہوتا معلوم سے کار طریقہ کے ۔ان تھے لگتے کرنے ،تبلیغ ملتا موقع جگہ جس غرض میں خانوں جیل میں خانوں شفا ، میں بازاروں ، میں اسکولوں مبلغ

Page 9: 1857ء جنگ آزادی اسباب

مقدس کے مذہب غیر پادری یہ ۔اور تھے جاتے چپراسی کے تھانے ساتھ کے پادریوں میں اضلاع ۔بعض تھی حاصل کو ان اعانت کی حکومت کہ تھا۔گورنمنٹ تھی پہنچتی تکلیف دلی اور رنج نہایت کو والوں سننے سے جس تھے کرتے یاد سے ہتک اور ائی بر بہت کو مقاموں مقدس اور کو لوگوں

ہے لکھا نے خان حمد تھا۔سرسیدا جاتا کیا راغب طرف کی عیسائیت کو قیدیوں میں خانوں ۔جیل تھی جاتی دی تعلیم لازمی کی انجیل میں : اسکولوں

جاتے ۱۸۵۷ گنے نمونہ ایک کے گورنمنٹ ارادۂ میں وشمالی مغربی ممالک اضلاع تمام وہ گئے کیے عیسائی لڑکے یتیم جو میں سالی قحط کی ءکوئی کمپنی انڈیا ایسٹ آانربل سرکار جب کہ ہوں کہتا سچ ۔میں گے آائیں لے میں مذہب اپنے کر کر محتاج اور مفلس اپر طرح اس کو ہندوستان کہ تھے

۔ تھا ہوتا رنج کمال کو رعایا کی ہندوستان تھی کرتی فتح ملکاا ۔مثل جائے کی مدد کی والوں لینے کر قبول عیسائیت کہ تھا یہ مقصد صاف کا قوانین کے ۱۸۵۰بعض ء Ad XXI( کر تبدیل مذہب مطابق کے

ک تھا گیا کہا میں جس کیا جاری خط وہ نے ایڈمنڈ ای پادری جب میں حالات ۔ان تھا رہتا حقدار میں جائداد موروثی شخص ایک بھی بعد کے دینےہوگئی، ایک ورفت آامد کی جگہ سب سے سڑک ،ریلوے ہوگئی ایک خبر کی جگہ سب سے برقی تار ہوگئی، اری عملد ایک میں ہندوستان تمام اب

‘‘ گئی۔ لگ سی آاگ ایک میں ہندوستانیوں ہوجاؤ مذہب ایک عیسائی بھی لوگ تم کہ ہے مناسب لیے اس ، چاہیے ایک بھی مذہببھڑکنے جگہ ہر شعلے کے چینی بے اور اضطراب سے اس تھا رکھا روا کو ظلم اور انصافی بے کھلی جس میں الحاق کے ریاستوں بعض نے انگریزوں پھر

ایک حقیقتا نے انگریزوں کے کر ختم کو ان ،اور تھیں رکھتی نہیں صلاحیت خاص کوئی میں معاملات انتظامی ، ریاستیں بعض کہ ہے صحیح ۔ لگےورش پر خاندان ہزاروں ساتھ کے شاہی ت محلا کہ ہے حقیقت ایک بھی یہ لیکن تھی ہوچکی ختم افادیت کی جس لگائی کاری ضرب پر نظام ایسے

ہزاروں ہواتو الحاق کا ریاستوں ن ا جب تھی ہوگئی حاصل اہمیت خاص ایک کو راجاؤں اور نوابوں میں زندگی اقتصادی کی ریاست ہر اور ، تھے پاتےسقوں : کہ ہے بیان کا لیان ٹریو متعلق کے اس تھی گئی پہنچ کو حد جس نفرت سے انگریزوں بعد کے ق الحا کے اودھ ۔ گئے رہ ا سہار بے متعلقین

پیش سے بدتمیزی اور گستاخی سے آاقاؤں کارے ہر اور ،باورچی ہوگئیں رخصت سے نوکری بغیر لیے اجازت آایائیں دیا، چھوڑ بھرنا پانی لیے کے انگریزوں نے۔ لگے آانے

۔مصحفی ) دیا بڑھا کو لپک کی شعلوں خلاف کے انگریز نے ی ابتر اور بدحالی ۔ ۱۲۴۰اقتصادی تھا( ۱۸۲۴ھ کہا پہلے مدتوں نے ء

لی۔ کھینچ بتدریج نے فرنگیوں کافر تھی کہ کچھ جو وحشمت دولت ک ہندوستانطرف ۔ایک تھے ہوجاتے آامادہ لیے کے ملازمت میں فوج پر یومیہ آانے ڈیڑھ آانہ صرف کہ تھے ہوچکے ومحتاج نادار قدر اس لوگ کہ ہے بتایا نے سید سراس تھی، درکار منڈی ایک لئیے کے چیزوں شدہ تیار کی ۔انگلستان گیا دیا کر بدحال اور ، ہوگئے روزگار بے ہندوستانی ہا ہزار سے الحاق کے ریاستوں

۔ ہے لکھا نے سید ۔سر گیا کیا ختم اا عمد کو صنعتوں مقامی کی ہندوسان لیے :کےدیا اور والے بنانے سونے کوئی میں ہندوستان کہ تک یہاں تھا۔ رہا جاتا بالکل کے ولایت تجارت اشیائے ہونے رائج اور جاری بسبب کاروزگار حرفہ نل اہ

تھا۔ گیا ٹوٹ بالکل تو تار کا لاہوں ۔جو تھا پوچھتا نہیں بھی کو والے بنانے سلائی۱۸۵۷ میں ان ۔ رہے آاتے کار بروئے میں اوقات عناصرمختلف مختلف اور لیا حصہ میں اس نے طبقات ،مختلف گزری سے منزلوں مختلف تحریک کی ء

، بہادر علی نواب محل، حضرت ، سنگھ ناہر ، صاحب نانا بائی، لکشمی رانی میں ،روساء پسند رجعت قوتیں بعض اور تھے پسند ترقی عناصر کچھتحریک سے جہد جدو مسلسل اور سچائی کی ،مقصد عزم کے جن تھیں شخصیتیں وہ وغیرہ خان، محمود نواب خان، بہادر خان حسین، تفضل نواب

کو بعض سے میں ان کہ ہے صحیح تھے بہتر بدرجہا یقینا سے انگریزوں سے بہت لوگ یہ میں صلاحیتوں انفرادی اور حوصلگی ،بلند ہوئی پیدا جان میںکا دکھانے سرگرمی اور لینے حصہ میں تحریک تک جہاں ،لیکن تھے چاہتے رکھنا قائم کو نظام جاگیردارانہ اور تھیں بھی شکایتیں ذاتی سے انگریزوں

تک وقت آاخری وغیرہ خان، وزیر خان، بخت خان، اللہ عظیم ٹوپی، تائیا میں طبقہ پیشہ ملازمت تھا۔ نہ کم سے کسی نیت نص خلو کا ان تھا تعلقکے دلیری پوری نے انہوں کی مساعدت تک جہاں نے ۔حالات تھیں بھی صلاحیتیں انتظامی اور تھا بھی عمل جوش میں ان ۔ رہے لڑتے سے انگریزوں

اللہ امداد حاجی شاہ احمد مولانا میں جن ومشائخ علماء ۔مسلمان کیا مقابلہ کا طاقتوں ملکی غیر القادر ساتھ عبد مولانا ، آابادی خیر حق ،مولانافضل

تھا۔ لدھیانوی نہ حصہ کوئی کا رنجشوں ذاتی میں دشمنی انگریز کی ۔ان تھے مثال بے یقینا میں جذبات شانہ سرفرو اور خلوص ،اپنے تھے شامل وغیرہم

کیا تجزیہ کا تحریک ۔اگر تھا رہا کر کام عمل رد شدید کا کوششوں مشنری کی انگریز اور نفرت سے اقتدار ملکی غیر ، جذبہ کا الوطنی حب میں انکے شاہ اللہ احمد ۔مولوی تھی پر علماء ہی ان داری ذمہ تر زیادہ کی اس تھا تعلق کا کرنے پیدا چینی بے میں عوام تک جہاں کہ ہوگا معلوم تو جائے : ہوتا مجمع کا ہزار دس دس میں تقریروں کی آاگرہ ۔چنانچہ تھے ہوجاتے جمع مسلمان اور ہندو آادمی ہزاروں میں تقریروں کی ان کہ ہے جاتا کہا متعلق

) دیا۔ ) کر انکار سے کرنے گرفتار انہیں پر حکم کے مجسٹریٹ پر موقع ایک نے پولیس کہ تھی حالت یہ کی ی عزیز دل ہر کی ۔ان تھا۔ ہوجائے واضح نوعیت کی شرکت کی ان میں تحریک تاکہ ہے ی ضرور لینا جائزہ علیحدہ علیحدہ کا حالات اور کوششوں کی طبقات مختلف ان

Page 10: 1857ء جنگ آزادی اسباب

اور ۔ تھا نقشہ کا پالم تا ،ازدہلی عالم شاہ ،سلطنت سے مدت تو یوں ڈالیے نظر پر حالات کے معلی قلعہ اور خاندان شاہی شاہ بہادر پہلے سے سب،لیکن ’’ ‘‘ تھی چکی بن صبیان لعب حکومت کی دہلی اللہ ولی شاہ مغل ۱۸۰۳بقول تو ہوگئیں داخل میں دہلی فوجیں کی لیک لارڈ جب میں ء

سہارے کے نام کے اس کہ کیوں لیا نہیں کام سے عجلت میں ہٹانے کو بادشاہ نے انگریزوں رہی۔ نہ زیادہ سے ملازم ایک کے کمپنی حیثیت کی بادشاہتھی۔ مددملتی میں کرنے قائم اقتدار لاشئے ۲اپنا وہ کہ جائے دیا کر محدود اتنا دائرہ کا ات اختیار کے بادشاہ کہ رہی یہی کوشش نوع بہر لیکن

شاہ بہادر ۔ ہوجائے ۔ ۱۸۳۷محض بیٹھا پر تخت میں عمر ۱۸۵۷ء کی اس میں ذاتی ۸۲ء اور سالی ،پیرانہ حالات ۔نامساعدہ تھی متجاوز سے سالدیا لکھ یہ کر لے کام سے مبالغہ میں کرنے ثابت اہلیت ھنا کی اس نے سید سر کہ ہے ۔ممکن تھا دیا بنا معطل عضو کو اس نے نوعیت کی مشاغل

۔: ہوکہچھوڑ ایک اور ھتا سمجھ سچ کو اس وہ تو ہے تابعدار کا آاپ بادشاہ کا جنوں میں پرستان کہ جاتا کہا سے اس کہ تھا حال یہ کا بادشاہ معزول کے دلی

اس اور ہوں آاتا لے خبر کی ملکوں اور کی لوگوں اور ہوں جاتا اڑ کر بن مچھر اور مکھی میں کہ تھا کرتا کہا بادشاہ معزول کا ،دلی دیتا لکھ فرمان دسآادمی۔ والے مالیخولیا ۔ایسے تھے کرتے تصدیق سب اور تھا چاہتا تصدیق سے درباریوں اور تھا سمجھتا سچ میں خیال اپنے وہ کو بات

اس وہ ، تھی ضرورت کی تدبر اور ،تفرس فہمی معاملہ بصیرت، سیاسی جس میں جانشین کے اکبر اور بابر کہ جاسکتا کیا نہیں انکار سے اس لیکنبوجھ کا سلطنت ایک خوبیاں چند یہ کی کردار ذاتی ۔لیکن تھا بہتر سے پیشتروں بعض اپنے وہ تھا تعلق کا کردار ذاتی تک ،جہاں تھا نہ کو نام میں

سر ۔حالانکہ تھا آاتا پیش سے رواداری ساتھ کے مذاہب دوسرے اور تھی دلچسپی خاصی کو شاہ بہادر میں معاملات مذہبی تھیں سکتی سنبھال نہیںبدعتی ’’ اور برا بہت کو دلی بادشاہ معزول روسے کی مذہب وہ کہ تھا ایسا کا تابعین کے ان اور مولویوں گروہ بڑا ایک میں دہلی کہ ہے لکھا نے سید

وہ چنانچہ ۔ نہیں درست نماز میں مسجدوں ان ہے اہتمام اور ودخل قبض کا بادشاہ میں مسجدوں جن کی دلی کہ تھا عقیدہ یہ کا ۔ان تھے سمجھتے۔ ہیں موجود میں معاملہ اس فتوے ہوئے چھپے کے قبل بہت سے غدر اور تھے پڑھتے نہیں نماز بھی میں مسجد جامع لوگ

میں زمانہ کے س ا ھھا ت گیا بن مرکز کا وسخن شعر معلی قلعہ سے دلچسپیوں ادبی کی اس تھا۔ رکھتا اہمیت خاص عہد کا بادشاہ بہادر سے اعتبار ادبی۔ تھا گوئٹے کا یہاں غالب اور تھی ویمر کا ہندوستان اپیر بقول دہلی

پنشن ماہانہ روپیہ لاکھ یک کو ۔بادشاہ ہے جاسکتا لگایا سے ہ وغیر الاخبار احسن اندازہ کچھ کا اس تھی گزرتی سے حالات جن زندگی کی شاہ بہادر۔میر تھا پڑتا لینا قرض روپیہ سے امراء اور کاروں ساہو اور تھیں رہتی پریشانی مالی وقت ہر چنانچہ ۔ تھجے زیادہ کہیں سے اس اخراجات لیکن تھی ملتی

۔ ہے آایا جگہ متعدد ذکر کا لینے قرض روپیہ کے شاہ بہادر سے وغیرہ چند آاور زور لالہ خان، داؤد محمد ،حافظ خان علی حامدپڑتا کرنا سامنا کا حالات نامناسب کے طرح طرح اور تھی ہوتی کم میں نظر کی لوگوں وقعت کی بادشاہ سے تقاضوں کے لوگوں ان لیے کے وصولی اورطرف کی ادائیگی کی رقم کر بلا انہیں کو شاہ بہادر اور تھا کیا ارادہ کا کرنے دائر یی دعو میں دیوانی عدالت نے خان علی حامد نواب مرتبہ یک ۔ا تھاعہدہ کا مختاری کو خان علی حامد ۔نواب تھیں جاتی کی فروخت ملازمتیں کی معلی اکثرقلعہ باعث کے پریشانیوں مالی ان تھا۔ پڑا دلانا اطمینان سے

۔ کریں پیش پر طور کے نذرانہ ووپیہ ہزار دس وہ کہ تھا گیا کیا پیش پر شرط اسہے : ۱۸۴۶جون ۲۶ اطلاع کی الاخبار احسن کے ء

میں تو جائے دیا کر مقر پر نظارت عہدہ جگہ کی ناظر حیدر آاغا مجھے اگر کہ تھا مذکور میں ۔اس گزری سے انور فیض نظر عرضی کی ۔ ۔ رام۔ سالگگا۔ جائے دیکھا بعد کے اس تو گے کریں ا اد ہے ذمہ ہمارے جو روپیہ تمام کا ناظر حیدر آاغا ہم جب کہ ہوا ۔حکم گا کروں پیش نذرانہ روپیہ ہزار دس

ہے : ۳۱ جاسکتا کیا سرفراز وقت اس سے نظارت عہدۂ تمہیں ہے ہوتا شاہی حکم میں جواب کے عرضی کی مرزا حسین داماد کے حیدر آاغا کو جولائیسات کہ دو۔ ۷جب لکھ برداری دست سے دعوے کے نذرانے کے حیدر آاغا مرحوم اور کرو پیش نذرانہ روپیہ ہزار

گے ’’ ‘‘ ہوں پہنچے اثرات کے قلعہ بھی جہاں جہاں کہ نہیں مشکل لگانا اندازہ یہ تو تھا گرم بازار کا رشوتوں سے نام کے نذرانوں میں معلی قلعہ جبہوگا۔ عالم کیا کا افراتفری اور ابتری ، بدنظمی وہاں

تھے رہتے سرپیکار بر سے دوسرے ایک شہزادے تھی۔ گئی لی نہیں دلچسپی خاص کوئی میں تربیت کی اس تھی، د اولا کثیر کی شاہ �۱بہادرتھی مرتی بھوکی میں قلعہ تعداد کثیر کی نے ۳سلاطین اسپیر پروفیسر ۔ ہیں درج سے کثرت میں اخبارات داستانیں ناک درد کی حالی زبوں کی ان

کتاب تو Twilight of the Mughulsاپنی تھے کرتے مطالبہ کا اضافہ میں تنخواہ شہزادے یہ جب ہیں کیے بیان تفصیل بہ حالات کے ان میں۔ ’’ چاہیے لینی کر اختیار ملازمت کہیں انہیں لیے کے بسری وقات ا تو ہوتا نہیں سے تنخواہ مقررہ گزارہ کا سلاطین اگر تھاکہ ہوتا حکم کا �۵کمپنی

انداز نظر کو مفاد کے بادشاہ خاطر کی مفاد ذاتی اپنے شہزادے بیشتر تھے کرتے کارروائیاں عدالتی خواہ قرض کو بعد اور تھے لیتے قرض وہ کر ہو مجبورسازشوں طرح اس شہزادے اگر ہوجاتی قائم جلد قدر اس طاقت کی انگریزوں کہ ہے سکتا کہہ کون تھا۔ اجاسکتا خرید سے آاسانی کو ۔ان تھے سکتے کر

۔ ! ہے ہوسکتی امید کو کس سے مستقبل کے اس ہوں موجود افراد خاندان وننگ ملک ننگ جیسی بخش یلہی ا مرزا میں خاندان جس ہوتے نہ گرفتار میں۔عبد تھا پڑا کرنا سامنا کا حالات شکن حوصلہ اور آازما صبر ہی نہایت باعث کے سازشوں مسلسل اور دوانیوں ریشہ کی شہزادوں انہی کو خان بخت

صبر پیمانہ کا اس پر موقع ایک ۔لیکن کیا مقابلہ کا حالات نامساعد سے بردباری اور تحمل انتہائی نے اس کہ ہے ہتا معلوم سے روزنامچہ کے اللطیفتو گا لوٹے کو شہر شہزادہ کوئی اگر کہ تھا دیا کہہ سے بادشاہ نے اس کہ تھا ہوگیا پریشان درجہ اس میں آاخر کہ ہے لکھا نے مصنفین بعض گیا۔ چھلک

دوگا۔ کٹوا ٹانگ کی اس میںکے ۱۸۵۷ شاہ بہادر تھی؟ دی مدد میں بڑھانے آاگے کو تحریک تک کہاں نے انہوں تھا؟ کیا حصہ کا خاندان مغلیہ اور بادشاہ میں تحریک کی ء

نے اس ۔ تھا رکھتا نہ صلاحیت اا قطع کی رہنمائی کی تحریک انقلابی ایک وہ کہ چاہیے ہونا نہیں تامل کوئی میں کرنے تسلیم یہ کی ۱۸۵۷متعلق ء

Page 11: 1857ء جنگ آزادی اسباب

محل زینت ملکہ کی اس تھا۔ نہیں پر بنا کی مقصد انگیز شورش ۔کسی تھا پر بنا کی مجبوری کی حالات وہ تھا لیا حصہ بھی کچھ جو میں تحریککی شاہ بہادر کو بعد پر بنا کی ہی سازشوں کی ان اور ۔ تھے رہے پھیلا جال کے سازشوں الگ ۔شہزادے تھا شبہ کا سازباز سے انگریزوں متعلق کےورنہ ، ہے سے وجہ کی برتاؤ ظالمانہ کے سن ہڈ اور انجام ناک حسرت ے ان وہ ہے ہوتی پیدا ہمدردی بھی جو ساتھ کے شہزادوں ۔مغل ہوئی گرفتاری

نظر متاثر سے روح اصل کی تحریک شخص کوئی اگر میں شہزادوں ۔مغل تھا نہیں ستائش قابل بھی طرح کسی عمل طرز کا ان میں دوران کے تحریکطے منزلیں سخت سے سخت سہارے کے جس پہنچائی بہم قوت وہ کو تحریک نے استقامت اور عمل نش جو سرگرمی کی جس ہے شاہ فیروز ہ و ہے آاتا

۔ تھیں جاسکتی کیملک نہ کو ان تھے سکتے کر قربان کو مفاد بڑے سے بڑے خاطر کی منفعت اور مفاد ذاتی جو تھے ایسے بیشتر میں ،ان ہے تعلق کا امراء تک جہاں

’’ منہ کے اس لوگ کہ ہے لکھا صحیح نے سید ۔سر تھے رکھتے تعلق سے دربار وہ خاطر کی بڑھانے کو اقتدار ذاتی سے شاہ بہادر ،نہ تھی محبت سےتھے ہنستے پیچھے پیٹھ اور تھے کرتے خوشامد کی اس تھے ۱پر سے میں عمائدین کے دربار جو وغیرہ خان علی احمد ،نواب خان اللہ احسن حکیم ،

ہی نہایت امراء بعض کہ ہے چلتا پتہ سے خطوط کے ۔جاسوسوں تھا شبہ پر ان کا جانے مل سے دشمنوں کہ تھے رہے نہ معتبر پر بنا اس میں نظر کی عوامدولت پاس کے جن تھے بھی ایسے امراء بعض ۔ تھیں پہنچتی ذریعہ کے انہیں کو انگریزوں خبریں ساری کی دربار ۔ تھے مبتلا میں سازشوں ناک شرم

کی ظاہر آامادگی پر کرنے مدد سے روپیہ نے جس تھا نہ ایسا بھی امیر ایک تو پڑی ضرورت کی روپیہ میں دوران کے تحریک جب لیکن تھی، فراوانی کیتھے ہوئے آامد بر جواہر اور زیورات کے روپیے لاکھوں تو تھا کھدوایا کو گھروں کے امراء ان نے انگریزوں جب بعد کے فتح کی دہلی جب ۱ہو۔ لیکن

پر لڑنے بلکہ کیا اظہار کا زری بے اپنی سرف نہ نے انہوں تو کیا طلب قرض روپیہ سے ان لیے کے جنگ مصارف نے وغیرہ خان بخت یا شاہ بہادر بھیامراء وقت اس ۔ ہے دی نے اللطیف عبد تفصیل کی س ا� ا تھا کیا اظہار کا ناراضگی طرح جس نے بہادر خان الدین امیں الدولہ فخر نواب ۔ ہوگئے آامادہوتشہیر تذلیل کی دوسروں اور تھا ہوا بنا پارٹی ایک خود لیے کے مقصد لنل حصو ہرشخص لیکن تھی، رہی نہیں بندی گروہ سی کی صدی اٹھارویں گو میں

تھا۔ سمجھتا فرض پنا کوایہاں ۔اور تھی پائی نہیں پرورش فضامیں مسموم کی دہلی نے جنہوں تھے وہ لیا حصہ میں تحریک نے جنہوں صر عنا مند صحت زیادہ سے سب وقت استھا بھی خلوص کا مقصد میں اس تھا مظہر کا صلاحیتوں تنظیمی المثل ضرب کی روہیلوں خان ۔بخت تھے رہے محفوظ تک حد کسی سے اثرات کے

تعاون ساتھ کے اس شہزادے مغل اگر ۔ کی کوشش پوری کی روکنے کو ابتری اور بدنظمی میں دہلی نے اس بھی۔ جذبہ کا تنظیم عسکری اورجاتا۔ بدل رخ کا واقعات سے بہت تو لیتا کر عمل پر مشورہ کے اس شاہ بہادر میں آاخر ،یا کرجاتے

فوجوں کر پہن لباس مردانہ نے بائی لکشمی رانی ۔ ہیں ذکر قابل پر طور خاص شخصیتیں کی محل حضرت بیگم اور بائی لکشمی رانی میں ریاست نن والیاکے محل حضرت رہی۔ کرتی مقابلہ کا انگریزوں تک دم آاخری وہ او دیے لگا چاند چار میں تحریک نے شجاعت افروز حیرت کی اس کی۔ قیادت ک

لگا بازی کی جان اپنی نے اس لیے کے آازادی کی ودھ ۔ا تھے کرتے تعریف کی نفسی نیک اور مستعدی کی اس لوگ کہ ہے بیان کا شرر مولانا متعلق۔ ‘ کیا رخ کا نیپال کر چھوڑ کو باغ قیصر تو ہوگیا اونچا سے سر پانی جب رہی۔ کرتی تنظیم کی تحریک بیٹھی میں باغ قیصر تک وقت آاخر تھی دی

۔ روہیلہ لیا حصہ میں تحریک سے جوانمردی بڑی بھی نے خان محمود نواب اور خان بہادر خان میں ستر ۱۸۵۷سرداروں عمر کی خان بہادر خان میں ء

بجنور ضلع نے خان ۔محمود کیا استحکام کا طاقت اپنی خلاف کے انگریزوں اور لیا میں ہاتھ اپنے ونسق نظم کا بریلی نے انہوں ۔ تھی زیادہ سے سالخطابات کے جنگ مظفر الملک ،ضیاء الدولہ امیر کو ان نے شاہ بہادر لیا۔ کر قبضہ پر ور آادم اور نگینہ پور، ،دھام بجنور ور ،ا کیا مقابلہ کا انگریزوں میں

سزا کی شور دریائے عبور بہ دوام حبس کو الذکر رموخر او گئی دی پھانسی میں بریلی کو الذکر ،اول تھا سراہا کو خدمات کی ان اور ۔ تھے دیے۔ ہوگئے رہا سے ہی حیات قید کہ تھے ہوئے کوروانہ انڈیمان ابھی ،لیکن ملی

اور : حالات اپنے نے ریاستوں لوہارو،ان اور پاتودی دوجانہ، گڑھ، بہادر گڑھ، بلبھ نگر، ،فرخ جھجر ۔ تھیں ریاستیں سات ماتحت کے ایجنٹی کی دہلیعبد خسر کے اس اور جھجر والی خان الرحمن عبد ۔نواب لیے کر قائم تعلقات سے حکومت کی دہلی اور لیا حصہ میں تحریک ماتحت کے مصلحتوںسنگھ ناہر ۔راجہ رہا لڑتا سے انگریزوں برابر اور تھا کیا فیصلہ کا جہاد خلاف کے انگریزوں نے خان الصمد عبد ۔ دکھائی گرمی سر کافی نے خان الصمد

، تھی رہتی کتابت و خط سے دربار برابر اور تھا کیا تعاون ساتھ کے شاہ بہادر نے گڑھ بلبھ فرخ ۱۸۵۷والی ، جھجر نے انگریزوں بعد کے ہنگامہ کے ءلکھتے کو علائی خان احمد الدین علاء میں خط ایک ۔غالب دی دے سزا کی پھانسی کو والیوں کے ان اور لیں کر ضبط ریاستیں کی گڑھ بلبھ نگر،

۔ ہیںمل’’ میں خاک عمارتیں کی ۔شہر گئیں مٹ ریاستیں کی روپیے لاکھ تیس وبیش کم نگر فرخ اور گڑھ بلب اور گڑھ بہادر اور جھجر اور قلعہ تاہ کو قصہ

۔ جائے پایا کیوں یہاں آادمی مند ۔ہنر گئیںاور ۱۸۵۷ نوعیت کسی سوال مسلم ہندو اور تھی۔ لڑی جنگ یہ بدوش دوش نے دونوں مسلمان ر او ہندو کہ ہے یہ پہلو خاص ایک کا تحریک کی ء

اٹھ ف طر کی رشاہ بہاد نظریں کی سب مسلمان اور ہندو ہی میں آاغاز کے تحریک کہ واقعہ یہ ۔محض تھا نہیں سامنے کے لوگوں بھی میں شکل کسینشانی ایک اور علامت ایک حیثیت کی اس لیکن تسلیم اہلیت ھنا ذاتی کی شاہ ۔بہادر ہے کرتا شارہ ا طرف کی نوعیت گیر ہمہ کی ۔تحریک تھیں گئیں

جلوے نادر کے عظمت تمدنی اور وقار سیاسی اپنے نے ہندوستان میں جس تھا شام کی صبح ایسی ایک وہ لیکن سہی سورج ہوا ڈوبتا ۔وہ تھی کی۔ ہوگئیں جمع گرد کے شاہ بہادر ۔ تھیں آاگئی مقابل مد کے مغلیہ سلطنت سے عرصہ کچھ جو تک طاقتیں وہ تمام کہ تھی وجہ یہی ۔ تھے دیکھے

لیکن ، تھے پیکار سر بر سے مغلوں سے مدت ایک نانا ۱۸۵۷مرہٹے ۔ کیا نہیں عذر کوئی ا� مطلقا میں کرنے تسلیم کو شاہ بہادر نے پیشوا میں ءکے دونوں مسلمان اور ہندو نے شاہ اللہ ۔احمد رکھے ملازم پچی تو مسلمان نے جھانسی رانی ۔ رہا خان اللہ عظیم میں مشیروں خاص کے صاحب

Page 12: 1857ء جنگ آزادی اسباب

بادشاہ نے انہوں اور دکیا سپر کے ہندوؤں کام کا ،پولیس نگرانی کی ٹکسال اا مثل کام اہم نہایت بعض نے شاہ بہادر ۔ کیں تقریریں میں اجتماعات مشترکہ۔ کیا تعاون پورا ساتھ کے

وہ تو تھے آاتے نظر میں چیز کسی اگر آاثار کے ناکامی اپنی انہیں تھی ہوگئی ا پید تشویش بڑی کو انگریزوں سے عمل اتحاد اس کے مسلمانوں اور ہندوؤںجاسکتا گرایا طرح کی دیوار کی ریت تو ہندوستان متحد ،غیر میں اتحاد اور عمل اشتراک میں لوگوں کے مذاہب اور طبقوں مختلف کے ہندوستان صرف

کو اتحاد اس طرح کسی کہ گئی کی کوشش پوری میں دوران کے تحریک ۔چنانچہ تھا مانند کی گراں کوہ لیے کے انگریزوں ہندوستان متحدہ ،لیکن تھا ‘‘ دوران ’’ کے ہنگامہ کرو حکومت اور لڑاؤ کہ تھی ہوئی تعمیر پر اسی عمات ساری کی عملی نت حکم کی انگریز تو بعد کے تحریک ۔ جائے کیا ختمسازش اس کہ ہے بات کی تعجب ۔ کی کوشش کی نے کر استعمال لیے کے لڑانے کو مسلمانوں اور ہندوؤں کو موقع اس نے انگریزوں اور آائی بقرعید میں

مجددی سعید احمد مولانا کہ گئے ئے پھیلا طرح اس جال غیر کے سے سازش ،اس تھے وقت شیخ مرنج مرنجاں اور حوصلہ عالی ، دل نیک بڑے جو

سے تحریک ضمنی اپنی اا فور تووہ کیا آاگاہ سے حال صورت ذریعہ کے آازردہ الدین ر صد مفتی کو ان جب نے شاہ بہادر ہوگئے متاثر پر طریقہ محسوسنہ کامیاب لیکن گئی اختیارکی تدبیر یہی بھی لیے کے ڈالنے نفاق میں وں زمیندار ہندو کے وہاں اور خان بہادر خان میں بریلی ۔ ہوگئے کش دست

ہے : قابل کے مطالعہ خط ذیل مندرجہ میں سلسلہ اس ۔ ہوسکیاودھ’’ کمشنر چیف سیکریٹری صاحب پر کو جارج جانب من

دسمبر ،یکم لکھنؤ ہند حکومت سیکریٹری صاحب ایڈمنسٹن ایف جی ء ۱۸۵۷بخدمت : عالی جناب

مورخہ بہادر جنرل گورنر کمشنر چیف مکتوب سلسلہ باغیوں ۱۴یہ مسلمان کو آابادی ہندو کی بریلی رقم کی روپیے ہزار پچاس نے انہوں میں جس ستمبرمورخہ خط کے گوں ن کپتا مجھے ہے دی اجازت کی کرنے صرف پر کرنے پیکار آامادۂ خلاف ہے ۱۴کے گئی کی ہدایت کی کرنے پیش اقتباس کا

۔ ہوئی نہیں صرف رقم کوئی پر اس اور گیا دیا کر ترک کو اس اور رہی ناکام کوشش یہ کہ ہوگا علم یہ کی والا حضور سے جسخادم کا پ آا

کوپر جارجدسمبر یکم کیمپ باغ عالم ۔ کمشنر چیف ء ۱۸۵۷سیکریٹری

جوشخص کہ ہے گیا ایا کر اعلان سے طرف کی شاہ بہادر کہ دی شہرت یہ میں پنجاب نے لارنس لیے کے نے کر بدظن سے شاہ بہادر کو سکھوں پھرشاہ بہادر میں سلسلہ اس وفد ایک کا سکھوں کہ ہے بتایا نے اللطیف ۔عبد گا جائے دیا انعام روپیہ پانچ کو اس گا لائے کر کاٹ سر کا سکھ ایک بھی

دیا : جواب نے شاہ ۔بہادر کی شکایت کی بات اس اور ملا آاکر سے‘‘ باید’’ ہرکیش براہل عاطفت نظر یدو نیا مہربانی جز ازما

۱۸۵۷ ، ،سماج سیاست اور ۔ دیں کر شروع کوششیں منظم لیے کے انے کر خراب تعلقات کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے انگریزوں بعد کے ہنگامہ کے ءسے ) سال پچھتر گزشتہ جلدیں آاٹھ کی ہند تاریخ کی جس نے ایل ہنری سر ہو۔ گیا یا پھیلا نہ زہر یہ جہاں چھوڑا نہ ایسا گوشہ کوئی کا ادب اور زبان

میں ( ہندوستان تو گئی دی کر شائع ہند تاریخ ہوئی کی مرتب کی اس اگر کہ لکھا کو حکومت ۔ ہیں ہی ماخذر کا تاریخوں بڑی چھوٹی ساری ہماری۔ گئی دی کر شائع کتاب یہ لیے کے پہنچانے طوفان تاحد کو اختلافات مسلم و ہند ۔چنانچہ گی جائیں پڑ سرد بخود خود تحریکیں قومی ساری

شجاعت ۱۸۵۷ میں ،ہندوستان تھا تعلق کا صلاحیتوں شخصی اور انفرادی تک جہاں ہوئی پر بنا کی اسباب مختلف کے ناکامی کی تحریک کی ءبرطانوی وغیرہ سنگھ کنور ، شاہ اللہ ،احمد خان بہادر خان ، ٹوپی تاتیا ، محل ت حضر ، خان ،بخت بائی لکشمی ۔رانی تھی نہ کمی کوئی کی وتہور

اور منتشر صلاحیتیں یہ میں ۔ہندوستان تھا بڑا بہت فرق ایک ۔لیکن تھے نہ کم سے حیثیت ۔کسی وغیرہ اورٹرم ، نکلسن ، ،روز لارنس ، کینگ نمائندوں۔ تھیں رہی کر کام پر طور اتحاد ۱متفرق کا مقصد میں سپاہیوں ہندوستانی تھیں گئی دی لگا میں چاکری کی مقصد متحدہ سب وہ میں انگریزوں اور

۔ تھا رہا لڑ لیے کے ، معظمہ ،ملکہ صرف سپاہی برطانوی ہر کے اس خلاف ۔بر تھے رہے لڑ لیے کے مقاصد مختلف طبقات مختلف ۔ تھا مفقود بالکلتھا۔ نہ فرق زیادہ بھی میں کار طریقۂ اور تھے ایک مقاصد کے ان

ملک نے کوششوں انفرادی اور مقامی جاسکا۔ لایا نہ ماتحت کے تنظیم مرکزی ایک کسی کو تحریک پوری کہ تھی یہ نصیبی بد بڑی ایک کی ہندوستانمدت کی ماہ چار ہوا۔ نہ ممکن کرنا استعمال پر طور کے کوشش منظم ایک خلاف کے اقتدار ملکی غیر کو ابتری اس لیکن دی کر پیدا تو ابتری میں

