چھے اختصاریے

21
ریےΎ چھے اختص مقصود حسنی فہرستنہΎ لوکΎ سہ گنینہΎ لوکΎ نہ تھϡوϠό اسے منہΎ منس دنوں اننہΎ منس ثمرین آنٹینہΎ لوک قتلΎف کΎ انصنہΎ منسریΎ سϡر کی شرΎ بےک

Upload: maqsood-hasni

Post on 19-Feb-2017

12 views

Category:

Entertainment & Humor


0 download

TRANSCRIPT

ریے چھے اختص

مقصود حسنی

فہرستنہ سہ گنی لوک

نہ و نہ تھ لوک اسے منہ ان دنوں منسنہ آنٹی ثمرین منسنہ ف ک قتل لوک انصنہ ری منس ر کی شر س بےک

سہ گنی

نہ لوک

ے ہوئے تھے۔ دیکھ ہ اور اس ک وزیر گشت پر نک دش ایک بہ دش ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سوی ہوا ہے۔ وزیر نے بہ سامت درخت کے نیچے سوی ہوا آدمی بڑے دش : ب سے کہ

ے گئے۔ اسے س چ ک ک ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پی اور پوچھ کہ ت کی کی ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے جگ

ی کہ میں تین گن رکھت ہوں: بت

نچ کر سکت ہوں۔ ی ہیرے کی ج ی اور نق اول- میں اص

ن ہے۔ ی گھوڑوں کی پہچ ی اور غیرنس - مجھے نس دوئ

ن ہے۔ - مجھے آدمیوں کی پہچ سوئ

نہ ہ نچ روپے م تھ لے آی اور اس کی پ ہ اسے اپنے س دش برے قر وجوار میں ؤ ہم تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہ ج

ری ضرورت پڑے گی با لیں گے۔ موج کرو ج تمہ

ہ کو ہیرے دش ۔ ب ر میں ہیروں ک سوداگر آی ایک مرتبہ دربنک اسے اپن سہ ۔ اچ ہ کو ایک ہیرا بہت پسند آی دش ئے۔ ب دکھ

۔ اسے بای گی اور پسند کیے گئے ہیرے کے د آ گی گنی ماز ینچنے کے ۔ ج ۔ اس نے وہ خو صورت ہیرا دیکھ مت پوچھی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے د کہنے لگ یہ ہیرا نق ب

ی ک ہیروں کے سوداگر ہو جو اص اور سوداگر سے کہ ت خن نہیں رکھتے۔ ی ہیرے کی پہچ اور نق

ن تھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریش سوداگر کے تو ہہ نے سوداگر سے کہ اگر دش دش بھی ہوا۔ ب ہوا۔ حیران تو برا سر اڑا دوں گ ی تو میں تمہ ت صحیح نک اس شخص کی ب

۔ پھر اس شخص سے کہ ی نکا تو خرید لوں گ اگر یہ ہیرا اصؤ گے۔ ن سے ج اگر ہیرا درست نکا تو ت ج

ہ اس دش ہیرا توڑا گی تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ بنچ روپے تنخواہ برقرار شخص سے راضی ہوا اور اس کی پ

رکھی۔

۔ اس کے کچھ ہی وقت گزا ہو گ کہ ایک گھوڑوں ک سوداگر آیہ کو دش س ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے ب پرہ ن کے لیے اس شخص کو دوب ۔ پہچ ایک گھوڑا بہت پسند ای

سے ط کی گی گی اور اپنی پسند کے گھوڑے کے مت ۔ فت کی دری

: گھوڑے کے د کہ اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے بی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی نس

ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہ ت کیسے گھوڑوں کے ئی نقص سے بےخبر نور میں موجود اعض سوداگر ہو کہ ج

رہتے ہو۔

نی ہوئی۔ اس گھوڑے کے گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریشنے کی امید تھی۔ حوالہ سے اسے ان واکرا م

۔ اس نے گھوڑے ک ہر کو بای گی نوروں کے امراض کے م جئینہ کی اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدی کر دی۔ طبی م

