krishan chandar ke afsanay by krishan chandar

62
اﻓﺴﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﻨﺪر ﮐﺮﺷﻦ رام ﺑﮕﻬﺖ ﺗﻠﮯ داﻧﺘﻮں اﭘﻨﮯ ﮐﻮ ﭼﻬﻴﻨﮕﻠﻴﺎ ﮐﻲ ﮨﺎﺗﻪ ﺑﺎﺋﻴﮟ ﻣﻴﺮے ﻧﮯ ﺑﭽﮯ ﻣﻴﺮے اﺑﻬﻲ اﺑﻬﻲ ﺁﮐﺮ ﻣﻴﮟ ﻏﺼﮯ اور ﺳﮑﺎ رﮦ ﻧہ ﺑﻐﻴﺮ ﭼﻼﺋﮯ ﻣﻴﮟ ﮐہ ﮐﺎﭨﺎ ﺳﮯ زور اس ﮐﺮ داب ﮨﻴﮟ دﺋﻴﮯ ﺟﮍ ﺑﻬﻲ ﻃﻤﺎﻧﭽﮯ ﺗﻴﻦ دو ﮐﮯ اس ﻣﻌﺼﻮم اﻳﮏ ﺳﮯ وﻗﺖ اﺳﻲ ﺑﻴﭽﺎرﮦ، ﮨﻴﮟ، ﮨﻮﺗﮯ ﻧﺎزک ﮐﺘﻨﮯ ﺳﮯ دﻳﮑﻬﻨﮯ ﺑﺨﺖ ﮐﻢ ﺑﭽﮯ ﻳہ ﺗﻬﺎ، رﮨﺎ ﭼﻼ ﻃﺮح ﮐﻲ ﭘﻠﮯ داﻧﺖ ﮐﮯ ان ﮨﮯ، ﮨﻮﺗﻲ ﻣﻈﺒﻮط ﺑﮍي ﮔﺮﻓﺖ ﮐﻲ ﮨﺎﺗﻬﻮں ﻧﻬﻨﮯ ﻧﻬﻨﮯ ﮐﮯ ان ﻟﻴﮑﻦ ﮨﻴﮟ، ﮐﺮﺗﮯ ﻣﺎت ﺑﻬﻲ ﮐﻮ ﮔﻠﮩﻴﺮوں ﻣﻴﮟ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﻟﻴﮑﻦ ﮨﻴﮟ، ﮨﻮﺗﮯ ﮐﮯ دوده ﺗﻮ ﻳﻮں ﺷﺮارت ﻣﻌﺼﻮم ﮐﻲ ﺑﭽﮯ اس ﺁﻳﺎ اﺑﻬﺮ واﻗﻌہ اﻳﮏ ﮐﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﻴﮟ دل ﻣﻴﺮے ﻣﻌﺎ اﺳﮯ ﻣﻴﮟ داﻧﺴﺖ اﭘﻨﻲ اور ﺗﻬﺎ ﺳﻤﺠﻬﺘﺎ واﻗﻌہ ﻣﻌﻤﻮﻟﻲ ﺑﮩﺖ اﺳﮯ ﻣﻴﮟ ﺗﮏ اب ﮨﮯ، ﮐﮯ اس ﮨﮯ، ﻋﺠﻴﺐ ﻗﺪر ﮐﺲ ﺑﻬﻲ ﮐﺎ ﻻﺷﻌﻮر ﻳہ دﻳﮑﻬﺌﮯ ﻟﻴﮑﻦ ﺗﻬﺎ، ﭼﮑﺎ ﺑﻬﻼ ﻗﻄﻌﺎ ﮐہ ﮨﮯ ﺑﺎت ﺳﻲ اﺗﻨﻲ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮨﻴﮟ، ﻣﺴﺘﻮر ﻋﺠﺎﺋﺐ ﮐﻴﺴﮯ ﮐﻴﺴﮯ ﺑﻬﻲ ﻣﻴﮟ ﺳﮩﺎرے ﻣﻴ ﺑﭽﭙﻦ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﻪ ﮐﮯﺑﺎﺋﻴﮟ رام ﺑﮕﻬﺖ ﺁدﻣﻲ اﻳﮏ ﮐﮯ ﮔﺎﺋﻮں اﭘﻨﮯ دﻓﻌہ اﻳﮏ ﻧﮯ اور ﺳﻴﺐ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﻣﺎرﻧﮯ ﻃﻤﺎﻧﭽﮯ ﻣﺠﻬﮯ ﻧﮯ اس اور ﺗﻬﺎ، ڈاﻻ ﭼﺒﺎ اﻧﮕﻬﻮﭨﻬﺎ ﮨﻮں، ﭼﮑﺎ ﺑﻬﻮل ﻧﮩﻴﮟ ﺗﮏ اب ﮐﻮ واﻗﻌہ اس ﻣﻴﮟ ﺑﻈﺎﮨﺮ اور ﺗﻬﮯ ﮐﻬﻼﺋﮯ ﺁﻟﻮﭼﮯ ﻓﺮ ﻣﻼﺣﻈہ ﺑﻮااﻟﻌﺠﻴﺎں ﮐﻲ ﭘﭩﺎرے ﺑﺎرے ﮐﮯ ﻣﺘﻲ ﺑﻬﺎن اس ذرا ﻟﻴﮑﻦ ﻳہ ﻣﺎﺋﻴﮯ، اور ﮨﮯ دﺑﺎ ﻣﻴﮟ ﭘﺸﺘﺎرے ﮐﮯ ذﮨﻦ ﻃﺮح ﮐﻲ ﻧﺎﮔﻦ ﺧﻮاﺑﻴﺪﮦ اک واﻗﻌہ ﺳﺎ ﻣﻌﻤﻮﻟﻲ ﮨﻮں، ﭘﻴﭩﺘﺎ اﺳﮯ ﻣﻴﮟ اور ﮨﮯ دﺑﺎﺗﺎ ﺗﻠﮯ داﻧﺘﻮں ﮐﻮ ﭼﻬﻨﮕﻠﻴﺎ ﻣﻴﺮي ﺑﭽہ ﻣﻴﺮا ﺟﻮﻧﮩﻲ ذﮨﻦ ﻣﻴﺮے ﮐﺮ ﭘﻬﻴﻼ ﭘﻬﻦ اور ﮨﮯ، ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺑﻴﺪار ﻧﺎگ ﮨﻮا ﺳﻮﻳﺎ ﮐﺎ ﺳﺎل ﺗﻴﺲ ﭘﭽﻴﺲ ﻳہ ﻟﮕﺎ، ﻟﮩﺮاﻧﮯ ﻣﻴﮟ دﻳﻮاري ﭼﺎر ﮐﻲ ﺗﻮ اب ﺑﻬﮕﺎﺋﮯ، ﻣﺎر ﻃﺮح ﮐﺲ اﺳﮯ ﮐﻮﺋﻲ اب ﻣﻴﮟ ﮐہ ﺟﻴﺴﺎ ﻟﻴﺠﺌﮯ، ﺳﻦ ﺑﻬﻲ واﻗﻌہ وﮦ ﺗﻮ ﺧﻴﺮ ﮨﻮﮔﺎ، ﭘﻼﻧﺎ دوده اﺳﮯ ذﮨﻦ ﻣﻴﺮے ﮐﺮ ﭘﻬﻴﻼ ﭘﻬﻦ اور ﮨﮯ، ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺑﻴﺪار ﻧﺎگ ﮨﻮا ﺳﻮﻳﺎ ﮐﺎ ﺳﺎل ﺗﻴﺲ ﭘﭽﻴﺲ ﻳہ ﺗﻮ اب ﺑﻬﮕﺎﺋﮯ، ﻣﺎر ﻃﺮح ﮐﺲ اﺳﮯ اﺑﮑﻮﺋﻲ ﻟﮕﺎ، ﻟﮩﺮاﻧﮯ ﻣﻴﮟ دﻳﻮاري ﭼﺎر ﮐﻲ ﭘﻼﻧ دوده اﺳﮯ ﻋﺮض اﺑﻬﻲ ﻣﻴﮟ ﮐہ ﺟﻴﺴﺎ ﻟﻴﺠﺌﮯ، ﺳﻦ ﺑﻬﻲ واﻗﻌہ وﮦ ﺗﻮ ﺧﻴﺮ ﮨﻮﮔﺎ، ﻣﻴﮟ ﮔﺎﺋﻮں ﮐﮯ رﻧﮕﭙﻮر ﻟﻮگ ﮨﻢ ﺟﺐ ﮨﮯ واﻗﻌہ ﮐﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﻴﺮے ﻳہ ﮨﻮں ﮐﺮﭼﮑﺎ ﮐﻲ اس ﻟﺌﮯ اس ﮨﮯ ﺻﺪرﻣﻘﺎم ﮐﺎ ﺟﻮڑي ﺗﺤﺼﻴﻞ ﮔﺎﺋﻮں ﮐﺎ رﻧﮕﭙﻮر ﺗﻬﮯ، رﮨﺘﮯ

Upload: zeeshaniqbal

Post on 31-Dec-2015

65 views

Category:

Documents


11 download

DESCRIPTION

Urdu Adab

TRANSCRIPT

Page 1: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

کرشن چندر کے افسانے

بگهت رامابهي ابهي ميرے بچے نے ميرے بائيں ہاته کي چهينگليا کو اپنے دانتوں تلے

داب کر اس زور سے کاٹا کہ ميں چالئے بغير نہ رہ سکا اور غصے ميں آکر ، بيچارہ اسي وقت سے ايک معصوم اس کے دو تين طمانچے بهي جڑ دئيے ہيں

پلے کي طرح چال رہا تها، يہ بچے کم بخت ديکهنے سے کتنے نازک ہوتے ہيں، ليکن ان کے نهنے نهنے ہاتهوں کي گرفت بڑي مظبوط ہوتي ہے، ان کے دانت يوں تو دوده کے ہوتے ہيں، ليکن کاٹنے ميں گلہيروں کو بهي مات کرتے ہيں،

ے معا ميرے دل ميں بچپن کا ايک واقعہ ابهر آيا اس بچے کي معصوم شرارت سہے، اب تک ميں اسے بہت معمولي واقعہ سمجهتا تها اور اپني دانست ميں اسے

قطعا بهال چکا تها، ليکن ديکهئے يہ الشعور کا بهي کس قدر عجيب ہے، اس کے سہارے ميں بهي کيسے کيسے عجائب مستور ہيں، بظاہر اتني سي بات ہے کہ

ں نے ايک دفعہ اپنے گائوں کے ايک آدمي بگهت رام کےبائيں ہاته کا بچپن ميانگهوٹها چبا ڈاال تها، اور اس نے مجهے طمانچے مارنے کے بجائے سيب اور آلوچے کهالئے تهے اور بظاہر ميں اس واقعہ کو اب تک نہيں بهول چکا ہوں،

مائيے، يہ ليکن ذرا اس بهان متي کے بارے پٹارے کي بواالعجياں مالحظہ فرمعمولي سا واقعہ اک خوابيدہ ناگن کي طرح ذہن کے پشتارے ميں دبا ہے اور

جونہي ميرا بچہ ميري چهنگليا کو دانتوں تلے دباتا ہے اور ميں اسے پيٹتا ہوں، يہ پچيس تيس سال کا سويا ہوا ناگ بيدار ہوجاتا ہے، اور پهن پهيال کر ميرے ذہن

اب کوئي اسے کس طرح مار بهگائے، اب تو کي چار ديواري ميں لہرانے لگا، اسے دوده پالنا ہوگا، خير تو وہ واقعہ بهي سن ليجئے، جيسا کہ ميں

يہ پچيس تيس سال کا سويا ہوا ناگ بيدار ہوجاتا ہے، اور پهن پهيال کر ميرے ذہن کي چار ديواري ميں لہرانے لگا، ابکوئي اسے کس طرح مار بهگائے، اب تو

ا ہوگا، خير تو وہ واقعہ بهي سن ليجئے، جيسا کہ ميں ابهي عرض اسے دوده پالنکرچکا ہوں يہ ميرے بچپن کا واقعہ ہے جب ہم لوگ رنگپور کے گائوں ميں

رہتے تهے، رنگپور کا گائوں تحصيل جوڑي کا صدرمقام ہے اس لئے اس کي

Page 2: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

2

حيثيت اب ايک چهوٹے موٹے قصبے کي ہے، ليکن جن دنوں ہم وہاں رہتے نگپور کي آبادي بہت زيادہ نہ تهي، يہي کوئي ڈهائي تين سو گهر ہوں تهے، ر

گے، جن ميں بيشتر گهر برہنموں اور کهتريوں کے تهے، دس بارہ گهر جالہوں اور کمہاروں کے ہوں گے پانچ چه بڑهئي اتنے ہي چمار اور دهوبي اور يہي

ان کي سارے گائوں ميں لے دے کے آٹه دس گهر مسلمانوں کے ہوں گے ليکن۔حالت نگفتہ بہ تهي، اس لئے يہاں تو ان کا ذکر کرنا بهي بيکار سا معلوم ہوتا ہے

گائوں کي برادري کے مکهيا اللہ کانشي رام تهے، يوں تو براہني سماج کے اصولوں کے مطابق برداري کا مکهيا کسي براہمن ہي کو ہونا چاہئيے تها اور

ب سے زيادہ تهي اس پر برادري نے پهر برہنموں کي آبادي بهي گائوں ميں ساللہ کانشي رام کو جو ذات کے کهتري تهے، اپنا مکهيا چنا تها، پهر وہ سب سے

زيادہ لکهے پڑهے تهے، يعني شہر تک پڑهے تهے، جو خط ڈاکيہ نہيں پڑه سکتا تها، اسے بهي وہ اچهي طرح پڑه ليتے تهے، تمسک ہنڈي، نالش، سمن ،

وہ نئے شہر کي بڑي عدالت کي ہر کاروائي سے وہ گواہي، نشان دہي کے عالبخوبي واقف تهے، اس لئے گائوں کا ہر فرد اپني ہر مصيبت ميں چاہے وہ خود اللہ کانشي رام ہي کي پيدا کردہ ہو، اللہ کانشي رام ہي کا سہارا ڈهونڈتے تهے،

اور اللہ جي نے آج تک اپنے کسي مقروض کي مدد کرنے سے انکار نہ کيا، لئے وہ گائوں کے مکهيا تهے، گائوں کے مالک تهے اور رنگ پور سے اسي

باہر بهي دور دور تک جہاں تک دهان کے کهيت دکهائي ديتے تهے، لوگ ان ۔کے گن گاتے تهے

ايسے شريف اللہ کا منجلہ بهائي اللہ بانشي رام، جو اپنے بڑے بهائي کے ہر کے لوگ اسے اتنا اچها نہيں نيک کام ميں اس کا ہاته بٹاتا تها، ليکن گائوں

سمجهتے تهے، کيونکہ اس نے اپنے برہمن دهرم کو تياگ دياتها، اور گورونانک جي کے چائے ہوئے پنته ميں شامل ہو گيا تها، اس نے اپنے گهر ميں ايک چهوٹا

سا گورودوارہ بهي تعمير کرايا تها اور ان کے شہر سے ايک نيک صورت، هي کو بال کر اسے گائون ميں سکه کے پرچار نيک طينت، نيک سيرت، گرنت

اللہ کانشي رام کے سکه بن جانے سے گائوں ميں ۔۔۔کيلئے مامور کردياتها مسلمانوں اور سکهوں کے لئيے تو ۔جهٹکے اور حالل کا سوال پيدا ہوگيا تها

گويہ يہ اک مذہبي سوال تها، ليکن بهيڑ بکريوں اور مرغے مرغيوں کيلئے تو ت کا سوال تها، ليکن انسانوں کے نقار خانے ميں جانوروں کي زندگي اور مو۔کون سنتا ہے

اللہ بانشي رام کے چهوٹے بهائي کا نام تها بگهت رام، يہ وہي شخص ہے جس کا انگوٹها ميں نے بچپن ميں چبا ڈاال تها، کس طرح يہ تو ميں بعد ميں بتائوں گا،

۔۔۔۔نگا، آوارہ بدمعاش تها يہابهي تو اس کا کردار ديکهئے، يعني کہ سخت لفشخص نام تها بگهت رام ليکن دراصل يہ آدمي رام بگهت رام نہيں شيطان کا

بگهت تها، رنگ پور کے گائوں ميں آوارگي، بدمعاشي ہي نہيں، ڈهٹائي اور بے حيائي کا نام اگر زندہ تها محض بگهت رام کے وجود سے ورنہ رنگپور تو ايسي

Page 3: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

3

تها کہ غالبا فرشتوں کو بهي وہاں آتے ہوئے ڈر معلوم شريف روحوں کا گائوں ہوتا ہوگا، نيکي پاکيزگي اور عبادت کا ہلکا سا نور گويا ہر ذي نفس کے چہرے

سے چهنتا نظر آتا تها، کبهي کوئي لڑائي نہ ہوتي تهي، فرقہ وقت پر وصول دے کر ہوجاتا تها، ورنہ زمين قرق ہوجاتي تهي اور اللہ کانشي رام پهر روپيہ

اپنے مقروض کو کام پر لگا ديتے تهے، مسلمان بچارےاتنے کمزور تهے اور تعداد ميں اس قدرکم تهے کہ ان ميں لڑنے کي ہمت نہ تهي، سب بيٹهے مسجدوں کے مناروں اور اسکے کنگروں کو خاموشي سے تکا کرتے کيونکہ گائوں ميں

وں کا سارا دهندا دو انہيں اذان دينے کي بهي ممانعت تهي، کيروں اور اچهوتجنمے لوگوں سے وابستہ تها اور وہ چوں تک نہ کرسکتے تهے، اس کے عالوہ انہيں يہ احساس بهي نہ ہوتا تها کہ زندگي اس کے عالوہ کچه اور بهي ہوسکتي

ہے بس جو ہے وہ ٹهيک ہے، يہي مسلمان سمجهتے تهے، يہي براہمن ، يہي ام کو گالياں سناتے تهے کيونکہ اس ہي چمار اور سب مل کر بگهت ر۔۔۔کهتري

۔کي کوئي کل سيدهي نہ تهي ناتراش، ۔۔۔بگهت رام لٹه گنوا تها، بات کرنے ميں اکهڑا ديکهنے ميں اکهڑ، گنده

بڑے بڑے ہاته پائوں بڑے بڑے دانت بتيسي ہر وقت کهلي لبوں سے رال ٹپکي ۔يہوئي جب ہنستا تو بتيسي مسوڑهوں کي بهي پوري پوري نمائش ہوت

گائوں ميں ہر شخص کا سر گهٹا ہوا تها اور ہر ہندو کے سر پر چوٹي تهي، ليکن بگهت رام نے بلوچوں کي طرح لمبےلمبے بال بڑهالئے تهے اور چوٹي غائب

تهي بالوں ميں بڑي کثرت سے جوئيں ہوتيں، جنہيں وہ اکثر گهراٹ کے باہر بيٹه بار رچايا جاتا، گلے ميں پهولوں کر چنا کرتا تها، سرسوں کا تيل سر ميں دو تين

کے ہار ڈالے جاتے اور بيچ ميں سے سيدهے مانگ نکال کر اور زلفين سنوار کر ہ سر شام گائوں کے چشموں کا طواف کيا کرتا، اپني ان بري حرکتوں سے

کئ بار پٹ چکا تها ليکن اس کا اس پر کوئي اثر نہ ہوتا تها، بڑي موٹي کهال تهي ميرا خيال ہے کہ اس کے شعور ميں ضمير کي آگ کبهي اس کي اور پهر اس

روشن نہ ہوئي تهي، وہ شرارہ بيدار تها، جو حيوان کو انسان بناديتا ہے، بگهت رام سو فيصد حيوان تها اور اسي لئے گائوں والے برہمن اور کهتري، امير اور ۔غريب ہندو اور مسلمان اور سنار اور چمار سب اس سے نفرت کرتے تهے

ين چونکہ اللہ کانشي رام کا چهوٹا بهائي تها، اور بظاہر گائوں کے سب سے لبڑے گهر کا ايک معزز فرد، اس لئے اپني ناپسنديدگي کے باوجود گائوں کے

حرکات کو برداشت یلوگ اس کے وجود کو اور اس کے وجود کت مزبوح کرتے تهے، اور آج کرتے چلے آئے تهے، ليکن جب رنگ پور ميں آئے اس

وقت بگهت رام کے بڑے بهائي نے پريشان ہوکر اسے اپنے گهر سے نکال ديا تها، توي کا ياک گهراٹ اس کے سپرد کرديا تها، جہاں بگهت رام رہا کرتا تها،

اور وہ رات کو سوجاتا بهي وہيں تها، کيونکہ گهراٹ تو دن رات چلتا تها، نہ وہ چادر ميں يا بهيٹر جانے کس وقت کسے آٹا پسانے کي ضرورت پيش ہو اور

کي کهال ميں کئي يا گندم کے دانے گهراٹ پر چال آئے اور پهر اس کے عالوہ

Page 4: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

4

يہ بهي تو ہے کہ دن بهر ميں جوگہيوں جمع ہوتا ہے يا اناج ابهي پسا نہيں جاتا وہ ہيں، گهراٹ پر دهرا رہتا ہے اور اس کي نگہباني کيلئے بهي تو ايک آدمي کا

ري ہے، يہي سوچ کر اللہ منشي رام کا گهراٹ گائوں ميں وہاں موجود ہونا ضروسے سے نامي گهراٹ تا، يعني تقريبا سارے گائوں کا اناج وہيں پسوايا جاتا تها، ايک اور گهراٹ بهي تها، ليکن بالعموم مسلمانوں ، اچهوتوں اور کميروں کيلئے

تياور اس کي اناج جہاں پسايا جاتا تها، جب کبهي بڑا گهراٹ چلتے چلتے رک جامہيب چکي کام کرنے سے انکار کر ديتي يا جب پاٹوں کي سطح پر پتهريلے

۔دندانے بنانے کيلئے انہيں الٹا ديا جاتا

تو اس صورت ميں دوسرے گهراٹ والوں کو چند روز کيلئے اچهي آمدني ہوجاتي تهي، بصورت ديگر بڑے گهراٹ پر گاہکوں کي بهيڑ لگي رہتي، جب

ا تها، اس وقت کسي مسلمان، کسي کميرے، کسي اچهوت، کي يہ بڑا گهراٹ چلتجرات نہ تهي، جرات توکيا کبهي ان کے ذہن ميں يہ خيال بهي نہ آيا تها، کہ ان کا اناج کبهي بڑے گهراٹ پر پس سکتا ہے، شروع شروع ميں جب بگهت رام

ميں نے کام سنبهاال تو اس نے چند روز تک يہي وطيرہ اخيتار کيا، ليکن بعداسے مزاج کے الابالي پن نے بلکہ يوں کہئے کہ شيطاني پن نے زور مارا اور

اس نے سوچا جي کيا ہے اس ميں جو آئے ، آٹا پسا کر لے جائے، ان پتهرون کے دو پاٹوں ميں دهرا ہي کيا ہے، اور يہ آخر اناج ہي تو ہے، جسے کتا بهي

وگا، دسرے گهراٹ بالکل کهاتا ہے اس سے گهراٹ کي آمدني ميں اضافہ بهي ہہي بند ہوجائے نہ جانے اس نے کيا سوچا، بہر حال اس نے کوئي ايسي ہي بات سوچي ہوگي، جو اس نے گائوں کے چماروں اور کميروں کو بهي اپنے گهراٹ

پر سے آٹا پسانے کي دعوت دي، پہلے تو لوگوں نے بڑي شد و مد سے انکار ہتے ہو اللہ ہم رعيت، ہيں تم راجہ ہو، يہ کيا، بهال ايسا بهي ہوسکتا ہے کيا ک

تمہارا گهراٹ ہے، ہمارا گهراٹ ہے، ہم بهال يہاں آٹا پسانے کيوں آئيں گے نا بابا نہ يہ کام ہم سے نہ ہوگا، اور جو چاہے ہم سے کام لے لو يہ کام ہم سے نہ ہوگا،

اور ليکن بگهت رام نے آخر اپني چالکيوں سے ان بيچارون کو پهسال ہي ليا انہيں اس بات پر آمادہ کر ليا کہ وہ اناج اسي کے گهراٹ پر اليا کريں گے وہيں

۔پسايا کريں گے بهال ايسي بات بهي برادري ميں چهپي رہ سکتي ہے، برادري ميں اک کہرام مچ گيا، چہ ميگو ئياں ہونے لگيں، ہر روز بگهت رام سے لڑائي ہونے لگي، تگڑا

ہہ گيا ہنس ہنس کر ٹالتا تها، پهر اسے غصے ميں آدمي تها، اس لئے گالياں سآکر دو چار کو پيٹ ديا، پهر ايک دن خود پٹ گيا، يہ معاملہ بڑهتے بڑهتے اللہ کانشي رام کے پاس پہنچا، انہوں نے بگهت رام ک بال کر ڈانٹا سمجهايا ٹهنڈے ہ دل نرمي سے پچکار کر باتيں کيں، اونچ نيچ سمجهائي ليکن جس دل ميں کمين

۔پن ہ وہ دهرم کرم کي بات کب سننے گا

Page 5: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

5

ايراني پالئوآج رات اپني تهي، کيونکہ جيب ميں پيسے نہيں تهے، جب جيب ميں تهوڑے

سے پيسے هوں رات مجهے اپني نہيں معلوم هوتي، اس وقت رات ميرين ڈرائيو پر تهرکنے والي گاڑيوں کي معلوم هوتي هے، جگماتے هوئے فليٹوں کي معلوم

هے ، ايمبسڈر کي چهت پر ناچنے والوں کي معلوم هوتي هے ، ليکن آج هوتي رات بالکل اپني تهي، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپني تهے اور بمبي کي

ساري سڑکيں اپني تهيں، جب جيب ميں تهوڑے سے پيسے هوں تو سارا شہر ے، اپنے اوپر مسلط هوتا هوا معلوم هوتا هے، هر شے گهورتي هے ڈانٹتي ه

اپنے آپ سے دور بيٹهنے پر مجبور کرتي اوني پتلون سے لے کر خوش نما ريڈيو پروگرام تک هر چيز کہتي هے ، مجه سے دور هو، ليکن جب جيب ميں

ايک پائي نہ هوتو سارا شہر اپنا بنا هوا معلوم هو تا هے ، اس کے هر کهمبے پر ہ مست صنف، اس دن نہ گويا لکها هوتا تها تعمير کيا گيا برائے بشن ايک قاف

حواالت کا کارڈ هوتا هے نہ گاڑي کي لپٹ ميں آجانے کا، نہ هوٹل ميںکہانے کا، ايک ايسي وسيع بےفکري اور بے کنار فاقي مستي کا نشہ آور موڈ هوتا

هے، جوميلون تک پهيلتا چالجارهے ، اس رات ميں خود نہيں چلتا هوں اس رات ئے چلتي هيں اور گليوں کے موڑ پر اور بمبئي کي سڑکيں مجهے اٹهائے اٹها

بازاروں کے ٹکڑ اور بڑي بڑي عمارتوں کےتاريک کونے مجهے خود دعوت ديتے هيں ادهر آؤ ہميں بهي ديکهو هم سے ملو، دوست تم آٹه سال سے اس شہر ميں رہتے هوں ، ليکن پهر بهي اجنبيوں کي طرح کيوں چل رهے هو، ادهر آؤ

هم سے ہاته مالؤ

بهي ايک متحاني لمہے کي جهجک کے بعد وه لوگ ميري طرف ديکه کر يہاں مسکرائے، ايک لڑکے نے مجه سے کہا، آؤ بهائي تم بهي يہاں بيٹه جاؤ اور اگر

۔گانا چاهتے هو تو گاؤ اتنا کہہ کر اس نے دبلے پتلے لڑکے نے اپنےسر کے بال جهٹک کے پيچهے

نے لگا، هم سب لوگ مل کر کر لئيے اور اپنا لکڑي کے بکس کا طبلہ بجا۔پهرگانے لگے

تيرا ميرا ميرا تيرا پيار هوگيا

يکايک اس دبلے پتلے لڑکے نے طبلہ بجانا بند کرديا اور اپنےايک ساتهي کو جو اپني گردن دونوں ٹانگوں ميں دبائے اکڑوں بيٹها تها، ٹہو کا دے کے کہا،

۔ابے مدهو باال تو کيوں نہيں گاتے نا چہرہ ٹانگوں ميں بڑي وقت سے نکاال، اس کا چہرہ مدهو بال مدهو باال نے اپ

ايکٹرس کي طرح حسين نہيں تها، ٹهوڑي سے لے کر دائيں ہاته کي کہني تک آگ سے جلنے کا ايک بہت بڑا نشان يہاں سے وہاں تک چال گيا تها، اس کے

Page 6: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

6

چہرے پر کرب کے آثار نماياں تهے، اس کي چهوٹي چهوٹي آنکهوں ميں جو اس کے گول چہرے پر دو کالي درزيں معلوم هوتي تهيں انتہائي پريشاني جهلک

رهي تهي، اس نے اپنے هونٹ سيکڑ کر طبلے والے سے کہا سالے ۔مجهےرهنے دے ميرے پيٹ ميں درد هو رها هے

کيوں درد هوتا هے ، سالے تونے آج پهر ايراني پالؤ کهايا هوگا؟۔ں وهي کهايا تهامدهو باالنے بڑے دکه سے سر ہاليا، ہا

کيوں کهايا تها سالے کياکرتا ، آج صرف تين جوتے بنائے تهے

جو عمر ميں ان سب سے بڑا معلوم هوتا هے تها، جس کي ٹهوڑي پر تهوڑي داڑي اگي تهي اور کنپٹيوں کے بال رخساروں کي طرف بڑه رهے تهے اپني

، چل ميں تيرے ناک کهجاتے هوئے کہا، اے مدهو باال، اٹه ميدان ميں دوڑلگا۔ساته دوڑتا هوں ، دو چکر لگانے سے پيٹ کا درد ٹهيک هوجائے گا

نہيں بے رهنے دے۔ں تو ايک جهانپڑ دوں گاين بے سالے اٹه، نہينہ

مدهو باال نے ہاته جوڑ کر کہا، ککو رهنے دو، ميں تيري منت کرتا هوں، يہ پيٹ ۔کا درد ٹهيک هوجائےگا

۔خراب کرتا هے اٹه بے ، کيوں ہماري سنگت ککو نے ہاته بڑها کر مدهو باال کواٹهايا اور وه دونوں يونيورسٹي کے گراؤنڈ ميں چکر لگانے لگے، پہلے تو تهوڑي دير تک ان دوڑتےهوئے لڑکوں کي

طرف ديکهتا رہا، پهر جب ميرے قريب بيٹهے هوئے لڑکے نے سر کهجا کے ۔مصيبت اور نہ کهاؤ تو مصيبت کہا، سالي کيا مصيبت هے ايراني پالؤ، کهاؤ تو

ميں نے کہا بهائي پالؤ تو بڑے مزے کي چيز هے، اسے کهانے سے پيٹ درد کيسے هوسکتا هے؟ ميري بات سن کر وہ هنسے، ايک لڑکے ني جس کا نام بعد

ميں مجهے کلديب کور معلوم هوا اور جو اس وقت ايک پٹهي هوئي پنڈي اور ه سے هنس کر کہا، معلوم هوتا هے تم نے ايک پهٹي نيکر پہنے هوئے هے، مج

۔ايراني پالؤ کبهي نہيں کهايا کلديب کور نے اپني بنڈي کے بٹن کهولتے هوئے مجهے بتاياکہ ايراني پالؤ ان

لوگوں کي خاص اصطالح هے، اسے ايسے لوگ روز روز نہيں کهاسکتے ليکن ے پاس جس دن لڑکے نے جوتے بہت کم پالش کئے هوتے هيں يا جس دن اس ک

بہت کم پيسے هوتے هيں اس دن اسے ايراني پالؤ هي کهانا پڑتا هے اور يہ پالؤ سامنے کے ايراني ريستوران سے رات کے باره بجے کے بعد ملتا هے ، جس

سب گاهک کهانا کها کر چلے جاتے هيں، دن بهر ميں لوگ ڈبل روٹي کے ے گوشت اور ٹکڑے اپني پليٹيوں ميں چهوڑ جاتے هيں، ڈبل روٹي کے ٹکڑ

هڈياں چچوڑي هوئي، چاول کے دانے ،آمليٹ کے ريزے، آلوؤں کے قتلے، يہ سارا جهوٹا کهانا ايک جگہ جمع کرکے ايک ملغوبہ تيار کرليا جاتا هے اور ملغوبہ دو آنے پليٹ کے حساب سے بکتا هے، پيچهے کچن کي دروازے پر