ہوجاتا۔ کامیاب میں لینے کر ب جذ اندر اپنے کو نظام ہند کل جوایک جاسکا دیا نہ ترتیب نظام ایسا کوئی میں دہلی میںنہ اور ، گردی نادر ، گردی مرہٹہ ، گردی جاٹ تھا۔ دورہ دور کا وابتری انتشار میں ملک سے صدیوں دو ا� تقریبا کہ تھا یہ سبب بڑا ایک کا بدنظمی اسضبط یی اعل جس لیے کے مقابلہ کے انگریزوں ۔ تھا دیا کر کھوکھلا کو بنیادوں کی نظام سیاسی کر بگاڑ توازن کا زندگی سماجی نے فتوں آا کن کن معلوم

لینے ’’ حصہ میں ہنگامہ کہ تھے کرتے کہا خان اسمعیل محمد رکن ایک کے مجاہدین ۔جماعت تھا نہ پتہ تک دور ر دو کا اس تھی ضرورت کی ونظم۔ہر تھی رقابت سخت میں وں سردار ۔پھر لگتے بھاگنے وار سراسیمہ لوگ تو اڑتی افواہ کوئی ۔کہیں تھی سی کی بھیڑ منظم غیر ایک حیثیت کی والوں

معمولی کی ر دو ابتدائی تھی ہوئی بڑھی سے حد بدلگامی کی یورپیوں خصوصا جائے ھ بڑ آاگے خود کر گرا کو دوسرے کہ تھی یہ کوشش کی سردارپر : ) سر کے جس یعنی جیے ہو بادشاہ وہی دیے رکھ پنہی پر موڑ کے جہ تھے کہتے کہ تھا دیا کر پیدا غرور درجہ اس سے میں ان نے کامیابیوں وقتی

۔ گا ہوجائے بادشاہ وہی گے دیں رکھ تار جومالی ترین سخت انہیں ، تھے ہوگئے جمع گرد کے شاہ بہادر جو سپاہی ہندوستانی کہ جاسکتی کی نہیں فراموش حقیقت یہ بھی سے اعتبار اقتصادی پھر

فکری بے بھی فوج کوئی یمں صورت ایسی تھی پڑتی ضرورت کی لینے قرض روپیہ لیے کے اخراجات ضروری کی فوج دن آائے ۔ تھیں آارہی پیش دشواریاں

Page 13: 1857ء جنگ آزادی اسباب

جب نے شاہ بہادر ۔ ہے کی نقل گفتگو کی حق فضل مولوی اور شاہ بہادر میں روزنامچہ اپنے نے لال جیون ،منشی تھی سکتی کر نہیں کام ساتھ کے : کہ : ہے کا بات اسی تو افسوس کہا نے انہوں تو لڑاؤ خلاف کے انگریزوں اور جاؤ لے لیے کے لڑانے کو افواج اپنی کہ دیا حکم کو صاحب مولوی

۔ ہیں نہیں دار ذمہ کے دینے تنخواہ کی ن جوا مانتے نہیں کہا کا ان سپاہیکہا رگ شہ اقتصادی کی ہندوستان کو جن ۔اور تھے خوشحال زیادہ سے سب سے اعتبار معاشی جو تھے علاقے وہ میں ہاتھ کے انگریزوں ازیں علاوہہوچکے ابتر حالات معاشی کے جہاں تھے وہ تھے شدید زیادہ سے سب جذبات خلاف کے انگریزوں جہاں علاقے وہ کے ہندوستان ۔شمالی تھا جاسکتابرداشت کو مصارف کے جنگ کسی وہ کہ تھا دیا کر جان بے اتنا کو علاقوں ان نے سازشوں اندرونی اور حملوں ،بیرونی بدنظمی سیاسی ۔مسلسل تھے

۔ تھے سکتے کر نہیں ہیکہ چاہیے کرنا نہیں انداز نظر کو حقیقت اس باوجود کے تجزیہ م تما اس لیکن ہے جاسکتی کی دہی نشان بھی کی اسباب سے بہت اور کے ناکامی

کی ۱۸۵۷اگر سائنس ر او انقلاب ۔ تھا سکتا رکھ نہیں ر برقرا کو آازادی اپنی تو ہوجاتا بھی کامیاب خلاف کے انگریزوں پر طور وقتی ہندوستان کا ءنے پسندی قدامت اور تھے بیٹھے اوڑھے لبادہ خستہ کا تمدن طرز قدیم تک ابھی ہندوستانی لیکن تھا دیا بدل بالکل کو زندگی انسانی نے ایجادات نئی

میں صورت ایسی تھا لیا جکڑ کو قدموں کے سکتی ۱۸۵۷ان نہیں توڑ تھی سکتی کر ڈھیلا ف کوصر زنجیروں غلامی کامیابی کی تحریک کی ءتھی۔

انیسویں ل مثا کی جس کیا برپا ہنگامہ وہ کا گری وغارت قتل دیا۔اور ڈال میں شعلوں کے آاگ انتقامی کو ملک سارے نے انگریزوں بعد کے دہلی فتحتاریخ کی انسان صدی گناہ بے اور معصوم ۔ہزاروں ملتی نہیں بھی سے تلاش ۔ ۱میں ہوگئے کاشکار بربریت اور ظلم اس

کا بازاروں ۔ تھیں آات نظر ہوئی منڈلاتی چیلیں اور کوے گرد کے نعشوں ہوئی لٹکی سے درختوں جہاں تھے ایسے گاؤں شمار بے میں ہندوستان شمالیکہ : تھا یہ عالم

ہیں ڈالتے کشتی پہ کشتیوں کے کھینچ سے گھروںہیں والے رونے نہ ہے کفن نہ ہے گور نہ

عام کہ تھا یہ سبب کابڑا اس ہوا۔ نازل عتاب سے طور خاص پر مسلمانوں ،لیکن سکا بچ نہ سے دستی چیرہ کی انگریز بھی کوئی مسلمان اور ہندو تو یوںتھا ہوا کیا ا پید کا مسلمانوں صرف ہنگامہ پورا کہ تھا جاتا کیا خیال یہ پر دیئے ۱طور کر تیغ تہ پر ت شبہا معمولی معمولی مسلمان ہزاروں ۔چنانچہ

سید سر ۔ لگے پھرنے مارے دربدر میں عالم کے مفلسی اور کس بے خاندان شریف سینکڑوں اور ہوگئے محتاج کو شبینہ نن نا گھرانے مسلمان ۔ہزاروں گئےہیں : ،لکھتے تھا دیکھا ہوا گزرتا سے سر کے مسلمانوں کو خون موج اس نے جنہوں

۔’’ تھا جاتا نہیں دیکھا سے مجھ وہ تھا کا قوم وقت اس حال جو اور گی پائے عزت کچھ اور گی پنپے پھر قوم کہ تھا سمجھا نہیں ہرگز وقت اس میںدیے کر سفید بال میرے اور دیا کر بڈھا مجھے نے غم اس کہ کیجئے یقین آاپ ۔ رہا میں غم اسی اور خیال اسی میں روز ۲چند

تھی تباہی کی دہلی ناک عبرت زیادہ سے کی ۳سب وہاں تھی نشانی آاخری کی تمدن ایک بلکہ تھی، نہ مرکز ہی کا تحریک ہنگامی ایک صرف وہ

بازار، کا ،خانم زار با اردو خان، اللہ سعد ۔چوک رکھی نہ کر اٹھا کسر کوئی میں وبربادی تباہی کی اس نے ۔انگریزوں تھی رکھتی تاریخ اپنی چیز ایک ہررام ا، کٹر کا خان سعادت گنج، رام کٹرا، دھوبی کٹرا، پنجابی ، بازار کا گلیوں ، گھاٹی کی گنج دریا ، حویلی کی دوراں خان کوچہ، کا بیگم بلاقی

طرح اس کو مسجد ، چوبی مسجد، آابادی نگ اور مسجد، آابادی اکبر ، البقاء دار ، گاہ درس شاہی علاوہ کے ، مکانات کے والے کودام داس جیتھا : لکھا میں خط ایک میں زمانہ اسی نے ۔غالب چھوڑا نہ باقی تک ونشاں نام کہ کیا مسمار

۔ ہوجائے مکان کا ہو و جائیں اٹھ اگر وہ ہیں پڑے جوڈھیر کے ۔اینٹوں ہے ودق لق صحرا مبالغہ بے تک دروازہ گھاٹ راج سے جامع مسجدہوگیا طاری وہراس خوف پر دلوں سے اس تھا بہایا خون ساتھ کے دردی بے اور سفاکی جس نے داستان ۱انگریزوں کی یی صغر نت قیام اس کو کسی اور

جرا کی نے کر پر مرتب عنوانات مذہبی نے لوگوں ۔کچھ ہوسکتا نہیں عمل پر فروبند، شیشہ سرائیں ، تو ہے جاتا بڑھ سے حد جب غم لیکن ۔ ہوئی نہ ت

ڈائر تو لیا کام سے ت اا جر زیادہ نے لوگوں کچھ ، کی وزادی آاہ سے زبان کی وبلبل گل نے لوگوں کچھ ، کی کوشش کی بھلانے کو غم اپنے کر لکھتحریک اور رہے نمایاں بھی یہاں آاثار کے اس تھی ہوگئی پیدا کیفیت لانمٹ جو کی خوف سے وتشدد جبر انگریزکے لیکن دیے کر مرتب روزنامچے اور یاں

مذہبی یا ہو شاعری کی دور اس کہ ہے یہ حقیقت ۔ ہوئی نہ اات جر کی تک اظہار کے جذبات اپنے ، کیا تو ہمت کی تجزیہ مندانہ ت اا جر کےکی تحریک اس جو کو خان بخت ۔ ہیں آاتی نظر ہوئی چھائی گھٹائیں گہری کی مرعوبیت ذہنی اور قنوطیت ، تذکرے یا ہوں کتابیں ،تاریخی تصانیف

میں غدر نن داستا ، کھدا گھس نے کسی اور ، کمبخت ، نے کسی ہے کہا ، بدبخت ، نے نویس تذکرہ ،کسی تھا میں شخصیتوں ممتاز زیادہ سے سب : تصویر یہ کی خان بخت

آایا میں دربار سے طرف کی چبوترہ کے حمام عقب ، کھلی یا چند ہوا، لپٹا انگوچھا یک پرا سر ، ادھیڑ قد، ،پستہ اندام فربہ پوربیا ایک کہ ہوں کیا دیکھتاکر پکڑ ہاتھ کا بادشاہ آاکر تھا۔پاس سنتا کب وہ مگر ، ہو آاتے چلے کہاں ہیں ہیں کہ بھی روکا نے بہنوئی ۔میرے آایا چلا پاس کرکے سلام کو بادشاہ اوررکھ پر سینہ کے اس سے زور ہاتھ اور ۔ لگا کانپنے کے غصہ مارے اور رہی نہ تاب مجھے کر سن بات یہ ۔ کیا بادشاہ تمہیں نے ہم بڑھو ۔سنو لگا کہنےاور گیا ہٹ پیچھے قدم تین دو سے دینے دھکا اس وہ ۔ ہیں کرتے گستاخی طرح اس میں دربار کے بادشاہوں تمیز ،بے ادب اوبے کہ رکہا او دیا دھکا کر

۔ ہے یہی خان بخت جرنیل بدبخت وہ کہ تھا معلوم کیا مجھے لی۔ کھینچ تلوار بھی نے میں ، ڈالا ہاتھ پر قبضہ کے تلوار نے اس اور سنبھلا گرتے گرتے

Page 14: 1857ء جنگ آزادی اسباب

،وقتی جذبات حقیقی ر او ہے دیا کر کم کو افادیت اور اہمیت تاریخی کی تذکروں بیشتر کے دور اس نے اس ہے دار ئینہ آا کی مرعوبیت ذہنی جسسنی ’’ نہیں دھڑکنیں چین بے کی دل لیکن ہے جاسکتی توسونگھنی بو کی ، وکفن کافور میں ان کہ ہیں گئے دب طرح اس میں بوجھ کے مصلحتوں

۔ جاسکتیںظہیر اور نامچے روز کے ل لا جیون منشی اور الدین معین اور ، سبق دس کا غالب ہند، ت بغاو اسباب رسالہ کا سید سر میں سالوں اور تذکرون معاصر

۔ ہیں ذکر قابل پر طور خاص غدر داستان کتاب کی الدینسید نہ سر ہمت کی لکھنے کو کسی بھی متعلق کے واقعات کے اس کیا ذکر تو کا تجزیہ کے اسباب کے غدر وقت اس تھا لکھا رسالہ اپنا وقت نیجس

کر : دے جواب یہ کو مصلحتوں تمام کی وقت نے سید ۔سر تھی ہوتی ، تھا نہ آاسان لگاناتو الزام کا ہونے باغی پر ان لیے اس تھی کی ہمدردی بہت کی انگریزوں میں زمانہ کے ہنگامہ نے سید ۔سر لیا اٹھا قلم پر موضوع اسوہ کہ تھا ار سو ایسا خون کا انتقام وقت اس پر انگریزوں گیا۔ سمجھا نہیں اچھا کو کوشش اس ک ان میں حلقوں بعض کے انگلستان بھی پھر لیکن

رسالہ یہ سے تدبر انتہائی لیکن صفائی نہایت نے سید سر ۔ تھے نہ آامادہ پر سننے متعلق کے وعلل اسباب کے ہنگامہ سے ہندوستانی ایک عنوان کسیاور گہرائی اس نے ہندوستانی کسی کہ ہے یہ حقیقت ۔ دیا کر پیش کر لے ا سہار کا دوستی انگریز اپنی کو حقیقتوں تلخ ہی نہایت بعض اور دیا ترتیبدلائی توجہ طرف کی غدر اسباب ساتھ کے اات جر بڑی اور ہیں کیے نقاب بے رخ ہی کتنے کے تصویر نے انہوں ۔ لیا نہیں جائزہ کا تحریک سے محنت

۔ ہےبہادر دربار اور لکھنے اشعار کے سکہ کہ ہوگا معلوم تو جائے دیکھا سے نظر گہری ۔ ہے غالب پہلو کا خوشامد اور مرعوبیت ذہنی میں دستنبو کے غالب

سوز یقینا میں اوربعض ہیں ملتے جذبات حقیقی متعلق سے ہنگامے میں خطوط کے ان ۔ ہے محرک کی اس خواہش کی دھونے کاداغ حاضری میں شاہی۔ ہے لکھا نے انہوں سے قلم کے مصلحت اور ہیں بولے سے زبان کی انگریز وہ میں دستنبو لیکن ہے آاتی بو کی دل

٭٭٭

ایسا رہا۔ محتاج کا ثبوت بھی الزام ۔یہ تھا لیا کر باز ساز سے طاقتوں بیرونی نے سپاہیوں باغی اور شاہ بہادر کہ ہے گیا کیا ظاہر بھی یہ خیال ایک پھر۔ ہے مشتبہ صحت کی بیانات سب اور علاوہ سکے ۔ا تھا گیا کیا چسپاں پر مسجد جامع تھا منسوب طرف کی ایران شاہ جو اعلان ایک کہ ہوا ضرور

شکوہ سلیمان مرزا کہ تھا کہا میں بیان اپنے نے لال ۔مکند ہوسکا نہ ثابت یہ ۔لیکن تھے بھیجے ایران سفیر اپنے نے شاہ بہادر کہ تھا گیا کہا میں مقدمہتھی۔بعض بھی کی گفتگو میں سلسلہ کے کرانے قائم تعلقات درمیان کے ایران شاہ اور شاہ بہادر نے انہوں اور تھے آائے لکھنؤ وغیرہ احیدر مرز پوتے کے

مرے سفیر برطانوی میں ایران نے کے )Murray( مورخوں ہندوستان شمالی کہ ہے کیا نقل بیان کا عہدہ ایرانی ایک اس میں جس ہے کیا نقل خط کا

باوجود کے بیانات تمام ان ۔ تھے گئے بھیجے خطوط سے ایران لیے کے کرنے آامادہ پر بغاوت کو ریاست بیرونی ۱۸۵۷والیان کسی میں ہنگامہ کے ء ملتا۔ نہیں ثبوت کا مداخلت نمایاں کی طاقت

اس ۱۸۵۷ تھا اظہار قدرتی بالکل ۔یہ تھی سازش منظم کوئی پیچھے کے اس نہ ہوئی پیدا سے مداخلت کی طاقت بیرونی کسی نہ تحریک کی ءکے وں انگریز وہ کہ کی لیے اس قدمی پیش نے سپاہیوں تھی۔ ہورہی جمع میں دلوں سے عرصہ ایک خلاف کے انگریزوں جو کا چینی بے اور نفرت گہری

۔ تھے سکتے کر نہیں بھی برداشت کو انصافیوں نا ان تک عرصہ زیادہ وہ ہوئے ہوتے ماتحت کے قانون فوجی اور تھے ہوچکے عاجز سے برتاؤ منصفانہ غیربارلو ۱۸۰۶ سرجارج جب سے ء )Sir George Barlow( کئے عتراض پرا باندھنے صافہ اور رکھنے داڑھی ، لگانے تلک کے سپاہیوں نے

سے مدتوں خلاف کے سفر بحری میں ۔ہندوؤں تھا لازمی ہونا پیدا اشتعال میں جذبات کے ان سے جس تھا ہا ہور برتاؤ ایسا ساتھ کے فوج ،متواتر تھےگیا۔ کیا انداز نظر طرح اسی بھی کو جذبات کے پات ذات ۔ کیا احترام کا ان نہ سمجھا کو جذبات کے ان نہ نے انگریزوں تھی، تی آا چلی نفرت ایک

مختلف ازیں ۔علاوہ تھا بنتا کھانا ہوا پکا کا ہاتھ کے ہندوؤں انہیں نہ تھے کرسکتے ن اشنا نہ ہندوسپاہی میں کابل کہ تھا بتایا نے علی ہدایت بہادر سرداربددلی میں سپاہیوں سے ۔اس گیا کیا عمل خلاف کے ان بلکہ گیا کیا نہیں پورا کہ یہ صرف نہ کو ،ان تھے گئے کیے سے فوج وعدے جو میں اوقات

گئی دیا ۲پھیل کر پیدا کمتری احساس وہ نے فرق اس ۔اور تھا فرق کا آاسمان و زمین میں زندگی معیار اور تنخواہوں کی سپاہیوں انگریز اور ہندوستانی پھر

۔ ہے ہوتا محرک بڑا سے سب ہمیشہ کا جرم نب ارتکا بلکہ چینی بے صرف نہ جو تھافوج کی انگریزوں میں پر ۳۱۵۵۲۰ہندوستان اس تھی۔ مشتمل پر سے ۹۸۰۲۲۳۵۔اشخاص میں اس تھا۔ آاتا خرچ پونڈ ۵۶۶۸ ۱۱۰پونڈ

تعداد کل کی ان کہ جب میں صورت س ا یہ اور تھا ہوتا خرچ پر فوج ر ۵۱۳۱۶یورپین او ماہانہ روپیہ سات کو پیادہ ہندوستانی ایک تھی نہ زیادہ سے ڈیڑھ کو سپاہی ایک اوقات بعض کر کٹا کٹ بھی سے تنخواہ قلیل اس تھا پڑتا رکھنا گھوڑا اپنا کو ۔سوار تھی ملتی تنخواہ ماہانہ روپیہ ستائیس کو سوار

۔ ہے نہیں مشکل کچھ اندازہ کا چینی بے اور بددلی کی فوجیوں میں حالات ان تھے ملتے نہ زیادہ سے آانوں چند صرف میں صورتوں بعض اور ماہانہ روپیہ

بلکہ تھی۔ گئی پھیل بدگمانی زبردست میں ہندوستانیوں سے ان تھے کئے اختیار طریقے اور جوحربے لیے کے پھیلانے کو عیسائیت نے انگریزوں ازیں علاوہعیسائی ۔ گئیں بن ملامت نف ہد بھی ،وہ تھا اصلاح سماجی زیادہ سے مداخلت مذہبی مقصد کا جن تجاویز ایسی بعض کی ان کہ ہوا یہ نتیجہ کا اس

Page 15: 1857ء جنگ آزادی اسباب

ہوتا معلوم سے کار طریقہ کے ۔ان تھے لگتے کرنے ،تبلیغ ملتا موقع جگہ جس غرض میں خانوں جیل میں خانوں شفا ، میں بازاروں ، میں اسکولوں مبلغمقدس کے مذہب غیر پادری یہ ۔اور تھے جاتے چپراسی کے تھانے ساتھ کے پادریوں میں اضلاع ۔بعض تھی حاصل کو ان اعانت کی حکومت کہ تھا

۔گورنمنٹ تھی پہنچتی تکلیف دلی اور رنج نہایت کو والوں سننے سے جس تھے کرتے یاد سے ہتک اور ائی بر بہت کو مقاموں مقدس اور کو لوگوںہے لکھا نے خان حمد تھا۔سرسیدا جاتا کیا راغب طرف کی عیسائیت کو قیدیوں میں خانوں ۔جیل تھی جاتی دی تعلیم لازمی کی انجیل میں : اسکولوں

جاتے ۱۸۵۷ گنے نمونہ ایک کے گورنمنٹ ارادۂ میں وشمالی مغربی ممالک اضلاع تمام وہ گئے کیے عیسائی لڑکے یتیم جو میں سالی قحط کی ءکوئی کمپنی انڈیا ایسٹ آانربل سرکار جب کہ ہوں کہتا سچ ۔میں گے آائیں لے میں مذہب اپنے کر کر محتاج اور مفلس اپر طرح اس کو ہندوستان کہ تھے

۔ تھا ہوتا رنج کمال کو رعایا کی ہندوستان تھی کرتی فتح ملکاا ۔مثل جائے کی مدد کی والوں لینے کر قبول عیسائیت کہ تھا یہ مقصد صاف کا قوانین کے ۱۸۵۰بعض ء Ad XXI( کر تبدیل مذہب مطابق کے

ک تھا گیا کہا میں جس کیا جاری خط وہ نے ایڈمنڈ ای پادری جب میں حالات ۔ان تھا رہتا حقدار میں جائداد موروثی شخص ایک بھی بعد کے دینےہوگئی، ایک ورفت آامد کی جگہ سب سے سڑک ،ریلوے ہوگئی ایک خبر کی جگہ سب سے برقی تار ہوگئی، اری عملد ایک میں ہندوستان تمام اب

‘‘ گئی۔ لگ سی آاگ ایک میں ہندوستانیوں ہوجاؤ مذہب ایک عیسائی بھی لوگ تم کہ ہے مناسب لیے اس ، چاہیے ایک بھی مذہببھڑکنے جگہ ہر شعلے کے چینی بے اور اضطراب سے اس تھا رکھا روا کو ظلم اور انصافی بے کھلی جس میں الحاق کے ریاستوں بعض نے انگریزوں پھر

ایک حقیقتا نے انگریزوں کے کر ختم کو ان ،اور تھیں رکھتی نہیں صلاحیت خاص کوئی میں معاملات انتظامی ، ریاستیں بعض کہ ہے صحیح ۔ لگےورش پر خاندان ہزاروں ساتھ کے شاہی ت محلا کہ ہے حقیقت ایک بھی یہ لیکن تھی ہوچکی ختم افادیت کی جس لگائی کاری ضرب پر نظام ایسے

ہزاروں ہواتو الحاق کا ریاستوں ن ا جب تھی ہوگئی حاصل اہمیت خاص ایک کو راجاؤں اور نوابوں میں زندگی اقتصادی کی ریاست ہر اور ، تھے پاتےسقوں : کہ ہے بیان کا لیان ٹریو متعلق کے اس تھی گئی پہنچ کو حد جس نفرت سے انگریزوں بعد کے ق الحا کے اودھ ۔ گئے رہ ا سہار بے متعلقین

پیش سے بدتمیزی اور گستاخی سے آاقاؤں کارے ہر اور ،باورچی ہوگئیں رخصت سے نوکری بغیر لیے اجازت آایائیں دیا، چھوڑ بھرنا پانی لیے کے انگریزوں نے۔ لگے آانے

۔مصحفی ) دیا بڑھا کو لپک کی شعلوں خلاف کے انگریز نے ی ابتر اور بدحالی ۔ ۱۲۴۰اقتصادی تھا( ۱۸۲۴ھ کہا پہلے مدتوں نے ء

لی۔ کھینچ بتدریج نے فرنگیوں کافر تھی کہ کچھ جو وحشمت دولت ک ہندوستانطرف ۔ایک تھے ہوجاتے آامادہ لیے کے ملازمت میں فوج پر یومیہ آانے ڈیڑھ آانہ صرف کہ تھے ہوچکے ومحتاج نادار قدر اس لوگ کہ ہے بتایا نے سید سراس تھی، درکار منڈی ایک لئیے کے چیزوں شدہ تیار کی ۔انگلستان گیا دیا کر بدحال اور ، ہوگئے روزگار بے ہندوستانی ہا ہزار سے الحاق کے ریاستوں

۔ ہے لکھا نے سید ۔سر گیا کیا ختم اا عمد کو صنعتوں مقامی کی ہندوسان لیے :کےدیا اور والے بنانے سونے کوئی میں ہندوستان کہ تک یہاں تھا۔ رہا جاتا بالکل کے ولایت تجارت اشیائے ہونے رائج اور جاری بسبب کاروزگار حرفہ نل اہ

تھا۔ گیا ٹوٹ بالکل تو تار کا لاہوں ۔جو تھا پوچھتا نہیں بھی کو والے بنانے سلائی۱۸۵۷ میں ان ۔ رہے آاتے کار بروئے میں اوقات عناصرمختلف مختلف اور لیا حصہ میں اس نے طبقات ،مختلف گزری سے منزلوں مختلف تحریک کی ء

، بہادر علی نواب محل، حضرت ، سنگھ ناہر ، صاحب نانا بائی، لکشمی رانی میں ،روساء پسند رجعت قوتیں بعض اور تھے پسند ترقی عناصر کچھتحریک سے جہد جدو مسلسل اور سچائی کی ،مقصد عزم کے جن تھیں شخصیتیں وہ وغیرہ خان، محمود نواب خان، بہادر خان حسین، تفضل نواب

کو بعض سے میں ان کہ ہے صحیح تھے بہتر بدرجہا یقینا سے انگریزوں سے بہت لوگ یہ میں صلاحیتوں انفرادی اور حوصلگی ،بلند ہوئی پیدا جان میںکا دکھانے سرگرمی اور لینے حصہ میں تحریک تک جہاں ،لیکن تھے چاہتے رکھنا قائم کو نظام جاگیردارانہ اور تھیں بھی شکایتیں ذاتی سے انگریزوں

تک وقت آاخری وغیرہ خان، وزیر خان، بخت خان، اللہ عظیم ٹوپی، تائیا میں طبقہ پیشہ ملازمت تھا۔ نہ کم سے کسی نیت نص خلو کا ان تھا تعلقکے دلیری پوری نے انہوں کی مساعدت تک جہاں نے ۔حالات تھیں بھی صلاحیتیں انتظامی اور تھا بھی عمل جوش میں ان ۔ رہے لڑتے سے انگریزوں

اللہ امداد حاجی شاہ احمد مولانا میں جن ومشائخ علماء ۔مسلمان کیا مقابلہ کا طاقتوں ملکی غیر القادر ساتھ عبد مولانا ، آابادی خیر حق ،مولانافضل

تھا۔ لدھیانوی نہ حصہ کوئی کا رنجشوں ذاتی میں دشمنی انگریز کی ۔ان تھے مثال بے یقینا میں جذبات شانہ سرفرو اور خلوص ،اپنے تھے شامل وغیرہم

کیا تجزیہ کا تحریک ۔اگر تھا رہا کر کام عمل رد شدید کا کوششوں مشنری کی انگریز اور نفرت سے اقتدار ملکی غیر ، جذبہ کا الوطنی حب میں انکے شاہ اللہ احمد ۔مولوی تھی پر علماء ہی ان داری ذمہ تر زیادہ کی اس تھا تعلق کا کرنے پیدا چینی بے میں عوام تک جہاں کہ ہوگا معلوم تو جائے : ہوتا مجمع کا ہزار دس دس میں تقریروں کی آاگرہ ۔چنانچہ تھے ہوجاتے جمع مسلمان اور ہندو آادمی ہزاروں میں تقریروں کی ان کہ ہے جاتا کہا متعلق

) دیا۔ ) کر انکار سے کرنے گرفتار انہیں پر حکم کے مجسٹریٹ پر موقع ایک نے پولیس کہ تھی حالت یہ کی ی عزیز دل ہر کی ۔ان تھا

Page 16: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ ہوجائے واضح نوعیت کی شرکت کی ان میں تحریک تاکہ ہے ی ضرور لینا جائزہ علیحدہ علیحدہ کا حالات اور کوششوں کی طبقات مختلف اناور ۔ تھا نقشہ کا پالم تا ،ازدہلی عالم شاہ ،سلطنت سے مدت تو یوں ڈالیے نظر پر حالات کے معلی قلعہ اور خاندان شاہی شاہ بہادر پہلے سے سب

،لیکن ’’ ‘‘ تھی چکی بن صبیان لعب حکومت کی دہلی اللہ ولی شاہ مغل ۱۸۰۳بقول تو ہوگئیں داخل میں دہلی فوجیں کی لیک لارڈ جب میں ء سہارے کے نام کے اس کہ کیوں لیا نہیں کام سے عجلت میں ہٹانے کو بادشاہ نے انگریزوں رہی۔ نہ زیادہ سے ملازم ایک کے کمپنی حیثیت کی بادشاہ

تھی۔ مددملتی میں کرنے قائم اقتدار لاشئے ۲اپنا وہ کہ جائے دیا کر محدود اتنا دائرہ کا ات اختیار کے بادشاہ کہ رہی یہی کوشش نوع بہر لیکن

شاہ بہادر ۔ ہوجائے ۔ ۱۸۳۷محض بیٹھا پر تخت میں عمر ۱۸۵۷ء کی اس میں ذاتی ۸۲ء اور سالی ،پیرانہ حالات ۔نامساعدہ تھی متجاوز سے سال دیا لکھ یہ کر لے کام سے مبالغہ میں کرنے ثابت اہلیت ھنا کی اس نے سید سر کہ ہے ۔ممکن تھا دیا بنا معطل عضو کو اس نے نوعیت کی مشاغل

۔: ہوکہچھوڑ ایک اور ھتا سمجھ سچ کو اس وہ تو ہے تابعدار کا آاپ بادشاہ کا جنوں میں پرستان کہ جاتا کہا سے اس کہ تھا حال یہ کا بادشاہ معزول کے دلی

اس اور ہوں آاتا لے خبر کی ملکوں اور کی لوگوں اور ہوں جاتا اڑ کر بن مچھر اور مکھی میں کہ تھا کرتا کہا بادشاہ معزول کا ،دلی دیتا لکھ فرمان دسآادمی۔ والے مالیخولیا ۔ایسے تھے کرتے تصدیق سب اور تھا چاہتا تصدیق سے درباریوں اور تھا سمجھتا سچ میں خیال اپنے وہ کو بات

اس وہ ، تھی ضرورت کی تدبر اور ،تفرس فہمی معاملہ بصیرت، سیاسی جس میں جانشین کے اکبر اور بابر کہ جاسکتا کیا نہیں انکار سے اس لیکنبوجھ کا سلطنت ایک خوبیاں چند یہ کی کردار ذاتی ۔لیکن تھا بہتر سے پیشتروں بعض اپنے وہ تھا تعلق کا کردار ذاتی تک ،جہاں تھا نہ کو نام میں

سر ۔حالانکہ تھا آاتا پیش سے رواداری ساتھ کے مذاہب دوسرے اور تھی دلچسپی خاصی کو شاہ بہادر میں معاملات مذہبی تھیں سکتی سنبھال نہیںبدعتی ’’ اور برا بہت کو دلی بادشاہ معزول روسے کی مذہب وہ کہ تھا ایسا کا تابعین کے ان اور مولویوں گروہ بڑا ایک میں دہلی کہ ہے لکھا نے سید

وہ چنانچہ ۔ نہیں درست نماز میں مسجدوں ان ہے اہتمام اور ودخل قبض کا بادشاہ میں مسجدوں جن کی دلی کہ تھا عقیدہ یہ کا ۔ان تھے سمجھتے۔ ہیں موجود میں معاملہ اس فتوے ہوئے چھپے کے قبل بہت سے غدر اور تھے پڑھتے نہیں نماز بھی میں مسجد جامع لوگ

میں زمانہ کے س ا ھھا ت گیا بن مرکز کا وسخن شعر معلی قلعہ سے دلچسپیوں ادبی کی اس تھا۔ رکھتا اہمیت خاص عہد کا بادشاہ بہادر سے اعتبار ادبی۔ تھا گوئٹے کا یہاں غالب اور تھی ویمر کا ہندوستان اپیر بقول دہلی

پنشن ماہانہ روپیہ لاکھ یک کو ۔بادشاہ ہے جاسکتا لگایا سے ہ وغیر الاخبار احسن اندازہ کچھ کا اس تھی گزرتی سے حالات جن زندگی کی شاہ بہادر۔میر تھا پڑتا لینا قرض روپیہ سے امراء اور کاروں ساہو اور تھیں رہتی پریشانی مالی وقت ہر چنانچہ ۔ تھجے زیادہ کہیں سے اس اخراجات لیکن تھی ملتی

۔ ہے آایا جگہ متعدد ذکر کا لینے قرض روپیہ کے شاہ بہادر سے وغیرہ چند آاور زور لالہ خان، داؤد محمد ،حافظ خان علی حامدپڑتا کرنا سامنا کا حالات نامناسب کے طرح طرح اور تھی ہوتی کم میں نظر کی لوگوں وقعت کی بادشاہ سے تقاضوں کے لوگوں ان لیے کے وصولی اورطرف کی ادائیگی کی رقم کر بلا انہیں کو شاہ بہادر اور تھا کیا ارادہ کا کرنے دائر یی دعو میں دیوانی عدالت نے خان علی حامد نواب مرتبہ یک ۔ا تھاعہدہ کا مختاری کو خان علی حامد ۔نواب تھیں جاتی کی فروخت ملازمتیں کی معلی اکثرقلعہ باعث کے پریشانیوں مالی ان تھا۔ پڑا دلانا اطمینان سے

۔ کریں پیش پر طور کے نذرانہ ووپیہ ہزار دس وہ کہ تھا گیا کیا پیش پر شرط اس۲۶ ہے ۱۸۴۶جون اطلاع کی الاخبار احسن کے ء :

میں تو جائے دیا کر مقر پر نظارت عہدہ جگہ کی ناظر حیدر آاغا مجھے اگر کہ تھا مذکور میں ۔اس گزری سے انور فیض نظر عرضی کی ۔ ۔ رام۔ سالگگا۔ جائے دیکھا بعد کے اس تو گے کریں ا اد ہے ذمہ ہمارے جو روپیہ تمام کا ناظر حیدر آاغا ہم جب کہ ہوا ۔حکم گا کروں پیش نذرانہ روپیہ ہزار دس

ہے : ۳۱ جاسکتا کیا سرفراز وقت اس سے نظارت عہدۂ تمہیں ہے ہوتا شاہی حکم میں جواب کے عرضی کی مرزا حسین داماد کے حیدر آاغا کو جولائیسات کہ دو۔ ۷جب لکھ برداری دست سے دعوے کے نذرانے کے حیدر آاغا مرحوم اور کرو پیش نذرانہ روپیہ ہزار

گے ’’ ‘‘ ہوں پہنچے اثرات کے قلعہ بھی جہاں جہاں کہ نہیں مشکل لگانا اندازہ یہ تو تھا گرم بازار کا رشوتوں سے نام کے نذرانوں میں معلی قلعہ جبہوگا۔ عالم کیا کا افراتفری اور ابتری ، بدنظمی وہاں

تھے رہتے سرپیکار بر سے دوسرے ایک شہزادے تھی۔ گئی لی نہیں دلچسپی خاص کوئی میں تربیت کی اس تھی، د اولا کثیر کی شاہ ۱بہادر �

تھی مرتی بھوکی میں قلعہ تعداد کثیر کی نے ۳سلاطین اسپیر پروفیسر ۔ ہیں درج سے کثرت میں اخبارات داستانیں ناک درد کی حالی زبوں کی ان

کتاب تو Twilight of the Mughuls اپنی تھے کرتے مطالبہ کا اضافہ میں تنخواہ شہزادے یہ جب ہیں کیے بیان تفصیل بہ حالات کے ان میں۔ ’’ چاہیے لینی کر اختیار ملازمت کہیں انہیں لیے کے بسری وقات ا تو ہوتا نہیں سے تنخواہ مقررہ گزارہ کا سلاطین اگر تھاکہ ہوتا حکم کا ۵کمپنی �

انداز نظر کو مفاد کے بادشاہ خاطر کی مفاد ذاتی اپنے شہزادے بیشتر تھے کرتے کارروائیاں عدالتی خواہ قرض کو بعد اور تھے لیتے قرض وہ کر ہو مجبورسازشوں طرح اس شہزادے اگر ہوجاتی قائم جلد قدر اس طاقت کی انگریزوں کہ ہے سکتا کہہ کون تھا۔ اجاسکتا خرید سے آاسانی کو ۔ان تھے سکتے کر

Page 17: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ ! ہے ہوسکتی امید کو کس سے مستقبل کے اس ہوں موجود افراد خاندان وننگ ملک ننگ جیسی بخش یلہی ا مرزا میں خاندان جس ہوتے نہ گرفتار میں۔عبد تھا پڑا کرنا سامنا کا حالات شکن حوصلہ اور آازما صبر ہی نہایت باعث کے سازشوں مسلسل اور دوانیوں ریشہ کی شہزادوں انہی کو خان بخت

صبر پیمانہ کا اس پر موقع ایک ۔لیکن کیا مقابلہ کا حالات نامساعد سے بردباری اور تحمل انتہائی نے اس کہ ہے ہتا معلوم سے روزنامچہ کے اللطیفتو گا لوٹے کو شہر شہزادہ کوئی اگر کہ تھا دیا کہہ سے بادشاہ نے اس کہ تھا ہوگیا پریشان درجہ اس میں آاخر کہ ہے لکھا نے مصنفین بعض گیا۔ چھلک

دوگا۔ کٹوا ٹانگ کی اس میں۱۸۵۷ کے شاہ بہادر تھی؟ دی مدد میں بڑھانے آاگے کو تحریک تک کہاں نے انہوں تھا؟ کیا حصہ کا خاندان مغلیہ اور بادشاہ میں تحریک کی ء

نے اس ۔ تھا رکھتا نہ صلاحیت اا قطع کی رہنمائی کی تحریک انقلابی ایک وہ کہ چاہیے ہونا نہیں تامل کوئی میں کرنے تسلیم یہ کی ۱۸۵۷متعلق ء محل زینت ملکہ کی اس تھا۔ نہیں پر بنا کی مقصد انگیز شورش ۔کسی تھا پر بنا کی مجبوری کی حالات وہ تھا لیا حصہ بھی کچھ جو میں تحریککی شاہ بہادر کو بعد پر بنا کی ہی سازشوں کی ان اور ۔ تھے رہے پھیلا جال کے سازشوں الگ ۔شہزادے تھا شبہ کا سازباز سے انگریزوں متعلق کےورنہ ، ہے سے وجہ کی برتاؤ ظالمانہ کے سن ہڈ اور انجام ناک حسرت ے ان وہ ہے ہوتی پیدا ہمدردی بھی جو ساتھ کے شہزادوں ۔مغل ہوئی گرفتاری

نظر متاثر سے روح اصل کی تحریک شخص کوئی اگر میں شہزادوں ۔مغل تھا نہیں ستائش قابل بھی طرح کسی عمل طرز کا ان میں دوران کے تحریکطے منزلیں سخت سے سخت سہارے کے جس پہنچائی بہم قوت وہ کو تحریک نے استقامت اور عمل نش جو سرگرمی کی جس ہے شاہ فیروز ہ و ہے آاتا

۔ تھیں جاسکتی کیملک نہ کو ان تھے سکتے کر قربان کو مفاد بڑے سے بڑے خاطر کی منفعت اور مفاد ذاتی جو تھے ایسے بیشتر میں ،ان ہے تعلق کا امراء تک جہاں

’’ منہ کے اس لوگ کہ ہے لکھا صحیح نے سید ۔سر تھے رکھتے تعلق سے دربار وہ خاطر کی بڑھانے کو اقتدار ذاتی سے شاہ بہادر ،نہ تھی محبت سے

تھے ہنستے پیچھے پیٹھ اور تھے کرتے خوشامد کی اس تھے ۱پر سے میں عمائدین کے دربار جو وغیرہ خان علی احمد ،نواب خان اللہ احسن حکیم ،

ہی نہایت امراء بعض کہ ہے چلتا پتہ سے خطوط کے ۔جاسوسوں تھا شبہ پر ان کا جانے مل سے دشمنوں کہ تھے رہے نہ معتبر پر بنا اس میں نظر کی عوامدولت پاس کے جن تھے بھی ایسے امراء بعض ۔ تھیں پہنچتی ذریعہ کے انہیں کو انگریزوں خبریں ساری کی دربار ۔ تھے مبتلا میں سازشوں ناک شرم

کی ظاہر آامادگی پر کرنے مدد سے روپیہ نے جس تھا نہ ایسا بھی امیر ایک تو پڑی ضرورت کی روپیہ میں دوران کے تحریک جب لیکن تھی، فراوانی کی

تھے ہوئے آامد بر جواہر اور زیورات کے روپیے لاکھوں تو تھا کھدوایا کو گھروں کے امراء ان نے انگریزوں جب بعد کے فتح کی دہلی جب ۱ہو۔ لیکن

پر لڑنے بلکہ کیا اظہار کا زری بے اپنی سرف نہ نے انہوں تو کیا طلب قرض روپیہ سے ان لیے کے جنگ مصارف نے وغیرہ خان بخت یا شاہ بہادر بھیامراء وقت اس ۔ ہے دی نے اللطیف عبد تفصیل کی س ا� ا تھا کیا اظہار کا ناراضگی طرح جس نے بہادر خان الدین امیں الدولہ فخر نواب ۔ ہوگئے آامادہ وتشہیر تذلیل کی دوسروں اور تھا ہوا بنا پارٹی ایک خود لیے کے مقصد لنل حصو ہرشخص لیکن تھی، رہی نہیں بندی گروہ سی کی صدی اٹھارویں گو میں

تھا۔ سمجھتا فرض پنا کوایہاں ۔اور تھی پائی نہیں پرورش فضامیں مسموم کی دہلی نے جنہوں تھے وہ لیا حصہ میں تحریک نے جنہوں صر عنا مند صحت زیادہ سے سب وقت استھا بھی خلوص کا مقصد میں اس تھا مظہر کا صلاحیتوں تنظیمی المثل ضرب کی روہیلوں خان ۔بخت تھے رہے محفوظ تک حد کسی سے اثرات کے

تعاون ساتھ کے اس شہزادے مغل اگر ۔ کی کوشش پوری کی روکنے کو ابتری اور بدنظمی میں دہلی نے اس بھی۔ جذبہ کا تنظیم عسکری اورجاتا۔ بدل رخ کا واقعات سے بہت تو لیتا کر عمل پر مشورہ کے اس شاہ بہادر میں آاخر ،یا کرجاتے

فوجوں کر پہن لباس مردانہ نے بائی لکشمی رانی ۔ ہیں ذکر قابل پر طور خاص شخصیتیں کی محل حضرت بیگم اور بائی لکشمی رانی میں ریاست نن والیاکے محل حضرت رہی۔ کرتی مقابلہ کا انگریزوں تک دم آاخری وہ او دیے لگا چاند چار میں تحریک نے شجاعت افروز حیرت کی اس کی۔ قیادت ک

لگا بازی کی جان اپنی نے اس لیے کے آازادی کی ودھ ۔ا تھے کرتے تعریف کی نفسی نیک اور مستعدی کی اس لوگ کہ ہے بیان کا شرر مولانا متعلق۔ کیا رخ کا نیپال کر چھوڑ کو باغ قیصر تو ہوگیا اونچا سے سر پانی جب رہی۔ کرتی تنظیم کی تحریک بیٹھی میں باغ قیصر تک وقت آاخر تھی ‘ دی

۔ روہیلہ لیا حصہ میں تحریک سے جوانمردی بڑی بھی نے خان محمود نواب اور خان بہادر خان میں ستر ۱۸۵۷سرداروں عمر کی خان بہادر خان میں ء

بجنور ضلع نے خان ۔محمود کیا استحکام کا طاقت اپنی خلاف کے انگریزوں اور لیا میں ہاتھ اپنے ونسق نظم کا بریلی نے انہوں ۔ تھی زیادہ سے سالخطابات کے جنگ مظفر الملک ،ضیاء الدولہ امیر کو ان نے شاہ بہادر لیا۔ کر قبضہ پر ور آادم اور نگینہ پور، ،دھام بجنور ور ،ا کیا مقابلہ کا انگریزوں میں

سزا کی شور دریائے عبور بہ دوام حبس کو الذکر رموخر او گئی دی پھانسی میں بریلی کو الذکر ،اول تھا سراہا کو خدمات کی ان اور ۔ تھے دیے۔ ہوگئے رہا سے ہی حیات قید کہ تھے ہوئے کوروانہ انڈیمان ابھی ،لیکن ملی

اور : حالات اپنے نے ریاستوں لوہارو،ان اور پاتودی دوجانہ، گڑھ، بہادر گڑھ، بلبھ نگر، ،فرخ جھجر ۔ تھیں ریاستیں سات ماتحت کے ایجنٹی کی دہلیعبد خسر کے اس اور جھجر والی خان الرحمن عبد ۔نواب لیے کر قائم تعلقات سے حکومت کی دہلی اور لیا حصہ میں تحریک ماتحت کے مصلحتوں

Page 18: 1857ء جنگ آزادی اسباب

سنگھ ناہر ۔راجہ رہا لڑتا سے انگریزوں برابر اور تھا کیا فیصلہ کا جہاد خلاف کے انگریزوں نے خان الصمد عبد ۔ دکھائی گرمی سر کافی نے خان الصمد ، تھی رہتی کتابت و خط سے دربار برابر اور تھا کیا تعاون ساتھ کے شاہ بہادر نے گڑھ بلبھ فرخ ۱۸۵۷والی ، جھجر نے انگریزوں بعد کے ہنگامہ کے ء

لکھتے کو علائی خان احمد الدین علاء میں خط ایک ۔غالب دی دے سزا کی پھانسی کو والیوں کے ان اور لیں کر ضبط ریاستیں کی گڑھ بلبھ نگر،۔ ہیں

’’ مل میں خاک عمارتیں کی ۔شہر گئیں مٹ ریاستیں کی روپیے لاکھ تیس وبیش کم نگر فرخ اور گڑھ بلب اور گڑھ بہادر اور جھجر اور قلعہ تاہ کو قصہ۔ جائے پایا کیوں یہاں آادمی مند ۔ہنر گئیں

اور ۱۸۵۷ نوعیت کسی سوال مسلم ہندو اور تھی۔ لڑی جنگ یہ بدوش دوش نے دونوں مسلمان ر او ہندو کہ ہے یہ پہلو خاص ایک کا تحریک کی ءاٹھ ف طر کی رشاہ بہاد نظریں کی سب مسلمان اور ہندو ہی میں آاغاز کے تحریک کہ واقعہ یہ ۔محض تھا نہیں سامنے کے لوگوں بھی میں شکل کسی

نشانی ایک اور علامت ایک حیثیت کی اس لیکن تسلیم اہلیت ھنا ذاتی کی شاہ ۔بہادر ہے کرتا شارہ ا طرف کی نوعیت گیر ہمہ کی ۔تحریک تھیں گئیںجلوے نادر کے عظمت تمدنی اور وقار سیاسی اپنے نے ہندوستان میں جس تھا شام کی صبح ایسی ایک وہ لیکن سہی سورج ہوا ڈوبتا ۔وہ تھی کی

۔ ہوگئیں جمع گرد کے شاہ بہادر ۔ تھیں آاگئی مقابل مد کے مغلیہ سلطنت سے عرصہ کچھ جو تک طاقتیں وہ تمام کہ تھی وجہ یہی ۔ تھے دیکھےلیکن ، تھے پیکار سر بر سے مغلوں سے مدت ایک نانا ۱۸۵۷مرہٹے ۔ کیا نہیں عذر کوئی ا� مطلقا میں کرنے تسلیم کو شاہ بہادر نے پیشوا میں ء

کے دونوں مسلمان اور ہندو نے شاہ اللہ ۔احمد رکھے ملازم پچی تو مسلمان نے جھانسی رانی ۔ رہا خان اللہ عظیم میں مشیروں خاص کے صاحببادشاہ نے انہوں اور دکیا سپر کے ہندوؤں کام کا ،پولیس نگرانی کی ٹکسال اا مثل کام اہم نہایت بعض نے شاہ بہادر ۔ کیں تقریریں میں اجتماعات مشترکہ

۔ کیا تعاون پورا ساتھ کےوہ تو تھے آاتے نظر میں چیز کسی اگر آاثار کے ناکامی اپنی انہیں تھی ہوگئی ا پید تشویش بڑی کو انگریزوں سے عمل اتحاد اس کے مسلمانوں اور ہندوؤں

جاسکتا گرایا طرح کی دیوار کی ریت تو ہندوستان متحد ،غیر میں اتحاد اور عمل اشتراک میں لوگوں کے مذاہب اور طبقوں مختلف کے ہندوستان صرفکو اتحاد اس طرح کسی کہ گئی کی کوشش پوری میں دوران کے تحریک ۔چنانچہ تھا مانند کی گراں کوہ لیے کے انگریزوں ہندوستان متحدہ ،لیکن تھا

‘‘ دوران ’’ کے ہنگامہ کرو حکومت اور لڑاؤ کہ تھی ہوئی تعمیر پر اسی عمات ساری کی عملی نت حکم کی انگریز تو بعد کے تحریک ۔ جائے کیا ختمسازش اس کہ ہے بات کی تعجب ۔ کی کوشش کی نے کر استعمال لیے کے لڑانے کو مسلمانوں اور ہندوؤں کو موقع اس نے انگریزوں اور آائی بقرعید میں

مجددی سعید احمد مولانا کہ گئے ئے پھیلا طرح اس جال غیر کے سے سازش ،اس تھے وقت شیخ مرنج مرنجاں اور حوصلہ عالی ، دل نیک بڑے جو

سے تحریک ضمنی اپنی اا فور تووہ کیا آاگاہ سے حال صورت ذریعہ کے آازردہ الدین ر صد مفتی کو ان جب نے شاہ بہادر ہوگئے متاثر پر طریقہ محسوسنہ کامیاب لیکن گئی اختیارکی تدبیر یہی بھی لیے کے ڈالنے نفاق میں وں زمیندار ہندو کے وہاں اور خان بہادر خان میں بریلی ۔ ہوگئے کش دست

ہے قابل کے مطالعہ خط ذیل مندرجہ میں سلسلہ اس ۔ : ہوسکیاودھ ’’ کمشنر چیف سیکریٹری صاحب پر کو جارج جانب من

دسمبر ،یکم لکھنؤ ہند حکومت سیکریٹری صاحب ایڈمنسٹن ایف جی ء۱۸۵۷بخدمت عالی :جناب

مورخہ بہادر جنرل گورنر کمشنر چیف مکتوب سلسلہ باغیوں ۱۴یہ مسلمان کو آابادی ہندو کی بریلی رقم کی روپیے ہزار پچاس نے انہوں میں جس ستمبر مورخہ خط کے گوں ن کپتا مجھے ہے دی اجازت کی کرنے صرف پر کرنے پیکار آامادۂ خلاف ہے ۱۴کے گئی کی ہدایت کی کرنے پیش اقتباس کا

۔ ہوئی نہیں صرف رقم کوئی پر اس اور گیا دیا کر ترک کو اس اور رہی ناکام کوشش یہ کہ ہوگا علم یہ کی والا حضور سے جسخادم کا پ آا

کوپر جارجدسمبر یکم کیمپ باغ عالم ۔ کمشنر چیف ء۱۸۵۷سیکریٹری

جوشخص کہ ہے گیا ایا کر اعلان سے طرف کی شاہ بہادر کہ دی شہرت یہ میں پنجاب نے لارنس لیے کے نے کر بدظن سے شاہ بہادر کو سکھوں پھرشاہ بہادر میں سلسلہ اس وفد ایک کا سکھوں کہ ہے بتایا نے اللطیف ۔عبد گا جائے دیا انعام روپیہ پانچ کو اس گا لائے کر کاٹ سر کا سکھ ایک بھی

دیا جواب نے شاہ ۔بہادر کی شکایت کی بات اس اور ملا آاکر : سے’’ باید ہرکیش براہل عاطفت نظر یدو نیا مہربانی جز ‘‘ازما

۱۸۵۷ ، ،سماج سیاست اور ۔ دیں کر شروع کوششیں منظم لیے کے انے کر خراب تعلقات کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے انگریزوں بعد کے ہنگامہ کے ءسے ) سال پچھتر گزشتہ جلدیں آاٹھ کی ہند تاریخ کی جس نے ایل ہنری سر ہو۔ گیا یا پھیلا نہ زہر یہ جہاں چھوڑا نہ ایسا گوشہ کوئی کا ادب اور زبان

میں ( ہندوستان تو گئی دی کر شائع ہند تاریخ ہوئی کی مرتب کی اس اگر کہ لکھا کو حکومت ۔ ہیں ہی ماخذر کا تاریخوں بڑی چھوٹی ساری ہماری

Page 19: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ گئی دی کر شائع کتاب یہ لیے کے پہنچانے طوفان تاحد کو اختلافات مسلم و ہند ۔چنانچہ گی جائیں پڑ سرد بخود خود تحریکیں قومی ساری۱۸۵۷ شجاعت میں ،ہندوستان تھا تعلق کا صلاحیتوں شخصی اور انفرادی تک جہاں ہوئی پر بنا کی اسباب مختلف کے ناکامی کی تحریک کی ء

برطانوی وغیرہ سنگھ کنور ، شاہ اللہ ،احمد خان بہادر خان ، ٹوپی تاتیا ، محل ت حضر ، خان ،بخت بائی لکشمی ۔رانی تھی نہ کمی کوئی کی وتہوراور منتشر صلاحیتیں یہ میں ۔ہندوستان تھا بڑا بہت فرق ایک ۔لیکن تھے نہ کم سے حیثیت ۔کسی وغیرہ اورٹرم ، نکلسن ، ،روز لارنس ، کینگ نمائندوں

۔ تھیں رہی کر کام پر طور اتحاد ۱متفرق کا مقصد میں سپاہیوں ہندوستانی تھیں گئی دی لگا میں چاکری کی مقصد متحدہ سب وہ میں انگریزوں اور

۔ تھا رہا لڑ لیے کے ، معظمہ ،ملکہ صرف سپاہی برطانوی ہر کے اس خلاف ۔بر تھے رہے لڑ لیے کے مقاصد مختلف طبقات مختلف ۔ تھا مفقود بالکلتھا۔ نہ فرق زیادہ بھی میں کار طریقۂ اور تھے ایک مقاصد کے ان

ملک نے کوششوں انفرادی اور مقامی جاسکا۔ لایا نہ ماتحت کے تنظیم مرکزی ایک کسی کو تحریک پوری کہ تھی یہ نصیبی بد بڑی ایک کی ہندوستانمدت کی ماہ چار ہوا۔ نہ ممکن کرنا استعمال پر طور کے کوشش منظم ایک خلاف کے اقتدار ملکی غیر کو ابتری اس لیکن دی کر پیدا تو ابتری میں

ہوجاتا۔ کامیاب میں لینے کر ب جذ اندر اپنے کو نظام ہند کل جوایک جاسکا دیا نہ ترتیب نظام ایسا کوئی میں دہلی میںنہ اور ، گردی نادر ، گردی مرہٹہ ، گردی جاٹ تھا۔ دورہ دور کا وابتری انتشار میں ملک سے صدیوں دو ا� تقریبا کہ تھا یہ سبب بڑا ایک کا بدنظمی اسضبط یی اعل جس لیے کے مقابلہ کے انگریزوں ۔ تھا دیا کر کھوکھلا کو بنیادوں کی نظام سیاسی کر بگاڑ توازن کا زندگی سماجی نے فتوں آا کن کن معلوم

لینے ’’ حصہ میں ہنگامہ کہ تھے کرتے کہا خان اسمعیل محمد رکن ایک کے مجاہدین ۔جماعت تھا نہ پتہ تک دور ر دو کا اس تھی ضرورت کی ونظم۔ہر تھی رقابت سخت میں وں سردار ۔پھر لگتے بھاگنے وار سراسیمہ لوگ تو اڑتی افواہ کوئی ۔کہیں تھی سی کی بھیڑ منظم غیر ایک حیثیت کی والوں

معمولی کی ر دو ابتدائی تھی ہوئی بڑھی سے حد بدلگامی کی یورپیوں خصوصا جائے ھ بڑ آاگے خود کر گرا کو دوسرے کہ تھی یہ کوشش کی سردارپر : ) سر کے جس یعنی جیے ہو بادشاہ وہی دیے رکھ پنہی پر موڑ کے جہ تھے کہتے کہ تھا دیا کر پیدا غرور درجہ اس سے میں ان نے کامیابیوں وقتی

۔ گا ہوجائے بادشاہ وہی گے دیں رکھ تار جومالی ترین سخت انہیں ، تھے ہوگئے جمع گرد کے شاہ بہادر جو سپاہی ہندوستانی کہ جاسکتی کی نہیں فراموش حقیقت یہ بھی سے اعتبار اقتصادی پھر

فکری بے بھی فوج کوئی یمں صورت ایسی تھی پڑتی ضرورت کی لینے قرض روپیہ لیے کے اخراجات ضروری کی فوج دن آائے ۔ تھیں آارہی پیش دشواریاںجب نے شاہ بہادر ۔ ہے کی نقل گفتگو کی حق فضل مولوی اور شاہ بہادر میں روزنامچہ اپنے نے لال جیون ،منشی تھی سکتی کر نہیں کام ساتھ کے

: کہ : ہے کا بات اسی تو افسوس کہا نے انہوں تو لڑاؤ خلاف کے انگریزوں اور جاؤ لے لیے کے لڑانے کو افواج اپنی کہ دیا حکم کو صاحب مولوی۔ ہیں نہیں دار ذمہ کے دینے تنخواہ کی ن جوا مانتے نہیں کہا کا ان سپاہی

کہا رگ شہ اقتصادی کی ہندوستان کو جن ۔اور تھے خوشحال زیادہ سے سب سے اعتبار معاشی جو تھے علاقے وہ میں ہاتھ کے انگریزوں ازیں علاوہہوچکے ابتر حالات معاشی کے جہاں تھے وہ تھے شدید زیادہ سے سب جذبات خلاف کے انگریزوں جہاں علاقے وہ کے ہندوستان ۔شمالی تھا جاسکتابرداشت کو مصارف کے جنگ کسی وہ کہ تھا دیا کر جان بے اتنا کو علاقوں ان نے سازشوں اندرونی اور حملوں ،بیرونی بدنظمی سیاسی ۔مسلسل تھے

۔ تھے سکتے کر نہیں ہیکہ چاہیے کرنا نہیں انداز نظر کو حقیقت اس باوجود کے تجزیہ م تما اس لیکن ہے جاسکتی کی دہی نشان بھی کی اسباب سے بہت اور کے ناکامی

کی ۱۸۵۷اگر سائنس ر او انقلاب ۔ تھا سکتا رکھ نہیں ر برقرا کو آازادی اپنی تو ہوجاتا بھی کامیاب خلاف کے انگریزوں پر طور وقتی ہندوستان کا ء نے پسندی قدامت اور تھے بیٹھے اوڑھے لبادہ خستہ کا تمدن طرز قدیم تک ابھی ہندوستانی لیکن تھا دیا بدل بالکل کو زندگی انسانی نے ایجادات نئی

میں صورت ایسی تھا لیا جکڑ کو قدموں کے سکتی ۱۸۵۷ان نہیں توڑ تھی سکتی کر ڈھیلا ف کوصر زنجیروں غلامی کامیابی کی تحریک کی ء تھی۔

انیسویں ل مثا کی جس کیا برپا ہنگامہ وہ کا گری وغارت قتل دیا۔اور ڈال میں شعلوں کے آاگ انتقامی کو ملک سارے نے انگریزوں بعد کے دہلی فتحتاریخ کی انسان صدی گناہ بے اور معصوم ۔ہزاروں ملتی نہیں بھی سے تلاش ۔ ۱میں ہوگئے کاشکار بربریت اور ظلم اس

کا بازاروں ۔ تھیں آات نظر ہوئی منڈلاتی چیلیں اور کوے گرد کے نعشوں ہوئی لٹکی سے درختوں جہاں تھے ایسے گاؤں شمار بے میں ہندوستان شمالیکہ تھا یہ : عالم

ہیں ڈالتے کشتی پہ کشتیوں کے کھینچ سے گھروںہیں والے رونے نہ ہے کفن نہ ہے گور نہ

عام کہ تھا یہ سبب کابڑا اس ہوا۔ نازل عتاب سے طور خاص پر مسلمانوں ،لیکن سکا بچ نہ سے دستی چیرہ کی انگریز بھی کوئی مسلمان اور ہندو تو یوںتھا ہوا کیا ا پید کا مسلمانوں صرف ہنگامہ پورا کہ تھا جاتا کیا خیال یہ پر دیئے ۱طور کر تیغ تہ پر ت شبہا معمولی معمولی مسلمان ہزاروں ۔چنانچہ

Page 20: 1857ء جنگ آزادی اسباب

سید سر ۔ لگے پھرنے مارے دربدر میں عالم کے مفلسی اور کس بے خاندان شریف سینکڑوں اور ہوگئے محتاج کو شبینہ نن نا گھرانے مسلمان ۔ہزاروں گئےہیں ،لکھتے تھا دیکھا ہوا گزرتا سے سر کے مسلمانوں کو خون موج اس نے : جنہوں

۔ ’’ تھا جاتا نہیں دیکھا سے مجھ وہ تھا کا قوم وقت اس حال جو اور گی پائے عزت کچھ اور گی پنپے پھر قوم کہ تھا سمجھا نہیں ہرگز وقت اس میںدیے کر سفید بال میرے اور دیا کر بڈھا مجھے نے غم اس کہ کیجئے یقین آاپ ۔ رہا میں غم اسی اور خیال اسی میں روز ۲چند

تھی تباہی کی دہلی ناک عبرت زیادہ سے کی ۳سب وہاں تھی نشانی آاخری کی تمدن ایک بلکہ تھی، نہ مرکز ہی کا تحریک ہنگامی ایک صرف وہ

بازار، کا ،خانم زار با اردو خان، اللہ سعد ۔چوک رکھی نہ کر اٹھا کسر کوئی میں وبربادی تباہی کی اس نے ۔انگریزوں تھی رکھتی تاریخ اپنی چیز ایک ہررام ا، کٹر کا خان سعادت گنج، رام کٹرا، دھوبی کٹرا، پنجابی ، بازار کا گلیوں ، گھاٹی کی گنج دریا ، حویلی کی دوراں خان کوچہ، کا بیگم بلاقی

طرح اس کو مسجد ، چوبی مسجد، آابادی نگ اور مسجد، آابادی اکبر ، البقاء دار ، گاہ درس شاہی علاوہ کے ، مکانات کے والے کودام داس جیتھا لکھا میں خط ایک میں زمانہ اسی نے ۔غالب چھوڑا نہ باقی تک ونشاں نام کہ کیا : مسمار

۔ ہوجائے مکان کا ہو و جائیں اٹھ اگر وہ ہیں پڑے جوڈھیر کے ۔اینٹوں ہے ودق لق صحرا مبالغہ بے تک دروازہ گھاٹ راج سے جامع مسجدہوگیا طاری وہراس خوف پر دلوں سے اس تھا بہایا خون ساتھ کے دردی بے اور سفاکی جس نے داستان ۱انگریزوں کی یی صغر نت قیام اس کو کسی اور

جرا کی نے کر پر مرتب عنوانات مذہبی نے لوگوں ۔کچھ ہوسکتا نہیں عمل پر فروبند، شیشہ سرائیں ، تو ہے جاتا بڑھ سے حد جب غم لیکن ۔ ہوئی نہ ت

ڈائر تو لیا کام سے ت اا جر زیادہ نے لوگوں کچھ ، کی وزادی آاہ سے زبان کی وبلبل گل نے لوگوں کچھ ، کی کوشش کی بھلانے کو غم اپنے کر لکھتحریک اور رہے نمایاں بھی یہاں آاثار کے اس تھی ہوگئی پیدا کیفیت لانمٹ جو کی خوف سے وتشدد جبر انگریزکے لیکن دیے کر مرتب روزنامچے اور یاں

مذہبی یا ہو شاعری کی دور اس کہ ہے یہ حقیقت ۔ ہوئی نہ اات جر کی تک اظہار کے جذبات اپنے ، کیا تو ہمت کی تجزیہ مندانہ ت اا جر کےکی تحریک اس جو کو خان بخت ۔ ہیں آاتی نظر ہوئی چھائی گھٹائیں گہری کی مرعوبیت ذہنی اور قنوطیت ، تذکرے یا ہوں کتابیں ،تاریخی تصانیف

میں غدر نن داستا ، کھدا گھس نے کسی اور ، کمبخت ، نے کسی ہے کہا ، بدبخت ، نے نویس تذکرہ ،کسی تھا میں شخصیتوں ممتاز زیادہ سے سبتصویر یہ کی خان :بخت

آایا میں دربار سے طرف کی چبوترہ کے حمام عقب ، کھلی یا چند ہوا، لپٹا انگوچھا یک پرا سر ، ادھیڑ قد، ،پستہ اندام فربہ پوربیا ایک کہ ہوں کیا دیکھتاکر پکڑ ہاتھ کا بادشاہ آاکر تھا۔پاس سنتا کب وہ مگر ، ہو آاتے چلے کہاں ہیں ہیں کہ بھی روکا نے بہنوئی ۔میرے آایا چلا پاس کرکے سلام کو بادشاہ اوررکھ پر سینہ کے اس سے زور ہاتھ اور ۔ لگا کانپنے کے غصہ مارے اور رہی نہ تاب مجھے کر سن بات یہ ۔ کیا بادشاہ تمہیں نے ہم بڑھو ۔سنو لگا کہنےاور گیا ہٹ پیچھے قدم تین دو سے دینے دھکا اس وہ ۔ ہیں کرتے گستاخی طرح اس میں دربار کے بادشاہوں تمیز ،بے ادب اوبے کہ رکہا او دیا دھکا کر

۔ ہے یہی خان بخت جرنیل بدبخت وہ کہ تھا معلوم کیا مجھے لی۔ کھینچ تلوار بھی نے میں ، ڈالا ہاتھ پر قبضہ کے تلوار نے اس اور سنبھلا گرتے گرتے

،وقتی جذبات حقیقی ر او ہے دیا کر کم کو افادیت اور اہمیت تاریخی کی تذکروں بیشتر کے دور اس نے اس ہے دار ئینہ آا کی مرعوبیت ذہنی جسسنی ’’ نہیں دھڑکنیں چین بے کی دل لیکن ہے جاسکتی توسونگھنی بو کی ، وکفن کافور میں ان کہ ہیں گئے دب طرح اس میں بوجھ کے مصلحتوں

۔ جاسکتیںظہیر اور نامچے روز کے ل لا جیون منشی اور الدین معین اور ، سبق دس کا غالب ہند، ت بغاو اسباب رسالہ کا سید سر میں سالوں اور تذکرون معاصر

۔ ہیں ذکر قابل پر طور خاص غدر داستان کتاب کی الدینسید نہ سر ہمت کی لکھنے کو کسی بھی متعلق کے واقعات کے اس کیا ذکر تو کا تجزیہ کے اسباب کے غدر وقت اس تھا لکھا رسالہ اپنا وقت نیجس

کر دے جواب یہ کو مصلحتوں تمام کی وقت نے سید ۔سر تھی : ہوتی ، تھا نہ آاسان لگاناتو الزام کا ہونے باغی پر ان لیے اس تھی کی ہمدردی بہت کی انگریزوں میں زمانہ کے ہنگامہ نے سید ۔سر لیا اٹھا قلم پر موضوع اسوہ کہ تھا ار سو ایسا خون کا انتقام وقت اس پر انگریزوں گیا۔ سمجھا نہیں اچھا کو کوشش اس ک ان میں حلقوں بعض کے انگلستان بھی پھر لیکن

رسالہ یہ سے تدبر انتہائی لیکن صفائی نہایت نے سید سر ۔ تھے نہ آامادہ پر سننے متعلق کے وعلل اسباب کے ہنگامہ سے ہندوستانی ایک عنوان کسیاور گہرائی اس نے ہندوستانی کسی کہ ہے یہ حقیقت ۔ دیا کر پیش کر لے ا سہار کا دوستی انگریز اپنی کو حقیقتوں تلخ ہی نہایت بعض اور دیا ترتیبدلائی توجہ طرف کی غدر اسباب ساتھ کے اات جر بڑی اور ہیں کیے نقاب بے رخ ہی کتنے کے تصویر نے انہوں ۔ لیا نہیں جائزہ کا تحریک سے محنت

۔ ہےبہادر دربار اور لکھنے اشعار کے سکہ کہ ہوگا معلوم تو جائے دیکھا سے نظر گہری ۔ ہے غالب پہلو کا خوشامد اور مرعوبیت ذہنی میں دستنبو کے غالب

Page 21: 1857ء جنگ آزادی اسباب

سوز یقینا میں اوربعض ہیں ملتے جذبات حقیقی متعلق سے ہنگامے میں خطوط کے ان ۔ ہے محرک کی اس خواہش کی دھونے کاداغ حاضری میں شاہی۔ ہے لکھا نے انہوں سے قلم کے مصلحت اور ہیں بولے سے زبان کی انگریز وہ میں دستنبو لیکن ہے آاتی بو کی دل

آازاد الکلام ابو مولاناحقیقت 1857 ایک ۔ ۔ ۔ فسانے کئی ۔

ستاون) ) سو اٹھارہ کتاب کی سین این ایما( 1857ایس کی ہند نت حکوم کتاب یہ تھی۔ ہوئی شائع پر موقع کے برسی سالہ صد کی آازادی جنگ پہلیمقدمہ ) ۔یہ تھا کیا تحریر مقدمہ کا کتاب اس تھے تعلیم وزیر وقت اس جو نے آازاد الکلام ابو مولانا تھی۔ گئی لکھی ایک( 1857پر کا وجہد جد کی

ہے ( جز اہمکمیشن ) س ڈ ریکار یکل ہسٹار انڈین قبل سال پانچ تقریبا سے اجلاس( Indian Historical Records commissionآاج سالانہ کے

نے میں ، سے 1857میں میں ان ہم ۔اگر تھا دیا زور پر جانے لکھے تاریخ نو نر ازس کی ، ہے جاتا دیا نام کا بغاوت کی سپاہیوں پر طور عام جسے کیجد عظیم اس تک ابھی کہ ہوا محسوس مجھے باوجود کے ۔اس ہے زیادہ کافی بھی تعداد کی ان تو لیں ہی کو کتابوں کی دانوں تاریخ مشہور صرف

گئی لکھی کر رکھ سامنے کو نگاہ نقطہ کے انگریزوں سب وہ ہیں گئی لکھی کتابیں بھی جتنی ۔ ہے گئی لکھی نہیں تاریخ معروضی کوئی کی وجہد۔ ہیں

بھی جتنی پر موضوع ۔اس بنارہا تنازعہ کا طرح عجیب بھی باہر اور میں ہندوستان پورے کر لے کو مقصدیت کی وجہد جد عظیم اس تک عرصے ایکنے انہوں ۔ ہے گیا دیا نام کا بغاوت کی فوج ہندوستانی خلاف کے حکومت کی وقت اس ہی مطابق کے قانون اسے میں سب ان ہیں گئی لکھی کتابیں

وجہ کی جانے کیے قبضہ ذریعہ کے لارڈڈلہوزی جنہیں تھیں حکومتیں ایسی یہ لیکن دیا ساتھ کا بغاوت بھی نے رجواڑوں ہندوستانی کچھ کہ مانا تو یہفرو کو بغاوت نے اس ، تھی حکومت جائز اور قانونی کی ملکہ وقت اس جو حکومت برٹش کہ ہے کہنا کا مورخین ایسے ۔ تھیں ہوگئی پیدا شکایتیں سے

