انتظار حسین کے تعزیتی ریفرنس پر لکھی گئی تحریر

6
ر ی ر ح ت ی گئ ی ھ ک ل ر ی س نر ف ی ی ر ئ ی ر ع ی ے ک ن سی ح ار$ ظ ت ی ا م ک ی ل ع لام س ل ل ا ف ح مِ وران9 ش ن اور دا رام کِ ن عی م رم سا حت م! ر یال ل م ر یِ ے وصال کI ب ح صا ن سی ح ار$ ظ ت ی اI اب نI ح ھاری، لک ور م ا ن ے کI وی ادب ن سا ف اردو اِ ر متI ادب روان کاZ \ ے س جی ےc ہ ا ی گ ل ون ن ون۔c ہ ا رن ک9 سh یj پ ت ی ر ع ی ے س ل ف ح مِ ن ی ر ضام جا م ت ن می و۔c ہ ا ی گ وc ہ روم ح م ے سروان کا و ی ن سا ف ن ا می ے ن ر ک9 لاش ن رc ہ واI ج ے ک ون ن ی ر خ ی مئ ی ف ے س ون ن ی ف ے د ک ی ض ما ن سی ح ار$ ظ ت ی ا ی ئ اc ہ ت ی ادار ر ک ،اورI وب ل سُ ، ا لاب ن وع ، ض و م کا ی ئ اc ہ ک ی ک ان ن۔h یc ہ ے ن ر ا$ ظ ن ا ی ک ن ن میI ادب، ن ی چI ت ی، ض ماِ اد ن ن می وعاب ض و م انc ے ہ ک ان ن۔h یc ہ ے ن وc ہI ت ی ر م ھ ت ے سا ک ص ت ص خ ت ن۔h یc ہ ے ن ھ ا ت ے سا ک ر ی وا ن رب9 ش عا م دار اور ، اف ربI حc ہ وم، س ر، اب ، روان مدن ت وI ت ی دc ہ تI ب ی ی ر ی ے س ی گ ساد ف ی لط ی ک ی گ د ن ی رc ہ ت اور د ر$ ظ ا ی م ی ئ در ف ر ی ور ط عام لاب ن کا ی ئ اc ہ ک ی ک ان رI ی راI ی ن می ر$ ظ ن ی ک ی ان ھI ت ے ن اI ے ن ن ا ے ن کI ت ی دc ہ ت ی¥ ئ ی ی اور ئ سا ن ے ا ن ا ف ی ار مc ہ ا ے۔ نc ہ ا ان ن ے ک ے۔ انc ہ ر$ ظ ن وI ت ل فِ I ب ادI ج ت یار ر ش ر اُ ی ن می ا ض ف ی ک ون ن ی اc ہ ک ص عI ی ے۔c ہ ے ر ن ا گہ نI ج، ب ف ا ف9 ی‹، I ت ی دc ہ ت، خ ت ار ن ن ی ی م لا ع ہ ے۔ یc ہ ل م ی جا ک ب ی مc ہدی ا ا ی نI پ ب ی ن م لا ع ن میI وب ل س ا

Upload: mujahid-abbas

Post on 14-Jul-2016

18 views

Category:

Documents


7 download

DESCRIPTION

its an essay written and raed by Mujahid abbas on the programme about urdu fiction writer Intazar Hussain death in Academy of letters islamabad pakistan.

TRANSCRIPT

انتظار حسین کے تعزیتی ریفرنس پر لکھی گئی تحریر

محفل السلام علیکم کرام اور دانشوران !محترم سامعین

پر ملال پر میں تمام حاضرین اردو افسانوی ادب کے نامور لکھاری، جناب انتظار حسین صاحب کے وصال

کارواں سے محروم ہو گیا ہو۔ محفل سے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جیسے کاروان ادب میر

آاتے انتظار حسین ماضی کے دفینوں سے قیمتی خزینوں کے جواہر تلاش کرنے میں افسانو ی ادب میں یکتا نظر

ااسلوب ،اور کردار انتہائی تخصیص کے ساتھ مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے ہیں۔ ان کی کہانی کا موضوع ، پلاٹ،

ماضی، بچپن، تہذیب و تمدن، روایات، رسوم، ہجرت، اقدار اور معاشرت تواتر کے ہاں موضوعات میں یاد

آائے ہیں۔ ان کی کہانی کا پلاٹ عام طور پر قدرتی مناظر اور دیہی زندگی کی لطیف سادگی سے ترتیب ساتھ