Page 7: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

7

قے کے غريب لوگ اسے ايراني پالؤ کہا جاتا هے ، اسے عام طور پراس عالبهي نہيں کهاتے پهر بهي هر روز دو تين سو پليٹيںبک جاتي هيں، خريداروں ميں زياده تر جوتے پالش کرنے والے ، فرنيچر ڈہونے والے، گاہکوں کيلئے

ٹيکسي النے والے هوتےهيں يا آس پاس کے بلڈنگوں ميں کام کرنے والے ۔مزدور بهي هوتے هيں

تمہارا نام کلديب کور کيوں هے؟ کلديب کور نے اپني ميں کلديب کور سے پوچها بنڈي بالکل اتاردياور اب وه بڑے مزے سے ليٹا هوا هے اپنا سياہ پيٹ سہال رها

تها، وه ميرا سوال سن کر وهيں گهاس پر لوٹ پوٹ هوگيا، پهر هنس چکنے کےبعد اپنے ايک ساتهي سے کہنے لگا

۔ذرا ميرا بکسا النا ر کو بکسا ديا، کلديب کور نے بکسا کهوال، اس ميں پالش کا ساتهي نے کلديب کو

سامان تها، پالش کي ڈبيوں پر کلديب کور کي تصوير بني هوئي تهي، پهر اس نے اپنے ايک ساتهي سے کہا، تو بهي اپنا بکسا کهول اس نے بهي اپنا بکسا کهولہ ،

ي تصويريں اس بکس ميں پالش کي جتني چهوٹي بڑي ڈبياں تهيں ان پر نرگس ک۔تهيں، جو رسالوں اور اخباروں کے صفحوں سےکاٹ کر لگائي گئي تهيں

کلديب کور نے کہا يہ ساال نرگس پالش مارتا هے ، وه نمي کا وه ثرياکا، هم ميں جتنا پالش واال هے، کسي نہ کسي فلم ايکٹريس کي تصويرں کاٹ کر اپنے ڈبوں

۔پر لگاتا هے اس کا پالش مارتا هے ک انباتوں سے بہت خوش هوتا هے، ام اس سے بولتا هے ، صاحب ساال گاه

کون سا پالش لگاؤں ، نرگس کہ ثريا کہ مدهو باال؟پهر جب گاهک جس فلم کي ايکٹريس کو پسند کرتاهے ، اس کا پالش مانگتا هے، هم اس کو اس لڑکے کے ا حوالے کرديتا هے جو نرگس کا پالش يا نمي کا يا کسي دوسري فلم ايکڑس ک

پالش مارتا هے ، هم آٹه لڑکے هيں، ادهر سامني چرچ گيٹ پر سے بس اسٹينڈ کے پيچهے بيٹهتے هيں، جس کے پاس جس ايکڑس کا پالش هے وه هي اس کا ۔نام لے گا، اسي سے همارا دهندا بہت اچها چلتا هے اور کام ميں مجا آتا هے

ي ريستوران کے ميں نے کہا تم اور بس اسٹينڈ کے نيچے فٹ پاته پر ايرانں کہتا؟يسامنے بيٹهے هوں تو پوليس واال کچه نہ

کندليب کور اوندهے منہ ليٹا هوا تها، اب سيدها هوگيا، اس نے اپنے ہاته کے انگهوٹے کو ايک انگلي سے دبا کر اسے يکايک ايک جهٹکے سے يوں نچايا

۔جيسے وه فضا ميں اکني اچهال رها هوں، بوال وه ساال کيا کہے گا؟ اسے پيسہ ديتا هے اور يہاں اس ميدان ميں جو سوتا هے اس کا بهي پيسہ ديتا

هے، پيسہ؟ اتنا کہہ کر کلديب کور نے پهر انگوٹهے سے ايک خيالي اکني هوا ميں اچهالي اور فضا ميں ديکہنے لگا، اور پهر دونوں ہاته کهول کر ديکها ، مگر

لخي سے مسکراديا، اس نے دونوں خالي تهے کلديب کور بڑي مزے دار اور ت۔کچه نہيں کيا چپ چاپ اوندها ليٹ گيا

ں نے تم کو ينرگس نے مجه سے پوچها تم ادهر داور ميں پالش مارتے هوں ؟ م

Page 8: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

8

۔ويزاں هوٹل کے سامنے ديکها هے ۔مين نے کہا، ہاں مجه کو بهي ايک پالش واال هي سمجهو ے ميري طرف گهور کر ايک طرح سے کيا؟ کلديب کور اٹه کر بيٹه گيا، اس ن ديکها، سالہ سيدہے بات کرونا، تم کيا کام کرتا هے؟

اس نے کہا ميں بہت خوش هوا، کوئي اور کہتا تو ميں اسے ايک جڑ ديتا، مگر جب اس لڑکے نے مجهے ساال کہا تو ميں بہت خوش هوا کيونکہ ساال گالي کا

ني برادري ميں شامل ں تها ، برادري کالفظ تها، ان لوگوں نے مجهے اپيلفظ نہکر ليا تها، اس لئے ميں نے کہا ، بهائي ايک طرح سے ميں بهي پالش واال هوں، مگر ميں لفظ پالش کرتا هوں اور کبهي کبهي پرانے ميلے چمڑوں کو کهرچ کے

۔ديکهتا هوں کہ ان کي بوسيدہ تہوں ميں کيا هے

ا الکرتا هے، صاف نرگس اور نمي ايک دم بول اٹهے، تو سالہ پهر گڑ بڑ گهوٹ۔ں بولتا کيا کام کرتا هےيصاف کيوں نہ ۔ميرا نام بش هے، ميں کہانياں لکهتا هوں۔ميں نے کہا

اوہ تو بابو هے نمي بوال، نمي ايک چهوٹا سا لڑکا تها ، يہاں دائرے ميں جتنے لڑکے تهے ان سب ميں سب سے چهوٹا ، مگر اس کي آنکهوں ميں ذہانت تيز

کہ وه اخبار بهي بيچتا تها، اس لئيے اسے مجه سے دلچسپي چمک تهي اور چونپيدا هوگئي تهي، اس نے ميرے قريب قريب آرک کيا ، کون سے اخباروں ميں

لکهتے هو؟ پهري ريس ،سنٹل ٹايث، بمبئے کرانيکل، ميں اب اخباروں کو جانتا ۔هوں

۔وه بڑه کر ميرے قريب آگيا ۔ميں نےکہا ميں شاهراہ ميں لکهتا هوں

ساہره؟ کون نوز پيپر هے؟۔دہلي سے نلکتا هے

۔دلي کے چهاپے خانے سے وه؟ نمي کي آنکهيں ميرے چہرے پر پهيل گئيں ۔اور اب ادب لطيف ميں لکهتا هوں، ميں نے رعب ڈالنے کيلئےکہا

کيا کہا بدبے خليف ميں لکهتا هے،سالے يہ تو کسي ۔کلديب کور هنسنے لگامعلوم هوتا هے،بدبے خلطيف آہاآہا آہا، ابے نمي تو اپنا انگلش فلم ايکٹريس کا نام

نام بدلکر خلطيف رکه لے، بڑا اچها نام مالوم هوگا،ہاہاہاہا جب سب لڑکے هنس ں، ادب ، ادب، يچکے تو ميں نے بڑي سنجيدگي سے کہا، بدبے خلطيف نہ

۔لطيف، الهور سے نکلتا هے، بہت اچها پيپر هے کے کہا، ہاں سالے هوگاادب لطيف هي هو گا هم نرگس نے بے پرواہي سر هال

۔کو کيا، هم اس کو بيچ کے ادهير پيسہ تهوڑي کماتے هيں تقريبا اتنا هي جتنا تمہيں ملتا هے ، اکثر کچه بهي نہيں ملتا جب ميں لفظوں پر پالش کرچکتا هوں تو اخبار والے شکريہ کہہ کر مفت لے جاتے هين اور اپني

۔مکاليتے هيںرسالے يا اخبار کو چ

ں کرتا، سچ کہتا يهماري طرح پالش کيوں نہ۔تو خالي مغز ماري کيوں کرتا هے

Page 9: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

9

هوں تو بهي آجا ہماري برادري ميں ، بس تيري هي کسر تهي، اور تيرا نام هم ۔بدبے خلطيف هي رکہ ديں گے، الہاته ميں نے کلديب کور سے ہاته ماليا

۔يس والے کو دينے پڑيں گےکلديب کور کہنے لگا، مگر چار آنے روز پول اور اگر کسي روز چار آنے نہ هوئے تو؟

ں، کسي سے مانگ ، چوري کر ڈاکہ ڈال، مگر سنتري کو چار يتو هم کو مالوم نہ۔آنے دينے پڑيں گے اور مہينے ميں دو دن حواالت ميں رہنا پڑے گا

ارے وه کيوں؟يں هر ايک پالش يہ هم نہيں جانتے، سنتري کو هم هر روز چار آنے ديتے ه

والے ديتا هے، پهر بهي سنتري هر مهينے ميں دو دفعہ هم کو پکڑ کے لے جاتا ۔هے، ايسا اس کا قاعده هے ، وه بولتا هے، ام کيا کريں ۔ميں نےکہا، اچها دو دن حواالت ميں بهي گزار ليں گے

اور کلديب کور نے کہا ، تم کو مہينے ميں ايک بار کورٹ بهي جانا پڑے گا، تمہارا چاالن هوگا، کميٹي کے آدمي کي طرف سے ، تم کو کورٹ ميں بهي جانا

۔پڑے گا دو روپے ي اتين روپے وه بهي تم کو دينا پڑے گا وه کيوں ؟جب ميں چار آنے سنتري کو ديتا هوں، پهر ايسا کيوں هوگا؟

ارے يار سنتري کو بهي تو اپني کار گزاري دکهاني هے کہ نہيں، تو سمجهتا ں هے سالے بدبے خلطيف؟نہي

ميں نے آنکه مار کر کلديب کور سے کہا، سالے سمجهتا هوں، هم دونوں هنسنے لگے، اتنے ميں مدهو باال اور ککو دونوں ميدان کے چکر لگا کر پسينے ميں

۔ڈوبے هوئے واپس آئے ۔مين نے مدهو باال پوچها، تمہارا پيٹ کا درد غائب هوگيا

کچرا بابال سے باہر نکال تو اس کي ٹانگيں کانپ رہي تهيں اور اس کا سارا جب وہ هسپتا

جسم بهيگي هوئي روئي کا بنا معلوم هوتا تها اور اس کا جي چلنے کو نہيں چاهتا قاعدے سے اسے ابهي تک ايک ماہ ۔تها وہيں فٹ پاته پر بيٹه جانے کو چاہتا تها

اس کي چهٹي کر دي تهي، اور ہسپتال ميں رہنا چاہئيے تها مگر ہسپتال والوں نےساڑهے چار ماہ تک وہ ہسپتال کے پرائيوٹ وارڈ ميں رہا تها اور ڈيڑه ماہ تک جنرل وارڈ ميں اس اثناء ميں اس کا گردہ نکال ديا گيا تها اور اس کي آنتوں کا

ايک حصہ کاٹ کے آنتوں کے فعل کو درست کياگيا تها، ابهي تک اس کے تها اسے ہسپتال سے نکل جانا پڑا، کيونکہ کليجے کا فعل راست نہيں هوا

۔دوسرے لوگ انتظار کر رہے تهے، جن کي حالت اس بهي بتر تهي ڈاکٹر نے اس سے کے ہاته ميں ايک لمبا سے نسخا دے ديا اور کہا يہ ٹانک پيو اور مقوي غذا کهاؤ، بالکل تندرست ہو جائوگے، اب هسپتال ميں رہنے کي کوئي

Page 10: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

10

۔ضرورت نہيں ہے مجه سے چال نہيں جاتا، ڈاکٹر صاحب؟ اس نے کمزور آواز ميں احتجاج مگر

کيا، گهر جاؤ چند دن بيوي خدمت کرے گي بالکل ٹهيک هو جائو گے، بہت هي دهيرے دهيرے لڑکهڑاتے هوئے قدموں سے فٹ پاته پر چلتے اس نے سوچا هي گهر؟ ميرا گهر کہاں ہے؟ چند ماہ پہلے ايک گهر ضرور تها ، ايک بيوي بتهي،جس کے ايک بچہ هونے واال تها، وہ دونوں اس آنے والے بچے کے

تصور سے کس قدر خوش تهے، ہو گي دنيا ميں زيادہ آبادي ، مگر وہ تو ان ۔دونوں کا پہال بچہ تها

دالري نے اپنے بچے کيلئے بڑے خوبصورت کپڑے سئيے تهے اور ہسپتال ميں م سطح پر ہاته پهيرتے هوئے اس الکر اسے دکهائے تهے اور ان کپڑوں کي نر

ايسا محسوس ہوا جيسے وہ اپنے بچے کو بانہوں ميں لے کر اسے پيار کر رہا ہوں، مگر پهر اگلے چند مہينوں ميں بہت کچه لٹ گيا، جب اس کے گرد کا پہال

اپريشن ہوا تو دالري نے اپنے زيور بيچ دئيے کہ ايسے ہي موقعوں کے لئے ے ہيں کہ زيور عورت کے حسن کي افزائش کے لئے هوتے ہيں، لوگ يہ سمجهت

ہوتے ہيں، وہ تو کسي دوسرے درد کا مدادا هوتے ہيں، شوہر کا آپريشن، بچے کي تعليم، لڑکي کي شادي، يہ بينک ايسے ہي موقعوں کے لئے کهلتا ہے اور خالي کرديا جاتا ہے، عورت تو اس زيور کي تحويل دار ہوتي ہے اور زندگي

ے پانچ چه بار اسے اس زيور کو پہننے کي توفيق حاصل ہوتي ميں مشکل سگردے کے دوسرے آپريشن سے پہلے دالري کا بچہ ضائع ہوگيا، وہ تو ہوتو ۔ہے

ہي دالري کو دن رات جو کڑي مشقت کرنا پڑ رہي تهي، اس ميں يہ خطرہ سب ر سے پہلے موجود تها، ايسے لگتا جيسے دالري کا يہ چهريرا سنہرا بدن اس قد

کڑي مشقت کے لئے نہيں بنايا گيا، اس لئے وہ دانا فرزانہ بچہ ہي ميں سے کہيں لٹک گيا تها، ناسازگار موحول ديکه کر اور ماں باپ کي پتلي حالت بهانپ کر اس نے خود ہي پيدا ہونے سے انکار کر ديا، بعض بچے ايسے ہي عقلمند ہوتے ہيں،

ر جب اس نے آکے خبر دي تو وہ دالري کئي دنوں تک ہسپتال نہيں آسکي، اوکس قدر رويا تها، اگر اسے معلوم ہوتا که آگے چل کر اسے اس سے کہيں زيادہ

۔رونا پڑے گا، تو وہ اس حادثے پر رونے کے بجائے خوشي کا اظہار کرتا

گردے کے دوسرے آپريشن کے بعد اس کي نوکري جاتي رہي، طويل عاللت نتظار کرسکتا ہے، بيماري انسان کا اپنا ذاتي ميں ہہي ہوتا ہے، کوئي کہاں تک ا

معاملہ ہے،اس لئے اگر وہ چاہتا کہ اس کي نوکري قائم رہے تو اسے زيادہ دير تک بيمار نہ پڑنا چاهئيے، انسان مشين کي طرح ہے، اگر ايک مشين طويل

عرصے کے لئے بگڑي رہتي ہے تو اسے اٹها کے ايک طرف رکه ديا جاتا ہے نئي مشين آجاتي ہے کيونکہ کام رک نہيں سکتا، بزنس بند نہيں اور اس کي جگہ

ہوسکتا اور وقت تهم نہيں سکتا، اس لئے جس سےمعلوم ہو کہ اس کي نوکري بهي جاتي رہي ہے تو اسے شديد دهچکا سا لگا، جسيے اس کا دوسرا گردہ بهي نکال ليا گيا، اس دهچکے سے اس کے آنسو بهي خشک ہوگئے، اصلي اور بڑي

Page 11: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

11

مصيبت ميں آنسو نہيں آتے، اس نے محسوس کيا صرف دل کے اند ايک خال محسوس هوتا ہے، زمين قدموں کے نيچے سے کهسکتي معلوم ہوتي اور رگوں

۔ميں خون کے بجائے خوف دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے کئي دنوں تک وہ آنے والي زنگي کے خوف اور دہشت سے سو نہيں سکا تها،

ے بهي طويل ہوتے هيں، اور زير بار کرنے والے ہولے طويل عاللت کے خرچہولے گهر کي سب قيمتي چيزيں چلي گئيں، مگر دالري نے ہمت نہيں ہاري، اس نےساڑهے چار ماہ تک ايک ايک چيز بيچ دي اور آخر ميں نوکري بهي کرلي،

وہ ايک فرم ميں مالزم ہوگئي تهي، اور روز اپني فرم کے مالک کو لے کر هي آئي تهي، وہ ايک دبال پتال، کوتاہ قد، ادہيڑ عمر کا شرميال آدمي هسپتال ب

دکهائي ديتا تها، کم گو اور ميٹهي مسکڑاہٹ واال، صورت شکل سے وہ کسي بڑي فرم کا مالک ہونے کے بجائے کتابوں کي کسي دکان کا مالک معلوم ہوتا

چونکہ وہ تها،دالري اس کي فرم ميں سو روپے مہينے پر نوکر ہوگئي تهي، ۔زيادہ پڑهي لکهي نہيں تهي، اس لئے اس کا کام لفافوں پر ٹيکٹس لگانا تها

۔يہ تو بہت آسان کام ہے؟ دالري کے شوہر نے کہا فرم کا باس بوال کام تو آسان ہے، مگر جب دن ميں پانچ چچ سو خطوں پر ٹيکٹس

م ہوجات ں تو اسي طرح کا کام بہت آسان کام کے بجائے بہت مشکل کايلگان پڑ۔ہے

اور وہ اس منزل سے گز چکا تها جس وہ کسي کو قصور وار نہيں ٹہراسکتا تها، اتني چوٹيں پے در پے اس پڑي تهيں کہ وہ بالکل بوال گيا، بالکل سناٹے ميں آگيا

وہ باطل دم بخور تها، اب اس کي مصيبت اور تکاليف ميں کسي طرح کا کوئي ر بار هتہوڑے کي زربيں کها کها کراس کا دل جذبہ يا آنسو نہيں رہ گيا تها، با

دهات کے ايک پترے کي طرح بے حس ہوگيا، اس لئے آج جب اسے ہسپتال سے نکال گيا تو اس نے ڈاکڑر سے کسي ذہني تکليف کي دور کرنے کي

شکايات نہيں کي تهي، اس نے اس سے يہ نہيں کہا تها کہ اب وہ اس ہسپتال سے س کا کوئي گهر نہيں تها،کوئي بيوي نہيں تهي،کوئي نکل کر کہاں جائے گا؟اب ا

بچہ نہيں،کوئي نوکري نہيں، اس کا دل خالي تها، اس کي جيب خالي تهي، اور ۔اس کے سامنے ايک خالي اور سپاٹ مستقبل تها

مگر اس نے يہ سب کچه نہيں کہا تها،اس نے صرف يہ کہا تها؟ ڈاکڑ صاحب ايک حقيقت تهي جو اسے اس وقت ياد مجه سے چال نہيں جارہا ہے، بس يہي

تهي، باقي ہر بات اس کے دل سے محو ہوسکتي ہے، اس وقت چلتے چلتے وہ صرف يہ محسوس کر سکتا تها کہ اس کا جسم گيلي روئي کا بنا ہوا ہے ،اس کي ريڑه کي هڈي کسي پراني شکستہ چارپائي کي طرح چٹخ رہي ہے، دهوپ بہت

بهتي ہے، آسمان پر ايک ميلے اور پيلے رنگ تيز ہے، روشني نشتر کي طرح چکا وارنش پهرا ہوا اور فضا ميں تاريک تر کرتے اور چستياں سي غليظ مکهيوں

کي طرح بهنبهار رہي ہيں اور لوگوں کي نگاهيں بهي گندے لہو اور پيپ کي طرح اس کے جسم سے چسپا کر رہ جاتيں، اسے بهاگ جانا چاهئيے، کہيں ان

Page 12: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

12

ي کے تاروں والے کهمبوں اور ان کے درميان گڈ مڈ ہونے لمبے الجهے بجلوالے راستوں سے کہيں دور تها، اپنا بهائي بهي ياد آيا جو افريقہ ميں تها، سن

سن سن ايک ٹرام اس کے قريب سے اندر گهستي چلي جار رہي تهي اور پوري ہوا ٹرام کو اپنے جسم کے اندر چلتا ہوا محسوس کرسکتا تها، اسے ايسا محسوس

۔جسيے وہ کوئي انسان نہيں ہے ايک گهسا پٹہ راستہ ہے دير تک وہ چلتا رہا، ہانپتا رہا اور چلتا رہا، اندازے سے ايک موہوم سمت کي

طرف چلتا رہا، جدهر کبهي اس کا گهر تها، حاالنکہ اسے معلوم تها کہ اب اسکا گهر جانے کي کوئي گهر نہيں ہے، مگر وہ جانتے ہوئے بهي ادهر ہي چلتا رہا،

عادت سے مجبور ہو کر مگر دهوپ بہت تيز تهي، اس کے سارے جسم ميں جيونٹياں سي رينگ رہي تهيں، اور وہ کسي مسافر سے راستہ ہي پوچه

کے،معلوم کر لے يہ شہر کا کونسا حصہ ہے، ہولے ہولے اس کے کانوں ميں هي ہونے لگيں، ٹراموں اور بسوں کا شور بڑهنے لگا، نگاہوں ميں ديواريں ٹيڑ

عمارتيں گرنے لگيں، بجلي کے کهمبے گڈ مڈ کرنے لگے، پهر اس کي آنکهوں ۔تلے اندهيرا اور قدموں تلے بهونچال سا آيااور وہ يکا يک زمين پر گر پڑا

جب ہوش ميں آيا تو رات ہو چکي تهي، ايک نيم خنک سا اندهيرا چاروں طرف ا کہ جس جگہ پر گرا تها اب تک چهايا ہوا تها، اس نے آنکهيں کهول کرديکه

وہيں پڑا ہے، يہ فٹ پاته ايک ايسا تها جس کے عقب ميں دو طرفہ دو ديواريں تهي دوسري شمال سے مغرب کو، اور وہ دونوں ديوروں کے اتصال پر ليٹاہوا

تها، يہ دونوں ديورايں کوئي چار فٹ کے قريب بلند تهيں، يہاں پر امرود اور اور ان پيڑوں کے پيچهے کيا تها وہ اسے اس وقت تک جامن کے کے پيڑ تهے

نہيں نظر نہيں آيا تها،دوسري طرف مغربي ديوار کے سامنے پچيس تيس فٹ کا فاصلہ چهوڑ کر ايک پراني عمارت کا عقب تها، سہ منزلہ عمارت تهي اور

منزل ميں پيچهے کي طرف صرف ايک کهڑکي تهي جو چه بڑے عقبي پائپ اور مغربي ديوار کے بيچ ميں پچيس تيس فٹ چوڑي ايک تهے، عقبئي پائپ

اندهي گلي بن گئي تهي، جس کے تين طرف ديوار تهي اور چوتهي طرف سڑک تهي، کہنيوں پر زور دے کر ذرا سا اوپر اٹها کر اور ادهر ادهر ديکهنے لگا،

سڑک بالکل خالي تهي، سامنے کي دکانيں بند تهيں اور فٹ پاته کے اندهے يں کہيں کہيں بجلي کے کمزور بلب جلهمال رہے تهي، چند لمحوں کے سالوں م

لئے اسے يہ ٹهنڈي تاريکي بہت بهلي معلوم ہوئي

چند لمحوں کے لئے اس نے اپني آنکهيں بند کرکے سوچا شايد وہ کسي مہربان ۔ں ڈوب رہا ہےيسمندر کے پانيوں م

ے کيونکہ اب مگر اس احساس سے وہ اپنے آپ کو صرف چند لمحوں تک دهو داس نے محسوس کرليا کہ اس پر شديد بهوک طاري ہوچکي ہے، چند لمحوں کي خوشگوار خنکي کے بعد اس نے محسوس کرليا کہ وہ شديد طور پر بهوکا ہے،

جس سے کي آنتوں کے فعل کو بيدار کرکے اس کے ساته کسي طرح کي بهالئي ي تهي اور آنتيں اندر نہيں کي، اس کے معدے کے اندر عجيب اينٹهن سي هو رہ

Page 13: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

13

ہي اندر تڑپ تڑپ کر روٹي کا سوال کر رہي تهيں اور اس وقت اس کے نتهنے کسي شہري انسان کے نتهنوں کي طرح نہيں کسي جنگلي جانور کے نتهنوں کي

طرح کام کر رہے تهے، عجيب عجيب سي بوئيں اس کي ناک ميں آرہي تهيں، پر پهيلي ہوئي تهي اور حيرت بوئوں کي ايک سمفني تهي جو اس کے احساس

کي بات يہ تهي کہ وہ اس سمفني کے ايک ايک دسر کا الگ الگ وجود پہچان سکتا تها، يہ جامن کي خوشبو ہے، يہ امرود کي ، يہ رات کي راني کے پهولوں

کي، يہ تيل ميں تلي هوئي پوريوں کي، يہ پياز اور لہسن ميں بگهارے هوئے ٹماٹر کي، يہ کسي سڑے گلے پهل کي، يہ پيشاب آلوؤں کي، يہ مولي کي ، يہ

کي، يہ پاني ميں بهيگي هوئي مٹي کي جو غالبا بانسوں ميں کے جهنڈ سے آرہي ۔ہے

وہ ہر بو کي نوعيت، شدت، سمت اور فاصلے تک کا اندازہ کرسکتا ہے، يکايک اسے يہ احساس بهي ہوا اور وہ اس بات پر چونکا بهي کہ کس طرح سے بهوک

مگر اس امر پر زيادہ غور کئے بغير اس ۔ منحفي قوتوں کو بيدار کرديانے اسنے اس طرف گهسٹنا شروع کر ديا، جدهر سے اسے تيل ميں تلي ہوئي پوريوں اور لہسن سے بگهارے ہوئے آلوؤں کي بو آئي تهي، وہ دهيرے دهيرے اندهي

بالکل نہيں گلي کے اندر گهسٹنے لگا، کيونکہ وہ اپنے جسم ميں چلنے کي سکت پاتا تها، پهر اسے ايسا محسوس ہوتا جيسے کوئي دهوبي اس کي آنتوں کو پکڑ کر مروڑ رہا ہے، پهر اس کے نتهنے ميں پوريون اور آلو کي آشتہا بو آئي اور

وہ بے قرار ہو کر اده مندهي آنکهوں سے اپنے تقريبابے جان سے جسم کو ادهر پوري کي بو آرہي تهي، کچه عرصے گهسيٹنے کي کوشش کرتا،جدهر سے آلو ،

کے بعدجب وہ اس جگہ پر پہنچا تو اس نے ديکها کہ مغربي ديوار اور اس کے سامنے کي پچهواڑے کے پائيوں کے درميان پچيس تيس فٹ کے فاصلے ميں

۔مستطيل نما کچرے کا ايک بہت بڑا کهال آہني ٹب رکها ہے با اور اس ميں طرح طرح کا يہ ٹب کوئي پندرہ فٹ چوڑا ہوگا اور تيس فٹ لم

کوڑا کرکٹ بهرا ہے گلے سٹرے پهلوں کے چهلکوں اور ڈبل روٹيوں کے غليظ ٹکڑے اور چائے کي پتياں اور ايک پراني جيکٹ اور بچوں کے گندے پوتڑے

اور انڈے کے چهلکے اور اخبار کے ٹکڑ اور رسالوں کے پهٹے اوراق اور پالسٹ کے ٹوٹے ہوئے کهلونے اور روٹي کے ٹکڑے اور لوہے کي لونياں اور

مٹر کے چهلکے اور پودينے کے پتے اور کيلے کي تپل پر چند اده کهائي اور الو کي بهاجي، پوريوں اور آلو کي بهاجي کو ديکه کرگويا اس ۔۔۔۔۔۔۔پورياں

کي آنتيں ابل پڑيں، اس نےچند لمحوں کے لئے اپنے بے قرار ہاته روک لئے، قابلے ميں اس کے نتهنوں ميں اگلے چند ثانيوں تک مگر دوسري بدبوؤں کے م

پوري اور بهاجي کو ديکه کي اشتہار آميز خوشبو اسي طرح تيز تر هوگئي جيسے کسي سمفني ميں يکايک کوئي خاص سر ايک دم اونچے ہوجاتے هيں

ں ڈهے گئيں اور اس کے کانپتے هوئے بے ياور يکا يک تہذيب کي آخري ديوارلے کے اس پتل کو دبوچ ليا اور وہ اک وحشيانہ گرسنگي سے قرار ہاتهوں نے کي

۔متاثر ہو کر ان پورياں پر ٹوٹ پڑا

Page 14: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

14

پوري بهاجي کهاکے اس نے کيلے کے پتے کو بار بار چاٹا اور اسے شفاف کر کے چهوڑ ديا، جيسے قدرت نے اسے بنايا تها، پتل چاٹنے کے بعد اس نے اپني

ں ميں بهري ہوئي آلو کي بهاجي زبان کي انگلياں چاٹيں اور لمبے لمبے ناخنونوک سے نکال کے دکهائي اور جب اس سے بهي اس کي تسلي نہ ہوئي تو اس نے ہاته بڑها کر کوڑے کے ڈهير کو گهنگهولتے هوئے اس ميں سے پودينے

کے پتے نکال کر کهائے اور مولي کے دو ٹکڑے اور ايک آدها ٹماٹر اپنے منہ ا رس پيا اور وہ سب کچه کها چکا تو اس تو اس کے ميں ڈال کر مزے سے اس ک

سارے جسم ميں نيم گرم غنودگي کي اک لہر اٹهي اور وہ ہيں ٹب کے کنارے گر ۔کر سوگيا

آٹه دس روز اسي نيم غنودگي اور نيم بے ہوہوشي کے عالم ميں گزرے، وہ اشتہا گهسٹ گهسٹ کر ٹب کے قريب جاتا اور جو کهانے کو ملتا کهاليتا اور جب

آميز بوؤں کي تسکين ہوجاتي اور وہ دوسري گندي بوئيں ابهرنے لگتيں تو وہ گهسٹ گهسٹ کر ٹب سے فٹ پاته کے ٹکڑ پر چال جاتا، اور عقبي ديوار سے

۔ٹيک لگا کر بيٹه جاتا يا سو جاتا پندرہ بيس روز کے بعد ہولے ہولے اس کے جسم ميں طاقت ابهرنے لگي، ہولے

ول سے مانوس ہونے لگا، يہ جگہ کتني اچهي ہے، يہاں دهوپ ہولے وہ اپنے ماحنہيں تهي، يہاں درختوں کا سايہ تها ، اندهي گلي سنان اور ويران تهي يہاں کوئي

نہيں آتا تها، کبهي کبهي عقبي عمارت سے کوئي کهڑکي کهلتي تهي اور کوئي يہ کوڑا جو ں روز مرہ کا کوڑا پهينک ديتا تها،يہاته پهيال کر نيچے کے ٹب م

اس کا روزي رساں تها، اس کے شب و روز کا رازق تها، اس کي زندگي کا محافظ تها، دن مين سڑک چلتي تهي، دکانيں کهلتي تهيں، لوگ باگ گهومتے تهے، بچے ابابيلوں کيئ طرح چہکتے هوئے سڑک سے گزر جاتے تهيں،

کن يہ ايک عورتيں رنگين پتنگوں کي طرح ڈولتي هوئي گزر جاتي تهيں، ليں اب اس کا يدوسري دنيا تهي، اس دنيا ميں اس کو کوئي عالقہ نہ تها، اس دنيا م

کوئي نہ تها، اور وہ اس کے لئے موہوم سائے بن گئے اور اس سے باہر ميدان اور کهيت اور کهال آسمان ايک بے معني تصور، گهر، کام کاج،زندگي

وڑے کچرے کے ڈهير ميں سماج،جدوجہد بے معني الفاظ جو گل سٹ کر اس کمل کر غتر بود ہوگئے، اس دنيا سے اس نے منہ موڑ ليا تها اور اب يہي اس کي

۔دنيا تهي،پندرہ فٹ لمبي اور تيس فت چوڑي ماہ و سال گزرتے گئے اور اس نکٹر پر بيٹها بيٹها ايک پرانے ٹهنٹهہ کي طرح

تا چالگيا وه اور کسي پراني ياد گار کي طرح سب کي نظروں ميں مانوس هوکسي سے بات نہيں کرتا تها کسي کو فيض نہيں پہنچاتا تها، کسي سے بهيک نہيں مانگتا تها، ليکن اگر وہ کسي دن وہاں سے اٹه کر چال جاتا تو اس عالقے کے ہر