۔ دی کر قائم حکومت کی قانون دوبارہ اور دیا کرمیں سب ان ہیں گئی لکھی کتابیں بھی جتنی پر موضوع نگاہ 1857اس نقطہ دوسرے کسی اسے اور ہے گیا کیا بیان سے طریقے اسی کو واقعات کے

کے شہنشاہ مغل وہ کہ تھا ہی اتنا صرف حق جائز کا کمپنی انڈیا ایسٹ کہ ہے ضروری بتانا یہ یہاں تاہم ۔ ہے گئی کی نہیں کوشش کی سمجھنے سےفوج وہ کیا حاصل کو علاقوں جن نے کمپنی سے بعد کے اس ۔ ے کر وصول گزاری مال کی اڑیسہ اور ،بہادر بنگال سے حیثیت کی ایجنٹ یا دیوانان کے کمپنی نے فوج جب اور کیا نہیں چیلنج کو اختیار کے علاقائیت اور ملکیت کی شہنشاہ نے کمپنی بھی کہیں لیکن ، سے وجہ کی فتح کیافواج ہندوستانی کیا کہ ہے سکتا بن موضوع کا بحث یہ لیے اس ۔ کی اپیل لیے کے بات اس سے شہنشاہ نے اس تو دیا کر انکار سے ماننے کو حقوق

نے مصنفین تر زیادہ جہاں کہ ہے ضروری بتانا بھی یہ ؟ ہے جاسکتا دیا نام کا یاغداری بغاوت خلاف کے حکومت مستحکم کی ملک کو بغاوت کیہی اتنی نے لوگوں کم بہت وہاں ، ہے کیا بیان سے تفصیل بہت کو مظالم گئے کئے پر بچوں اور عورت مرد یوروپین ذریعہ کے خواص اور عوام ہندوستانیمیں سلسلہ کے بغاوت اس میں ابتداء کی صدی بیسویں کہ ہے خیال اپنا میرا ۔ ہے کیا بیان کو مظالم کے انگریزوں گئے کیے پر ہندوستانیوں سے تفصیل

ریکارڈس امپیریل جو ہے مشتمل پر دستاویزوں انہیں پر طور مکمل بھی تاریخ یہ ۔ ہے ضروری ذکر کا ،اس گئی لکھی تاریخ جو مشتمل پر جلدوں تینبعد کے سال پچاس کہ ہے ہوگئی بات عام ایک یہ اور ہے گیا دیا نام کا انڈیا آاف آارکائیوز نیشنل اب جسے اور تھی موجود میں آارکائیوز کے ڈیپارٹمنٹ

کے جنگ سے نپولین جو ہوئی رائج بعد کے فیصلے اس کے برٹین یونائٹیڈ بھی بات یہ ۔ ہے جاتا دکھایا کو اسکالر چ ریسر کو دستاویزوں سرکاری سبھی۔ کیا اختیار رویہ یہی بھی نے ممالک دوسرے کے یورپ اور تھا کیا نے حکومت برٹش اور 1907بعد ہوئے پورے سال پچاس کے بغاوت ہندوستانی میں

کہ کیا س محسو نے حکومت کی وقت اس کو 1857شاید سبھی لیے کے چ ریسر ب جوا جائے لکھی کر لے کو دستاویزوں سرکاری تاریخ کیتھی۔ والی ہونے حاصل

ہوئی لکھی کی مصنفین انگریزی طرح جس ہے تی کر بیان کو وجہد جد س ا سے طرح اسی اور ہے مبنی پر ڈ ریکار آافیشیل چہ اگر بھی تاریخ یہکی یہاں تھا تعلق کا اودھ تک جہاں کہ ہے کیا اظہار پر طور واضح نے مصنف ۔ ہے آایا سامنے پہلو نیا ایک صرف میں شاعت ا کی کتاب ۔اس کتابیں

حملے اس عوام اور تھا چھینا کچھ بہت سے بادشاہ ہندوستانی ایک نے کمپنی میں ہی ۔حال تھے جاتے پائے آاثار کے بغاوت پر سطح قومی میں جنگ۔ تھے ہوگئے مخالف زبردست کے

کی اودھ تاہم تھی۔ کی انصافی نا ساتھ کے اودھ نے کمپنی کہ کیوں تھے سمجھتے حق جائز اپنا کو کرنے بغاوت خلاف کے کمپنی وہ لیے اس اوربات اس میں مراسلوں سرکاری اپنے بھی نے کیننگ لارڈ کہ کیوں تھا نہیں انکشاف نیا کوئی جانا پایا کا چنگاری کی بغاوت پر پیمانے قومی میں بغاوتکوئی میں دہرانے کو باتوں ان کو مصنف کے یہذا کتاب لیے اس تھی۔ مزاحمت کی پیمانے قومی سے طرح ایک جدوجہد کی اودھ کہ ہے کیا اعتراف کا

پر اودھ ساتھ کے داروں تعلق کے اودھ شاید کہ ہے کہا بھی یہ نے مصنف ۔ تھا چکا کر پہلے لارڈکیننگ خود اعتراف کا ،جس ہوئی نہیں قباحتتھی۔ میں اعتراف کے حقیقت اسی وہ اا غالب تھی گئی دکھائی دلی رحم جو بعد کے قبضے

کہ ہے آاگیا وقت کہاب کیا محسوس نے میں ہوں چکا کہہ ہی پہلے میں کہ ۔ 1857جیسا جائے لکھی تاریخ معروضی اور نئی ایک کی تحریک کیوہ 1954 ہی دوران کے جشن سالہ صد کے بغاوت کہ کیا محسوس نے میں ر او ہوا متوجہ دوبارہ طرف کی موضوع اس ذہن میرا میں خزاں موسم کے

چنگاری پہلی کی بغاوت ۔ جائے لکھی تاریخ عالمانہ اور نئی کی اس جب ہوگا موقع جہد 1857مئی10مناسب جدو اس جب ہوگی ساعت نیک وہ۔ جائے کی شائع تاریخ جامع اور مکمل کی

کر مل نے جنہوں تھے لوگ ایسے کچھ کہ ہے گیا دیا مشورہ کا طرح اس ۔ تھے دار ذمہ لوگ کون لیے کے بغاوت اس کہ ہے جاتا کیا اکثر سوال یہ

Page 22: 1857ء جنگ آزادی اسباب

پر پہلو اس کہ ہوں سمجھتا ضروری اعتراف کا بات س ا میں تھی۔ ہونی ابتدا کی تحریک اس تحت کے جس کی وضع اسکیم رایسی او بنایا منصوبہاسباب کے بغاوت اس کہ تھی کی تفتیش زیادہ بہت کی بات اس نے حکومت برٹش بھی بعد کے اس اور میں زمانے کے غدر کہ کیوں ہے شک مجھےپھیلی پر پیمانے وسیع اتنے کہ نہیں تیار قطعی لیے کے کرنے قبول کو بات اس کہ تھا دیا بیان یہ میں منس کا آاف ہاؤس نے بری سیلس لارڈ ۔ تھے کیا

بھی اور کچھ پشت پس کے اس ہے آاتا نظر پر سطح کچھ جو کہ تھا یقین انہیں تھی۔ ہوئی پیدا کر لے کو گولی ملی چربی صرف تحریک ور طاقت اتنیسبھی پھیلی میں زمانے اس ۔ بنائے کمیشن سے بہت لیے کے کرنے مطالعہ کا سوال اس بھی نے حکومت کی پنجاب اور ہند حکومت ۔ تھیں باتیں

ایک بھی یہ علاوہ کے اس ۔ گئیں بھیجی اطلاعات کر رکھ اندر کے چپاتیوں کہ تھی ہوئی مشہور بھی یہ کہانی ایک ۔ گیا کیا مطالعہ بغور کا افواہوںجون خاتمہ کا حکومت برٹش میں ہندوستان کہ تھی گوئی تفتیش 1875پیشن زیادہ بہت گا۔ ہوجائے پر ہونے پورا سال سو کے جنگ کی پلاسی میں

مشترکہ میں سازش اس عوام رہندوستانی او فوج کہ یہ اور تھی بند منصوبہ سے پہلے بغاوت یہ کہ ملا نہیں ثبوت کوئی کا اس بھی بعد کے پڑتال جانچ اورگئی کی ریسرچ بھی جو میں سلسلہ اس میں بعد اور تھا سے زمانے ایک خیال یہی ۔میرا پھینکیں اکھاڑ کو حکومت کی کمپنی وہ کہ تھے شامل پر طور

۔ ہوسکے تبدیلی کوئی میں خیالات میرے سے جس آائی نہیں سامنے ایسی حقیقت نئی کوئی سے اسبھی جو ۔ تھے شامل میں سازش سمجھی سوچی سے پہلے وہ کہ جاسکے کیا ثابت یہ کہ گئی کی کوشش کی بات اس میں مقدمے ظفر شاہ بہادر

صرف آادمی شعور ذی ہر کو افواہوں کی طرح اس اور تھے رہے چلا مقدمہ جو ہوسکے نہیں مطمئن بھی حکمراں برٹش وہ سے ،ان گئیں کی پیش گواہیاںمیں حیرت بھی انگریز بلکہ شاہ بہادر خود صرف نہ سے تحریک کہ آائی سامنے بات یہی سرف بھی دوران کے مقدمے ،بلکہ ہے مجبور پر سمجھنے افواہ

۔ تھے گئے پڑگا پڑے ماننا یہ ہمیں تو ہو کہنی بات سچ اگر ۔لیکن ہے لکھا میں بارے کے جدوجہد اس بھی نے ہندوستانیوں کچھ میں سالوں ابتدائی کے صدی اس

کی آازادی کی ہندوستان کو جدوجہد اس نے مصنفین کے ان ۔ ہیں پروپیگنڈہ سیاسی بلکہ ہیں نہیں تاریخ وہ ، ہیں لکھی نے انہوں کتابیں بھی جو کہبھی کا کرنے منظم کو بغاوت اس کو افراد چند نے انہوں تھا۔ چلایا خلاف کے حکومت برٹش نے امراء ہندوستانی جسے ہے دیا نام کا جنگ بند منصوبہاس کے کر استوار تعلقات سے تنظیموں فوجی ہندوستانی تمام نے اس تھا، جانشین کا راؤ باجی جوپیشوا صاحب نانا کہ گیا کہا یہ ۔ ہے ٹھہرایا دار ذمہ

اپریل اور مارچ انبالہ اور لکھنؤ صاحب نانا کہ ہے کہا یہ نے انہوں میں ثبوت کے اس تھا۔ بنایا منصوبہ مئی 1857کا بعد کے اس اور تھے گئے میںجاسکتا۔ 1857 مانا نہیں ثبوت وافر لیے کے ت با اس کو بات سی اتنی صرف ہوا۔ آاغاز کا جدوجہد اس میں

کو خان نقوی علی وزیر کے اودھ مورخین کے طرح اس جب ہے ہوجاتا واضح وقت س ا یہ ، ہیں مبنی پر افواہ اور بنیاد بے قدر کس خیالات کے طرح اسسمجھے خیز مضحکہ زیادہ سے حد اسے وہ ہے کیا مطالعہ کا تاریخ کی اودھ بھی نے کسی جس ۔ ہیں بتاتے والا کرنے سازش خاص لیے کے جنگ اس

بات اس کو شاہ علی واجد انہیں کے کر اعتماد نے انگریزوں پر جس تھا شخص وہی یہ ۔ تھے پٹھو کے کمپنی انڈیا ایسٹ خاں نقوی علی کہ کیوں گاخاں نقی علی نے رام آاوٹ جنرل ریزیڈنٹ برٹش بلکہ ۔ دیں کر د سپر کے انگریزوں سے مرضی اپنی کو حکومت اپنی وہ کہ تھا کہا کو کرنے تیار لیے کےکے منصوبے اس اپنے خان نقی علی گا۔ جائے نوازا سے واکرام انعام زیادہ بہت انہیں تو ہوگئے کامیاب میں مشن اپنے وہ اگر کہ تھا کیا وعدہ بھی یہ سےگا لے کر حاصل تخت وہ سے بہانے کسی طرح اس کہ ہوا پیدا خوف کو ماں کی شاہ علی واجد کہ تھے رہے کر کوشش کر توڑ جی سے طرح اس لیے

کے اجازت کی ان کہ دیا کر جاری حکم یہ اور رکھا اسے میں خانہ زنان اور لیا کر میں قبضے اپنے پر طور فوری کو مہر کی حکومت نے انہوں سلیے ۔ا۔اس تھے دیکھتے سے حیثیت کی غدار کو خاں نقوی علی وہ لیے اسی اور تھیں معلوم کو عوام کے لکھنؤ باتیں ساری یہ جاسکتی۔ نہیں کہیں یہ بغیر

۔ ہے ہوجاتا غلط ہی بالکل تھا، سازشی بڑا سے سب پردہ پس کے بغاوت شخص ایسا کہ کہنا یہ لیےاور تھا ایجنٹ کا صاحب ،نانا خان اللہ ۔عظیم تھا بنایا منصوبہ کا بغاوت اس کر مل نے دونوں باپوجی رنگو اور خان اللہ عظیم منشی کہ گیا کہا بھی یہ

تھی۔ رہی جا دی کو راؤ باجی جو سکے کر حاصل پنشن وہ لیے کے ان وہ تاکہ تھا بھیجا لندن انہیں لیے کے پیروی کی مقدمے اپنے نے صاحب ناناکے ڈلہوزی بھی باپوجی رنگو طرح ۔اسی ہوئی سے پاشا عمر ملاقات کی ان میں جنگ کی کریمیا جہاں گئے ترکی وہ پہلے سے آانے واپس ہندوستان

۔ تھے ہوئے گئے لیے کے کرنے ،اپیل تھا گیا لیا کر شامل میں حکومت برٹش کو ستارہ مطابق کے جس ، خلاف کے فیصلےرچی۔ سازش کی طرح اس وہاں کر مل نے ونوں د ان کہ ہے گیا لیا مان ،یہ تھے گئے لندن تحت کے مقاصد الگ الگ وہ کہ کو، بات سی اتنی صرف

نے انہوں پر باتوں ان کہ جائے لیا بھی مان یہ اگر اور ۔ جاسکتا مانا نہیں شہادت کو آارائیوں قیاس کی طرح اس کہ چاہیے ہونی صاف بالکل بات یہ یہاںوالے ہونے میں بعد میں ہندوستان کہ تک جب ، تھے محرک وہی کے بغاوت اس کہ جاسکتا نکالا نہیں نتیجہ سے اس تو کی بھی بات کوئی میں لندنکہ سکتے کہہ نہیں یہ ہم میں موجودگی عدم کی گواہی یا ریکارڈ ۔کسی ہے نہیں ثبوت کوئی کا رشتوں ایسے ۔ جائے مل نہ سے ان سلسلہ کا واقعات

اپنے کاغذات سبھی کے ناناصاحب نے انگریزوں بعد کے ہونے قبضہ پر بٹھور نزدیک کے کانپور تھی۔ رچی سازش کوئی نے انہوں لیے کے بغاوت استھی گئی دی اطلاع انہیں میں خط ۔اس گیا بھیجا نہیں کبھی انہیں جو تھا بھی نام کے پاشا عمر خط ایک میں کاغذات ان ، تھے لیے کر میں قبضہ

ملتا اشارہ کوئی ایسا میں کاغذات دوسرے کے خان اللہ عظیم نہ اور میں خط اس تو نہ ۔ ہے دی کر بغاوت خلاف کے انگریزوں نے فوجیوں ہندوستانی کہتھی۔ کی ش ساز کوئی لیے کے بغاوت اس نے انہوں کہ ہو گیا کہا یہ میں جس ہے

کہ ہیں مجبور لیے کے پہنچنے پر نتیجہ اس ہم سے ان دہیں موجو ثبوت بھی ہی 1857جو نہ اور تھی نتیجہ کا سازش بند منصوبہ کسی تو نہ بغاوت کیسے اس عوام ہندوستانی دوران کے حکومت سوسالہ کی کمپنی کہ اتنا صرف وہ ا ہو بھی کچھ جو ۔ تھا رہا کر م کا دماغ سازشی کوئی پیچھے کے اس

محسوس یہ کو ہندوستانیوں تک دنوں بہت اور کیا شروع دینا پر م نا کے شہنشاہ یا نواب دخل عمل یہ میں شروع نے کمپنی کہ کیوں تھے ہوچکے ناراضہے گیا لیا بنا غلام انہیں میں ملک اپنے خود کہ ہوا احساس یہ انہیں رجب او ۔ ہے لیا کر حاصل اقتدار کا یہاں نے لوگوں ملکی غیر کہ ہوسکا نہیں ہی

۔ سکیں آاوازاٹھا خلاف اسکے وہ کہ ہوگئے پیدا حالات ایسے تو

Page 23: 1857ء جنگ آزادی اسباب

میں ۔ہندوستان گا جائے مل میں حقائق ذیل مندرجہ جواب کا اس ؟تو لگی کیوں ت مد کی سال سو میں پھیلنے کے ت بغاو اس کہ جائے پوچھا یہ اگرپاکر فتح پر طور فوری پر ملک دوسرے کسی ذریعہ کے ملک ایک کسی یہ ۔ ملتی نہیں کہیں میں تاریخ مثال دوسری کوئی جیسی فروغ کے طاقت برٹشکی مدد کی آاوروں حملہ نے عوام کے ملک خود میں جس ہے کہانی کی ہونے داخل دھیرے دھیرے میں ملک کسی بلکہ ہے نہیں معاملہ کا ہونے قابضاگر ۔ ہوگئے کامیاب میں ڈالنے دہ پر پر مقصد اصل اپنے وہ سے وجہ اس اور کی حاصل نہیں پر نام کے تاج برٹش فتح نے انگریزوں کہ بھی حقیقت یہ ۔

مل طاقت ملکی غیر ایک کہ ہوجاتا احساس یہ کو ہندوستانیوں تو ہوتی کی اندازی دخل میں معاملات ہندوستانی ہی سے شروع نے حکومت کی برطانیہمعاملہ اپنا نے ایجنٹس کمپنی لیے اسی سمجھا۔ نہیں حکمراں اصل اسے نے گوں لو لیے اس تھی، کمپنی تجارتی ایک یہ ۔چونکہ ہے ہورہی داخل میں

اور شہزادوں کے دربار مغل ایجنٹ بھی کوئی کا تخت ۔برٹش تھے سکتے کر نہیں ایجنٹس کے حکمراں ملکی غیر اور کوئی طرح جس کیا طے طرح اسسے چھوٹے وہ تھی۔ نہیں رکاوٹ کوئی کی طرح اس کو ایجنٹ کے کمپنی کرتا۔ محسوس ہچکچاہٹ میں کرنے کام پر اشارے کے کے لوگوں اثر ا ھبسی بہت اور دی بھی رشوت نے انہوں ۔ سامنے کے لوگوں پیشہ تجارت ہندوستانی جیسے جاتے جھک طرح اسی بھی سامنے کے کاروں نل اہ چھوٹے

گا۔ دے سزا لیے کے کام اس انہیں بادشاہ کا ان کہ ہوا نہیں خوف یہ کبھی رانہیں او ۔ کیں بھی بدعنوانیاںمقامی کسی لیے کے رکھنے آاگے کو مفاد اپنے ہمیشہ نے اس کی۔ نہیں سے نام اپنے مداخلت کوئی کبھی نے کمپنی کہ ہے بات کی کرنے نوٹ بھی یہ

اس میں بنگال طرح اسی بڑھائی۔ طاقت اپنی ہوئے کرتے حمای کی دعوے کے نواب کے کرناٹک میں جنوب نے کمپنی طرح اس الیا۔ ر سہا کا سردارتو آائی ہاتھ کے اس حکمرانی اصل کی بنگال جب کہ ہے یہ تو حد ۔ کیے وسیع اختیارات اپنے تحت کے حکم اور نام کے ناظم نواب کے باد آا مرشد نے

اور جائیں دیئے دے اختیارات کے دیوانی اسے کہ کی درخواست سے شہنشاہ نے کلائیو لارڈ ۔ سمجھا نہیں حکمراں مختار خود کو اپنے نے اس بھیکے داروں صوبے اور گورنروں کے صوبے دوسرے نے کمپنی بلکہ نہیں ۔یہی کیا کام سے حیثیت کی ایجنٹ کے شہنشاہ نے کمپنی تک دہائیوں کئی

صوبے اور گورنر ۔ بتایا ہی خادم کا شہنشاہ مغل ہمیشہ کو خود نے انہوں لیکن تھی کرتی ہوا مہر اپنی کی گورنروں میں صوبوں کی۔ اتباع بھی کی قوانینپھر اور کرتے پیش رتحائف او ہدیہ اسے ، کرتے تعظیم کی ان کر جھک تو آاتا سامنے کے لوگوں وہ جب اور رہتے منتظر کے آامد کی شہنشاہ میں دلی دار

اور کی تعظیم کی شہنشاہ طرح اسی بھی نے جنرل گورنر ۔ کرتے حاصل خلعت سے شہنشاہ میں جواب 101بعد کے اس ۔ کی پیش نذر کی اشرفیوںکی شہنشاہ میں ملک طرح اس کرتا۔ استعمال میں دستاویزوں سارے ہمیشہ جنرل گورنر خطاب یہ اور نوازا سے خطاب اور خلعت انہیں نے شہنشاہ میں

۔ ہے رہی جا ہوتی حکمراں اختیار ھبا پر ملک اس دھیرے دھیرے کمپنی خود کہ ہوا احساس یہ میں بعد بہت کو ۔لوگوں گیا رکھا قائم بھرم کا بادشاہت

سلسلہ گورنر 19یہ کے وقت اس ۔تب تھی ہوچکی وسیع تک ستلج دریائے حکومت کی کمپنی تک وقت ۔اس رہا چلتا تک دوہائیوں کی صدی ویںاس ۔ لے کر منقطع رشتہ اپنا سے شہنشاہ دھیرے دھیرے اور کرے مظاہرہ کا طاقت اپنی خود کہوہ ہے آاگیا وقت اب کہ ا ہو خیال یہ کو ہٹٹنگز لارڈ جنرل

سے روایت کی انے کونذر اس اور ملے ت اجاز کی بیٹھنے اسے تو آائے سامنے کے شہنشاہ وہ کبھی جب کہ چلی یہ چال پہلی نے اس میں سلسلہ۔ کیا نہیں بھی اصرار کوئی نے جنرل گورنر تک وقتوں کچھ ر او دیا کر مسترد کو درخواستوں دونوں ن ا کی اس نے شہنشاہ ۔ جائے کیا یی مستثن

سے نظام کے آاباد حیدر میں سلسلہ اکسایا۔اس لیے کے ہونے آازاد سے دلی کو ریاستوں چھوٹی چھوٹی لیے کے گھٹانے طاقت کی شہنشاہ نے کمپنی پھرایسا کو انگریزوں لیکن ۔ ہوئے نہیں متفق سے اس نظام ۔ دے کر اعلان کا بادشاہت مختار خود اپنی وہ کہ گئی کی درخواست سے اس گئی۔ کی پہل

ساری سے شہنشاہ پھر اور دیا کر اعلان کا ہونے آازاد سے صوبے اثر زیر کے بادشاہ پر طور فوری نے ۔اودھ گیا مل سے وزیر نواب کے اودھ ا سہار ایک۔ لی کر منقطع وفاداری

لوگوں 1835 سے بہت گیا۔ دیا نہیں نام کا بادشاہ میں جس ڈھالے سکے اپنے بار پہلی نے اس کہ لیا کر مضبوط اتنا خود کو اپنے نے کمپنی تکبن مالک کی علاقے وسیع ایک کے ہندوستان خود کمپنی کر نکل سے تجارت یا ایجنٹ کے شہنشاہ کہ ہوا احساس انہیں تب ہوا۔ صدمہ سے کواس

۔ ہے احساس 1835بیٹھی یہ میں لوگوں سے عوامل سب ان ۔ جائے دی کر انگریزی بجائے کے فارسی زبان کی عدالتوں کہ ہوا اور فیصلہ ایک ہی میںمسلح بلکہ نہیں ہی کو عوام صرف پریشانی اور ۔ ہوگئے پریشان دماغ کے لوگوں سے احساس اس ۔ ہے آاگئی تبدیلی میں رتبے کے کمپنی اب کہ ہوا

ہوگئی۔ لاحق بھی کو لوگوں کے افواج۔ تھا کیا پیش میں زمانے اس نے شہری برٹش معروف ایک جسے ہے ہوسکتا سے مطالعے اس ہمیں اندازہ کا حالات میں دہائی تیسری کی صدی انیسویں

اور گزاری مال پولیس میں خطے مغربی شمال کے پریزیڈنسی بنگال سے حیثیتوں مختلف اور تھے لڑکے کے شور سرجان شور، جان ک فریڈر آاب م عزتروزنامہ ایک والا نکلنے سے کلکتہ گزٹ انڈین یہ ۔ لکھے مضامین سے بہت سے طریقے گمنام میں گزٹ انڈین نے ۔اس تھے چکے کر کام میں عدلیہ

نے اس اور زمانے 1837تھا اس سے پڑھنے کے کتاب اس کی۔ شائع کتاب ایک سے نام کے نوٹس پر ، افیرز انڈین ، کے کر جمع کو مضامین ان میںیہ لیکن ہے قائم وامان امن طرف ہر پر طور ظاہری گرچہ کہ دہرایا کو بات اس بار بار نے اس ۔ ہے ہوجاتی عکاسی مکمل کی ذہن کے ہندوستانیوں میںجو تھی چینی بے ہوئی بڑھتی وہی یہ ۔ گے لگیں آانے نظر شعلے کے آاگ طرف ہر سے چنگاری سی ذرا میں جن ہیں طرح کی مائٹ ڈائنا اس حالات

ہوئی۔ 1837 تبدیل میں شکل کی بغاوت کیمغربی شمالی تھامسن مسٹر جسے تھی پالیسی نئی وہ تو ایک ۔ لگا نہیں وقت کوئی میں ہونے تبدیل میں بغاوت سے وجہ کی عوامل دو کو چینی بے اس ) ایسا ) ایک کا داروں زمین کہ تھی کی حمایت کی پالیسی اس نے کمپنی میں شروع تھا۔ کیا وضع نے اوراودھ آاگرہ میں بعد گورنر لیفٹینٹ کے صوبے

وجود کا زمینداروں اور امراء بڑے بڑے کہ تھا خیال کا ۔اس تھا جدا سے اس خیال کا تھامسن ۔ رہے حمایتی کا سرکار ہمیشہ جو جائے کیا پیدا طبقہکو سرکار ر او چاہیے جانا کیا ختم کو زمینداروں سے حیثیت کی طبقے ایک لیے اس کہ تھا خیال کا س ۔ا ہے ہوسکتا خطرہ بھی کبھی لیے کے کمپنی

او امراء طرح کسی کہ لیا کام سے بہانے اور حیلہ ہر نے کمپنی میں نتیجہ کے پالیسی نئی اس ۔ کرے قائم تعلق اپنا خود سے رعایا وہ کہ چاہیے۔ ہیں شکار کا تحت کے سرکار خود وہ کہ کر کہہ یہ سے طور ،خاص جائے دیا کر دخل بے سے زمینوں کی ان کو رزمینداروں

Page 24: 1857ء جنگ آزادی اسباب

برٹش کو ریاستوں ستانی ہندو ایک بعد کے ایک رفتہ رفتہ میں جس اور تھا کیا وضع نے ڈلہوزی جسے تھی پالیسی دوسری وہ کن فیصلہ زیادہ سے سباپنے صرف وفاداری کی لوگوں تحت کے زمینداروں اور امراء تھا۔ رہا گزر سے دور آاخری کے امراء ، ہندوستان میں اس ۔ تھا رہا جا کیا شامل میں علاقے

ریاستوں ہندوستانی ایک بعد کے ایک کہ دیکھا نے لوگوں جب ۔ تھا نہیں تصور کوئی کا وفاداری سے یاقوم ملک وقت اس ۔ ہوتی سے زمینداروں یا امیرمحسوس نے انہوں ۔ لگا دھکا بہت انہیں بھی سے اس تو ہے رہا جا کیا ختم کو نظام کے زمینداری رفتہ رفتہ اور ہے رہا جا بنایا باجتگزار کا انگریزوں کو

چینی بے یہ ۔ ہے رہی جا کرتی تبدیل کو نظام رسیاسی او سماجی ہندوستانی دھیرے دھیرے روہ او ہے آارہی سامنے میں رنگ اصل اپنے کمپنی اب کہ کیاعرصے پورے اس تھا۔ حلیف کا کمپنی سے سالوں ستر جو تھا صوبہ ایسا ایک اودھ لیا۔ کر قبضہ نے کمپنی اودھ جب پہنچی وقت اس کو عروج اپنے

اور کیا مجبور لیے چھوڑنیکے تخت کو بادشاہ نے کمہنی جب باوجود کے اس ۔ کیا نہیں کام کوئی خلاف کے مفاد برٹش بھی کبھی نے اودھ مینپہنچا۔ صدمہ زیادہ بہت کو لوگوں تو لیا کر قبضہ اپنا پر سلطنت

۔ تھے جاتے کیے بھرتی سے علاقے اسی فوجی تر زیادہ کے آارمی بنگال کہ کیوں پڑا پر علاقے اسی کے آابادی اثر بڑا سے سب کا شکست کی اودھ۔ تھے رہے معاون میں کرنے قائم حکومت کی اس میں علاقے وسیع کے ملک اور تھی کی خدمت ساتھ کے وفاداری سے طرح ہر کی کمپنی نے انہوں

ختم کو بادشاہ کے ان خود نے انہوں استعمال کا اس ہے ہوا حاصل اختیار جو کو کمپنی بدولت کی خدمات کی ان کہ ہوا احساس اچانک بھی انہیںکہ ہے نہیں شک لیے کے بات اس بھی ذرا میں دل میرے ۔ ہے کیا میں نے اور 1856کر میں فوجیوں سے وقت اسی گیا کیا قبضہ پر اودھ جب میں

آاگیا وقت کا پھینکنے اکھاڑ کو حکومت کی کمپنی اب کہ کیا شروع سوچنا نے لوگوں سے یہیں اور تھا ہوگیا پیدا موڈ کا بغاوت میں آارمی بنگال خصوصاموجود شواہد سے بہت میں حمایت کی نظریے اس اور کی کوشش کی جاننے کو خیالات کے سپاہی عام نے دوسروں اور لارنس دوران کے ۔بغاوت ہے

شعلہ چنگاری ہوئی دبی کہ دیا کر فراہم ضرور موقع یہ نے اس لیکن ہوئی پیدا نہیں چینی بے نئی کوئی میں فوج سے فراہمی کی گولیوں ملی چربی ۔ ہیں۔ آاگئی سامنے کر بن

لوگوں کے ذات اونچی اور رکھا پورالحاظ کا احساسات ہندوستانی نے تھی۔اس کرتی لحاظ بہت کا جذبات کے ہندوستانیوں کمپنی انڈیا ایسٹ میں ابتداواپسی ، کرتے استقبال آاکر تک دروازے اپنے کا امراء وہ کہ رہی یہ روایت ایک کی ممبران کے کونسل جنرل گورنر ۔ رکھا روا رویہ اچھا بہت ساتھ کے

، گئی ہوتی ور طاقت وہ جیسے جیسے ہوتا۔ مرتبہ کوئی میں سماج کا جس جاتا کیا ساتھ کے شخص اس ہر ایسا اور جاتے بھی کرنے رخصت انہیں میںتاثر کا ہندوستانیوں پر اس کہ گیا کیا نہیں خیال کوئی کا بات اس اور گئے کیے وضع قوانین نئے ۔نئے دیا چھوڑ رکھنا خیال کا جذبات ہندوستانی نے اس۔ سے جذبے آامیز تحقیر کسی کہ نہ کی سے وجہ کی لاعلمی اپنی حرکت کی طرح اس نے اس کہ ہے ضروری کرنا اعتراف کا بات اس تاہم ہوگا۔ کیاکو ہندوستانی کسی میں کونسل شاید ۔ ہوتے انگریز صرف ممبران سبھی کے جس کرتے سے مدد کی کونسل ایک جنرل گورنر نظم کا معاملات سارے

کو تاثرات کے رعایا حکمراں سے جس تھا نہیں بھی ادارہ نمائندہ ایسا کوئی اور ہوتا انگیز حیرت بہت لیے کے کونسل خود ہی خیال کا جانے کیے شاملبڑھتی خلیج درمیان کے رعایا کی اس اور کمپنی ۔ تھا نہیں ذریعہ کوئی پاس کے س ا کا ہونے واقف سے خیالات کے لوگوں طرح اس ۔ سکتے سمجھ

گئی۔ ہیکہ 1857 ہے ہوتا پیدا ہی بخود خود سوال یہ ۔ ہیں جاسکتے کیے اخذ سے آاسانی نتائج چند بعد کے پڑھنے بیانات مختلف میں ضمن کے واقعات کے

سرشار سے جذبے کے قومیت لوگ والے لینے حصہ میں اس کہ نہیں شک کوئی میں ۔اس پھیلی سے وجہ کی احساس کے قومیت صرف بغاوت یہ کیاپہنچائی تقویت کر بھڑکا جذبات مذہبی کے لوگوں کو جذبے کے الوطنی حب ۔ سکتی پھیل بغاوت کوئی سے جس کہ تھا نہیں زیادہ اتنا یہ لیکن تھے

کیا مشتعل کو جذبات مذہبی کے سپاہیوں بھی سے طریقوں دوسرے ۔ ہے مثال ایک کی اس تشہیر کی گولی ملی ۔چربی ہوئے کھڑے اٹھ لوگ اور گئی۔ ہوئے کھڑے اٹھ خلاف کے آاقاؤں ملکی غیر اپنے وہ ہی بعد کے س ۔ا گیا

س ا لیکن تھا مبنی پر انصاف الزام یہ خلاف کے کمپنی کہ ہے ہوتا ثابت یہ سے دستاویزات ملی میں ولیم ،فورٹ ہے سوال کا گولی ملی چربی تک جہاںممنوع لئے اس کو رسم کی ستی نے کمپنی کہ گئی پھیلائی سے آاسانی بہت بھی افواہ یہ ۔ تھے بنیاد بے الزامات دوسرے کے مداخلت مذہبی علاوہ کےاور طبقہ حکمراں کہ دیاگیا قرار ممنوع لیے اس کو رسم کی ستی تھی۔ نہیں بنیاد کوئی کی الزام اس تھی۔ کرتی نفرت سے مذہب ہندو وہ کہ دیا قراربھی کوئی ۔ ہے فعل انسانی غیر ایک یہ کہ ہوا احساس ،یہ تھے رہے کر رائے موہن رام راجہ قیادت کی جن بھی، کو لوگوں خیال روشن کے ہندوستانبھی کوئی تو ہے ہوگیا ختم جوش کا جدوجہد اس چونکہ اب ۔ جائے دیا جلا زندہ کو انسانوں کہ تھی سکتی کر نہیں برداشت اسے حکومت مہذب

تھی۔ خیمہ پیش کا بغاوت خلاف کے کمپنی ی پابند والی جانے لگائی پر ستی کہ گا سمجھے نہیں جواز وافر کو بات اس ہندوستانی ، پہنچے ٹھیس کو جذبات مذہبی کے ہندوسپاہیوں تاکہ ہے ملارہی میں آاٹے کر بنا سرمہ کا ہڈیوں کی گائے کمپنی کہ تھا بنیاد بے بھی الزام یہ طرح اسی

کی فوجیوں اور ہوگیا یقین پر اس کو فوجیوں سے بہت تو گئی پھیلائی افواہ یہ وقت جس ۔لیکن گا مانے نہیں کو الزام اس آاج آادمی شعور با بھی کوئی۔ کیا کام کا فلیتے نے اس میں بغاوت

