اردو ادب کے مشہور افسانے

741
ے ن سا ف ور ا ہ ش م ے ک اردو ادب 1 ی م د ری ا خ ا 2 ا پ ا 3 دی ن! ن ا 4 دے دو% ے ھ ج م ھ کُ د1 ے ن ن ا 5 5 ر6 لاو پ 6 د گاہ; ن ع 7 ا; رپ> گد 8 سا اA د ن گ 9 ادی رام ج خ 10 ی ن; ی ج 11 G ن ف ک 12 وار ل س ی ل کا 13 حاف ل 14 د ن ن ر م ک ے کا ہ و ل

Upload: waqarchishti

Post on 29-Dec-2015

675 views

Category:

Documents


26 download

TRANSCRIPT

Page 1: اردو ادب کے مشہور افسانے

ور ہاردو ادب ک مش ے ےافسان

1آخری آدمی 2آپا 3آنندی 4کھ مجھ د دو�ے اپن د ے ے 5بالؤز 6ہ عید گا 7گڈریا 8گنڈاسا 9حرام جادی

10جینی 11کفن 12کالی شلوار 13لحاف 14ہے لو کا کمر بند 15ماں جی 16مٹی کی مونا لیزا 17ا لکشمی کا پل ہ م 18اوور کوٹ 19پسماندگان 20ہ شکو شکایت 21ے ستاروں س آگ ے 22ٹیلی گرام 23تیسرا آدمی 24ہ توب شکن

25ہ و بڈھا

Page 2: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا�دمی ا�خری

(انتظار حسین)

د کیا تھا ہالیاس اس قری میں آخری آدمی تھا اس ن ع ے ۔ ے وں وا ہک معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہ ہ

ی کی جون میں مروں گا اور اس ن ےاور میں آدمی ۔ ہ ن کی آخر دم تک کوشش کی ۔آدمی کی جون میں ر ے ہ

و گئ تھ ل بندر غائب ے۔اور اس قری س تین دن پ ے ہ ے ہ ے ے وئ اور پھر خوشی منائی ک بندر جو ل حیران ہلوگ پ ے ہ ے ہ

و گئ پر اس ے۔فصلیں برباد اور باغ خراب کرت تھ نابود ہ ے ے یں سبت ک دن مچھلیوں ک شکار س ےشخص ن جو ان ے ے ہ ے

یں ار درمیان موجود ا ک بندر تو تم ہمنع کیا کرتا تھا ی ک ے ہ ہ ہ ہ ا یں لوگوں ن اس کا برا مانا اور ک ہمگر ی ک تم دیکھت ن ے ۔ ہ ے ہ ہ

ا ک ب شک م س ٹھٹھا کرتا اور اس ن ک ےک کیا تو ہ ہ ے ہے ے ہ ہ ےٹھٹھا تم ن خدا س کیا ک اس ن سبت ک دن مچھلیوں ے ہ ے ے ےک شکار س منع کیا اور تم ن سبت ک دن مچھلیوں کا ے ے ے

ہے۔شکار کیا اور جان لو ک و تم س بڑا ٹھٹھا کرن واال ے ے ہ ہ

وا ک الیعذر کی لونڈی گجر وم ہاس ک تیسر دن یوں ہ ے ے وئی می وئی اور س ہالیعذر کی خواب گا میں داخل ہ ہ ہ

۔الیعذر کی جورو ک پاس الٹ پاؤں آئی پھر الیعذر کی ے ے ۔جورو خواب گا تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی ہ ےپھر ی خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور س لوگ ہ

ہالیعذر ک گھر آئ اور اس کی خواب گا تک جا کر ٹھٹھک ے ے ےٹھٹھک گئ ک الیعذر کی خواب گا میں الیعذر کی بجائ ہ ہ ے ےایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر ن پچھل سبت ک ے ے

۔دن سب س زیاد مچھلیاں پکڑی تھیں ہ ے

وا ک ایک ن دوسر کو خبر دی ک ا عزیز ےپھر یوں ہ ے ے ہ ہ نسا "تو ن ےالیعذر بندر بن گیا اس پر دوسرا زور س ۔ ہ ے ہے۔

Pی ک من اس نستا چال گیا، حت " اور و ہمجھ س ٹھٹھا کیا ہ ہ ہ ۔ ے ر ک خد و خال ےکا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئ اور چ ے ہ ے ال کمال حیران ہکھینچت چل گئ اور و بندر بن گیا تب پ ۔ ہ ے ے ے

Page 3: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےوا من اس کا کھال کا کھال ر گیا اور آنکھیں حیرت س ہ ہ ۔ ہ۔پھیلتی چلی گئیں اور پھر و بھی بندر بن گیا ہ

ےاور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بوال ک ا ہ را بگڑ گیا ابن وا ک تیرا چ ہے۔زبلون ک بیٹ تجھ کیا ہ ہ ہے ہ ے ے ے

ےزبلون ن اس بات کا برا مانا اور غص س دانت ے ے ےکچکچان لگا تب الیاب مزید ڈرا اور چال کر بوال ک ا ہ ۔ ے

، ضرور ! تیری ماں تیر سوگ میں بیٹھ ےزبلون ک بیٹ ے ے ے و گیا اس پر ابن زبلون کا من غص س ےتجھ کچھ ے ہ ہے۔ ہ ے

و گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا تب الیاب پر ۔الل ہ ر غص س وا اور ابن زبلون کا چ ےخوف س لرز طاری ے ہ ہ ہ ہ ے ر خوف س بگڑتا چال گیا ابن زبلون غص ےاور الیاب کا چ ۔ ے ہ ہ وا اور الیاب خوف س اپن آپ میں ر ےس آپ س با ے ہ ہ ے ے ے ہسکڑتا چال گیا اور و دونوں ک ایک مجسم غص اور ایک ہ ہ

ر ےخوف کی پوت تھ آپس میں گتھ گئ ان ک چ ہ ے ے۔ ے ے۔بگڑت چل گئ پھر ان ک اعضا بگڑ پھر ان کی ے ے۔ ے ے

وت چل گئ اور ےآوازیں بگڑیں ک الفاظ آپس میں مدغم ے ے ہ ہ ہغیر ملفوظ آوازیں بن گئ پھر و غیر ملفوظ آوازیں ے۔

ے۔وحشیان چیخ بن گئیں اور پھر و بندر بن گئ ہ ہ

ےالیاسف ن ک ان سب میں عقل مند تھا اور سب س آخر ہ ے میں ا ک ا لوگو! ضرور ا تشویش س ک ہتک آدمی بنا ر ے ہ ہ ے ۔ ہ میں م اس شخص س رجوع کریں جو و گیا آؤ ہکچھ ے ہ ہے۔ ہ ہے۔سبت ک دن مچھلیاں پکڑن س منع کرتا پھر الیاس ے ے ے مرا ل کر اس شخص ک گھر گیا اور حلق ہلوگوں کو ۔ ے ے ہ ہ

اں س مایوس پھرا و ک دیر تک پکارا کیا تب و و ےزن ہ ہ ۔ ے ہ میں ہاور بڑی آواز س بوال ک ا لوگو! و شخص جو ہ ے ہ ے

میں ہسبت ک دن مچھلیاں پکڑن س منع کیا کرتا تھا آج ے ے ے مار لئ ےچھوڑ کر چال گیا اور اگر سوچو تو اس میں ے ہ ہے۔

ل گئ ایک بڑ خوف ےخرابی لوگوں ن ی سنا اور د ے۔ ہ ہ ے ہے۔ یں آ لیا ۔ن ان ہ ے

ون لگیں اور خد و شت س صورتیں ان کی چپٹی ۔د ے ہ ے ہ و ت چل گئ اور الیاسف ن گھوم کر دیکھا ےخال مسخ ے۔ ے ے ہ ئ ک و بستی ہاور بندروں ک سوا کسی کون پایا جاننا چا ہ ے ہ ۔ ہ ے

اونچ برجوں اور بڑ ےایک بستی تھی سمندر ک کنار ے ے۔ ے ۔ ےدروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھو

ےس کھوا چھلتا تھا کٹورا بجتا تھا پر دم ک دم میں بازار ۔ ۔ ے

Page 4: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گئیں اور اونچ ےویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ۔ ہ ی بندر نظر آن ےبرجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہ

ر اس س چاروں سمت نظر دوڑائی ےلگ اور الیاسف ن ہ ے ے وں اور اس خیال س و ہاور سوچا ک میں اکیال آدمی ے ہ ہ

ےایسا ڈرا ک اس کا خون جمن لگا مگر اس الیاب یاد آیا ۔ ے ہ ےک خوف س کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی ہ ہاور و بندر بن گیا تب الیاسف ن اپن خوف پر غلب پا یا ے ے ۔ ہ ہاور عزم باندھا ک معبود کی سوگند میں آدمی کی جون ی کی جون میں مروں گا اور وں اور آدمی وا ہمیں پیدا ہ ہ ےاس ن ایک احساسl برتری ک ساتھ اپن مسخ صورت ے ے

یں ا تحقیق میں ان میں س ن ہم جنسوں کو دیکھا اور ک ے ۔ ہ ہوا یں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ۔وں ک و بندر ہ ہ ہ ہ ہ

م جنسوں س نفرت کی اس ن ان ےاور الیاسف ن اپن ۔ ے ہ ے ے وئ ےکی الل بھبوکا صورتوں اور بالوں س ڈھک ہ ے ے

ر اس کا بگڑن لگا ےجسموں کو دیکھا اور نفرت س چ ہ ہ ے ےمگر اس اچانک زبان کا خیال آیا ک نفرت کی شدت س ہ ے

ا ک الیاسف و گئی تھی اس ن ک ہصورت اس کی مسخ ہ ے ۔ ہ ہےنفرت مت کر ک نفرت س آدمی کی کایا بدل جاتی ے ہ

۔اور الیاسف ن نفرت س کنار کیا ہ ے ے

ا ک ب شک میں ےالیاسف ن نفرت س کنار کیا اور ک ہ ہ ہ ے ے ی میں س تھا اور اس ن و دن یاد کئ جب و ان ہان ے ہ ے ے ہ ےمیں س تھا اور دل اس کا محبت ک جوش س منڈن ے ے ے

ےلگا اس بنت االخضر کی یاد آئی ک فرعون ک رتھ کی ہ ے ۔ ۔دودھیا گھوڑیوں میں س ایک گھوڑی کی مانند تھی اور ے ےاس ک بڑ گھر ک در سرو ک اور کڑیاں صنوبر کی ے ے ے

ہتھیں اس یاد ک ساتھ الیاسف کو بیت دن یاد آ گئ ک و ہ ے ے ے ۔ ےسرو ک دروں اور صنوبر کی کڑیوں وال مکان میں ے

ےعقب س گیا تھا اور چھپر کھٹ ک لئ اس ٹٹوال جس ے ے ے تا تھا اور اس ن دیکھا لمب بال ےک لئ اس کا جی چا ے ہ ے ے

یں اور چھاتیاں وئ ہاس کی رات کی بوندوں س بھیگ ے ہ ے ے یں اور پیٹ اس کا گندم ۔رن ک بچوں ک موافق تڑپتی ہ ے ے ہےکی ڈیوڑھی کی مانند اور پاس اس ک صندل کا گول ہے رن ک ےپیال اور الیاسف ن بنت االخضر کو یاد کیا اور ہ ے ہے ہ

ےبچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل ک گول پیال ک ے ے ےتصور میں سرو ک دروں اور صنوبر کی کڑیوں وال گھر ے

Page 5: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےتک گیا ساس ن خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر ۔ تا تھا اور پکارا ک ہاس ٹٹوال جس ک لئ اس کا جی چا ہ ے ے ۔ ے

اں اور ا و ک جس ک لئ میرا ےا بنت االخضر! تو ک ے ہ ہ ے ہے ہ ے ین گزر گیا اور تا دیکھ موسم کا بھاری م ہجی چا ہ ہے۔ ہ

و گئیں اور قمریاں اونچی ری بھری ہپھولوں کی کیاریاں ہ ؟ ا اخضر کی بیٹی! اں یں تو ک ےشاخوں پر پھڑپھڑاتی ہے ہ ۔ ہ

وئ چھپر کھٹ پر آرام کرن ےا اونچی چھت پر بچھ ے ہ ے ے رنیوں اور چٹانوں کی وئی ہوالی تجھ دشت میں دوڑتی ہ ے وئ کبوتروں کی قسم تو نیچ اتر آ ۔دراڑوں میں چھپ ے ے ہ ے

تا ہے۔اور مجھ س آن مل ک تیر لئ میرا جی چا ہ ے ے ہ ے ہالیاسف بار بار پکارتا ک اس کا جی بھر آیا اور بنت

۔االخضر کو یاد کر ک رویا ے

ےالیاسف بنت االخضر کو یاد کر ک رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ

ت ڑکی بند ھ گئی اور ب ےکر روئی تھی حاالنک اس کی ہ ہ ہ ۔ ے۔آنسوؤں میں اس ک جمیل نقوش بگڑت چل گئ اور ے ے ے اں تک ک اس کی وتی چلی گئیی ہڑکی کی آواز وحشی ہ ہ ہ

۔جون بدل گئی تب الیاسف ن خیال کیا بنت االخضر جن ے ۔ ےمیں س تھی ان میں مل گئی اور ب شک جو جن میں ۔ ے

ےس و ان ک ساتھ اٹھایا جائ گا اور الیاسف ن اپن ے ے ے ہ ہے ے ا ک ا الیاسف ان س محبت مت کر مبادا تو ان ےتئیں ک ے ہ ہ و جائ اور الیاسف ن محبت س کنار کیا اور ہمیں س ے ے ے ہ ے و گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان س ب تعلق ے ے ہرن ک بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل ےالیاسف ن ہ ے

۔ک گول پیال کو فراموش کر دیا ے ے

م جنسوں کی ہالیاسف ن محبت س کنار کیا اور اپن ے ہ ے ے نسا اور ہالل بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر

ےالیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی ک و اس قری کی ہ ہ ےحسین عورتوں میں س تھی و تاڑ ک درخت کی مثال ہ ۔ ے

ےتھی اور چھاتیاں اس کی انگور ک خوشوں کی مانند ا تھا ک جان ل ک میں ہتھیں اور الیعذر ن اس س ک ے ہ ہ ے ے ۔ ےانگور ک خوش توڑوں گا اور انگور ک خوشوں والی ے ے

۔تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی

ےالیعذر اس ک پیچھ پیچھ گیا اور پھل توڑا اور تاڑ ک ے ے ے ےدرخت کو اپن گھر ل آیا اور اب و ایک اونچ کنگر پر ے ہ ے ے

Page 6: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی الیعذر جھری و جاتا اور و دم کھڑی کر ک اپن ےجھری ل کر کھڑا ے ہ ہ ے

نسن کی آواز اتنی ےلجلج پنجوں پر اٹھ بیٹھی اس ک ہ ے ۔ ے وئی اور وتی ک اس ساری بستی گونجتی معلوم ہاونچی ے ہ ہ

وا مگر اچانک اس نسن پر حیران ےو اپن اتنی زور س ہ ے ہ ے ے ہ نست بندر بن گیا تھا نست ےاس شخص کا خیال آیا جو ہ ے ہ ا ا الیاسف تو ان پر مت ےاور الیاسف ن اپن تئیں ک ۔ ہ ے ے

نسی کی ایسا بن جائ اور الیاسف ن ےنس مبادا تو ے ہ ہ۔نسی س کنار کیا ہ ے ہ

نسی س کنار کیا الیاسف محبت اور نفرت ۔الیاسف ن ہ ے ہ ے ر کیفیت نسن س مدردی س رون اور ہس غص اور ے ے ہ ے ے ہ ہ ے

م جنسوں کو نا جنس جان کر ان س ےس گزر گیا اور ہ ے و گیا ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس ۔ب تعلق ہ ے

ےکر کلکاریاں کرنا، کچ کچ پھلوں پر لڑنا اور ایک ے ان کر دینا ی سب کچھ اس آگ کبھی و ل ےدوسر کو ل ے ہ ۔ ہ ہ ے نساتا تھا کبھی غص دالتا ک ہم جنسوں پر رالتا تھا، کبھی ہ ۔ ہ ہیں حقارت س دیکھتا اور ےو ان پر دانت پیسن لگا اور ان ہ ے ہ یں لڑت دیکھ کر اس ن غص کیا اور بڑی وا ک ان ہیوں ے ے ہ ہ ہ وا اور ۔آواز س جھڑکا پھر خود اپنی آواز پر حیران ہ ۔ ے ےکسی کسی بندر ن اس ب تعلقی س دیکھا اور پھر ے ے ے

ےلڑائی میں جٹ گیا اور الیاسف ک تئیں لفظوں کی قدر ۔ م جنسوں ک ی ک و اس ک اور اس ک ےکی جاتی ر ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ

یں ر تھ اور اس کا اس ن افسوس کیا ۔درمیان رشت ن ے ے ہے ہ ہ م جنسوں پر، اپن آپ پر ےالیاسف ن افسوس کیا اپن ہ ے ے ہاور لفظ پر افسوس ان پر بوج اس ک و اس لفظ ے ہ ہے ۔

و گئ افسوس مجھ پر بوج اس ک لفظ ےس محروم ہ ہے ے۔ ہ ے اتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر ر گیا اور ۔میر ہ ہ ے ۔سوچو تو آج بڑ افسوس کا دن آج لفظ مر گیا اور ہے۔ ے و گیا ۔الیاسف ن لفظ کی موت کا نوح کیا اور خاموش ہ ہ ے