۔فرد کو اس مر پر حيرت ہوتي اور شايد کسي قدر تکليف بهي هوتي سب کو معلوم تها کہ وہ صرف سب لوگ اسے کچرا بابا کہتے تهے، کيونکہ يہ

کچرے کے ٹب ميں سے اپني خوراک نکال کر کهاتا ہے اور جس دن اسے وہاں

Page 15: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

15

سے کچه نہ ملتا وہ بهوکا ہي سو جاتا، برسوں سے راہ گير اور ايراني رسٹوران والے اس کي عادت کو پہچان گئے تهے، اور اکثر عمارت کي عقبي کهڑکيون

وش کي دوسري چيزيں بهي پهينکي جاتيں، سے اب کوڑے کے عالوہ خوردہ نصيح و سالم پوريان اور بہت سي بهاجي اور گوشت کے ٹکڑے اور اده چوسے آم اور چٹني اور کباب کے ٹکڑے اور کهير ميں لتهڑے هوئے پتل، ناؤنوش کي ہر نعمت کچرا بابا کو اس ٹب ميں سے مل جاتي هيں، کبهي کبهي کوئي پهٹا هوا

ڑي هوئي نيکر، کوئي تار تار شکتہ قيمض پالسٹک کا گالس، پاجامہ، کوئي ادهيہ کچرے کا ٹب کيا تها، اس کے لئے ايک کهال بازار تها، جہاں وہ دن دہاڑے

سب کي آنکهوں کے سامنے مڑ گشت کيا کرتا تها، جس دکان سے جو سودا چاهتا مفت ليتا تها، وہ اس بازار کا اس نعمت غير مترقبہ کا واحد مالک تها،

شروع شروع ميں چند گرسنہ بليوں اور خارش زدہ کتوں نے شديد مزاحمت کي تهي، مگر اس نے مار مار کر سب کو باہر نکال ديا، اور اب اس کچرے کے ٹب

کا واحد مالک تها اور اور اس کے حق کو سب نے تسليم کرليا تها، مہينے ميں رکے چلے جاتے تهے ايک بار ميونسپلٹي والے آتے ہيں، اور اس ٹب کو خالي ک

اور کچرا بابا ان سے کسي طرح کي مزاحمر نہيں کرتا تها، کيونکہ اسے معلوم تها کہ دوسرے دن ٹب پهر اسي طرح بهرنا شروع ہوجائے گا اور اس کو اعتقاد

تها کہ اس دنيا سے نيکي ختم ہوسکتي ہے ليکن غالظت ختم نہيں ہوسکتي رفاقت گندگي کبهي ختم نہيں ہوسکتي، ساري دنيا ختم هوسکتي ہے، ليکن غالظت اور

۔سے منہ توڑ کر اس نے جينے کا آخري طريقہ سيکه ليا تها مگر يہ بات نہيں ہے کہ اسے باہر کي دنيا کي خبر نہ تهي، جب شہر ميں چيني

مہنگي ہوجاتي تو مہينوں کچرے کے ٹب ميں مٹهائي کے ٹکڑے کي صورت ي تو ڈبل روٹي کا ايک ٹکڑا تک نہ ملتا، نظر نہيں آتي، جب گندم مہنگي هو جات

جب سگريٹ مہنگے ہو تو تو سگريٹ کے جلے هوئے ٹکڑے اتنے چهوٹے ۔ملتے کہ انہيں سلگا کر پيا بهي نہيں جاسکتا

جب بهينگوں نے هٹرتال کي تهي تو مہينے تک اس کے ٹب کي کسي نے صفائي ملتا تها، جتنا بقر عيد نہيں کي تهي،اور کسي روز اس کو ٹب ميں اتنا گوشت نہيں

کے روز اور ديوالي کے دن توٹب کے مختلف کونوں سے مٹهائي کے بہت سے ۔باہر کي دنيا کا کوئي حادثہ يا واقہ ايسا نہ تها۔ٹکڑے مل جاتے تهے

جس کا سراغ وہ کچرے کے ٹب سے دريافت نہ کرسکتا تها، دوسري جنگ اہر کي دنيا سے اب عظيم سے لے کر عورتوں کے خفيہ امراض تک، مگر ب

اسے کسي طرح کي کوئي دلچسپي نہ رہي تهي، پچيس سال تک وہ اس کچرے کے ٹب کے کنارے بيٹها بيٹها اپني عمر گزار رہا تها، شب و روز، ماہ و سال،

اس کے سر سے ہوا کي لہروں کي طرح گزرتے گئے، اور اس کے سر کے بال ے، اس کي کالي داڑهي سوکه سوکه کر ربٹر کي شاخوں کي طرح لٹکنے لگ

کهچڑي ہوگئي، اس کے جسم کا رنگ ملگجامٹ ميالد اور سبزي مائل ہوتا گيا، وہ اپنے مضبوط بالوں، پهٹے چيتهڑوں اور بدبو دار جسم سے راہ چلتے لوگوں

Page 16: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

16

کو خود بهي کچرے کا ايک ڈهير دکهائي ديتا تها جو کبهي کبهي حرکت کرتا تها نہيں صرف اپنے آپ سے زيادہ سے زيادہ اور بولتا تها، کسي دوسرے سے

۔کچرے کے ٹب سے کچرا بابا ان لوگوں سے کچه کہتا نہيں تها، مگر انکي حيرت کو ديکه کر دل ميں

ضرور سوچتا ہوگا کہ اس دنيا ميں کون ہے جو کسي دوسرے سے گفتگو کرتا ہے اس دنيا ميں جتني گفتگو ہوتي ہے انسانوں کے درميان نہيں ہوتي بلکہ

رف اپني ذاتي اور اس کي کسي غرض کے درميان ہوتي ہے، دوسروں کے صدرميان جو بهي گفتگو ہوتي ہے وہ دراصل ايک طرح کي خود کالمي ہوتي ہے، يہ دنيا ايک بہت بڑا کچرے کا ڈهير ہے جس ميں سے ہر شخص اپني غرض کا

وئي چيتهرا کوئي ٹکڑا، فائدے کا کوئي ٹکڑا، فائدے کا کوئي چهلکا يا منافع کا کدبوچنے کيلئے ہر وقت تيار رہتا ہے اورکہتا ہوگا يہ لوگ جو مجهے حقير، فقير

يا ذليل سمجہتے ہيں، ذرا اپني روہ کے پچهواڑے ميں تو جهانک کر ديکهيں، وہاں اتني غالظت بهري ہے کہ جسے چرف موت کا فرشتہ ہي اٹها کر لے جائے

۔گا د ہوئے، ملک غالم ہوئے حکومتيں اسي طرح دن پر دن گزرتے گئے ملک آزا

آئيں، حکومتيں چلي گئيں، مگر يہ کچرے کا ڈب وہيں رہا اور اس کے کنارے بيٹهنے واال کچرا بابا اسي طرح نيم غنودگي ميں بے ہوشي کے عالم ميں دنيا

۔سے منہ موڑے ہوئے زير لب کچه بد بداتا رہا کچرے کے ٹب کو گهنگهولتا رہا ي ميں جب وہ ٹب سے چند فت کے فاصلے پر ديوار سے تب ايک رات اندهي گل

پيٹه لگائے اپنے پهٹے چيتهڑوں ميں دبکا سورہاتها، اس نے رات کے سناٹے ميں ايک خوف ناک چيخ سني اور وہ ہڑبڑا کر نيد سے جاگا، پهر اس نے ايک

زور کي تيز چيخ سني اور گهبراکر کچرے کے ٹب کي طرف بهاگا، جدهر سے ۔ئي دے رہي تهيںيہ چيخيں سنا

کچرے کے ٹب کے پاس جاکر اس نے ٹٹوال ، تو اس کا ہاته کسي نرم نرم لوتهڑے سے جا ٹکرايا اور پهر ايک زور کي چيخ بلند ہوئي، کچرا بابا نے

کے ٹکڑوں، چچوڑي هوئي هڈيوں، پرانے یديکها کہ ٹب کے اندر ڈبل روٹ اور ٹهرے کي ٹوٹي جوتوں، کانچ کے ٹکڑوں، آم کے چهلکوں، باسي دينيوں

هوئي بوتلوں کے درميان ايک نوزائيدہ بچہ ننگا پڑا ہے اور اپنے ہاته پاؤں ہالہال ۔کر زور زور سے چيخ رہا ہے

چند لمحوں تک کچرا بابا حيرت ميں ڈوبا ہوا جامد و ساکت اس نهنے انسان کو کر ديکهتا رہا جو اپنے چهوٹے سے سينے کي پوري قوت سے اپني آمد کا اعالن

آنکهوں سےاس منظر یرہاتها، چند لمحوں تک وہ چپ چاپ ، پريشان، پهٹي پهٹکو ديکهتا رہا پهر اس نے تيزي سے آگے جهک کر کچرے کے ٹب سے اس

۔بچے کو اٹها کر اپنے سينے سے لگا ليا مگر بچہ اس کي گود ميں جاکر بهي کسي طرح چپ نہ رہا، وہ اس زندگي ميں

لک بلک کر اپني بهوک کا اعالن کر رہا تها، ابهي اسے معلوم نيا نيا آيا تها اور بنہ تها کہ غريبي کيا ہوتي ہے، مامتا کس طرح بزدل ہوجاتي ہے، زندگي کسيے

Page 17: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

17

حرام بن جاتي ہے، وہ کس طرح مليے پيکٹ اور غليظ بنا کچرے کے ٹب ميں تها ڈال دي جاتي ہے، ابهي اسے يہ سب کچه معلوم نہ تها ابهي وہ صرف بهوکا

۔اور رو رو کر اپنے پيٹ پر ہاته مار رہا تها کچرا باب کي سمجه ميں کچه نہ آيا کہ وہ کيسے اس بچے کو چپ کرائے اس

کے پاس کچه نہ تها، نہ دوده نہ چسني، اسے تو کوئي لوري بهي ياد نہيں تهي، وہ بے قرار ہو کر بچے کو گود ميں لے کر ديکهنے لگا اور تهپتهپانے لگا اور

ري نيند سے رات کے اندهيرے ميں چارون طرف ديکهنے لگا ، کہ اس وقت گہبچے کے لئے دوده کہاں سے مل سکتا ہے، ليکن جب اسکي سمجه ميں کچه

نہيں آيا تو اس نے جلدي سے کچرے کے ٹب سے آم کي ايک گهٹلي نکالي اور ۔اس کا دوسرا سرا بطے کے منہ ميں دے ديا

ٹها رس جب بچے کے منہ ميں جانے لگا تو وہ ي ماده کهائے ہوئے آم کا ميٹهاروتا روتا چپ ہوگيا اور چپ ہوتے ہوتے کچرا بابا کي بانہوں ميں سو گيا، آم کي

گهٹلي کهسک کر زمين پر جا گري اور اب بچہ اس کي بانہوں ميں بے خبر سو رها تها، آم کا پيال پيال رس ابهي تک اس کے نازک لبون پر تها اور اس کے

۔ے سے ہاته نے کچرا بابا کا انگوٹها بڑے زور سے پکڑ رکها تهانهن ايک لمحے کيلئے کچرا بابا کے دل ميں خيال آيا کہ وہ بچے کو يہيں پهينک کر

کہيں بهاگ جائے، دهيرے سے کچرا باب نے اس بچے کے ہاته سے اپنے انگهوٹے کو چهڑانے کي کوشش کي،مگر بچے کي گرفت بڑي مضبوط تهي اور

ا بابا کا ايسے محسوس ہوا جسيے زندگي نے اسے پهر سے پکڑ ليا ہے، کچراور دهيرے دهيرے جهٹکوں سے اسے اپنے پاس بالرهي ہے، يکايک اسے

دالري کي ياد آجاتي ہے، اور وہ بچہ جو اس کي کوکه ميں کہيں ضائع ہو گيا تها ں ميں اتنے اور يکا يک کچرا بابا پهوٹ پهوٹ کر رونے لگا، آج سمندر کے پانيو

قطرے نہ تهے جتنے آنسو اس کي آنکهوں ميں تهے، گزشتہ پچيس برسوں ميں جتني ميل اور غالظت اس کي روح پر جم چکي ہے وہ اس طوفان کے ايک ہي

۔ريلے ميں صاف ہوگئي رات بهر کچرا بابا اس نوزائيدہ بچے کو اپني گود ميں لئے بے چين اور بے

ہا اور جب صبح هوئي اور سورج نکال تو لوگوں قرار ہو کرفت پاته پر ٹہلتا رنے ديکها کہ کچرا بابا آج کچے کے ٹب کے پاس نہيں ہے، بلکہ سڑک پار نئي

تعمير ہونے والي عمات کے نيچے کهڑا ہو کر اينٹيں ڈهو رہا ہے اور اس عمارت کے قريب گل مہر کے ايک پيٹ کي چهاؤں ميں ايک پهولدارکپڑے ميں

۔ منہ ميں دوده کي چسني لئے مسکرا رہا ہےلپتا اک نهنا بچہ

Page 18: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

18

خميازہآپ مجهے پہچان گئے جي ہاں ميں ہي اکرام علي شاہ بين االقوامي شہرت يافتہ فوٹو گرافر ہوں، کلب کے باہر شربتي رنگ کي جو ٹويوٹا گاڑي کهڑي ہے، وہ ميں مجهے پچهلے سال جاپان کي ايک فوٹو گرافک نمائش ميں اول آنے پر انعام

ملي تهي اور يہ پولو رائيڈ کميرہ اور آئي کن زيوس کميرہ دونوں مجهے نيويارک ميں نمائش ميں دوسرے نمبر پر آنے پر ملے تهے، جي ہاں، آپ نے مجهے جس فاران لڑکي کے ساته ميرين ڈرائيور پر اکثر گهومتے ديکها ہے،

ارے اس کي بہت بمبيي ميں وہ ماريسا تهي، ميري ماڈل، ميں نے سمندر کي کنسے تصويريں لي ہيں، مجهے عورت اور سمندر ميں زيادہ فرق نظر نہيں آتا ہے، دونوں کي شخصيت پر اسرار ہے، دونوں بالوطہ طوفاني ہوجاتے ہيں، کبهي بالوجہ شانت، ابهي سمندر کي لہريں پيار کرنے والي عورت کي طرح

بعد يہي کمزور لہر مہيب ساحل کو اپني انگليوں سے گد گداتي هيں، چند لمحوںاچهال بن کر ساحل کو کاٹنے لگتي ہے، نہ سمندر سمجه ميں آتا ہے نہ عورت،

۔شايد اسي لئے ان دونوں ميں بے حد کشش محسوس کرتا ہوں آپ نے ابهي عورت کے مجہول اور بے وقوف ہونے کي وجوہات کہي تو اس

، ذرا وہسکي اور لے سلسلے ميں ايک قصہ سناتا ہوں، قصہ کيا ہے، واقعہ ہے۔لوں، جام خالي ہے، بيرہ، ادهر گالس ميں ايک ڈبل ڈمپل مارو

ہم سب پہلگام کلب کي بار کے اونچے اونچے اسٹولوں پر بيٹهے ہوئے عورتوں کي معصوميت ، انجان پن اورحماقتوں کے قصے بيان کر رہے تهے، کيونکہ ہم

اچکے تهے، اکرام علي کا ميں کوئي عورت نہيں تهي اور تين تين پيگ اندر جالبتہ يہ پانچواں ہو گا، اس کا چہرہ انار کي طرح سرخ تها، اس نے پولو نيک کا گالبي رنگ کا موٹا سوئيٹر پہن رکها تها اور گہري بزکارڈ مخمل کي بيل باٹ، دونوں گهني بهويں ماتهے کے بيچ آکر مل گئي تهيں، اس کي آنکهوں ميں ايک

ہنستا تها تو اس کے چہرے پر ايک کامياب اور کهڑے تيز عيار چمک تهي، جبہوئے لفنگے کي مطمئن بے فکري چهاجاتي، مگر ايسي بے فکري جس ميں

۔ايک رنگ ذہانت کا بهي تها اور وہ ذہانت اس کي آنکهوں ميں تهي اکرام علي وہسکي کے دو گهونٹ لئے، گالس اٹها کر اسے دو تين بار مختلف

مر مر سطح پر دائرے بنائے، غالبا وه سوچ رہا تها، زاويو سے ابر کي سنگ ۔کہاں سے شروع کرے، پهر جيسے اس کي سمجه ميں پورا واقعہ آگيا

يہ چار دن پہلے کا واقعہ ہے اور اب اسے سنانے ميں کوئي انديشہ بهي نہيں ہے کيونکہ وہ لڑکي يہاں سے جاچکي ہے، آج سے چار دن پہلے ميں نے اس لڑکي

کے جنرل اسٹور ميں خريداري کرتے ہوئے ديکها تها، کندهے سے کو غالم بٹ لٹکے ہوئے جهولے ميں لنچ باکس تهي اور وہ غالم بٹ کے پهلوں کے ڈبے ، خريد Tinned Foods مکهن کا ڈبہ، سامن مچهلي کا ڈبہ اور دوسري بہت سي

رہي تهي، ميں اسے ديکه کر ٹهٹهک گيا، کيونکہ ميں نے پہلي نظر ميں اسے

Page 19: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

19

۔ہچان ليا تها، جيسےآپ نے پہلي نگاہ ميں مجهے پہچان ليا، يہ سجاتا تهيپ

سجاتا کو آپ نهيں جاتے ؟ حيرت ہے، سجاتا کا شمار بمبئي کي حيسن ترين لڑکيوں ميں ہوتا تها، ايک زمانے ميں اس کا بڑا غلبہ تها کچه عرصے تک اس

کيلئے مشکل کے نے فلموں ميں بهي کام کيا، مگر چلي نہيں، فلم ميں چلنے عالوہ تهوڑي سي عقل بهي چاہئيے، خوب صورت عورت کو زيادہ عقل کي

ضرورت نہيں، ليکن پهر بهي تهوڑي سي تو چاہئيے، يعني آٹے ميں نمک کے برابر، ميں نہيں کہہ سکتا ہوں فلموں ميں کيوں نہيں چلي کيونکہ ميرا تعلق کسي

ر ماڈلنگ کرنے لگي، مگر وہاں فلم نہيں ہے، اس کے بعد سنا ہے، وہ لندن جاکبهي زيادہ نہيں چلي ، کيونکہ ہندوستاني لڑکي تهي اور يورپين لوگ زيادہ تر

يورپين لڑکيوں کے خدوخال ہي پسند کرتے ہيں، پهر وہ واپس ہندوستان آگئ اور کرمان اينڈ سنن بک سيلز اينڈ پبلشز کے ہاں کتابيں بيچنے لگے، مگر وہاں بهي

لگا، کيونکہ خوب صورت عورت خود ايک کتاب ہوتي ہے، کئي اس کا دل نہيں باب ميں تقسيم کے بعد اس نے توبہ کرلي اور اپنے لئے ايک شوہر ڈهونڈ نے

۔لگي يہ سب باتيں ميں اس لئے جانتاہوں کہ ميں ايڈور ڈايوسي نيو ميں رہتا ہوں اور

ق ہے، ايڈورڈ سجاتا آرام ايوي نيو ميں رہتي ہے، جو ايڈورڈ ايوي نيو سے ملحايو نيو کے نکڑ پر جي وائين کا جنرل اسٹور ہے، يہاں پر کبهي کبهار ميري اور اس کي مالقات ہوجاتي ہے، گو گفتگو کي کبهي نوبت نہيں آئي، اس جنرل اسٹور

ميں وہ تصوير کشي کے کاغذ خريدنے آتي تهي اور ميں اپني فوٹو گرافي کا ساته کهڑے ديکهے گئے، ايک دو بار ميري سامان، کئي بار ہم کائونٹر پر ساته

اور اس کي کہني کے درميان ايک دو انچ کا فاصلہ رہ گيا، مگر اس بات چيت کي نوبت نہيں آئي کيونکہ، سجاتا اپنے حسن پر اپنے سنہري بالوں پر اپنے

کٹيلے سرخ لبوں پر اپني بهوري بهوري آنکهوں پر بے حد مغرور نظر آتي ہے، تهي کہ ميں پہل کرو اور ميں چاہتا تها کہ وہ پهل کرے اور ميں شايد وہ چاہتي

نے ديکه ليا ہے جس معاشقے ميں مرد پہل کرتا ہے، اسے اس کا ضرورت سے زيادہ خميازہ بگهتنا پڑتا ہے، پهر کچه يہ بات بهي ہے، کہ ميں اپني ٹويوٹا پر

ورت گاڑي بے حد نازاں تها، اور سوچتا تها کہ جس مرد کے پاس ايسي خوبص۔ہوگي اس کا دروازہ کهول کر لڑکي کو خود بخود بيٹه جانا چاہئے

۔چناچہ يہ دلچسپ کشمکش دير تک چلتي رہي ميں اسےاکثر مختلف مردوں کے ساته ديکهنے لگا، وہ لوگ بهي گاڑي والے

تهے اور خوش پوش اور کهاتے پيتے چہرے والے ، جب وہ بار بار جلدي جلدي بدلنے لگي تو مجهے اس کے اخالق پر شبہ ہونے لگا، اپنے بوئاے فرينڈز

حاالنکہ جلدي جلدي بوائے فرينڈز بدلنا آج کل ہر شريف لڑکي کا شيوہ بن گيا ۔ہے، کيونکہ يہي فيشن ہے

جو لڑکي اس فيشن کو اختيار کرتي ہے وہ ہائي سوسائٹي کي نظروں سے گر ں ايک چہرہ بار بار بار جاتي ہے، مگر بار بار اور نئے نئے چہروں کے بيچ مي

Page 20: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

20

ديکهتا تها، وہ درميانے قد کا مضبوط بدن کا ٹهوڑي پر مخروطي داڑهي لئے ہوئے ايک نوجوان تها، ہرے رنگ کي فياٹ ميں آتا تها اور دهيرے دهيرے

مجهے اس سے نفرت ہوتي جاتي، مگر يہ جان کر تسلي ہوئي تهي کہ، سجاتا ر کسي دن دوسرے مردوں ميں ميرا دوسرے مردوں کے ساته بهي جاتي ہے، او

نمبر بهي آسکتا ہے، زندگي اور عشق اميد پر قائم ہيں، اسي لئے تو ميں آج چار دن پہلے سجاتا کو پہلگام کے بازار ميں غالم بٹ کي دکان پر ديکه کر چونک

اٹها، وہ اکيلي تهي، جگہ بهي نئي تهي اور مارسيا مجهے غچادے کر لندن چلي يال تها اور پہاڑوں پر سرگوشياں کرتے ہوئے اشجار سب گئي اور ميں اک

عورتوں کي ياد دالتے ہيں ٹورازم کے محکمے کواس طرف دهيان دينا چاہئيے، کال گرل کا نام تو بہت بدنام ہوچکا ہے اس کي جگہ اگر ٹورسٹ ہوسٹس کانام هي نہ رکه دياجائے تو اپنا کام بهي بن جائے اور حکومت پر بد اخالقي کا الزام ب

آئے، کيوں کيسي رہي يہ تجويز؟ر صاحب ميں دکان کے اندر چال گيا اور بڑي بے اخالقي بے خوفي بلکہ يخ

۔گہري اپنائيت سے اسے کہا ہيلو وہ ميري طرف مڑي، آنکهوں ميں حيرت لئے ہوئے، پهر مجهے پہچان ليا اور

ٹ سے جب پہچان ليا تو اس کا چہرہ ماتهے سے ٹهوڑي تک ايک روشن مسکراہچمک چمک گيا، دراصل اجنبي پہاڑوں پر اگر کوئي اپنا پہچان واال مل جائے تو

۔بڑي خوشي ہوتي ہے ہيلو وہ بولي آپ ايڈروڑ ايوي نيو ميں رہتے ہيں نا؟۔ہاں ميں نے سر ہاليا اور آپ آرام ايوي نيو ميں ۔گويا ہم دونوں ہمسائے ہيں، وہ خوشي سے ہنسي

۔يں؟ بهئي اس امر کا اطمينان کرليا ضروري ہےميں پوچها آپ اکيلي آئي ہ

وہ بولي سوچا پہلگام ۔بالکل شہري زندگي کي ہماگمي سے بہت دب گئي تهي۔جاکر کچه اکيلئے رہوں گي، قدرتي مناظر کي مصوري کروں گي

ميں بهي اکيال ہوں، ميں نے اسے بتايا، پہلگام کي فوٹوڈاکومنڑي تيار کرنے ۔و منٹري کيلئے آپ کي مدد درکار ہوگيکيلئے آگيا، مگر اس ڈاک

وہ کيسے؟ميں نے کہا خالي قدرتي مناظر کي تصاوير لينا ميري ڈاکو مينٹري کو گهس پٹي بنا دے گا، ان خوبصورت مناظر ميں جان ڈالنے کيلئے ايک ۔خوبصورت لڑکي بهي چاہئے، تم ان مناظر ميں معني پيدا کردو گي

۔لے تو شرمائي پهر کهلکهال کر ہنس ديآپ تعريف کرنا جانتے ہيں، وہ پہ عجيب بات ہے ميں نے اسے کہا اتنے دنوں سے ہم دونوں اک دوسرے کے

۔ہمسائے ہيں مگر مالقات آج ہوئي ميں بهي آپ کو مادام ڈاينس کي دکان پر فوٹو گرافري کا سامان خريدتے ديکهتي

۔تهي اکثر مگر نہ جانے بات چيت کيوں نہيں ہوئي ميرا ہے، اتني حسين وجميل لڑکي سے مرعوب ہوجانا قدرتي امر قصور دراصل

۔ہے

Page 21: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

21

۔مگر ميں تو معمولي لڑکي ہوں اور مغرور بهي نہيں ہوں خير جو وقت وہاں ممبئي ميں ضائع کيا اس کي تالفي ہو سکتي ہے، ميں نے

۔گہري نظروں سے اسے تاکتے ہوئے کہا ۔آپ نے اپنا نام، تو بتايا ہي نہيں، وہ بولي

هے اکرام کہتے ہيں، اور آپ کا نام تو ميں جانتا ہوں سجاتا، آپ کہاں ٹہري مج۔ہيں

؟۔۔۔۔منور ہوٹل کے قريب کاٹج بي چاليس اس کا نمبر ہے اور آپ ۔ميں روز ويو ہوٹل ميں ٹہرا ہوں، کمرہ نمبر اٹهارہ

اچها ميں چلتي ہوں، اس نے کاونٹر سے مڑ کر ايک قدم دکان کے باہر کي جانب ۔يابڑها

ميرا ہاته بے اخيتار اس کي کالئي پر گيا، ايسي بهي کيا جلدي ہے، چلئے روز ويو ہوٹل ميں آپ کو بہت بڑهيا کافي پالئوں، اتني اچهي کافي پہلگام ميں اور

۔کہيں نہيں ملتي وہ تهوڑي دير تو مجهے عجيب نظروں سے ديکهتي رہي، پهر اس نے جيسے

۔، اچها چلئيےکوئي فيصلہ کرليا ہو، مسکرا بولي ميں نے سوچا يہ پہال قدم ہے الونج ميں بيٹهيں گے، نرگسي پهولوں کے گلدان

کي اوٹ ميں اس کي آنکهوں کے بدلتے ہوئے رنگ ديکهتا رہوں گا اور اس کے پيارے چہرے کي دلچسپ ادائيں، باتيں ہوں گي، کتابوں کي، مصوري کي،

تازہ ترين فوٹو البم دکهانے ماڈلنگ کي، جديد فيشن کي، پهر ميں اسے اپنے کيلئے اپنے کمرے ميں جانے کي دعوت دوں گا، يونہي زينہ بہ زينہ عشق کا

۔جذبہ بلند ہوتا ہے وہ بولي اکرام کہنے ميں جبڑا دکهنے لگا ہے، اگر تمہيں برا نہ لگے تو ميں اکي

کہا کروں؟ي گرل فرينڈ اکي ميں دل ہي دل ميں خوشي سے اچهل پڑا، ايسا نام ميري کسي به

۔کو آج تک کيوں نہيں سوجا ۔تمہارے منہ سے اکي بہت اچها لگتا ہے، مگر خدا کيلے کبهي مجهے اکا نہ کہنا

وہ زور سے ہنسي دير تک ہنستي رہي، ميں نے اس کا ہاته اپنے ہاته ميں ليا، اس نے اپنا ہاته ميرے ہاته ميں رہنے ديا، ميں اس کي انگليوں سے کهيلنے لگا وہ

۔سرے ہاته کي انگليوں سے گلدان کے نرگسي پهولوں کو سجانے لگيدو ميں نے پوچها سجاتا تمہيں عقل رکهنے والي کتابوں سے نفرت کيوں ہے؟

اس نے کہا ميں اکثر ديکهتي ہوں کہ تمام کتابوں پر حتي کہ فلسفے کي کتابوں پر وت بهي کسي خوبصورت عورت کي تصوير ہوتي ہے، اب اگر کسي کتاب کو ع۔کے سہارے کے بغير بيچا نہيں جاسکتا تو يہ عقل کي بہت بڑي توہين ہے

عقل کي توہين نہيں ہے، عورت کي توصيف ہے، دراصل خود ايک طرح کا ۔فلسفہ ہے، اس کتاب کو کهول کر ورق ورق پڑهنا چاہئيے ميں نے پوچها فلموں ميں تمہيں کيسي فلميں پسند ہيں؟

Page 22: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

22

ميں مرد بے وفا ہوتے ہيں اور عورتيں ان کے لئے وہ بولي ايک ايسي فلميں جن ۔رو رو کر جان دے ديتي ہيں، يعني بالکل روايتي فلميں

اور ماڈلنگ کيوں چهوڑ دي؟وہ لوگ اسٹوڈيوں کو بيڈ روم ميں بدلنے کے خواہش مند ہوتے ہيں اور ميں

۔دونوں جگہوں کو الگ الگ سمجهتي ہوں کہا تمہارے لئے کافي اور مناگائوں؟کافي جلدي ختم ہوگئي ميں نے اس سے

۔نہيں اب ميں جائوں گي، وہ گهڑي ديکه کر بولي ۔ميں نے کہا اوپر چلو ميرا تازہ فوٹو البم ديکهو ميرے کمرے ميں

يہ تو مجهے کہا ہي تها، اس بات کو تو کہا ہي جاتا ہے، ايک نہ ايک وقت اور ۔جواب سننے کيلئے دل دهڑکتا ہے

۔ئي، مسکرائي، پهر ميري طرف ديکه کر کهلکهال کر ہنسيوہ رکي سنجيدہ ہو ۔ميں نے اداس ہو کر کہا، شايد تمہارے پاس وقت نہيں ہے

۔ميرے پاس وقت ہي وقت ہے، وہ الپرواہي کے انداز ميں ہاته جهال کر بولي مگر کمرے ميں کيوں چليں، کيا ہم لوگ پہاڑوں پر کمروں ميں بند ہونے آئے

۔ہيں ۔يا اراده ہے؟ ميں نے پوچهاپهر تمہارا ک

۔اس نے پوچها، تمہارے پاس گاڑي ہے

۔ہاں، کچه اميد بندهنے لگي، ميں نے جلدي سے کہا، اپني ٹويوٹا ساته اليا ہوں ں چلتے ہيں، وہ بولي ميرے ذہن ميں ايک جگہ ہے، چندي يتو پہلگام سے دور کہ

ي جهرنا ہے داڑي کے راستے پر بائيں جانب ايک وادي کے دامن ميں پہاڑديودار کے پيڑوں کا ايک خوبصورت کنج ہے، سامنے پهولوں کي جهاڑيوں سے بهرا ہوا ايک ميدان ہے وہاں چليں گے، وہاں دن بهر رہيں گے، شام کو

لوٹ آئيں گے، تم اپنا کيمرہ لے چلو، ميں اپنا مصوري کا سامان لے چلتي ہوں، ۔وہ عجيب طريقے سے ہنسي۔۔۔۔يعني اگر ہم ايک دوسرے سے اکتا گئے ہيں تو

ميرے ذہن ميں وہ وادي گهوم گئي اور دونوں بچوں کي طرح پهولوں کے قطعوں پر لوٹتے ہوئے، ہاته ميں ہاته ڈالےدوڑتے ناچتے ہوئے، پهولوں ميں

گهر کر ايک دوسرے سے لپٹ کر پيار کرتي ہوئي نگاہوں ميں گرم گرم سانسوں چشمے پر بلوريں حباب کي طرح ميں نهني نهني سرگوشياں جو محبت کے

۔۔۔۔۔ناچتي رہتي ہيں، وہ سب کچه ميں نے اپني گاڑي نکالي اور پن چکي کے پل سے ہو کر چندن داڑي کي طرف