بھی کام یہ ۔ دیئے کھول کالج اور اسکول سے بہت نے انہوں لیے کے اس اور جائے دی تعلیم مغربی کو ہندوستانیوں کہ کیا فیصلہ نے کمپنی انڈیا ایسٹکرانے قبول عیسائیت کو ہندوستانیوں یہ کہ سمجھا یہ بھی کو قدم اس نے لوگوں عام تاہم تھا۔ گیا کیا سے وجہ کی مانگ کی ہندوستانیوں خیال روشنکوئی آاج لیکن ۔ گیا دیکھا سے نگاہ کی حقارت میں سماج انہیں اور دیاگیا نام کا پادری کالا کو اساتذہ کے گاہوں تعلیم ان ۔ ہے گیا کیا لئے کے

پھیلی۔ بغاوت بدولت کی اداروں تعلیمی ان کہ گا کرے نہیں قبول یہ آادمیبغاوت 1857اب تھا۔ ہوچکا پست بہت کردار قومی کا ہندوستانیوں وقت اس کہ ہوں مجبور پر پہنچنے پر نتیجے اس میں ہوئے پڑھتے کو واقعات کے

کرتے سازش ہمیشہ خلاف کے دوسرے ایک اور رکھتے جذبہ کا رقابت میں آاپس وہ ۔ ہوسکے نہیں ہمنوا کے دوسرے ایک کبھی والے کرنے قیادت کیحسد سے دوسرے ایک کی لوگوں ہے یہ تو حقیقت ۔ گا پڑے بھی پر کام اس اثر ھ�ا بر کا اتفاقی ھنا کی ان کہ ہوا پیدا نہیں خیال یہ کبھی انہیں ۔ رہتے

Page 25: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ گا بنے سبب بڑا سے سب کا شکست کی ہندوستانیوں ہی سازش اورتھا، بھی چین بے لیے کے کرنے حاصل فتح وہ اور تھا آادمی ایماندار بہت وہ ، سنبھالی کمان کی دلی نے خان بخت میں دور آاخری کے وجہد جد اس۔ دیا نہیں تعاون کوئی اسے نے لوگوں ان تو بڑھا آاگے لیے کے لڑنے وہ جب اور کیا مہیا سامان کا شکست کی اس نے سربراہوں فوجی دوسرے کہ جبپر اس وہ بار ایک اگر کہ لیا کر محسوس نے سپاہیوں ۔لیکن تھا لیا کر ہ محاصر کا ریزیڈنسی نے فوجیوں ہندوستانی ۔ تھے بھی میں لکھنؤ حالات یہیتک جب ہیں درکار تک وقت اسی خدمات کی ان لیے اس گی۔ رہے نہیں ضرورت کوئی کی ان کو ملکہ کی اودھ یا حکومت پھر تو ہیں لیتے کر قبضہ

کی۔ نہیں کوشش کی پانے فتح کن فیصلہ کبھی نے سپاہیوں لیے اسی ۔ رہے چلتی جنگ یہزندگی اپنی انہیں اور ہے سانحہ قومی ایک یہ کہ کیا محسوس نے انہوں اور کی لڑائی سے وفاداری پوری تئیں کے عالیہ ملکہ نے انگریزوں برخلاف کے اس

نمائندہ سے سب میں جن کے صورت استثنائی چند سوائے کہ ہے اہم بہت بھی بات یہ علاوہ کے اس ۔ ہے کرنی کوشش توڑ جی لیے کے فتح اور۔وہ آائے آاگے خاطر کی مفاد ذاتی اپنے صرف لیا، حصہ میں جدوجہد اس نے جنہوں ، قائدین تر زیادہ ، تھی کی ٹوپے تانیتا اور اللہ احمد شخصیتبعد کے ہونے شروع بغاوت کہ ہے یہ تو حد ۔ پڑی نہیں ضرب پر مفاد ذاتی کے ان کہ تک جب ہوئے نہیں کھڑے تک وقت اس خلاف کے انگریزوں

کی جھانسی ۔ ہیں سکتے کر معاہدہ سے اس وہ تو لے مان کو مانگوں کی ان اور دے بدل فیصلہ اپنا ڈلہوزی اگر کہ کیا اعلان یہ نے صاحب نانا بھیکے مقصد اپنے اور ہٹیں نہیں پیچھے پھر تو پڑیں کود میں جنگ وہ بار ایک جب کہ ہے بات اور یہ لیکن تھی، شکایت ذاتی کی طرح اسی بھی کو رانی

دی۔ دے قربانی کی جان اپنی لیے کے حصولوقت اس اور رہے بنے تماشائی اکثر وہ ۔ ہوگی رہی حالت کیا کی عوام کہ ہے جاسکتا یا لگا اندازہ یہ سے آاسانی ہوتو حالت یہ کی قائدین کے بغاوت جبکیا کا ٹوپے تانتیا کہ ہے جاسکتا لگایا سے چیت بات اس ف صر اندازہ کا رویے س ا کے ان ۔ لگتے دینے ساتھ کا اس دیتا دکھائی ور طاقت زیادہ جواگر کہ تھا یقین اسے ۔ گا رکھے جاری جدوجہد اپنی پار کے نرمدا میں پردیش مدھیہ وہ کہ کیا عہد نے اس تو ہوئی فاش شکست اسے جب ہوا؟ حشروالوں آانے میں تعاقب اپنے نے اس ہوئے لیتے کام سے چالاکی اور طاقت ۔ماورائی گے کریں مدد کی اس لوگ تو گیا پہنچ میں حلقے ٹھا مرا بار ایک وہ

ہر ۔ نہیں تیار لیے کے دینے پناہ اسے لوگ بھی میں گاؤں کسی کہ دیکھا نے اس بعد کے جانے وہاں لیکن لیا۔ کر پار کو نرمدا ہوئے دیتے چکمہ کواسے میں حالت کی نیند نے دوست خاص ایک کے اس بھی یہاں ۔ پڑا کرنا رخ کا جنگل لیے کے لینے پناہ اسے کار آاخر او تھا خلاف کے اس شخص

وادیا۔ پکڑ سے دھوکےقائدین کے ان اور سپاہیوں ہندوستانی اکثر نے مصنفین انگریز ، الفاظ چند میں بارے کے اس ہوئی گری وغارت قتل جو دوران کے جدوجہد عظیم اس اباعتراف کا بات اس ساتھ کے افسوس نہایت تاہم ۔ ہے لکھا کر چڑھا بڑھا اور سے تفصیل بہت میں بارے کے ان گئے کئے فعل غیرانسانی جو ذریعہ کےکوئی کرنیکا دفاع کا عام قتل میں لکھنؤ اور ، ،کانپور دلی کا بچوں اور عورتوں یورپین ۔ تھے نہیں بنیاد بے الزامات بعض بے میں ان کہ ہے رہا پڑ کرنا

۔ کرسکا نہیں پورا اسے وہ تھا، کیا وعدہ جو سے وہیلر جنرل نے اس کہ جاسکتا ٹھہرایا نہیں دار کاذمہ بات اس کو صاحب نانا گرچہ ۔ ہے نہیں جوازا کا بات اس نے مورخین انگریز خود تھا۔ لیا لے میں ہاتھوں اپنے کو معاملات سارے نے جنہوں تھا رہا نہیں باقی اختیار کوئی پر فوجیوں کا اس کہ کیوں

جواسے فوجی ہندوستانی وہ ہو بھی کچھ چاہے ہوا۔ صدمہ بہت اسے تو دیکھا ہوا تیرتا میں پانی کو لاش کی بچے ایک نے اس جب کہ ہے کیا عترافپر جگہ اس کے یلاک ہیو جنرل جنہیں تھی داری ذمہ بھی کی قیدیوں ان یہ سے طرح ۔اسی تھا کیا جرم گھناؤنا یہ ہی نے انہوں تھے سمجھتے قائد اپناآاباد یلہ ا ساتھ کے ہندوستانیوں نے انگریزوں جو تھا کرایا سے جذبے کے بدلے اس قتل یہ نے اس کہ ہے کہاجاتا تھا۔ گیا دیا کر قتل ہی پہلے سے پہنچنےذمہ کا قتل کے قیدیوں چارے بے ان یقینا کو ناناصاحب ۔ ہے زنہیں جوا کوئی کا جانے کئے کے غلطی دوسری سبب کے غلطی ایک ہم تا تھا کیا میں

گا۔ ٹھہرایاجائے ر داپر طور عام نے مورخین انگریز رکھا۔ روا نہیں سلوک اچھا کوئی بھی نے انگریزوں تو ہوگیا بدنما ریکارڈ کا ہندوستانیوں سے کاموں گھناؤنے کے طرح اس اگر

ہندوستانیوں سے جذبے کے بدلے جو ہے کیا ضرور اظہار کا دکھ اور نفریں پر اس نے کچھ لیکن ۔ ہے کیا نداز نظرا کو مظالم بہیمانہ ان کے افواج برٹشسینکڑوں نے اس پر نام کے مقدموں نہاد نام کہ تھا کرتا کیا فخر پر بات اس نیل ۔ تھا گیا پڑ پیاسا کا خون نام کا ہڈسن خود ۔ تھے گئے کئے پر

گئی لٹکائی نہ لاش کی ہندوستانی کسی سے جس تھا بچا نہیں درخت ایسا کوئی پاس آاس کے آاباد یلہ ا ۔ چڑھایا پر تختے کے پھانسی کو ہندوستانیوںاس کی ہندوستانیوں سے بہت اگر ۔ تھے کرتے کہا میں بارے اپنے بھی ہندوستانی بات یہی ہو۔لیکن آاگیا زیادہ غصہ کو انگریزوں کہ ہے ہوسکتا ہو۔سی زندہ میں کھالوں کی سور کو امراء مسلمان تھی۔ آاتی صادق بھی ساتھ کے انگریزوں بات یہی تو جاسکتا کیا پیش نہیں جواز کوئی کا حرکت

گیا۔ کیا مجبور پر کھانے گوشت کا گائے تلے کے تلواروں لٹکتی کو ۔ہندؤوں جاتا دیا ڈال گوشت کا سور میں گلے کے ان زبردستی پھر اور ۔ دیاجاتا۔ مرجاتے وہ کار آاخر کہ دیتے اذیت اتنی انہیں اور لاتے کر پکڑ کو والوں گاؤں اور جاتے نکل میں گاؤں سپاہی انگریز گیا۔ دیا جلا زندہ کو قیدیوں زخمی

۔ کرے یی دعو کا ہونے مہذب کو اپنے وہ بھی بعد کے ۔اس کرسکتا نہیں کام تشدد پر انگیز نفرت قدر اس شخص بھی یاکوئی ملک بھی کوئیاور 1857 ہندو میں عرصے اس کہ یہ تو بات پہلی ۔ ہیں آاتی سامنے کر ابھر صاف دوباتیں میں منظر پس کے کہانیوں مبہم میں سلسلہ کے بغاوت کی

نے شخص ہر تئیں کے تاج مغل میں عرصہ پورے اس کہ یہ بات ردوسری او ۔ ہے ملتی کو دیکھنے اشتراک یا یگانگت خاص بہت درمیان کے مسلمانوںدکھائی۔ وفاداری گہری اپنیشروعات کی بہت 1857مئی 10غدر اور شاندار سے بہت نے سپاہیوں کے طرف دونوں دوران س ۔ا رہا چلتا تک دوسال تقریبا سلسلہ یہ اور ہوئی کو

کہیں ہمیں دوران اس ۔ ہیں ملتے واقعات بھی کے تشدد یقین ناقابل طرح اسی اور ہیں ملتی بھی مثالیں کی بہادری زیادہ بہت ۔ کئے توت کر کالے سےسے نظریے ہی ایک کو چیزوں ہندو، یا ہوں مسلم چاہے ، ہندوستانی سبھی ہو۔ ہوا تشدد کوئی پر بنیاد وارانہ فرقہ جب ملتی نہیں مثال ایک کوئی بھی

۔ کرتے ظاہر پرتاثر واقعات سے نظریے اسی اور دیکھتے

Page 26: 1857ء جنگ آزادی اسباب

کہ ملتی نہیں مثال کوئی تھی۔ایسی نہیں نتیجہ کا کوشش خاص کسی کی ،لیڈروں گانگی بے یہ سے جذبات وارانہ نے 1857فرقہ کسی دوران کےلیے اس ۔ تھے قائم رشتے دوستانہ اٹوٹ میں مسلمانوں اور ہندوؤں سبب کے زندگی مشترکہ ایک کی صدیوں ہو۔ کی کوشش لیے کے اتحاد ہندومسلم بھیہے جاسکتا نکالا نتیجہ یہ سے آاسانی لیے اسی اور ۔ تھا موقع کوئی نہ اور تھی ضرورت کوئی نہ کی جانے کی اپیل کی اتحاد لیے کے سبب خاص کسی

تھا۔ نہیں مسئلہ کوئی مسلم ہندو میں ہندوستان قبل سے حکومت برٹش کہکہ ہے یہ تو کے 1857حد برطانیہ خود کہ ہے صحیح بھی ۔یہ تھی رکھی کر اختیار پالیسی ،کی کرو حکومت اور ڈالو پھوٹ نے وں انگریز پہلے سے ء

گئی بن طاقت زبردست کمپنی انڈیا ایسٹ بعد کے جنگ کی پلاسی قبل سوسال لیکن تھی سنبھالی نہیں ڈور باگ کی حکومت ہندوستانی نے تاججو س ڈائرکٹر کے کمپنی تھی۔ ہوادی زیادہ بہت کو اختلافات کے عناصر مختلف کے سماج ہندوستانی نے افسران برٹش دوران کے سوسالوں ان تھی۔

کی ان اور مسلمانوں کہ کرتے محسوس وہ ۔ چاہیے جانا کیا فرق درمیان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کہ زوردیاجاتا باربار پر بات اس میں اس بھیجتے مراسلےجاسکتا۔ کیا نہیں بھروسہ کبھی پر وفاداری

نے مسلمانوں Annals of Rajasthanٹاڈ اور ہندوؤں کمپنی انڈیا ایسٹ کہ ہے لکھا صاف صاف میں ف تعار کے انڈیا آاف ہسٹری نے ایلیٹ اورہندومورخین ان سے حقارت بہت وہ اور ہوتے ہی افسران کے عہدوں یی اعل کے کمپنی انڈیا ایسٹ یہ لیکن کرتی۔ اجاگر کر زوردے بار بار کو فرق کے

بار کی رویے تعصبانہ غیر اور انصاف کے بادشاہوں مسلم مورخ ہندو کہ ہوتی پرحیرت بات اس ۔انہیں کرتے تعریف کی بادشاہوں مسلم ، دیکھتے کیطرف۔ ہیں کرتے کیوں تعریف بار

کے اور Annalsٹاڈ ہندوؤں سے جس گئی کی کوشش کی دینے رنگ یہ کو تاریخ کی یی وسط عہد میں جن ہیں ملتے مواد سے بہت ایسے میںآاپسی سے جس جاتا کیا ریکارڈ کو واقعہ اسی صرف وہاں ملتا تذکرہ کا طرح دو میں بارے کے واقعہ کسی جہاں ۔ پڑجائے پھوٹ میں آاپس میں مسلمانوں

تاہم ۔ پڑجائے پھوٹ میں اور 1857اتحاد ہندوؤں میں زندگی ۔عام نکلا نہیں نتیجہ کوئی کا افشانی زہر اس کی ان کہ ہیں کرتے ثابت یہ واقعات کے ءکہ ہے وجہ یہی ۔ دیا کر ناکام کو کوشش اس کی ڈالنے تفرقہ کے سوسالوں نے جس ہے ملتا جذبہ کا ہمدردی اور چارگی بھائی وہ درمیان کے مسلمانوں

ہندو 1857 میں جدوجہد اس کی آازادی ہوئی۔ پیدا نہیں علاحدگی وارانہ فرقہ کبھی میں جس ، لیا اختیارکر رخ کا جہد جدو قومی نے وجہد جد کی۔ پھینکیں اتار سے کندھوں اپنے جوا کا غلامی برٹش صورت کسی وہ کہ تھی یہ کوشش مشترکہ کی ان اور ۔ رہے لڑتے کر ملا کندھا کندھے مسلمان اور

کا فساد پر بنیاد کی مذہب واقعہ بھی ایک کوئی ۔ ہے ملتا بھی میں زندگی کی شہریوں عام بلکہ ، میں سپاہیوں ہندوستانی صرف نہ جذبہ یہ کا اتحاد۔ کی کوشش برابر کی دینے کر کمزور انہیں کے کر اجاگر کو اختلافات کے آاپس کے فوجیوں ہندوستانی نے افسروں برٹش گرچہ ملتا۔ نہیں

نے اختلافات 1857ہندوستانیوں وارانہ فرقہ میں راہ کی قومیت ہندوستانی بعد کے دہائیوں کچھ کہ ہوگیا کیسے یہ پھر ۔ کی پر طور مشترکہ جدوجہد کیکی ملک لیے کے پانے ا چھٹکار سے اس کار آاخر کہ گیا ہوتا گمبھیر اتنا بروز روز مسئلہ یہ کہ ہے المیہ ایک کا تاریخ ہندوستانی ؟یہ گئے بن روڑا ایک

پڑی۔ کرنی پر بنیاد وارانہ فرقہ تقسیمجو پڑی سے وجہ کی پالیسی اس ک انگریزوں بنیاد کی اختلافات وارانہ فرقہ اس کہ ہے جاسکتا دیا جواب ایک صرف کا نے 1857اس انہوں بعد کے ء

ہوا احساس کو انگریزوں ۔ ہے کی جنگ ساتھ کے اتحاد کرپورے مل نے سبھی دوران کے جہد جدو عظیم س ا کہ تھا دیکھا نے انہوں تھی، کی وضعجو ہے نکلتا بھی سے مراسلوں ان پر طور لازمی نتیجہ یہ اور ۔ ہے سکتی رہ قائم ہی سے توڑنے کو اتحاد اس صرف حکومت کی ان میں ملک اس اب کہ

اور جنگجوؤں صرف نہ نے انہوں کی۔ نے وں انگریز بعد کے کرنے فرو کو غدر جو ہے ملتا بھی نومیں تنظیم کی فوج ۔یہ بھیجے نے انگریزوں وقت اسایسے ۔ رہیں لگے میں کاٹ کی دوسرے ایک دونوں مسلمان اور ہندو کہ کیا منظم طرح اس بھی کو فوج بلکہ کی، تقسیم درمیان کے قوموں جنگجو غیرکے مسلمانوں ہندو سے جس گئی کی اختیار پالیسی ایسی بھی لیے کے عوام ۔ ہوسکیں نہ متحد مسلمان اور ہندو میں مستقبل سے جس گئے کئے اقدام

میں فوج ۔ گیا یا اٹھا فائدہ بھرپور سے ان ، ملا موقع کوئی بھی جب کا کرنے کواجاگر اختلافات ان ۔ ہوجائیں خلاف کے ہندوؤں مسلمان اور خلاف۔ ہے جاتی مل میں سوانح کی لارڈبرٹش وضاحت پوری کی اس گیا کیا لاگو کیسے کو پالیسی اس

اس اور ، تھے رہے دیکھ طرف کی شاہ بہادر یا دلی کے وشبہہ شک کسی بلا مسلمان اور ہندو دوران کے جہد جدو اس کہ ہے یہ بات اہم دوسریکہ ہے بات کی رکھنے یاد یہ تاہم ۔ ہوسکے شہنشاہ کا ہندوستان وہ کہ ہے حاصل حق یہ ہی کو شاہ بہادر صرف کہ تھے خیال ہم سبھی میں معاملے

جب اور تھی کی ہندوؤں اکثریت میں فوج تو ہوئی شروع جدوجہد یہ دلی 10جب ، نکلی آاواز پہلی کی ان تو کی بغاوت میں میرٹھ نے انہوں کو مئیآاواز یہی بھی وہاں تو پھیلی بغاوت یہ میں کینٹ جب تھی۔ نکلی سے منہ کے فوجیوں آاپ اپنے بلکہ نہیں بعد کے مباحثے بحث کسی آاواز یہ اور چلو،

۔ رہے بھرتے دم کا وفاداری کی شہنشاہ مغل وہ تو سکے پہنچ نہ دلی فوجی اگر کہ ہے یہ تو حد اور ہوئی بلندپرانی درمیان کے مغلوں اور مراٹھا ۔ رہے کہتے ہی پیشوا کو اپنے وہ بھی وقت اس لیکن ، کیا ادا رول اہم نے صاحب نانا دوران کے بغاوت میں کانپوراور جاتے ڈھالے سکے ہی پر نام کے شہنشاہ صرف ۔ رہے کہتے گورنر یا صوبیدار کو اپنے ہمیشہ صاحب نانا اور تھا، گیا دیا بھلا بالکل کو جنگ

حکم ہر سے میں ان اور ۔ ہیں ہوئے رکھے میں کائیوز آار کے دکن آاباد حیدر ن فرما کچھ کے طرح اس کے صاحب نانا ہوتا۔ جاری پر نام کے اسی ہرفرمانگئی دی میں سمت بعد کے اس اور ہجری سنہ تاریخ پر سبھی مطابق کے روایت کی دربار مغل ۔اور گیا کیا جاری ہی پر نام کے شہنشاہ کے دلی نامہ

۔ ہےکہ چاہیے رکھنا یاد بھی یہ محدود 1857ہمیں ہی تک اندر کے قلعہ لال حکومت کی تھی۔ان کی پتلی کٹھ ایک صرف حیثیت کی شاہ بہادر میں

۔نہ تھے ہے ر کر گزارہ پر وظیفہ کے روپے لاکھ ایک والے ملنے مہینہ ہر ذریعے کے کمپنی انڈیا ایسٹ ۔وہ تھا باہر سے حکمرانی کی ان شہر دلی تھی،حق کے ان ، ہوتا اختیار کوئی کا ان ہی نہ اور ، فوج نہ اور تھا خزانہ تو نہ پاس کے ۔ان تھے حکمراں کے نام ف صر بھی رو پیش کے ان بلکہ وہ صرف

۔ تھے جانشین کے رشاہجہاں او اکبر وہ کہ تھی بات ہی ایک صرف میں

Page 27: 1857ء جنگ آزادی اسباب

حکمرانوں مغل عظیم وہ کہ لیے اس بلکہ نہیں سے وجہ کی شخصیت کی ان وہ دکھائی وفاداری جو سے شاہ بہادر نے فوجیوں اور عوام کے ہندوستاناختیار سے انگریزوں کہ ہوا پیدا سوال یہ جب کہ تھا کیا متاثر طرح کواس ذہنوں کے عوام ہندوستانی نے عظمت کی حکومت مغل ۔ تھے جانشین کے

لیا۔ نام کا شاہ بہادر پر طور مشترکہ کر مل نے دونوں مسلمان اور ہندو تو گا کرے حاصل کونتک گہرائی بہت جڑیں کی اس کیا مستحکم نے اکبر جسے اور رکھی نے بابر بنیاد کی جس حکومت وہ کہ ہے ہوتا معلوم بھی یہ ہمیں سے اس

تھے کمزور قدر اس وہ ۔ گئے رہ لائق کے جانے کئے استعمال ہی علامت بطور بادشاہ مغل نے ہندوستانیوں ۔ تھیں چکی پھیل میں ودماغ دل ہندوستانی۔ آایا نہیں نظر متبادل کوئی کا ان کو ہندوستانیوں باوجود کے کمزوریوں شخصی ان کی ۔ان تھے سکتے رکھ قابو کوئی پر امراء اپنے نہ اور پر سپاہیوں کہ

ستمبر ۔ رہے سمجھتے حکمراں اصل کو شاہ بہادر دونوں ہندوستانی اور فوجی تک نے 1857آاخر خان بخت تو کیا قبضہ پر دلی نے انگریزوں جب میں ءشکست مکمل ابھی کہ کہا سے شاہ بہادر نے اس ۔ کریں جمع کو فوجوں کہیں باہر کے شہر ر او چھوڑدیں شہر وہ کہ کی درخواست سے شاہ بہادربرخلاف کے س ۔ا رہے ناکام میں اٹھانے فائدہ سے موقعے اس شاہ بہادر لیکن ۔ ہیں میں قبضے ہمارے بھی اب اوراودھ کھنڈا ہیل رو ۔ ہے ہوئی نہیں

کر قید انہیں اکہ ہو یہ نتیجہ کا جس ، رہیں ہی میں دلی وہ کہ سمجھایا کو شاہ بہادر نے جس تھا لیا ملا ساتھ اپنے کو بخش یلہی ا سازشی نے انگریزوںگئی۔ پھیل شورش یہ میں ملک پورے رپھر او گیا لیا

دہلی ۱۹۵۷فبروری ۹نئیآازاد ابوالکلام مولانا

تعلیم وزیرہند حکومت

مہر رسول غلام مولانااسباب کے آازادی جنگ

مٹکاف تھیوفلسپر اسباب کے آازادی جنگ وقت کرتے شائع ترجمہ انگریزی کا روزنامچوں کے لال جیون منشی اور خاں حسن الدین معین میرزان بھی نے مٹکاف تھیوفلس

ہے یہ خلاصہ کا بحث اس تھی۔ کی : بحث۱ گیا۔ دیا کر مجبور لیے کے نی نافرما پر طریق دانشمند غیر جسے تھی، سازش کی طبقے خاص ایک یہ کہ ہیں کہتے لوگ بعض ۔

۲ اسلامی جگہ کی اس اور جائے کرایا آازاد سے للط تس کے اجنبیوں کو ملک کہ تھا مدعایہ کا ،جس تھی تحریک قومی ایک یہ کہ ہے کہا نے بعض ۔۔ جائے کی قائم حکومت

۳ تھا۔ شامل بھی الحاق کا اودھ میں جس پالیسی کی الحاق یعنی تھی، سبب حقیقی کا اس پالیسی کی ڈلہوزی لارڈ کہ ہے خیال کا بعض ۔۴ تھی۔ دی کر جاری تحریک کی بغاوت پہلے بہت سے اودھ الحاق نے مسلمانوں کہ ہے ہوتا ثابت سے جس ، ہے کیا درج بیان کا وٹرم آا نے کیئی ۔

۵ تھا۔ دیا کر گمراہ نے کارندوں کے خاندانوں حکمران قدیم کو سپاہ کہ ہے دیا کر پیدا خیال یہ نے مصنفین بعض ۔۶ ہوئی۔ شروع پر بناء کی جوش مذہبی شدہ پیدا سے فرمان شاہی یک کے ایران بار در بغاوت کہ ہے خیال کا مصنف ایک ۔

۷ ۔ تھے شامل یکساں میں اس دونوں مسلمان اور ہندو نزدیک کے بعض تھی، تحریک اسلامی خالص یہ کہ ہیں کہتے بعض ۔اور فرماؤں کار کے اس کہ لیے اس ، قراردینا تحریک اسلامی خالص اسے اا مثل ۔ ہیں سروپا بے بالکل بعض اور ہیں درست یقینا اسباب بعض سے میں ان

۔ نہیں محتاج کی ثبوت کسی شرکت کی دونوں مسلمان اور ہندو میں کارکنوںنکتہ ضروری

بعض اور ہے ہوتی اساسی اور بنیادی حیثیت کی اسباب بعض ۔ ہیں ہوتے دمراتب درجات کے ان کہ ہے ضروری لینا جان یہ پیشتر سے وفکر غور پر اسبابو لدت ش کی ان اور ہے پہنچتی تقویت کو اسباب بنیادی سے جن ، ہیں ہوتے ایسے بعض بھی میں اسباب کے قسم ۔ آاخری پھر ۔ تائیدی و اض۔افی کی

۔ ہے ہوجاتا شروع ہنگامہ سے وجہ کی ان ر او ہیں جاتے بن باعث کا برہمنی ناگہانی اور اشتعال فوری بعض ۔ ہے ہوتا اضافہ میں وسعتگی آائے سامنے ہمارے میں صورت برہنہ اور واشگاف حالی حقیقت طرح اسی ۔ کریں غور کر رکھ پر مقام اصل کے ان کو اسباب تمام کہ ہے فرض ہمارا

۔ گے سکیں پہنچ تک نتیجے روشن اور واضح صحیح ہم اورحال حقیقت

دیسی مختلف انھیں میں ابتداء تھی۔ حکومت کی اجنبیوں حکومت انگریزی کہ یہ وہ اور تھا ایک صرف اور ایک سبب اساسی اور بنیادی کا زادی آا نگ جنکے ان تو لیا سنبھال کچھ سب سے عیاری اور لافی حر نے انھوں کہ ہوا معلوم جب گیا۔ کیا قبول کر سمجھ مختار اور ایجنٹ ، کارندے کے حکمرانوں

اس یا جعفر میر تھا۔ کرسکتا نہیں برداشت خاطر نب طی بہ کو تسلط اجنبی وطن نب مح مند غیرت بھی کوئی گئی دوڑ لہر کی نفرت گیر ہمہ خلاف

Page 28: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ سمجھاجاسکتا نہیں توجہ نل قاب کو آادمیوں دوسرے جیسےسکتے سمجھ مطابق کے تعبیر کی مٹکاف تھیوفلس کیا اقدام لیے کے اٹھادینے حکومت کی غیروں نے قوم کہ ہیں سکتے کہہ میں الفاظ کے لید سرس آاپ

۔ ’’ جائے دلائی نجات سے تسلط کے غیروں کو ملک کہ تھا یہ مقصد کا جس تھی تحریک قومی ایک یہ ‘‘ہیںذکر کا یاجن ہے کیا نے سرسید ذکر کا جن اسباب دوسرے رہے لیے ۱۸۵۷باقی کے سبب بنیادی اصل سب وہ تو ہے ملتا میں کتابوں عام متعلق کے ء

امور ضروری رہنا خبر بے سے حالات کے ان کرنا، جاری ضابطے اور قاعدے خلاف کے عادت کی وطن نل اہ اا مثل ۔ بنے باعث کے استحکام و تقویتکے قسم اس ہونایا امصر پر الحاق کے علاقوں اور ریاستوں مختلف یا دکھانا سرگرمی کا حکام لیے کے تبلیغ کی عیسائیت کرنا، اختیار پروائی بے سے

نا زیادہ سے زیادہ اجنبیت باعث کے جن ، تھیں دلیلیں خراش دل اور قاطع کی ہونے بیگانہ اور اجنبی کے انگریزوں باتیں سب یہ کہ ہے امورظاہر دوسرےگئی۔ لگ آاگ میں وعرض طول کے ملک اور ہوا پیدا اشتعال فوری سے کارتوسوں والے چربی بنی۔ برداشت نل قاب

۔ گے کریں گفتگو اا یراجمال بعض سے میں اسباب اضافی و تائیدی بلکہ نہیں پر سبب بنیادی ہم ابڈلہوزی اور ویلزلی

۱۸۵۷ عہد : کے ویلزلی ڈلہوزی دوسرا اور ویلزلی ایک ہے حاصل شہرت خاص میں والحاق غصب جوش جنھیں ، آائے ایسے جنرل گورنر دو پیشتر سے ءپہنچ تک آاگرہ اور دہلی ہوتے ہوتے وسیع دائرہ کا تسلط کے نیزان ، آائے میں قبضے کے انگریزوں علاقے متعدد اور پھیلی بہت حکومت انگریزی بھی میں

سلطنت کی میسور نے ااس اا مثل تھا۔ محتاط ذرا طریقہ کا ویلزلی لول ا کہ بنے نہ موجب کے کرنے پیدا ناراضی گیر ہمہ سے وجہ اس تصرفات یہ لیکن گیا۔کی خاندان حکمران ہندو قدیم اور دیے دے کو اورمرہٹوں نظام علاقے کچھ وہاں سنبھالا خود حصہ ایک جہاں وقت کے تقسیم کی ااس تاہم ، کی ختمخوار وظیفہ کا انگریزوں یقینا بادشاہ مغل ۔ رکھیں قائم دستور بہ ریاستیں کی ان لیکن پہنچایا، ضرور نقصان کو مرہٹوں طرح اسی دی۔ کر قائم بھی ریاست

سے اس جیسے ، ہیں کرہے کام میں حیثیت کی مختار کے بادشاہ محض انگریز ہو، معلوم کہ تھی ایسی وہیت وضع ظاہری کی انتظام لیکن ، گیا بن۔ تھے ہوتے پورے ٹھیک ٹھیک ورسوم آاداب شاہی اورقدیم تھا چکا کر سندھیا پیشتر

کارکردگی لیا۔ کر فیصلہ کا ڈالنے میں ٹوکرے کے اقتدار انگریزی کر سمیٹ طرح کی کرکٹ کوڑے کو علاقے ہر اور اٹھالی جھاڑو نے اس تو یا آا ڈلہوزیگئی۔ لگ آاگ میں بارودخانے کے ناراضی لہذا ہوگئی، نقاب بے بالکل اجنبیت انگریزی اور گئے اٹھ سے میں بیچ آاہستہ آاہستہ بھی پردے کے مختاری یا

پالیسی کی الحاقذی مختلف سے وجہ کی جس اور تھی ثبوت ہوا کھلا کا وبیگانگی اجنبیت کی انگریزوں جو ہے آاتی پالیسی کی الحاق پہلے سے سب میں سلسلے اس

ہوئے آامادہ لئے کے چلانے تحریک زبردست خلاف کے انگریزوں افراد کے خاندانوں : اثر۱ لے پنجاب پورا نے ڈلہوزی تھا۔ کیا فروخت ہاتھ کے سنگھ گلاب کو کشمیر اور تھا۔ چھینا لصہ نح ایک صرف کا حکومت کی نسکھوں نے ہارڈنگ ۔

سہل ) ( کرنا حاصل حکومت تخت کہ لئے اس شاید لی، کر قبول عیسائیت نے اس یا۔ پہنچا پی یو گڑھ فتح کے کر معزول کو سنگھ دلیپ اور لیاعبرت ‘ اور انگیز درد ہی بڑی وہ ہوئیں ں سلوکیا بد جو ساتھ کے اس میں دور آاخری اور لاسکی ترنہ قریب کے انگریزوں اسے عیسائیت لیکن گا۔ ہوجائے

۔ تھیں افزا۲ اپریل گی۔ رہے قائم اا دوام وہ کہ تھا ہوا یہ معاہدہ تھی۔ گئی رکھی لیے کے خاندان کے سیواجی ریاست سی چھوٹی کی ستارہ ستارا ۱۸۴۸۔ میں ء راجا کو یی متبن نے ڈلہوزی تھا۔ لیا بنا یلنی متب کو لڑکے ایک نے اس مطابق کے رواج کے دھرم ہندو لیکن ، تھی نہ اولاد کے اس پائی۔ وفات نے راجا کے

لی۔ کر ضبط ریاست اور کیا نہ منظور بنانا۳ بنایا ۱۸۵۳۔ نہ بھی یی متبن کو کسی نے اس سے خیال اس اا غالب اور تھی نہ اولاد کوئی بھی کے اس ہوا۔ فوت پور ناگ نی وال بھونسلا جی رگھو میں ء

تجویز یی متبن بیوہ کی اس مطابق کے دھرم ہندو اور رواج کے ملک تاہم ۔ گے لیں سمجھ محروم سے صلاحیت کی کرنے پیدا اولاد اسے عوام کہ تھاایک کہ تک یہاں کرایا نیلام نرعام س بر سے دردی بے انتہائی اسباب سارا کا محلات پھر لی۔ سنبھال تکلف بے بھی ریاست وہ نے تھی۔ڈلہوزی کرسکتی

وغیرہ کرناٹک تنجور، پور، سنبھل ، جھانسی طرح اسی تھی۔ ہوگئی تیار لئے کے لگوادینے آاگ کو محل پورے میں جوش کے خفگی پر سلوکی بد رانی۔ گئیں لی کر ضبط ریاستیں

پیشوا ثانی راؤ باجیپیشوا آاخری ثانی راؤ میں ۱۸۱۷باجی کرٹھور لے پینشن کی سالانہ روپے لاکھ آاٹھ اور تھا ہوا بردار دست سے مسند کر کھا شکست میں جنگ کی ء

۔ ہے مقام مشہور ایک نزدیک کے پور کان جو تھا، وہ ۱۸۵۱جنوری / ۲۸آابیٹھا کو کو ۷۷ء بچوں تین نے اس ہوا۔ فوت لاولد میں عمر کی سال مل : جگہ کی اس کو سداشیوپنت بیٹے کے اس تو ہوگیا فوت راؤ پنڈورنگ راؤ۔ دھر گنگا سوم اور راؤ پنڈورنگ دوم نانا ڈھونڈوپنت اور تھا بنایا یی متبن