ر ہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خ ہوا اور اسے درب دش بہ اپنے اس ماز کی پرکھ دش ۔ ب ل دی سے دھکے دے کر نک

نچ روپے برقرار ن پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پ پہچ رکھی۔

ئی ہ نے سوچ کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزم دش ایک دن بہ نے اس سے پوچھ کہ ت میرے دش ۔ ب ئے۔ اسے بای گی ج

ی ہ کو اپنے اع دش رے میں کی کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ ب ب۔ اس نسل ہونے ک یقین تھ اور اس پر فخر و غرور بھی تھ

ہ ک اصرار دش فی پس و پیش سے ک لی لیکن ب شخص نے کہ دش ن بخشی کی درخواست کی۔ ب ۔ اس شخص نے ج بڑھت گی

ی کہ ت چوڑے ن بخشی ک وعدہ کی تو اس شخص نے بت نے ج کی اواد ہو۔

لی اور کہ کہ یہ ت کیسے اور کس وار نی سے نک ہ نے ت دش بتھ میں وعدہ خافی کے حوالہ ہ کے ہ دش د پر کہتے ہو۔ ب بنی

ہ دش : اے ب وار دیکھی تو زوردار قہقہ لگ کر کہنے لگ سے تئی ت خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ میں نے ہیرے کی پرکھ بت

ی ت خوش نچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے مت درست بت پ

نچ روپے ہی رہنے دی۔ ا وعدہ خافی ہوئے لیکن میری پنے سے ل رہے ہو۔ ج میں نے بت وار نی سے نک کرکے ت

رے ک ۔ تمہ ہیے تھ یدگی میں پوچھن چ ر کی تو تمہیں ع انکد پر تمہیں چوڑے کی ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنیں سے ج کر ے اپنی م اواد کہ ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہ

پوچھ کہ ت کس کی اواد ہو۔

ں کی طرف وار لے کر م تھ میں ننگی ت ہ غصہ سے ہ دش بی ں کو اٹھ ں آرا کر رہی تھی۔ اس نے ج کر م ۔ اس کی م گ بھ

ں اس ک یہ رویہ اور کہ سچ بت کہ میں کس کی اواد ہوں۔ مپ کی اواد اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہ اپنے بوار لہرائی اور کہ سچ سچ ہ نے ت دش ہو اور کس کی ہو۔ پھر بی کہ میرا ں نے بت ؤ کہ میں کس کی اواد ہوں۔ پھر اس کی م بتفی دن ہو گئے میرا دل وند جنگ میں تھ اور اسے گھر آئے ک خ

ری کرنے والے کو ڑو بھ ہ تو میں نے گھر میں جھ بڑا چرا وزیر ۔ تمہ ل کر لی اور پھر وہ ہی میرے ک آنے لگ م است

ہ نہیں وں میں یہ الگ سے اور انوکھ واق وہی چوڑا ہی تو ہے۔ مح ہے۔

ہ چکرا گی اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ دش یہ سنن تھ کہ ب۔ گی

و نہ تھ اسے منہ لوک

ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہ تھ ں ۔ دریں اثن ایک گھڑسوار وہ ن بڑھ کہ ایک سپولیہ اس کی ج۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے آ پہنچاترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس نک اسے کچھ سوجھ اور اس نے ن ہوا۔ اچ ۔ وہ بڑا پریش گی

رن شروع کر نٹے م سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھگ اٹھ اور اس نے گھڑسوار دیے۔ سوی ہوا شخص گھبرا کر جرنے کی وجہ پوچھی‘ اس نے کہ وجہ چھوڑو نٹے م سے چھ

۔ روں گ گو ورنہ اور زور سے م ری سے بھ اور تیز رفت

۔ ج رکنے لگت تو وہ گن شروع کر دی اس شخص نے بھ۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔ رن شروع کر دیت نٹے م چھ

رتے نٹ م ۔ اس نے چھ نی پیو۔ اس نے پی گھڑسوار نے کہ پہوئے کہ اور پیو۔ اس نے اور پی اور کہ ا مزید نہیں پی