بڑه گيا، ہوا تيز تهي، سجاتا کے بال گہرے گالبي ہوچکے تهے، اس نے اپنے پر اڑتے ہوئے بالوں پر ايک کشميري رومال بانده ليا تها جس سے وہ بے حد

اسرار معلوم ہونے لگي تهي، ميں جلد سے جلد اس کنج ميں پہنچ جاتا چاہتا تها، ۔مبادا کہيں سجاتا اپنا ارادہ تبديل نہ کردے

آدهے گهنٹے سے بهي کم عرصے ميں وہ وادي سامنے آگئي، يہاں سڑک اوجهل ر ہوگئي، ميں نے انجن کٹ کرديا، اورپٹ کهول ديا، سجاتا اپنا سامان لے کر باہ

Page 23: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

23

۔نکل اور ميں اپنا سامان لے کر ہم دونوں جهرنے کي طرف بڑه گئے

بڑي خوبصورت جگہ تهي، جيسا کہ سجاتا نے بيان کيا تها صاف شفاف پاني گنگناتا ہوا، اور جنگلي پهولوں کے قطعے قطار اندر قطار ڈهالنوں پر ديوار

يک ايک کے پيڑا اور بادل سفيد بطخوں کي طرح آسمان پر تيرتے ہوئے، يکاآدمي جهرنے کے قريب سے اٹها، ميں نے اسے ديکها جہاں سے وہ اٹها تها، اس

کے قريب ايک ابزال بهي اپنے لکڑي کے چوکهنے کو لئے کهڑا تها، ميں نے اس آدمي کو پہچان ليا تها، يہ وہي آدمي تها جو اپني ہري فياٹ ميں سجاتا سے

۔ملنےسجاتا کے گهر آتا تها ہوئے سجاتا کي طرف بڑها بڑي دير کر دي، اس کے منہ وہ آدمي مسکراتے

۔سے نکال سجاتا اس کا ہاته پکڑ کر بڑي لجاجت سے بولي کيا کرتي ڈارلنگ کوئي گاڑي

ہي نہيں ملي، بڑي مشکل سے ان کو ميري طرف اشارہ کرکے تيار يہاں تک آئي ۔ہوں، يہ ہيں مسٹر اکرام، اور مسٹر اکرام يہ ہيں ميرے شوہر نورشاہ

نورشاہ نے زبردستي ميرا ہاته کهينچ کر مجهے سے مصافحہ کيا اور بوال آپ لنچ تک تو ٹهيريں گے نا؟ ميں نے اس کي آواز سني اور پهر چند لمحوں کيلئے

۔ساري وادي ميري نگاہوں ميں گهوم گئي شکريہ ايک پهنسي ہوئي آواز ميرے گلے سے نکلي، پهر ميں وادي ميں سے

۔ٹا ميں بيٹه کر واپس چال گيامڑااور اپنا ٹويو ۔چلے چلتے دير تک سجاتا فاتحانہ قہقہ ميرے کانوں ميں ہونجتا رہا

اکرام نے اتنا کہہ کر قصہ ختم اور گالس ختم کرديا، پهر بار ميں بيٹهے ہوئے ۔اپنے ساتهيوں کي طرف ديکه کر بوال

کو تو صاحب يہ ہے کل کي داستان، آئيے عورت کي بے وقوفي اور حماقت۔ٹوسٹ کرتے ہوئے ايک جام پئيں، بيرہ ايک ڈبل ڈمپل اور مارو

مہا لکشمي کا پلمہا لکشمي اسٹيشن کے اس پار مہا لکشمي جي کا ايک مندر ہے اسے لوگ ريس

کورس بهي کہتے ہيں، اس مندر ميں پوجا کرنے والے لوگ ہارتے زيادہ ہيں ايک بہت بڑي بدروہے جو جيتتے کم ہيں، مہا لکشمي کے اسٹيشن کے اس پار

انساني جسموں کي غالظت کو اپنے متعفن پانيوں ميں گهولتي ہوئي شہر سے باہر چلي جاتي ہے، مندر ميں انسان کے دل کي غالظت دهلتي ہے اور بدررو ميں انسان کے جسم کي غالظت اور ان دونوں کے بيچ ميں مہا لکشمي کا پل

۔ہے

Page 24: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

24

طرف لوہے کے جنگلے پر چه ساڑهياں لہرا مہا لکشمي کے پل کے اوپر بائيں رہي تهي، پل کے اس طرف ہميشہ اس مقام پر چند ايک ساڑهياں لہرا رہي ہيں، يہ ساڑہياں کوئي بہت قيمتي نہيں ہيں، يہ لوگ يہاں ہر روز ان ساڑهيوں کو دهو

کر سوکهنے کيلئے ڈال ديےہيں، اور ريلوے الئن کے آر پار جاتے لوگ مہا ن پر گاڑي کا انتظار کرتے ہوئے لوگ گاڑي کي کهڑکي اور لکشمي اسٹيش

دروازوں سے جهانک کر باہر ديکهنے والے لوگ اکثر ان ساڑهيوں کو ہوا ميں ۔جهولتا ہوا ديکهتے ہيں

وہ ان کے مختلف رنگ ديکهتے ہيں، بهورا، گہرا بهورا ، نيال، قرمزي بهورا، يں رنگوں کو فضا ميں پهليے ہوئے گندا سرخ گہرا نيال اور الل، وہ لوگ اکثر انہ

ديکهتے ہيں، ايک لمحے کيلئے دوسرے لمحے ميں گاڑي پل کے نيچے سے ۔گزر جاتي ہے، ان ساڑهيوں کے رنگ اب جاذب نظر نہيں رہے

کسي زمانے ميں ممکن ہے جب يہ نئي نئي خريدي گئي ہوں، ان کے رنگ اتر دهوئے جانے خوبصورت اور چکمتے ہو رہے ہوں ، مگر اب نہيں ہيں متو

سے ان کے رنگوں کي آب و تاب مرچکلي ہے، اور اب يہ ساڑهياں اپنے پهيکے سيٹهے روز مرہ کے انداز کو لئے بڑي بے دلي سے جنگلے پر پڑي

نظر آتي ہيں، آپ دن ميں انہيں سو بار ديکهئے يہ آپ کو کبهي خوبصورت ۔دکهائي نہيں ديں گي

ا قسم کي يا کپڑا، يہ بڑي سستي ، گهٹان کا رنگ و روپ اچها ہے، نہ ان کساڑهياں ہيں، ہر روز دهلنے سے ان کا کپڑا بهي تار تار ہو رہا ہے، ان ميں

کہيں کہيں روزن بهي نظر آتے ہيں، کہيں ادہڑے ہوئے ٹانکے ہيں کہيں بد نما چتلے داغ جو اس قدر پائدار ہيں کہ دہوئے جانے سے بهي نہيں دهلے بلکہ اور

اتے ہيں، ميں ان ساڑهيوں کي زندگيوں کو جانتا ہوں، کيونکہ ميں گہرے ہوتے ج۔ان لوگوں کو جانتا ہوں اجو ان ساڑهيوں کو استعمال کرتے ہيں

يہ لوگ مہا لکشمي کےپلکے قرين ہي بائيں طرف آٹه نمبر کي چال ميں رہتے ہيں يہ چال متوالي نہيں، بڑي غريب سي چال ہے، ميں بهي اس ميں رہتا ہوں،

لئے آپ کو ان ساڑهيوں اور نا کے پہننے والوں کے متعلق سب کچه بتا اسسکتا ہوں، ابهي وزير اعظم کي گاڑي آنے ميں بہت دير ہے آپ انتظار کرتے کرتے اکتا جائيں گے، اس لئے اگر آپ ان چه ساڑهيوں کي زندگي کے بارے ميں سن ليں تو وقت آساني سےکٹ جائے گا ادهر يہ جو بهورے رنگ کي

ساڑهي لٹک رهي ہے يہ شانات بائي کي ساڑهي ہے، اس کے قريب جو ساڑهي لٹک رهي ہے وه بهي آپ کو بهورے رنگ کي ديکهاديتي هوگي، مگر وہ تو

۔گہرے بهورے رنگ کي ہے آپ نہيں ميں اس کا گہرا بهورا رنگ ديکه سکتا هوں، کيوں کہ ميں اسے اس

گہرا بهورا تها، اب اس دوسري وقت سے جانتا ہوں جب اس کا رنگ چمکتا ہو ساڑهي کا رنگ بهي ويسا ہي بهورا ہے، جيسا شانتي بائي کي ساڑهي کا اور

شايد آپ ان دونوں ساڑهيوں ميں بڑي مشکل سے فرق محسوس کرسکيں گے، ميں بهي جب ان کے پہننے والوں کي زندگيوں کو ديکهتا ہوں، تو بہت کم فرق

Page 25: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

25

ڑهي ہے اور جس کا گہرا رنگ ہے، وہ شانتا محسوس کرتا ہوں، مگر يہ پہلي سابائي کي ساڑهي ہے اور جو دوسري بهورے رنگ کي ساڑهي ہے اور جس کا

گہرا بهورا رنگ صرف ميري آنکهيں ديکه سکتي ہيں وہ جيونا بائي کي ساڑهي ۔ہے

کسي زمانے ميں ممکن ہے جب يہ نئي نئي خريدي گئي ہوں، ان کے رنگ ہے ہوں ، مگر اب نہيں ہيں متواتر دهوئے جانے خوبصورت اور چکمتے ہو ر

سے ان کے رنگوں کي آب و تاب مرچکلي ہے، اور اب يہ ساڑهياں اپنے پهيکے سيٹهے روز مرہ کے انداز کو لئے بڑي بے دلي سے جنگلے پر پڑي

۔نظر آتي ہيں آپ دن ميں انہيں سو بار ديکهئے يہ آپ کو کبهي خوبصورت دکهائي نہيں ديں

ا قسم کي يا رنگ و روپ اچها ہے، نہ ان کا کپڑا، يہ بڑي سستي ، گهٹگي، ان کساڑهياں ہيں، ہر روز دهلنے سے ان کا کپڑا بهي تار تار ہو رہا ہے، ان ميں

کہيں کہيں روزن بهي نظر آتے ہيں، کہيں ادہڑے ہوئے ٹانکے ہيں کہيں بد نما يں دهلے بلکہ اور چتلے داغ جو اس قدر پائدار ہيں کہ دہوئے جانے سے بهي نہ

۔گہرے ہوتے جاتے ہيں ميں ان ساڑهيوں کي زندگيوں کو جانتا ہوں، کيونکہ ميں ان لوگوں کو جانتا ہوں اجو ان ساڑهيوں کو استعمال کرتے ہيں، يہ لوگ مہا لکشمي کےپلکے قرين ہي

بائيں طرف آٹه نمبر کي چال ميں رہتے ہيں يہ چال متوالي نہيں، بڑي غريب سي ميں بهي اس ميں رہتا ہوں، اس لئے آپ کو ان ساڑهيوں اور نا کے چال ہے،

پہننے والوں کے متعلق سب کچه بتا سکتا ہوں، ابهي وزير اعظم کي گاڑي آنے ۔ميں بہت دير ہے آپ انتظار کرتے کرتے اکتا جائيں گے

اس لئے اگر آپ ان چه ساڑهيوں کي زندگي کے بارے ميں سن ليں تو وقت ے گا ادهر يہ جو بهورے رنگ کي ساڑهي لٹک رهي ہے يہ آساني سےکٹ جائ

شانات بائي کي ساڑهي ہے، اس کے قريب جو ساڑهي لٹک رهي ہے وه بهي آپ کو بهورے رنگ کي ديکهاديتي هوگي، مگر وہ تو گہرے بهورے رنگ کي ہے،

آپ نہيں ميں اس کا گہرا بهورا رنگ ديکه سکتا هوں، کيوں کہ ميں اسے اس ا ہوں جب اس کا رنگ چمکتا ہو گہرا بهورا تها، اب اس دوسري وقت سے جانت

۔ساڑهي کا رنگ بهي ويسا ہي بهورا ہے جيسا شانتي بائي کي ساڑهي کا اور شايد آپ ان دونوں ساڑهيوں ميں بڑي مشکل سے فرق محسوس کرسکيں گے، ميں بهي جب ان کے پہننے والوں کي زندگيوں

سوس کرتا ہوں، مگر يہ پہلي ساڑهي ہے اور کو ديکهتا ہوں، تو بہت کم فرق محجس کا گہرا رنگ ہے، وہ شانتا بائي کي ساڑهي ہے اور جو دوسري بهورے رنگ کي ساڑهي ہے اور جس کا گہرا بهورا رنگ صرف ميري آنکهيں ديکه

۔سکتي ہيں وہ جيونا بائي کي ساڑهي ہے

شانتا بائي شانتا بائي کي زندگي بهي اس ساڑهي کے رنگ کي طرح بهوري ہےبرتن مانجهنے کا کام کرتي ہے، اس کے تين بچے ہيں، ايک بڑي لڑکي ہے دو

Page 26: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

26

چهوٹے چهوٹے لڑکے ہيں، بڑي لڑکي کي عمر چه سال کي ہوگي، سب سے چهوٹا لڑکا دو سال کا ہے، شانتا بائي کا خواند سيون مل کے کپڑے کهاتے ميں

۔کام کرتا ہے شانتا بائي اپنے خاوند کيلئے دوسرے دن اسے بہت جلد جانا ہوتا ہے، اس لئے

کي دوپہر کا کهانا رات ہي کو پکا رکهتي ہے، کيوں کہ صبح اسے خود برتن صاف کرنے کيلئے اور پاني ڈهونے کيلئے دوسرے گهروں مين جانا ہوتا ہے،

برس کي بچي کو بهي لے جاتي ہے، اور دوپہر کے 6اور اب وہ ساته ميں اپني آتي ہے، واپس آکے وہ نہاتي ہے اور اپني ساڑهي دهوتي قريب چال ميں واپس

ہے اور سکهانے کيلئے پل کے جنگلے پر ڈال ديتي ہے اور پهر ايک بے حد ۔غليظ اور پراني دهوتي پہن کر کهانا پکاتي ہے

شانتا بائي کے گهر چولها اس وقت سلگ سکتا ہے جب دوسروں کے ہاں چولهے و بجے اور رات کے نو بجے ،ان اوقات کے ٹهنڈے ہوجائيں، يعني دوپہر کو د

ادهر اور ادهر اسے دونوں وقت گهر سے باہر برتن مانجهنے اور پاني ڈهونے ۔کا کام کرنا ہوتا ہے، اب تو چهوٹي لڑکي اس کا ہاته بٹا تي ہے

شانتا بائي برتن صاف کرتي ہے، چهوٹي لڑکي برتن دهوتي جاتي ہے، دو تين بار ي لڑکي کے ہاته سے چيني کےبرتن کر کرٹوٹ گئے، اب ايسا بهي ہوا کہ چهوٹ

مين جب چهوٹي لڑکي کي آنکہيں سوجي هوئي ديکهتا ہو اور اس کے گال سرخ ۔ديکهتا ہوں تو سمجہ جاتا ہوں کہ کسي بڑے گهر ميں چيني کےبرتن ٹوٹے ہيں اس دن شانات بائي بهي ميرے نمستے کا جواب نہيں ديتي ہے، جلتي بهنتي بڑ

چولها سلگانے ميں مصروف ہوجاتي ہے، اور چولهے ميں آگ کم اور بڑاتي دهواں زيادہ نکلنے ميں کامياب ہو جاتي ہے، چهوٹا لڑکا جو دو سال کا ہے

دهويں سے اپنا دم گهٹتا ديکه کر چيختا رہتا ہے، تو شانتا بائي اس کے چيني ۔ ہےايسے نازک رخساروں پر زور زور سے چپتيں لگانے سے باز نہيں آتي

اس پر بچہ اور زيادہ چيختا ہے، يوں تو يہ دن بهر روتا ہے کيون کہ اسے دوده نہيں ملتا ، اور اسے اکثر بهوک لگتي ہے اور دو سال کي عمر ہي ميں اسے

باجرے کي روٹي کهانا پڑتي ہے، اسےپانيماں کا دوده اپنے دوسرے بہن بهائيوں ہ بهي بڑي مشکل سے، پهر يہ کي طرح چرف پہلے چه سات ماہ نصين ہوا اور و

بهي خشک باجري اور ٹهنڈے پاني پينے لگا ہماري چال کے سارے بچے اسي خوراک پر پرلتے ہيں وہ دن بهر ننگے ہيں اور رات کو گدڑي اوڑه کر سو

۔جاتے ہيں سوتے ميں بهي وه بهوکے رہتے ہيں دن بهر اور جب شانتا بائي کے خاوند کے خاوند کي طرح بڑے ہوجاتے ہيں تو

خشک باجري اور ٹهنڈا پاني پي پيکر کام کرنے جاتے ہيں، اور ان کي بهوک بڑه جاتي ہے اور ہر وقت معدے کے اندر اور دل کے اندر اور دماغ کے اندر

ايک بوجه سي دهمک محسوس کرتے ہيں اور جب پگار ملتي ہے تو ان ميں سے چند گهنٹوں کيلئے يہ کئي اک سيدے تاڑي خانے کا رخ کرتے ہيں، تاڑي پي کر

دہک زائل ہوجاتے ہيں ليکن آدمي ہميشہ تو تاڑي پي نہيں سکتا، ايک دن پئي گا

Page 27: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

27

دو دن پئيے گا، تيرے دن کي تاڑي کيلئے پيسے کہاں سے الئے گا، آخر کهولي ۔کا کرايہ ديتا ہے، راشن کا خرچہ ہے

ائي کي بهوري بهاجي ترکاري ہے، تيل اور نمک ہے، بجلي اور پاني ہے، شانتا بساڑهي ہے جو چهٹے ساتويں ماہ تار تار هوجاتي ہے، کبهي سات ماہ سے زيادہ

نہيں چلتي ، يہ مل والے بهي پانچ روپے چار آنے ميں کيسي کهدري نکمي ۔ساڑهي ديتےہيں

اس کپڑے ميں ذرا جان نہيں ہوتي چهٹے ماہ سے جو تار تار ہونا شروع ہوتا ہے سے سي کے، جوڑ کے، گانٹه لگا کے، ٹانکے لگا تو ساتويں ماہ بڑي مشکل

کے کام ديتا ہے، اور پهر وہ ہي پانچ روپے چارآنے خرچ کرنےپڑتے ہيں، اور ۔وہ ہي بهورے رنگ کي ساڑهي آجاتي ہے، شانتا کو يہ رنگ بہت پسند ہے

اسلئے کہ يہ ميال بہت دير ميں ہوتا ہے اسے گهروں ميں جهاڑو دينا ہوتي ہے، رنے ہوتے ہيں تيسري چوتهي منزل تک پاني ڈهونا هوتا ہے، وهپ برتن صاف ک

بهورا رنگ نہيں پسند کرے گي تو کيا کهلتے رنگ گالبي، بسنتي، نارنجي پسند کرے گي، وه اتني بيوہ قوف نہيں ہے، ليکن کبهي اس نے يہ شوخ رنگ بهي ها، ديکهے تهے پہنے تهے، انہيں اپنے دهڑکتے ہوئے دل کے ساته پيار کيا ت

۔جب وه دهاراوار ميں اپنے گائوں ميں تهي جہاں اس نے بادلوں ميں شوخ رنگوں والي دهنک ديکهي تهي، جہاں ميلوں ميں اس نے شوخ رنگ ناچتے ديکهے جہاں کہ باپ کا دهان کے کهيت تهے، ايسے

شوخ ہرے ہرے رنگ کے کهيت اور آنگن ميں پيرو کا پيڑ جس کے ڈال ڈال هايا کرتي تهي، جانے اب وه پيرووں ميں مزا ہي نہين وہ سے وہ توڑ توڑ کے ک

۔شيرني اور گهالوت ہي نہيں، وہ رنگ، وہ چمک و دمک کہاں جاکے مرگئي وہ سارے خواب رنگ کيوں يک لخت بهورے رنگ کے ہوگئے، شناتابائي کبهي

برتن مانجتے مانجتے، کهانا پکاتے پکاتے، اپني ساڑهي سےپاني کے قطرے طرح ريل کي پٹري پر بہتے جاتے ہيں اور دوسرے ديکهنے والے آنسوئوں کي

لوگ ايک بهورے رنگ کي بدصورت عورت کو پل کے اوپر جنگلے پر ايک بهوري ساڑهي کو پهيال ہوئے ديکهتے ہيں اور بس دوسرے لمحے ميں گاڑي پل

۔کے نيچے سے گزر جاتي ہے

ه لٹک رہي ہے گہرے جيو نابائي کي ساڑهي جو شانتا بائي کي ساڑهي کے ساتبهورے رنگ کي ہے، بظاہر اس کا رنگ شانتا بائي کي ساڑهي سے بهي پهيکا نظر آے گا، ليکن اگر آپ اسے غور سے ديکهيں گےتو اس کے پهيکے پن کے

۔باوجود يہ آپ کو گہرے رنگ کي نظر آئے گي يہ بهي ساڑهے پانے روپے چار آنے کي ہے،اور بڑي ہي بوسيدہ ہے، دو ايک

ہ سے پهٹي ہوئي تهي ليکن اب وہاں سے ٹانکے لگ گے تهے، اور اتني دور جگسے معلوم بهي ہوتے تهے، ہاں آپ وہ بڑا ٹکرا ضرور ديکه سکتے ہيں جو

گہرے نيلے رنگ کا ہے اس ساڑهي کے بيچ ميں جہاں سے يہ ساڑهي بہت پهٹ س دوسري چکي ہے، لگايا گيا، يہ ٹکڑا جيونا بائي کي اس پہلي ساڑهي کا ہے ا

Page 28: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

28

۔ساڑهي کو مظبوط بنانے کيلئے استعمال کيا گيا، جيونا بائي بيوہ ہے اس لئے وہ ہميشہ پراني چيزوں سے نئي چيزوں کو مظبوط بناے کے ڈهونگ

سوچا کرتي ہے پراني يادوں سے نئي يادون کي تلخيوں کو بهول جانے کي جس نے ايک کوشش کيا کرتي ہے، جيونابائي اپنے اس خاوند کيلئے روتي ہے،

دن نشے ميں مار مار رک اس کي ايک آنکه کاني کر ڈالي تهي، وہ اس لئے نشے ميں تها کہ وہ اس روز مل سے نکاال گيا تها، بڈہ ڈهونڈا اب مل ميں کس

۔کام کا نہيں رہا تها گو وہ بہت تجربہ کار تها ليکن اس کے ہاتهوں ميں اتني طاقت نہ رہي تهي کہ

ابلہ کرسکتا، بلکہ وہ تو اب دن رات کهانسي ميں مبتال وہجوان مزدوروں کا مقں جاکے ايسے يرہنے لگا تها، کپاس کے نهنے نهنے ريشے اس کے پهيپڑوں م

دهنس گئے تهے، جيسے چرخيوں اور اينٹوں ميں سوت کے چهوٹے چهوٹے ميہن تاگے پهنس جاتے ہيں، جب برسات آتي تو يہ نهنے نهنے ريشے اسے دمے

يتے اور جب برسات نہ ہوتي تو وہ دن بهر اور رات به کهانستا، ميں مبتال کردايک خشک اور مسلسل کهنکهار گهر مين اور کارخانے ميں جہاں وہ کام کرتا

۔تها

سنائي ديتي رہتيم مل کے مالک نے اس کهانسي کي خطرناک گهنٹي کو سنا اور يونابائي کو اس ڈهونڈ کر مل سے نکال ديا، ڈهونڈو اس کے چه ماہ بعد مر گيا، ج

کے مرنے کا بہت غم ہوا تها، کيا ہوا اگر ايک دن غصہ ميں آکر اس نے جيونا بائي کي ايک آنکہ نکال دي تو، تيس سال کي شادي شدہ زندگي ايک لمحے کے

۔غصے پر قربان نہيں کي جاسکتي اور اس کا غصہ بجا تها ا تو کيا جيونا اگر مل مالک ڈهونڈو کو يوں بے قصور نوکري سے الگ نہ کرت

کي آنکه نکل سکتي تهي، ڈهونڈو ايسا نہ تها، اسے اپني بے کاري کا غم تها، سالہ سے برطرف ہونے کا غم تها، اسي طرح خالي ہاته واپس لٹا، اور 35اپني

دروازے سےباہر نکلنے پر اور اپنا نمبري کارڈ پيچهے چهوڑ آنے پر اسے ايک ۔دهچکا سا لگا

سالوں ميں کسي نے اس کا سارا 35علوم ہوا جيسے ان باہر آکے اسے ايسا مرنگ، سارا خون، اس کا سارا رس چوس ليا ہو، اور اسے بيکار کر سمجه کر باہر کوڑے کرکٹ کے ڈهير پر پهينک ديا ہو، جو بالکل اس کے سر پر ايک

خوفناک ديو کي طرح آسمان سے لگي کهڑي تهي،يکا يک ڈهونڈو نے غم اور اته ملے، زمين پر زور سے تهوکا اور پهرتاڑي خانے ميں غصے سے اپنے ہ

۔چالگيا

ليکن جيونا کي ايک آنکہ جب بهي نہ جاتي، اگر اسکے پاس عالج کيلئے پيسے ہوتے، وہ آنکه تو گل گل کر، سڑ سڑ کر، خيراتي اسپتالوں ميں ڈاکٹروں،

شکار کمپونڈروں اور نرسوں کي بد احتياطي اور گاليوں اور الپروائيوں کا ۔ہوگئي، اور جب جيونا اچهي ہوگئي تو ڈهونڈو بيمار پڑگيا

اور ايسا بيمار پڑا کہ پهر بستر سے نہ اٹه سکا، ان دنوں ميں جيونا اس کي ديکه

Page 29: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

29

بهال کرتي تهي، شانتا بائي نے مدد کے طور پر اسے چند گهروں ميں برتن شاقي اور صفائي مانجنے کا کام دلوايا تها، اور گوہ وہ اب بوڑهي تهي، اور م

سے برتنوں کو صاف نہ رکه سکتي تهي، پهر بهي وہ آہستہ آہستہ رينگ رنگ کر اپنے کمزور ہاتهوں ميں جهوٹي طاقت کے بودے سہارے پر جيسے تيسے

کام کرتي رہتي، خوبصورت لباس پہنے والي، خوشبو دار تيل لگانے والي ۔بيويوں کي گالياں سنتي رہي، اور کام کرتي رهي

نکہ اس کا ڈهونڈو بيمار تها اور اسے اپنے آپ کو اور اپنے خاوند کو زندہ کيورکهنا تها ليکن ڈهونڈو زندہ نہ رہ سکا اور اب جيونا بائي اکيلي تهي، خيريت اس

ميں تهي کہ اکيلي تهي، اور اب اسے صرف اپنا دهندا کرنا تها، شادي کے دو ليکن جب وہ جوان ہوئي تو سال بعد اس کے اس کے ہاں ايک لڑکي پيدا ہوئي،

سکي بدمعاش کے ساته بهاگ گئي اور اس کا آج تک پتہ نہيں ہے، پهرکسي نے یبتايا کہ وہ اور پهر بعد ميں بہت سے لوگوں نے بتايا کہ جيونا بائي کي بيٹ

۔فارس روڈ پر چمکيال بهڑکيال لباس پہنے بيٹهي ہے ري زندگي پانچ روپے چار آنے ليکن جيونا بائي کو يقين نہ آيا، اس نے اپني سا

کي دہوتي پہنے بسر کر دي، اور اسے يقين تها کہ اس کي لڑکي بهي ايسا کرے گي، وہ ايسا نہ کرے گي، اس کا اسے کبهي خيال نہ آيا تها، وہ کبهي فارس روش

وہاں نہيں ہے، بهال اس کي ینہيں گئي، کيونکہ اسے اس کا يقين تها کہ اسکي بيٹ جانے لگي، يہاں اپني کهولي ميں کيا نہيں ہے پانچ روپے چار بيٹي وہاں کيوں

۔آنے والي دهوتي تهي، باجرے کي روٹي تهي ٹهنڈا پاني تها، سوکهي عزت تهي، اور يہ سب کچه چهوڑ کر کے وہ فارس روڈ

کيوں جانے لگي، اسے تو کوئي بد معاش اپني محبت کا سبز باغ دکها کے لے ئے سب کچه کر گزرتي ہے، خود وہ تيس سال گيا، کيونکہ عورت محبت کيل

پہلے اپنے ڈهونڈو کيلئے اپنے ماں باپ کا گهر چهوڑ کر يہيں چلي آئي، جس دن ڈهونڈو مرا اور جب لوگ اس کي الش کو جالنے کيلئے جانے لگے اور جيونا نے اپني سيندور کي ڈبيا اپني بيٹي کي انگيا پر انڈيل دي، جو اس نے بڑي مدت

۔کي نظروں سے چهپا کر رکهي تهيسے ڈونڈو

عين اسي وقت ايک گدائے ہوئے جسم کي بهاري عورت چمکيال لباس پہنے اس سے آکے لپٹ گئي، اور پهوٹ پهوٹ کر رونے لگي اور اسے ديکه کر جيونا کو

يقين آگيا، جيسے اب سب کچه مرگيا، اس کا پتي، اس کي بيٹ، اس کي عزت، ، غالظت کهاتي رہي ہے، جيسے اس کے پاس جيسے ون زندگي بهر روٹي نہيں

کچه نہيں تها، شروع ہي سے کچه نہيں تها، پيدا ہونے سے پہلے ہي اس سے سب کچه چهين ليا گيا، اے تنہا، ننگا اور بے عزت کر ديا گيا، اور جيونا کا

خاوند زندگي بهر کام کرتا رہا اور وہ جہاں اس کي آنکه اندهي ہوگئي اور وہ ۔ کي بيٹي اپني دکان سجا کر بيٹه گئيجگہ جہاں اس

ايک بہت بڑا اندها کارخانہ ہے جس ميں کوئي ظالم جابر ہاته انساني جسموں کيلئے گنے کا رس نکالنے والي مشين ميں ٹهونستا جاتا ہے اور دوسرے ہاته

Page 30: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

30

یست توڑ مروڑ کر دوسري طرف پهينکتا جاتا ہے، اور يکا يک جيونا اپني بيٹ۔يخ مار مار کر رونےلگتے ہےکو دهکا دےکر چ

تيسري ساڑهي کا رنگ مٹ ميال نيال ہے، يعني نيال بهي ہے، اور ميال بهي ہے، اور مٹياال بهي ہے کچه ايسا عجيب رنگ ہے جو بار بار دهونے پر بهي نہيں نکهرتا اور غليظ ہوتا جاتا ہے، يہ ميري بيوي کي ساڑهي ہے ميں فورٹ ميں

کلرکي کرتا ہوں، پينسٹه روپے تنخواہ ملتي ہے، سيون دهنو بهائي کي فرم ميں مل اور بکسر يامل کے مزدوروں کو بهي يہي تنخواہ ملتي ہے، اس لئے ميں بهي انہيں کے ساته آٹه نمبر چال کي ايک کهولي ميں رهتا ہوں، مگر ميں مزدور نہيں

وں، ہوں، کلرک ہوں، ميں انگريزي ميں لکه سکتا ہوں، ميں فورٹ ميں نوکر ه۔ميں دسويں پاس ہوں، ٹائپ کرسکتا ہوں

ميں انگريزي ميں لکه سکتا ہوں، ميں اپنے وزيراعظم کي تقرير جلسے ميں سن کر سمجه سکتا ہوں، آج تهوڑي دير بعد ان کي گاڑي مہا لکشمي ر آئے گي، نہيں

وہ ريس کورس نہيں جائيں گے، وہ سمندر کے کنارے ايک شاندار تقرير کريں ۔گے

وقع پر الکهوں آدمي جمع ہوں گے، ان الکهوں ميں ميں بهي ايک ہوں گا، اس مميري بيوي کو اپنے وزير اعظم کي باتيں سننے کا بڑا شوق ہے، مگر ميں اسے

اپنے ساته لے نہيں جاسکتا کيونکہ ہمارے آٹه بچے ہيں اور گهر ميں ہر وقت ۔اتي ہےپريشاني سي رہتي ہے، جب ديکهو کوئي نہ کوئي چيز کم ہو ج

راشن تو روز کم پڑتا ہے، اب نل ميں پاني بهي کم آتا ہے، رات کو سونے کيلئے جگہ بهي کم پڑتي ہے اور تنخواہ تو اس قدر کم پڑتي ہے کہ مہينے ميں صرف پندرہ دن چلتي ہے باقي پندرہ دن سود خور پٹهان چالتا ہے، اور رہ بهي کيسے

ت رفتار مال گاڑي کي طرح يہ گالياں بکتے بکتے، گهسٹ گهسٹ کر کسي سس۔زندگي چلتي ہے

ميرے آٹه بچے بچے ہيں مگر يہ اسکول ميں نہيں پڑهتے ہيں اس کي فيس کے پيسے کبهي نہ ہوں گے، پہلے پہلے جب ميں نے بيان کيا تها تو ساوتري کو