، غص و گیا اور محبت اور نفرت س ےالیاسف خاموش ے ہ نسن اور رون س در گزرا اور ، مدردی س ۔اور ے ے ے ہ ے ہ م جنسوں کو نا جنس جان کر ان س ےالیاسف ن اپن ہ ے ے

۔کنار کیا اور اپنی ذات ک اندر پنا لی الیاسف اپنی ذات ہ ے ہ ےک اندر پنا گیر جزیر ک مانند بن گیا سب س ب ے ۔ ے ے ہ ے

ر پانیوں ک درمیان خشکی کا ننھا سا نشان ےتعلق، گ ے ہ

Page 7: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر پانیوں ک درمیان زمین کا ا میں گ ےاور جزیر ن ک ے ہ ہ ے ے ۔نشان بلند رکھو ں گا

ر پانیوں ےالیاسف اپن تئیں آدمیت کا جزیر جانتا تھا گ ہ ۔ ہ ے ہک خالف مدافعت کرن لگا اس ن اپن گرد پشت بنا لیا ے ے ۔ ے ے مدردی، غم اور خوشی اس ہک محبت اور نفرت، غص اور ہ ہ

ا کر ن ل ےپر یلغار ن کریں ک جذب کی کوئی رو اس ب ہ ہ ے ے ہ ہ ۔جائ اور الیاسف اپن جذبات س خوف کرن لگا پھر ے ے ے ے ےجب و پشت تیار کر چکا تو اس یوں لگا ک اس ک سین ے ہ ے ہ ہ ا ک ا و کر ک ےک اندر پتھری پڑ گئی اس ن فکر مند ہ ہ ہ ے ہے۔ ے

ر پر وں تب اس ن اپن با ا ہمعبود میں اندر س بدل ر ے ے ہ ہ ے ر ون لگا ک و پتھری پھیل کر با ہنظر کی اور اس گمان ہ ہ ے ہ ے ی ک اس ک اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور ےآ ر ہ ہے ہ ا پھر اس ن مزید اپن آپ وتا جا ر و ب رس ےاس کا ل ے ہے۔ ہ ہ ے ہ ہپر غور کیا اور اس مزید وسوسوں ن گھیرا اس لگا ک ے ۔ ے ے ا اور بال بد رنگ اور ہے۔اس کا بدن بالوں س ڈھکتا جا ر ہ ے یں تب اس اپن بدن س خوف آیا وت جا ر ےسخت ے ے ۔ ہ ہے ے ہ ےاور اس ن آنکھیں بند کر لیں خوف س و اپن اندر ہ ے ۔ ے وا ک اس کی ٹانگیں اور ہسمٹن لگا اس یوں معلوم ہ ے ۔ ے ا تب اس مزید وتا جا ر ےبازو مختصر اور سر چھوٹا ہے ہ ہ وا اور اعضاء اس ک خوف س مزید سکڑن لگ ےخوف ے ے ے ہ و جاؤں گا ۔اور اس ن سوچا ک کیا میں بالکل معدوم ہ ہ ے

ےاور الیاسف ن الیاب کو یاد کیا ک خوف س اپن اندر ے ہ ے ا ک میں اندر ہسمٹ کر و بندر بن گیا تھا تب اس ن ک ہ ے ۔ ہ

ےک خوف پر اسی طور غلب پاؤں گا جس طور میں ن ہ ے ر ک خوف پر غلب پایا تھا اور الیاسف ن اندر ک خوف ےبا ے ہ ے ہ

وئ اعضاء دوبار کھلن ےپر غلب پا لیا اور اس ک سمٹت ہ ے ہ ے ے ۔ ہ ے۔اور پھیلن لگ اس ک اعضاء ڈھیل پڑ گئ اور اس کی ے ے ے۔ ے

ون لگ اور اس ے۔انگلیاں لمبی اور بال بڑ اور کھڑ ے ہ ے ے و گئ اور اس ک تھیلیاں اور تلو چپٹ اور لجلج ےکی ے ہ ے ے ے ہ وا ک اس ک سار ےجوڑ کھلن لگ اور الیاسف کو گمان ے ہ ہ ے ے

ےاعضاء بکھر جائیں گ تب اس ن عزم کر ک اپن دانتوں ے ے ے ےکو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپن آپ کو اکٹھا

۔کرن لگا ے

Page 8: اردو ادب کے مشہور افسانے

یئت اعضاء کی تاب ن ال کر آنکھیں بند ہالیاسف ن اپن بد ہ ے ے ہکر لیں اور جب الیاسف ن آنکھیں بند کیں تو اس لگا ک ے ے

ی ہے۔اس ک اعضاء کی صورت بدلتی جا ر ہ ے

یں ہاس ن ڈرت ڈرت اپن آپ س پوچھا ک میں میں ن ہ ے ے ے ے ے ت ڈرت ن لگا اس ن ب ا اس خیال س دل اس کا ڈھ ےر ہ ے ۔ ے ہ ے ۔ ہ

ےڈرت ایک آنکھ کھولی اور چپک س اپن اعضاء پر نظر ے ے ے وئی ک اس ک اعضاء تو جیس تھ ےکی اس ڈھارس ے ے ہ ہ ے ۔ یں اس ن دلیری س آنکھیں کھولیں اور ی ےویس ے ۔ ہ ہ ے

ا ک ب شک میں ےاطمینان س اپن بدن کو دیکھا اور ک ہ ہ ے ے ی آپ اس پھر وں مگر اس ک بعد آپ ےاپنی جون میں ہ ے ہ یں اور وا ک جیس اس ک اعضاء بگڑت جا ر ہوسوس ہے ے ے ے ہ ہ ہ

۔اس ن پھر آنکھیں بند کر لیں ے

ےالیاسف ن آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف ن آنکھیں ے ےبند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس ن

ا اور ہےجانا ک و کسی اندھیر کنویں میں دھنستا جا ر ہ ے ہ ہ م جنسوں کی پرانی وئ ہالیاسف کنویں میں دھنست ے ہ ے ہصورتوں ن اس کا تعاقب کیا اور گزری راتیں محاصر ۔ ے

م جنسوں کا ہکرن لگیں الیاسف کو سبت ک دن ے ۔ ے اتھوں مچھلیوں ہمچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا ک ان ک ے ہ ون لگا اور اس ۔س بھر ا سمندر مچھلیوں س خالی ے ہ ے ے وں ن سبت ک دن بھی وس بڑھتی گئی اور ان ےکی ے ہ ہ

ےمچھلیوں کا شکار شروع کر دیا تب اس شخص ن جو ۔ ا یں سبت ک دن مچھلیوں ک شکار س منع کرتا تھا ک ہان ے ے ے ہ

ر پانیوں واال ےک رب کی سو گند جس ن سمندر کو گ ہ ے ہ رایا سمندر ر پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھ ہبنایا اور گ ے ہ

وس س پنا مانگتا اور سبت ک دن lار دست ےتم ہے ہ ے ہ ے ہ و ک مباد ا تم اپنی ہمچھلیوں پر ظلم کرن س باز ر ہ ے ے ا ک ہجانوں پر ظلم کرن وال قرار پاؤ الیاسف ن ک ہ ے ۔ ے ے

ےمعبود کی سوگند میں سبت ک دن مچھلیوں کا شکار یں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتال تھا سمندر س ےن ۔ ہ

ےفاصل پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اس سمندر ے ےس مال دیا اور سبت ک دن مچھلیاں سطحl آب پر آئیں تو ے

وئی نالی کی را گڑھ پر نکل گئیں اور سبت ک ےتیرتی ۔ ے ہ ہ ت سی مچھلیاں ہدوسر دن الیاسف ن اس گڑھ س ب ے ے ے ے

ےپکڑیں و شخص جو سبت ک دن مچھلیاں پکڑن س ے ے ہ ۔

Page 9: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےمنع کرتا تھا ی دیکھ کر بوال ک تحقیق جس ن الل س ہ ے ہ ہ ۔ ہمکر کیا الل اس س مکر کر گا اور ب شک الل زیاد ہ ے ۔ ے ے ہ

ےبڑا مکر کرن واال اور الیاسف ی یاد کر ک پچھتایا اور ہ ہے ے ےوسوس کیا ک کیا و مکر میں گھر گیا اس گھڑی اس ہے۔ ہ ہ ہ

ستی ایک مکر نظر آئی تب و الل کی بارگا ہاپنی پوری ہ ہ ۔ ہ ےمیں گڑگڑایا ک پیدا کرن وال ن تو مجھ ایسا پیدا کیا ے ے ے ہ ترین کینڈ پر ےجیس پیدا کرن کا حق تو ن مجھ ب ہ ے ے ہے۔ ے ے ےخلق کیا اور اپنی مثال پر بنایا پس ا پیدا کرن وال تو ے ے ۔ ۔ ےاب مجھ س مکر کر گا اور مجھ ذلیل بندر ک اسلوب ے ے ے

ےپر ڈھال گا اور الیاسف اپن حال پر رویا اس ک بنائ ے ۔ ے ے ےپشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیر

ا تھا ۔میں آ ر ہ

ےالیاسف اپن حال پر رویا اور بندروں س بھری بستی ے ہس من موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا ک اب اس بستی ہ ے

۔اس جنگل س زیاد وحشت بھری نظر آتی تھی اور ہ ے ے ےدیواروں اور چھتوں واال گھر اس ک لئ لفظ کی طرح ے نیوں پر ہمعنی کھو بیٹھا تھا رات اس ن درخت کی ٹ ے ۔

۔چھپ کر بسر کی

ہجب صبح کو و جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ڈی درد کرتی تھی اس ن اپن بگڑ اعضاء پر ےریڑھ کی ے ے ۔ ہ

ہےنظر کی ک اس وقت کچھ زیاد بگڑ بگڑ نظر آ ر ے ے ہ ہ وں اور ی ہتھ اس ن ڈرت ڈرت سوچا کیا میں میں ہ ے ے ے ے۔

ہاس آن اس خیال آیا ک کاش بستی میں کوئی ایک انسان ے ہوتا ک اس بتا سکتا ک و کس جون میں اور ی خیال ہے ہ ہ ے ہ ہ

ن ےآن پر اس ن اپن تئیں سوال کیا ک کیا آدمی بن ر ہ ے ہ ے ے ے و پھر اس ن ےک لئ ی الزم ک و آدمیوں ک درمیان ۔ ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ے ی جواب دیا ک بیشک آدم اپن تئیں ادھورا ک ہخود ہے ے ہ ہ

وا اور جو جن میں س ہےآدمی آدمی ک ساتھ بندھا ے ہے۔ ہ ے ہان ک ساتھ اٹھایا جائ گا اور جب اس ن ی سوچا تو ے ۔ ے ے ےروح اس کی اندو س بھر گئی اور و پکارا ک اس بنت ہ ہ ے ہ وں اس آن ا ں ک تجھ بن میں ادھورا ۔االخضر تو ک ہ ہ ہے ہ

وئ بچوں اور گندم کی ڈھیری رن ک تڑپت ےالیاسف کو ہ ے ے ہ ۔اور صندل ک گول پیال کی یاد ب طرح آئی ے ے ے

ا تھا اور الیاسف ہجزیر میں سمندر کا پانی امنڈا چال آ ر ے ےن درد س صدا کی ک ا بنت االخضر ا و جس ک ہ ے ے ہ ۔ ے ے

Page 10: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا تجھ میں اونچی چھت پر بچھ ےلئ میرا جی چا ے ہے۔ ہ ے ےوئ چھپر کھٹ پر اور بڑ درختوں کی گھنی شاخوں ے ہ

ےمیں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا تجھ سرپٹ دوڑی ۔ ہدودھیا گھوڑیوں کی قسم قسم کبوتروں کی جب و ہے ہے۔

ہبلندیوں پر پرواز کر قسم تجھ رات کی جب و ے ہے ے۔ ہبھیگ جائ قسم تجھ رات ک اندھیر کی جب و ے ے ے ہے ے۔ ۔بدن میں اترن لگ قسم تجھ اندھیر اور نیند کی ے ے ہے ے۔ ے و جائیں تو مجھ ےاور پلکوں کی جب و نیند س بوجھل ۔ ہ ے ہ تا اور جب اس ن ی ہآن مل ک تیر لئ میراجی چا ے ہے ہ ے ے ہ و گئ جیس ت س لفظ آپس میں گڈ مڈ ےصدا کی تو ب ے ہ ے ہ

وں جیس اس و جیس لفظ مٹ ر ےزنجیر الجھ گئی ۔ ہ ہے ے ۔ ہ وئی و اور الیاسف ن اپنی بدلتی ی ہکی آواز بدلتی جا ر ے ہ ہ ہآواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا ک کیوں کر ۔ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں الیاسف اپنی بدلتی ےوئی آواز کا تصور کر ک ڈرا اور سوچا ک ا معبود کیا ہ ے ہوں اور اس وقت اس ی نراال خیال سوجھا ہمیں بدل گیا ے ہ وتی ک اس ک ذریع و اپنا ہک ا کاش کوئی ایسی چیز ے ے ہ ہ ے ہ ونا نظر آیا اور ت ان ر دیکھ سکتا مگر ی خیال اس ب ۔چ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ہ ا ک ا معبود میں کیس جانوں ک میں ہاس ن درد س ک ے ے ہ ہ ے ے

وں یں بد ال ۔ن ہ ہ

آپا

(ممتاز مفتی)

، مجھ آپا یاد آتی تو میری ہےجب کبھی بیٹھ بٹھائ ے ے ے ہےآنکھوں ک آگ چھوٹا سا بلوری دیا آ جاتا جو نیم لو ے ے

و ا ۔س جل ر ہ ہ ے

م سب چپ چاپ باورچی خان ےمجھ یاد ک ایک رات ہ ہ ہے ے ہمیں بیٹھ تھ میں، آپا اور امی جان، ک چھوٹا بدو بھاگتا ے۔ ے

ن لگا و گا ک ۔وا آیا ان دنوں بدو چھ سات سال کا ے ہ ۔ ہ ۔ ہ۔"امی جان! میں بھی با کروں گا ہ "

" ن ا پھر ک وئ ک ؟ اماں ن مسکرات ےوا ابھی س ہ ۔ ہ ے ہ ے ے ے ہ وں" بدو ارا بیا آپا س کر دیں؟" "اون ہلگیں "اچھا بدو تم ے ہ ہ ۔

ا وئ ک الت ۔ن سر ہ ے ہ ے ہ ے

Page 11: اردو ادب کے مشہور افسانے

؟ ن لگیں "کیوں آپ کو کیا ہےاماں ک ۔ ے ہ "

" بدو ن آنکھیں" ےم تو چھاجو باجی س با کریں گ ے۔ ہ ے ہوئ اماں ن آپا کی طرف مسکرات ا وئ ک ےچمکات ہ ے ے ۔ ہ ے ہ ے

ن لگیں "کیوں دیکھو تو آپا کیسی اچھی ۔دیکھا اور ک ے ہ ۔یں "ہ

ےوں بتاؤ تو بھال " اماں ن پوچھا بدو ن آنکھیں اٹھا کر" ۔ ے ۔ ہو پھر اس کی ا ۔چاروں طرف دیکھا جیس کچھ ڈھونڈ ر ہ ہ ے وا ہنگا چول پر آ کر رکی، چول میں اوپل کا ایک جال ے ہے ہے ہ ہٹکڑا پڑا تھا بدو ن اس کی طرف اشار کیا اور بوال ے ۔

نست ر اتن میں م سب دیر تک ے"ایسی!" اس بات پر ہے۔ ے ہ ہ "تصدق بدو س ن لگیں ےتصدق بھائی آ گئ اماں ک ۔ ے ہ ے۔

وئ یں؟" آپا ن تصدق بھائی کو آت ےپوچھنا تو آپا کیسی ہ ے ے ہ نڈیا پکان میں ےدیکھا تو من موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیس ہ ے ہ اں تو کیسی آپا، بدو؟" و بول "بتاؤں؟" " " و مک ے۔من ہ ہے ہ ۔ ہ ہ

اتھ ہبدو چال اور اس ن اوپل کا ٹکڑا اٹھان ک لئ ے ے ے ے ے تا تھا میں دکھانا چا اتھ میں ل کر ~ و اس ہبڑھایا غالبا ہ ے ہ ے ہ ۔

وئ الت اتھ پکڑ لیا اور انگلی ےمگر آپا ن جھٹ اس کا ہ ے ہ ہ ے ن لگیں، پگل اس " بدو رون لگا تو اماں ک ےبولیں "اون ے ے ہ ے ہہ۔ ۔ وا "و تو جال ، اس میں چنگاری یں اٹھات ہےاتھ میں ن ہ ہ ہے ے ہ ہ

ا اماں بولیں" میر الل وئ ک ےاماں!" بدو ن بسورت ۔ ہ ے ہ ے ے یں اس ک اندر تو آگ اوپر س دکھائی یں معلوم ن ےتم ہے۔ ے ہ ہ " بدو ن بھول پن س پوچھا "کیوں آپا اس یں دیتی ۔ن ے ے ے ۔ ہ

لکی سی سرخی دوڑ " اس وقت آپا ک من پر ہمیں آگ ہ ے ہے۔ وئی آواز میں بولی اور ہگئی "میں کیا جانوں؟" و بھرائی ہ ۔

وئی آگ میں ب مصرف پھونکیں ےپھنکنی اٹھا کر جلتی ہ ۔مارن لگی ے

رائیوں میں جیتی وں ک آپا دل کی گ ہاب میں سمجھتی ہ ہ رائیاں اتنی عمیق تھیں ک بات ابھرتی بھی تو ہتھی اور و گ ہ ہ