گو۔ ۔ اچھ نہیں پی سکتے تو بھ سکت

۔ ت تھ میں وجہ بھی پوچھے ج گت ج رہ تھ اور س وہ بھگنے کے لیے کہے ں البتہ بھ گھڑسوار وجہ نہیں بت رہ تھ ہ

۔ ت تھ ج

۔ گھڑ سوار نے کہ تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں ک ب آ گیئے اور کہ مزید نہیں ؤ۔ اس نے کھ نیچے گرے ہوئے سی کھ‘ میں رتے ہوئے کہ نٹ م ۔ گھڑسوار نے زوردار چھ کھ سکت۔ پھر کہنے لگ ن شروع کر دی ؤ۔ اس نے کھ کہت ہوں اور کھؤ تے ج ں کھ ں ہ اور نہیں کھ سکت مجھے قے آ رہی ہے۔ ہ

۔ تے رہن ہو گ تی تمہیں سی کھ ج تک قے نہیں آ ج

تھ ہی ت رہ کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے س وہ سی کھجرا کھا۔ وہ گھڑسوار ۔ ت اس پر اصل م ہر آ گی سپولیہ بھی بنی گتے پ نگی کہ وہ بھ فی م ک شکرگزار ہوا اور اس نے مں اور لی تے ہوئے جی ہی جی میں اسے گ پیتے اور سی کھ

رے کے لیے ئیں دے رہ تھ اور اس مصبیت سے چھٹک بددع۔ ئیں کر رہ تھ دع

بت ہوئیں۔۔ رگر ث ئیں ک ں البتہ دع ئیں مٹی ہوئیں ہ ری بددع تمہ

ہری برائی میں خیر چھپی و نہ تھ کہ اس ظ اسے قط م ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرای اور اپنی منزل کو چل دی

ان دنوں

نہ لوک

لی ہ رنگت کے سب ک د تھ لیکن سی اس بچی ک اصل ن ارش۔ خصوص بچے اسے چھیڑنے ت ن عرف ع میں آ گی تھ م

رتے۔ وہ اس ن پر پٹ پٹ ت کہہ کر پک لی م داں ک کے لیے شتی۔ وہ تو چڑتی تھی تی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ ج جتی اور چھیڑنے ؤ میں آ ج دہ ت ں اس سے زی ہی لیکن اس کی م

ے گھر تک پہنچ کر آتی۔ والے کو اگ

۔ داں کے برابر ک تھ ئے ک لڑک جو عمر میں ش اس روز ہ سداں نے اپنی ۔ ش گ گی ت کہہ کر اپنے گھر بھ لی م داں کو ک ش

ؤ ں نے نہ آؤ دیکھ نہ ت داں کی م ئی۔ ش یت لگ ں کو آ کر شک مان کے گھر ج کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کی

ں نے اونچی اونچی بولن ۔ اس لڑکے کی م تھ میدان لگ گیں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار داں کی م ۔ ش شروع کر دی

د ری ہوئی اس کے ب دا گر ک ے س تھ کھڑی ہو گئی۔ پہ کے سں تھکنے ک ن رے کھل گئے۔ دونوں بیبی ظوں کے دھ آلودہ لہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے

ئ کھل تیں اور حق راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ ب۔ گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں ک پڑا پردہ اٹھ گی

داں ک دادا گھر آ ری تھ کہ ش ہ ج س ری ک س ابھی زور دار ب بداں کی ۔ ش جرہ پوچھ ۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر م گی

ئیں۔ یہ ں سن نی س سے لگ کر سسر کو کہ ں نے بہت سی پ مت کہہ کر لی م داں کو ک فٹین ک بیٹ میری ش ی کہ ک بھی بت

چھیڑت ہے۔

داں داں کدھر ہے۔ ش ۔ اس نے بہو سے پوچھ ش ن تھ بندہ سیں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تاش وہ گھر پر نہ تھی۔ کی م

ہر داں ک دادا کہنے لگ اسے نہ تاشو وہ گھر میں نہیں ہے ب شئی ک رٹی میں ہ س تھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پ بچوں کے سئی سے کہ بیٹ لڑک ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہ س

ہر یہ ہی بچے بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ ت ادھر لڑ رہی ہو بقت ی حم آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑن کھ