اپنے گهر يعني کهولي ميں اليا تها، تو ميں نے سوچا تها ان دنوں ساوتري بهي اچهي باتيں سوچا کرتي تهي، گوبهي کے نازک نازکے پتوں کي طرح بڑي اچهي

پياري پياري باتيں، جب وہ مسکراتي تو سنيما کي تصوير کي طرح خوبصورت دکهاديتي تهي، اب وہ مسکراہٹ نہ جانے کہاں چلي گئي، اسکي جگہ ايک مستقل

تيوري نے لے لي ہے، وہ ذرا سي بات پر بچوں کو بے تحاشہ پيٹنا شروعکرديتي، اور ميں تو کچه بهي کہو کسي بهي کہو کتني ہي لجحات سے کہوں وہ

۔تو مجهے کاٹ کهانے کو دوڑتي ہے، پتہ نہيں ساوتري کو کيا ہو گيا ہے پتہ نہيں مجهے کيا ہو گيا ہے ميں دفتر ميں سيٹه کي گالياں سنتا ہوں، گهر پر

، کبهي کبهي سوچتا ہوں بيوي کي گالياں سنتا ہوں، اور ہميشہ خاموش رہتا ہوںشايد ميري بيوي کو ايک نئي ساڑهي کي ضرورت ہے، شايد اسے صرف ايک نئي ساڑهي ہي نہيں ايک نئے چہرے ايک نئے گهر ايک نئے ماحول ايک نئي

Page 31: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

31

زندگي کي ضرورت ہے ، مگر اب ان باتوں کو سوچنے سے کيا ہوتا ہے، اب تو کہہ ديا ہے کہ اس نسل کو يعني آزادي آگئي ہے اور ہمارے وزير اعظم نے بهي

۔ہم لوگوں کو اپني زندگي ميں کوئي آرام نہيں مل سکتا

ميں نے ساوتري کو اپنے وزيراعظم کي تقرير جو اخبار ميں پڑهي تهي، سنائي تو وہ اسے سن کر آگ بگولہ ہوگئي اور اس نے غصے ميں آکر چولے کے

کا نشان جو آپ ميرے ماتهے قريب پڑا ہوا چمٹا ميرے سر پر دے مارا، يہ زخم۔پر ديکه سکتے ہيں اسي کا نشان ہے، مگر آپ انہيں نہيں ديکه سکتے

ميں ديکه سکتا هوں، ان ميں سے ايک فشان تو اس مونگيار رنگ کي جارجٹ کي ساڑهي کا ہے جو اس نے اپنے اوپيرا ہائوس کے نزديک بهنجي مل بهندو

ايک نشان اس کهلونے کا ہے جو رام پارچہ فروش کي دکان پر ديکهي تهي، پچيس روپے کا تها اور جسے ديکه کر ميرا پہال بچہ خوش سے کلکارياں مانے لگا تها، ليکن جسے ہم خريد نہ سکے، اور جسے پاکر ميرا بچہ دن بهر روتا رہا ايک نشان اس تار کا ہے جو ايک دن جبل پور سے آيا تها، جس ميں ساوتري کي

ي خبر تهي، ساوتري جبل پور جانا چاہتي تهي، ليکن ہزار ماں کي شديد عاللت ککوشش کي بعد بهي کسي سي روپے ادها نہ مل سکے اور ساوتري جبل پور نہ

۔جا سکي ايک نشان اس تار کے ہے جس ميں اس کي ماں کي موت کا ذکر تها، ايک

مگر ميں کس کس نشان کا ذکر کروں، اس سے چتلے چتلے گدلے ۔۔۔۔۔نشانيظ داغوں سے ساوتري کي پانچ روپے چار آنے والي ساڑهي ميں منتقل گدلےغل

۔ہوتے جائيں گے چوتهي ساڑهي قرمزي رنگ کي ہے اور قرمزي رنگ ميں بهورا رنگ بهي

جهلک رها ہے، يوں تو يہ سب مختلف رنگوں کي ساڑهياں ہيں ليکن بهورا رنگ ي زندگي ايک ہے، ان سب ميں جهلکتا ہے، ايسا معلوم ہوتا ہے جسيے ان سب ک

جيسے ان سب کي قيمت ايک ہے، جيسے يہ سب زمين سے کبهي اوپر نہيں اٹهيں گي، جيسے انہوں نے کبهي ہنستي ہوئي دهنک افق پر چمکتي هوئي شفق، بادلوں ميں لہراتي ہوئي برق نہيں ديکهي ہے، جيسے شانتا بائي کي جواني ہے

پن ہے، جيسے يہ سب ساڑهياں وہ جيونا کا بڑهاپا ہے، وہ ساوتري کا ادهيڑزندگياں، ايک رنگ ايک سطح، ايک تواتر ايک مسلس يکسانيت لئے هوئے ہوا

۔ميں جهولتي ہے

يہ قرمزي بهورے رنگ کي ساڑهي جهبو بهئيے کي عورت کي ہے، اس عورت سے ميري بيوي کبهي بات نہيں کرتي، کيونکہ کہ ايک تو اس کے پاس کوئي

ايسي عورت جس کے ہاں کوئي بچہ نہ ہو بڑي نحس بچہ وچہ نہيں ہے،اور ہوتي ہے، وہ جادو ٹونے کرکے دوسرے کے بچوں کو مار ڈالتي ہے، اور بد

روحوں کو بال کر اپنے گهر ميں بسا ليتي ہے، ميري بيوي اسے کبهي منہ نہيں ۔لگاتي ہے، يہ عورت جبهو بهيا نے خريد کر حاصل کي تهي

ے واال ہے، ليکن بچپن ہي سے اپنا ديس چهوڑ کر ادهر جهبو بهيا مراد آباد کا رہن

Page 32: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

32

چال آيا، وہ مراٹهي اور گجراتي زبان ميں بڑے مزے سے گفتگو کرسکتا تها، اسي وجہ سے اسے بہت جلد پورا وائل کے گني کهاتے ميں جگہ مل گئي، جهبو بهيا کو شروع ہي سے بياہ کا بہت شوق تها، اسے بيڑي کا تاڑي کا کسي چيز کا

وق نہيں تها، شوق تها تو صرف اس بات کا کہ اسکي شادي جلد سے جلد ہو شجائے، جب اس کے پاس ستراسي روپے اکهٹا ہوگئے تو اس نے اپنے ديس

جانے کي ٹهاني، تاکہ وہاں سے اپني برادري ميں سے کسي کو بياہ لے، مگر هي بڑي پهر اس نے سوچا ان ستراسي روپے ميں کيا ہوگا، آنے جانے کا کرايہ ب

۔مشکل سے پورا ہوگا چار سال کي محنت کے بعد اس نے يہ رقم جوڑي تهي، ليکن اس رقم سے وہ

مراد آباد جاسکتا تها، جاکے شادي نہيں کرسکتا تها، اس لئے جبهو بهيا نے يہيں ايک بد معاش سے بات چيت کرکے اس عورت کو سو روپے ميں خريد ليا، اسي

پے ادهار ميں رہے جو اس نے ايک سال کے روپے اس نے نقد دئيے، بيس روعرصے ميں ادا کئے، بعد ميں جبهو کو معلوم ہو کہ يہ عورت بهي مرادآباد کي

رہنے والي تهي، اور اسکي برادري کي تهي، جبهو برا خوش ہوا، چلو يہيں بيٹهے بيٹهے سب کام ہوگيا، اپني ذات برادري کي اپنے ضلع کي اپنے دهرم کي

۔هے بيٹهے سو روپے ميں مل گئيعورت يہيں بيٹ

اس نے بڑے چل چالئو سے اسے اپنا بياہ رچايا، اور پهر اسے معلوم ہوا کہ اس کي بيوي لڑيا بہت اچهي گاتي ہے، وہ خود بهي اپني پاٹ دار آواز ميں زور سے گانے بلکہ گانے سے زيادہ چالنے کا شوقين تها، اب تو کهولي ميں دن رات گويا

ں کهول ديا ہو، دن ميں کهولي ميں لڑيا کا کام کرتے ہوئے گاتي کسي نے ريڈيو۔تهي، رات کو جبهو اور لڑيا دونوں گاتے تهے

ان کے ہاں کوئي بچہ نہ تها، اسلئے انہوں نے ايک توتا پال رکها تها، لڑيا ميں ايک اور بات بهي تهي، جبهو بيٹري پيے سگريٹ پئيے نے تاڑي لڑيا يڑي

تي تهي، کہتي تهي پہلے وہ سب نہيں جانتي تهي، مگر جب سگريٹ سبهي کچه پيسے بد معاش کے پلے پڑي اسے يہ سب باتيں سيکهنا پڑيں، اور اب وه اور سب

باتيں تو چهوڑ سکتي ہے مگربيڑي اور تاڑي نہيں چهوڑ سکتي، کئي بار تاڑي پي کر لڑيا نے جبهو پر حملہ کيا، اور جبهو نے اسے روئي کي طرح دهنک کر

که ديا، اس موقع پر توتا بہت شور مچاتا تها اور رات کو دونوں کو گالياں بکتے رديکه کر خود بهي پنجرے ميں ٹنگا ہوا زور زور سے چال کر وہ ہي گالياں بکتا

۔جو وہ دونوں بکتے تهے ايک بار تو اس کي گالي سن کر جبهو غصہ ميں آکر طوطے کو پنجرے سميت

مگر جيونا نے بيچ ميں پڑ کر توتے کو بچا ليا، توتے بدرو ميں پهينکنے لگا تها،کو مارنا بڑا پاپ ہے ، مگر جيونا نے کہا برہمنوں کو بال کے پراکشجت کرنا

پڑے گا، اور تمهيں پندرہ بيس روپے کهل جائيں گے، يہ سوچ کر جبهو نےتوتے ۔ال ترک کر ديايکو بدرو ميں غرق کرنے کا خ پر چاروں طرف سے گالياں پڑيں، ۔۔۔۔۔۔يسي شادي شروع شروع ميں تو جبهو کو ا

Page 33: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

33

وہ خود بهي لڑيا کو بڑے شہبہ کي نظروں سے ديکهتا رہا، اور کئي بار اسے بالوجہ پيٹا، اور خود بهي مل سے غير حاضر رہ کراسکي نگراني کرتا رہا،

مگر آهستہ آهستہ لڑي انے اپنا اعتابر ساري چال ميں قائم کرليا، لڑيا کہتي ہے عورت سچے دل سے بدمعاشوں کے پلے پڑنا پسند نہيں کتي، وہ تو ايک گهر کہ

۔چاهتي ہے چاہے وہ چهوٹا ہي سا گهر ہو

وہ ايک خاوند چاہتي تهي جو اس کا اپنا ہو چاہے وہ جبهو بهيا ايسا شور مچانے واال زبان دراز، شيخي خوار ہي کيوں نہ ہو، وہ ايک نهنا بچہ چاہتي ہے چاہے

بدصورت کيوں نہ ہو، اور اب لڑيا کے پاس گهر بهي تها اور جبهو وہ کتنا ہيبهي تها اور اگر بچہ نہيں تها تو کيا ہو جائے گا، اور اگر نہيں ہوتا تو بگهوان ان

۔کي مرضي يہ مياں مٹهو ہي اس کا بيٹا بنے گا ايک روز لڑيا اپنے مياں مٹهو کا پنجرہ جهال رہي تهي اور اسے چوري

، اور اپنے دن سپنوں ميں اس نهنے سے بالک کو ديکه رہي تهي، کهالرهي تهيجو فضا ميں ہمکتا ہمکتا اس کي آغوش کي طرف بڑہتا چال آرہا تها کہ چال ميں شور سا بڑهنے لگا، اور اس نے دروازے سے جهانک کر ديکها کہ چند مزدور ۔يںجبهو کو اٹهائے چلے آرہے ہيں، اور ان کے کپڑے خون سے رنگے ہوئے ہ

لڑيا کا دل دهک سے رہ گيا، وه بهاگتي هوئي نيچے گئي، اس نے بڑي درشتي سے اپنے خاود کر مزدوروں سےچهين کر پانے کندهے پر اٹهاليا، اور اپني

کهولي ميں لے آئي، پوچهنے پر پتہ چال کہ جبهو سے گني کهاتے کے مينيجر دئيے، اس پر بہت نے کچہ ڈانٹ ڈپٹ کي، اس پر جبهو نے بهي اسے دو ہاته جڑ

واويال مچا، زور مينجر نے اپنے بدمعاشوں کو بال کر جبهو کي خوب ٹهکائي کي اور اسے مل سے باہر نکال ديا، خيريت ہوئي کہ جبهو بچ گيا، ورنہ اس کي

۔مرنے کي کوئي کسر نہيں تهي لڑيا نے بڑي ہمت سےکام ليا، اس نے اسي روز سے اپنےسر پر ٹوکري اٹهالي

گلي ترکاري بهاجي بيچنے لگي، جيسے وہ زندگي ميں يہي دهندا کرتي اور گليآئي ہو، اس نے اسي طرح محنت مزدوري کرکے اس نے اپنے جبهو کو اچها کر ليا، جبهو اب بهال چنگا ہے مگر اب اسے کسي مل ميں کام نہيں ملتا، وہ دن بهر

ند و باال اپني کهولي ميں کهڑا مہا لکشمي کے اسٹيشن کے چاروں طرف بلکارخانوں کي چمنيوں کو تکتا رہتا ہے، سيون مل، نيو مل، اولڈ مل، پورا مل،

۔معراج مل، ليکن اس کيلئے کسي مل کي جگہ نہيں ہے

ں ہے، آج کال لڑيا يکيونکہ مزدور کو گالي کهانے کا حق ہے گالي دينےکا حق نہتي ہے اور بازاروں اور گليوں ميں آوازيں دے کر بهاجي ترکاري فروخت کر

گهر کا سارا کام کاج کرتي ہے، اس نے بيٹري تاڑي سب چهوڑ دي ہے ہاں اس کي ساڑهي قرمزي بهورے رنگ کي ساڑهي جگہ جگہ سے پهٹي جارہي ہے،

تهوڑے دنوں تک اور اگر جبهو کو کام نہ مال تو لڑيا کو اپني ساڑهي ميں پراني و کو چوري کهال بند ساڑهي کے ٹکڑے جوڑنا پڑيں گے، اور اپنے مياں مٹه

۔کرنا پڑے گا

Page 34: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

34

پانچويں ساڑهي کا کنارہ گہرا نيال ہے، ساڑهي کا رنگ گدال سرخ ہے، ليکن کنارا گہرا نيال ہے، اور اس نيلے ميں اب بهي کہيں کہيں چمک باقي ہے، يہ

ساڑهي دوسري ساڑهيوں سے بڑهيا ہے، کيونکہ يہ ساڑهي پانچ روپے چار آنے ڑا، اس کي چمک، دمک کہے ديتي ہے، کہ يہ ان سے کي نہيں ہے، اس کا کپ

ذرا مختلف ہے، آپ کو دور سے يہ مختلف معلوم نہيں ہوگي، مگر ميں يہ جانتا ہوں کہ يہ ان سے ذرا مختلف ہے اس کا کپڑا بہتر ہے، اسکا کنار چمک دار

ہے، اس کي قميت پونے نو روپے ہے، يہ ساڑهي منجوال کي ہے، يہ ساڑهي ۔اہ کے ہے، منجوال کئے کے بياہ کو ابهي چه ماہ هوئے تهےمنجول کے بي

اس کا خاوند گذشتہ ماہ خرچي کے گهومتے ہوئےہتے کي لپيٹ ميں آکر مارا گيا، اور اب سولہ برس کي خوبصورت منجوال بيوہ ہے، اس کا دل جوان ہے،

اس کا جسم جوان ہے، اس کي مانگين جوان ہيں ليکن اب وہ کچه نہيں کر سکتي ے کيوں کہ اس کا خاوند مل کے ايک حادثے ميں مر گيا ہے وه پٹہ بڑا ڈهيال ہ

تها اور گهومتے ہوئےبار بار پهٹپهٹاتا تها اور کام کرنے والوں کے احتجاج کے باجود اسے مل مالکوں نے نہيں بدال تها، کيوں کہ کام چل رہا تها اور دوسري

پتہ کو تبديل کرنے کيلئے صورت ميں تهوڑي دير کيلئے کام بند کرنا پڑتا،روپئہ بهي خرچ ہوتا، مزدور تو کسي وقت بهي تبدل کيا جاسکتا ہے، اس کيلئے

روپيہ تهوڑي خرچ ہوتا ہے ليکن پٹہ تو بڑي قيمتي چيز ہے

جب منجوال کا خاوند مارا گيا تو منجوال نے ہرجانے کي درخواست دي جو لت کي وجہ سے مرا تها، اس وجہ نامنظور ہوئي کيونکہ منجوال کا خاوند اپني غف

سے منجوال کو کوئي ہرجانہ نہ مال، اور وہ اپني وہي نئي دلہن کي ساڑي پہنے ۔رہي جو اس کے خاوند نے پونے نو روپے ميں اس کيلئے خريدي تهي

کيوں کہ اس کے پاس کوئي دوسري ساڑهي نہيں تهي، جو وہ اپنے خاوند کي ے خاوند کے مرجانے کے بعد بهي دلہن موت کے سوگ ميں پہنس سکتي، وہ اپن

کا لباس پہننے پر مجبور تهي، کيونکہ اس کے پاس کوئي دوسري ساڑهي نہ تهي، اور جوساڑهي تهي وہ يہ ہي گدلے سرخ رنگ کي پونے نو روپے کي

۔ساڑهي جس کا رنگ گہرا نيال تها ند شايد اب منجوال بهي پانچ روپے چار آنے کي ساڑهي پہنے گي، اس کا خاو

زندہ رہتا جب بهي وه دوسري ساڑهي پانچ روپے چار آنے ميں التي، اس لحاظ سے اس کي زندگي ميں کوئي خاص فرق نہيں آيا تها، مگر فرق انتا ضرر ہوا ہے کہ وہ يہ ساڑهي آج پہننا چاہتي ہے، ايک سفيد ساڑهي اسے دن رات کاٹ

کي مظبوط کهانے کو دوڑتي ہے اس ساڑهي سے جيسے اسکے مرحوم خاوند۔باہيں لپٹي ہيں، جيسے اس کے ہر تار پر اس کے شفاف بو سے مرتسم ہيں

جيسے اس کے تانے بانے ميں اس کے خاوند کي گرم گر سانسوں کي حدت آميز غنونگي ہے، اس کے سياہ بالوں والي چهاتي کا سارا پيار دفن ہے، جيسے يہ

نائيوں کو ہر وقت اپنے ساڑهي نہيں ہے، ايک گہري قبر ہے، جس کي ہولناک پہ۔جسم کے گرد لپيٹ لينے پر مجبور ہے، منجوال زندہ قبر ميں گاڑي جارهي ہے

Page 35: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

35

چهٹي ساڑهي کا رنگ الل ہے، ليکن اسے يہاں نہيں ہونا چاهئيے کيوں کہ اسے پہننے والي مر چکي ہے، پهر بهييہ ساڑهي يہاں جنگلے پر بدستور موجود ہے،

جهول رہي ہے، يہ مائي کي ساڑهي ہے جو روز کي طرح دهل دهلي هوا ميںہماري چال کے دروازے کے قريئب اندر کهلے آنگن ميں رہا کرتي تهي، مائي

۔کا ايک بيٹا تها سيتو، وه اب جيل ميں ہے، سيتو کي بيوي اور اس کا لڑکا يہيں نيچے آنگن ميں دروازے کے قريب ديوار کے نيچے پڑے رہتے ہيں، سيتو اور سيتو کي بيوي

اور اسکي لڑکي اور بڑهيا مائي يہ سب لوگ ہماري چال کے بهنگي ہيں، ان کيلئے کهولي بهي نہيں ہے، اور ان کے کيلئے اتنا کهانا کپڑا بهي نہيں ملتا جتنا

ہم لوگوں کو ملتا ہے اس لئے يہ لوگ آنگن ميں رہتے ہيں وہيں کهانا پکاتے ہيں، ۔دي گئي تهيوہيں پڑ کے سوتے ہيں، يہيں يہ بڑهيا مار

وہ بڑا سوراخ تها، آپ اس ساڑهي ميں ديکه سکتے ہيں، پلو کے قريب يہ گولي لگي تهي، نہيں وہ اس ہڑتال ميں حصہ نہيں لے رهي تهي، وہ بے چاري تو بہت

بوڑهي تهي، چل پهر نہ سکتي تهي، اس ہڑتال ميں تو اس کا بيٹا سيتو اور انگتے تهے، اور کهولي کا کرايہ دوسرے بهنگي شامل تهے، يہ لونگ مہنگائي م

مانگتے تهے، اسلئے ان لوگوں نے ہڑتال کي تہي اور جب ہڑتال خالف قانون قرار دے دي گئي، توان لوگوں نے جلوس نکاال اور اس جلوس ميں مائي کا بيٹا

۔سيتو آگے آگے تها اور خوب زور شور سے نعرے لگاتا تها ے ديا گيا تو گولي چلي اور ہماري اور پهر جب جلوس بهي خالف قانون قرار د

چال کے سامنے چلي ہم لوگوں نے تو اپنے دروازے بند کر لئے ليکن گهبراہٹ ميں چال کا دروازہ بند کرنا کسي کو ياد نہ رہا، اور پهر ہم کو اپنے بندکمروں

ميں ايسا معلوم ہوا گويا گولي ادهر سے ادهر سے چاروں طرف سے چل رهي د بالکل سناٹا ہو گيا اور جب ہم لوگوں نے ڈرتے ڈرتے تهي، تهوڑي دير بع

دروزہ کهوال اور باہر جهانکا تو جلوس تتر بتر ہوگيا تها اور ہماري چال کے ۔دروازے کے قريب بڑهيا پڑي تهي

يہ اسي بڑهيا کي الل ساڑهي ہے جس کا بيٹا سيتو اب جيل ميں ہے، اس الل ساڑهي کو بڑهيا کے ساته جالديانا ساڑهي کو اب بڑهيا کي بہو پہنتي ہے، اس

چائيے تها مگر کيا کيا جائے تن ڈهکنا ضروري ہے، مردوں کي عزت اور ۔احترام سےبهي کہيں زيادہ ضروري ہے کہ زندوں کا تن ڈهکا جائے

يہ ساڑهي جلنے جالنے کيلئےنہيں ہے تن ڈهکنے کيلئے ہے، ہاں کبهي کبهي ونچه ليتي ہے، کيوں کہ اس ميں سيتو کي بيوي اسکے پلو سے اپنے آنسو پ

پچهلے اسي برسوں کے سارے آنسو اور ساري امنيگيں اور ساري فتحيں اور شکستيں جذب ہيں آنسو پونچه کر سيتو کي بيوي پهر اسي ہمت سے کام کرنے

لگتي ہے، جيسے کچه هوا ہي نہيں، گولي چلي ہي نہيں، کوئي جيل نہيں گيا، ۔گيبهنگن کي جهاڑو اسي طرح چلنےل

اے لو باتوں باتوں ميں وزير اعظم صاحب کي گاڑي نکل گئي، وہ يہاں نہيں

Page 36: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

36

ٹہري ميں سمجها تها، وہ يہاں ضرور ٹہرے گي، وزير اعظم صاحب درشن دينے کيلئے گاڑي سے نکل کر تهوڑي دير کيلئے پيلٹ فارم پر ٹہليں گے، اور

ورتوں کي ساڑهياں شايد ہوا ميں جهولتي ہوئي ان ساڑهياں جو بہت ہي معمولي عہيں، اسيس معوملي عورتيں جو ہمارے ديس کے چهوٹے چهوٹے گر بنتے ہيں

۔جہاں ايک کونے ميں چولها سلگتا ہے ايک کونے ميں پاني کا گهڑا رکها ہے اور ہر طانچے ميں شيشہ ہے کهنگهي

ہے اور سيندورکي ڈبيہ ہے کهاٹ پر نهنا بچہ سو رہا ہے، الگني پر کپڑے سوکہ ہيں، ان چهوتے چهوٹے الکهوں کڑوڑوں گهروں کو باننے والي عوتوں رہے

کي ساڑهياں جنہيں ہم ہندوستاني کہتے ہيں يہ عورتيں جو ہمارے پيارے پيارے بچوں کي مائيں ہيں، ہمارے بهولے بهائيوں کي عزيز بہنيں ہيں، ہماري معصوم

نچا نشان ہيں، محبتوں کا گيت ہيں، ہماري پانچ ہزار سالہ تہذيب کا سب سےاووزير اعظم صاحب يہ ہوا ميں جهولتي ہوئي ساڑهياں تم سے کچه کہنا چاہتي ہيں، تم سے کچه مانگتي ہيں، يہ کوئي بہت بڑي قيمتي چيز نہيں تم سے نہيں

۔مانگتي ہيں

يہ کوئي برا عہدہ،کوئي بڑي موٹر کار، کوئي پرمٹ کوئي ٹهيکا کوئي ے طالب نہيں ہيں، يہ تو زندگي کي بہت ہي پراپرٹي،يہ ايسي کسي چيز کي تم س

چهوٹي چهوٹي چيزيں مانگتي ہيں، ديکهئيے يہ شانتا بائي کي ساڑهي ہےجو اپنےبچپن کي کهوئي ہوئي دهنک تم سے مانگتي ہے، يہ جيونا بائي کي ساڑهي

۔ہے جو اپني آنکه کي روشني اور اپني بيٹي کي عزت مانگتي ہے ے گيت مر چکے ہيں اور جس کے پاس اپنے يہ ساوتري کي ساڑهي ہے جس ک

بچوں کے اسکول کيلئے فيس نہيں ہے، يہ لڑيا ہے جس کا خاوند بے کار ہے اور جس کے کمرے ميں ايک توتا ہے جو دو دن سے بهوکا ہے، يہ نئي دلہن کي

ساڑهي ہے جس کے خاوند کي زندگي چمڑے کے پٹے کي قيمت سے بهي کم ڑي ہے، جو بندوق کي گولي کو ہل کي پهال ميں ہے، يہ بڑي بهنگن کي الل سا

تبديل کرنا چاہتي ہے تاکہ دهرتي سے انسان کا لہو پهول بن کر کهل اٹهے اور ۔گندم کے سنہرے خوشے ہنس کر لہرانے لگيں

ليکن وزيراعظم صاحب کي گاڑي نہيں رکي اور وہ ان چه ساڑيوں کو نہيں ديکه ے گئے، اسلئے اب ميں آپ سے کہتا سکے اور تقرير کرنے کيلئے، چوپاٹي چال

ہو کہ اگر کبهي آپ کي گاڑي ادهر سے گزرے تو آپ ان چه ساڑهيوں کو ضرور ديکهئے جو مہا لکشمي کے پل کے بائيں جانب لٹک رهي ہيں، اور پهر آپ ان رنگا رنگ ريشميں ساڑهيوں کو بهي ديکهيں جنهيں دهوبيوں نے اسي پل

۔کايا ہےکے دائيں طرف سوکهنے کيلئے لٹ اور جو ان گهروں سے آئي ہيں جہاں اونچي اونچي کمپنيوں والے يا کارخانے والے يا اونچي اونچي تنخواہ پانے والے رہتے ہيں، آپ اس پل کے دائيں بائيں

دونوں طرف ديکهيں اور پهر اپنے آپ سے پوچهئيے کہ آپ کس کي طرف جانا کيلئے نہيں کہہ رہا ہوں، ميں چاہتے ہيں، ديکهئيے ميں آپ سے اشترا کي بننے

Page 37: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

37

آپ کو جماعتي جنگ کي تلقين کر رہا ہوں، ميں صرف يہ جانتا ہوں، کہ آپ مہا ۔۔۔۔۔۔لکشمي کے پل کے دائيں طرف ہيں يا بائيں طرف

پياسا زرينہ کو اس لئے پسند تها کہ وہ زرينہ ۔نواب بڑا تريال اور زنخا سا لونڈا تهاوہ دوسرے لوگوں کي طرح ۔ کر صبر کرليتا تهاکے ہاتهوں سے پٹ کر رو دهو

۔بوريا بستر بانده کر رخصت نہيں ہو جاتا تها اور وہ بہت دبال تها اور بہت ۔اس کے گندمي چہرے پر چيچک کے داغ تهے

اور سمجه ميں نہ آتا تها جو تها وہ کهاتا تها کہاں جاتا ہے اس کي آواز ۔کهاتا تهاہ کهڑا ہوتا تها تو کبهي سيدها کهڑا نہيں ہوسکتا جب و۔ميں ہلکي سے تتالہٹ تهي

کسي ديوار يا کسي دروازے سي لگ کر نيم دراز حالت ميں يوں کهڑا ہوتا ۔تهاتها کہ پاؤں فرش پر گهسيٹ رہے ہيں سر بائيں طرف لٹکا ہوا ہے تو کولها دائيں

کي نواب۔ايک ہاته ماتهے پر ہے تو دوسرے سے پيٹه کهجا رہا ہے۔نکال ہوا ہےانہي کي طرح وہ ۔عورتوں کي طرح ہاته ہال ہال کر بات چيت کرنے کا شوق تها مگر باہر کے کام ۔فقرے چبا کے چٹا کرکے يا ربڑ کي طرح کهينچ کے بولتا تها

اس لئے اپني تمام مضحکہ خيز اداؤں اور غمزدوں کے ۔ميں بہت ہو شيار تها سے غائب تها اور نواب کو گهر کا باورچي تين دن۔باوجود قابل برداشت تها

کچن ميں کام کرنا پڑ رہا تها حاالنکہ اس صرف اوپر کے کام کيلئے رکها گيا اس ۔زرينہ لڑکيوں کے کالج ميں پڑهانے جاتي تهي، ميں اپنے دفتر جاتا تها۔تها

۔لئے اگر نواب کهانا نہ پکائے تو کون پکائے اور اس سے مشکل مسئلہ يہ تها۔اور کب؟ يہاں کسي کو فرصت ہي ميسر نہ تهيباورچي کون ڈهونڈے

نواب کو جب تين دن اور کچن ميں بينگن بگهارنا پڑے اور لہسن کي چٹني پيس کر کهڑے مسالے کا قورمہ تيار کرنا پڑا تو اس کي ساري تتالہٹ اور نسائينت

مردوں کو طرح بڑے کرخت اور جهجالئے ہوئے لہجے ميں بول ۔ختم ہوگئي ہم آپ کے لئے ايک ۔ ہم کو ايک دن کي چهٹي دو۔ے نہيں ہوتاپڑا صاحب ہم س

۔باورچي ڈهونڈ کے الئے گا کوئي باورچي ہے تمہاري نظر ميں، زرينہ نے اس کي جهجهالہٹ پر مسکرا کر

۔پوچها کچن سے باہر آکر نواب کو جو ٹهنڈي ٹهنڈي ہوا کے جهونکے لگے تو اس کے

اسے گهر کي مالکن کي مسکراہٹ جو مزاج کي نسائيت پهر ابهرنے لگي اس پر آپ نے ايک کندها اوپر اچکايا اور دوسرا نيچے کيا باياں ۔ملي اور بهي پهيل گئے

کولہا اندر کي طرف جهکايا، داياں کولہا ذرا سا باہر نکاال اور اپنے دونوں ہاته ادا سے ملتے ہوئے بولے اب الئيں گے، کہيں نہ کہيں سے آپ کے لئے

Page 38: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

38

۔باورچي ے اپنے ديدے گهماتے ہوئے باورچي کا مسئلہ ايک پراسرار سياسي راز نواب ن

جي ۔کي طرح همارے سامنے کچه اس طرح پيش کيا کہ جي جل کے کباب ہوگياچاہا سالے کو کو دوں جهانپڑاور اس کي ساري اتراہٹ نکال دوں مگر ضرورت

ہ کو نہ زرين۔ اور باورچي ڈهونڈنے کي فرصت مجهے نہ تهي۔باورچي کي تهي۔ ديني پڑيیاس لئے نواب کو ايک دن کي چهٹ

ميں اپنے کمرے ميں بيزار بيٹها ہوا تها ملجگي صبح ۔ايک دن کے بعد اتوار تهاکبهي کبهي ۔کي نيلي نيلي روشني ميں اپنا سر خود ہي ہولے ہولے دبا رہا تها جب تک دباؤ نہيں۔مجهے اپنا سر ٹوته پيسٹ کے ٹيوب کي طرح معلوم ہوتا تها

کچه نلکتا نہيں اتنے ميں کيا ديکهتا ہوں کہ نواب دونوں ہاتهوں سے دروازے کي تهامے گردن ايک طرف لٹکاے نيم باز آنکهوں سے مجهے ديکه رہے یپٹہم باورچي لے آئے۔۔۔۔وہ ہنس پڑے۔۔۔۔۔ميں۔ميں۔ہيں