پاتا ہے۔ تاہم ارتقائے انسانی اور نئی تہذیب کے تانے بانے بھی ان کی نظر میں برابر جگہ پاتے رہے۔بعض کہانیوں

قلب و نظر ہے۔ ان کے اسلوب میں علامتیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ اپر اسراریت جاذب کی فضا میں

علامتیں تاریخ، تہذیب، ثقافت، روایات، اساطیرسے ایسی روشنی پا کر وضع ہوتی ہیں جن سے اپنایت کا احساس

ہوتا ہے۔انتظار حسین نے اپنے فن سے ان علامتوں پر سے وقت کی دھول اس انداز سے ہٹائی ہے کہ نہ صرف ان

آاشنا ہوتے ہیں بلکہ ان علامتوں سے ہماری مانوسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔کرداروں کی تخلیق میں انتظار سے ہم

حسین کا کمال یہ ہے کہ جو کردار انہوں نے تخلیق کیے ہیں وہ اپنی علامتی،حقیقی، مثالی، اساطیری اور

رومانوی فطرت بیک وقت ساتھ لیے کہانی کی تکمیل کرتے ہیں۔جہاں انہیں علامتی اظہار مطلوب ہو ایک لفظ

جسے وہ علامت بنانا چاہیں بار بار استفہامیہ انداز میں مکالماتی فضا میں پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔جہاں

حقیقت کا اظہار کرنا ہو وہاں سود و زیاں کے مباحث سے اپنا مدعا حل کر لیتے ہیں۔جہاں مثالی اور اساطیری انداز

اپر اسرار کر دیتے ہیں۔ یہ فن کا ایک نیا انداز ہے ۔ رات کا اندھیرا، گھنے درکار ہو وہاں کہانی کی فضا کو

درختوں کی کالونس، ہوا کی سرسراہٹ، رہٹ کی روں روں، دور گھنے درخت پر لہراتا اور گھلتا سایہ ، قدموں

اپر اسرار بناتے ہیں جس سے تجسس جنم لیتا آاگ کا الاؤ ۔۔۔وغیرہ وغیرہ سے کہانی کی فضا کو ادور کی چاپ ،

ہے اور یہی تجسس ہی قاری کو کہانی کے ساتھ چمٹائے رکھتا ہے۔ انتظار حسین کسی منظر کو پیش کرنے میں

آا جاتا ہے ۔ انتظار یی رکھتے ہیں ۔ وہ جزیات کو ایسے پیش کرتے ہیں کہ منظر نکھر کر قاری کے سامنے طول ید

حسین کی کہانی میں کرداروں کی رومانویت کے دو ماخذات نہایت اہم ہیں۔ایک قدرتی مناظر سے کرداروں کا

انسلاک اور دوسرا ان کرداروں کی ذہنی اور داخلی خود کلامی جسے مصنف کہیں بیانیہ میں اور کہیں خیال کی

تامہ رکھتے ہیں۔ عمیق وسعتوں میں دکھانے کی مہارت

آاگ، دھواں، آاتا ہے۔کیونکہ جہاں بھی وہ بادل، انتظار حسین کی کہانیوں میں ایک حرکی نظریہ کار فرما نظر

یی کہ تمام رنگوں کے آاواز، گھڑی، وقت، پانی، ندی، دریا، سمندر، کیفیت، پتنگ، سانس اور حت پرندہ۔ سایہ،

نام یا ان کے تلازمات لاتے ہیں وہاں زبان دانی کا ایسا جادو جگاتے ہیں جس سے افسانے کی فضا جامد نہیں

رہتی اور نہ معلق بلکہ مسلسل حرکی نظام کے تحت ایک تجسس پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔میرے خیال میں

انتظار حسین کی کہانیوں کی کامیابی میں اس عنصر کی کارفرمائی کا کردار نہایت اہم ہے۔

انتظار حسین کی کہانی’’ انجن ہاری کی گھریا ‘‘ضرور پڑھیں جو ان کی کتاب کنکری کا پہلا افسانہ ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس افسانے میں اپنے فن پر بھی بات کی ہے۔ ان کے نزدیک انجنہاری کا گھر

کو ترتیب دینا ہی ایک افسانہ کہنا ہے۔ یہ گھر وہ مٹی سے بناتی ہے۔ انتظار حسین انجنہاری کا پیلی مٹی کے

آاخر میں اس گھر کا منہ بند کر دینا اور اس گھر سے نئے وجود کا آانا اور گھر بنانا، گارے سے ذرہ ذرہ مٹی لیکر