ہے۔

ں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شر تیں سن کر دونوں بیبی ڑے کی ب بے کچھ نہ چھوڑا سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پ

۔ تھ

ہمی رنجش کئی دنوں تک بول بارے کے نتیجہ میں ان کی ب۔ ضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گی تی رہی اور پھر م چ

۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور ر رہ وقت پر لگ کر محو سو ہمی ہی فٹین ک لڑک جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ ب کئی طر دونوں کے م نے کی خ ی۔ عزت بچ ل تک چ ئے دو س ہ

دی طے کر دی گئی۔ پ کو راضی ہون پڑا اور ان کی ش ب

ے رہ رہے ہیں اور جیرے ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت تلنے کو بھی ت ٹ ل ہے۔ وہ اس کی ب کے لیے شیداں حسینہ ع

پ سمجھت ہے۔ پ

آنٹی ثمرین

نہ منس

نے ند دکھ رے میں کچھ کہن سورج کو چ ں کی محبت کے ب مں ج نہیں ہوتی۔ م ت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محت والی ب۔ تی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت بچوں کے لیے جو مشقت اٹھ

تھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔ نسیں اپنے بچے کے س اس کی سوہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس ں بچے کے لیے اپنی ک ہر کی با ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ م

قت اس کی ممت تی ہے۔ یہ محبت اور ش ن سے بھی گزر ج جکی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی ص اور ازمہ ہے۔ ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خ

دہ ہ میں اواد سے بھی زی م وں کے م عورت اپنے پچھں س ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ م حس

ئی پیدا ہو سکتے ہیں۔ رہ آن ہے اور نہ بہن اور بھ پ نے دوب بپ کو نبی قری ئی بھی قط نم اور ب اس ک دو نمبر بھ

می ی خرابی اس کو نظر نہیں سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خوند ہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خ آتی ی ان سے کمی کوت

پ لوبھی اور الچی ہوت ہے۔ بہن ے کٹن اور ب ں عموم ف کی مئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ بھ

کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار ہتی تھی ج کہ رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی ان چ

۔ لڑکی میں کوئی کجی ی ہت تھ وند ادھر رشتہ نہیں کرن چ اس ک خ۔ ان کے گھر میں ہت تھ می نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ نہیں کرن چ خ۔ جوں ہی گھر میں وہ ہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا چل رہ تھ کئی مے دن اس کے ک تی اور یہ اگ ن شروع ہو ج ی قد رکھت کل ک

تی رہتی۔ تھ چ ے کے س نے تک تھوڑے تھوڑے وق پر ج

، ہ شیئر کی م ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے م وہ ہنس پڑا

بی کو اپنی ڈال دو ت ہے۔ بھ نی والی کی ب ر اس میں پریش او ی۔ ئے گ س ٹھیک ہو ج

اپنی کی ڈالوں۔

دی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند یہ ہی کہ ت درسری ش کر لی ہے۔ اس نے کہ

د کوئی عورت پسند ر شدگی کے ب گل ہوں جو ایک ب ر میں پ ی۔ کروں گ

ی ی کردار تخ قت کرو‘ ج تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حم کرو۔

ی فون ی کہ وہ ٹی ۔ طے یہ پ اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آیی عورت سے دیر تک د وہ ج ۔ اس کے ب ل کرے گ پر مس ک

ے نی کامی اگ تے زب ے ہ ۔ پہ تیں کرت رہے گ ن پرور ب روم۔ ے گ ہ چ س ی فونک س تے سے ٹی ہ

ت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت اس دن ج رشتے کی ب۔ اس ک ے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی نی چھیڑ دی۔ پہ کی کہی کہ وہ بڑے ل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بت خی

لی ہے۔ اسے طا ہو گئی ہے۔ بڑی ہی ند مرتبہ شخص کی س بں ہیں۔ خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹی

تے ے ہ ل کرتی رہی ۔ اگ کر بی بی کچھ دن اسے اف زنی خیی ی عورت سے ج ی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک ج ٹی

ن کہیں سے توں کے درمی ر ب ۔ کئی ب تیں کرت ن پرور ب روم۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور ی فون بھی آی ٹی