ےبھی نکل ن سکتی اس روز بدو ن کیس پت کی بات ے ے ۔ ہ تی ا کرتی تھی "آپا تم تو بس بیٹھ ر ی تھی مگر میں ک ہک ۔ ہ ہ تی "پگلی" اور اپن کام میں لگ " اور و مسکرا کر ک ےو ۔ ہ ہ ۔ ہر وقت تی تھی ہجاتی ویس و سارا دن کام میں لگی ر ۔ ہ ہ ے ۔ ی وقت ہکوئی اس کسی ن کسی کام کو ک دیتا اور ایک ہہ ہ ے

۔میں اس کئی کام کرن پڑ جات ادھر بدو چیختا "آپا ے۔ ے ے " ادھر ابا گھورت "سجاد ابھی تک چائ کیوں ےمیرا دلیا ہ ے ۔

Page 12: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں بنی؟" بیچ میں اماں بول پڑتیں "بیٹا دھوبی کب س ےن ۔ ہ ؟" اور آپا چپ چاپ سار کاموں س نپٹ ر کھڑا ےبا ے ہے ہ ےلیتی ی تو میں خوب جانتی تھی مگر اس ک باوجود جان ے ہ ۔ وتا یں وئ دیکھ کر ی محسوس ن ہکیوں اس کام کرت ہ ہ ے ہ ے ے ی یا اتنا کام کرتی مجھ تو بس ےتھا ک و کام کر ر ہے۔ ہے ہ ہ ہ تی اور اس ادھر ادھر ی ر ی معلوم تھا ک و بیٹھی ےی ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہےگردن موڑن میں بھی اتنی دیر لگتی اور چلتی تو ہے ے

وتی اس ک عالو میں ن آپا کو یں وئی معلوم ن ےچلتی ہ ے ۔ ہ ہ ہ یں سنا تھا زیاد س زیاد وئ ن نست ق مار کر ہکبھی ق ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ ہہ ہ

۔و مسکرا دیا کرتی تھیں اور بس ہ

ہالبت و مسکرایا اکثر کرتی تھی جب و مسکراتی تو اس ۔ ہ ہ اں تو میں ونٹ کھل جات اور آنکھیں بھیگ جاتیں ہک ۔ ے ہ ے

لتی یں تی ذرا ن ی ر ہسمجھتی تھی ک آپا چپکی بیٹھی ہ ہے۔ ہ ہ ہ نچ جاتی جیس اں پ اں س و ےاور بن چل لڑھک کر ی ہے ہ ہ ے ہ ے

و اس ک برعکس ساحر کتن ےکسی ن اس دھکیل دیا ہ ے ۔ ہ ے ے و ی ہمز میں چلتی تھی جیس دادر کی تال پر ناچ ر ہ ے ے ے

ن ساجو باجی کو چلت دیکھ کر تو میں ےاور اپنی خال زاد ب ہ ہ میش میر پاس ر تا تھا ک باجی ہےکبھی ن اکتاتی جی چا ے ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہےاور چلتی چلتی اس طرح گردن موڑ کر پنچم آواز میں ک یں جی! کیوں جی؟" اور اس کی کالی کالی آنکھوں ک ے" ہ ےگوش مسکران لگیں باجی کی بات بات مجھ کتنی ۔ ے ے

۔پیاری تھی

تی تھیں دن بھر ان مار پڑوس میں ر ۔ساحر اور ثریا ہ ے ہ ہ تا جیس کسی مندر وں س گونجتا ر ق ےکا مکان ان ک ق ہ ے ہ ہ ے یں تا تھا ک ان وں بس میرا جی چا ی ہمیں گھنٹیاں بج ر ہ ہ ۔ ہ ہ ی کیا تھا ایک بیٹھ مار گھر رکھا وں ۔ک گھر جا ر ہ ے ہ ۔ ہ ے

ن والی آپا، ایک "ی کرو، و کرو" والی اماں اور دن بھر ہر ہ ے ہ ۔حق میں گڑ گڑ کرن وال ابا ے ے ے

وئ سنا سچ ت ےاس روز جب میں ن ابا کو امی س ک ہ ے ہ ے ے ہبات تو ی مجھ ب حد غص آیا "سجا کی ماں! معلوم ۔ ہ ے ے ہے ہ

یں ت س برتن ۔وتا ساحر ک گھر میں ب ہ ے ہ ے ہ ہے "ہ

" ۔کیوں؟" اماں پوچھن لگیں ے

یں اور یا ت ی بجت ر ن لگ "بس تمام دن برتن ہک ے ہ ے ہ ے۔ ے ہ و یں جیس میل لگا ق لگت ۔ق ہ ہ ے ہ ے ہے ہ "

Page 13: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔اماں تنک کر بولیں "مجھ کیا معلوم آپ تو بس لوگوں ے ۔ یں ت ۔ک گھر کی طرف کان لگائ بیٹھ ر ہ ے ہ ے ے ے "

اں لڑکی جوان ! میرا تو مطلب ک ج ن لگ "افو ہابا ک ہ ہے ہ ے۔ ے ہ و جاتی ہوئی برتن بجن لگ بازار ک اس موڑ تک خبر ے ے۔ ے ہو چکی مگر دیکھو نا ہے۔ ک فالں گھر میں لڑکی جوان ہ ہ ہے" میں ن ابا کی بات سنی یں ےماری سجاد میں ی بات ن ۔ ہ ہ ہ ہاں! ہاور میرا دل کھولن لگا "بڑی آئی سجاد جی ہ ہے۔ ۔ ے

تا تھا ک جا کر وئی " اس وقت میرا جی چا ہاپنی بیٹی جو ہ ۔ ہ وئی آپا کا من چڑاؤں اسی بات ۔باورچی خان میں بیٹھی ہ ہ ے ی دل میں کھولتی ہپر میں ن دن بھر کھانا ن کھایا اور دل ہ ے یں بس حق لیا اور گڑ گڑ کر لیا یا ی کیا ی ابا جانت ہر ۔ ہ ہ ے ۔ ہ ےزیاد س زیاد کتاب کھول کر بیٹھ گئ اور گٹ مٹ گٹ ہ ے ہ ےمٹ کرن لگ جیس کوئی بھٹیاری مکئ ک دان بھون ے ے ے ے

ی و سار گھر میں ل د ک صرف تصدق بھائی ی ہر ے ے ے ے ۔ ہ ہ ہتھ جو دلچسپ باتیں کیا کرت تھ اور جب ابا گھر پر ن ے ے ے ہوت تو و بھاری آواز میں گایا بھی کرت تھ جان و ے ے۔ ے ہ ے ہ

اں ہکون سا شعر تھا

یں آنکھوں میں نمی سی ہےچپ چپ س و بیٹھ ہ ے ہ ےوں میں نازک سا فسان ہےنازک سی نگا ہ ہ

وئ سن کر کسی ن کسی بات پر مسکرا یں گات ہآپا ان ے ہ ے ہ لکا سا تھپڑ مار وئی تو و بدو کو ہدیتی اور کوئی بات ن ہ ہ ہ

ی بیٹھی مسکراتی تی "بدو رو نا" اور پھر آپ ہکر ک ۔ ہ تی ۔ر ہ

مار گھر یں ےتصدق بھائی میر پھوپھا ک بیٹ تھ ان ہ ہ ے۔ ے ے ے ل تو وں گ کالج میں پڑھت تھ پ وئ ی دو ما ےآئ ی ہ ے۔ ے ے۔ ہ ے ہ ہ ہ ے ا کرت تھ پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ےو بورڈنگ میں ر ے ہ ہ ۔وئی تھی تو باتوں باتوں میں ان کا ذکر چھڑ گیا پھوپھی ہیں لڑکا ن لگی بورڈنگ میں کھان کا انتظام ٹھیک ن ۔ک ہ ے ے ہ

ن تا اماں اس بات پر خوب لڑیں ک ےآئ دن بیمار ر ہ ۔ ہے۔ ہ ے ن کا ےلگیں "اپنا گھر موجود تو بورڈنگ میں پڑ ر ہ ے ہے ۔

وئیں اماں ت سی باتیں ۔مطلب؟" پھر ان دونوں میں ب ہ ہ یں ۔کی تو عادت ک اگلی پچھلی تمام باتیں ل بیٹھتی ہ ے ہ ہے

Page 14: اردو ادب کے مشہور افسانے

فت ک بعد تصدق بھائی وا ک ایک ےغرضیک نتیج ی ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ر اں آ ٹھ مار ے۔بورڈنگ چھوڑ کر ہ ہ ے ہ

انکا کرت ےتصدق بھائی مجھ س اور بدو س بڑی گپیں ہ ے ے وتیں بدو س تو و دن ہتھ ان کی باتیں ب حد دلچسپ ے ۔ ہ ے ے۔ ےبھر ن اکتات البت آپا س و زیاد باتیں ن کرت کرت بھی ے۔ ہ ہ ہ ے ہ ے۔ ہ

، جب کبھی و آپا ک سامن جات تو آپا ک دوپٹ ےکیس ے ے ے ے ہ ے ی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ سا بن جاتا اور ۔کا پلو آپ ہ

ہآپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھک جاتیں اور و کسی ن ہ ۔کسی کام میں شدت س مصروف دکھائی دیتی اب ے

ےمجھ خیال آتا ک آپا ان کی باتیں غور س سنا کرتی ہ ہے ے تی کچھ ن تھی بھائی صاحب بھی بدو س آپا ےتھیں گو ک ۔ ہ ہ ت لیکن صرف اسی وقت جب و ہک متعلق پوچھت ر ے ہ ے ے

؟ ی اری آپا کیا کر ر ، پوچھت "تم وت ہےدونوں اکیل ہ ہ ے۔ ے ہ ے "

بالؤں؟" راتا "بیٹھی ی س د ہےآپا؟" بدو ال پروا ۔ ہ ے ہ "

یں اچھا بدو، آج یں ن ت "ن ۔بھائی صاحب گھبرا کر ک ہ ہ ے۔ ہ " اور جب بدو کا یں دکھائیں یں، ی دیکھو اس طرف تم ۔تم ہ ہ ہ

ت "ار و جاتا تو و مدھم آواز میں ک ےدھیان ادھر ادھر ے۔ ہ ہ ہ و ۔یار تم تو مفت کا ڈھنڈورا ہ "

وں میں؟" اس پر و میز بجان لگت ے۔بدو چیخ اٹھتا "کیا ے ہ ہ ۔ ، دیکھا؟ جس ےڈگمگ ڈگمگ ڈھنڈورا یعنی ی ڈھنڈورا ہے ہ

؟" اور اکثر آپا یں ڈگمگ، ڈگمگ سمجھ ت ےڈھول بھی ک ہ ے ہ ر جاتی اور ان کی ہآپا چلت چلت ان ک درواز پر رک ٹھ ے ے ے ے ی تی اور پھر چول ک پاس بیٹھ کر آپ ہباتیں سنتی ر ے ہے ہ ہآپ مسکراتی اس وقت اس ک سر س دوپٹ سرک ے ے ۔

ہجاتا، بالوں کی لٹ پھسل کر گال پر آ گرتی اور و بھیگی وئ شعلوں کی طرح ےبھیگی آنکھیں چول میں ناچت ہ ے ہے

و مگر الفاظ لت گویا گاڑی ونٹ یوں ہجھومتیں آپا ک ے ہ ہ ے ۔ ےسنائی ن دیت ایس میں اگر اماں یا ابا باورچی خان ے ے۔ ہ

، بال اور آنکھیں ہمیں آ جات و ٹھٹھک کر یوں اپنا دوپٹ ہ ے ہسنبھالتی گویا کسی ب تکلف محفل میں کوئی بیگان آ ے

و ۔گھسا ہ

ر صحن میں بیٹھی تھیں اس ۔ایک دن میں، آپا اور اماں با ہ ہےوقت بھائی صاحب اندر اپن کمر میں بدو س ک ر ہہ ے ے ے م س م تو اس س بیا کریں گ جو ےتھ "میر یار ہ ے ہ ے ہ ے ے۔

Page 15: اردو ادب کے مشہور افسانے

، شطرنج، ، کتابیں پڑھ سک ےانگریزی میں باتیں کر سک ے و؟ و گول گول ہکیرم اور چڑیا کھیل سک چڑیا جانت ہ ے ے۔

ےپروں واال گیند بل س یوں ڈز، ٹن، ڈز اور سب س ے ے میں مز دار کھان پکا کر کھال ےضروری بات ی ک ے ہ ہ ہے ہ

، سمجھ ؟ ےسک ے "

م تو چھاجو باجی س بیا کریں گ ے۔بدو بوال، " ہ ے ہ "

" ن لگ !" بھائی صاحب ک ے۔ان ے ہ ہہ

وں تم آپا س بیا کرو گ ے۔بدو چیخن لگا "میں جانتا ہ ے ہ ۔ ے ۔اں!" اس وقت اماں ن مسکرا کر آپا کی طرف دیکھا ے ہ

ےمگر آپا اپن پاؤں ک انگوٹھ کا ناخن توڑن میں اس قدر ے ے ے و اندر بھائی صاحب ی ن ۔مصروف تھی جیس کچھ خبر ہ ہ ہ ے

اری آپا فرنی پکاتی تو اس میں ہےک ر تھ "وا تم ہ ہ ے۔ ہے ہہ یں ڈالتی بالکل پھیکی آخ تھو ۔پوری طرح شکر بھی ن ۔ ہ !"

ونا یں فرنی میں کم میٹھا ت ا "ابا جو ک ہبدو ن ک ہ ے ہ ہ ے ئ ے۔چا ہ "

یں" مار لئ تو ن ہتو و اپن ابا ک لئ پکاتی نا ے ے ہ ۔ ہے ے ے ے ہ !"

" ؟" بدو چیخا وں آپا س ۔میں ک ے ہ

یں ڈھنڈورا پیٹ کر ہبھائی چالئ "او پگال ڈھنڈورا لو تم ۔ ۔ ے۔ " بدو پھر چالن ےدکھائیں ی دیکھو اس طرف ڈگمگ ڈگمگ ۔ ہ ۔

اں اسی اں و نا؟" " وں تم میز بجا ر ہلگا "میں جانتا ہ ۔ ہ ہے ہ ۔ " بھائی صاحب ک ر تھ ےطرح ڈھنڈورا پٹتا نا ہے ہہ ۔ ہے

م ، آؤ ہ"کشتیوں میں، اچھا بدو تم ن کبھی کشتی لڑی ہے ے لوان لو آؤ، وں گاما اور تم بدو پ ۔تم کشتی لڑیں میں ہ ہ ۔ وں ی ان وں " اور اس ک ساتھ رو، جب میں تین ک ہٹھ ہ ے ۔ ہ ہ اری دوستی تو مجھ ا "ار یار تم ےن مدھم آواز میں ک ہ ے ۔ ہ ے

نسی ن روک سکی "میرا خیال آپا نگی پڑتی ت م ہب ہ ہے ہے۔ ہ ہ ۔اس لئ و اٹھ کر باورچی خان میں چلی گئی میرا تو ے ہ ے ا تھا اور اماں ن اپن من ہنسی ک مار دم نکال جا ر ے ے ہ ے ے ہ

ے۔میں دوپٹ ٹھونس لیا تھا تاک آواز ن نکل ہ ہ ہ

وئ تھ ک بھائی ہمیں اور آپا دونوں اپن کمر میں بیٹھ ے ے ہ ے ے ے نیا؟" ان ک و ج ی ن لگ "کیا پڑھ ر ےصاحب آ گئ ک ہ ہ ہ ے ے ہ ے۔ وتی تھی نیا سن کر مجھ بڑی خوشی ۔من س ج ہ ے ہ ے ہ

Page 16: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں ہحاالنک مجھ اپن نام س ب حد نفرت تھی نور ج ۔ ے ے ے ے ہ ی من میں باسی روٹی کا مزا آن ےکیسا پرانا نام بولت ہ ہ ے ہے۔

اں سن کر یوں محسوس کیا کرتی ہلگتا میں تو نور ج ہے۔ ےتھی جیس کسی تاریخ کی کتاب ک بوسید ورق س ہ ے ے

وںمگر بھائی ی وئی آ ر ہکوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہ ہ ےصاحب کو نام بگاڑ کر اس سنوار دین میں کمال حاصل ے نیا سن کر مجھ اپن نام س کوئی ےتھا ان ک من س ج ے ے ہ ے ہ ے ۔ تی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی ہشکایت ن ر ہ

ا کر تھ مگر وں آپا کو و سجاد س سجد ک زادی ےش ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ ۔و تو بات تھی، جب آپا چھوٹی تھی اب تو بھائی جان ہ

ت بلک اس کا پورا نام تک لین س ےاس سجد ن ک ے ہ ے ہ ہ ے ے ۔گھبرات تھ خیر میں ن جواب د دیا "سکول کا کام ے ے ے۔ ے

وں ی ۔کر ہ ہ "

ہےپوچھن لگ "تم ن کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ے ے۔ ے "کیا؟

یں ا "ن ہمیں ن ک ۔ ہ ے !"