۔ميں نے ڈپٹ کر پوچها۔کدهر ہے یبازوں دروازے کي پٹنواب خائف ہو کر زرا سے سيدهے ہوئے اپنے دونوں

پهر ذرا پيچهے ہٹ کر کسي اور کو راستہ دے کر ۔اتار کر اپني کم رپر رکه لئے۔بولے، اندر چلے آؤ

کاال دبال پتال کرنجي آنکهوں واال آدمي اندر آيا، عمر کوئي پينتيس برس کي چهوٹي چهوٹي کرنجي آنکهيں تنگ ی چهوٹے چهوٹے کالے ہونٹ چهوٹ۔ہوگي

لجهے ہوئے گال اندر دهنسے ہوئے، دانتوں کي ريخوں ميں پان کا ماتها، بال پر کہيں بال رہ گئے تهے، عجب یبهورا ميل نماياں شيو کے باوجود ٹهوڑ

۔کراہت سي محسوس ہوئي ۔تم باورچي ہو ميں نے اس سے پوچها

۔جي کيا نام ہے تمہارا؟

۔اوم پر کاش اسے بگيم صاحب ۔کہا پهر نواب سے ۔ميں نے اسے سر سے پاؤں تک ديکها

۔وہ ديکه ليں اور چاہيں تو رکه ليں۔کے پاس لے جاؤ اور دم ۔دوپہر کے کهانے ميں شاہجہاني قورمہ اور شملہ مرچ ميں بهرا قيمہ تها

مٹر پالؤ اور رائتہ اور دو طرح کا ميٹها شاہي ٹکڑے اور ۔کئے ہوئے آلو تهےے والي ميں نے خوش ہو کر صيح ذائق۔وردهي حلوہ ہر چيز عمدہ اور نفيس تهي۔کہا اوپ پر کاش کهانا تم ٹهيک پکاليتے ہو

اوپ پرکاش، زرينہ ميري طرف حيرت سے ديکه کر بولي مگر اس کا نام تو اشتياق ہے؟

ميں نے باورچي کي طرف ديکها ، جو ايک کونے ميں دونوں ہاته اپني ناف پر ۔يکه رہا تهارکهے کهڑا تها اور مجهے ديکهنے کي بجائے زمين کو د

۔کيوں بے تم نے مجهے اپنا نام غلط کيوں بتايا، ميں نے باورچي سے پوچها صاحب آپ کے کمرے ميں آيا اور آپ کو ديکها تو ايسا لگا کہ شايد آپ ہندو ۔بوال

Page 39: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

39

ہيں تو ميں نے آپ کو اپنا نام اوم پرکاش بتايا، پهر ميں بيگم صاحب کے کمرے سے وہ مسلمان ہيں تو ميں نے ان کو اپنا نام اشتياق ميں گيا تو مجه کو ايسا لگا جي

۔بتاديا مگر بے وقوف ، تم اک کمرے ميں اوم پرکاش اور دوسرے ميں اشتياق کيسے

۔ہو سکتے ہو صاحب ايک گهر ميں اوم پرکاش تو دوسرے گهر ميں ۔دلي ميں ايسا کرنا پڑتا ہے

اس نے کسي قدر شکايت مانگتا ہے صاحب، یپيٹ روٹ۔۔۔۔۔۔۔اشتياق بتانا پڑتا ہےلہجے ميں کہا، اور اس کے لہجے سے يہ بهي معلوم ہوتا تها جسيے شکايت اس امر کي نہيں ہے کہ اسے اپنا نام غلط کيوں بتانا پڑا بلکہ اس بات کي ہے کہ پيٹ

۔روٹي کيوں منگتا ہے اگر گرميوں کے دن تهے دوپہر ميں جب حبس بڑهنے لگا، تو ميں گهبرا کر

گهما کر معلوم کيا کہ شاور یہانے کے لئے باته روم ميں جا گهسا ٹونٹدوبارہ نخراب ہوچکا ہے نواب کو آواز دي تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے تلوؤں ميں تيل چڑها

چوک ميں جاگرا منشي ۔رہا ہے، اشتياق بهاگا بهاگ آيا، ميں نے اس سے کہا۔شاور خراب ہے۔پلمبر کو بالؤ

شتياق بوالا۔يں ٹهيک کئيے ديتا ہوں ۔تم

۔وہ سر جهکا کر بڑي عاجزي سے بوال، جي ميں پلمبنگ کا کام بهي جانتا ہوں ۔پانچ منٹ ميں اس نے شاور ٹهيک کرديا

زرينہ نے نواب کو ۔شام کو بجلي کا پيڈسٹل پنکها جو صحن ميں خراب ہوگياہذا ل۔آواز دي تو معلوم ہوا کہ وہ ابهي دوپہر کي نيند سے فارخ نہيں ہوا ہے

اشتياق کو باليا گيا اور اس سے کہا گيا کہ وہ چوک ميں پنکهے والے کے پاس چال جائے اور اپنے سامنے پنکها درست کرا کے الئے، بہت گرمي ہے آج تو

رات بهر صحن ميں پنکها چلے گا اشتياق نے گہرے تجسس سے پنکهے کا ي ناف پر رکه معائنہ کيا معائنہ کرنے کے بعد اس نے اپنے دونوں بازو اپن

۔بوال حضور ميں يہ پنکها ٹهيک کرسکتا ہوں۔لئے ۔ميں نے اس سے پوچها۔کيا تم پنکهے کا کام بهي جانتے ہو

سر جهکا کر بوال جي بجلي کا کام بهي جانتا ہوں، پنکها فت کرليتا ہوں، ابهي ۔کرکے دکهاتا ہوں

و نئي نظروں ڈيڑه گهنٹے ميں پيڈ سٹل فين فرفر چلنے لگا ميں نے اشتياق کآخر ميں اکڑ کر کچه سميت کر کچه دبککر کچن ميں چال ۔ وہ کچه مسکرايا۔سے۔گيا

۔چکن کاٹو تو اندر برياني ملتي ہے۔رات کو کهانے ميں رام پوري چکن تها چکن چاٹ کها لو تو اندر انڈوں کا ۔برياني ہٹاؤ تو اند رچکن چاٹ نظر آتي ہے

ش کے ساته عجيب بهول بهلياں قسم کي ڈش خاگينہ ملتا ہے اور بادام اور کشم مگر ستهري اور مزےدار ميں نے ايک روپيہ انعام ديا تو جهک کر سات بار ۔تها

Page 40: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

40

۔کورنش بجاالئے بولے آپ نے انعام ديا ہے يہ ہے بندے پر اکرام ۔ارے ميرے منہ سے نکال

۔ميں شاعر بهي ہوں ميرا تخلص تنہائي ہے۔جي ہاں سر جهکائے کر بولے طبعيت شاعروں سے بہت الجهتي ہے سنا ہے ہر وقت پان کهاتے رہتے ميري

پهر اگلے ۔ہيں اور شعرا اگلتے رہتے ہيں پہلے جي چاہا آج ہي جواب دے دوں ۔بيس روز ميں معلوم ہواکہ حضرت بيس بائيس دوسرے پيشے بهي جانتے ہيں

سامان بهي لکڑي کا ٹوٹا پهوٹا۔ مونڈهے ٹهيک کر ليتے ہيں۔کرسياں بن ليتے ہيں سينما کے گيٹ کيپر ۔ کيونکہ بڑهئي کا کام بهي سيکها ہے۔ٹهيک کرليتے ہيں۔بهي رہ چکے ہيں کهلونوں ۔ٹهيال کهينچا ہے۔ کے ہاں بهي کام کيا ہےیپنواڑ۔گنڈ يرياں بيچي ہيں

سالئي سے لے کر دهالئي تک ۔کي فيکڑي ميں کام کيا ہے حجام يہ رہ چکے ہيں بڑے عمدہ مالشے ۔ہ ور کي حيثيت سے پرکه چکے ہيںکے سب مراحل يہ پيش

کن ملئے بهي ہيں اور چاٹ بنانا بهي ۔بهي ہيں، سر کي چمپي کے استاد ہيں زرينہ کو ان کي ۔جانتے ہيں اور سب سے بڑي يہ بات کہ انتہائي کم خوراک ہيں

عادت بہت بہاگئي ہے کيونکہ وہ نواب کي اشتہا سے عاجز رہتي ہے اس لئے ۔ دهيرے دهيرے گهر کا سارا کام اشتياق کو سونپ ديااس نے

دو ماہ ميں اشتياق کا سکہ گهر ميں جم گيا اس طرح بهاگ بهاگ کے کام کرتا تها کہ نواب اور بهي کاہل اور ناکارہ ہوتا گيا اور ميں نے ديکها کہ اشتياق بهي يہي

ہوگا مگر کچه چاہتا تها عمر ميں نواب اشتياق سے سترہ اٹهارہ برس چهوٹاتهوڑے ہي عرصے ميں نواب اشتياق سي ايسا سلوک کرنے لگا جيسے وہ مالک

ہو اور اشتياق اس کا غالم ہو، پہلے ت وميں يہ سمجها کہ يہ سب کچه جذبہ احسان مندي ميں ہو رہا ہے اور بعد ميں خيال آيا ممکن ہے اشتياق نواب پر

۔ دل گردے کي بات ہےعاشق ہو گيا ہو حاالنکہ نواب پر عاشق ہونا بڑے اس کے لئے ضروري ہے کہ عاشق کي آنکهوں کي بينائي بہت کمزور ہو جس کي سماعت تقريبْا نہ ہو اور کوئي لطيف جذبہ دل ميں نہ ہو، بعد ميں معلوم ہوا

کہ ميرا يہ خيال بهي صيح نہ تها اشتياق نہ نواب کو اپنا محسن سمجهتا تها اور نہ دوسروں کهالنے کا مرض تها اور دوسروں کو کهال اس پر فريفتہ تها بس اس

چونکہ وہ خود کم کهالتا تها ۔پالنے ميں اک عجيب سي خوشي محسوس کرتا تهااس لئے وہ اپنے حصے کي خوراک بهي نواب کو منتقل کرديتا، ہمارے بعد اس

پہلے اسے کهالتا اور پهر خود ۔کے لئے سالن کا بہترين حصہ محصوص کرديتاے ہولے نواب نہ کام ميں دلچسپي لينا بالکل ختم کردي کسي بڑي بي کي کهاتا ہول

طرح ايک کهٹيا پر آکر پڑا رہتا اور ميں نے ديکها کہ اشتياق اس کي فرضي بيماري بڑها چڑها کر بيان کرنے ميں بڑا مزا ليتا تها اور اسے کهٹيا پر مستقل

ا اور پهل سگريٹ اور آرام کرنے کا مشورہ ديتا اس کے لئے بازار سے دوا التبيڑي کے پيسے بهي خود ديتا کبهي کبهي ايک آده بش شرٹ اور پاجامہ پتلون

هولے هولے اشتياق کي تنخواہ کا بيشر حصہ نواب پر خرچ ہونے ۔بهي سال ديتا۔اور نواب اپني تنخواہ کي کل رقم بچا کر ماں کو علي گڑه بهيجنے لگا۔لگا

Page 41: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

41

هايا اسے اپني تنخواہ جمع کرنے کے فائدے زرينہ نے کئي بار اشتياق کو سمجسمجهائے مگر اشتياق پر اس کے سمجهانے بجهانے کا کوئي اثر نہ ہوا مسکرا

۔ کهاليتا ہے تو کيا کرتا ہے۔ بيگم صاحبہ بچہ ہے۔کر بوال دوسروں ۔ زرينہ چٹ کر اسے کہتي۔ارے تم اپنے لئے بهي کچه کر لو کم بخت

۔کے لئے کيوں مرتا ہے بهائي ۔ اشتياق گردن جهکا کر جواب ديتا۔گے پهيچے کون ہے بيگم صاحبميرا آ ۔ سب بهرت پور سے فسادوں ميں مادے گئے۔ باپ نہيں۔ ماں نہيں۔بہن نہيں۔نہيں

۔ميرا سينہ ہر وقت خالي خالي سا رہتا ہے کچه دنوں بعد نواب کي ماں کا خط علي گڑه سے آيا اس نے نواب کے لئے ايک

غفور ۔ دو ماہ بعد شادي تهي ماں اسے بال رہي تهي۔ تهيلڑکي ٹهيک کرلي ہم بهي ۔سائيکل واال جس کے ہاں دہلي آنے سے پہلے نواب کے لئے تيار ہوگيا

اندر سے بہت خوش تهے کيونکہ اب تو تقريبا مفت کي کهاتا تها ورنہ سارا کام کے بعد زرينہ نے بهي طے کرليا تها نواب کے جانے۔اشتياق نے سنبهال ليا تها

دوپہر کے کام کے لئے کسي کو نہ رکهے گي اشتياق کي موجودگي ميں کسي ۔دوسرے نوکر کي ضروت نہيں تهي

زرينہ بولي نواب کي شادي ہورہي ہے اب تو بهي شادي کر لے، اشتياق ميں ۔تيري بيوي کو رکه لوں گي، مجهے ايک مالزمہ کي ضرورت ہے

اق کچه چڑ سا گيا اس کي بهنويں تن گئيں شادي کے نام پر ميں نے ديکها کہ اشتيں ڈولنے لگيں اور اس کے چهوٹے سے ہونٹ يتنگ ماتهے پر بالوں کي لٹ

مگر وہ کچه نہ بوال سر جهاکا کر کهانے کہ کمرے ميں سے باہر ۔پهڑکنے لگےنکل گيا اس کے جانے کے بعد نواب کے چہرے پر ايک عجيب سي مسکراہٹ

کر بڑي رازداري سے بوال ارے صاحب يہ کيا آئي کهانے کي ميز کے قريب آشادي کرے گا اس کي بيوي تو اسکو شادي کے دوسرے دن ہي چهوڑ کر بهاگ

۔گئي تهي ۔کيوں؟زرينہ نے پوچها

۔معلوم نہيں بيگم صاحب يہ کچه بتاتا تو ہے نہيں چند منٹ بعہ ہم لوگ کهانا کها کر صحن ميں ہاته دهونے کے لئے آئے تو ديکها

کچن ميں ميلے برتن اور راکه کا ڈهير اپنےسامنے رکه کر خال ميں اشتياق آنکهيں کسي نا معلوم جذبے سے بهيگ ی چهوٹیگهورہا ہے اور اس کي چهوٹ

۔کر تار سي چمک رہي تهيں، مجهے اشتياق ميں دلچسپي پيدا ہوئي اسکے جانے پر ۔آٹه دس روز بعد نواب نے علي گڑه جانے کا پروگرام بنايا

ق چپکے چپکے بہت رويا، اس کي آنکهيں سرخ تهيں اور ہونٹوں کے اشتيامگر زبان سے اس نے کچه نہيں کہا، اس نے ۔کونے بے طرح پهڑکتے تهے

نواب کے لئے سفري ناشتہ تيار کرليا، حاالنکہ صرف ڈهائي گهنٹے کا سفر تها مگر قيمے کے پراٹهے اور سرخ مرچوں کا اچار اور آلو کا بهرتا اور بيسنيروٹي مکهن کي ايک گولي وہ نواب کي بهوک سے واقف تها خود اپنے خرچ

۔ اس لئے ہم شکايت بهي کرسکتے تهے۔سے اس نے نواب کا ناشتہ تيار کيا تها

Page 42: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

42

وہ خود نواب کے لئے اسکوٹر لے آيا اس کا سامان اسکوٹر پر رکها اور اسے ۔پراني دلي کے اسٹيشن پرگاڑي ميں سوار کراکے واپس آيا

دن تک اس طرح مضطرب اور بے چين پهرتا رہا، جيسے اس کا گهر لٹ گيا دو کهانے کا معيار ايک دم گر گيا ۔ہو اور وہ کسي اجاڑ ويرانے ميں گهوم رہا ہو

تها، قورمہ اس کے جذبے کي طرح تلخ تها اور قليہ اتنا پتال جيسے کسي نے اس ل اور بے ہنگي اور ان پر کي ساري اميدوں پر پاني پهير ديا ہو، چپاتياں بے ڈو

جگہ جگہ مايوسي کي راکه لگي ہوئي تهي وہ دو دن تک ہم نے کسي نہ کسي طرح صبر کرکے کهانا زہر مار کيا اور يہ سوچ ليا کہ اگر معاملہ يوں ہي چلتا

۔رہا تو اشتياق کے جواب دينا پڑے گا اور اب ۔ا اليامگر وہ دو دن بعد اشتياق سنبهل گيا کہيں سے وہ ايک بلي بچہ اٹه

وہ بلي کا بچہ اشتياق کي توجہ کا مرکز بن گيا گهر کا کام کرنے کے بعد وہ اپنا اب بلي کے بچے کو ديتا تها اور ۔سارا وقت جو اس سے پہلے نواب کو ديتا تها

اپني تنخواہ کا کافي حصہ بلي کے لئے دودہ اور گوشت پر خرچ کرنے لگا اور اور اس کے عشوے و ۔ نواب سے کچه کم نہيں تهايوں ديکها جائے تو بلي کا بچہ

نخرے بهي نواب سے کم نہ تهے اور وہ اتنا ہي اتريال تها اور ويسے ہي ادائيں دکهاتا تها اور دو دن ميں اشتياق سنبهل گيا اور کهانے کا اور کهانے کا معيار بهي ٹهيک ہوتے ہوتے پهراپني اصل حالت پر آگيا اور ہم لوگوں نے چين کا

۔انس لياس کيونکہ وہ اپني دانست ميں سب کچه جانتا ۔اشتياق کسي کام کو ناں نہيں کرتا تها

تها يہ کسي شيخي خورے کي عادت نہ تهي اس قدر احساس کہ مجهے يہ کام ۔بهي کرکے دکها دينا چاہئيے اسے اپنے ذاتي وقار کے تحفظ کا بہت خيال تها

اسے ہر کام کو پورا کرنے اور ايک عجيب سي لگن تهي اس کے دل ميں جوکے لئے اکساتي تهي چاہے وہ اسے جانتا ہو يا نہ جنتا ہو کئي دنوں سے ريڈيو

خراب پڑا تها اور چونکہ ميں ريڈيو کا کام اچهي طرح جانتا ہوں اس لئے زرينہ نے مجهے کئي بار ٹهيک کرنے کے لئے کہا مگر دفتر کي طويل جهک جهک

و کهولنے اور يس قدر تهک جاتے ہيں کہ ريڈکے بعد ذہن اور جسم دونوں ا۔ٹهيک کرنے کي ہمت کہاں سے الئيں؟ ميں يہ کام آج اورکل پر ٹالتا رہا

ايک دن دفتر سے جو آيا تو ديکها ڈرائنگ روم کے ايک کونے ميں پورا ريڈيوکهال پڑا ہے اور اشتياق گهبرائي ہوئي حالت ميں اس کو ٹهيک کرنے کي

ميں نے ۔ ہوئي رونکهي ہو رہي ہےیزرينہ قريب کهڑکوشش کر رہا ہے اور اشتياق نے ۔آنکهوں کے اشارے ہي اشارے ميں پوچها کيا بات ہے؟ زرينہ بولي

کہا تها ميں يہ ريڈيو ٹهيک کر دوں گا اور تمہيں کئي دن سے فرصت نہيں مل وہ ڈہائي گهنٹے سے يہ کام۔ اس لئے ميں نے اشتياق کا کام پر لگا ديا۔رہي ہے۔ حاالنکہ تم نے بتايا تها کہ معمولي سا نقص ہے۔کر رہا ہے

اشتياق اپنے چهوٹے سے ماتهے پر بال گرائے ۔ميں معاملے کي نزاکت سمجه گيامجه سے آنکهيں چرائے ريڈيو پر کام کر رہا تهے صاف معلوم ہوتا تها کہ ريڈيو

Page 43: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

43

ٹ پڑا تها ميں کهول تو ليا ہے مگر اب جوڑنا نہيں آتا پهر چہرے پر پسينہ پهونے زرينہ کو باہر بهيج ديا اور خود اشتياق کے ساته کام کرنے ميں مصروف

ہوگيا، مگر ميں نے اشتياق کو بهي محسوس نہيں ہونے ديا کہ مجهے معلوم ہے کہ اسے يہ کام نہيں آتا، بلکہ ميں نے اس طريقے پر کام آگے بڑهايا جسيے ہر

زرينہ بہت ۔ بهر ميں ريڈيو ٹهيک ہوگيا گهنٹے۔کام اشتياق کي مرضي ہورہا ہےخوش ہوئي اس نے اشتياق کو دو روپے انعامديا مگر چند دنوں بعد پهر اشتياق

۔ کيا تم رس گلے بنا سکتے ہو؟۔کي شامت آئي، زرينہ نے کہيں اس سے پوچها ۔ اشتياق فورْا بولے۔جي ہاں

ايک دن بنا کے دکهاؤ؟۔آج کي رات ہي کو بناؤں گا

۔هانے کے بعد دير تک اشتياق کچن ميں کچه کهڑ پڑ کرتا رہارات کے ک انگهيٹي سے دير تک دهواں سلگتا رہا، منہ ميں بيڑي جلتي رہي، ماتهے کے بال ۔الجهتے رہے اور کچن کي زرد روشني دير تک صحن ميں اپنا سر ٹپکتي رہي

کوئي ايک بجے کے قريب کچن کي بتي بجهي اور اشتياق نے دوسرے دن صبح ناشتے ميں برف کے ٹهنڈے رس گلے تازے اور عمدہ گالب کي خوشبو سے

۔مہکتے ہوئے پيش کئے ۔زرينہ نے حيرت سے پوچها۔يہ رس گلے تم نے بنائے ہيں

اشتياق دروازے سے لگ کر نظريں جهکا کر پاؤں سے ۔جي اسي خاکسار نے۔فرش کريدنے کي کوشش کرتے ہوئے بوال

۔زرينہ نے تعريف کرتےہوئےکہا۔ے ہيںبالکل بازار کے سے معلوم ہوت ۔ سيدهي بازار سے الئے گئے ہيں۔ ميں نے کہا۔يہ ہي تو ان کي خوبي ہے

۔اشتياق نے زور سے احتجاج کيا۔جي نہيں بولي تو آج ۔اس کے احتجاج کي شدت ديکه کر زرينہ کا شبہ اور بهي بڑه گيا

۔رات ميرے سامنےرس گلے بناؤ، ميں خود ديکهوں گي ۔ت اچهاجي بہ

اشتياق نے رس گلوں کے سلسلے ميں ايک فہرست پيش کي ج منظور کر دي سر شام زرينہ نے ان کے ۔گئي دوپہر ميں بہت دير تک اشتياق بازار ميں رہے

جهولے کي تالشي لي کہ کہيں وہ رس گلے بازار سے نہ لے آئے ہوں، رات کو ا کاروبار کچن ميں کهانے کے بعد اشتياق نے بڑے اہتمام سے رس گلے بنانے ک

پهيال ديا زرينہ نے گهر اندر سے بند کرکے تاال لگاديا اور ہر پندرہ بيس منٹ کوئي دو بجے کے قريب جب نيند کا غلبہ ہونے ۔بعد کچن ميں جهانک ليتي تهي اشتياق ايک تاب ميں رس گلے لے کر آئے ۔لگا تو رس گلے تيار ہوگئے

کو گوليوں سے بهي دو تہائي کم حجم کهانڈ کے معطر شيرے ميں فينائل ۔تهے زرينہ چيخي ارے يہ رس گلے ہيں بکري ۔کي سفيد سفيد گولياں تير رہي تهيں

کي مينگني کے برابر؟ديکهئے سمجهئيے بيگم صاحب اور يہ رس گلے ابهي چهوٹے ۔ابهي چهوٹے ہيں

۔ہيں مگر رات بهر شيرا پئيں گے، صبح کو پهول کر پورا رس گال ہوجائيں گے

Page 44: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

44

۔شتياق نے سمجهاياا

صبح ۔زرينہ کو يقين نہ آيا مجهے مگر نيند کا غلبہ شديد تها اس لئے ہم سو گئےجب ناشتے پر پورے حجم کے بڑي گوالئي کے سفيد رس گلے کهانے

کسي طرح يقين نہ آتا تها کہ رات کو کونين کي گولياں کے برابر حجم ۔کوملے مگر رات بهر کونے جاگے ۔هےوالے رس گلے پهول کر اس قدر بڑے ہوگئے ت

اور کون چوکيداري کرے؟ اشتياق ضرور صبح صبح بازار سے رس گلے خريد مگر اب کيا ۔الئے ہوں گے اور ات کي گولياں انہوں نے نالي ميں بہا دي ہوں گي

ہو سکتا ہے؟جو شخص اپنے ذاتي وقار کي خاطر رات بهر جاگ سکتا ہے اور روں کو رس گلے کهال سکتا ہے محض اپني جيب سے پيسے خرچ کرکے دوس

۔اپني صات کي اہميت جتانے کے لئے اس سے الجهنا بے کار ہے جوں جوں بلي کا بچہ بڑا ہوتا گيا، اشتياق کا جذبہ اور بڑهتا گيا، جند ماہ ميں

ہمارے سامنے ايک خوبصورت بلي صحن ميں گهومتي تهي، جس کے بال ميٹهي سرگرميوں ميں خرخر کرتي مکهن کي طرح مالئم تهے جو ايک انتہائي

تهي، اور جب گردن نيوڑها کے آنکهيں جهپا کے اشتياق کي طرف ديکهتي تو وہ گل کو تهلي ی تهي بهي قيامت کي حرافہ، موٹ۔بے چارہ دل تهام کے رہ جاتا تها

سي، کبهي دهيرے دهيرے مٹء مٹک کر چلتي، کبهي ايک دم چنچل ہو کر ے کندهے پر جا کر بيٹه جاتي اور پيار سے اس کي چهالنگ لگاتي اور اشتياق ک

کبهي اون کا گولہ بني ہوئي پانتي بيٹه کر دهوپ کا مزا ليتي ۔گردن چاٹنے لگتيکبهي اس کي باہوں ميں پوري طرح پهيل کر بيٹه جاتي، عورت کي پوري

سپردگي کے ہزار انداز ميں کبهي شرير تغافل، ادا سے ايک مست انگڑائي ليتي، ب اشتياق ايک عجيب مسرت اور حسرت سے اس کي طرف ديکهے اور جاشتياق نے اس کا نام گلشن رکها تها، مگر پيار کي اہميت ميں اسے صرف ۔لگتا

۔گلو کہہ کر پکارتا تها ايک دن ميري غير حاضري ميں اشتياق نے رزينہ کے بيڈ روم ميں دستک دي

کے باوجود اپنے سڑيوں کے دن آچکے تهے اس لئے رزينہ صبح ختم ہونے ۔کون ہے زرينہ نے پوچها۔نائٹ گون ميں ملبوس ايک سوئيٹر بن رہي تهي

۔ميں ہوں اشتياق ۔ زرينہ بولي۔اندر آجاؤ

کاغذ پنسل لئے ہوئے اشتياق جهکتے جهکتے ہوئے انتہائي مودبانہ انداز ميں دروازے سے لگ کر کهڑا ہوگيا، پهر اس نے چپکے سے کاغذ اور پسنل آگے

۔ديا اور بوال لکهئيےبڑها ۔کيا کل کا حساب ابهي نہيں، بعد ميں ديکهوں گي۔زرينہ بولي ۔ں ہےيحساب نہ

پهر کيا ہے؟۔اشتياق بار بار کاغذ پينسل آگے بڑها رہے تهے۔آپ لکهئيے تو آخر ہے کيا؟

Page 45: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

45

۔ايک غزل کے تين شعر ہوئے ہيں ں ہنسي پهوٹنے زرينہ چند لمحوں کے لئے بهونچکي رہ گئي، پهر اس کے دل مي

تم خود نہيں لکه سکتے؟۔لگي اور مسکرا کر بولي ۔جي نہيں ميں نہ لکه سکتا ہوں نہ پڑه سکتا ہوں

۔ زرينہ نے فقرہ مکمل کيا۔مگر شعر کہہ سکتے ہو کہے زرينہ نے زچ ہو ۔جي ، جي بالکل کہہ سکتا ہوں، آپ لکهئيے ميں بولتا ہوں

۔کر کہا ۔يں اور ايک عجيب محويت کے عالم ميں بوالاشتياق نے اپني آنکهيں بند کرل

تنہائي ميرا کام ہے گلشن تيرا نام ہے جو ہو سو ہو ہم مرتي ہيں تہه پر تو ڈرتي ۔ہے مجه سے جو ہو سو ہو

۔مگر اس کي بحر کيا ہے؟ زرينہ نے پوچها ۔ بہر حال غزل تو غزل ہے۔بحر؟ اشتياق نے حيرت سے آنکهيں کهول کر پوچها

۔زرينہ نے پهر توجہ دالئي۔نمگر اس کا وز بڑي وزني غزل ہے بيگم صاحب آپ لکهئيے تو اشتياق نے کامل دل جمي سے

۔کہا اشتياق نے پهر ۔بڑي مشکل سے زرينہ نے اپني ہنسي روکي بولي آگے چلئے

۔آنکهيں بند کر ليں اور گہرے مراقبے ميں جا کربولے ۔تيري جدائي ميں ہوئے ہم مست فگار جو ہو سو ہو

۔تا ہے تنہائي اب گلشن ميں کون آيا جو ہو سو ہوکہ ۔ کہتا ہے تنہائي، مگر تنہائي تو مونث ہے۔زرينہ نے پوچها

۔مگر تنہائي تو ميرا تخلص ہے اور ميں مونث ہوں، اشتياق نے سمجهايا ۔اس کے چہرے پر کچه ايسي مسکراہٹ تهي، جيسے وہ کہنا چاہتا ہو

۔ آپ کيا جانيںاجي بيگم صاحبہ يہ شعر و شاعري ہے ۔زرينہ نے پهر پوچها۔اور يہ مست فگار کہاں کي ترکيب ہے تنہائي صاحب

۔ اشتياق نے جواب ديا۔ہمارے مراد آباد ميں ايسا ہي بولتے ہيں زرينہ نے ايک دم کا غذ اور پينسل بيڈ روم کي کهڑي سے باہر پينک دئيے گرج

ر سنايا تو کهڑے کهڑے کو بولي اشتياق آجکے بعد تو نے مجهے اپنا کوئي شعگهر سے باہر نکال دوں گي، اشتياق کهسيا کر سر کهجانے لگے بے حد محجوب

زرينہ کو اس پر رحم آگيا جرم لہجے ۔اور شرمندہ سے دکهائي دے رہے تهےميں مسکراکر کہنے لگي ميرے خيال ميں اگر آپ شعر و شاعري چهوڑکر ناول

۔نگاري کي طرف توجہ کريں تو بہتر ہوگا کيا نام ہے اس ناول کا؟

اشتياق انگريزي ميں بولے۔۔۔۔الئف اينڈ کک اشتياق کي انگريزي ايسي تهي جيسے پرانے زمانے ميں ان باورچيوں کي ہوا

يا آج کے ان مزدوروں کي ۔جو انگريزوں کے پاس کام کيا کرتے تهے۔کرتي تهيہ انگريزي جو ان پڑه ہونے کے باوجود ٹيکنيکل دهندوں ميں پڑ جاتے ہيں ي

بڑي مختصر اور جامع ہوتي ہے اور بالعموم مصدر کي محتاج نہيں مگر اپنا

Page 46: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

46

مفہوم ادا کرنے ميں اس کي انگريزي سے کہيں بہتر ہوتي ہے جسے آج کے ۔طالب علم ميٹرک تک پڑهتے ہيں

ايک دن جب اشتياق ميرے سر کي چمپي سے فارغ ہو چکا ت ميں نے اس سے جانتے ہو، اگر تم کوئي ايک دہندا پکڑ کر بيٹه جاتے کہا تم اتنے سارے دهندے ۔تو غالبْا بہت ترقي کر جاتے

اشتياق ايک چهوٹے سے ۔صاحب ميرا کسي کام ميں زيادہ دير تک جي نہيں لگتاتوليا سے اپنے ہاته صاف کرتے ہوئے بوال سال چه ماہ ايک دهندا کيا پهر

تهيس برس گزر گئے باقي دوسرے ميں چال گيا، اسي طرح زندگي کے پينتيس چ۔بهي گزر جائيں گے

تو تم کسي ايک دهندے ميں جي کيوں نہيں لگاتے؟ميں نے پوچها اشتياق سر جهکا کر کسي اقبالي مجرم کي طرح شرمندہ ہو کر ۔جي نہيں لگتا

۔بوال ۔ميرا سينہ ہر وقت خالي خالي سا رہتا ہے

کر بڑي بڑي آنکهوں سے دروازے پر گلو تشريف الئيں اور وہ منہ اٹها۔مياؤںاشتياق کي طرف ديکهنے لگي اشتياق نے اسے گود ميں اٹهاليا اور اس کے