ی فون کیسے آ سکت ی فون کرنے کے دوران ٹی ہی نہ کی کہ ٹی ہے۔

ہ بھول سی گئی اسے نجی ک رشتہ انے ک مس کر بی بی بھ۔ اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ اح ہو گینے کے دکھ نے تی تھی سوت کے آ ج ی دھندن گھر میں اکی۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے اسے ادھ موا کر دی

د دہ سوت کے آنے کے ب ے کر لی گی مب سوت کے آنے سے پہت نقش ہو گئی کہ ات ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ ب کی ح

ئیں گے۔ ات برعکس ہو ج د ح سوت کے آنے کے ب

دی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی لڑکے کی شت پر برہ ہوت ت ب ۔ ب محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے اور کبھی رونے لگتر نک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س ب اچن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی ر پوچھتے کہ آپ اتنے پریش بن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس سے یہ ہی کہت ک پریش

۔ ہونے لگ

ری آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی ائی۔ کہنے لگی تمہثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھ

۔ ی فون تو نہیں ای تمہیں کیسے پت چا۔ کوئی ٹی

چھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت کر بی بی کی بسے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں ن بولتی تھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی با تھک رے س جو تمہ

ہ اور ۔ اس کی یہ کئی م ت گی رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہر بھی دیکھ لیت تو عش ری دلیپ کم خصوص اس روز کی اداک

۔ عش کر اٹھت

لی کی ا پڑا۔ س اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پرضی سہی بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے ع

ی محبت ک ڈرامہ ی ثمرین کی ج مت سے گزرن پڑا۔ ج قی۔ ہ حل ہو گی زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مس

تھ ی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے س ج موجود ہے۔

صر نے پھرنے سے بھی ق آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چنہ تھ محبت ک ط جز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے س وع

نہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے چھوڑ ت ہے۔ یہ ط منہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ رہی ہے اگر ت نے ک ط ج

تی۔ یہ میں ہی ہوں ؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں ج سی آ رہی ہوں کوئی تھ گزرا کرتی چ جو ت ایسے بندے کے سندانی ہوں اور میں تی۔ خ ی ج اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچ

پ کی اج نبھ رہی ہوں۔ ئی ب اپنے م

ف ک قتل انص

نہ لوک

ئی ۔ ص نے گی ہ جوانوں کے لنگر خ دش ر ایک ب ایک بستھرائی چیک کی‘ درست تھی۔ پھر اس نے پوچھ کہ جوانوں

ہ سخت دش نی بیگن۔ ب ؤں ی ی ہے۔ جوا ما بت کے لیے کی پکی گی ن کیوں پک راض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتن گھٹی کھ ن

ن ایک ی میں زمین آسم ری ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدتذرت کی اور آئندہ سے نڈڑ نے م کر دیے۔ بہر کیف لنگر کمہ دش نے ک وعدہ کی تو ب ن پک نے اور اچھ کھ بیگن نہ پک

۔ نے سے رخصت ہو گی لنگرخ

رہ سے جوانوں کے ہ کو دوب دش د ب کچھ وقت گزرنے کے بنے ک ات ہوا۔ سوئے ات اس روز بھی بیگن نے ج لنگرخریف کی۔ وہ ہی مشیر ہ نے بیگن کی ت دش ئے گئے تھے۔ ب پک

ریف میں ممکنہ سے بھی آگے تھ تھ اس نے بیگن کی ت سن کر دیے۔ گوی بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی بیگن کے فوائد بی

نڈر خوش ہوا اور آگے سے قی نہ رہے۔ لنگر کم اور پکوان ب۔ نے ک وعدہ کی ئے ج بیگن کے برابر اور متوار پک

ن مڑا اور کہنے لگ کہ اس دن میں نے ہ اس مشیر کی ج دش بی میں کوئی ری ی کی تو ت نے بیگن کی بدت ری بیگن کی بدت

ریف کی ہے تو ت نے کسر نہ چھوڑی۔ آج ج کہ میں نے تریف میں کوئی کسر اٹھ نہیں رکھی‘ کیوں۔ بیگن کی ت