وئی وں ن میر اور آپا ک درمیان دیوار پر لٹکی ہان ے ے ے ہ ارٹ اری آپا ن تو "تم ا وئ ک ہگھڑی کی طرف دیکھت ے ہ ۔ ہ ے ہ ے " و کنکھیوں س آپا کی طرف و گی اؤس پڑھی ےبریک ہ ۔ ہ ہ

ے۔دیکھ ر تھ ہے

ال دیا اور مدھم آواز میں ی سر ہآپا ن آنکھیں اٹھائ بغیر ہ ے ے ی یں!" اور سویٹر بنن میں لگی ر ا "ن ۔ک ہ ے ہ ہ

، نش نیا ک و کیا چیز ہےبھائی جان بول "او کیا بتاؤں ج ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے د، تم اس ضرور پڑھو بالکل آسان یعنی ، خالص ش ہےنش ے ہ ہ

ہے۔امتحان ک بعد ضرور پڑھنا میر پاس پڑی ے ۔ ے "

"ضرور پڑھوں گی ا ۔میں ن ک ۔ ہ ے "

اری آپا ن میٹرک ک وں تم تا ےپھر پوچھن لگ "میں ک ے ہ ہ ہ ے۔ ے "بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟

ی پوچھ ا "مجھ کیا معلوم آپ خود ہمیں ن چڑ کر ک ے ہ ے " حاالنک مجھ اچھی طرح س معلوم تھا ک آپا ن ےلیجیئ ہ ے ے ہ ے۔

تی تھی میرا تو کالج ہکالج جان س کیوں انکار کیا تھا ک ۔ ے ے

Page 17: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا تا و یں چا ہجان کو جی ن ۔ ہ ہ ے و درسگا تو معلوم وتا گویا کوئی نمائش گا ہمعلوم ۔ ہ ہ ہے ہ

" مجھ و ان میل لگا وتی جیس مطالع ک ب یں ےی ن ۔ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہت بری لگی تھی میں جانتی تھی ک و ہآپا کی ی بات ب ہ ۔ ہ ہ

تی بڑی آئی یں چا ن ک لئ کالج جانا ن ۔گھر میں بیٹھ ر ہ ہ ے ے ے ہ ہنکت چین اس عالو جب کبھی بھائی جان آپا کی بات ۔ ہ

۔کرت تو میں خوا مخوا چڑ جاتی آپا تو بات کا جواب تک ہ ہ ے یں اور پھر آپا کی بات مجھ یں دیتی اور ی آپا آپا کر ر ہن ہے ہ ہ ےس پوچھن کا مطلب؟ میں کیا ٹیلی فون تھی؟ خود آپا ے وئی گم سم آپا، بھیگی بلی ۔س پوچھ لیت اور آپا، بیٹھی ہ ے ے

وئ چال اٹھ "آج فیرنی میں ے۔شام کو ابا کھان پر بیٹھ ے ہ ے ے یں ونٹ چپک جات ؟ قند س ۔اتنی شکر کیوں ہ ے ے ہ ے ہے

و گئی ایک ! سجاد بیٹی کیا کھانڈ اتنی سستی ہے۔سجاد ہ ہ ہ " شام آپا کی بھیگی بھیگی ہے۔لقم نگلنا بھی مشکل ہ

ی تھیں حاالنک جب کبھی ابا جان خفا ہآنکھیں جھوم ر ۔ ہ ےوت تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا مگر اس وقت اس ک گال ۔ ے ہ" ی ک کر و "شاید زیاد پر گئی ن لگی ، ک ہہتمتما ر تھ ہ ۔ ہ ہ ۔ ے ہ ے ہے ی ہو تو باورچی خان میں چلی گئی اور میں دانت پیس ر ے ہ

۔تھی "شاید کیا خوب شاید ۔ ۔ ۔ "

ا ہادھر ابا بدستور بڑبڑا ر تھ "چار پانچ دن س دیکھ ر ے ے۔ ہے " صحن میں اماں ی ہے۔وں ک فیرنی میں قند بڑھتی جا ر ہ ہ ہی ابا پر برس پڑیں، جیس ان ےدوڑی دوڑی آئیں اور آت ہ ے

لکا میٹھا یں آپ ہکی عادت "آپ تو نا حق بگڑت ۔ ہ ے ہے۔ یں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں؟ الل ہپسند کرت ہ ے ئ ے۔رکھ گھر میں جوان لڑکا اس کا تو خیال کرنا چا ہ ہے ے

ن لگ "ار ی و گئی، ک ہ"ابا کو جان چھڑانی مشکل ے ے۔ ے ہ ہ وں سجاد کی ماں" اور تا وتا میں ک ہبات مجھ بتا دیا ہ ہ ہ ے ہے

ےو دونوں کھسر پھسر کرن لگ آپا، ساحر ک گھر جان ے ہ ے۔ ے ہ وئی آپا اس س ملنا تو وئی تو میں بڑی حیران ےکو تیار ۔ ہ ہ ی یں کرتی تھی بلک اس ک نام پر ہکیا بات کرنا پسند ن ے ہ ۔ ہ ےناک بھوں چڑھایا کرتی تھی میں ن خیال کیا ضرور کوئی ۔

۔بھید اس بات میں ہے

ےکبھی کبھار ساحر دیوار ک ساتھ چارپائی کھڑی کر ک ے ہ ماری طرف جھانکتی اور کسی ن کسی ہاس پر چڑھ کر ہ ان سلسل گفتگو کو دراز کرن کی کوشش کرتی تو آپا ےب ۂ ے ہ

Page 18: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ہبڑی ب دلی س دو ایک باتوں س اس ٹال دیتی آپ ۔ ے ے ے ے اں کھڑی ہآپ بول اٹھی "ابھی تو اتنا کام پڑا اور میں ی ہے ۔ " ی ک کر و باورچی خان میں جا بیٹھتی خیر اس ۔وں ے ہ ہہ ہ ۔ ہ

ی مگر جب آپا لوٹ چکی ہوقت تو میں چپ چاپ بیٹھی ر ےتو کچھ دیر ک بعد چپک س میں بھی ساحر ک گھر جا ہ ے ے ے ی باتوں میں ن ذکر چھیڑ دیا "آج آپا آئی نچی باتوں ۔پ ے ہ ۔ ہ

"تھی؟

اں کوئی کتاب ا " وئ ک ہساحر ن ناخن پر پالش لگات ۔ ہ ے ہ ے ے ہ ارٹ اں! ہمنگوان کو ک گئی ن جان کیا نام اس کا ہ ہے ے ہ ہے ہہ ے

اؤس ۔بریک ہ "

۔آپا اس کتاب کو مجھ س چھپا کر دراز میں رکھتی تھی ے ہمجھ کیا معلوم ن تھا رات کو و بار بار کبھی میری ۔ ہ ے

تی اس یوں ےطرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتی ر ۔ ہ مضطرب دیکھ کر میں دو ایک انگڑائیاں لیتی اور پھرےکتاب بند کر ک رضائی میں یوں پڑ جاتی جیس مدت ے

و جاتا وں جب اس یقین ری نیند میں ڈوب چکی ہس گ ے ۔ ہ ہ ے وں تو دراز کھول کر کتاب نکال لیتی ہک میں سو چکی ہ ہاور اس پڑھنا شروع کر دیتی آخر ایک دن مجھ س ن ے ۔ ے

ی لیا "آپا ا گیا میں ن رضائی س من نکال کر پوچھ ۔ر ہ ہ ے ے ۔ ہ اؤس کا مطلب کیا دل توڑن واال گھر؟ ارٹ بریک ےی ہے۔ ہ ہ ہ

ل تو ٹھٹھک گئی، پھر و ؟" آپا پ وئ ہاس ک کیا معنی ے ہ ے ہ ے ےسنبھل کر اٹھی اور بیٹھ گئی مگر اس ن میری بات کا ۔ ا ۔جواب ن دیا میں ن اس کی خاموشی س جل کر ک ہ ے ے ۔ ہ

" ارٹ بریک مارا گھر واقعی ہے۔اس لحاظ س تو ہ ہ ے "

ن لگی "میں کیا جانوں؟ ۔ک ے ہ "

؟" ماری آپا بھال کیا جان اں! ا " ےمیں ن اس جالن ک ک ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے ے ےمیرا خیال ی بات ضرور اس بری لگی کیونک اس ن ہ ۔ ے ہ ہے

۔کتاب رکھ دی اور بتی بجھا کر سو گئی

ی پھرت پھرت میں بھائی جان ک کمر میں ےایک دن یون ے ے ے ہ ل تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرت ر ہے۔جا نکلی پ ے ے ہ ۔ اری آپا کو نیا، اچھا ی بتاؤ کیا تم ہپھر پوچھن لگ "ج ہ ہ ے۔ ے

ا "میں کیا جانوں؟ جا ؟" میں ن ک ہفروٹ سالد بنانا آتا ے ہے

Page 19: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن لگ "آج کیا کسی نس کر ک " ے۔کر آپا س پوچھ لیجئ ے ہ ہ ے۔ ے و ۔س لڑ کر آئی ہ ے "

" ا وں؟" میں ن ک ۔کیوں میں لڑاکا ہ ے ہ

" و جاؤ و شاید کسی دن لڑاکا یں ابھی تو لڑکی ۔بول "ن ہ ہ ہ ے نیا ن لگ "دیکھو ج نسی نکل گئی و ک ہاس پر میری ے۔ ے ہ ہ ۔ ہ ہمجھ لڑنا ب حد پسند میں تو ایسی لڑکی س بیا ے ہے۔ ے ے ، ذرا ن ہکروں گا جو باقاعد صبح س شام تک لڑ سک ے ے ہ " جان کیوں میں شرما گئی اور بات بدلن کی ےاکتائ ے ے۔

وتا بھائی جان؟ ہےخاطر پوچھا "فروٹ سالد کیا ہ ۔ "

وتا سفید سفید، الل الل، کاال کاال، نیال ہے۔بول "و بھی ہ ہ ے۔ ن نسی، پھر ک ت "میں ان کی بات سن کر ب ےنیال سا ہ ہ ہ ۔

م فیرنی کھا نیا اں تو ج ، ی ہلگ "مجھ و ب حد پسند ہ ہ ہے ے ہ ے ے۔ و گی ۔کر اکتا گئ "میرا خیال ی آپا ن ضرور سن لی ہ ے ہ ہے ے۔ ےکیونک اسی شام کو و باورچی خان میں بیٹھی "نعمت ہ ہ ی تھی اس دن ک بعد روز بال ناغ و کھان " پڑھ ر ےخان ہ ہ ے ۔ ہ ہ و کر فروٹ سالد بنان کی مشق کیا ےپکان س فارغ ہ ے ے م میں کوئی اس ک پاس چال جاتا تو جھٹ ےکرتی اور ہ ےفروٹ سالد کی کشتی چھپا دیتی ایک روز آپا کو چھیڑن ۔

"بدو بھال بوجھو تو و کشتی ا ہکی خاطر میں ن بدو س ک ۔ ہ ے ے ؟ ہےجو آپا ک پیچھ پڑی اس میں کیا ہے ے ے "

اتھ دھو کر آپا ک پیچھ پڑ گیا حتیP ک آپا کو و ہبدو ہ ۔ ے ے ہ ی پڑی پھر میں ن بدو کو اور بھی ےکشتی بدو کو دینی ۔ ہ ا "بدو جاؤ، بھائی جان س پوچھو ےچمکا دیا میں ن ک ۔ ہ ے ۔ " بدو بھائی جان ک کمر کی ےاس کھان کا کیا نام ے ہے ے

ےطرف جان لگا تو آپا ن اٹھ کر و کشتی اس س چھین ہ ے ے ۔لی اور میری طرف گھور کر دیکھا

لی مرتب آپا ن مجھ یوں گھورا تھا اسی رات ۔اس روز پ ے ے ہ ہ ی س لیٹ گئی، مجھ صاف دکھائی دیتا تھا ک ہآپا شام ے ے ہ ی اس وقت مجھ اپنی بات ےو رضائی میں پڑی رو ر ہے۔ ہ ہ

تا تھا ک اٹھ کر آپا ک وا میرا جی چا ت افسوس ےپر ب ہ ہ ۔ ہ ہ ےپاؤں پڑ جاؤں اور اس خوب پیار کروں مگر میں ویس ے

ی اور کتاب کا ایک لفظ تک ن پڑھ ہی چپ چاپ بیٹھی ر ہ ہ۔سکی

Page 20: اردو ادب کے مشہور افسانے

م سب ساجو ن ساجد جس ی دنوں میری خال زاد ب ہان ے ہ ہ ہ ہ مار گھر آ ، میٹرک کا امتحان دین ا کرت تھ ےباجی ک ہ ے ے ے ہ و مار گھر میں رونق ری ساجو باجی ک آن پر ہٹھ ے ہ ے ے ۔ ہ

وں س گونج اٹھا ساحر اور ثریا ق مارا گھر بھی ق ہگئی ۔ ے ہ ہ ہ ۔ تیں بدو و کر باجی س باتیں کرتی ر ۔چارپائیوں پر کھڑی ہ ے ہ

م تو تا " ہچھاجو باجی، چھاجو باجی چیختا پھرتا اور ک ۔ ہ ے۔چھاجو باجی س با کریں گ ہ ے "

" پھر و ل من دھو آؤ تی "شکل تو دیکھو اپنی، پ ہباجی ک ۔ ہ ے ہ ۔ ہ ہبھائی صاحب کی طرف یوں گردن موڑتی ک کالی کالی

ےآنکھوں ک گوش مسکران لگت اور پنچم تان میں ے ے ے ہےپوچھتی " نا بھئی جا آن کیوں جی؟ ۔ "

ےباجی ک من س "بھئی جا آن" کچھ ایسا بھال سنائی دیتا ہ ے ےک میں خوشی س پھولی ن سماتی اس ک برعکس ۔ ہ ے ہ تی تو کیسا بھدا معلوم ہجب کبھی آپا "بھائی صاحب" ک

و اور پھر ی یں بھائی ک ر ہوتا گویا و واقعی ان ہ ہہ ہ ہ ۔ ہو مگر باجی وا ہ"صاحب" جیس حلق میں کچھ پھنسا ہ ے

ے"صاحب" کی جگ "جا آن" ک کر اس ساد س لفظ میں ے ہہ ہ ۔جان ڈال دیتی تھی "جا آن" کی گونج میں بھائی دب جاتا

ی یں بھائی ک ر وتا ک و ان ی ن ہے۔اور ی محسوس ہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ہاس ک عالو "بھائی جا آن" ک کر و اپنی کالی کالی ہہ ہ ے ی آنکھوں میں ہچمکدار آنکھوں س دیکھتی اور آنکھوں ے وتا ک اس ےمسکراتی تو سنن وال کو قطعی ی گمان ن ہ ہ ہ ہ ے ے

ا گیا آپا ک "بھائی صاحب" اور باجی ک ےبھائی ک ے ہے۔ ہ ۔"بھائی جا آن" میں کتنا فرق تھا

ی ر گیا نا نا بالکل بیٹھ ر ۔باجی ک آن پر آپا کا بیٹھ ر ہ ہ ہ ہ ے ے ےبدو ن بھائی جان س کھیلنا چھوڑ دیا و باجی ک گرد ہ ۔ ے ے تا اور باجی بھائی جان س کبھی شطرنج ےطواف کرتا ر ہ

۔کبھی کیرم کھیلتی

تی "بھئی جا آن ایک بورڈ لگ گا" یا بھائی جان ےباجی ک ۔ ہ "کیوں میاں بدو! ت ےاس کی موجودگی میں بدو س ک ہ ے

و؟" باجی بول تا م س شطرنج میں پٹنا چا ہکوئی جو ہ ے ہ ہے ت "اور تم؟" باجی ے۔اٹھتی آپا س پوچھئ "بھائی جان ک ہ ے۔ ے ۔

Page 21: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر پر سنجیدگی ےجھوٹ موٹ کی سوچ میں پڑ جاتی، چ ہ پیدا کر لیتی، بھویں سمٹا لیتی اور تیوری چڑھا کر کھڑی" بھائی تی "ان مجھ س آپ پٹ جائیں گ تی پھر ک ے۔ر ے ہہ ۔ ہ ہ ت "کل جو پٹی تھیں نس پڑت اور ک ے۔جان کھلکھال کر ہ ے ہ ا چلو بھئی ہبھول گئیں کیا؟" و جواب دیتی "میں ن ک ے ۔ ہ ار ہجان کا لحاظ کرو ورن دنیا کیا ک گی ک مجھ س ے ہ ہے ہ ۔

وں نستی جیس گھنگھرو بج ر ۔گئ اور پھر یوں ہ ہے ے ہ ے۔

ی کھانا کھان بیٹھ ےرات کو بھائی جان باورچی خان میں ہ ے ۔گئ آپا چپ چاپ چولھ ک سامن بیٹھی تھی بدو ے ے ے ے۔

وا باجی ک دوپٹ کا پلو تا ےچھاجو باجی چھاجو باجی ک ے ہ ہ ا تھا باجی بھائی جان کو ۔پکڑ اس ک آس پاس گھوم ر ہ ے ے

تی تھی "بھئی جا آن تو صرف ساڑھ ی تھی ک ےچھیڑ ر ۔ ہ ۔ ہ یں اس ک عالو فیرنی کی پلیٹ مل ہچھ پھلک کھات ے ۔ ہ ے ے یں کریں بھی کیا ن کھائیں تو ہجائ تو قطعی مضائق ن ۔ ۔ ہ ہ ے وا، نا یں جو خوش رکھنا و جائیں ان ہےممانی ناراض ہ ہ ۔ ہ

نس پھر باجی م سب اس بات پر خوب " ے۔بھائی جا آن ہ ہ ۔ وئی آپا لن لگی اور آپا ک پیچھ جا کھڑ ی ۔ادھر ادھر ٹ ہ ے ے ے ہ

ےک پیچھ فروٹ سالد کی کشتی پڑی تھی باجی ن ۔ ے ے ےڈھکنا سرکا کر دیکھا اور کشتی کو اٹھا لیا پیشتر اس ک ۔

ہک آپا کچھ ک سک باجی و کشتی بھائی جان کی طرف ے۔ ہہ ہ نست ےل آئی "لیجئ بھائی جا آن" اس ن آنکھوں میں ہ ے ے ۔ ے

یں گ ک ساجو باجی ن کبھی ا "آپ بھی کیا ک ےوئ ک ہ ے ہ ۔ ہ ے ہیں ی ن ۔کچھ کھالیا ہ ہ "