۔بالوں پر دهيرے دهيرے پهيرتے ہوئے بوال، گلو بهوکي ہے اس دوده دے آؤں جبکہ وہ خود ۔اشتياق پر کبهي کبهي ذہني عشق کے لمبے لمبے دورے پڑتے ہيں

جانے کيا سوچتا ۔کچن ميں غائب بيٹها رہتا تهاگهنٹوں اپنے خيالوں ميں ڈوبا ہوا ہے، خود ہي مسکراتا ہے خود ہي گهورتا ہے خود ہي سلگنے لگتا ہے، کبهي

کيا گزرتي ہے اس پر وہ کون سا ۔کبهي منہ ميں کيا جانے کيا بڑ بڑا نے لگتا ہےکرب ہے جو اسے اندر ہي اندر کهائے جاتا ہے کون جانے کچه بتاتا تو ہے نہيں

بهي کبهي نشہ بهي کرتا ہے قياس غالب ہے جب دل کي گهٹن اور سينے کا کسونا پن حد سے آگے بڑهنے لگتا ہے تو کوئي نشہ ضرور کرسکتا ہے، اور دو

دن کے بعد جب وہ ہوش ميں آجاتا ہے تو اصرا کرتا ہے کہ ، دن نہ بدلہ نہ چپ رہتے ہيں ، اور ہم بهي اس لئے ۔تاريخ بدلي ہے نہ اس نے کوئي نشہ کيا ہے

اپنے کام کا اور فن ۔يہ کام بہت اچها کرتا ہے ماہر ہي نہيں آرٹسٹ بهي ہے۔کاروں کے دماغ کي ايک چول ڈهيلي ہوتي ہي ہے، يہ سب جانتے ہيں

اس لئے کبهي کبهي ايسا ہوتا ہے اس سے کہا حيدر آبادي بينگن بنائے اور وہ ي طرح پتال تها اور اس لے آئے،کچه عجيب سي ڈش، جس ميں شوربہ پاني ک

۔ميں بينگن کے کالے کالے ٹکڑے مرے ہوئے چوہوں کي طرح تير رہے تهے ۔يہ حيدر آبادي بينگن ہيں، زرينہ چيخ کر پوچهتي ہے

بالکل نئي ڈش ہے کها کے ۔اشتياق کہتا ہے۔جي نہيں يہ چائنا ٹاؤن ہے۔سمجهئيے چکهئيے بالکل نيا مزا ہے۔ديکهئے

ميں گرج ۔ ابهي اسے يہاں سے ورنہ سر پر دے ماروں گااٹها کر لے جا ابهي۔کر کہتا ہوں، کيونکہ اس کو ديکه کر ہي جي متلي ہونے لگا تها

اس وقت تو اشتياق ڈش اٹها کر لے گيا مگر بعد ميں اس نے زرينہ سے

Page 47: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

47

صاحب بهي کيسي نہ انصافي کرتے ہيں چکهے بغير ناپاس کرديتے ہيں ۔کہا۔کهانے کو

قليہ بہت عمدہ پکاتا ہے، ايک دفعہ گهر پر مخصوص مہمانوں کي اشتياق موتياشتياق سے موتي قليہ پکانے کي فرمائش کي گئي جب دستر خوان ۔دعوت تهي

بچها تو منجملہ دوسري کي چيزوں کے ايک نہايت بد بودار اور سڑي ہوئي ڈش ۔سامنے آئي

۔ زرينہ نے حيرت سے پوچها۔يہ موتي قليہ ہے ۔ق فورا بولے يہ پيسٹ ہےاشتيا۔جي نہيں

کہا تها کہ نہيں زرينہ خفا ہو ۔تمہيں موتي قليہ تيار کرنے کو کہا تها۔پيسٹ کيا ۔کے بولي

جي موتي قليہ بگڑ گيا اس لئے ميں نے نئي ڈش تيار کر دي ہے، اشتياق کي يہ عادت اب ہميں معلوم ہو چکي تهي، کہ جب کوئي سالن بگڑ جاتا ہے تواسے فوراْ

اور ڈشکے بگڑنے کا يوں تزکرہ ۔م دے کر دستخوان پر پيش کر ديتے ہيںنيا ناکرتےہيں، جيسے کسي اعلي خاندان کالڑکا خود بخود بگڑ جائے اور اس کے

۔بگاڑنے ميں ان کا کوئي ہاته نہ ہو اب کيا کہيں چند ايسے مہمانوں کي دعوت تهي جب کے سامنے بے تکلف نہ

اشتياق سے بے تلکف ہونے کا تها مگر مہمان ہوسکتا تها ورنہ آج ميرا ارادہ ۔موجود تهے، اور دوسرا سالن بے حد عمدہ تهے اس لئے خاموش ہونا پڑا

دوپہر کے کهانے کے بعد ہم مہمانوں کو لے کر ميٹني شو ديکهنے چلے گئے اور چلتے چلتے زرينہ نے اشتياق کو رات کے کهانے کے متعلق ہدايات دے

ے بعد جن ہم شام کو واپس ہوئے تو ديکها کہ گهر کے ديں، ميٹني شو يکهنے کباہر فائر برگيڈ کهڑا ہے، بہت سے لوگ جمع ہيں اور کچن کي چمني اور چهت

اور کهڑکيوں دهوئيں کے بادل اٹه رہے تهے، آگ آگ ميرا گهر بچاؤ، لينڈ الڈ ۔زور زور سے چال رہا تها

اشتياق کہاں ہے؟ ميں نے پوچهاڈ اپنے سر کے بال نوچتے ہوئے بوال ايک گهنٹے سے چيخ رہا لينڈ ال۔کيا معلوم

ہوں،اور وہ دروازہ ہي نہيں کهولتا، اور اندر کچن ميں شايد نشہ کرکے بے ہوش ۔پڑا ہے

اشتياق بے حد حيرت ۔ميں اور زرينہ دونوں نے چال کر درازہ اشتياق سے کهلوايادونوں انگهيٹيوں پر زدہ کچن سے نکلے اور دهواں ديکه کر پلٹے اور کچن کي

پاني ڈال کر بهجانے لگے دونوں پتيليوں کے سالن جل چکے تهے مگر خدا جانے ان ميں اس نے کون سا مساال ڈال تها کہ دهوئيں کہ گہرے سياہ بادل اب

۔آگ آگ لينڈ الڈ غصے ميں چال رہا تها۔تک ان کي پتيليوں سے اٹه رہے تهے گاکدهر ہے آگ؟ اشتياق حيرت سے پوچهنے ل

يہ بے چارے ايک گهنٹے سے چيخ رہے ہيں، دورازے پيٹ رہے ۔زرينہ بوليہيں اور تمہيں کچه پتہ ہي نہيں فائر برگيڈ تک آگئي اور کچن کا دروازہ بند کئے

۔غافل بيٹهے ہو

Page 48: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

48

اشتياق سب لوگوں کو متوجہ ديکه کرچونکہ شرمندہ ہو کر سر کهجانے لگا ايک ۔بحث چل رہي تهي۔ےانگلي اپني کهوپڑي پر رکه کر بول

۔تم يہاں اکيلے بيٹهے ہو۔کيسي بحث؟ زرينہ کا پارہ چڑہنے لگا ۔کورٹ کا مقدمہ تها

کيا مقدمہ؟آبائي مکان کا مقدمہ تها ميرے اور چچا زاد بهائي لطيف کے درميان وکيل

۔استغاثہ اور وکيل صفائي کے درميان بحث ہو رہي تهي ۔زرينہ کا غصے سے پارہ چڑهنے لگا۔يکدهر ہے وکيل استغاثہ اور وکيل صفائ

خود ہي کورٹ ہوں، خود ہي مدعي، ۔ميں خود ہي دونوں طرف سے وکيل ہوں۔ اشتياق نے بتايا۔ خود ہي جواب ديتا تها۔خود ہي مدعاليہ، خود ہي بحث کرتا تها

۔زرينہ نے دانت پيس کر کہا۔مگر يہاں کہاں بحث چل رہي تهي ۔اور سر جهکا ليا۔ر انگلي رکه کر کہايہاں اشتياق نے اپني کهوپڑي پ

عمدہ باورچي ہونے کے باوجود اس ۔زرينہ کا دل اشتياق سے ہٹنے لگا، ميرا بهيادهر اشتياق سے زيادہ اس کي بلي ۔کي خامياں اب جان ليوا ثابت ہونے لگے

ميں دراصل اشتياق کي وجہ سے اس سے بے ۔گلشن نے مجهے عاجز کرديا کيونکہ اشتياق نہيں رکهنا چاہتا تها کہ اس کے سوا کوئي ۔ااعتنابي تو نہ برتتا ته

دوسرا اسکو توجہ دے مگر غالبا گلشن کويہ بات پسند نہ تهي وہ مجهے بهي اپنے مداحوں کي فہرست ميں شامل کرنے پر مصر تهي وہ ايک بار وہ ايک

کمرے ميں اٹهالئي هوئيں آئيں مگر ميں نے شش کرکے بهگا ديا پهر ميري غير دراصل سوئي نہ تهي ۔حاضري ميں ايک بار وہ ميرے بستر پر چڑه کر سو گئيں

سونے کا بہانہ کر رہي تهي وقت بهي گلشن نہ وہ چنا جوميرے دفتر سے آنے کا تها، مقصد يہ تها کہ ہم تمہارے بستر پر چڑه کر کے سوئيں گے اور تم اسے

يں گے يعني جس برداشت کر گئےتو دوسري بار تمہارے سينے پر چڑه کر سوئقدر ميں بے اعتنابي دکها رہاتها اسي قدر وہ مجهے اپنے قريب النے پر مصر

اس وقت ميں نےجو انہيں بستر پر سوئے ہوئے ديکها تو غصے ميں آکر ۔تهيںانہيں دم سے پکڑا اور بستر سے نيچے پهينک ديا بے حد خفا ہو کر غرائيں اور

کا بدلہ گلشن نے يوں ليا کہ جهال کر کمرے سے باہر چلي گئيں مگر اسدوسرے دن دفتر سے جو آيا تو کيا ديکهتا ہوں کہ ميرے کمرے ميں سمبل کي رشميں روئي کے دونوں تکئيے ادهيڑ پڑے ہيں اور گلشن انہيں پنجے مار مار

۔کر نوچ رہي ہے اور سمبل ہوا ميں اڑ رہي ہے ود ہي مدعي، خود ہي کورٹ ہوں، خ۔ميں خود ہي دونوں طرف سے وکيل ہوں۔ اشتياق نے بتايا۔ خود ہي جواب ديتا تها۔خود ہي مدعاليہ، خود ہي بحث کرتا تها

۔زرينہ نے دانت پيس کر کہا۔مگر يہاں کہاں بحث چل رہي تهي ۔اور سر جهکا ليا۔يہاں اشتياق نے اپني کهوپڑي پر انگلي رکه کر کہا

رچي ہونے کے باوجود اس عمدہ باو۔زرينہ کا دل اشتياق سے ہٹنے لگا، ميرا بهيادهر اشتياق سے زيادہ اس کي بلي ۔کي خامياں اب جان ليوا ثابت ہونے لگے

Page 49: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

49

ميں دراصل اشتياق کي وجہ سے اس سے بے ۔گلشن نے مجهے عاجز کرديا کيونکہ اشتياق نہيں رکهنا چاہتا تها کہ اس کے سوا کوئي ۔اعتنابي تو نہ برتتا تها

گلشن کويہ بات پسند نہ تهي وہ مجهے بهي دوسرا اسکو توجہ دے مگر غالبا اپنے مداحوں کي فہرست ميں شامل کرنے پر مصر تهي وہ ايک بار وہ ايک

کمرے ميں اٹهالئي هوئيں آئيں مگر ميں نے شش کرکے بهگا ديا پهر ميري غير دراصل سوئي نہ تهي ۔حاضري ميں ايک بار وہ ميرے بستر پر چڑه کر سو گئيں

ہي تهي وقت بهي گلشن نہ وہ چنا جوميرے دفتر سے آنے کا سونے کا بہانہ کر رتها، مقصد يہ تها کہ ہم تمہارے بستر پر چڑه کر کے سوئيں گے اور تم اسے

برداشت کر گئےتو دوسري بار تمہارے سينے پر چڑه کر سوئيں گے يعني جس قدر ميں بے اعتنابي دکها رہاتها اسي قدر وہ مجهے اپنے قريب النے پر مصر

اس وقت ميں نےجو انہيں بستر پر سوئے ہوئے ديکها تو غصے ميں آکر ۔يںتهانہيں دم سے پکڑا اور بستر سے نيچے پهينک ديا بے حد خفا ہو کر غرائيں اور

جهال کر کمرے سے باہر چلي گئيں مگر اس کا بدلہ گلشن نے يوں ليا کہ ں سمبل کي دوسرے دن دفتر سے جو آيا تو کيا ديکهتا ہوں کہ ميرے کمرے مي

رشميں روئي کے دونوں تکئيے ادهيڑ پڑے ہيں اور گلشن انہيں پنجے مار مار ۔کر نوچ رہي ہے اور سمبل ہوا ميں اڑ رہي ہے

صرف ۔مگر وہ ميرا غصہ ديکه کرمنہ سے کچه بول نہيں رہا تها۔پيچهے آنے لگا۔اس کے ہونٹوں کے کونے پهڑکتے رہے اس سڑک پر کئي کهڈے اور ۔ڑا ہوگيابڑي سڑک پر آکر ميں ايک کونے ميں که

گڑهے تهے اور اس پر ان گنت وزني ٹرکوں گهوں گهوں کرتے ہوئے گذرتے تهے، ميں نے ايک ٹرک قريب آتي ہوئے ديکه کر يکايک گلشن کو زور سے

سے جهاليا اور نشانہ باندہ کر گزرتے ہوئے ٹرک کے نيچے پهينک ديا، اشتياق ۔نکليکے گلے سے ايک گهٹي ہوئي چيخ

ٹرک سڑک سے گزر گيا، چند لمحوں تک ايسا محسوس ہوا جيسے گلشن سڑک پر پس کر بهي ليٹي ہوئي پهر يکا يک وہ چونک کر کهڑي ہوگئي اور بجلي کي

سرعت سے چهالنگ لگا کر سڑک پار کرتي ہوئي مخالف سمت ميں چلي گئي وہ ف آنے کي ايک بار اس نے پلٹ کر ہماري طرف ديکها مگر ہمارےگهر کي طر

بجائے، وہ مخالف سمت ميں دوڑتي ہوئي چلي گئي اور پهر ہمارے گهر کبهي ۔نہيں آئي

تين دن تک اشتياق نے انتظار کيا مگر گلشن کہيں نظر نہيں آئي چوتهے دن اس ۔ اور بوال، صاحب ميرا حساب کرديجئے، ميں جانا چاهتا ہوں۔نے سامان بانده ليا

۔رينہ نے پوچهاکيوں، تمہيں کيا تکليف ہے، ز بيگم صاحب جس طرح ۔اشتياق نے مجه سے آنکهيں چرا کے زرينہ سے کہا

۔صاحب نے ميري بلي کے ساته سلوک کيا وہ ميں برداشت نہيں کرسکتا اور وہ جو تمہاري بلي نے ميرے چاليس روپے کے دو قيمتي تکئے پهاڑ ڈالے

۔ميں کہاہيں اس کا ہرجانہ کون دے گا ميں نےغصے ميں بلند آواز زرينہ نےمعاملہ سلجهانے کے خيال سے بولي ارے ايک بلي کي وجہ سے لگي

Page 50: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

50

۔ميں تجهے ايسي دس بلياں ال دوں گي۔لگائي نوکري چهوڑتاہے نہيں وہ تو ميري گلشن تهي، اشتياق کي آواز کمزاور ہو کر لزنے لگي جيسے وہ

۔ابهي رو دے گا

چاہے رکه لينا ميں نے اسے ٹهنڈا ارے گلشن تهيکہ زلفن تهي کہ کريمن جو نام کرنے کي کوشش کرتے ہوئے کہا کہ سينکڑوں بلياں گهومتي ہيں اس عالقے

۔ميں اشتياق نے پهر نظريں چرا کے مجه سے رخ موڑ کر زرينہ کي طرف ہو کر

۔بوال مجهے صاحب سے بڑا ڈر لگتا ہے اب تو ۔ زرينہ نے پوچها۔کيوں

پر پهينک ديا تو مجهے ان کا چہرہ جب صاحب نے گلشن کو اٹها کر سڑک ۔بالکل اپنے باپ کي طرح نظر آيا

۔اپنے باپ کي طرح؟ کيا بکتےہو؟ زرينہ غصے سے بولي اشتياق نے ايک دولمحے توقف کيا پهر گهمبير لہجے ميں کہنے لگا اسي طرح

ميرے باپ نے ايک دن نشےکي حالت ميں مجهے کمرے سے اٹها کر باهر قت ميري عمر چار سال تهي، ميں يقينا مرجاتا مگر سڑک پر پهينک ديا تها اس و

جہاں ميں گرا اس پر ايک بڑا سا گڑها اور ميں اس کے گڑهے ميں سے رات بهر باہر نہ آسکا، اور رات کا وقت تها دو ايک ٹرک پرے پرے گزر گئے پهر

اور ماں دو ہتڑياں مار کر چيخنے لگي يکا يک ميرے ۔شايد ميں بے ہوش ہوگياباپ کو تيش آگيا اور وہ بهاگا بهاگا آيا اور سڑک کے گڑهے سے اٹها کر اپنے

سينے سے لگا کر گه لے گيا اور ميرا منہ چومتا رہا اور زور زور سے روتا رہا اور کبهي ميري ماں اس سے چهين کے اپنے سينے سے لگا ليتي تهي، اور

ليتا تها مگر ميں کبهي ميرا باپ مجهے ميري ماں سے لے کر چهاتي سے لگا جب اس نےمجهے غصے ميں اپنے ۔اس کا وہ چہرہ کبهي نہيں بهول سکتا

ہاتهوں سے اٹها کر سڑک پر پهينک ديا تها بالکل ويسا ہي چہرہ تها اس وقت ميں يہاں ہيں رہوں گا؟۔صاحب ک اس لئے ميرا حساب کردو

عافي مانگ اشتياق ميرے پاؤں کو ہاته لگانے لگا جيسے گستاخي کي مجه سے م۔رہا ہو

۔زرينہ نے اس کا حساب کرديا تين سال بعد جب ہمارا تبادلہ ممبئي ہوا تو وہ ہميں بمبئي ميں مال ہميں ايک گهر

کي تالش تهي اور اشتياق ايک ہاؤس ايجنٹ تها اور اس کا نام اب اللو کرماني تها در کا پاجامہ اور وہ سنگهي تها اور سندهي زبان بڑے فراٹے سے بولتا تها وہ که کا یاور کهدر کا ياک لمبا کرتا پہنتا تها، اور پہلي نظر ميں کسي محلہ کميٹ

کانگريسي بنتا معلوم ہوتا تها يہ کيا ڈهنگ ہيں تمہارے يہاں؟زرينہ نے اپنے ۔دونوں ہاته اٹها کر اس سے پوچها

بلڈنگ کا اکها دهندا سندهي لوگ کے پاس ہے اس لئے ہم بهي سندهي بن ۔ادهر۔گيا، بيگم صاحب کيا کريں پيٹ روٹي مانگتا ہے

Page 51: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

51

۔ميں نے اس سے پوچها۔کوئي بلي ولي پالي رکهي ادهر بهي صاحب ادهر بمبئي ميں جندار ۔آنکهيں جهپکائے ہوئے بوال۔وہ شرمندہ سا ہوگيا

رہنا بهي مشکل ہے ايک ايراني ہوٹل کے مالک نے ترس کها کر ميرا ٹرنک اور ے ميں رکهنے کي اجازت دے دي ہے، رات کو اس کي بستر اپنے باورچي خان

دکان کے سامنے پڑا رہتا ہوں، صبح گيارہ بجے تک اس کي دکان ميں سموسے ۔پهر رام داس ماکي جاني کے دفتر ميں جاتا ہوں۔بناتا ہوں

۔يہ ماکي جاني کون ہے؟زرينہ نے پوچها ۔نٹ ہوںاصل ميں ہاؤس ايجنٹ تو وہ ہي ہے، ميں اس کام کا دوسرا اسسٹ

تم کو کيا ملتا ہے؟ کميشن ملتا ہے؟

کتنا؟ فائيو پرسنٹ ملتا ہے پہلے اسسٹنٹ کو فائيو پرسنٹ ملتا یماکي جاني کو ٹونٹ

۔ہے، اشتياق انگريزي بگهارنے لگے ہم کو ون پرسنٹ ون پرسنٹ؟زرينہ نے پوچها ون پرسنٹ آف واٹ؟

فائيو پرسنٹ آف دي ون پرسنٹ آف دي فايو پرسنٹ آف دي ٹونٹي۔اشتياق بولے۔ہنڈرڈ پر سنٹ

زرينہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئي، اشتياق خود بهي بے حد محظوظ ہوئے آپ کو ايک فليٹ ۔آخر جب زرينہ نے کسي طرح اپني ہنسي پر قابو پاليا تو بولے

۔دے سکتا ہوں ۔کيسا ہے وہ فليٹ

ه روم، ون بيڈ اشتياق انگلي پر کمرے گنواتے ہوئے بولے ون بيڈ روم، ون بات۔روم، مون ون کچن، ون ہال اينڈ سيپرٹيس

۔يہ اينڈ سپير ٹيس کيا بال ہے؟ زرينہ نے پوچها اشتياق نے اس طرح حيرت سے زرينہ کي طرف ديکها گويا ۔بس اينڈ سيپر ئٹس

۔کہ رہا ہو، ايم اے کرنے کے بعد اتني معمولي سي انگريزي نہيں سمجه سکتيں۔صاحب اشتياق نے پهر سمجهايابيگم ۔آپ؟ اينڈ سيپريٹس

اچها تمہارا مطلب ہے آل سيپرٹيس يعني ہر ۔زرينہ يے يکايک سمجه کر کہا۔کمرہ دوسرے سے الگ الگ ہے

بس اينڈ سيپر يٹس اشتياق کے چہرے پر احساس برتري کي ايسي جهلک آئي ۔گويا کہہ رہا ہو افواہ کتني دير سے بات آپ کي سمجه ميں آئي

نے لگي ميں نے بات ٹالنے کي غرض سے کہا، اور بهي کچه کام زرينہ پهر ہنس کرتے ہو؟

۔جي ہاں ايک ٹوته پيسٹ تيار کيا ہے ميري ٹوته پيسٹ ۔يہ ميري کون ہے؟زرينہ نے چونک کر کہا

۔چهوکري ہے۔شرما کر بولے ۔تمہاري منگيتر

ہے، سر ہال کر بولے ہمارے ہوٹل ميں ايک عيسائي بڑهيا کام کرتي۔بهئي نہيں

Page 52: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

52

کوکن کے گاؤں ميں بڈهي اپني چهوکري کي شادي بناتا ۔اس کي چهوکري ہے۔ہے

۔زرينہ نے خوش ہو کر پوچها۔تمہارے سنگ وہ بهي ادهر کوکن ۔نہيں کسي عيسائي چهوکرے کے سنگ، ايلفرڈ اس کا نام ہے

۔کے گاؤں ميں رہتا ہے، مگر بڈهي بہت گريب ہے، اس کے پاس پيسہ نہيں ہےنے ميري ٹوته پيسٹ نکاال ہے اور اس کو شام کے ٹائم ميں جيچتا اس لئے ہم

۔ہے اور اس پيسہ اس کرسچن بڈهي کو ديتا ہے

الو کا جنم کيوں اشتياق؟ روکنے کے باوجود ميري ہنسي ميرے سوال سے باہر ۔چهلکتي پڑتي ہے

اشتياق نے گہري سنجيدگي سے کہا کہ اشتياق کو ۔الو کا جنم اس لئے صاحبهيروؤن کے فراق ميں رات ۔لم کے ہيرو کورات ميں نيند نہيؤ آتي ہےيعني ظ

رات بهر جاگتا ہے اور الو بهي رات کو جاگتا ہے اس لئے بات سمجهئے ذرا ذرا ۔سوچنے کيا گہري حقيقت بيان کيا ہوں

بهاگ ۔زرينہ نے دوپٹا منہ سے نکال کر يکايک چيخ کر کہا۔ارے الو کے پٹهےاتنے مروں ۔۔۔۔۔۔۔چپل اتار کر اتنے ماروں گيجا يہاں سے ورنہ اپني

۔زرينہ چپل اتارنے لگي اشتياق بهاگ کهڑا ہوا۔۔۔۔۔۔گي پہلے وہ صرف ۔اشتياق کا کاروبار ايراني ہوٹل والے کے ہاں خوب چمک گيا

سموسے بناتا تها پهر اس نے ايراني ہوٹل کے مالک کو ڈهرے پر لگا کر اسے سيٹه تمہارے ۔ہت سستے ميں بن جائے گاب۔شاہي ٹکڑے بيچنے کي ترغيب دي

اهر ڈبل روٹي کا کتنا ٹکڑا بے کار ميں پهينکتا ہے ہم اس کو کام ميں الئے گا خالي شکر کا خرچ ہے اور تهوڑي سي باالئي اشتياق نے اسے سمجهايا اور

ايک ريفريجريٹر ميں شاہي ٹکڑا رکهے ۔تمہارے پاس تين تين ريفريجريٹر ہے۔ ٹهنڈا سرو کرے گاگاہک کو ٹهنڈا۔گا

ايراني مان گيا کيونکہ خرچا بہت کم تها اس مٹهائي کا پہلے دن اشتياق نے جو ۔شاہي ٹکڑا بنايا تو وہ دو آنے في ٹکڑے کے حساب سے ہاتهوں ہاته بک گيا

ايسي عمدہ ڈش جس سے پيٹ بهي بهرے اور مٹهائي کي مٹهائي بهي معلوم ہو اب تو يہ حالت ۔ آج تک کاہے کو کهائي تهيايراني ہوٹل ميں بيٹهنے والوں نے

تهي کہ اشتياق کو دن ميں دو بار شاہي ٹکڑے تيار کرنے پڑتے اور بکري بڑهتي ديکه کر ايراني ہوٹل کے مالک نے اشتياق کو اپنے کچن کا ہيڈ کک مقرر

کرديا کچن ميں کام کرنے والے نوکر اشتياق کو استاد جي کہہ کرتے تهے اور اليون ون پرسنٹ آف دي فايو پرسنٹ ۓنا۔ک ميں نے دہرا کر پوچهاہوٹل کا مال

آف دي ٹونٹي فايو پرسنٹ آف دي ہنڈرڈ پرسنٹ؟۔اشتياق نے سر ہال ديا۔نو سر

۔ تم نے تو شاعري ترک کردي ہے۔تو اس فلم کے گانے کون لکهے گا جي اشتياق نے اپنے ہاته کا ناخن دوسرے سے کريدتے ہوئے بولے شاعري تو

ڑ دي ہے مگر اس فلم کے گانے تو مي ہي لکهوں گا، ايک مکهڑا کہا ہے؟چه

Page 53: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

53

کيا؟نگاہيں نيچي کئے آنکهوں کے کونوں سے ڈرتے ڈرتے چور نگاهوں سے زرينہ کي طرف ديکهتے ہوئے بولے، صاحب بات يہ ہے کہ غزل سے بيگم نے ہم کو

ے غزل چهوڑ ديا اس لئے ہم ن۔کہ اس کا وزن بہت بڑا ہوتا ہے۔بہت ڈرايا ديا تهامگر فلمي گيت ہم ديکهتے ہيں کہ اس کا وزن بہت چهوٹاہوتا ہے کيا مطلب کہ

اس لئے ہم ۔اور بيچ بيچ ميں ميوزک ہوتا ہے۔چهوٹے چهوٹے ٹکڑے ہوتے ہيںاس طرح سے چهوٹے چهوٹے ٹکڑے واال؟۔نے فلمي گيت شروع کيا ہے

۔تو سناؤ؟ميں نے بے چين ہو کر کہا ۔ کے گال صاف کيااشتياق نے کهنکار ۔او صنم او صنم ۔ميں نے ليا ۔الو کا جنم ۔تيرے لئے

زرينہ کي بري حالت تهي دوپٹا ٹهونستے ہوئے اس کا چہرہ الل ہوتا جا رہا تها مگر۔بڑي مشکل سے ميں نے اپني ہنسي روکي اور اس سے پوچها د زرينہ نے بے ح۔تاکہ اپني چهوکري کي شادي تمہارے سوا کہيں اور کرسکے

۔تلخ ہو کر پوچها اس ۔ اس کي آنکهوں کي پتلياں جلدي جلدي گهومنے لگيں۔يکايک اشتياق سٹپٹا گيا

کے ہونٹوں کے کونے تيزي سے پهڑکنے لگے اور گال بهي اندر دهنستے گئے جس پر صرف ۔اور اس کا چہرہ ايک ايسي کالي کهوپڑي کي طرح نظر آئے گا

رحم آيا وہ اس وقت زرينہ سے نظريں اسے ديکه کر مجهے بہت ۔کهال منڈي ہوچرا کر يوں چاروں طرف ديکه رہا تها جيسے چاروں طرف سے ديواريں اس پر گر رہي ہوں اور اس کے بيچ نکلنے کا کوئي راستہ نہ ہو ميں نہ جلدي سے

۔ شعر و شاعري جاري ہے۔بات کا رخ پهيرتے ہوئے اس سے پوچها ۔ں نے پوچها کيوں؟مي۔اس نے انکار ميں سر ہال ديا

وہ اپني ۔اشتياق نے بڑے فخر سے اعالن کيا۔اب تو ايک فلمي کہاني لکه رہا ہوں۔گهبراہٹ پر قابو پا چکا ہے ۔ہيرو کون ہے؟ميں نے پوچها ۔۔۔۔۔ ڈبل رول ہے اشتياق اس کا اس پکچر ميں۔آشتياق اپنا نام لے کر بولے

۔اور ولن کون ہے؟ زرينہ نے پوچها ولن کا رول بہت ۔اشتياق سوچ سوچ کر بولے۔ نبها جائےاور شايد دليپ کمار

۔مشکل ہے ۔زرينہ نے ہنسي روکنے کيلے اپنے منہ ميں دوپٹا ٹهونس ليا

۔ميں نے پوچها۔اور ہيروئن ۔اشتياق سنجيدہ ہو کر بولے باہر ديکه رہا ہوں۔فلم انڈسٹري ميں کوئي نہيں ہے

هر اسي کا انگريزي فقرہفلم انڈسٹري ميں کوئي نہيں ہے؟ ميں نے پوچها پ ۔اشتياق کو شاہي ٹکڑے کے مناسبت سے ميرے دل کاٹکڑا کہتا تها

Page 54: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

54

اگر ميں نے کبهي اشتياق کے جسم اور روح پر بہار آتے ہوئے ديکهي ہے تو وہ اس کے کلے بهرنے لگے اور کالے رخساروں پر صحت اودا پن ۔يہي دن تهے

جو اس کي آنکهوں ميں ہر وقت چهلکنے لگا اور وہ کشتياں اس کي پتليوں کي اب بمبئي کے ساحل پر لنگر ۔بے چين اور مضطرب ہو کر تيرتي رہتي تهي

اس کے قريب کوئي ۔ڈالتي معلوم ہوتي تهيں جہاں اشتياق نے ہميں مکان دلوايا تها يہ چوک کے نکڑ پر سامنے ۔ايک فرالنگ کے فاصلے پر وہ ايراني کا ہوٹل تها

۔ قريب ہي ايک نئي مارکيٹ کهل گئيٹيکسيوں کا اڈا تها اور

بوٹ پالش کرنے ۔صبح سے شام تک اس ايراني ہوٹل ميں بڑي بهيٹر رہتي تهيوالے اور پان بيچنے والےاور بهيل پوري کي چاٹ بيچنے والے اور آس پاس

کے گهروں اور بنگلوں کے نوکر اور چاکر اور کالجوں کے ٹيڈي بوائز اور کام الے بے کار اور آوارہ گرد لونڈے جو کالج کي لڑکيوں کي تالش ميں گهومنے و

ان سب کا جهمگٹا اس ہوٹل ميں اندر اور باہر ۔ڈي معلوم ہوتے ہيںيسے زيادہ ٹ۔رہتا تها اور اس ہوٹل ميں اشتياق بہت پاپولر ہوگيا تها

آتے جاتے ميں اسے ديکهتا تها سہ پہر تک وہ اپنے ملکجے کپڑوں ميں کبهي هي کچن کے باہر مستعدي سے کام کرتا دکهائي ديتا کوئي چار کچن کے اندر کب