حیثیت کی دھان پر مکھ نانا وپنت ڈھونڈ بعد میرے اور پوتا ایک اور ہیں بیٹے دو میرے کہ تھا دیا لکھ صاف صاف میں وصیت اپنی نے راؤ باجی گئی۔۔ جائے سمجھا مالک کا گدی کی پشیواؤں کو اسی اور ہوگا وارث میرا میں

کہ کہا اور دیا کر انکار صاف نے ڈلہوزی لیکن تھا۔ لازم ملنا حصہ ایک کا اس کم از کم تو ملتی نہ پوری تھی۔ چاہئے ملنی کو نانا پنشن کی راؤ باجی

Page 29: 1857ء جنگ آزادی اسباب

، تھی نہ شرط کوئی ایسی میں معاہدے ساتھ کے راؤ باجی حالانکہ جائے کی قناعت پر اسی ، ہے گیا کر جمع کچھ بہت میں سال چوتیس راؤ باجیولایت ، کی کوشش بھی یہاں لیے کے پنشن نے ڈھونڈوپنت گی۔ العمرملے مدت صرف اسے نپشن کہ جاسکے کیا ثابت بھی کر تان کھینچ جسے

ہوا۔ نہ ردوبدل میں اس تھا، چکا ہو فیصلہ جو تاہم بھیجے وکیل اپنے بھی ‘ نہیں ‘ خواہ خیر کے انگریزوں بھی میں حالت کسی تھی پہنچی تک ہزاروں تعداد کی جن متوسلین کے نیزان تھیں چھنی ریاستیں کی جن لوگ تمام وہ

راست نہ برا کا دردی بے اور پرستی موقع ، بیگانگی ، اجنبیت کی انگریزوں انھیں کہ لئے اس ، گئے بن دشمن سخت سے سخت بلکہ تھے ہوسکتےتھا۔ ہوچکا تجربہ

اودھانتظام کا فوج یعنی کی، پیدا کیفیت کی عملی دو وہاں پہلے نے انگریزوں ۔ ہے آاتا معاملہ کا اودھ میں آاخر سے عوض ۷۶سب کے سالانہ روپے لاکھ

تو ہے موجود میں تعداد بڑی لشکر قاعدہ بے میں اودھ کہ دیکھا جب نے ویلزلی دیا۔ رہنے میں قبضے کے اودھ نن والیا انتظام باقی اور لیا سنبھال خود میںآاگیا کر لے فوج اقعان چلا من کوئی جیسا لرانی د شاہ زمان یا گیا پہنچ پر سرحد کی ہندوستان نپولین وقت کسی اگر کہ ہوا پیدا وسوسہ میں دل کے اس

دی کر پیش تجویز یہ روبرو کے اودھ والی نے اس چنانچہ گا۔ ہوجائے تباہ گھروندا کا تسلط انگریزی تو گیا بن معاون کا اس لشکر قاعدہ بے کا اودھ اور۔ جائے کیا برداشت خرچ مزید کا سالانہ روپے لاکھ پچاس اور جائے رکھی فوج انگریزی بھی جگہ کی اس ، جائے دیا کر ختم کو لشکر قاعدہ بے کہمیں سال ایک آامدنی کی جن ، لئے لے ضلعے کچھ چنانچہ ۔ جائے دیا دے علاقہ کہ دیا کہہ تو گا دوں سے کہا روپیہ اتنا کہ کہا نے غریب اس جب

ہوگئی۔ ادگنیروپے ) کروڑ سوا رقم ر گرانقد یہ کہ رہے اچھا ( ۵۰لاکھ + ۷۶واضح انتظام کا ملک کہ تھی گئی ڈالی نہ ذمے کے اودھ نی وال سے غرض اس لاکھ

کا اس لیکن تھا، مطلوب کا انگریزوں صرف فائدہ گویا ۔ ہوجائے محفوظ سے خطرے موہوم ایک اقتدار انگریزی میں ہندوستان کہ تھا یہ صرف مقصود رہےگیا۔ بنایا کو اسی بھی وپا دست بے اور گیا کیا وصول سے اودھ نی وال خرچ

ڈھونگ کا بادشاہیکہا تھا۔ دستور کا لینے پر مستاجری کو علاقوں مختلف میں زمانے اس تھی، لی کر جمع رقم بڑی بہت سے جزرسی اپنی نے خاں علی سعادت نواب

چل چارا بے وہ تھا۔ کیا جمع روپیہ سے غرض کی لینے لے پر متاجری مقبوض۔ات تمام کے کمپنی انڈیا ایسٹ نے خاں علی سعادت نواب کہ ہے جاتاگیا۔ دیا کر مہیا ذریعہ نیا لئے کے بربادی کی روپے اس تو آایا زمانہ حیدرکا الدین غازی اور بسا

نے بادشاہ گا۔ دوں نذرنہ کہ کی عائد یہ شرط لیکن ، چاہی کرنی ملاقات سے نہدہلی بادشا ثانی شاہ اکبر نے ہیٹنگز مارکوئیس کہ ہے یہ کیفیت کی اس ، تھے اورمحمل غلط درجہ کس تصورات کے بادشاہ معتلق کے حال صورت کہ ہے ہوتی حیرت تو جائے کیا غور پر انکار اس اب دیا۔ کر انکار سے ملنے

کی دینے بنا بادشاہ کو حیدر الدین غازی اور کی نہ ملاقات سے بادشاہ نے ہیٹنگز تھی۔ جاتی سمجھی لازمہ کا آاداب نذرشاہی میں زمانے اس لیکن۔ ہیں کرسکتے قائم چاہیں ابت جتنے کے بادشاہی انگریز ۔ جائے بتایا کو شاہ اکبر کہ تھا یہ مقصود لی۔ کر پختہ تجویز

ریزیڈنٹ لئے کے بات ایک ایک جب کہ آایا نہ خیال یہ اسے دیا کر برباد دھند اندھا روپیہ لئے کے کرنے فراہم سامان کا بادشاہی نے حیدر الدین غازیکو کسی سے معنویت اور تھا دیتا جان پر ظواہر شخص ہر میں زمانے اس لیکن ؟ ہے پڑتا کیا فرق ، نوابی یا ہوئی بادشاہی تو ہے پڑتی لینی منظوری سے

کہ تھا لکھا درست بالکل نے لارنس ہنری تھا، نہ سروکار :کوئیرقابت میں خاندانوں کے اودھ اور دہلی طرح اس کہ تھا چاہتا ہینگٹز لارڈ گیا۔ ااکسایا لئے کے کرنے اختیار لقب کا بادشاہی کو حیدر الدین غازی نواب

۔ دے کر نگیختہ برا جذبات کےہوئے بنے کھلونے میں ہاتھ کے انگریزوں جو تھا، پہنچتا فائدہ کیا سے رقابت اس کو خاندانوں ن ا لیکن ، نہیں بحث سے اس تھا، چاہتا جو تو ہیٹنگزنجات سے وتصرف قبض کے انگریزوں اور بدلنے حیثیت اپنی کہ تھا نہ کو کسی خیال یہ ، تھے مرتے پر خطابات و الفاظ ونموداور نام صرف وہ ؟ تھے

جائے کی کوشش کی .پانے

الحاق ، ہے خلاصہ سرسری کا اجزاء بع۔ض کے اس یہ بلکہ جاسکتا کہا نہیں داستان پوری کی سلوک کے انگریزوں سے اودھ ااسے ، کیا بیان نے ہم کچھ جو

سے بہانوں حیلوں مختلف روپیہ کا اس تھا۔ یا بنا خود نے انگریزوں اسے تھا، بھی جیسا اودھ کہ ہے گیا کیا پیش سے غرض کی بتانے یہ صرف جوکر سنبھال بھی کاروبار انتظامی طرح اسی ، رہے سنبھالتے بار بار کاروبار کا فوج وہ طرح جس حالانکہ دیا، بگڑنے مسلسل کو انتظام کے اس کھایا۔

۔ کیا نے انہوں یہ ۔ تھے کرسکتے درستغازی خود اا مثل ۔ تھے نہ اہل کے بیٹھنے پر ندحکومت مسن بھی لئے کے لمحہ ایک جو تھے چکے گزر ایسے حکمران کئی پیشتر سے شاہ علی واجد پھریا اٹھا نہ سوال کوئی لئے اس تھا، رہا مل کو انگریزوں روپیہ تک وقت اس لیکن ، حیدر الدین نصیر بیٹا کا اس یا گیا بنایا بادشاہ ،جسے حیدر الدین

Page 30: 1857ء جنگ آزادی اسباب

لیکن ابرا یا تھا اچھا شاہ علی واجد حالانکہ گیا لیا کر الحاق کا اس اور گیا اٹھادیا پردہ تو گیا رہ اودھ صرف اور ہوگیا صاف ہندوستان باقی جب ۔ گیاتھا۔ بہتر یقینا حیدر الدین نصیر

کی ان کیا پہنچا؟ فائدہ کیا انہیں سے الحاق لیکن ، تھا آایا میں عمل لئے کے بہتری کی عوام کے وہاں الحاق کا اودھ کہ لیجئے کر فرض اچھااستعمال لئے کے فلاح کی ملک اہل دولت کی ملک کیا گئی؟ نکالی صورت کوئی کی توازن درمیان کے وخواص عوم کیا ہوئی؟ بہتر حالت اقتصادی

اور ہے میں نفی جوان کا سوال ہر لگی؟ انگریزی ۱۸۵۶ہونے جگہ کی نظام شاہی کہ ہوا اتنا بس رہا۔ میں ہی نفی تک دور آاخری کے انگریزوں سے ء ان ‘ ہوئیں پیدا مصیبتیں جو اور سے اس ۔ تھے لیتے تنخواہیں بڑی بڑی انگریز کہ لئے اس تھا، خیز اورمصیبت گراں زیادہ نظام انگریزی ہوگیا۔ جاری نظام

گی۔ جائے کی پیش میں سطور آائندہ جھلک ایک کی

نتائج کے الحاق ، تھیں ملتی پنشین بڑی بڑی جنہیں یا ہوگئے تعلق بے وہ تھی، حکومت کی علاقوں بڑے یا چھوٹے میں ہاتھ کے لوگوں جن کہ تھا یہ پہلو ایک کا الحاق

برہم درہم سلسلہ پورا یہ نے الحاق تھا۔ ذریعہ کا پرورش کی خاندانوں ہزاروں جو تھا، نظام مستقل ایک کا حکومت کی مقام ہر لیکن گیا۔ مل جواب انہیںکرڈالا۔

کے رکھنے برقرار انہیں نے انگریزوں ۔ پڑگئیں میں ضغطے بھی یں جاگیر تو ٹوٹا نظام اصل ۔ تھیں ہوئی ملی جاگیریں کو لوگوں ہزاروں سینکڑوں جگہ ہر پھرکے ان نے کسی نہ تھے بیٹھے جمائے قبضہ پر جاگیروں اور تھے کرتے کام وہ ، تھے نہ وثیقے اور سندیں پاس کے سب یقینا ۔ کیا مطالبہ کا سندوں لئے

اور ہوئے مصائب بتلائے خاندان ہزاروں میں الحاق گویا تھی۔ آائی پیش ضرورت کی کرنے حاصل سند باقاعدہ انہیں نہ اور تھا دیا قرار باطل کو تصرف حق

رکھا۔ ردا سلوک یہ کا دردی بے ساتھ کے ان نے حکومت بیگانہ اور اجنبی کہ تھا ہوسکتا پیدا احساس یہی میں دل کے سب ان

۱ کمیشن انعام اور بمبئی احاطہنے انگریزوں سلطنت کی کوئی ۱۸۱۷مرہٹوں پر ،جن تھیں ہوئی ملی زمینیں یا یں جاگیر کو خانداوں اور افراد سے بہت میں اس تھی۔ سنبھالی میں ء

‘‘ کہاجتا ’’ انعام انہیں میں اصطلاح ۔ تھیں گئی دی دے زمینیں میں شکل کی ہی معافیوں جگہ کی مشاہروں اا عموم کو تھا۔عہدیداروں نہ عائد مالیہ ‘‘ سندیں ’’ تصدیقی سے جاگیروں ہزار چھتیس نے کمیشن اس گیا۔ کیا مقرر کمیشن انعام ایک پھر رہا۔ جاری جھگڑا متعلق کے ان تک مدت تھا۔

۔ گئیں لی کر ضبط ہزار اکیس بیش و کم سے میں ان اور کیں طلباثر یہ صرف پر لوگوں عام ۔ نہیں ہرگز ؟ ہیں لوگ قانونی بڑے اور حکمراں اچھے بہت انگریز کہ یہ کیا تھا؟ آامدہوسکتا بر نتیجہ کیا سے اس کہ فرمایئے غور

ملک طریق بلکہ ، نہیں اجنبی سے اعتبار کے وماندہی بود طریق اور وتمدن تہذیب ڈھنگ، رنگ قطع، وضع ، نسل و اصل حکمراں یہ کہ تھا پڑسکتا۔ ہے دیا کر نمایاں میں شکل برانداز حقوق اور خیز مصیبت آازاد، دل زیادہ سے زیادہ کو بیگانگی اور اجنبیت اپنی نے انہوں بھی سے لحاظ کے داری

عدالتیں انگریزیبن باعث کا پریشانی اور مصیبت درجہ حد لیے کے عوام طرح کی اداروں دوسرے کے حکومت کی ان بھی وہ ، تھیں کی قائم عدالتیں جو نے انگریزوں

ہونے نہ ادا کہ رکھا نہ سروکار کوئی سے امر اس نے جج گیا۔ پہنچ میں عدالت مقدمہ کا اس اور ھکا ہوس نہ ادا بروقت مالیہ کا شخص کسی اا مثل ۔ گئیںکو ساہوکاروں اور مہاجنوں خور سود میں سرپرستی کی انگریزوں دی۔ دے ڈگری چاپ چپ تھی، معقول یا جائز تک حد کس وہ یا تھی کیا وجہ کی

پھر بنالیتے رقمیں بڑی سے ذریعے کے سود در سود اٹھاکر فائدہ سے ناواقفی کی اورعوام دیتے پر قرض رقمیں معمولی وہ تھا۔ گیا مل موقع خوب کا پنپنےکر اندازہ کہ شعور اتنا اور آاگاہی سے حالیوں پریشان کی عوام کو حاکموں نہ ۔ کرالیتے فیصلے مانے من سے وہاں اور ہوجاتے دائر مقدمے میں عدالت

کرنے فروخت جائیداد کی مقروض ہی ساتھ کے فیصلے تھی۔ کیا تفصیل کی اس نیز ہوا، کتناشامل سود میں اس اور تھا کتنا قرضہ اصل کا ساہوکار ، لیںہوجاتا۔ صادر حکم کا

تھا۔ دیاگیا حکم کا نیلامی کی جاگیر ایک عوض کے ڈگری کی روپے چار میں جس ہے دیا کاحوالہ مقدمہ ایک کے بنگال نے کئیکے نیلامی کی جاگیروں لیے کے رقم معمولی دوسری کی قسم اسی یا روپے چار آایا کہ ہے یہ سوال تھا۔ کیا تقاضا کا وانصاف حق کہ نہیں یہ سوالایسے ؟ تھیں آائی میں وجود معرض لیے کے انصاف بخشش درمیان کے ملک اہل جو تھا جاسکتا سمجھا زیبا لیے کے عدالتوں ایسی کرنا صادر احکام

۔ نہیں سے اعتبار کے افراد محض وہ اور تھا نہ احساس کوئی کا وانصاف حق اور خویشی ، ہمدردی میں جن ، تھیں کرسکتی اختیار عدالتیں وہی طریقے۔ تھیں وبیگانہ اجنبی سے لحاظ ہر بلکہ

تبلیغ کی عیسائیتمستحکم بنیادیں کی حکومت انگریزی جب ۔ رکھناچاہئے نظر پیش ہروقت جنہیں ۔ ہیں اصول اور حدود کے اس لیکن ، نہیں گناہ تبلیغ کی مذہب اپنے

Page 31: 1857ء جنگ آزادی اسباب

ہر حاکم انگریز ۔ کرتے استعمال الفاظ انگریز اشتعال میں مناظروں اور بحثوں وہ ۔ لیے کر اختیار طریقے مناسب غیر درجہ حد نے پادریوں مسیحی تو ہوگئیںفرماتے مرحوم سرسید جاتا۔ سمجھا جزو لاینفک کا حکومت نظام کو پادریوں کہ تھا ہوسکتا یہی نتیجہ ۔ پہنچاتے تقویت کو پادریوں سے ذریعے ممکن

۔ ہیں۱ ۔ ہوتے درج مضامین الفاظ رنجدہ نسبت کی لوگوں مقدس کے مذاہب دوسرے میں ان ، چھاپیں کتابیں جو نے پادریوں ۔

۲ کے مذاہب غیر خود نے پادریوں ۔ کہتے میں گاہوں عبادت یا مکانوں اپنے اپنے لوگ تمام کہ تھا آاتا چلا یہ سے پہلے دستور عام کا کتھا اور وعظ ۔کر انداز نظر بالکل انہیں نے پادریوں ، تھے رہے قائم سے حکومت ابتدائے مسلمان پر اصول جس گویا ۔ کیا شروع جانا میں تیرتھوں اور میلوں ، مجمعوں

دیا۔۳ اور لوگوں مقدس کے مذاہب دوسرے بلکہ ، کرتے اکتفانہ پر بیان کے انجیل میں وعظ اور جاتے لے ساتھ چپراسی کے تھانوں پادری میں ضلعوں بعض ۔

۔ کرتے یاد سے ہتک اور برائی بہت کو مقامات مقدس۴ ۔ جاتے دیئے انعام انہیں ۔ کرتے اظہار ھکا عقائد مطابق کے مذہب عیسائی علم طالب جو اور کیے جاری اسکول مشنری نے انہوں طرح اسی ۔

ایڈمنڈ پادری۱۸۵۵ تھا یہ مضمون کا جس پاس کے ملازموں سرکاری معزز اا خصوص ، آادمیوں یافتہ تعلیم کے ملک خط طویل ایک سے کلکتہ نے ایڈمنڈ پادری میں ء

مذہب ہوگئی۔ ایک ورفت آامد کی جگہ سب سے سڑک ریلوے ہوگئی۔ ایک خبر کی جگہ سب سے تاربرقی ہوگئی۔ عملداری ایک میں ہندوستان اب کہہوجاؤ۔ مذہب ایک عیسائی بھی لوگ تم ہے مناسب لیے اس ، چاہئے ایک ‘‘ بھی

کا مٹاڈالنے کو مذاہب سابقہ اور دینے فروغ کو عیسائیت نے حکومت اب ، ہوجاتا یقین کو لوگوں کہ تھا ہوسکتا کیا سوا کے اس نتیجہ کا باتوں تمام ان۔ ہے لیا کر ارادہ پختہ

فنڈر پادریجو ہے ضروی ذکر کا فنڈر پادری میں ضمن اسے ۱۸۵۴اس تھا۔ دیا کر جاری سلسلہ لامتناہی کا اعتراضات پر اسلام ہی آاتے اور تھا آایا یہاں میں ء

، تھی نہ واقفیت چنداں سے عیسائیت جنہیں علماء لوح سادہ تھا۔ چکا دیکھ بھی کتابیں کی علوم اسلامی تھی۔ واقفیت خوب سے فارسی اور عربی۔ تھے سکتے دے نہیں جواب کا اعتراضات کے فنڈر

نہیں یا ہوئی تحریف میں انجیل و توریت کہ تھا یہ مناظرہ موضوع ۔ کیا مناظرہ سے فنڈر آاگرہ مقام بہ نے وزیرخان ڈاکٹر اور کیرانوی اللہ رحمت مولانا آاخر لوگوں اور آانے یہاں کرکے سفر کے دراز دور کو پادریوں کہ ہوگئی واضح مرتبہ ایک پھر حقیقت یہ تاہم چلاگیا۔ واپس وہ اور کھائی شکست نے فنڈر ہوئی۔

یہ میں دلوں کے لوگوں لہذا تھی، ہوچکی قائم حکومت کی انگریزوں یہاں کہ لیے اس صرف ہوا؟ کیوں حوصلہ کا کرنے کوشش کی بگاڑنے عقائد کےیہ سے سرچشمے جس کہ پڑا کرنا فیصلہ یہی انہیں گی۔ ہوسکے نہیں نجات سے مصیبت اس ہے باقی اقتدار کا انگریزوں تک جب کہ ہوگئی پختہ بات

۔ چاہئے دینا کر بند جلد سے جلد اسے ، پھیلی میں ملک کر ابل مصیبتاورکالج اسکول

، فارسی ، عربی اا مثل تھا رواج پہلے کا جن ، تھے جاتے پڑھائے وعلوم السنہ تمام وہ تھا۔ دوسرا طریقہ کا تعلیم اندر کے کالجوں اور مدرسوں میں ابتدا پھرکم بہت تعلیم کی فارسی اور عربی بعدازاں تھی۔ جاتی پڑھائی بھی انگریزی ساتھ کے ان وغیرہ۔ کتابیں کی دھرم ہندو ، حدیث فقہ، سنسکسرت،

ہوا۔ زور کا انگریزی اور اردو ، نیں گئ دی کر بند کتابیں مذہبی دوسری اور حدیث فقہ ، ہوگئیہوگا یافتہ تعلیم کا کالجوں اور اسکولوں سرکاری شخص جو کہ دیا دے اشتہار نے حکومت اچانک ، ہی تھی تشویش پر ہونے ختم تعلیم کی علوم مذہبی

گی۔ جائے دی ترجیح لیے کے ملازمت میں مقابلے دوسروں اسے گا، کرے حاصل سند کر دے امتحان میں انگریزی زبان اور علوم فلاں فلاں یاسے اس آایا، پیش کچھ سب یہ درپے پے پر طریق جس لیکن ہے بحث از خارج سوال کا نیت کی حکومت ہوا۔ پیدا نءظن سو متعلق کے تعلیم طرح اس

، تھے نہ پابند کے مذہب اا عموم انگریز کے عہد اس کہ ہیں جانتے ہم گا۔ جائے بنالیا عیسائی کو سب آاہستہ آاہستہ اب اکہ تھ ہوسکتا یقین یہی کو لوگوںمذہب سے لحاظ ہر انہیں کہ ہے ہوتی ضرور خواہش یہ میں لوگوں ایسے لیکن ، تھے اخلاق خلاف اور مذہب خلاف سراسر طریقے طور کے ان لیے اسلیے ے کرنے واضح برتری کی عیسائیت پر سب بھی خود اور تھے سرگرم ہی بڑے میں افزائی حوصلہ کی پادریوں وہ چنانچہ ۔ سمجھائے شیدائی کے

تھی۔ ہی جانبدار تھی، جانبدارانہ غیر پر طور یقینی ۔ حکومت مجموعی حیثیت بہ ۔ تھے رہتے مضطربطریقے نئے میں خانوں جیل

لیتے کر انتظام ھکا کھانے کر مل آادمی چند یا تھے پکالیتے کھانا مطابق کے خواہش اپنی وہ اور تھے جاتے مل پیسے لیے کے خوراک کو قیدیوں میں ابتدا ، کرتے نہیں وہ چاہئے کرنی انہیں محنت جتنی اور ہے ہوتا ضائع وقت کا قیدیوں طرح اس کہ آائی بات اایہ غالب میں خیال کو حکومت اچانک پھر ۔ تھے

کھانا ہوا پکایا کا آادمیوں کے جاتیوں پنچ آادمی کے جاتیوں اونچی کہ ہوا پیدا سوال اب گا۔ پکے کھانا جگہ ایک لیے کے سب کہ دیاگیا دے حکم لہذابرباد کو پات ذات کی ہندوؤں حکومت کہ گیا کیا قبول اثر یہی اور گیا۔ سمجھا ذریعہ کا مداخلت میں مذہب بھی کو طریقے اس ؟ کھائیں کر کیوں

Page 32: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ ہے چاہتی کرنا ہموار راستہ لیے کے عیسائیت کرکےلیے کے مقاصد خطرناک اوقات بعض برتن یہ کے تانبے اور پیتل کہ سوچا نے حکومت پھر ۔ تھے سکتے رکھ لوٹے پاس اپنے ، قیدی پہلے طرح اسی

پور مظفر اور آارہ سے وجہ کی ان ، تھے کرسکتے نہیں استعمال اا ہندوقطع جنہیں ، گئے دیئے برتن کے مٹی کرکے بند انہیں لہذا ہیں ہوسکتے استعمال ) ۔) ہوئے بپا ہنگامے بڑے میں بہار

جائیداد جدی اور مذہب تبدیلاور ۱۸۵۰ ہندوؤں گا۔ رہے دار حق کا پانے حصہ اپنا سے میں جائداد جدی وہ ، لے کر تبدیل مذہب شخص جو کہ ہوا منظور قانون ایک میں ء

کے امر اس سے شدت تک وقت اس ہندو سمجھا۔ موجب کا افزائی حوصلہ کی عیسائیت اور خلاف کے مذاہب اپنے کو قانون اس نے دونوں مسلمانوںتھی۔ ہوئی نہ ہی پیدا کھولا، دروازہ کا تبلیغ بھی لیے کے ہندوؤں نے جس سماج آاریا سکتا۔ نہیں ہی ہو ہندو شخص کوئی کا مذہب غیر کہ تھے پابند

پر مذہب پہلے جو ، سے میں کے مترو کے مورثوں لیے کے اس تو ہوجائے مسلمان آادمی کوئی کا مذہب غیر اگر کہ تھا یہی بھی عقیدہ کا مسلمانوں۔ ہے ممنوع لینا حصہ ، ہوں قائم

یہ کہ ہوگیا یقین کو سب لہذا ، تھے اٹھاسکتے فائدہ عیسائی نو صرف نومسلم، نہ اور تھے اٹھاسکتے فائدہ ہندو تو نہ سے قانون اس میں لفظوں دوسرے۔ ہے حصہ ایک کا مہم سرکاری کی بنانے عیسائی کو لوگوں قانون

شادی کی بیوگانلیکن ۱۸۵۶ تھا، ہوا تجویز سے غرض کی ازالہ کے مرض مجلسی خوفناک ایک صرف قانون یہ لاریب ہوا۔ منظور قانون کا شادی کی بیوگان میں ء

اسے : وہ مطابق کے قول کے سرسید اور سمجھا ذریعہ کا مداخلت میں مراسم مخصوص اپنے اسے نے ہندوؤںخود بیواؤں کی ہندو کہ ہے ہوا جاری سے مراد اس ایکٹ یہ کہ تھے کرتے بدگمانی یوں اور تھے جانتے کا خاندان بربادی اور عزت اور ہتک اپنی باعث

۔ ‘‘ لگیں کرنے سو چاہیں جو اور جائیں ہو مختارخبری بے کی حکومت

خود کا بات بڑی چھوٹی ہر کو حکمرانوں دیسی ۔ تھے ناواقف اور خبر بے بالکل سے حالات کے عوام حکام اور حکومت کہ ہے حقیقت اہم ایک بھی یہکیا دور کر لے کام سے ذرائع کن کن انہیں ؟ ہیں کیا کیا تکلیفیں کہ تھے جانتے ۔ تھے آاگاہ سے حالات تمام اا طبع وہ کہ لیے اس تھا، رہتا خیال

سے زیادہ روپیہ کہ تھا چاہئے یہ صرف انہیں ۔ تھے اجنبی وہ کہ لیے اس ؟ کیوں ۔ تھے بہرہ بے اا کامل سے احساسات کے قسم اس انگریز ؟ ہے جاسکتاپر نرخ ارزاں مال خام یا سے ذریعے کے پنشنوں اور مشاہروں یا ملے سے ذریعے کے تجارت خواہ ، پہنچادیں انگلستان اسے اور ملے میں مقدار زیادہ

تک جب کہ ہے لکھا درست بالکل نے سرسید ۔ جائے لی قیمت گنا بیس بیس دس دس کرکے تیار مصنوعات میں کارخانوں کے وہاں کر بھیج انگلستانانگریز ؟ ہے ہوسکتا پیدا کر کیوں اختلاط اور ارتباط باہم رہے نہ پر طور کے وطنوں ہم کرکے پیدا اخلاص و محبت اور کر جل مل میں قوم دوسری قوم ایک

تھا؟ ہوسکتا زائل کر کیوں احساس کا اجنبیت کی ان لہذا ۔ تھے متنفر سخت سے جول میلروش کی حکام

کا ہمدردی اور اخلاص ، محبت ساتھ کے عوام اور تھے سمجھتے انسان کے درجے اونچے بہت میں حیثیت کی ہونے حکمران کو آاپ اپنے انگریز پھرسے کہاں خویشی میں ان کاسا، اجنبیوں برتاؤ اجنبی، لباس بودومانداجنبی، طریق اجنبی زبان تھا۔ خلاف کے حکمرانی آاداب نزدیک کے ان کرنا برتاؤ

ہوتی۔ خلاف کے مزاج کے ان جو تھی، پڑتی نہ ہمت کی کہنے بات ایسی کوئی کو والوں جلنے ملنے ۔ تھے مزاج نازک حد بے وہ پھر پیداہوتی؟بھی وقعت بے کو ہندوستانیوں وہ ؟ ہوتے کر کیوں آاگاہ سے حالات حقیقی حاکم انگریز میں حالات ان ۔ تھیں جاتی کی بیانیاں غلط پر بنا کی خوشامد

کہ فرمایا بجا بالکل نے سرسید ۔ تھے بھوکے کے عزت زیادہ بھی سے رزق لوگ کے یہاں حالانکہ ، تھے کرتے نہیں اا قطع عزت کی ان اور تھے سمجھتےبھرتا۔ نہیں کبھی جو ، ہے ہوتا گہرا ایسا زخم کا اس اور ہے کرتی پیدا دشمنی بغیر پہنچائے نقصان ظاہرہ ، ہے دکھاتی دل عزتی بے

نحس ذکاوت کی مسلمانوںوہ : کہ لیے اس تھا، پہنچتا رنج بہت سے وجہ کی ان کو مسلمانوں مگر ، تھے ناخوشگوار لیے کے سب اا عموم اوضاع یہ اور طریقے یہ

سے لالچ کسی ۔ ہے کم بہت کا روپے لالچ میں دل ۔ ہے غیرت ایک میں جبلت اور طبیعت کی ان تھے آاتے چلے باعزت میں ہندوستان سے صدہاسالاٹھانہایت ھکا بات ادنی بھی سے اس کو مسلمانوں ، ہیں اٹھالیتے کے رنج بغیر باتیں جو میں قوم اور کہ ہوگا ہوا تجربہ بہت ۔ چاہتے نہیں جانا کا عزت

میں اس جاتی۔ نہیں بدلی وہ ، ہے بنائی طبیعت جو نے خدا ۔ ہے مجبوری مگر سہی، بری بہت خصلتیں میں مسلمانوں کہ مانا نے ہم ۔ ہے ہوتا مشکل۔ نہیں قصور کوئی مگر سہی بدبختی کی مسلمانوں

اشتہار کا بنگال حکومتزمانے اس اور پڑا کرنا شائع اشتہار ایک میں زبان فارسی کو بنگال حکومت لیے اس ، تھیں بنی باعث کا ناراضی خاص میں عوام باتیں بعض سے میں انکی درج اہ خلاصت تصریحات کی حکومت میں باب کے ان تھا۔ ذکر کا باتوں چار میں اشتہار اس تھی۔ جاتی کی استعمال ہی زبان فارسی تر زیادہ میں

ہیں : جاتیکوئی ۱ میں بارے اس کو حکومت حالانکہ ہوا، سے ایما کے حکومت کچھ سب وہ گیا لیا سمجھ ، بھیجے خط جو یا چھاپے رسالے جو نے پادریوں ۔

ہوسکتی۔ نہیں رواداد کی دینے ترغیب طرف کی مذہب کسی کو شخص کسی وہ اور نہیں آاگاہی و اطلاعمحض ۲ یہ ۔ ہے خواہاں کی دینے کر موقوف قوانین کے وشاستر شرع اور ہے کرناچاہتی موقوف کو پردے اور ختنہ داری، تغزیہ حکومت کہ ہے مشہور ۔

Page 33: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ ہے افتراہوا ۳ معلوم کو حکومت جب ۔ لیے لے برتن کے پینے کھانے سے قیدیوں بغیر کے آاگاہی و اطلاع کی حکومت نے سپرنٹنڈنٹوں کے خانوں جیل بعض ۔

دیاگیا۔ کر موقوف حکم یہ سے ذریعے تارکے اا فور تو گا پہنچے نقصان کو مذہب کے قیدیوں طرح اس کہحاصل ۴ تعلیم لوگ کہ ہے یہ محض مدعا کا اس ۔ نہیں علاقہ کوئی سے تخریب کی ومذہب دین کو تعلیم کی انگریزی زبان اور قیام کے اسکولوں ۔

۔ پائیں ترقی اور ہو بہتر حالت معاشی کی ان ، کریںاپنی کی انگریزوں کچھ سب یہ تو جائے دیکھا سے غور ۔ تھے مبتلاہوگئے میں پریشانیوں گوناگون لوگ مختلف طرح کس کہ ہے ظاہر بھی سے اشتہار اس

تھا۔ نتیجہ طبعی کا روشملک افلاس اور انگریز

ہیں : فرماتے سرسید بڑھا۔ افلاس میں ملک سے وجہ کی انگریزوں پھرکہ لیے اس ہوا؟ کیوں ہوا۔ رنج کمال کو لوگوں لیاگیا، اودھ ہوا، فتح پنجاب ہوا۔ فتح گوالیار جب ہوا۔ غم بڑا کو لوگوں ۔ کیا فتح نے سرکار افغانستان جب

بہ تجارت کی اشیاء ہندوستانی کی قسم ہر ۔ تھیں آاتی ہاتھ اکثر نوکریاں تھی۔ آاسودگی بہت کو ہندوستانیوں سے عملداریوں ہندوستانی کی پاس کے انتھی۔ ہوتی محتاجی و افلاس زیادہ سے ہونے خراب کے عملداریوں ان تھی۔ کثرت

یعنی ، ہیں کرچکے پہلے نے ہم ذکر کا جس تھا، وہی سبب بنیادی بڑھی۔ وناراضی رنج میں عوام سے جن ، ہے کیفیت سرسری کی اسباب ان یہسے زیادہ اسے اور رکھنے تازہ کو اجنبیت کی انگریزوں وہ کہ لیجئے کہہ یا رہے بنتے موجب کا اضافے میں اس اسباب تمام باقی ۔ غلامی کی اجنبیوں

۔ تھے شریک افراد طور بہ بھی فوجی میں عوام ان ۔ ہوئے باعث کا بنانے افزا رنج زیادہبیان کا سین ڈاکٹر

مذکورہ تک حد جوبڑی ، دیاجائے کر پیش یہاں اا اجمال بھی اسے ہے کیا بیان کچھ جو میں کتاب اپنی نے سین ڈاکٹر کہ ہے ہوتا معلوم مناسب میں آاخر۔ ہے مصدق کا بیانات بالا

کارتوس ۱ والے چربی ۔کے ۲ ان ہندوستان پورا ۔ کیے فتح ملک پر ملکوں لیے کے انگریزوں نے ہم کہ تھے کہتے وہ تھی۔ چینی بے بھی علاوہ کے کارتوسوں ان میں ۔سپاہیوں

ہمارے کہ یہ کر بڑھ سے سب اور گئے گرادیئے درمیان کے امیروں اور حکمرانوں ہمارے گیا، لوٹا کو عوام ہمارے نکلا؟ کیا نتیجہ دیا۔ دے میں قبضے۔ ہوگئے شروع حملے تصور ناقابل پر مذہب

پانچسو۔ ۳ جگہ کی سو چار سو تین جگہ کی دوسو ، اضافہ میں مالیے ۔گنا ۴ دس بلکہ تگنا دگنا، چوکیدارہ ۔۔ ۵ ہوئے محروم سے زندگی ضروریات لاکھوں ۔ ہوگئے ختم روزگار وسائل کے علم اہل اور معززین ۔ہر ۶ اور تھا لیاجاتا ٹیکس کا سڑک کس فی پیسے دو سے اس تو تھا جاتا میں ضلع دوسرے سے ضلع ایک میں تلاش کی روزگار شخص کوئی جب ۔