ا "خدا ہبھائی جان ن دو تین چمچ من میں ٹھونس کر ک ہ ے ے ؟" ساجو باجی ن ، کس ن بنایا ت اچھا بنا ےکی قسم ب ہے ے ہے ہ

ا وئ ک نست ۔آپا کی طرف کنکھیوں س دیکھا اور ہ ے ہ ے ہ ے ے"ساجو باجی ن اور کس ن بھئی جا آن ک لئ "بدو ن ے۔ ے ے ے

ا و ر ہآپا کی من کی طرف غور س دیکھا آپا کا من الل ہ ہ ۔ ے ہ ہتھا بدو چال اٹھا "میں بتاؤں بھائی جان؟"آپا ن بدو ک من ے ے ۔ ۔ ر چلی گئی اتھ رکھ دیا اور اس گود میں اٹھا کر با ۔پر ہ ے ہ

وں س کمر گونج اٹھا اور بدو کی بات آئی ق ہباجی ک ق ے ہ ہ ے و گئی ۔گئی ہ

یں کیا ہبھائی جان ن باجی کی طرف دیکھا پھر جان ان ے ۔ ے ر پر گڑ ےوا من کھال کا کھال ر گیا آنکھیں باجی ک چ ہ ے ۔ ہ ہ ۔ ہ

ےگئیں جان کیوں میں ن محسوس کیا جیس کوئی ے ے ۔

Page 22: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر و میں با ا ر گھسیٹ ر ہزبردستی مجھ کمر س با ۔ ہ ہ ہ ے ے ے ر آپا، الگنی ک قریب کھڑی تھی اندر بھائی ۔چلی آئی با ے ہ ۔ ا آپا ن کان س دوپٹ ہصاحب ن مدھم آواز میں کچھ ک ے ے ۔ ہ ے

" اور ےسرکا دیا پھر باجی کی آواز آئی "چھوڑئی چھوڑئی ے ۔ ۔ ۔پھر خاموشی چھا گئی

م صحن میں بیٹھ تھ اس وقت بھائی جان ے۔اگل دن ے ہ ے یں ادھر ادھر ہاپن کمر میں پڑھ ر تھ بدو بھی ک ے۔ ہے ے ے ا تھا باجی حسبl معمول بھائی جان ک کمر ےکھیل ر ے ۔ ہ "آج ایک دھندناتا بورڈ کر ک ن لگی ےمیں چلی گئی، ک ۔ ے ہ

اں ، ی ہدکھاؤں کیا رائ آپ کی ؟" بھائی جان بول "وا ہ ے۔ ہے ے ۔ وں ن باجی ~ ان " غالبا اں جا پڑو ےس کک لگاؤں تو جان ک ہ ۔ ہ ے ے

و گا و بناوٹی غص س ےکی طرف زور س پیر چال یا ے ہ ۔ ہ ے یں!" بھائی ی س چھیڑت میش پیر ہچالئی "وا آپ تو ے ے ہ ہ ہ ہ ۔ " باجی "، "چپخاموش اتھ س ~ بول اٹھ "تو کیا ۔جان معا ے ہ ے ۔چیخی اس ک بھاگن کی آواز آئی ایک منٹ تک تو پکڑ ے ے ۔

۔دھکڑ سنائی دی پھر خاموشی چھا گئی ۔

ن لگا "آپا اندر وا آیا، ک یں س بدو بھاگتا ۔اتن میں ک ے ہ ہ ے ہ ے یں چلو یں چلو دکھاؤں تم ہبھائی جان س کشتی لڑ ر ۔ ہ ہے ے ے لدی " و آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹن لگا آپا کا رنگ ہبھی ۔ ے ہ ۔

ا تھا اور و بت بنی کھڑی تھی بدو ن و ر ےکی طرح زرد ۔ ہ ہ ہ ؟" اور و ماں ک ا ں ن لگا "اماں ک ےآپا کو چھوڑ دیا ک ہ ہے ہ ۔ ے ہ ۔

ےپاس جان ک لئ دوڑا آپا ن لپک کر اس گود میں اٹھا ے ۔ ے ے ے " بدو بسورن لگا آپا بولیں "آؤ یں مٹھائی دوں ۔لیا "آؤ تم ے ۔ ہ ۔

" اور اس ےدیکھو تو کیسی اچھی مٹھائی میر پاس ۔ ے ہے ۔باورچی خان میں ل گئی ے ے

ےاسی شام میں ن اپنی کتابوں کی الماری کھولی تو اس اؤس پڑی تھی شاید آپا ن اس ارٹ بریک ےمیں آپا کی ے ۔ ہ ہ وئی ک بات کیا مگر آپا و میں حیران اں رکھ دیا ہےو ہ ہ ۔ ہ ہ

ی وا ہباورچی خان میں چپ چاپ بیٹھی تھی جیس کچھ ہ ے ے یں اس ک پیچھ فروٹ سالد کی کشتی خالی پڑی ےن ے ۔ ہ

وئ تھ ونٹ بھنچ ے۔تھی البت آپا ک ے ہ ے ہ ے ہ ۔

میں ہبھائی تصدق اور باجی کی شادی ک دو سال بعد ے وا اب باجی و باجی ن لی بار ان ک گھر جان کا اتفاق ہپ ہ ۔ ہ ے ے ہ ق بھی ن تھ اس کا رنگ زرد تھا اور ے۔تھی اس ک و ق ہ ہے ہ ہ ے ۔

Page 23: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔ماتھ پر شکن چڑھی تھی بھائی صاحب بھی چپ چاپ ے م سب باورچی خان ت تھ ایک شام اماں ک عالو ےر ہ ہ ے ے۔ ے ہ

ن لگ بدو ساجو باجی س بیا ہمیں بیٹھ تھ بھائی ک ے ے۔ ے ہ ے۔ ے ؟ ےکرو گ

" یں ی ن م با کریں گ ا " !" بدو ن ک ۔اون ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہہ "

م ا کر تا تھا ہمیں ن پوچھا "بھائی جان یاد جب بدو ک ۔ ہ ہے ۔ ے ےتو چھاجو باجی س با کریں گ " اماں ن پوچھا "آپا ے۔ ہ ے ؟" پھر ن لگا "بتاؤں آپا کیسی یں؟" تو ک ہےس کیوں ن ے ہ ہ ے ن وئ اوپل کی طرف اشار کر ک ک ےچولھ میں جل ہ ے ہ ے ے ہ ے ے ےلگا "ایسی!" اور چھاجو باجی؟ میں ن بدو کی طرح ۔

ہبجلی ک روشن بلب کی طرف انگلی س اشار ے ے "ایسی!" عین اسی وقت بجلی بجھ گئی اور کمر ےکیا ۔

اں یاد ہمیں انگاروں کی روشنی ک سوا اندھیرا چھا گیا " ۔ ے ا پھر جب باجی کسی کام ک لئ ے!" بھائی جان ن ک ے ۔ ہ ے ہے

ن لگ "ن جان اب بجلی کو ر چلی گئی تو بھائی ک ےبا ہ ے۔ ے ہ ہ " آپا چپ چاپ بیٹھی تی و گیا جلتی بجھتی ر ہے۔کیا ہ ۔ ہ

ی وئی چنگاریوں کو کرید ر ہچولھ میں راکھ س دبی ہ ے ے ا "اف کتنی ہتھی بھائی جان ن مغموم سی آواز میں ک ے ۔ " پھر اٹھ کر آپا ک قریب چول ک سامن جا ےسردی ے ہے ے ہے۔

وئ اوپلوں س آگ سینکن لگ ے۔بیٹھ اور ان سلگت ے ے ے ہ ے ے وئ اوپلوں تی تھیں ک ان جھلس ےبول "ممانی سچ ک ہ ے ہ ہ ے۔ یں دکھائی دیتی کیوں وتی اوپر س ن ۔میں آگ دبی ہ ے ہے۔ ہ

؟" آپا پر سرکن لگی تو چھن سی آواز آئی ےسجد ے ے و وئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ۔جیس کسی دبی ہ ہ ے

ن لگ "اب اس ے۔بھائی جان منت بھری آواز میں ک ے ہ ، دیکھو تو کتنی ٹھنڈ ہے۔چنگاری کو تو ن بجھاؤ سجد ے ہ

آنندی

�اس) (غالم عب

وا تھا ال کھچا کھچ بھرا ہبلدی کا اجالس زوروں پر تھا ہ ۔ ہ ےاور خالفl معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر ن تھا بلدی ک ہ ۔ ہ ر بدر کر دیا ہزیرl بحث مسئل ی تھا ک زنان بازاری کو ش ہ ہ ہ

Page 24: اردو ادب کے مشہور افسانے

ذیب ک ےجائ کیونک ان کا وجود انسانیت، شرافت اور ت ہ ہ ے ہے۔دامن پر بد نما داغ

ےبلدی ک ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم ک سچ ے ے ہ ایت فصاحت ہخیر خوا اور دردمند سمجھ جات تھ ن ے ے ے ہ

ے۔س تقریر کر ر تھ ہے ے

ہاور پھر حضرات آپ ی بھی خیال فرمائی ک ان کا قیام" ے ہ ر ک ر ک ایک ایس حص میں جو ن صرف ش ےش ہ ہ ہے ے ے ے ہ

ر کا سب س بڑا ےبیچوں بیچ عام گزر گا بلک ش ہ ہ ہے ہ ر شریف آدمی کو چار و ہتجارتی مرکز بھی چنانچ ہ ہے

ہناچار اس بازار س گزرنا پڑتا عالو ازیں شرفاء کی ہے۔ ے میت کی وج و بیٹیاں اس بازار کی تجارتی ا ہپاک دامن ب ہ ہ یں اں آن اور خرید و فروخت کرن پر مجبور ۔س ی ہ ے ے ہ ے ، نیم عریاں ہصاحبان! ی شریف زادیاں ان آبرو باخت ہ

یں تو قدرتی طور ہبیسواؤں ک بناؤ سنگار کو دیکھتی ے ےپران ک دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی

روں یں اور و اپن غریب شو وت ہامنگیں اور ولول پیدا ے ہ ہ ے ہ ے ےس طرح طرح ک غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں ے یں نتیج ی ہاور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرن لگتی ہ ۔ ہ ے میش ک �ر مسرت گھر، ان کا راحت کد ےوتا ک ان کا پ ہ ہ ہ ہ ہے ہ

نم کا نمون بن جاتا ہے۔لئ ج ہ ہ ے "

" مار ےاور صاحبان پھر آپ ی بھی تو خیال فرمائی ک ہ ہ ے ہ یں اور ان وں میں تعلیم پا ر االنl قوم جو درسگا ہنون ہے ہ ہ یں اور ہکی آئند ترقیوں س قوم کی امیدیں وابست ہ ے ہ

تا ک ایک ن ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور ہقیاس چا ہ ہے ہ یں بھی ی ک سر بندھ گا، ان را ان ہس نکالن کا س ے ے ہ ہ ے ے

و کر آنا جاتا پڑتا ی قحبائیں ہصبح شام اسی بازار س ہے۔ ہ ے رو پر ب حجابان نگا و ہر وقت ابھرن سول سنگار کئ را ہ ے ہ ے ہ ہےمژ ک تیر و سناں برساتی اور اس دعوتl حسن دیتی ے ہ مار بھول بھال نا تجرب کار یں دیکھ کر ہیں کیا ان ے ے ے ہ ہ ۔ ہ

ہجوانی ک نش میں محو، سود و زیاں س ب پرو ا نو ے ے ے ے االنl قوم اپن جذبات و خیاالت اور اپنی اعلیP سیرت کو ےن ہ یں؟ ہمعصیت ک مسموم اثرات س محفوظ رکھ سکت ے ے ے االنl قوم مار نون د فریب ہصاحبان! کیا ان کا حسنl زا ے ہ ہ

ہکو جاد مستقیم س بھٹکا کر، ان ک دل میں گنا کی پر ے ے ۂ

Page 25: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےاسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کر ک ایک ب کلی، ایک ے و گا یجان برپا ن کر دیتا ہاضطراب، ایک ہ ہ "

ےاس موقع پر ایک رکن بلدی جو کسی زمان میں مدرس ہ ےر چک تھ اور اعداد و شمار س خاص شغف رکھت ے ے ے ہ

ےتھ بول اٹھ ے :

" ن وال طلب ہصاحبان، واضح ر ک امتحانوں میں ناکام ر ے ے ہ ہ ہے و گیا ہے۔کا تناسب پچھل پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہ ے "

فت وار اخبار ک ےایک رکن ن جو چشم لگائ تھ اور ہ ہ ے ے ہ ے مار ا "حضرات وئ ک ، تقریر کرت ےمدیرl اعزازی تھ ہ ہ ے ہ ے ے

ر س روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نیکو کاری و ےش ہ ی اور اس کی بجائ ب غیرتی، یز گاری اٹھتی جا ر ےپر ے ہے ہ ہ نا مردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دورا منشیات کا استعمال بڑھ گیا قتل و و تا جا ر ہے۔دور ہے۔ ہ ہ ہ

ےغارت گری، خودکشی اور دیوالی نکلن کی وارداتیں ہ یں اس کا سبب محض ان زنانl بازاری کا ی ۔بڑھتی جا ر ہ ہ

ری ان کی مار بھول بھال ش ہنا پاک وجود کیونک ے ے ے ہ ہ ہے یں وش و خرد کھو بیٹھت و کر ہزلفl گر گیر ک اسیر ے ہ ہ ے ہ ہاور ان کی بارگا تک رسائی کی زیاد س زیاد قیمت ادا ے ہ ہ

ر جائز و ناجائز طریق س زر حاصل کرت ےکرن ک لئ ے ہ ہ ے ے ے ۂیں بعض اوقات و اس سعی و کوشش میں جام ہ ۔ ہ

یں اور قبیح افعال کا ارتکاب و جات ر ہانسانیت س با ے ہ ہ ے اتھ وتا ک و جانl عزیزی س یں نتیج ی ہکر بیٹھت ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے

یں یں یا جیل خانوں میں پڑ سڑت ۔دھو بیٹھت ہ ے ے ہ ے "

ےایک پنشن یافت معمر رکن جو ایک وسیع خاندان ک ہ ےسرپرست تھ اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چک تھ اور ے ے

ہاب کش مکش حیات س تھک کر باقی ماند عمر ے وا ل و عیال کو اپن سای میں پنپتا ہسستان اور اپن ا ہ ے ہ ے ے ان کی آواز ، تقریر کرن اٹھ ے۔۔دیکھن ک متمنی تھ ے ے ے ے

: وئ تھا بول ج فریاد کا انداز لئ وئی تھی اور ل ےلرزتی ۔ ے ہ ے ہ ہ ہ ےصاحبان رات رات بھر ان لوگوں ک طبل کی تھاپ، ان ے ےکی گل بازیاں، ان ک عشاق کی دھینگا مشتی، گالی ے و، سن سن کر آس پاس و و ا ا ا ہگلوچ، شور و غل ہ ہ ہ ہ ہ یں رات کی نیند ن وال شرفا ک کان پک گئ ۔ک ر ہ ے ے ے ے ہ ے ےحرام تو دن کا چین مفقود عالو ازیں ان ک قرب س ے ہ ۔ ہے

Page 26: اردو ادب کے مشہور افسانے

و بیٹیوں ک اخالق پر جو اثر پڑتا اس کا انداز ہماری ب ہے ے ہ ہت ان ت ک ےر صاحب اوالد خود کر سکتا آخری فقر ک ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ

ے۔کی آواز بھرا گئی اور و اس س زیاد کچھ ن ک سک ہہ ہ ہ ے ہ مدردی تھی کیونک بدقسمتی ہسب اراکین بلدی کو ان س ہ ے ہ ےس ان کا مکان اس بازار حسن ک عین وسط میں واقع ے

ذیب ک ےتھا ان ک بعد ایک رکن بلدی ن جو پرانی ت ہ ے ہ ے ۔ ہعلمبردار تھ اور آثار قدیم کو اوالد س زیاد عزیز ے ہ ے

ا وئ ک ۔رکھت تھ تقریر کرت ہ ے ہ ے ے ے

ور" مار احباب اس مش ر س جو سیاح اور ہحضرات! با ے ہ ے ہ یں جب و اس بازار س ر کو دیکھن آت ےاور تاریخی ش ہ ہ ے ے ہ

یں تو یقین یں اور اس ک متعلق استفسار کرت ہگزرت ے ے ہ ے م پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔کیجئ ک ہ ہ ے "

اتھ پاؤں ہاب صدر بلدی تقریر کرن اٹھ گو قد ٹھگنا اور ے۔ ے ہ ےچھوٹ چھوٹ تھ مگر سر بڑا تھا جس کی وج س ہ ۔ ے ے ے

ج میں حد درج متانت وت تھ ل ہبردبار آدمی معلوم ہ ہ ے۔ ے ہ : "حضرات! میں اس امر میں قطعی طور پر ےتھی، بول ر اور مار ش وں ک اس طبق کا وجود ہآپ س متفق ے ہ ہ ہ ہ ے

ذیب و تمدن ک لئ باعثl صد عار لیکن ہےمار ت ے ے ہ ے ہے۔مشکل ی ک اس کا تدارک کس طرح کیا جائ اگر ان ہ ہے ہ ہلوگوں کو مجبور کیا جائ ک ی اپنا ذلیل پیش چھوڑ دیں تو ہ ہ ے

؟" ایک اں س وتا ک ی لوگ کھائیں گ ک ےسوال پیدا ہ ے ہ ہ ہے ہ یں کر لیتیں؟ ہصاحب بول اٹھ "ی عورتیں شادی کیوں ن ہ ے۔ "