جنم لینا ، کو افسانہ نگاری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انجنہاری افسانہ نگاری کا پیغمبر ہے۔ کیونکہ افسانہ

یہی ہے کہ تصورات کو کسی ماخذ سے ذرہ ذرہ فراہم کرنا اور اس کہانی کو اس طرح مکمل کرنا کہ کوئی نئی

آا جائے ، جس میں انتظار حسین انتہائی کامیاب رہے۔ یہیں پیلی مٹی کے گارے کے ذکر سے تخلیق سامنے

انہوں نے رنگ رنگ کے مٹی کے گھروندوں سے افسانہ تشکیل دے دیا۔یہ یاد کے منظر ہیں۔ کچی مٹی کی

چھت، بارش کا پانی، سوندھی سوندھی خوشبو۔ سنی مٹی سے شکار کے غلے تیار کرنے کی یاد، دیوالی کے

دیوے، مندر کی مورتیاں، رمضان میں شربت کی صراحیاں، ساتویں کی سبیل کے کوزے، تسبیح کے دانے یا

شفا کی سجدہ گاہ کس کس مٹی کی یاد انجنہاری کی دین ٹھہری۔ خاک

انتظار حسین کا عمیق فن ، ایک گہرے مشاہدے کا متقاضی ہے۔اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

مٹی میرے لیے ایک چکر ہے جس سے میں کسی بھی رستے سے نہیں نکلتا۔جس مذہب سے میرا تعلق ہے اس’’

کے متعلق میں نے بہت سن رکھا ہے کہ وہ مٹی سے بلند ایک طاقت ہے۔مگر میں اسے کیا کروں کہ میں اپنے

(۹مذہبی احساس کا تجزیہ کرتا ہوں تو اس کی تہہ میں بھی مٹی جمی ہوئی ہے۔‘‘)ص:

آاب نے علی کو زمین پر سوتے دیکھ کر ابو م مزید فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے یہ واقعہ بھلائے نہیں بھولتا کہ رسالت

تراب کہا تھا۔ اس مٹی میں ایسی کونسی طاقت ہے جو کلام کرتی ہے۔

انتظار حسین نے مٹی کے کرشمے گھروندوں سے برتنوں تک اور مذہبی روایات و تورایخ تک دکھا دیے ۔مزید یہ کہ

سائنسی توجیہات سے مٹی یعنی زمین کی پیدائش کے نظریے سے قاری کی وابستگی قائم کر لی۔

آاوارہ لکھتے ہیں ’’ سائنس کی روایت کے مطابق فضائے بسیط میں کھربوں سیارے ، کھربوں صدیوں سے یوں

گھومتے پھر رہے ہیں جیسے گرمیوں کی دوپہروں میں بڑیاں اڑتی رہتی ہیں۔ بے مقصد بے منزل، ایک جلتے بلتے

آاخر اس کی تہہ سے ایک نئی سیارے سے ایک کنکی جھڑی، گرمی میں گھومتی رہی، ٹھنڈی پڑتی رہی، اور

زندگی ابھری۔

اب اس کہانی میں تجسس جو پہلے سوالات کے ذریعے موجود تھا ، اب اساطیری پہلو سے اور زیادہ بڑھا دیتے

ہیں اور کہانی کو سادگی سے پیچیدگی کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ تجسس بڑھ چکا ہے اس لیے یہ

پیچیدگی بھی قاری کے لیے دلچسپی ہی پیدا کرتی ہے۔

لکھتے ہیں’’ یہ تو وہی کسی انجنہاری کی کہانی ہوئی۔ کسی انجنہاری نے سورج کے پیلے گارے میں سے چند

‘‘ریزے چنے اور کسی گائے کے سینگ پر گھریا بنا دی۔

انتظار حسین کے فن کا نمایاں پہلو یہی ہے کہ وہ کہانی کی جزیات کو یاد، تاریخ، تہذیب، روایات ، سائنس

اور اساطیرسے کشید کرتے ہیں اور ایک گلدستہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

آاغوش آاج وہ مٹی کی وہ مٹی کو مرکز سمجھتے ہیں اور اس کا حالہ اپنے وجود کے گرد بھی محسوس کرتے ہیں۔

آارام فرما رہے ہیں اور ہم اس مٹی کے متوالے کے غم میں پر ملول بیٹھے ہیں۔ ہمیں ساتھ ساتھ ان کا درس یعنی میں

مٹی بھی یاد کرنا ہو گا۔ولسلام

مجاہد عباس