۔ تھے سکتے آا جا پر سڑک ہی والے کرنے ادا ٹیکس تھا۔ ہوتا مجبور لیے کے دینے تک آانے آاٹھ سے آانے چار چھکڑااور ۷ ہے لیا کر حاصل درجہ اونچا میں تہذیب نے مغرب ۔ ہیں بلند سے اعتبار ثقافتی اور نسلی وہ کہ تھی ہوئی بیٹھی بات یہ میں دل کے انگریزوں ۔

۔ ہے گیا رہ ماندہ پس مشرق۔ ۸ تھے رہے برت پروائی بے سے جذبات کے عوام میں جوش کے اصلاح انگریز ۔۔ ۹ ہے ظاہر سے واقعات والے برما جنگ اور ویلور کہ جیسا تھے نہیں توجہ مستحق اا قطع نزدیک کے انگریزوں جذبات مذہبی کے سپاہیوں ۔تھی۔ ۱۰ مداخلت میں مذہب یہ ۔ دیاگیا کر منسوخ کو ستی ۔کے ۱۱ دینے پانسوروپئے وہ ہوگیا۔ قید میں کابل سپاہی ہندو ایک تھا۔ ہوجاتا پیدا مسئلہ کا پات ذات تو تھا جاتا بھیجا کو سپاہیوں میں ملکوں بیرونی ۔

اداکی۔ نے دوست ایک کے اس نصف گئی۔ دی رقم نصف صرف اسے تو پہنچا پور فیروز ہوا۔ رہا پر وعدے۔ ۱۲ سرگرمیاں تبلیغی کی پادریوں ۔تعلیم۔ ۱۳ کی مسیحیت علاوہ کے تعلیم عام میں اورجیلوں تبلیغ کی مسیحیت میں مدراس ۔تھا۔ ۱۴ نہ انتظام کچھ کا حفاظت کی پات ذات میں ڈبوں کے ریل ۔مسئلہ ۱۵ کا شادی کی عورتوں بیوہ ہندو ۔مسلمان ۱۶ ۔ تھے اٹھاسکتے فائدہ والے ہونے عیسائیت صرف سے قانون اس ۔ مسئلہ کا حفاظت کی حقوق کے میراث میں سلسلہ کے مذہب تبدیل ۔

ہی تھی تبلیغ میں دھرم ہندو اور تھا سکتا نہیں ہی لے حصہ سے میراث کی مسلم غیر مسلمان کہ لیے اس ۔ تھے اٹھاسکتے نہیں فائدہ کوئی والے ہونے۔ ہوسکتے مستفید سے اس ہندو کہ نہیں

۔ ۱۷ مزاحمت بار بار بعد کے اس دیا۔ بھتہ ہی کرتے عبور کو سندھ دریائے لے پولک جنرل میں افغانستان جنگ پہلی بھتہ۔ لیے کے فوجیوں ۔۔ ۱۸ لاتے خرچ جگہ دو یا لیتے لے ساتھ کو بچوں بال کہ تھی نہ اتنی تنخواہ کی ان لگا۔ جانے بھیجا دور دور کر بدل بدل کو سپاہیوں ۔برما ۱۹ جو ہونگے حاصل فوائد تمام وہ کو فوجیوں کہ کیا وعدہ تو بھیجی بمبئی فوج کی وہاں نے گورنر کے مدراس اا مثل ۔ شکنیاں وعدہ درپے پے ۔

جنرل حال صورت یہی بالکل دیاگیا۔ کر رد وعدہ کا گورنر کے مدارس نے جنرل گورنر ہوا معلوم تو پہنچے بمبئی لوگ وہ لیکن تھے ہوتے وقت جاتے۔ پڑا دینا استعفی کو پرنپیئر جس کی۔ پیدا نے ڈلہوزی میں سلسلے کے وعدہ کے پینئر چارلس

Page 34: 1857ء جنگ آزادی اسباب

خرچ کا سپاہکہ ہے گیا بتایا بھی خرچ ۱۸۵۷یہ پونڈ پینتیس سو دو ہزار دو لاکھ اٹھانوے پر اس اور تھی بیس پانسو اور ہزار پندرہ لاکھ تین تعداد کل کی سپاہ میں ء

کیجئے : اندازہ خرچ الگ الگ کے ان اب ۔ تھے ہوتےرقم تعداد قسم

دیسی ۵۶۶۸۱۱۰۵۱۳۱۶یوروپین اوسط ۴۱۳۴۱۲۵۵۶۴۳۰۴ طور بہ کس فی خرچ کا فرنگیوں یعنی یوروپینوں کس ۱۱۰ء۴گویا کافی دیسیوں اور کہ ۱۳ء۶پونڈ مانا تھا۔ بنتا پونڈ

اطمینان قابل سے نگاہ نقطہ بھی کسی نسبت کی دس سو ایک اور بارہ کیا لیکن ، تھا بلند قدرے معیار کا ان کہ مانا بھی یہ ۔ تھے حکمران فرنگی؟ ہے جاسکتی سمجھی

٭٭٭

کا مسلمان ہر ہے خوں تشنہ خاک ذرہ ذرہ کا دہلی شہرمیں 1857 روشنی کی مکاتیب کے غالب داستاں خونچکاں کی ء

ملک پورے حکومت اجنبی یہ میں برس نوے اا قریب ازاں بعد گیا۔ رکھا میں میدان کے پلاسی بنیاد سنگ کا حکمرانی کی انگریزوں میں ہند۔وپاک سرزمینواقعہ اہم نہایت ایک کا عہد اس رہی۔ میں ہاتھ کے اسی فرنروائی عنان تک برس سو مزید اور ہوگئی مسلط اہل 1857پر جسے تھا خونین ہنگامہ وہ کا ء

‘‘ استعمال ’’ میں کتابوں درسی کی تاریخ تک مدت نام یہی دیا۔ نام کا غدر اسے نے انگریزوں خود لیکن ۔ رہے قراردیتے آازادی جنگ سے ہی ابتدا وطنرہا۔ ہوتا

کہ ہے یقین تو جائے کیا مرتب میں شکل کی کتاب الگ اسے اگر لکھا کچھ جو پر واقعے اس میں نثر و نظم تصانیف اردو اور فارسی اپنی نے غالب مرزا ‘‘ کے ’’ آاپ نقشہ جو آاج میں لیکن ۔ ہے متعلق سے واقعہ اسی صرف ہے دستنبور نام کا جس کتاب ایک کی نثر فارسی ۔ ہوجائے تیار جلد ضخیم ایک

۔ ہے کیا تیار کر لے اقتباسات جستہ جستہ سے مکاتیب کے مرزا محض وہ ، ہوں چاہتا کرنا پیش سامنےآاغاز کا ہنگامے اس کہ چاہئے دینا کر عرض پر طور کے بے 1857مئی/ 11تمہید سے شہر انگریز دن چار اور مہینے چار تھا۔ ہوا دن کے پیر کو ء

۔ رہے ۔ 1857ستمبر/ 14دخل ہوئے داخل میں دہلی دوبارہ وہ کو مدت/ 18ء پوری اس مرزا آاگیا۔ میں قبضے کے ان پر طور مکمل شہر کو ستمبر افراد بعض کے خاندان اس ۔ تھے مکانات کے حکیموں خانی شریک جہاں تھا میں ماراں بلی مکان کا ان ۔ نکلے نہ باہر بھی لیے کے دن ایک میں

دروازے اجمیری اور دروازے ترکمان دروازے دہلی کر چھوڑ بار گھر شہر اہل تو ہوئی داخل میں دہلی دوبارہ فوج انگریزی جب ۔ تھے ملازم میں پٹیالہ سرکارکا حفاظت کی مرزا طرح اس تھا۔ بٹھادیا پہرہ اپنا لیے کے حفاظت کی خاندان خانی شریف نے پٹیالہ ای وال پر دروازے کے ماراں بلی ۔ گئے نکل باہر سے

پڑا۔ نکلنا نہ باہر کر چھوڑ بار گھر انہیں اور ہوگیا بندوبست بھینومبر تحریر پہلی سے سب متعلق کے واقعے اس میں مکاتیب کے نجف 1857مرزا غلام حکیم ۔ تھے ہوچکے قابض پر شہر انگریز کہ جب ہے کی ء

ہیں لکھتے : کو’’ باز معرض گیا۔ نہیں بلایا تک اب میں محکمے کسی گیا۔ نہیں نکالا گیا۔ نہیں بھاگ ۔ ہوں جیتا تک اب کہ نہیں زیادہ سے اس حال حقیقت میاں

۔ ہے ہوتا کیا دیکھئے آائندہ آایا۔ نہیں میں ‘‘پرسہیں 1857جنوری/ 9پھر فرماتے تحریر کو ء :

’’ لکھنے کچھ بہت لیئے میں ہاتھ قلم ۔ نہیں معلوم کچھ ہو کیا کے بھر گھڑی بعد ۔ ہوں جیتا واطفال عیال مع تک وقت اس ۔ ہے غنیمت ہے دم جو۔ راجعون الیہ وانا لللہ انا ورنہ گے لیں کہہ تو ہے میں قسمت بیٹھنا مل اگر سکتا۔ نہیں لکھ مگر ۔ ہے چاہتا جی ‘‘کو

پہنچی پر پیمانہ کس یقینی بے اور تھے نازک کتنے حالات وقت اس کہ ہے بتارہا لفظ لفظ لیکن گیا۔ لکھا نہیں کچھ میں جن ہیں فقرے چند اگرچہ یہتھی۔ ہوئی

کی اس تھے گزارے برس ساٹھ کے زندگی اپنی نے مرزا میں ماحول جس کرڈالا۔ وبالا تہہ کچھ سب نے جس تھا زلزلہ خوفناک ایک درحقیقت ہنگامہ یہوہ کہ تھا اثر گہرا اتنا کا انقلاب گیر ہمہ اور وسیع اس پر دل کے مرزا تھا۔ ہوگیا پیدا ماحول نیا بالکل جگہ کی اس اور تھی جاچکی لپیٹی بساط

نزدیک 1857 کے ان مطابق کے تعبیر طریق کے ہندوؤں کہ چاہئے کہنا یا ۔ تھے لگے سمجھنے عالم الگ الگ دو کو دور بعد اور دور کے پیشتر کے ء ہیں فرماتے تحریر کو تفتہ ہرگوپال شاگرد ہندو عزیز اپنے تھا۔ آاگیا میں وجود جنم دوسرا اور تھا، ہوگیا ختم جنم : ایک

’’ میں تم میں ہم کے طرح طرح اور ، تھے دوست باہم تم ہم میں جس تھا جنم ایک وہ ہوا۔ واقعہ کیا اور ہے معاملہ کیا یہ کہ ہو جانتے تم صاحب۔ان بخش نبی منشی ۔ تھے دوست دلی تمہارے ہمارے اور تھے بزرگ ایک میں زمانے اس لکھے دیوان ۔ کہے شعر ۔ آائے پیش در محبت و مہر معاملات

ملا۔ کو ہم جنم دوسرا پھر کے مدت چند بعد انبساط۔ و نہ اختلاط وہ نہ معاملات وہ نہ اشخاص۔ وہ نہ رہا زمانہ وہ نہ تخلص۔ کا ان حقیر اور نام کا تم کہ تمہارا خط ایک آایا۔ جواب کا اس بھیجا۔ کو صاحب منشی نے میں خط ایک یعنی ۔ ہے کے جنم پہلے مثل بعینہ کی جنم اس صورت اگرچہ

Page 35: 1857ء جنگ آزادی اسباب

ایک لیکن محلہ۔ کا ماراں بلی نام کا محلے اس اور دلی نام کا اس ہوں رہتا میں شہر جس میں اور آایا ہو، تفتہ بہ متخلص و ہرگوپال منشی یہ موسوم بھیجاتا۔ پایا نہیں سے دوستوں کے جنم اس ‘‘دوست

بعد کے اس نے انگریزوں تھا۔ ہوچکا چراغ بے شہر پورا اور ۔ تھے گئے نکل باہر شہر اہل ہی ساتھ کے داخلے کے فوج انگریزی کہ ہوں کرچکا عرض میںدولت : ’’ دار، پنشن جاگیردار ۔ گئے نکالے وہ گئے رہ جو گئے نکل سب غریب امیر جاننا نہ مبالغہ ہیں فرماتے مرزا دیا۔ کر شروع سلسلہ کا داروگیر عام

۔ ہیں مبتلا میں لیر دارو اور پرس باز ۔ ہے پرشدت قلعہ ملازمان ۔ ہے لگتا ڈر ہوئے لکھتے مفصل ۔ نہیں بھی کوئی حرفہ اہل ‘‘مند،’’ ہے میں شہر ۔ آاوے پاس میرے کوئی کہ یہ رہا ۔ ہے بات بڑی تو جانا کہیں اور ہونا سوار سکتا۔ نکل نہیں باہر سے دروازے ۔ ہوں بیٹھا میں مکان اپنے

) یعنی ) تک آاج سے مئی دہم یاز لا مارشل یعنی بندوبست جرنیلی ۔ ہیں جاتے پائے سیاست مجرم ۔ ہیں پڑے چراغ بے گھر کے گھر ؟ آاوے جو کوندسمبر پنجم معلوم۔ 1857پنجشنبہ نہیں کو مجھ حال کا وبد نیک کچھ ۔ ہے بدستور تک ء ‘‘

آارام شیونارائن منشی شاگرد، ایک کے میں مرزا جواب ۔ پہنچائیے بہم خریدار لیے کے اس کہ کی استدعا سے مرزا تھا۔ نکالا اخبار ایک سے آاگرے نے

ہیں : فرماتے’’ سخی بہت ۔ ہیں سستے کہاں گیہوں کہ ہیں پھرتے ڈھونڈتے یہ وہ ہیں بستے یہاں جو لوگ مہاجن ۔ ہوں خریدار کے اخبار کہ ہیں کہاں آادمی یہاں

) ۔ ) گے لیں مول کیوں کا مہینے روپیہ اخبار یعنی کاغذ ۔ گے دیں دے پوری جنس تو ‘‘ہوگئےتھا یہ مصرع آاخری کا مقطع کے اس بھیجی غزل ایک میں زمانے اسی نے مجروح مہدی :میر

’’ ہے زبان کی دہلی اہل یہ ‘‘ میاںہیں فرماتے ہلادیا۔ تار ہر کا درد ساز کے مرزا نے مصرع : اس

’’ ۔ ’’ ہے زبان کی دہلی اہل یہ میاں آاتی نہیں شرم تجھے مہدی۔ میر ‘‘اے’’ اردو خدا بندۂ اے ۔ ۔ ۔ ہے کرتا تعریف کی کسی تو سے میں ان ہیں گورے یا ہیں پنجابی یا ہیں خاکی ۔ ہیں حرفہ اہل یا ہیں ہند دہلی اہل اب ، اے

نہر۔ نہ بازار نہ شہر نہ قلعہ نہ ہے چھاؤنی ۔ ہے کیمپ ۔ ہے نہیں شہر اب واللہ کہاں دلی ؟ کہاں اردو رہا۔ نہ ‘‘بازارہیں لکھتے کو خان الدین علاؤ : نواب

’’ ہنود۔ سراسر باقہ پیشہ، شاگرد کے حکام یا حرفہ اہل مسلمان ۔ ہے کیمپ ایک ۔ ۔ ۔ ہوئے پیدا تم میں جس نہیں دلی وہ یہ جان۔ ‘‘میریتر زیادہ وہی چنانچہ ۔ تھے مسلمان صرف مجرم اصل میں نظروں کی انگریزوں لیکن تھا لیا حصہ یکساں نے مسلمانوں اور ہندوؤں اگرچہ میں زادی آا جنگ۔ تھے برابر مسلمان اور ہندو بھی میں نکلنے باہر سے شہر ۔ ہوئیں ضبط جائیدادیں کی انہیں ۔ ملیں پھانسیاں بالعموم کو انہیں ۔ بنے ھدف کے داروگیرآایا، نظر ٹھکانا میں شہر دوسرے کسی کو جن یا ۔ رہے پڑے باہر بدستور مسلمان گئی۔ مل اجازت کی ہونے آاباد میں گھروں جلد بہت کو ہندوؤں لیکن

ہیں لکھتے مرزا ۔ گئے چلے : وہاں’’ ہوگئے آاباد کچھ کچھ البتہ ہندو ۔ ہیں کے باہر تو ہیں کچھ اگر حرفہ، اہل کیا غریب کیا امیر، کیا ملتا۔ نہیں میں شہر اس مسلمان کو ڈھونڈھے واللہ

۔ ہیں۔ ہیں لکھتے میں خط اور ایک

’’ ۔ نہیں یا ہے ہوتا حکم کا آابادی کی مسلمانوں چاہئے دیکھا ‘‘ابھی۔ دیئے کر شروع بنانے مکان عارضی جگہ جگہ ہی باہر کے شہر نے بعض سے میں ان تو ملا۔ نہ حکم کا ہونے باد آا میں شہر کو مسلمانوں تک مدت

ہیں لکھتے مرزا ۔ بنائے نہ مکان کوئی آائندہ کہ جائے دیا کر اعلان اور جائیں ڈھادیئے مکان سب کہ ہوا حکم پر : اس’’ حکم کا ممانعت کو آائندہ گروادو۔ انہیں ہیں چکے بن مکان جو ۔ ہیں بناتے کیوں کان و مکان باہر سے شہر لوگ یہ کہ ہے نکلا حکم یہ سے کلشہر وہ ہیں پڑے باہر جو یا ہیں جاتے کئے خارج بھی وہ ہیں رہتے جو ۔ ہے مہورت کونسی کی بسنے کے شہر ۔ دیکھیئے ہے صورت یہ تک آاج سنادو۔

لللہ۔ والحکم لللہ الملک ۔ ہیں آاتے ‘‘میںبیس انیس مرزا، احمد بیٹا کا اس بھانجا، میرا بیگ، عاشور مرزا الدین، ناصر میر الدولہ، مظفر ۔ ہوں گنتا کو شہر اہل کرکے نظر قطع سے نامبارک قلعۂ

نہیں برابر کے عزیزوں اپنے کو ان میں کیا ۔ اللہ فیض قاضی خان، یی مرتض اور خان یی ارتض بیٹے دو کے اس الدولہ اعظم ابن خان یی مصطف بچہ، کا برس : سرفراز مرزامیر یوسف مرزا حسین فراق غم ۔ لاؤں سے کہاں کو ان اللہ۔ اللہ میکش، حسین میراحمد خان، الدین رضی حکیم گیا بھول لو اے تھا؟ جانتا

حال کے اکبر اور سجاد ۔ آاوارہ خود وہ چراغ بے کے ان گھر ۔ ہوتے خوش ہوتے جہاں کہ ہوتا یہ کاش ۔ رکھے جیتا کو ان خدا صاحب میرن حسیناولاد کے اغنیاوامرا یہاں ۔ ہے ہوتا تیرہ میں نظر میری عالم میں فراق کے زندوں اور غم کے اموات ان ۔ ہے ہوتا ٹکڑے ٹکڑے کلیجہ ، کرتاہوں تصور کاجب

۔ دیکھوں میں اور پھریں مانگتے بھیک ازدواج ‘‘واپنی نے تفتہ مرزا شاگرد کے ان ہوجاتا۔ تازہ مصائب دورہ کا بعد کے آازادی جنگ میں دل کے ان تو آاجاتا پیش واقعہ وہ کہ تھی ہوگئی حالت یہ کی مرزا

Page 36: 1857ء جنگ آزادی اسباب

‘‘ کا ’’ بہانے آانسو پر بدحالیوں ، اور مصیبتوں کی قلعہ بیگمات کو واقعے اس نے مرزا تھی۔ نہ اچھی چھپائی لکھائی کی اس چھپوائی۔ سنبلستان کتابہیں فرماتے بنالیا۔ : بہانہ

’’ پہ تم جب مثال کی کاپی اس ۔ ہے کاپی بری کیا ہائے ۔ ڈبویا بھی کو اصلاح میری اور کو فکر اپنی اور کھویا بھی روپیہ اپنا نے تم تفتہ مرزا اجیمبالغہ یہ ٹوٹی۔ جوتی لیر۔ لیر پائنچے یلے م کپڑے اور سی کی ہفتہ دو ماہ صورت ۔ دیکھتے چلتے پھرتے کو قلعہ بیگمات اور ہوتے یہاں تم کہ کھلتی

‘‘ تھا۔ لیا لے میں قبضہ اپنے کو مسجد جامع نے انہوں کہ گا ہوسکے سے واقعہ اس صرف اندازہ ھکا حالت دماغی کی انگریزوں کے وقت اس ۔ نہیںپانچ اا قریب سے آازادی جنگ ۔ جائے بنالیا گرجا اسے کہ تھی ہوئی پیش بھی تجویز یہ مرتبہ ایک تھا۔ بٹھادیا پہرہ کا بٹالین سکھ ایک پر دروازوں کے اوراس

ہوئی۔ واگزار مسجد بعد برسمموں ’’ عرف کا جن تھے بخش محمد حافظ ایک میں ان تھیں ہوئی ضبط جائیدادیں کی مسلمانوں جن ۔ ہے لکھا واقعہ افزا عبرت عجیب ایک نے مرزا

قبضہ‘‘ پر جائیداد میری کہ دی درخواست میں کچھری نے انہوں گیا۔ مل حکم کا بحالی کی جائیداد اور ہوئے ثابت قصور بے وہ میں بعد تھا۔ ؟ ’’ ‘‘ ہے کون مموں پوچھا حاکم لیے اس تھا درج بھی عرف میں درخواست چونکہ بخش۔ محمد کیا عرض ۔ پوچھا نام نے حاکم انگریز ۔ دلایاجائے

فرمایا ’’ ‘‘ کر سن نے صاحب ۔ ہیں پکارتے کر کہہ ،مموں مموں مجھے لوگ ۔ ہے بخش محمد میرا نام کہ کیا :عرض’’ مسل ؟ دیں کو کس مکان ہم تم۔ بھی وہ ہے میں دنیا جو تم بھی جہاں سارا تم۔ بھی مموں حافظ تم۔ بھی بخش محمد حافظ ۔ نہیں بات کچھ یہ

۔ آائے چلے گھر اپنے میاں ہوئی۔ دفتر ‘‘داخلاور گیا چھپ میں مکاتیب کے ان یہ تھا۔ لکھا میں ہی خط کو دوست ایک اپنے نے انہوں جو ہوں لکھتا قطعہ ایک کا مرزا متعلق کے جنگ میں آاخر

ہوسکا نہ شامل میں :دیوانآاج ہے یرید ما فعال بسکہکا انگلستان شور سلح ہر

ہوئے نکلتے میں بازار سے گھرکا انساں آاب ہے ہوتا زہرہ

ہے مقتل وہ کہیں کو جس چوککا زنداں ہے بنا نمونہ گھرخاک ذرۂ ذرہ کا دہلی شہر

کا مسلماں ہر ہے خون تشنہتک یاں آاسکے نہ سے واں کوئی

کا یاں جاسکے نہ واں آادمیکیا پھر گئے مل کہ مانا نے میں

کا جاں و دل و تن رونا وہیشکوہ کئے کیا کر جل گاہ

کا پنہاں ہائے داغ سوزشباہم کئے کہا روکر گاہ

کا گریاں ہائے دیدہ ماجرایارب سے وصال کے طرح اس

کا ہجراں داغ سے دل مٹے کیا

شروانی خان ہارون

ہند ای آازاد نگ دستاویز ۱۸۵۷جن اہم ایک متعلق کے ء

Page 37: 1857ء جنگ آزادی اسباب

اس مظالم اور سختیاں جو اور گئی، رہ ہوکر مسخ صورت کی اس کہ ڈالا پردہ ایسا کچھ نے حکومت انگریزی پر تاریخ کی جنگ اس کہ ہے یہ حقیقتذکر کا ان کیا تو کرنا بلند آاواز خلاف کے ان کہ گئے رہ ہوکر مرعوب ایسے کچھ وہ سے وجہ کی ان کئے پر ہندوستانیوں نہتے نے حکام کے زمانے

لٹکا نہ پھانسیاں پر درختوں کے پیپل اور نیم جگہ جگہ جہاں ہوگا۔ قصبہ یا شہر ایسا سا کون کا بھارت اتر تھی۔ فطری مرعوبیت یہ ہوگیا۔ ناممکن کرنابھیدرخت وہ تک وقت اس تو میں قصبوں بعض ہو۔ گیا اتارا نہ گھاٹ کے موت کو لوگوں پر لزام سچے یاجھوٹے پر شبہ محض جہاں اور ہوں گئی دی

یاد کی سانحے اس بھی آاج ہے موسوم سے نام اسی تک جواب دروازہ خونی وہ میں دہلی ۔ تھیں گئی دی پھانسیاں کو لوگوں جہاں ہیں جاتے دکھائےنشانہ کا گولی دیگرے بعد یکے پر شبہ محض کو بھائیوں دو کے ان اور اور بیگ مغل مرزا عہد ولی کے سلطنت تیموری نے ہوڈسن جب ۔ ہے کرتا تازہتحفہ بطور سامنے کے ، شاہ بہادر ، بوڑھے جانشین کے عالمگیر اور اکبر کر ڈھک سے پوش خوان میں خوان ایک کو سروں ہوئے کٹے کے ان اور بنایا۔ پاگئے وفات میں حالت کی افلاس اور غربت نہایت وہ جہاں دیا کر جلاوطن رنگون کو مرد پیر اس خود نے حکومت بعد روز چند اور بھجوایا،

کی نہیں بغاوت نے فوج کی جہاں میں ریاستوں اور صوبوں ایسے کے ملک ۔ تھی ہوئی چھائی پر ملک پورے بعد کے غدر نہاد نام جو تھی فضا وہ یہتوانائی اور تندہی نہایت آاثار کے بغاوت اور سرکشی بھی وہاں ہند، جنوبی جیسے تھی۔ کی نہیں بغاوت اور سرکشی بھی وہاں ہند، جنوبی جیسے تھی۔

سماج موجودہ اور تھا رہا کر پیدا جگہ سے زور کے وتفنگ توپ لیے اپنے دوسرا تو تھا ہورہا ختم ، معاشرہ ایک سماج، ایک ۔ تھے ہوگئے پیدا ساتھ کےاور کیا نہیں پسند رہنا ماتحت کے قوم غیر ایک بعد کے ہونے فرو بغاوت نے جنہوں تھے لوگ باثروت ایسے سے بہت تھا۔ رہا کر مقابلہ کا اس جگہ ہرکیا نیچے کے باؤٹے کے جس تھی چھینی سے فرمانروا ایک کے خاندان تیموری حکومت کی ہندوستان نے انگریزوں ۔ گئے کہہ باد خیر کو گھروں اپنےزہر ایسا کچھ پر طور خاص خلاف کے مسلمانوں میں دماغوں کے انگریزوں اور تھا، اسلام مذہب کا اس مگر ۔ تھے ہوگئے جمع سب مسلمان کیا ہندو

ہیں ملتی مثالیں ایسی تھا۔ جاتا دیا ڈال پھندا کا پھانسی میں گردن کی اس بات ذراسی اور تھا جاتا دیکھا سے نظروں مشتبہ کہ گو کلمہ ہر ہ تھا گیا بھرہو۔ ملی سزا کی پھانسی پر نکلنے تفنگچہ یا بندوق کوئی سے یہاں کے کسی یا پر کہنے یی نصار کو عیسائی کسی کہ

کھول دل وہ اور تھا ہوگیا تسلط دوبارہ کا انگریزوں پر ملک ۔ لکھا ہند، بغاوت اسباب رسالۂ میں فضا اسی نے خان احمد سید بانی کے تحریک گڑھ علیسے قلم یا سے منہ بھی لفظ ایک میں تنقید کی پالیسی کسی کی ان یا خلاف کے ان ۔ تھے رہے لے بدلہ کا واقعات پچھلے سے ناکس و کس ہر کر

چند ) رام ایک سے میں جن نے بعض سے میں ان تو دکھائی کو دوستوں اپنے کتاب یہ نے خان احمد سید جب تھا۔ نہیں خالی سے خطرے نکالنامان۔ ( نہ ایک نے سید مگر آاؤ۔ باز سے خیال کے چھپوانے اسے کہ ہے مناسب اور ہو رہے کھیل سے آاگ تم کہ کہا سے ان تھے بھی آاباد مراد منصف

خانگی محض اشاعت کی اس گو دیا۔ یج ھ ب پاس کے ممبروں کے پارلیمنٹ نسخہ ایک اور کو ہند جنرل گورنر کیننگ لارڈ نسخہ ایک کا اس اورترجمہ کا اس میں انگریزی اور کے ۱۸۷۳تھی کونسل کی وائسرائے اور ہوئی شہرت بڑی کی اس میں حلقوں سرکاری تاہم گیا۔ کیا نہیں پہلے سے ء

بیڈن سرسیل ) Sir Cecil Beadon( ممبر متعلق کے کتاب اس سے سید کہ کہا نے انہوں میں جس کی تقریر زبردست ایک میں کونسل نےسید نے وائسرائے خود اگر کہ ہے یہ حقیقت ۔ پہنچایاجائے کو کردار کیفر انہیں تو جائے قراردیا خاطی انہیں اگر اور کرے پرس باز باضابطہ حکومت

۔ جاتے دیئے قرار مستوجب کے سزا سخت سے سخت خان احمد سید کہ ہے ممکن تو ہوتی کی نہ تائید کی پسندی حق کو خان احمد ‘‘ جواب ’’ خاص بطور ضرور کا الزاموں ان میں اس چینی۔ نکتہ اور تبصرہ عام ایک پر پالیسی کی حکومت ۔،برطانوی ہے کیا ہند بغاوت اسباب رسالۂتاوقتیکہ کہ ہے یہ وہ ہے فرما کار میں رسالے پورے جذبہ جو لیکن تھی۔ لگارہی پر مسلمانوں ہندی پبلک انگریزی اور اخبار کے انگلستان جو ہے دیاگیا

والے سمجھنے سوچنے کے ملک تک وقت اس پہنچیں تک کانوں کے سرکار جذبات و خیالات حقیقی کے ہندوستانیوں کہ نکلے نہ طریقہ ایسا کوئیگی۔ اٹھے بھڑک ضرور آاگ کی اس اور ہوگی پیدا چینی بے اا لازم میں طبقے

تک وقت گزرے ۱۸۵۷اس ہوکر میں بھونچال اس لوگ جو بلکہ تھا گیا کیا نہیں اختراع نام کا غدر لیے کے تحریک گیر ہمہ اور الشان عظیم کی ء احمد سید ۔ جائے کیا محمول پر غدر کے فوجیوں چند محض کو تحریک اس کہ تھا آایا نہیں زمانہ وہ ۔ تھے کہتے ہی بغاوت یا سرکشی اسے وہ تھے

کے مخالفوں یا کرنا مقابلہ کا گورنمنٹ مراد سے اس کہ ہیں دیتے جواب ہی خود پھر اور ہے کیا بغاوت یا سرکشی کہ ہیں کرتے دریافت یہ تو پہلے خاںبتاتے شکل کی سرکشی وہ بعد کے اس توڑنا کو حدود اور حقوق کے حکومت ہوکر نڈر یا بجالانا نہ اور ماننا نہ حم سے ادارے مخالفانہ یا ہونا، شریکنے ’’ کسی یا ہوں باتیں متعدد یا ہو مخالف کے طبیعتوں کی سب جو کہ ہے ہوسکتی بات عام ایسی کوئی باعث کا سرکشی عام کہ ہیں کہتے ہوئے

ہو۔ ہوگئی عام سرکشی رفتہ رفتہ پھر اور ہو دیا پھیر کو طبیعت کی گروہ ‘‘کسیکی واقعات ( ۱۸۵۷مئی / ۱۰جن کی ’’ ) ہندوستانی میں پارلیمنٹ انگریزی بلاشبہ کہ ہیں لکھتے ہوئے کرتے تجزیہ کا اسباب کے ان ہوئی ابتداء سے ء

تمام ہے جڑ جو ہے بات ایک یہی تھی۔ نہ وجہ کوئی کی رکھنے نہ مداخلت میں کونسل لیجسلیٹیو مگر تھی۔ محض فائدہ بے اور ممکن غیر مداخلتمیں انداز مخصوص اپنے وہ ۔ ہیں شاخیں کی اس سب وہ گئیں ہوتی جمع باتیں جتنی اور کی فساد کے میں ۱۸۵۸ہندوستان زبان الوقت رائج کی ء

کو ’’ حکومت ہماری الخصوص علی ۔ ہے سے واجبات میں ملک کی رعایا مداخلت کے گورنمنٹ پائیداری اور خوبی اور اسلوبی واسطے کہ ہیں لکھتے۔ تھے متخلف سے ملک اس ورسم راہ اور رواج اور مذہب اور تھی والی رہنے کی ملک غیر ‘‘ جو

دوچار سے انتخابوں الشان عظیم دو نسب یی ادن و یی اعل اور ہے رہا پھیل میں ملک ہمارے سے تیزی نہایت علم کا سیاسیات جب مں زمانے کے آاج

Page 38: 1857ء جنگ آزادی اسباب

کچھ سے خیالات ان ہمیں ، ہے مضمر میں ہی مطابقت کی رائے عام بہبود کی ک مل کہ ہے یہ پالیسی کی سرکار ہماری خود جب اور ہیں ہوچکےکو آاپ اپنے مگرہم ہوتا۔ نہیں اچنبھال ملازم ۱۸۷۵زیادہ سرکاری ایسے ایک باتیں بیسیوں کی طرح اس اور یہ کہ سوچیں اور جائیں لے میں فضاء کی ء

ہمیں تو ہے بدظن زیادہ سے انتہا حکومت بدیشی کی زمانے اس سے مذہبوں ہم کے جس اور ہے نابلد بالکل سے زان انگریزی جو ہیں نکلی سے قلم کےمیں ملک اس اور تھی لی پکڑ رگ دکھتی گویا کی حکومت نے خان احمد سید ہوگا۔ اندازہ کا دواندیشی اور فراست کی شخص ادھیڑ سالہ چالیس اس

یہ ۔ دے جگہ میں کونسل حکومتی کو مقاموں قائم کے رعایا کہ ہے لازم کو سرکار تو ہے کرنا حکومت پر ملک اگر کہ تھا کیا پیش اصول یہ مرتبہ پہلیصرف سے چھپنے کے رسالے اس کہ نہیں واقعہ اتفاقی محض یہ ۔ دے جگہ میں کونسل حکومتی کو مقاموں قائم کے رعایا کہ نہیں واقعہ اتفاقی محض

نے پارلیمنٹ برطانوی اندر کے سال اچھوتوں ۱۸۶۱تین سیاسی دروازہ کا مندر حکومتی گویا سے ذریعہ کے جس کیا منظور ایکٹ کونسلز انڈین کا ء آائندہ تبدیلی یہ مگر ۔ ہے ہوتی معلوم خیز مضحکہ ہمیں نامزدگی میں کونسل کی وائسرائے کی ہندوستانیوں سرکاری غیر چار تین محض گیا۔ کھل لیے کے

اور ہیں ہوتے مسرور بہت سے دیکھنے بدوش دوش کے حکام یی اعل انگریزی کو ہندوستانیوں احمدخان سید تھی۔ حامل کی انقلاب الشان عظیم کےہیں جاتے کہہ بات وغریب عجیب یہ سے اعتبار کے زمانے اس پر موقع کے جلسے افتتاحی کے پور غازی اسکول : وکٹوریہ

’’ ہر کہ نہیں دور دن وہ کہ رکھو یادر کو گوئی پیشین اس میری ۔ ہے فروغ کا ترقی کی ہندوستانیوں ہونا داخل میں کونسل کالیجسلیٹیو ہندوستانیوں چند۔ ۔ ۔ گے کرو عمل پر اس ہی خود اور گے بناؤ قانون خود تم کہ گا آاوے دن وہ ہوگا۔ ضروری ہونا داخل میں کونسل کا شخص ایک سے میں ضلع۔ ہے ضرورت قدر کس کی لیاقت اور تربیت اور فنون و علوم کو ہندوستانیوں کہ گے دیکھو تم پس لیاقت۔ و تربیت یعنی ، چاہئے چیز ایک ‘‘صرف