ال کی ماتمی ق پڑا اور ہاس پر ایک طویل فرمائشی ق ہہ ہ و گئ جب ے۔فضا میں یکبارگی شگفتگی ک آثار پیدا ہ ے

وئی تو صاحب صدر بول ے۔اجالس میں خاموشی ہ ا ان لوگوں ک سامن پیش کی جا ے"حضرات ی تجویز با ر ے ہ ہ ہچکی اس کا ان کی طرف س ی جواب دیا جاتا ک ہے ہ ے ہے۔

ےآسود اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس ک ہ یں اپن گھروں میں گھسن ن دیں گ اور ےخیال س ان ہ ے ے ہ ے ےمفلس اور ادنیP طبق ک لوگوں کو جو محض ان کی ہ ، ی وں گ ہدولت ک لئ ان س شادی کرن پر آماد ے ہ ہ ے ے ے ے

یں لگائیں گی ۔عورتیں خود من ن ہ ہ "

ےاس پر ایک صاحب بول "بلدی کو ان ک نجی معاملوں ہ ے۔ یں بلدی ک سامن تو ی مسئل ہےمیں پڑن کی ضرورت ن ہ ہ ے ے ہ ۔ ہ ے

Page 27: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر کو خالی کر نم میں جائیں مگر اس ش ہک ی لوگ چا ج ہ ہے ہ ہ ۔دیں "

یں ان کی ا "صاحبان ی بھی آسان کام ن ہے۔صدر ن ک ہ ہ ہ ے نچتی اور پھر ان یں سینکڑوں تک پ ہےتعداد دس بیس ن ہ ہ

یں ت سی عورتوں ک ذاتی مکانات ۔میں س ب ہ ے ہ ے "

ا اور ین بھر تک بلدی ک زیر بحث ر ہی مسئل کوئی م ے ہ ے ہ ہ ہ ہباالخر تمام اراکین کی اتفاق رائ ی امر قرار پایا ک زنان ہ ے یں ئ اور ان ہبازاری ک مملوک مکانوں کو خرید لینا چا ے ہ ہ ے ر س کافی دور کوئی الگ تھلگ عالق د ن ک لئ ش ےر ہ ے ہ ے ے ے ہ ئ ان عورتوں ن بلدی ک اس فیصل ک خالف ےدینا چا ہ ے ہ ے ے۔ ہ

ےسخت احتجاج کیا بعض ن نا فرمانی کر ک بھاری ے ۔ ےجرمان اور قیدیں بھگتیں مگر بلدی کی مرضی ک آگ ے ہ ے

ہان کی کوئی پیش ن چل سکی اور چار و ناچار صبر کر ۔ک ر گئیں ہ ے

ہاس ک بعد ایک عرص تک ان زنان بازاری ک مملوک ے ہ ے و ت ر اور مکانوں رستیں اور نقش تیار ہےمکانوں کی ف ے ہ ے ہ ک پیدا کئ جات ر بیشتر مکانوں کو بذریع نیالم ۂک گا ہے۔ ے ے ہ ے

ین ےفروخت کرن کا فیصل کیا گیا ان عورتوں کو چھ م ہ ۔ ہ ے ن کی اجازت ی مکانوں میں ر ر میں اپن پران ےتک ش ہ ہ ے ے ہ ہد دی گئی تاک اس عرص میں و نئ عالق میں مکان ے ہ ہ ہ ے

۔وغیر بنوا سکیں ہ

ر س ےان عورتوں ک لئ جو عالق منتخب کیا گیا و ش ہ ہ ہ ے ے ۔چھ کوس دور تھا پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی ہاور اس س آگ کوس بھر کا کچا راست تھا کسی زمان ۔ ہ ے ے

و گی مگر اب تو کھنڈروں ک سوا اں کوئی بستی ےمیں و ہ ہ ا تھا جن میں سانپوں اور چمگادڑوں ک مسکن ےکچھ ن ر ۔ ہ ہ �و بولتا تھا اس عالق ک نواح میں �ل اڑ ا ےتھ اور دن د ے ۔ ے ہ ے ے۔کچ گھروندوں وال کئی چھوٹ چھوٹ گاؤں تھ مگر ے ے ے ے اں س دو ڈھائی میل س کم ن تھا ۔کسی کا فاصل بھی ی ہ ے ے ہ ہ ےان گاؤں ک بسن وال کسان دن ک وقت کھیتی باڑی ے ے ے ی پھرت پھرات ادھر نکل آت ورن عام طور ، یا یون ہکرت ے ے ے ہ ے ر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر ن آتی ہپر اس ش ہ

Page 28: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی میں گیدڑ اس عالق ےتھی بعض اوقات روز روشن ہ ۔ ے۔میں پھرت دیکھ گئ تھ ے ے ے

ہپانچ سو کچھ اوپر بیسواؤں میں س صرف چود ایسی ے ےتھیں جو اپن عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دلبستگی یا ن پر مجبور ر ک قریب آزادان ر ےکسی اور وج س ش ہ ہ ے ہ ے ہ ن والوں کی مستقل مالی ےتھیں اور اپن دولت مند چا ہ ے ہسرپرستی ک بھروس بادل نا خواست اس عالق میں ہ ے ے

و گئی تھیں ورن باقی عورتوں ن سوچ رکھا ن پر آماد ےر ہ ہ ہ ے ہ وٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں ر ک ہتھا ک و یا تو اسی ش ے ہ ہ ہ

ر ک شریف ن کر ش ر پارسائی کا جام پ ےگی یا بظا ہ ہ ہ ہ محلوں کی کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس

یں اور نکل جائیں گی ر کو چھوڑ کر ک ۔ش ہ ہ

ر ہی چود بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں اس پر ش ۔ ہ ہ یں اچھ ،، ان ک دام ان ےمیں ان ک جو مملوک مکان تھ ہ ے ے ہ ے و گئ تھ اور اس عالق میں زمین کی قیمت ہوصول ے ے ہ ےبرائ نام تھی اور سب س بڑھ کر ی ک ان ک ملن وال ے ے ہ ہ ے ے ےدل و جان س اس کی مالی امداد کرن کی لئ تیا ر ے ے وں ن اس عالق میں جی کھول کر بڑ ےتھ چنا نچ ان ے ے ہ ہ ے۔ ۔بڑ عالیشان مکان بنوان کی ٹھانی ایک اونچی اور ے ے

ٹ کر تھی "منتخب ہموار جگ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں س ے ہ ہےکی گئی زمین ک قطع صاف کرائ اور چابک دست ے ے ۔

ی ہنقش نویسوں س مکان ک نقش بنوائ گئ اور چند ے ے ے ے ے ہ و گیا دن بھر اینٹ، مٹی، ۔روز میں تعمیر کا کام شروع ہ تیر، گارڈر اور دوسرا عمارتی سامان گاڑیوں، ہچونا، ش چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس

بستی میں آ تا اور منشی صاحب حساب کتاب کی کاپیا ںیں گنوات اور کاپیوں میں درج کرت ے۔۔۔بغلوں میں دبائ ان ے ہ ے دایات دیت ے۔میر صاحب معماروں کو کام ک متعلق ہ ے

ےمعمار مزدوروں کو ڈانٹت ڈپٹت مزدور ادھر ادھر دوڑت ے ے ےپھرت مزدور نیوں کو چال چال کر پکارت اور اپن ساتھ ے ے۔ ے۔کام کرن ک لئ بالت غرض سارا دن ایک شور ایک ے ے ے اتی تا اور سارا دن آ س پاس ک گاؤں ک دی ہنگام ر ے ے ۔ ہ ہ ہ

وا ک جھو اتنیں اپن گھروں میں ےاپن کھیتوں میں اور دی ہ ے ہ ے وئی کھٹ کھٹ کی دھیمی ہنکوں ک ساتھ دور س آ تی ے ے

تیں ۔آوازیں سنتی ر ہ

Page 29: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےاس بستی ک کھنڈروں میں ایک جگ مسجد ک آ ثار تھ ے ہ ے ی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا راج ۔اور اس ک پاس ہ ے

ےمزدوروں ن کچھ تو پانی حاصل کرن اور بیٹھ کر ے ےسستان کی غرض س اور کچھ ثواب کمان اور اپن ے ے ے

ےنمازی بھائیوں کی عبادت گزاری ک خیال س سب س ے ے ل اس کی مرمت کی چونک ی فائد بخش اور ثواب کا ہپ ہ ہ ے ہ ہکام تھا، اس لئ کسی ن کچھ اعتراض ن کیا چنانچ دو ہ ے ے

و گئی ۔تین روز میں مسجد تیار ہ

وئی دو ی کھانا کھان کی چھٹی ہدن کو بار بج جیس ے ہ ے ے ہ ڈھائی سو راج، مزدور، میرl عمارت، منشی اور ان

ےبیسواؤں ک رشت دار یا کارند جو تعمیر کی نگرانی پر ے ے و جات اور ، اس مسجد ک آ س پاس جمع ےمامور تھ ہ ے ے

۔اچھا خاصا میل سا لگ جاتا ہ

اتی بڑھیا جو پاس ک کسی گاؤں میں ےایک دن ایک دی ہ تی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آ گئی اس ک ےر ۔ ہ

ےساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا دونوں ن مسجد ک قریب ے ۔ ےایک درخت ک نیچ گھٹیا سگریٹ، بیڑی، چن اور گڑ کی ے ے وئی مٹھائیوں کا خوانچ لگا دیا بڑھیا کو آئ ابھی دو ےبنی ۔ ہ ہ یں س ایک ےدن بھی ن گزر تھ ک ایک بوڑھا کسان ک ہ ہ ے ے ہ ےمٹکا اٹھا الیا اور کنویں ک پاس اینٹوں کا ایک چھو ٹا سا

ےچبوترا بنا پیس ک دو دو شکر ک شربت ک گالس ے ے ے وئی و ایک ٹوکر میں ےبیچن لگا ایک کنجڑ کو جو خبر ہ ہ ے ۔ ے ےخربوز بھر کر ل آ یا اور خوانچ والی بڑھیا ک پاس بیٹھ ہ ے ے !" کی صدا د س میٹھ خربوز ، ش ےکر "ل لو خربوز ے ے ہ ے ے

ےلگان لگا ایک شخص ن کیا کیا، گھر س سری پائ پکا، ے ے ۔ ے ہدیگچی میں رکھ، خوانچ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں،

و ہمٹی ک دو تین پیال اور ٹین کا ایک گالس ل آ موجود ے ے ے نڈیا ہا اور اسی بستی ک کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ے

۔کا مزا چکھان لگا ے

ر اور عصر ک وقت، میر عمارت، منشی، معمار اور ےظ ہ ےدوسر لوگ مزدوروں س کنویں س پانی نکلوا نکلوا ے ے ے۔کر وضو کرت نظر آ ت ایک شخص مسجد میں جا کر ے ےاذان دیتا، پھر ایک کو امام بنا دیا جاتا اور دوسر لوگ

و کر نماز پڑھت کسی گاؤں میں ے۔اس ک پیچھ کھڑ ہ ے ے ے ہایک مال ک کان میں جو ی بھنک پڑی ک فالں مسجد میں ہ ے

Page 30: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی دن علی الصبح ایک ہامام کی ضرورت و دوسر ے ہ ہے ، رحل اور مسئل ےسبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسور ہ

وا اور ہمسائل ک چند چھوٹ چھوٹ رسال رکھ آ موجود ے ے ے ے ےاس مسجد کی امامت باقاعد طور پر اس سونپ دی ہ

۔گئی

ر گاؤں کا ایک کبابی سر پر اپن سامان ےر روز تیسر پ ہ ے ہےکا ٹوکرا اٹھائ آ جاتا اور خوانچ والی بڑھیا ک پاس زمین ہ ے ا بنا، کباب، کلیجی، دل اور گرد سیخوں پر چڑھا، ےپر چول ہ

اتھ بیچتا ایک بھٹیاری ن جو ی حال ہبستی والوں ک ے ۔ ہ ے ےدیکھا تو اپن میاں کو ساتھ ل کر مسجد ک سامن ے ے ے

ےمیدان میں دھوپ س بچن ک لئ پھونس کا ایک چھپر ے ے ے ۔ڈال کر تنور گرم کرن لگی کبھی کبھی ایک نوجوان ے

اتی نائی، پھٹی پرانی کسبت گل میں ڈال جوتوں کی ےدی ے ہ ہٹھوکروں س راست روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت ے

۔کرتا دیکھن میں آ جاتا ے

ےان بیسواؤں ک مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان ک ے ، کسی کسی دن و ی تھ ہرشت دار یا کارند تو کرت ے ہ ے ے ہ

مرا خود و کر اپن عشاق ک ر ک کھان س فارغ ہدوپ ہ ے ے ہ ے ے ے ہ ےبھی اپن اپن مکانوں کو بنتا دیکھن آ جاتیں اور غروب ے ے اں س ن جاتیں اس موقع پر فقیروں ل ی ۔آفتاب س پ ہ ے ہ ے ہ ے اں س آ ےاور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں ن جان ک ہ ے ہ

ےجاتیں اور جب تک خیرات ن ل لیتیں اپنی صداؤں س ے ہ یں بات ن کرن دیتیں کبھی تیں اور ان ۔برابر شور مچاتی ر ے ہ ہ ہ ، اوباش و بیکار مباش کچھ کیا کرو، ر ک لفنگ ےکبھی ش ے ہ ر س پیدل چل کر بیسواؤں کی اس نئی ےک مصداق ش ہ ے ےبستی کی سن گن لین آ جات اور اگر اس دن بیسوائیں ے ٹ و جاتی و ان س دور وتیں تو ان کی عید ہبھی آئی ے ہ ۔ ہ ہ

، ب ت فقر کست ےکر ان ک گردا گرد چکر لگات ر ے ے ے۔ ہ ے ے ق لگات عجیب عجیب شکلیں بنات اور مجنونان ہتک ق ے ے۔ ہے ہ ے

وتی ۔حرکتیں کرت اس روز کبابی کی خوب بکری ہ ے۔

و کا عالم تھا اب ل ی دن پ اں تھوڑ ہاس عالق میں ج ے ہ ہ ے ہ ے ل نظر آن لگی شروع ل پ می اور چ ما گ ۔ر طرف گ ے ہ ہ ہ ہ ہ

اں ہشروع میں اس عالق کی ویرانی میں ان بیسواؤں کو ی ہ وتی تھی، و بڑی حد ن ک خیال س جو وحشت ہآ کر ر ہ ے ے ے ہ

ر مرتب خوش خوش اپن ی تھی اور اب و ےتک جاتی ر ہ ہ ہ ہ

Page 31: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےمکانوں کی آرائش اور اپن مرغوب رنگوں ک متعلق ے ۔معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں

ےبستی میں ایک جگ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن س ہ وتا تھا جب ی مکان نصف س ےکسی بزرگ کا معلوم ہ ۔ ہ

و چک تو ایک دن بستی ک راج مزدوروں ن ےزیاد تعمیر ے ے ہ ہ ا اور ایک سرخ ہےکیا دیکھا ک مزار ک پاس دھواں اٹھ ر ہ ے ہ

ےسرخ آنکھوں واال لمبا تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھ ا ہےچار ابرو کا صفایا کرائ اس مزار ک ارد گرد پھر ر ہ ے ے ر کو و ا دوپ ہاور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پر پھینک ر ہ ہے۔ ہ ے ےفقیر ایک گھڑا ل کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر

ہمزار پر ل جان اور اس دھون لگا ایک دفع جو آیا تو ۔ ے ے ے ے ہکنویں پر دو تین راج مزدور کھڑ تھ و نیم دیوانگی اور ے۔ ے و و ن لگا "جانت ہنیم فرزانگی ک عالم میں ان س ک ہ ے ۔ ے ہ ے ے ؟ کڑک شا پیر بادشا کا! میر باپ دادا، ےکس کا مزار ہ ہ ہے نس کر اور نس " اس ک بعد اس ن ہان ک مجاور تھ ہ ے ے ے۔ ے ہآنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شا کی کچھ جاللی

۔کراماتیں بھی ان راج مزدوروں س بیان کیں ے

یں س مانگ تانگ کر مٹی ک دو دئ ےشام کو ی فقیر ک ے ے ہ ہ ےاور سرسوں کا تیل ل آیا اور پیر کڑک شا کی قبر ک ہ ے

ر ان اور پائنتی چراغ روشن کر دئ رات کو پچھل پ ہسر ے ے۔ ے ہ و کا مست نعر سنائی د ےکبھی کبھی اس مزار س الل ہ ہ ہ ے

۔جاتا

و ین گزرن ن پائ تھ ک ی چود مکان بن کر تیار ہچھ م ہ ہ ہ ے ے ہ ے ے ہ ی ہگئ ی سب ک سب دو منزل اور قریب قریب ایک ہ ے ہ ے۔ ۔وضع ک تھ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف ے۔ ے ر ایک مکان ک نیچ ےبیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی ے ہ ۔

۔چار چار دکانیں تھیں مکان کی باالئی منزل میں سڑک ےک رخ وسیع برآمد تھا اس ک آگ بیٹھن ک لئ کشتی ے ے ے ے ۔ ہ ے ےنما ش نشین بنائی گئی تھی جس ک دونوں سروں پر یا ۔ ہ

وئ بنائ گئ تھ ےتو سنگ مرمر ک مور رقص کر ت ے ے ے ہ ے ے ، جن کا آ ےاور یا جل پریوں ک مجسم تراش گئ تھ ے ے ے ے

ےدھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا برآ مد ک ہ ۔ ۔پیچھ جو بڑا کمر بیٹھن ک لئ تھا اس میں سنگ مر ے ے ے ہ ے