بجے کے قريب وہ نہا کر دهو کر گيروے رنگ کا بنگالي کرتہ اور اس کے نيچے کهلے پائنچوں واال پاجامہ اور چپل پہن کر ايراني ہوٹل کے باہر آکر کهڑا

ڈے اس وقت اس کام کي تالش ميں آئے ہوئے ادهر ادهر کے بہت سے لون۔ہوتا۔گهير ليتے تهے

وہ ادهر ادهر کے بنگلوں اور فليٹوں ميں ان لڑکوں کو نوکر کرا ديتا کيونکہ ہاؤس ايجنٹ کا اسسٹنٹ ہونے کي وجہ سے آس پاس کے بلڈنگوں ميں اس کي

خاصي جان پہچان تهي جن لونڈوں کو وہ نوکري نہ دلوا سکتا، انہيں دوسرے دن هر بيڑي لگاتا کر النڈي کے مالک سے باتيں پ۔آنے کا مشورہ ديتا، پهر چال جاتا

جس کے لئے وہ ايک نہايت ہي ۔کرتا جو اس کا ہم وطن تها يعني مراد آباد کا تها۔عمدہ اور نہايت ہي سستي قسم کا ايسا صابن بنانا چاہتا ہے

جس ميں خرچا بہت کم آئے اور کپڑے بهي بہت عمدہ دهل جائيں مگر اشتياق النڈي سے فارغ ہو کر وہ اپنے ہاؤس ۔کامياب نہيں ہوا تهاابهي اپني ايجاد ميں

ايجنٹ کے ہاں چال جاتا يا نئے گاہکوں کو لے کر مکان دکهانے کے لئے چال جاتا، رات کو نو دس بجے فارغ ہو کر ايراني ہوٹل ميں کهانا کهاتا اور پهر ايک

رچي کے کپ چائے پي کر اور پهر بيڑي سلگا کر اور پان کها کر وہ سنتو باو۔جهونپڑے ميں جاکر سو رہتا کيونکہ اب وہ بڑا آدمي ہو گيا تها

اب وہ ايراني ہوٹل کے باہر نہيں سو سکتا سنتو باورچي کا جهونپڑا بارهويں نمبر اور اس کي بيوي ۔ايک سڑک کے پيچهے ايک چهوٹے سے خالي پالٹ پر تها

ں ميں گئي ہوئي بچہ ہونے کے باوجود اپنے ميکے ٹيڑهي گڑهوال کے کسي گاؤ۔تهي اور کہيں چار ماہ کے بعد واپس آنے والي تهي ۔سنتو نے استاد جي سے کہا۔تن اشتياق سنتو کے جهونپڑے ميں رہ سکتا ہے

Page 55: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

55

شاہي ٹکڑوں کي روز افزوں بکري ديکه کر ميں نے اندازہ لگايا ہے اب اشتياق جب ۔ئياس لئے مجهے دو ماہ بعد بڑي حيرت ہو۔کے قدم يہاں جم جائيں گے

۔ايراني ہوٹل کے مالک نے مجهے بتايا کہ اس نے اشتياق کو نکال ديا ہے ۔کيوں؟ميں نےپوچها کوئي غبن کيا ہے ۔ايراني ہوٹل کا مالک بوال۔ں کياينہيں آج تک ايک پيسے کا غبن نہ ۔پهر کيا کام ميں گڑ بڑ کرتا تها

۔نہيں؟کام اشتياق بہت اچها کرتا تها ۔۔۔۔پهر

ے مال نے کچه کہنے منہ کهوال اور پهر جلدي سے بند کرليا، پهر ايراني ہوٹل کايک ٹهنڈي سانس بهري اور بوال اس کا بهيجا پهريال ہے ہم اس کو ستر روپيہ

۔پگار ديتا تها وہ پگار بهي اس نے خرچ کرديا ۔اوپر سے پانچ سو کپ چائے اور دو سو سالئس کا بل ہوگيا

اشتياق تواتنا پيٹو ۔ميں نے حيرت سے کہا۔پانچ سو کپ چائے اور دو سو سالئس۔ وہ تو بہت ہي کم خوراک کهاتا تها۔کبهي نہ تها

ہم جانتا ہے اس لئے تو ہم بولتا ہے ايراني ہوٹل کا مالک خفاء ہو کر بوال وہ خود ں پيتا يپانسو تو کيا سات سو کپ پي جاتا تو ہم اسکو منع نہيں کرتا مگر وہ خود نہ

کار اور لفنگے لونڈي لوگ کو ادهر ادهر آجو باجو کي ادهر ادهر بے۔تهابلڈنگوں ميں نوکري بنانے کے لئے آتا ہے وہ ان کو بهوکے پيٹ ديکه کر چائے

پالديتا تها صاحب ہم جب منع کرتے تو کہتا ميرے حساب ميں لکه دينا لو اب پانسو چائے اور دو سو سالئس کا بل ہوگيا ہے اس کو کس کے حساب ميں

۔اس لئے ہم اس کو نکال ديا۔ گالکهے ايک ڈبيا ۔ايراني کے آگے پيسے گنتے ہوئے رکهتے ہوئے کہا۔بہت اچها کيا۔کيونڈر کي دو

دو ۔ايراني نے ميرے پيسے گنتے ہوئے کہا۔عجيب مغز پهيريال ہے اس آدمي کا۔پيسے کم ہے

کہہ کر ميں نے جيب ميں ہاته ڈاال کر اسے دو پيسے اور دئيے اور ۔ساري۔تو آج کل اشتياق کہاں ہے۔کيونڈر کي ڈبيا لے کر اس سے پوچها

۔جيل ميں ہے تم نے اس بيچارے کو ۔جيل ميں؟ميں حيرت سے ايراني کي طرف ديکهنے لگا

جيل بهيجواديا؟ شراب کي اسمگلنگ ۔صاحب وہ تو کرني سے گيا ہے۔ہم نے کہاں پهنچايا ہے

۔کے دهندے ميں مگر ہمارا باورچي سنتو اپنے خالي ٹائم ميں يہ ۔يہ دهندا نہيں کرتا صاحب۔اچها

ايراني ۔دہندا کرتا تها اور ادهر ادهر کي بالنگوں ميں رات کو باٹلي پہنچاتا تهاچه باٹلي پکڑا گيا ۔پهر ايک رات پوليس نے اس کے جهونپڑے پہ چهاپہ مارا۔بوال

رکها تها تو اشتياق بوال کہ سنتو بے گناہ ہے ميں نے چه بوتل ادهر شراب الکے۔اس واسطے اشتياق کو تين مہينے کے سجا ہوگئي ہے

Page 56: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

56

اس نے ايسا کيوں بول؟تين مہينے کي سجا چٹکي بجا کے کاٹ ۔ہمارا کيا کام ہے ہم اکيال آدمي ہے۔وہ بوال

لے گا، مگر جب سنتو کي گهر والي اپنے بچے کو لے کر اس کے چهونپڑے ۔يميں آئے گي تو جالي جهونپڑا ديکه کر روئي گ

بهيجا پهيريال ہے اس کا؟۔ايراني ہوٹل کا مالک اپنے سر پر انگلي رکه کہ بوالزرينہ کو خيال آيا کہ جيل سے رہا ہوتے ہي اشتياق ہمارے گهر آئےگا ليکن جب

تين ماہ سے اوپر کئي دن گزر گئے اور اشتياق نہ آيا تو اسے کچه مايوسي سي نے سوچا کہ اشتياق ہمارے گهر مايوسي مجهے بهي ہوئي پهر بهي ميں ۔ہوئي

نہيں آئےگا تو ممکن ہے ادهر ادهر ايراني ہوٹل کے باہر ضرور دکهائي دے گا معلوم ہوا کہ اس کے ہاں بهي نہيں ۔سنتو باورچي سے پوچها ۔پر ادهر بهي نہيں

پهر دونوں نے سوچا ممکن ہے اشتياق مارے شرم کے يہ عالقہ چهوڑ گيا ۔آياجب دو ڈاهئي ماہ اور گزر گئے تو اشتياق ۔باہر چال گيا ہويا بمبئي سے کہيں ۔ہو

۔نہ آيا تو ہمارا يہ خيال پکا ہوگيا

پهر ايک روز ہم نے يکايک اسے ايک دعوت ميں ديکها، سردار زور آر خان کے ہاں ہماري دعوت تهي، جن کي بيوي نصرت ميري بيوي کي خاص سہيلي

کهاتے ہي سمجه گئے تهے کہ ہم نے تو کهانے کے شروع کے دو لقمے۔تهيں لقمہ چکهتے ہي ميں نے زرينہ اورزرينہ نے ميري طرف ۔يہ کس کا اسٹائل تها

چونک کر ديکها مگر ہم دونوں چپ رہے کهانے کے بعد جب دعوت کي تعريفيں ہونے لگيں تو کچن سے خراماں خراماں اشتياق بر آمد ہوئےکالي پتلون کے اوپر

ر بهورے رنگ کا ايک ميال ايپرن پہنے ہوئے اور الل بش شرٹ اور اس کے اوپسر جهکائے کو کورنش بجا التے ہوئے، شاعروں کے انداز ميں داد بٹورنے

۔لگے نہ ميں نہ زرينہ نے اس وقت انہيں پہچانا مناسب سمجها اشتياق نے بهي اس وقت

۔ہمارا ريہ سمجه کر مکمل اجنبيت اختيار کي ۔بہت اچها کک مل گيا ہے۔لے جا کر بتايابعد ميں نصرت نے زرينہ کو الگ

مجهے اشتياق احمد خان نام ہے اس اپني طرف کا ہے قاضي خيل کا پشتو بہت اچهي بول ليتا ہے حاالنکہ بچپن ہي سے ادهر رہا ہے، پهر کهانا غضب کا پکاتا

ميرے کچن کا ۔ہے، کچن ميں بڑي بچت سے کام ليتا ہے، جب سے يہ آيا ہےوپے کم ہوگيا ہے پورے ڈهائي سو روپے سنتي ہو؟ ميں اس کو خرچ ڈهائي سو ر

۔صرف ستر ديتي ہوں حاالنکہ سو بهي دو تو سستا رہے گا ۔آدمي شريف معلوم ہوتا ہے۔زرينہ انجان بن کر بولي نصرت اشتياق کي تعريف کرتے ہوئے بوليں ميرے ۔۔۔۔ارے شريف اسيا شريف

چهوٹے بچے نجو کو تو دل و بچوں پر تو جان چهڑکتا ہے او ميرے سب سے جان سے چاہتا ہے کوئي سگمي ماں اس کي کيا خدمت کرے گي جيسي وہ نجو

ميں نے کہا ۔کي کرتا ہے ابهي چار دن کي بات ہے کہ نجو موٹر مانگ رہا تهاالدوں گي، ميں ٹال رہي تهي کيونکہ گهر ميں دو کهلونے موٹر کے پہلے ہي

Page 57: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

57

۔ذرا پرنے ہيں تو کيا ہوا۔پڑے ہيں يہ موا اشتياق دس روپے کي موٹر ۔نصرت زرينہ کا ہاته پکڑ کر وشي سے بولي

۔ميرے نجو کے لئے لے آيا ۔تو ميں نے غصے سے جهالکر کہا ميں تو اس موٹ رکے پيسے نہيں دوں گي

بيگم صاحب ميں تو اپنے پيسوں کي موٹر اليا ہوں، نجو ۔تو موا بوال نہ ديجيئےگا گرج کر بولے تم کو کس نےکہا تها، نجو کے کے لئے، اس پر وہ غصے سے

پهر بولے سر ۔لئے موٹر النے کو تو اشتياق پہلے تو ان کي گرج سن کر سہم گيااٹها کر بوال، صاحب ميں نجو کا کہنا نہيں ٹال سکتا،جو کہيں گے ضرور الؤں

اس نے ايسے مضبوط لہجے ميں ان سے بات کي کہ ان کا سارا غصہ اتر ۔گااتے ہوئے ايک طرف کو سرک گئے ميں بهي کيا بولتي بہن؟ چپ مسکر۔گيا

۔ہوکر سروتے سے سپاري کاٹنے لگي مگر اس نے ۔زرينہ خاموشي سے مسکرا مسکرا کر نصرت کي باتيں سنتي رہيں

ايک دفعہ بهي نہيں بتايا کہ وہ اشتياق کو جانتي ہےکہ نہيں نہ اگلے ايک سال وہ ہم کو جانتا ہے ، ہم نےسوچا کہ بے ميں اشتياق نے ايک بار بهي بتايا کہ

چارہ جہاں لگا ہے لگا رہے اس کي خامياں بتانے ے کيا فائدہ؟ اور خان صاحب کے ہاں رہ کر اشتياق بہت ٹهيک ہوتا چال گيا، ماتهے پر بال نہيں لٹکتے تهے،

کپڑے صاف ستهرے پہنتا تها، شعر و ۔ذہني طور پر بہت کم غائب رہتا تها دن بهر يا تو کچن ميں رہتا يا خان صاحب کے بچوں ۔ردي تهيشاعري ترک ک

کي ديکه بهال کرتا حاالنکہ ان کي ديکه بهال کے لئے دو آيائيں الگ سے مقرر اتنے گهر کے کسي ۔تهيں، مگر بچے جس قدر اشتياق سے مانوس ہوگئے تهے

ل تو ميں نے اور زرينہ نے سکه کا سانس ليا، چلو اشتياق نارم۔مالزم سےنہ تهے۔ہوا

ايک رات زور کي گهنٹي بجي کوئي تين بجے کا وقت تها ميں نے گهبرا ر ۔دروازہ کهوال سردار زور آور خان کا ڈرائيور حامد خان تها

۔بيگم صاحبہ نے گاڑي بهيجي ہے۔حضور جلدي چلئے ۔کيا بات ہے حامد؟ ميں نے پوچها

۔اشتياق نے زہر کهاليا ہے ۔ارے ميرے منہ سے نکال

گهر پر ۔اور خان صاحب پونا ميں ہيں۔صاحب اشتياق نے زہر کها ليا ہےہاں بيگم صاحب کے دو بهائي ہيں مگر ان کي سمجه ميں نہيں آتا کہ کيا جائے،

بيگم صاحب نے مگر وہ بولے يہ پوليس کيس ۔ڈاکٹر مقصود کو ٹيلي فون کيا تها۔ہے ميں نہيں آسکتا اور اشتياق مر رہا ہے

ے کهڑي تهر تهر کانپ رہي تهي لرزتے ہوئے لہجے ميں زرينہ ميرے پيچه۔بولي تم جلدي سے چلے جاؤ، بے چاري نچرت سخت پريشان ہوگي؟

خان صاحب کے ڈرائنگ روم ميں عين مرکز ميں فرش پر سر سے پاؤں تک اور نصرت اور ان کے بهائي بہن اور ۔ڈهکي ہوئي ايک الش رکهي ہوئي تهي

کيا مر گيا؟۔ے سم بکم کهڑے تهےگهر کے دوسرے مالزم حيرت س

Page 58: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

58

۔ميے منہ سے بے اختيار نکال ۔ ايک آيا آہستہ سے سسکتے ہوئي بلي۔نہيں ابهي تو زندہ ہے

ميں نے چادر ہٹا کر نبض ديکهي سينے کے زيرو بم ميں نرخرے کي گهر نصرت ايک بهوري شال اوڑهے دنيا و ۔گهراہٹ تهي، اور نبض ٹوٹ رہي تهي

۔ آنکهوں سے چاروں طرف ديکه رہي تهيیهٹي پهٹفہيما سے بے نياز پ ۔کب اس نے زہر کهايا؟ ميں نے نصرت سے پوچها

نصرت کچه نہيں بولي جيسے اس نے ميرا سوال سنا تک نہ ہو، نصرت کا چهوٹا بهائي بوال،کوئي دو بجے کے قريب ميں نے اپنے بستر کے قريب کسي

نجهوڑ رہا تها جب جاگا تو کي آواز سني اور کوئي آہستہ آہستہ سے مجهے جهمعلوم ہوا اشتياق ہے وہ باورچي خانے سے رينگتا ميرے کمرے ميں پہنچا تها

۔اور مجه سے کہہ رہا تها ۔ ميں نے زہر کهاليا۔مجهے بچا ليجئيے کون سا زہر؟۔ميں نے پوچها

۔ٹک ٹو۔بوال ۔ٹک ٹو کيا

ت تهي وہ کيا کہنا اور آوازميں لکن۔اس کي زبان لڑکهڑا رہي تهي۔ٹک ٹو ٹک ٹو ليکن اس کے منہ سے حرف نکلنا تها صرف ٹک ٹو پهر وہ یک ٹونٹيچاہتا تها ٹ

ميري چارپائي سے لگ کر قے کرنے لگا ميںنے مزيد داستان سننابے کار سمجه کر فورا کہا اسے اٹها کر نيچے گاڑي ميں فورا ڈال کر اسپتال لے جائيں

گے؟

۔مگر پوليس، نصرت کانپ کر بولي نزديک کا اسپتال کون سا ہے۔۔پوليس کو وہيں سے اطالع کرديں گے ميں نے کہا

۔جانا وتي ۔يہاں سے کتني دور ہوگا

۔کوئي چار ميل ۔جلدي کرو

جس وقت چار آدميوں نے مل کر اشتياق کو پہلي منزل سے نيچے اتارا اس وقت ي سڑک کے کنارے کنارے روشني کے قمقمے پا۔ہلکي ہلکي بارش ہورهي تهي

ميں بهيگے ہوئے يوں سر جهکائے کهڑے تهے جيسے اپني زرد زرد زندگي پر رو رہے ہوں، بهيگي ہوئي سڑک پر کہيں کہيں روشني کے پهٹے چيتهڑے نظر

آتے پهر اندهيرا انہيں کها جاتا پهر پهر تنگ و تاريک گڑهوں کي ماري ہوئي ي عصمت لٹا ايک سڑک پر کاريوں لڑکهڑا کر چلنے لگي جيسے ايک عورت اپن

۔کر رات کي اوٹ ميں اپنے گهر کي طرف بهاگ رہي ہو ۔ايمرجنسي وارڈ ميں

۔اے فارم بهرو ۔بي فارم بهرو

Page 59: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

59

۔تم بهي رکو۔زندگي اشتياق کا سر بهورے رنگ کے آئل کے گدوں پر ٹکا ہے اس کي آنکهيں کسي

گہرے بهورے گڑهے ميں جا گري ہيں ان پر يادوں کا ٹرک گهوں گهوں کرتا ہوا۔چل رہا تها

۔پچهتر روپيہ ايڈوانس دو ۔يہ رسيد لو

ميں لے جاؤ اوپر لفٹ سے ميں ابهي ڈاکٹر ٧ مريض کو کمرہ نمبر۔وٹهل۔کوٹهاري ٹيليفون کرتا ہوں

۔باہر سے کوئي ٹرک گزرتا ہےگهوں گهوں اشتياق کا سينہ ہو نکتا ہے ہوں ہوں وں کے ذريعے يربڑ کي چرغآئل کالته کا بهورا بستر اپنے بالوں ميں لگي ہوئي

لفٹ اوپر کي منزل پر جا کر رک جاتي ۔رہٹ کي جانب حرکت کرنے لگتا ہے ايک ۔ کمرہ نمبر سات کے اندر جاتا ہے۔بستر بر آمدے سے گزر رہا ہے۔ہے

سات نمبر کا پردہ گراديا جاتا ہے ايک ڈاکٹر ۔ڈاکٹر اور دو نرسيں اندر آتي ہيں۔ر ہم باہر بينچ پر بيٹه جاتے ہيںاو۔اور دو نرسيں اندر آتي ہيں

لمبےکو ريڈيو ميں بے آواز نرسيں خاموشي سے گهوم رہي ہيں اردلي نيند کي غننوگي سے بيزار ٹہل رہے ہيں کہيں کہيں ہولے کوئي کراہتا ہے کوئي دهيرے

۔دهيرے سسکتا ہے ۔۔۔اشتياق نے زہر کيوں کهايا؟ ميں پوچهتا ہوں

۔ بهائي اندازہ لگا کر کہتا ہےنصرت کا چهوٹا۔غبن کيا ہوگا اور ہر وقت ۔بہن نے ہولے ہولے گهر کا ساراخرچا اشتياق کے سپرد کرديا تها

چار پانسو روپے اشتياق کي جيب ميں رہتے تهے کل بہن نے اشتياق سے حساب ۔ال ہے کہي آج اس نے زہر کها ليا ميرا خ۔دينے کو کہا تها

هائي بوال، اشتياق ميں دس برائياں ہوں، نصرت کا دوسرا ب۔تمہارا خيال غلط ہےمگر وہ چور نہيں ہے آج تک اس نے ايک دهيلے کي چوري نہيں کي،ميرے

کہ اس کے آبائي ۔خيال ميں پچهلے ہفتے جو مرادآباد سے اسے اطالع ملي تهيمکان والے مقدمے کا فيصلہ اس کے خالف ہے معلوم ہوتا ہے اس کا غم اسے

۔بہت ہوا ہے بڈها حامد اپني گهني بهنوؤں پر ہاته پهر کر بوال اشتياق کو مکان دکان نہيں ۔اجي

۔پيسے سے کبهي محبت نہيں تهي يہ سب اس لونڈيا کا چکر ہے گلشن کا ميرے کان کهڑے ہوئے گلشن کون ہے؟ ميرے ذہن ميں ايک بلي کودنے ۔گلشن۔لگي

لہ سترہ مگر سو۔ايک نئي آيا رکهي ہے صاحب نے بڑي بد صورت لونڈيا ہےاس کا نام گلشن ہے اور صاحب ہم نے ۔ بهاگ بهاگ کام کرتي ہے۔برس کي ہے

۔سنا ہے کہ اشتياق کي پہلي بيوي کا نام بهي گلشن تها ۔ ميں چونک گيا۔ارے

وہ کسيے؟پہلے تو صاحب سے کہتے رہے اس لڑکي کو نکال دو يہ کام ٹهيک سے نہيں

Page 60: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

60

ميں اس وجہ سے اس کو نکلوانا پهر ايک دن مجه سے کہنے لگا کہ ۔کرتي ہےچاہتا ہوں کہ اس نام گلشن ہے ميں نے کہا بهلے مانس اس کا نام گلشن ہے تو کيا

۔ہوا کام تو ٹهيک کرتي ہے مگر اشتياق نہيں مانے برابر اس کي شکايت کرتے مگر

جب صاحب کسي طرح نہيں مانے تو معلوم نہيں کب انہوں نے ہار ماني اور کب دوسرے نوکر چاکر تو ۔ہ بدال، يہ اس لڑکي پر مہربان ہوگئےاشتياق نے رويجو صرف صاحب اور بيگم صاحب ۔ يہ اسکو کافي پالتے تهے۔چائے پيتے تهے

پهر ايک دن گلشن کو جو پتہ چالکہ اسکو کافي ملتي ہے اور دوسرے ۔پيتي ہيں۔نوکروں کو چائے ملتي ہے

نے سے انکار کرديا ايک تو ايک دم بدک گئي اور اس دن سے اس نے کافي پيدن اس نے اشتياق کو بازار سے ديسي گهي صابن النے کو کہا تو اس کے لئے

تو گلزار هئير آئل اٹها ۔انگريزي صابن لے آئے، اس نے کهوپرے کا تيل لگاليا۔جو بيگم صاحبہ نے پڑه کر سنايا تها۔الئے کل گلشن کي ماں کا خط آيا تها

وروں کي طرح دروزے پر کهڑے ہو کر سننے اب اشتياق کي تو عادت تهي چگلشن کي ماں نے لکها تها اس نے اس کي شادي کي بات چيت مکمل کر لي ۔کيوہ انہيں منہ ۔لڑکا کسي سيمنٹ فيکڑي ميں دربان ہے، يہ خالي باورچي تهے۔ہے

کيا لگاتي بس جب سے يہ سنا کچن ہي ميں بيٹهے بيٹهے ٹهنڈي ٹهنڈي سانيسں يہ آج دوپہر کي بات ۔ مجه سےکہتے تهے اب جينا بيکار ہے اور۔لے رہے تهے

۔حامد اتنا کہہ کر چپ ہوگئے۔۔۔۔۔رات کو انہوں نے زہر کها ليا۔ہے

مگرزہر کهانے سے پہلے اس ۔ميں نے چند لمحوں کے سکوت کے بعد پوچها کمبخت نے لڑکي سے کوئي بات نہيں کي؟

دس دن تو ۔طرفہ عشق تهابالکل يک۔حامد خفاء ہو کر بولے۔بالکل نہيں صاحبگلشن کوآئے ان دس دنوں ميں انہوں نے اس لڑکي سے نفرت بهي کي ۔ہوئے ہيں

سب کچه دس دنوں ۔دوستي بهي کي محبت بهي کي پهر آپ ہي آپ مر بهي گئےوہ تو ايسي بدصورت ۔ اس لڑکي کو تو کچي خبر ہي نہيں ہے صاحب۔ميں کرليا

گمان تک نہيں گزر سکتا کوئي اس ہے ايسي بهيجے کي خالي ہے کہ اسے تو ۔سے عشق کرسکتا ہے

حامد چونکہ بڈهے تهے اور زندگي کے اس دور سے گزر رہے تهے جب کوئي اس لئے داستان سناتے وقت ان کے لہجے کي ۔کسي سے محبت نہيں کرسکتا ہے

شديد تلخي جس طرح ان کي مجبوري کي غمازي کررہي تهي اس سے مجهے ۔بڑا لطف آيا اڑهے چه بجے کے قريب ڈاکڑ کوٹهاري کمرہ نمبر سات سے برآمد کوئي س

ہوئے، اور مجهے ديکه کر بولے، ابهي کچه کہا نہيں جاسکتا، مگر اگلے چوبيس گلوکوز کے ۔ ميں نے اس کا معدے صاف کرديا ہے۔گهنٹے اس پر بہت نازک ہيں

لکه کچه۔سيالئين پر رکه ديا ہے کهانے کو دوا دے دي ہے انجکشن دے دئيے ۔دئيے ہيں

Page 61: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

61

۔مگر کيا مريض اس وقت ہوش ميں ہے۔شکريہ ڈاکڑ صاحب ہوش ميں تو ہے مگر ابهي بہت کمزور ہے ابهي زيادہ لوگ اس سے نہ مليں تو

بہتر ہوگا، ڈاکڑ نے ميري طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، صرف آپ اس سے چند پوليس کسي وقت بهي۔ميں نے تهانے ٹيليفون کرديا ہے۔منٹ کے لئے مل ليں

انسپکٹر اس کا بيان لينے کے لئے آسکتا ہے کيونکہ مريض کي حالت بہت نازک ۔ہے

تو نصرت کا چهوٹا بهائي بر فروختہ ہو ۔اتنا کہہ کر ڈاکڑ کو ٹهاري چلے گئےاور يہاں پوليس کے سامنے نہ جانے ۔کے بوال، خان صاحب گهر پر نہيں ہيں

عقل نہيں آئي کہ اگر مرنا ہي تها الو کے پٹهے کو اتني۔کس کس کے بيان ہونگےتو سمندر ميں ڈوب کے ہي مرجاتا، کسي گاڑي کے نيچے آکر مرجاتا، کہيں

مرجانا اس گهر سے دور رہ کر ہي مرتا اور يوں ہي ہم سب کو پريشان کرکے ۔تو زہر نہ کهاتا

مرنے والوں کو ہميشہ اپنے بعد زندہ رہنے والوں کي سہولت ۔بجا فرمايا آپ نےاس سلسلے ميں اگر آپ رہمنائے خود کشي شائع ۔ال کرکے مرنا چاہئيےي خکا

۔کريں، تو بتوں کا بهال ہوگا، اتنا کہہ کر کمرہ نمبر سات ميں داخل ہوا نرس کوئي دوا النے کے لئے گئي ۔اتفاق سے اس کمرے ميں کوئي نہيں تها

و کي رگ اس کے دائيں باز۔اشتياق گہرے تکيوں ميں سر جهکائے ليتا تها۔تهي اس کي آنکهيں بند ۔ميں سيالئين جا رہا تها، دوسرا بازو اس کے سينے پر تها

تهيں اس کے سياہ چہرے کے پچهے سفيد تکيوں سے پرے کهڑکي کي پلکوں پر بارش کے قطرے لرز رہے تهے اور کانچ کي سطح پر روشني اور سائے

۔اميد و بيم کي کشمکش طرح لرزاں تهے اشتياق سنو ميں ۔ے بستر کے قريب جاکر سرگوشي ميں کہااشتياق ميں نے اس ک

۔کان کهول کر سنو ميرے پاس زيادہ وقت نہيں۔پهر ذرا اونچي سرگوشي ميں کہا۔نرس آرہي ہے

اشتياق نے آنکهيں کهوليں اور جب ميں نے ديکها کہ اس نے مجهے پہچان ليا سپکٹر ہے تو مين نے اس کے قريب جهک کر کہا،کسي وقت بهي پوليس ان

تمہارے پاس بيان قلم بند کرنے کے لئے آجائے گا، اس سے صرف يہ کہنا ہو گا کہ تمہارے پيٹ ميں درد تها اور تم امرت دهارا لے کر سو گئے تهے اتفاق سے

وہ بهي اتني ہي بڑي ۔کچن ميں تمہارے سرہانے ٹونٹيکي شيشي بهي پڑي تهيارے پيٹ کا درد بڑها تو تم جتني امرت دهارا کي اس لئے رات کو جب تمہ۔تهي

پي لي غلچي سے پي لي بس یک ٹونٹينے غلطي سے امرت دهارا کي جگہ ٹ۔اور کچه مت کہنا، سمجهے ہو

اشتياق نے ميري طرف ديکه کر خاموشي سے سر ہال ديا، آنکهوں کي پتلياں نيم ساکت،ہونٹ اندر بهنچے ہوئے رخساروں کے گڑهے گہري اور اتهاه تاريکي

کسي ويران ۔ئے ہوئے، سينہ کهال اور اجاڑ خشک بالوں سے ڈهکا ہواميں کهوجزيرے کے مانند اور دبلي پتلي پسلياں کسي شکتہ معبد کي سيڑهيوں کي طرح

۔زندگي کے سوکهے تاالب کي طرف جاتي ہوئي

Page 62: Krishan Chandar Ke Afsanay by Krishan Chandar

62

اس ۔اشتياق تم نے ايسا کيوں کيا؟ميں نے اس کے سر پر جهک کر پوچها۔اشتياق پهر اس ۔ ساکت رہا، جيسے اس نے ميرا سوال نہ سنا تهاکا چہرہ دير تک بالک

کا ہاته اس کے سينے پر سرکنے لگا دهيرے دهيرے وہ اپنا سينہ اپني انگليوں ۔سے سہالتے ہوئے ہوا کي سي سرگوشي ميں بوال سينہ خالي ہے

کتني صديوں سے انسان کا سينہ خالي ہے اور انسان کا يہ خالي ۔سينہ خالي ہے مسيح نہ بهر سکے اور حسين نہ بهر سکے تو تم کيا بهر ۔ بهر سکےسينہ دم نہ

سکو گے احمق باورچي ارے اس سينہ کے اندر خوف ناک گڑهے ہيں اور گہري کهائيں، کيسے کيسے خال بهر جائے پہلے تو تم نے اس زنخے نواب کو

پهر سيکنڑوں۔اس ميں پهيکا پهر ايک بلي کو دم سے بانده کر دم سے اٹکا دياکپ چائے کے اس ميں انڈيل دئيے اور ڈبل روٹياں کاٹ کاٹ کر اس اندر

اور خود بے گهر رہ کر ۔ تم ميري ٹوته پيسٹ بناتے رہے۔پهينکتے رہے اور اپنے بچوں کي مايوسي ميں دوسروں ۔دوسروں کے لے ہهر ڈهونڈتے رہے

کے بچوں سے محبت کرتے مگر تم گلشن کو کبهي بهول نہ سکے اور کسي گلشن گلشن تم کانٹے چنتے رہے اور بے قرار اور ۔ يہ خال پر نہ ہوسکاطرح

مضطرب ہو کر ايک پيشے سے دوسرے پيشے کي چکي ميں گهستے ہے تاکہ جسے صرف ايک عورت کي محبت بهر سکتي ۔کسي طرح تم وہ خال بهر سکو

پگلے۔۔۔۔۔۔۔ہے ہوا بدہئيت نرس اندر آگئي، ميں نے ايک لمحے کيلئے اشتياق کا خاموش ستا

تکيوں کے پيچهے بند کهڑکي کي پلکوں سے چند قطرے ہوا سے ۔چہرہ ديکهاميں کمرے ۔۔۔۔۔لرز کر ٹوٹے اور کانچ کے رخساروں پر بہتے ہوئے چلے گئے

۔سے باہر نکل آيا

وگاعُد ضايردهاش

[email protected]