آاکٹے ایلن میں بانیوں کے کانگریس نیشنل انڈین کہ ہوگا واقف سے اس وہ ہے دیکھی بھی پر طور سرسری تاریخ کی آازادی کی ہندوستان نے جس ہرشخصہوم نے )Allan Octavian Hunme( وین ہیوم ۔ تھے مبانی بانی گویا کے اس وہ کہ ہے خیال یہ تو کا سوں بہت بلکہ ہے رتبہ اونچا کاکتنا

ہوئے ) ( ممبر کے کونسل کی ہند وزیر بعد سال کئی جو سے خان احمد آافتاب نیشنل ۱۸۸۷صاحبزادہ نے جس چیز پہلی سے سب کہ تھا کہا میں ء ‘‘ سے ’’ بہت سے میں ہم تھی ہند بغاوت اسباب کتاب کی سرسید وہ کیا پیدا میں دل میرے خیال کا کرنے جاری کے تحریک کی قسم کی کانگریس

شدہ مسخ کو تعلیمات کی سید نے جنہوں گے ہوں بھی ایسے سے بہت اور سناہوگا سے مشکل بڑی بھی نام کا رسالے اس نے جنھوں گے ہوں ایسے ‘‘ میں ’’ ماحول خطرناک نہایت ایک وہ کہ ہے محتاج کا فکر اور توجہ خاص سے اعتبار اس ہند بغاوت نب اسبا رسالہ کا ان مگر ہوگا۔ دیکھا میں صورت

گورسالے تھے بالاتر سے بوجھ سوجھ کی ہندوستانیوں سے بہت کے زمانے اس جو ہے گیا کیا اظہار ھکا خیالات کے قسم اس بعض میں اس اور گیا لکھاہندوستان سے وجہ کی اس کہ کہاجائے یہ اگر پڑا۔ بھی پر رائے عام بلکہ پر ہند حکومت صرف نہ اثر کا اس لیکن ۔ ہے کا صفحے ستر صرف حجم کا

ہے مقام جو کا خان احمد سید مصنف اس اور رسالہ اس میں تاریخ کی آازادی کی ہندوستان اور ہوگی نہ آامیزی مبالغہ تو گیا پلٹ ورق ایک کا تاریخ کیجاسکتا۔ کیا نہیں انداز نظر سے طرح کسی اسے

نیر الدین ضیاء محمد۱۸۵۷ سرسید اور ء

۱۸۵۷ اور ہندوؤں کے بجنور ۔ بچائیں جانیں کی عورتوں اور مردوں انگریز کئی نے انہوں جہاں ۔ تھے جج سب کے بجنور سرسید وقت کے ہنگامہ کے ءکہ تھے پائے نہ بھی سلجھانے کو مسائل انتظامی ابھی وہ مگر ۔ کیا مقرر حاکم کا ضلع انہیں نے انگریزوں وقت کے ہنگامے پر درخواست کی مسلمانوں

دہلی خاندان ۔ ہوگئے بیمار اور پہنچے میرٹھ سے کپڑوں کے بدن سے مشکل بڑی گئی۔ پڑی میں خطرے جان کی ان خود میں جس گیا۔ آا ریلا کا ہنگامہگزیں پناہ میں گھر کے ملازم قدیم ایک اپنے خالہ اور والدہ کی سرسید ۔ گئے نکل سے دلی سے بہت اور گئے مارے تو افراد بیشتر کے خاندان تھا۔ میں

قدر اس کو سرسید نے تباہی کی مسلمانوں اور میرٹھ اور لاسکیں نہ تاب کی صدموں والدہ مگر ۔ آائے لے میرٹھ انہیں سے مشکل بڑی سرسید ۔ تھیںمیں حالت ایسی کا وطن اہل کہ آایا خیال پھر مگر بناتے منصوبہ کے ہجرت اور دیتے چھوڑ لیئے کے کوہمیشہ ہندوستان وہ کہ دیا کر دل بد اور غمزدہ

حکومت میں صلہ کے اس تھا دیا انجام کام نمایاں جو میں سلسلہ کے بچانے جان کی انگریزوں نے سرسید میں بجنور ہوگی۔ غرضی خود دینا نہ ساتھانگریزی دیا۔ کر انکار سے کرنے قبول انعام یہ نے سرسید مگر چاہا دینا جاگیر بطور انہیں تھی ماہانہ لاکھ ایک اا تقریب آامدنی کی جس آاباد جہاں تعلقہ نے

۔ کیا مقرر الصدور صدر کا آاباد مراد کر دے ترقی انہیں نے حکومتبالخصوص اور طن و اصل تھا۔ دیا کر واقف بخوبی سے رجحان اور مزاج کے حکام انگریز کو سرسید نے ملازمت کی حکومت انگریزی تک عرصہ ایک

تاکہ مٹائیں کو فرق اس کے ذہنیتوں کی فریقوں دونوں کہ تھے رہتے میں فکر اس وقت ہر وہ اور تھا علم پورا بھی کا خیالات اور جذبات کے مسلمانانہوں بعد کے لینے جائزہ سے دماغ ٹھنڈے اور سنجیدگی پوری کا حالات کے ملک غرض ۔ ہوسکے ممکن زندگی کی امن اور عزت لیے کے مسلمانوں

لی۔ کر متعین راہ اپنی نے ‘‘ اور ’’ معقول ، مدلل نہایت نے سرسید میں کتاب اس ۔ ہے جاسکتا کہا کارنامہ عظیم پہلا کا ان پر طور بجا کو ہند بغاوت اسباب تصنیف کی سرسید

Page 39: 1857ء جنگ آزادی اسباب

کے مسلمانوں اا خصوص اور ہندوستانیوں نے انگریزوں کہ بتلایا صاف صاف ۔ کیا پیش تجربہ کا پالیسیوں غلط کی حکمرانوں انگریز میں انداز جذباتی غیراپنے نے حاکموں ۔ تھے نہ قبول قابل طرح کسی لیے کے ان جو بنائے قانون ایسے اور کیں غلطیاں کہاں کہاں میں سمجھنے کو احساسات اور جذبات

حکومت کو مسلمانوں کہ دیا کر ثابت سے دلیلوں تردید اورناقابل کیا اختیار رویہ انسانی غیر اور ہمدردانہ غیر کیسا ساتھ کے محکوموں اور ماتحتوں مسلم ۔ ہے کانتیجہ فیصلے غلط اور انصافی ھنا کھلی کی انگریزوں سمجھنا باغی کا

کے دینے دعوت کو موت اپنی کام یہ میں زمانہ اس مگر ۔ ہے بات آاسان بہت گنانا غلطیاں کی حکمرانوں اور کرنا تنقید پر حکومت میں دور کے آاج لیا۔ مول جوکھم نے انہوں جو تھی پسندی صداقت اور خلوص کا ان صرف دکھایا۔ کر کام یہ بغیر کئے پرواہ کی نتائج اور عواقب نے سرسید تھا۔ مترادف

آارائی ہنگامہ کوئی مقصد کا ان سے تصنیف کی کتاب اس دیکھیں چہرہ اپنا میں آائینہ کے صداقت حکام انگریز کہ تھے چاہتے سے دل سچے سرسیدانگریز یی اعل کے انگلستان اور ہندوستان صرف چھپواکر جلدیں چند کی اس اور کی نہ اشاعت عام کی کتاب اس نے انہوں لیئے اسی تھا۔ نہیں

بہرہ بے ہی بالکل سے حالات کے ہندوستان جو انگریز کے انگلستان رہا۔ مختلف پر لوگوں مختلف ردعمل کا کتاب اس ۔ کیں تقسیم میں عہدیداروںسفارش سے حکومت ہوئے دیتے قرار تصنیف باغیانہ ہی بہت ایک اسے نے بیڈن سیل مسٹر خارجہ وزیر برطانوی چنانچہ ۔ ہوئے پا چراغ بڑے پر اس تھے

سے حقیقت اس اور کیا تسلیم کو دلیلوں کی سرسید نے انگریزوں پسند انصاف کے انگلستان اور ہندوستان مگر ۔ جائے سزادی سخت کو مصف کہ کیتھی۔ تصنیف یہ کی سرسید سے وجہ کی ان ہوئیں تبدیلیاں جو میں رویہ کے حکام انگریز میں بارے کے مسلمانوں ہندوستان کہ کرسکتا نہیں انکار کوئی

تھا۔ کیا مشاہدہ کا تباہی اس سے آانکھوں اپنی نے پر ۱۸۵۷سرسید سروں کے ان کہ تھے پہاڑ کے مصیبتوں آائی۔ پر مسلمانوں بعد کے انقلاب کے ء تعصب مذہبی کے مسلمانوں میں انگریزوں تھی۔ چھینی حکومت نے اس سے انہیں تھا۔ کرتا تصور مجرم اصلی ہی کو مسلمانوں انگریز ۔ تھے پڑے ٹوٹ

پھر تھی شہرت بھی اپنا ۱۸۵۷کی مسلمان کہ تھی بخشی تقویت بھی اور کو خیال اس کے انگریزی نے حیثیت مرکزی کی شاہ بہادر میں ڈرامہ کے ء ہوئی گیر دامن فکر یہ کو سرسید گیا۔ بن جز لازمی کا عملی حکمت انگریزی کچلنا کو مسلمانوں ۔ ہیں ہوئے تلے پر کرنے حاصل دوبارہ اقتدار ہوا کھویا

رکھ سامنے کے حکومت واقعات صحیح اگرصحیح کہ تھا خیال کا ان ۔ چاہئے کرنی سعی کی بدلنے کو رویہ اور خیال اس کے انگریز طرح کس کہسے جن جائے دلائی توجہ کو حکومت طرف کی اسباب ان اور جائیں یہ ۱۸۵۷دیئے مگر ہوگی خدمت قومی بڑی ایک یہ تو ہوئے رونما واقعات کے ء

حالی تھا۔ نہ آاسان کی ’’ کام حاکموں اور تھا دورہ دور کا لاء مارشل تھی۔ نہ مطلق آازادی کی کرنے ظاہر خیالات ۔ تھا نازک نہایت زمانہ میں الفاظ کے

‘‘ کی۔ نہ پرواہ کی خطرات نے انہوں ۔ تھے انسان باہمت ایک سرسید مگر تھی۔ قانون ہی زباننہ اور تھا پتہ کا احساسات کے ان اسے نہ تھی۔ نہ واقف سے حال کے رعایا حکومت کہ تھا یہ سبب بنیادی کا واقعات ان مطابق کے خیال کے سرسید

خمیازہ کا جن کیں غلطیاں ایسی بعض نے حکومت پھر تھا۔ جاتا کیا نہ شریک ہندوستانی کوئی میں مشوروں کے حکومت ۔ علم کا تکالیف کی انسے خروش و جوش جس نے مبلغوں عیسائی ۔ ہے ذکرکیا پر طور خاص کا اہتمامی بے اور بدانتظامی کی فوج نے سرسید میں اس پڑا۔ بھگتنا کو مسلمانوں

اپنے کو مشنری کی حکومت نے مبلغوں اور سمجھا فرض اپنا مدد کی ان نے حکومت کی۔ پیدا بددلی بہت نے اس کیا جاری میں ہندوستان کام اپناملازمتوں اور سختی کی انگریزوں نے سرسید ۔ پھیلے نہ چینی بے اور اطمینانی بے سے اس کہ تھا نہ ممکن ۔ کیا استعمال لیے کے ترویج کی خیالات

اور نیلام کے زمینداریوں ۔ ہے کیا ذکر سے تفصیل بھی کا حالات معاشی ۔ ہے ڈالی روشنی سے خصوصیت پر کمی کی تناسب کے مسلمانوں میںمحبت میں محکوم و حاکم اور بدزبانی اور مزاجی سخت کی حکام ، توہین کی ہندوستانیوں نے سرسید دی۔ مدد میں پھیلانے چینی بے نے بندوبست

جو ہوسکا۔ نہ پیدا رابطہ کوئی میں باشندوں کے اورہندوستان انگریزوں کے تعلق سوسالہ ایک باوجود کہ ہیں کرتے شکایت اور ہیں کرتے ذکر کا فقدان کےسے اس اور سختی زیادہ سے ضرورت میں میرٹھ میں خیال کے ان کی۔ چینی نکتہ نے سرسید بھی پر اس رکھاگیا روا ساتھ کے سپاہیوں میں میرٹھ سلوک

جو میں دلوں کے انگریزوں سے طرف کی مسلمانوں اور ۔ ہے کی بحث حاصل سیر پر پیداہونے حالات نازک اور پھیلنے بدگمانی میں سپاہیوں دوسرےکر اختیار نے انہوں جو کے پالیسی کی تشدد اس بجائے کہ دی دعوت کی بات اس کو انگریزوں نے انہوں ۔ ہے کی تردید کی اس تھا چکا بیٹھ خیال

اور سیکھا کچھ بہت سے رسالہ اس نے انگریزوں بھی۔ کا ہندوستان اور ھگا ہو بھلا بھی ان میں اس ۔ کریں دور کو اسباب کے چینی بے وہ تھی رکھیگیا۔ دیا موقع کا ہونے شامل مرتبہ پہلی کو ہندوستانیوں ہوئی بعد دن ہی کچھ کے ہونے شائع کے اس تشکیل کی جس میں کونسل ساز ء۱۸۵۷قانون

۔ ہیں ذیل تفصیل بہ وہ ہیں دوچار سے خدشات اور خطرات جن مسلمان کہ پہنچے پر نتیجہ اس سرسید بعد کے۱ حالی۔ زبوں اقتصادی درماندگی۔ ۲۔ تعلیمی ۔ ۳۔ ولادینی یقینی بے مایوسی۔ ۴۔ ۔ ۵۔ تصور کا کمتری احساس میں مقابلہ کے قوموں غیر اکثر ۶۔ ۔

نتائج۔ شدہ پیدا کے اس اور جہالت کی عورتوں بیشتر کا ۷و تصور کے عظمت اپنی اور عادت کی کرنے فرار سے حقائق کے زندگی ۔ فراموشی خود ۔ فقدان۔

مغرب تعلیم وہ کہ نہیں یہ ۔ ہے پستی ثقافتی اور حالی زبوں تعلیمی چیز بنیادی کہ ہوا معلوم انہیں تو کیا مطالعہ کا کوائف ان غائر نظر بہ جب نے سرسیدکے ثقافت اسی کو سیلاب ہوئے بڑھتے کے تہذیب مغربی ہوکر مسلح سے تعلیم مغربی وہ کہ ہے یہ حقیقت ۔ تھے شیدا و گرویدہ مخواہ خواہ کے

کو مسئلہ اس کرکے تصور جڑ کی خرابیوں تمام کو حالی زبوں تعلیمی نے سرسید چنانچہ ۔ تھے چاہتے دینا روک کر لے کام سے ہتھیاروں مخصوص

Page 40: 1857ء جنگ آزادی اسباب

میں زندگی اپنی خود نے انہوں نتائج عمدہ کے اس اور رہے لگے لیے کے ترقی کی اسی عمر تمام اور ڈالی بنیاد کی کالج علیگڑھ اور دی اہمیت بنیادی۔ دیکھے

لڑکی کی بہادرشاہ

تھی۔ ہوئی بنی سرکار کی ان ۔ تھے آادمی کے دبدے بڑے آائے کام میں غدر جو منجھو مرزا شوہر کے بیگم احمدی صاحبزادی ایک کی شاہ بہادریعنی بیگم بڑی تو بگڑی حالت کی شہر اور گئے مارے مرزا جب تھی۔ موجود پالکی نالکی پر دروازہ ۔ تھے بیٹھتے پر دسترخوان کے ان آادمی بیسیوں

تھا۔ مال کا ہزاروں تھیں بھری سے زیور پتیلیاں دو ۔ کیا ارادہ کا گاڑنے میں حویلی والی بازار کے خانم زیور تمام کا بیٹیوں بہو اور اپنا نے بیگم احمدی۔ ہوئیں کھڑی نکل شہزادیاں سب یہ روز کے اات بر شب عین تھی۔ ہورہی ردی لمحہ بہ لمحہ کیفیت کی شہر

سخت بہت اور ۔ رہیں نہ قابل کے نکلنے باہر وہ میں دنوں آاخری ۔ پائی عمر قریب کے سوبرس نے انہوں تھا۔ بچپن میرا ضعیفی کی بیگم ی احمدہوا۔ نہ میسر سے وقت بھی کفن کہ ہوئی رخصت طرح اس سے دنیا شہزای یہ اٹھاکر تکلیفیں

کہ ہوگی کی بس تیرہ بارہ عمر میری تھا۔ پر محنت کی دم ایک اس کاگذارا دموں کئی اور تھیں سکیں نہ پھر چل تھا۔ دیا کر کار بے بالکل نے فالجمشہور والے بندریا جو جاکر پر گھر کے والے شیشہ مرزا اور گیا میں آاؤ۔ دے کہ دیا روپیہ ایک مجھے کر دے پتہ کا بیگم احمدی نے مرحومہ والدہ میریگھر اور گھر اس تو ہے آاتا دھیان جب آاج مگر ۔ ہوا نہ بھی خیال تو وقت اس ۔ پوچھا گھر کا ان تھی۔ ہوئی پلی بندریا ہاں کے ان کہ لیے اس ۔ تھے

کی بادشاہ میں موسم کے سردی اور تھے برتن ٹوٹے کے مٹی واسطے کے کھانے میں گھر کے شہزادی ۔ ہے جاتی پھر سامنے کے آانکھ تصویر کی والوںتھی۔ بیٹھی سکڑی اور دبکی اولاد یہ

ہنستا اور گیا ہوا ہنستا وقت اس ۔ ہے مشکل اظہار ھکا ان نکلیں سے دل کے ان دعائیں جو اور ہوئیں خوش قدر جس کر دیکھ کو روپیہ اس بیگم احمدی۔ ہوں جاتا تڑپ تو ہے آاتا خیال کا چارپائی جھنگار اس کی بیگم احمدی جب آاج مگر آایا۔ ہوا

) ص الخیری۔ راشد علامہ بہار۔ آاخری کی ۱۱دلی (

نامہ سوال

آازادی نگ جن ہوا؟ 1857س۔ کب آاغاز کا ء ۔ 1857مئی 9ج۔ کو ء

تھا؟ 1857مئی 9س۔ دن سا کون کا ہفتہ کو ء ہفتہ ج۔

ہوا؟ سے شہر کس آاغاز کا آازادی نگ جن س۔۔ سے چھاونی میرٹھ ج۔

گیا؟ کیا اعلان کا بنانے بادشاہ کو تاجدار مغل کس س۔۔ کو ظفر شاہ بہادر ج۔

گیا؟ کیا اعلان ھکا بنانے بادشاہ کو تاریخ کس کو ظفر شاہ بہادر س۔پیر۔ 1857مئی/ 11ج۔ بروز کو ء

گیا؟ کیا مقرر کو کس سالار سپہ کا فوج کی ظفر شاہ بہادر س۔) صاحبزادہ ) کا ظفر شاہ بہادر مغل مرزا ج۔

جرنیل کونسا کا آازادی نگ جن سے بریلی پہنچا؟ ۱۲س۔ دہلی کر لے افواج کی ہزار ۔ خاں بخت جرنل ج۔

بادشاہ ’’ کا نام تو میں ۔ کرسکوں مدد تمہاری سے جس ہے فوج نہ ہو۔ حاصل روپیہ سے جہاں ملک نہ ہے خزانہ نہ لیے کے دینے تنخواہ پاس میرے س۔ ‘‘ ؟ ہیں کے کس الفاظ یہ دو۔ چھوڑ پر حال میرے مجھے لوگ تم ہے بہتر ۔ ہوں

۔ کے ظفر بہادرشاہ ج۔؟ کہے پر موقع کس الفاظ یہ نے ظفر شاہ بہادر س۔

کی۔ درخواست کی سنبھالنے کمان کی فوج سے شاہ بہادر اور پہنچا دہلی کر لے افواج سے بریلی خان بخت جب ج۔

Page 41: 1857ء جنگ آزادی اسباب

کٹوادیا؟ پل کا کشتیوں پر جمنا دریائے میں مشرق کے قلعہ لال نے جس بتائیے کانام سمدھی اس کے شاہ بہادر س۔بخش۔ یلہی ا مرزا ج۔

ہوئی؟ داخل میں شہر دلی کو تاریخ کس فوج انگریز س۔۔ ۱۸۵۷ستمبر /۲۰ج۔ کو ء

تھا؟ رہا کر کون قیادت کی فوج انگریز س۔ہوڈسن جنرل ج۔

ہوئی؟ ختم کب آازادی جنگ س۔کو ۱۸۵۷نومبر /۲۰ج۔ ء

کی؟ حکمرانی عرصے کتنے نے شاہ بہادر دوران کے آازادی جنگ س۔ماہ چار سوا ج۔

لیا۔ کر گرفتار نے ہوڈسن جرنل کو دوشہزادوں کن سے مخبری کی بخش یلہی ا مرزا س۔عبدالباقر شہزادہ اور سلطان خضر شہزادہ ج۔

ہوا؟ شروع کب مقدمہ کا ظفر شاہ بہادر س۔جنوری ۲۷ج۔ کو ۱۸۵۸۔ ء

رکھاگیا؟ بند نظر عرصہ کتنا کو ظفر شاہ بہادر س۔ماہ چار اا تقریب ج۔

رہا؟ جاری دن کتنے مقدمہ کا ظفر شاہ بہادر س۔تک ۲۱ج۔ روز

سنایاگیا؟ کب فیصلہ کا مقدمہ کے ظفر شاہ بہادر س۔کو ۱۸۵۸فروری ۱۶ج۔ ء

) رہا ) کر ساز بھی سے ایران شاہ ظفر بہادرشاہ بادشاہ کہا اور دی گواہی خلاف کے بادشاہ نے جس تھا؟ نام کاکیا خاص ند معتم اس کے س۔بہادرشاہ تھا؟

لال۔ مکنہ ج۔تھا؟ نام کیا کا وکیل سرکاری میں مقدمے کے ظفر شاہ بہادر س۔

ہیریٹ جے ۔ ایف ج۔گیا؟ بھیجا کب کلکتہ سے دہلی کو ظفر بہادرشاہ س۔

۔ ۱۸۵۸اکتوبر ۱۷ج۔ دن کے جمعہ کو ء ایام نش گرد میری پہ غریبی رحم کر س۔

بدنام مجھے اتنا کر نہ دوراں نی بدعہد؟ ہے کا کس شعر یہکا۔ ظفر بہادرشاہ ج۔

کہا؟ کب شعر یہ نے شاہ بہادر س۔کو ۱۸۵۸نومبر ۶ج۔ ء

تھا؟ نام کیا کا گزٹ کورٹ کے ظفر بہادرشاہ س۔۔ الاخبار سراج ج۔

؟ ہوا سے باورچی ایک کے دہلی عقد کا جس بتایئے نام کا بیٹی کی ظفر شاہ بہادر س۔بیگم۔ ربیعہ ج۔

؟ ہے کیا وفات نم یو کا ظفر شاہ بہادر س۔جمعہ ) ۱۸۶۲نومبر ۷ج۔ بروز یی ۱۴ء الاول ھ (۱۲۷۹جمادی

؟ ہے کہاں مزار کا ظفر شاہ بہادر س۔۔ ) ( میں برما رنگون ج۔

Page 42: 1857ء جنگ آزادی اسباب

؟ یا لگا نے کس سراغ کا مزار کے ظفر شاہ بہادر س۔۔ نے شخص ایک نامی عبدالسلام ج۔

؟ تھا کرتا مجاوری کی مزار کے ااس جو بتایئے نام کا پوتے ااس کے ظفر شاہ بہادر س۔بخت۔ سکندر ج۔

؟ دی نے کس سلامی بار پہلی کو مزار کے ظفر شاہ بہادر س۔۔ نے افواج ہند آازاد کی بوس چندر سبھاش ج۔

؟ کیا آاغاز کا آازادی نگ جن سے اندور ریاست نے جس بتائیے نام کا بھائی چچیرے ااس کے ظفر شاہ بہادر س۔شاہ۔ فیروز شہزادہ ج۔

) ( ؟ پہنچیں کب اودھ لکھئنو افواج کی آازادی نگ جن س۔کو۔ ۱۸۵۷جون ۲۳ج۔ ء

؟ تھا کون کمشنر چیف لکھئنوکا وقت ااس س۔لارنس۔ سرہنری ج۔

؟ کی درخواست کی نشینی مسند کی کس سے محل حضرت بیگم نے مجاہدین س۔عمر ) کی جس قدر برجیس مرزا علی رمضان تھی (۱۱ج۔ برس

؟ تھا تعلق کیا میں آاپس کا محل حضرت بیگم اور شاہ علی واجد س۔تھی۔ بیوی کی شاہ علی واجد محل حضرت ج۔

؟ ہے کہلوایا کیا بعد کے نشینی تخت نے قدر برجیس مرزا س۔وزیر۔ نواب ج۔

؟ کی نے کس تائید کی اس اور کی پیش نے کس تحریک کی نشینی مسند کی قدر برجیس س۔۔ نے خان لمو م نواب تائید اور نے حسین احمد تحریک ج۔

؟ کیا جاری کیا فرمان پہلا سے سب قدرنے برجیس س۔۔ ’’ ‘‘ گا پائے سزا ورنہ الوٹے نہ شہر کوئی اب ج۔

؟ بھیجا دہلی پاس کے شاہ بہادر کر بنا سفیر اپنا کو کس نے محل حضرت بیگم س۔کو۔ مرزا عباس ج۔

؟ تھا کون سالار سپہ کا فوج کی محل حضرت بیگم س۔الدولہ۔ حسام جنرل ج۔

؟ گزاری کہاں عمر بعدباقی کے شکست میں لکھئنو نے محل حضرت بیگم س۔۔ ) ( میں نیپال کھٹمنڈو ج۔

؟ ہوا کب انتقال کا محل حضرت بیگم س۔اپریل ۔ ۱۸۷۹ج۔ ہے میں ایران مزار کو۔ ء

؟ ۱۸۵۷جون ۵س۔ کیا اعلان کا نروائی فرما اپنی نے کس بعد کے آازادی نگ جن میں آاباد نجیب ءکو۔ نے خان محمود ج۔

؟ تھا کیا تیار نے آازادی مجاہد کس نقشہ کا آازادی نگ جن س۔۔ نے خان اللہ عظیم ج۔

؟ تھا ہونا کب آاغاز کا آازادی نگ جن مطابق کے نقشے کے خان اللہ عظیم س۔کو۔ ۱۸۵۷مئی ۳۱ج۔ ء

؟ ہوئے پیدا کہاں خان اللہ عظیم س۔۔ میں نپور کا ج۔

ہوا؟ بلند کب علم کا آازادی نگ جن میں کانپور س۔کو۔ ۱۸۵۷جون ۴ج۔ ء

دی؟ ) ( نے کس ترغیب کی شمولیت میں آازدی نگ جن کو پور کان راؤ نانا س۔

Page 43: 1857ء جنگ آزادی اسباب

۔ نے خان اللہ عظیم ج۔ہوئی؟ کہاں اور کب وفات کی خان اللہ عظیم س۔

۔ ۱۸۵۹ج۔ میں نیپال میں ء؟ ہوا بلند کب علم کا آازادی نگ جن میں آاباد فیض س۔

کو۔ ۱۸۵۷جون ۷ج۔ ء؟ تھا کیا نام کا آازادی مجاہد والے کرنے بلند علم س۔

خان ) ( علی احمد سید نام اصل شاہ اللہ احمد مولانا ج۔؟ ہوا کب گارد بیلی معرکئہ س۔

کو۔ ۱۸۵۷جولائی ۳۱ج۔ ء؟ تھی کیا گارو بیلی س۔

تھا۔ رہتا نمائندہ کا کمپنی انڈیا ایسٹ جہاں تھی عمارت ریذیڈنسی یہ ج۔؟ تھا کرہا کون قیادت کی مجاہدین میں گارو بیلی کئہ معر س۔

شاہ۔ اللہ احمد مولانا ج۔؟ تھا شریک کون علاوہ کے شاہ اللہ احمد میں گارد بیلی معرکئہ س۔

محل۔ حضرت بیگم اور خان اللہ عظیم ج۔؟ ۱۸۵۸اپریل ۲۰س۔ ہوا اعلان کا انعام کا روپے ہزار پچاس پر گرفتاری زندہ کی آازادی مجاہد کس کو ء

شاہ۔ اللہ احمد مولوی ج۔؟ ہوئی کب وفات کی شاہ اللہ احمد مولانا س۔

کو۔ ۱۸۵۸جون ۵ج۔ ء؟ کیا شہید نے کس کو شاہ اللہ احمد مولانا س۔

۔ نے ناتھ جگن راجہ کے پایاں ج۔؟ ہے کہاں مزار کا شاہ اللہ احمد مولانا س۔

۔ میں گاؤں نامی گنج کے پور جہاں شاہ ج۔؟ دی شکست دوبار کو کیمبل لن کو ہند انچیف کمانڈر نے جس بتائیے نام کا آازادی ند مجاہ ااس کے کھنڈ روہیل س۔

۔ شاہ اللہ احمد مولانا ج۔ہوا؟ بلند کب آازادی نم عل میں بریلی س۔

کو۔ ۱۸۵۷مئی ۳۱ج۔ ء ؟ تھے کون آازادی ند مجاہ والے کرنے بلند آازادی علم س۔

۔ خان بخت جرنل ج۔؟ سے حیثیت کس ۔ تھا ملازم کا فوج انگریز خان بخت پر آاغاز کے آازادی نگ جن س۔

صوبیدار۔ ج۔؟ تھا چکا رہ بھی مجسٹریٹ کا بریلی جو بتائیے نام کا ساتھی اس کے خان بخت س۔

۔ خاں بہادر خان ج۔؟ گئے چلے کہاں خان بخت بعد کے ہونے ناکام میں آازادی نگ جن س۔

۔ نیپال ج۔؟ ہوئی کب وفات کی خاں بخت س۔

۔ ۱۸۵۹مئی ۱۳ج۔ میں نیپال کو ء؟ تھے کون مجاہد والے کرنے آاغاز کا آازادی نگ جن میں ساہیوال ضلع گیرہ گو س۔

کھرل۔ خاں احمد ج۔؟ کیا سے کہاں اور کب آاغاز کا تحریک اپنی نے کھرل خاں احمد س۔

۔ ۱۸۵۷ستمبر ۱۷ج۔ سے گوگیرہ کو ء

Page 44: 1857ء جنگ آزادی اسباب

؟ ہوئی کب وفات کی کھرل خاں احمد س۔کو۔ ۱۸۵۸جنوی ۲۱ج۔ ء

دیا؟ نے دین نم عال کس یی فتو کا جہاد خلاف کے انگریزوں سے دہلی مسجد جامع پر آاغاز کے آازادی نگ جن س۔۔ نے آابادی خیر الحق فضل مولانا ج۔

؟ ہیں کونسی تصانیف مشہور کی آابادی خیر الحق فضل مولانا س۔المبین افق حاشیہ الشفا، تلخیص حاشیہ الہیات، رسالہ الطیق، الکلی تحقیق رسالہ الاجسام، تحقیق رسالہ ، ہندوستان فتنہ تاریخ ،ج۔

ہوا؟ کہاں اور کب انتقال کا آابادی خیر حق فضل مولانا س۔۔ ۱۸۶۱اگست ۱۹ج۔ ہوئے دفن وہیں اور میں انڈیمان کو ء

؟ کیا کردار اہم کیا میں آازادی نگ جن نے مکی مہاجر اللہ امداد حاجی س۔۔ ) ( کیا جہاد خلاف کے انگریزوں میں پی یو۔ گڑھ مظفر ضلع بھون تھانہ نے آاپ ج۔

؟ کیا بلند آازادی علم خلاف کے انگریزوں میں پہاڑوں کے مری نے جس بتائیے نام کا آازادی مجاہد اس کے مری س۔تھا۔ سے ڈھنڈ قبیلہ تعلق کا جن ۔ خان باز ج۔

؟ ۱۸۵۷س۔ گیا دیا کر شہید کر مار گولی کو جن بتائیے نام کا مالک کے اخبار اردو دہلی میں ءوالد ) ( کے آازاد حسین محمد مولانا باقر محمد مولوی ج۔

؟ کی مدد کی انگریزوں نے شخص کس کے خاندان ٹوانہ سے حوالے کے آازادی نگ جن س۔ٹوانہ۔ شیر فتح ج۔

؟ دیئے ملکیت حقوق کے قادیان میں صلے کے وفاداری کو احمد غلام مرزا نے جس بتائیے نام کا جرنیل انگریز ااس س۔نکلسن۔ جنرل ج۔

؟ ہوئی ختم کب حکومت کی کمپنی انڈیا ایسٹ س۔اگسٹ ۔ ۱۸۵۸ج۔ سے حکم کے برطانیہ حکومت کو۔ ء

؟ تھا کون وائسرائے کا ہندوستان وقت کے جنگ س۔۔ کیننگ لارڈ ج۔

ہوا؟ ختم کب عہدہ کا کیننگ لارڈ س۔۔ ۱۸۶۴ج۔ میں ء

بنا؟ کون وائسرائے نیا بعد کے کیننگ لارڈ س۔لارنس۔ ۔سرجان ج

؟ کیا منظور کب نے پارلیمنٹ برطانوی قانون کا تقرر کے ہند وزیر بجائے کی کنٹرول آاف بورڈ اور ز ڈائریکٹر آاف بورڈ لئے کے ہندوستان س۔۔ ۱۸۵۸ج۔ میں ء

ہوا؟ نافذ کب ایکٹ کونسل انڈین پہلا س۔۔ ۱۸۶۱ج۔ میں ء

؟ تھا کیا مقصد بنیادی کا ایکٹ اس س۔لیا۔ سنبھال ونسق نظم کا ہندوستان راست نہ برا نے برطانیہ نج تا جگہ کی کمپنی انڈیا ایسٹ ج۔

ملا؟ کب موقع کا لینے حصہ میں حکومت نر امو کو ہندوستانیوں بار پہلی س۔ایکٹ انڈین ۔ ۱۸۶۱ج۔ سے رو کی ء

؟ ہوئی قائم کب کلکتہ آاف سوسائٹی لٹریری محمڈن س۔۔ ۱۸۶۳ج۔ میں ء

؟ تھے کون بانی کے سوسائٹی اس س۔۔ عبدالطیف نواب ج۔

؟ تھے فائز پر عہدے کس وقت ااس عبدالطیف نواب س۔۔ تھے پروفیسر کے عربی میں مدرسہ کلکتہ آاپ ج۔

؟ بنائی کر ہو متاثر سے بات کس سوسائٹی یہ نے عبدالطیف نواب س۔

Page 45: 1857ء جنگ آزادی اسباب

ہوکر۔ متاثر سے پسماندگی تعلیمی کی مسلمانوں ج۔آایا؟ میں عمل کب قیام کا ایشن ایسوسی انڈیا برٹش س۔

مئی ۔ ۱۸۶۶ج۔ میں گڑھ علی میں ء؟ تھے کون ی سیکرٹر اور صدر پہلے کے ایشن ایسوسی انڈیا برٹش س۔

: اور داس کشن جے راجہ صدر ج۔خان۔ : احمد سرسید سیکرٹری

؟ جائے دی حیثیت سرکاری کو الخط رسم گرسی دیونا جگہ کی فارسی اور زبان ہندی جگہ کی اردو کہ کیا کب مطالبہ یہ نے ہندوؤں س۔ء۱۸۶۷ج۔

ہوا؟ ختم کب تقرر عہدئہ کا لارنس سرجان وائسرائے س۔۔ ۱۸۶۹ج۔ میں ء

؟ تھا کون وائسرائے نیا جگہ کی لارنس جان سر س۔میو۔ لارڈ ج۔

؟ رہے وائسرائے کے ہندوستان تک کب لارڈمیو س۔تا ۱۸۶۹ج۔ ء۱۸۷۲ء

؟ بنا کون وائسرائے کا ہندوستان بعد کے میو لارڈ س۔رپن۔ آاف مارکویس لارڈ ج۔