ے۔۔مر ک نازک نازک ستون بنائ گئ تھ دیواروں پر ے ے ے

Page 32: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔خوش نما پچی کاری کی گئی تھی فرش چمکدار پتھر کا ےبنایا گیا تھا جب سنگ مر مر ک ستونو ں ک عکس اس ے ۔ وتا گویا سفید براق ہفرش زمردیں پر پڑت تو ایسا معلوم ے نسوں ن اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل ےپروں وال راج ہ ے

یں ۔میں ڈبو دی ہ

ےبدھ کا شبھ دن، اسی بستی میں آن ک لئ مقرر کیا ے ے ت ہگیا اس روز اس بستی کی سب بیسواؤں ن مل کر ب ے ۔ ےبھاری نیاز دلوائی بستی ک کھل میدان میں زمین کو ے ۔ ےصاف کرا کر شامیان نصب کر دئ گئ دیگیں کھڑکن ے۔ ے ے کی آواز اور گوشت اور گھی کی خوشبو، بیس بیسوت ر ےکوس س فقیروں اور کتوں کو کھینچ الئی دوپ ہ ہ ۔ ے

اں لنگر تقسیم کیا ہوت پیر کڑک شا ک مزار ک پاس ج ے ے ہ ے ہو گئ ک عید ک روز کسی ےجاتا تھا اس قدر فقیر جمع ہ ے ہ

وں گ وئ ر کی جامع مسجد ک پاس بھی ن ے۔بڑ ش ہ ے ہ ہ ے ہ ے ےپیر کڑک شا ک مزار کو خوب صاف کروایا اور دھلوایا ہ گیا اور اس پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی اور اسنایا گیا، جس اس ن ےمست فقیر کو نیا جوڑا سلوا کر پ ے ہ

ی پھاڑ ڈاال نت ۔پ ہ ے ہ

ےشام کو شامیان ک نیچ دودھ سی اجلی چاندنی کا ے ے ، پان دان، پیک دان، پیچواں ےفرش کر دیا گیا گاؤ تکئ ۔

ےدانی اور گالب پاس رکھ لئ گئ اور راگ رنگ کی محفل ے ت سی بیسواؤں کو بلوایا گیا ہسجائی گئی دور دور س ب ے ۔ یلیاں یا برادری کی تھیں ان ک ساتھ ان ےجو ان کی س ۔ ہ ت س ملن وال بھی آئ جن ک لئ ایک الگ ےک ب ے ے ے ے ے ہ ے ےشامیان میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا اور ان ک سامن ے ے

ےک رخ چقیں ڈال دی گئیں ب شمار گیسوں کی روشنی ۔ ے وئی تھی ان بیسواؤں ک توندل ےس ی جگ بقع نور بنی ۔ ہ ۂ ہ ہ ے

ےسیا فام سازند زربفت اور کمخواب کی شیروانیاں ہ ، ادھر وئ پھوئ کانوں میں رکھ ، عطر میں بس ن ےپ ے ے ہ ے ے ہ ےادھر مونچھوں کو تاؤ دیت پھرت اور زرق برق لباسوں ے ےاور تتلی ک پر س باریک ساریوں میں ملبوس، غازوں ے

وئی نازنین اٹھکیلیوں س ےاور خوشبوؤں میں بسی ہ ا اور نگام برپا ر ہچلتیں رات بھر رقص اور سرور کا ہ ہ ۔

و گیا ۔جنگل میں منگل ہ

Page 33: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےدو تین دن ک بعد جب اس جشن کی تھکاوٹ اتر گئی تو می اور مکانوں کی ہی بیسوائیں ساز و سامان کی فرا ہ lو گئیں جھاڑ، فانوس، ظروف ۔آرائش میں مصروف ہ

lنواڑی پلنگ، تصویریں اور قطعات ، ےبل�وری، قد آدم آئین وئ الئ گئ اور قرین س ری، چوکٹھوں میں جڑ ےسن ے ے ے ے ہ ے ہ ہکمروں میں لگائ گئ اور کوئی آٹھ روز میں جا کر ی ے ے

وئ ی عورتیں دن کا بیشتر ہمکان کیل کانٹ س لیس ے۔ ہ ے ے ، ےحص تو استادوں س رقص و سرود کی تعلیم لین ے ہ

، ، تختی لکھن ، سبق پڑھن ، دھنیں بٹھان ےغزلیں یاد کرن ے ے ے ، استادوں س ، گراموفون سنن ، کاڑھن ےسین پرون ے ے ے ے

، ضلع جگت، نوک جھونک س جی ےتاش اور کیرم کھیلن ے ر غسل خانوں الن یا سون میں گزارتیں اور تیسر پ ہب ے ے ے ہ اں ان ک مالزموں ن دستی پمپوں ان جاتیں، ج ےمیں ن ے ہ ے ہ وت اس ک بعد و ہس پانی نکال نکال کر ٹب بھر رکھ ے ے۔ ہ ے ے

و جاتیں ۔بناؤ سنگھار میں مصروف ہ

ی رات کا اندھیرا پھیلتا، ی مکان گیسوں کی ہجیس ہ ے ےروشنی س جگمگا اٹھت جو جا بجا سنگ مر مر ک آدھ ے ے ے ایت صفائی س چھپائی گئ تھ وئ کنولوں میں ن ےکھل ے ے ہ ے ہ ے ےاور ان مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں ک کواڑوں ک ے ےشیش جو پھول پتیوں کی وضع ک کاٹ کر جڑ گئ ے ے ے

ےتھ ان کی قوسl قزح ک رنگوں کی سی روشنیاں دور ے وتیں ی ایت بھلی معلوم وئی ن ہس جھلمل جھلمل کرتی ۔ ہ ہ ہ ے لتی، آس پاس ہبیسوائیں، بناؤ سنگار کئ برآمدوں میں ٹ ے

نستیں کھکھالتیں جب کھڑ ےوالیوں س باتیں کرتیں، ۔ ہ ے ےکھڑ تھک جاتیں تو اندر کمر میں چاندنی ک فرش پر ے ے ےگاؤ تکیوں س لگ کر بیٹھ جاتیں ان ک سازند ساز ے ۔ ے

تیں جب رات ذرا بھیگ ت اور ی چھالی کترتی ر ۔مالت ر ہ ہ ہ ے ہ ے ےجاتی تو ان ک ملن وال ٹوکروں میں شراب کی بوتلیں ے ے

ےاور پھل پھالری لئ اپن دوستوں ک ساتھ موٹروں یا ے ے ےتانگوں میں بیٹھ کر آت اس بستی میں جن ک قدم ے۔ ون لگتی ل ل پ می اور چ ما گ ی ایک خاص گ ۔رکھت ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے وئی نازنینوں ک ےنغم و سرود، ساز ک سر، رقص کرتی ہ ے ہ گھنگھروؤں کی آواز، قلقلl مینا میں مل کر ایک عجیب

ےسرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی عیش و مستی ک ۔ وتا اور رات بیت جاتی نگاموں میں معلوم بھی ن ۔ان ہ ہ ہ

Page 34: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ ی وئ چند روز ےان بیسواؤں کو اس بستی میں آئ ہ ہ ے ہ ے و گئ جن کا کرای اس ہتھ ک دکانوں ک کرای دار پیدا ے۔ ہ ہ ے ہ ے ی کم رکھا گیا تھا ت ۔بستی کو آباد کرن ک خیال س ب ہ ہ ے ے ے ی بڑھیا تھی جس ن ل جو دکان دار آیا و و ےسب س پ ہ ہ ے ہ ے

ل مسجد ک سامن درخت ک نیچ خوانچ ہسب س پ ے ے ے ے ے ہ ے ےلگایا تھا دکان کو پر کرن ک لئ بڑھیا اور اس کا لڑکا ے ے ۔

ت س ڈب اٹھا الئ اور اس منبر ک ےسگریٹوں ک ب ے ے ے ے ہ ے ۔طاقوں میں سجا کر رکھ دیا گیا بوتلوں میں رنگ دار یں و ک شربت کی بوتلیں ۔پانی بھر دیا گیا تاک معلوم ہ ہ ہ ہ

ےبڑھیا ن اپن بساط ک مطابق کاغذی پھولوں اور ے ے وئی بیلوں س دکان کی ےسگریٹ کی ڈبیوں س بنائی ہ ے کچھ آرائش بھی کی، بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی

ےتصویریں بھی پران رسالوں س نکال کر لئی س ے ے ےدیواروں پر چپکا دیں دکان کا اصل مال دو تین قسم ک ۔

ےسگریٹ ک تین تین چار چار پیکٹوں، بیڑی ک آٹھ دس ے بنڈلوں یا دیا سالئی کی نصف درجن ڈبیوں، پانی کی

ےڈھولی، پین ک تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی ے ۔ک نصف بنڈل س زیاد ن تھا ہ ہ ے ے

دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں میں کبابی اور چھٹی

ات س ےمیں ایک کنجڑا آ بس کنجڑا آس پاس ک دی ہ ے ے۔ اں ہسست داموں چار پانچ قسم کی سبزیاں ل آتا اور ی ے ے

۔خاص منافع پر بیچ دیتا ایک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھی رکھ ے ۔لیتا چونک دکان خاصی کھلی تھی ایک پھول واال اس کا ہ

ار، گجر اور طرح ےساجھی بن گیا و دن بھر پھولوں ک ہ ے ہ ۔ یں چنگیر میں ڈال تا اور شام کو ان ن بناتا ر ہطرح ک گ ہ ے ہ ے ی بیچ آتا ہکر ایک ایک مکان پر ل جاتا اور ن صرف پھول ہ ے ر جگ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ، سازندوں س گپ ےبلک ہ ہ ہ انک لیتا اور حق ک دم بھی لگا آتا جس دن ۔شپ بھی ے ے ہ ی ہتماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی میں

و جاتا تو و ہکوٹھ پر چڑھ آتی اور گانا بجانا شروع ہ ے ےسازندوں ک ناک بھوں چڑھان ک باوجود گھنٹوں اٹھن ے ے ے ےکا نام ن لیتا، مز مز س گان پر سر دھنتا اور ے ے ے ہ

تا جس ۔بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا ر ہ ار بچ جاتا تو اس اپن ےدن رات زیاد گزر جاتی اور کوئی ے ہ ہ

Page 35: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر گال پھاڑ پھاڑ کر گاتا ہگل میں ڈال لیتا اور بستی ک با ے ے ۔پھرتا

ایک دن ایک بیسوا کا باپ اور بھائی جو درزیوں کا کاموت ، سین کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئ ےجانت تھ ہ ے۔ ے ے ے

ےوت ایک حجام بھی آگیا اور اپن ساتھ ایک رنگریز کو ے ہوئ ر الگنی پر لٹکت ےبھی لیتا آیا اس کی دکان ک با ہ ے ہ ے ۔ وئ رات وا میں ل ےطرح طرح ک رنگوں ک دوپٹ ہ ے ہ ہ ے ے ے

ون لگ ے۔آنکھوں کو بھل معلوم ے ہ ے

ی روز گزر تھ ک ایک ٹٹ پونجئ بساطی ن جس ےچند ے ہ ے ے ہ ر میں چلتی ن تھی، بلک اس دکان کا کرای ہکی دکان ش ے ہ ہ ہ ر کو خیر باد ک کر اس و جاتا تھا ش ہہنکالنا بھی مشکل ہ ہ اتھ لیا گیا اور اس اتھوں اں پر اس ہبستی کا رخ کیا ی ہ ے ہ ۔ ےک طرح طرح ک لونڈر، قسم قسم ک پاؤڈر، صابن، ے ے

، خوشبودار تیل، ےکنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیت ون لگی ۔رومال، منجن وغیر کی خوب بکری ے ہ ہ

ن والوں کی سرپرستی اور ان ک ےاس بستی ک ر ے ہ ے ےمربیان سلوک کی وج س اسی طرح دوسر تیسر روز ے ے ہ ہ

ہکوئی ن کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار کوئی بزاز، کوئی ےپنساری، کوئی نیچ بند، کوئی نانبائی مند کی وج س یا ہ ے ہ وئ کرائ س گھبرا کر اس بستی میں آ ر ک بڑھت ےش ے ے ہ ے ے ہ

۔پنا لیتا ہ

ےایک بڑ میاں عطار جو حکمت میں بھی کسی قدر دخل ر کی گنجان آبادی اور حکیموں ، ان کا جی ش ہرکھت تھ ے ے

ےاور دوا خانوں کی افراط س جو گھبرایا تو و اپن ہ ے ر س اٹھ آئ اور اس بستی ےشاگردوں کو ساتھ ل کر ش ے ہ ے ےمیں ایک دکان کرای پر ل لی سارا دن بڑ میاں اور ان ۔ ے ہ ، ےک شاگرد دواؤں ک ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مرب ے ے

ےچٹنی، اچار ک بویاموں کو الماریوں اور طاقوں میں اپن ے ہے۔اپن ٹھکان پر رکھت ر ایک طاق میں طبl اکبر، ے ے ے

۔قرابادین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کر رکھ دیں ہکواڑوں کی اندرونی جانب اور دیواروں ک ساتھ جو جگ ے

وں ن اپن خاص الخاص مجربات ک اں ان ےخالی بچی و ے ے ہ ہ ارات سیا روشنائی س جلی لکھ کر اور دفتیوں پر ےاشت ہ ہ

Page 36: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر روز صبح کو بیسواؤں ک ےچپکا کر آویزاں کر دئ ہ ے۔ وت اور شربتl بزوری، ےمالزم گالس ل ل کر آ موجود ہ ے ے ت بخش، ی اور نز ، شربتl انار اور ایس ہشربتl بنفش ہ ے ہ

ہروح افزا شربت و عرق، خمیر گاؤ زبان اور تقویت ائ نقر ل جات نچان وال مرب مع ورق ے۔پ ے ہ ے ہ ے ے ے ہ

یں، ان میں بیسواؤں ک بھائی بندوں اور ےجو دکانیں بچ ر ہ ہسازندوں ن اپنی چارپائیاں ڈال دیں دن بھر ی لوگ ان ۔ ے ، بدن پر تیل ےدکانوں میں تاش چوسر اور شطرنج کھیلت ، تیتروں ، بٹیروں کی پالیاں کرات ، سبزی گھوٹت ےملوات ے ے ےس "سبحان تیری قدرت" کی رٹ لگوات اور گھڑا بجا ے

ے۔بجا کر گات

ےایک بیسوا ک سازند ن ایک دکان خالی دیکھ کر اپن ے ے ے ۔بھائی کو جو ساز بنانا جانتا تھا اس میں ال بٹھایا دکان کی

ےدیواروں ک ساتھ ساتھ کیلیں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی ، دلربا وغیر ٹانگ ہمرمت طلب سارنگیاں، ستار، طنبور ے ۔دئ گئ ی شخص ستار بجان میں بھی کمال رکھتا تھا ے ہ ے۔ ے ہشام و اپنی دکان میں ستار بجاتا، جس کی میٹھی آواز ےسن کر آس پاس ک دکان دار اپنی دکانوں س اٹھ اٹھ ے

ت اس ستار ے۔کر آ جات اور دیر تک بت بن ستار سنت ر ہ ے ے ے ۔نواز کا ایک شاگرد تھا جو ریلو ک دفتر میں کلرک تھا ے ے ی دفتر س ت شوق تھا جیس ےاس ستار سیکھن کا ب ہ ے ۔ ہ ے ے

وا اس بستی کا رخ کرتا وئی، سیدھا سائیکل اڑاتا ہچھٹی ہ ی میں بیٹھ کر مشق کیا کرتا، ہاور گھنٹ ڈیڑھ گھنٹ دکان ہ ہ ےغرض اس ستار نواز ک دم س بستی میں خاصی رونق ے

ن لگی ۔ر ے ہ

ی ہمسجد ک مال� جی، جب تک تو ی بستی زیر تعمیر ر ہ ے ات اپن گھر چل جات ر مگر اب جب ک ہرات کو دی ہے۔ ے ے ے ہ

نچن لگا تو و رات یں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پ ہان ے ہ ہ ن لگ رفت رفت بعض بیسواؤں ک گھروں یں ر ےکو بھی ی ہ ہ ے۔ ے ہ ہ ، جس س مال ےس بچ بھی مسجد میں پڑھن آن لگ ے ے ے ے ے

و ن لگی ۔جی کو روپ پیس کی آمدنی بھی ے ہ ے ے

ر گھومن والی گھٹیا درج کی تھیٹریکل ر ش ہایک ش ے ہ ہ وئ کرای اور اپنی ب ےکمپنی کو جب زمین ک چڑھت ہ ے ہ ے ے

یں جگ ن ملی تو اس ن اس رمیں ک ےمائیگی ک باعث ش ہ ہ ہ ہ ے

Page 37: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےبستی کا رخ کیا اور ان بیسواؤں ک مکانوں س کچھ ے ے۔فاصل پر میدان میں تنبو کھڑ کر ک ڈیر ڈال دئ اس ے ے ے ہ

ےک ایکٹر ایکٹری ک فن س محض نا بلد تھ ان ک ے۔ ے ے ے ت س ستار جھڑ چک ےڈریس پھٹ پران تھ جن ک ب ے ے ہ ے ے ے ے

ت دقیانوسی دکھات تھ مگر ےتھ اور ی لوگ تماش بھی ب ے ہ ہ ہ ے ہاس ک باوجود ی کمپنی چل نکلی اس کی وج ی تھی ک ہ ہ ۔ ہ ے

ر ک مزدور پیش لوگ، ت کم تھ ش ہٹکٹ ک دام ب ے ہ ے۔ ہ ے ےکارخانوں میں کام کرن وال اور غریب غربا جو دن بھر ے