اس نے جواب کہ حضور میں آپ ک غا ہوں بیگن ک نہیں۔

ہ نے کہ ت سے جی حضوریے ح اور سچ کو دش یہ سن کر بح اقتدار متکبر ہو منے نہیں آنے دیتے جس کے سب ص س۔ ت ف نہیں ہو پ تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انص ج

ف ک قتل ہی قوموں کے زوال ک سب بنت ہے۔ انص

ن کی ے تو وہ جی حضوریہ چپ رہ پھر کہنے لگ حضور ج پہؤں تو ایک عرض کروں۔ ن پ ام

ہتے ہو۔ : کہو کی کہن چ ہ نے کہ دش ب

ن سے گئے ہیں۔ حضور سچ اور ح کی کہنے والے ہمیشہ ج

ن سے بڑھ کر قیمتی د رکھو سچ اور ح ج : ی ہ نے کہ دش بقی رہو ہیں۔ مرن تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو بں جھوٹ کہنے ی اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی گے۔ ہ

ر اس زندگی نت اور پھٹک صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن ل ک مقدر بنی رہے گی۔

ری ر کی شر س بےک

نہ منس

ں ہ بخشے ت ہے۔ یہ ے کی ب ل پہ یہ ہی کوئی پچیس تیس سمولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع

دہ اور فراخ مزاج ہ میں بڑے س م نے پینے کے م تھے۔ کھد ے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے ب واقع ہوئے تھے۔ پہر ن تے۔ اس ذیل میں انک ت بس ہ کرکے ہڑپ ج بھی جو م

فی سے آشن تھے۔ اواد بھی ہ نے انہیں ک کی چیز سے بھی ندہ دے رکھی تھی۔ زی

ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی ح کی لہہ پہ کے لیے موقع نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی ص

ت باموقع بھی بہت کچھ منہ سے ض اوق تاشتی رہتی تھی۔ بتی بس طی ہو ہی ج ن تھے چھوٹی موٹی غ تی تھی۔ انس ل ج نکنتے تھے کہ حد درجہ کی بوار تی۔ س ج پھر وہ شروع ہو ج

ح کے بہت سے ں اس کے بوارے سے مولوی ص ہے۔ ہح نے کبھی اسے تے۔ مولوی ص پوشیدہ راز ضرور کھل جں البتہ خود ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تاش نہ کی تھی۔ ہ

لت میں ضرور رہتے تھے۔ ؤ کی ح بچ

ن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے انسن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے ذلیل کرنے کی ٹھفی برتن ن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے ک مہم

نہ تھ میں مولوی پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور سؤ۔ ئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے ج انداز میں آواز لگ

ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی ے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہ

رے ۔ مولوی نے اس کے ہ ں سے اٹھ دی زبردستی انہیں وہ۔ رے سے طور کو خو انجوائے کی ہ

ت ن س ۔ اندر پ ہ پیش آی د ایک اور ایس واق کچھ ہی دنوں بعورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ ئی کوئی اور دھونے واا کپڑا پڑا ہو تو دے گئے اور آواز لگ

۔ ن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن ؤ مجھے کہیں ج جری ہو گئی اور اس نے انہیں یت ط ے کی کی نی پر پہ مولوی

کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔

ل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو ح ک خی مولوی صہ الٹ م ئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن م جے ح کے پہ ۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی ص ہو گیگل تھیں کہ اگر ے لگ گی ہے۔ پ کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھ

ے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو ح کے پ مولوی صی سے گزرتے تو عورت یں تے ی گ گئے۔ رشتہ داروں میں ج

انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین داتے کہ وہ رنے تھ ہونی ک بدا ات ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے س

۔ کے لیے کی تھ

ح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح اتنے خوش طبع مولوی صر کی شر نے پینے کے مواقع بھی بےک ں سے کھ لوگوں کے ہ

د انہوں نے کہن ے کے ب ری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واق سشروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ ئی ہے۔ اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھ

.....................................

نہ ابوزر برقی کت خ فروری ٧