کی کڑی محنت مشقت کی کسر شور و غل، خر مستیوں، پانچ پانچ چھ چھ ت تھ ےاور ادنیP عیاشیوں س نکالنا چا ے ہ ے

نست ، ار ڈال ےکی ٹولیاں بنا کر، گل میں پھولوں ک ہ ے ہ ے ے ، را چلتوں پر آواز ، بانسری اور الغوز بجات ےبولت ہ ے ے ے

ر س پیدل چل کر تھیٹر ، ش ، گالی گلوچ بکت ےکست ہ ے ے اتھوں بازارl حسن کی سیر بھی کر ہدیکھن آت اور لگ ے ے ے

وتا تھیٹر کا ایک مسخر تنبو ہجات جب تک ناٹک شروع ن ہ ہ ے۔ التا، کبھی من و ر ایک سٹول پر کھڑا کبھی کول ہک با ہ ہ ہ ے

پھالتا، کبھی آنکھیں مٹکاتا، عجیب عجیب حیا سوز حرکتیںق لگات اور یں دیکھ کر ی لوگ زور زور س ق ےکرتا جن ہے ہ ے ہ ہ

ے۔گالیوں کی صورت داد دیت

ےرفت رفت دوسر لوگ بھی اس بستی میں آن شروع ے ہ ہ ر ک بڑ بڑ چوکوں میں تانگ وال ےوئ چنانچ ش ے ے ے ے ہ ہ ے۔ ہر س ےصدائیں لگان لگ "آؤ، کوئی نئی بستی کو " ش ہ ے ے

نچ کر ہپانچ کوس تک جو پکی سڑک جاتی تھی اس پر پ ےتانگ وال سواریوں س انعام حاصل کرن ک اللچ میں ے ے ے ے

ےیا ان کی فرمائش پر تانگوں کی دوڑیں کرات من س ہ ے۔ ےارن بجات اور جب کوئی تانگ آگ نکل جاتا تو اس کی ہ ے ہ۔سواریاں نعروں س آسمان سر پر اٹھا لیتیں اس دوڑ ے

و جاتا اور ان ک گل میں ےمیں غریب گھوڑوں کا برا حال ے ہ اروں س بجائ خوشبو ک پسین وئ پھولوں ک ےپڑ ے ے ے ہ ے ے ہ ے ، تانگ والوں س کیوں ےکی بدبو آن لگتی رکشا وال ے ے ۔ ے ت و ان س کم دام پر سواریاں بٹھا، طرار ےپیچھ ر ے ہ ے۔ ہ ے

ہبھرت اور گھنگھرو بجات اس بستی کو جان لگ عالو ے۔ ے ے ے فت کی شام کو اسکولوں اور کالجوں ک طلب ر ہازیں ے ے ہ ہ �ر ، جوق در جوق اس پ ےایک ایک سائیکل پر دو دو لد

، جس س ان ک خیال ےاسرار بازار کی سیر دیکھن آت ے ے ے ۔ک مطابق ان ک بڑوں ن خوا مخوا محروم کر دیا تھا ہ ہ ے ے ے

Page 38: اردو ادب کے مشہور افسانے

رت چاروں طرف پھیلن اور ےرفت رفت اس بستی کی ش ہ ہ ہ ون لگی و بیسوائیں جو ہمکانوں اور دکانوں کی مانگ ۔ ے ہ وتی تھیں اب اس کی ل اس بستی میں آن پر تیار ن ہپ ہ ے ے ہ دن دگنی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پرےافسوس کرن لگیں کئی عورتوں ن تو جھٹ زمینیں ۔ ے ےخرید ان بیسواؤں ک ساتھ اسی وضع قطع ک مکان ے ۔ اجنوں ر ک بعض م ہبنوان شروع کر دئ عالو ازیں ش ے ہ ہ ے۔ ے ےن بھی اس بستی ک آس پاس سست داموں زمینیں ے ے

ےخرید خرید کر کرای پر اٹھان ک لئ چھوٹ چھوٹ کئی ے ے ے ے ہ وٹلوں وا ک و فاحش عورتیں جو ہمکان بنوا ڈال نتیج ی ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے۔

اور شریف محلوں میں روپوش تھیں، مور و ملخ کیر نکل آئیں اور ان مکانوں ال خانوں س با ہطرح اپن ن ے ہ ے و گئیں بعض چھوٹ چھوٹ مکانوں میں اس ےمیں آباد ے ۔ ہ

ےبستی ک و دکان دار آ بس جو عیال دار تھ اور رات کو ے ہ ے ے۔دکانوں میں سو ن سکت تھ ے ہ

و گئی تھی مگر ابھی تک ہاس بستی میں آبادی تو خاصی وا تھا چنانچ ان یں ہبجلی کی روشنی کا انتظام ن ۔ ہ ہ

ن والوں کی طرف س ےبیسواؤں اور بستی ک تمام ر ے ہ ے ےسرکار ک پاس بجلی ک لئ درخواست بھیجی گئی، جو ے ے ی ایک ہتھوڑ دنوں بعد منظور کر لی گئی اس ک ساتھ ے ۔ ے ر ہڈاکخان بھی کھول دیا گیا ایک بڑ میاں ڈاکخان ک با ے ہ ے ۔ ہ

، کارڈ اور قلم دوات رکھ، بستی ےایک صندوقچ میں لفاف ے ے۔ک لوگوں ک خط پتر لکھن لگ ے ے ے

و ہایک دفع بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں کا فساد ہ گیا جس میں سوڈا واٹر کی بوتلوں، چاقوؤں اور اینٹوں کا

وئ ے۔آزادان استعمال کیا گیا اور کئی لوگ سخت مجروح ہ ہ ہاس پر سرکار کو خیال آیا ک اس بستی میں ایک تھان بھی ہ

ئ ے۔کھول دینا چا ہ

ی اور اپنی بساط ک ین تک ر ےتھیٹریکل کمپنی دو م ہ ے ہ ر ک ایک سینما مالک ےمطابق خاصا کما ل گئی اس ش ہ ۔ ے

ہن سوچا کیوں ن اس بستی میں بھی ایک سینما کھول دیا ے ےجائ ی خیال آن کی دیر تھی ک اس ن جھٹ ایک موقع ہ ے ہ ے۔ ہکی جگ چن کر خرید لی اور جلد جلد تعمیر کا کام شروع

و گیا اس ک ال تیار ینوں میں سینما ی م ےکرا دیا چند ۔ ہ ہ ہ ہ ۔ ہاندر ایک چھوٹا سا باغیچ بھی لگوایا گیا تاک تماشائی اگر ہ

Page 39: اردو ادب کے مشہور افسانے

ل آ جائیں تو آرام س ون س پ ےبائیسکوپ شروع ے ہ ے ے ہ ی سستان ےباغیچ میں بیٹھ سکیں ان ک ساتھ لوگ یون ہ ے ۔ ہ ہیا سیر دیکھن کی غرض س آ کر آ کر بیٹھن لگ ی ے۔ ے ے ے ےباغیچ خاصی سیر گا بن گیا رفت رفت سق کٹورا بجات ے ہ ہ ۔ ہ ہ ے۔اس باغیچ میں آن اور پیاسوں کی پیاس بجھان لگ ے ے ے

ایت گھٹیا قسم ک تیز خوشبو ےسر کی تیل مالش وال ن ہ ے ، ےوال تیل کی شیشیاں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونس ے ار مالش ، دل پسند، دل ب ہکاندھ پر میال کچیال تولی ڈال ے ہ ے

ےکی صدا لگات دردl سر ک مریضوں کو اپنی خدمات پیش ے ے۔کرن لگ ے

ال کی بیرونی جانب دو ایک ہسینما ک مالک ن سینما ے ے وٹل کھل ہمکان اور کئی دکانیں بھی بنوائیں مکان میں تو ۔ ےگیا جس میں رات کو قیام کرن ک لئ کمر بھی مل ے ے ے ےسکت تھ اور دکانوں میں ایک سوڈا واٹر کی فیکٹری ے واال، ایک فوٹو گرافر، ایک سائیکل کی مرمت واال، ایک

النڈری واال، دو پنواڑی، ایک بوٹ شاپ واال اور ایک ڈاکٹری ایک دکان وت پاس وت ہمع اپن دوا خان ک آ ر ے ہ ے ہ ہے۔ ے ہ ے

۔میں کالل خان کھلن کی اجازت مل گئی فوٹوگرافر کی ے ہ ر ایک کون میں ایک گھڑی ساز ن آ ڈیرا ےدکان ک با ے ہ ے

ر وقت محدب شیش آنکھوں پر چڑھائ ےجمایا اور ہ ہ ن لگا ۔گھڑیوں ک کل پرزوں میں غلطاں و پیچاں ر ے ہ ے

ی دن بعد بستی میں نل، روشنی اور ہاس ک کچھ ے ۔صفائی ک باقاعد انتظام کی طرف توج کی جان لگی ے ہ ہ ے ےسرکاری کارند سرخ جھنڈیاں، جریبیں اور اونچ نیچ

نچ اور ناپ ناپ کر سڑکوں ےدیکھن وال آل ل کر آ پ ہ ے ے ے ے ےاور گلی کوچوں کی داغ بیل ڈالن لگ اور بستی کی ے

۔کچی سڑکوں پر سڑک کوٹن واال انجن چلن لگا ے ے

یں ی بستی اب ایک ہاس واقع کو بیس برس گزر چل ۔ ہ ے ہ ر بن گئی جس کا اپنا ریلو سٹیشن بھی ہےبھرا پرا ش ے ہے ہ ری بھی اور جیل خان بھی، آبادی ال بھی، کچ ہاور ٹاؤن ہ ہ ائی ر میں ایک کالج، دو ہڈھائی الکھ ک لگ بھگ ش ہ ہے۔ ے ، ایک لڑکیوں ک لئ اور آٹھ ےسکول، ایک لڑکوں ک لئ ے ے ے

یں جن میں میونسپلٹی کی طرف س ےپرائمری سکول ہ یں اور چار بنک جن ہمفت تعلیم دی جاتی چھ سینما ہے۔

یں ۔میں س دو دنیا ک بڑ بڑ بنکوں کی شاخیں ہ ے ے ے ے

Page 40: اردو ادب کے مشہور افسانے

ان رسائل و فت وار اور دس ما ، تین ر س دو روزان ہش ہ ہ ہ ہ ے ہ یں ان میں چار ادبی، دو اخالقی و وت ۔جرائد شائع ہ ے ہ

بی، ایک صنعتی، ایک طبی، ایک زنان اور ہمعاشرتی و مذ ہ ر ک مختلف حصوں میں بیس ےایک بچوں کا رسال ش ہ ہے۔ ہ ، پانچ ، چھ یتیم خان ےمسجدیں، پندر مندر اور دھرم شال ے ہ

یں جن میں سپتال ہاناتھ آشرم اور تین بڑ سرکاری ہ ے ہے۔س ایک صرف عورتوں ک لئ مخصوص ے ے ے

ن والوں ر اپن ر ےشروع شروع میں کئی سال تک ی ش ہ ے ہ ہ ےک نام کی مناسبت س "ح�سن آباد" ک نام س موسوم ے ے ے

ا مگر بعد میں اس نامناسب سمجھ کر اس ےکیا جاتا ر ہ ےمیں تھوڑی سی ترمیم کر دی گئی یعنی بجائ "ح�سن ۔ الن لگا مگر ی نام چل ن سکا ہآباد" ک "ح�سن آباد" ک ہ ۔ ے ہ ے

ے۔کیونک عوام ح�سن اور حسن میں امتیاز ن کرت آخر بڑی ہ ہ ےبڑی بوسید کتابوں کی ورق گردانی اور پران نوشتوں ہ ےکی چھان بین ک بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا ےجس س ی بستی آج س سینکڑوں برس قبل اجڑن س ے ے ہ ے

ل موسوم تھی اور و نام "آنندی ۔پ ہے ہ ے ہ "

ر بھرا پرا، صاف ستھرا اور خوش نما ہےیوں تو سارا ش ہ ےمگر سب س خوبصورت، سب س با رونق اور تجارت ے

یں تی ی بازار جس میں زنانl بازاری ر ۔کا مرکز و ہ ہ ہے ہ

وا ال کھچا کھچ بھرا ، ہآنندی بلدی کا اجالس زوروں پر ہ ہے ہ یں بلدی ہ اور خالفl معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر ن ۔ ہ ہے

ر بدر کر دیا ہک زیر بحث مسئل ی ک زنانl بازاری کو ش ہ ہے ہ ہ ے ذیب ک ےجائ کیونک ان کا وجود انسانیت، شرافت اور ت ہ ہ ے

ہے۔دامن پر بد نما داغ

یں و یں "معلوم ن ہایک فصیح البیان مقرر تقریر کر ر ہ ۔ ہ ہے ےکیا مصلحت تھی جس ک زیرl اثر اس ناپاک طبق کو ے ر ک عین بیچوں بیچ ےماری اس قدیمی اور تاریخی ش ہ ہن کی اجازت دی گئی" اس مرتب ان عورتوں ک لئ ےر ے ہ ے ہ ر س بار کوس دور تھا ۔جو عالق منتخب کیا گیا و ش ہ ے ہ ہ ہ

ء1940

ےاپن د�کھ مجھ د دو ے ے

Page 41: اردو ادب کے مشہور افسانے

(راجندر سنگھ بیدی)

وئ پھر آنکھیں بند لی بار ایک نظر اوپر دیکھت ےاندو ن پ ہ ے ہ ے ا "جی" اس خود اپنی آواز ےکر لیں اور صرف اتنا سا ک ۔ ہ

وئی سنائی دی ۔کسی پاتال س آئی ہ ے

ول بات چل ول ا اور پھر وتا ر ی ےدیر تک کچھ ایسا ہ ے ہ ہ ہ ہ ی میں ن آتی تھی ۔نکلی اب جو چلی سو چلی و تھمن ہ ہ ے ہ ۔ ۔ ےاندو ک پتا، اندو کی ماں، اندو ک بھائی، مدن ک بھائی ے ے

ن، باپ، ان کی ریلو سیل سروس کی نوکری، ان ک ےب ے ہ ہمزاج، کپڑوں کی پسند، کھان کی عادت، سبھی کا جائز ے ۔لیا جان لگا بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ ے

ائی تا تھا لیکن اندو طرح د جاتی تھی انت ی کرنا چا ہاور ۔ ے ہ ہ ےمجبوری اور الچاری میں مدن ن اپنی ماں کا ذکر چھیڑ

ےدیا جو اس سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق ک ے ی بیچاری" ہعارض س چلتی بنی تھی "جتنی دیر زند ر ہ ۔ ے ے اتھ میں دوائی کی شیشیاں ا "بابو جی ک ہمدن ن ک ے ۔ ہ ے م اسپتال کی سیڑھیوں پر اور چھوٹا پاشی گھر یں ہر ۔ ہ

ہےمیں چیونٹیوں ک بل پر سوت ر اور آخر ایک دن ے 28ے ی لمحوں میں و گیا چند ہمارچ کی شام" اور مدن چپ ۔ ہ نچ گیا �دھر پ ۔و رون س ذرا ادھر اور گھگھی س ذرا ا ہ ے ے ے ہ

۔اندو ن گھبرا کر مدن کا سر اپنی چھاتی س لگا لیا اس ے ے ےرون ن پل بھر میں اندو کو اپن پن س ادھر اور بیگان ے ے ے ے

نچا دیا تھامدن اندو ک بار میں کچھ اور ےپن س ادھر پ ے ہ ے اتھ پکڑ لئ اور تا تھا لیکن اندو ن اس ک ےبھی جاننا چا ہ ے ے ہ و ں جیپر میں ن ماں باپ یں ا "میں تو پڑھی لکھی ن ےک ہ ہ ۔ ہ یں، بیسیوں اور لو یں، بھائی اور بھابھیاں دیکھی ہدیکھ ہ ے وںمیں یں اس لئ میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہگ دیکھ ے ۔ ہ ے ی چیز مانگتی وںاپن بدل میں تم س ایک اری ہاب تم ے ے ے ہ ہ

۔وں "ہ

ےروت وقت اور اس ک بعد بھی ایک نش سا تھا مدن ن ۔ ہ ے ے ا"کیا ہکچھ ب صبری اور؟؟؟؟ک مل جل شبدوں میں ک ے ے ے ے

و گی میں دو ں گا و؟ تم جو بھی ک ۔مانگتی ہ ہ "

" ۔پکی بات؟" اندو بولی

ا جو پکی بات اں ک اں ا " و کر ک ۔مدن ن کچھ اتادل ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے "

Page 42: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہلیکن اس بیچ میں مدن ک من میں ایک وسوس آیامیرا ے ، اگر اندو کوئی ایسی چیز مانگ ل ی مندا ل ےکاروبار پ ہے ہ ے ہ و گا؟ لیکن اندو و تو پھر کیا ر ی س با نچ ہجو میری پ ہ ہ ے ہ ہ اتھوں کو اپن مالئم وئ ےن مدن ک سخت اور پھیل ہ ے ہ ے ے ے ا وئ ک وئ ان پر اپن گال رکھت ۔اتھوں س سمیٹت ہ ے ہ ے ے ے ہ ے ے ہ

" ۔تم اپن دکھ مجھ دو ے ے "

ی اپن آپ پر ایک بوجھ وا ساتھ ےمدن سخت حیران ہ ۔ ہ وا اس ن چاندنی میں ایک بار پھر وا محسوس ےاترتا ۔ ہ ہ

ر دیکھن کی کوشش کی لیکن و کچھ ن جان ہاندو کا چ ہ ے ہ ہ و وا فقر یلی کا رٹا ہپایا اس ن سوچا ی ماں یا کسی س ہ ہ ہ ہ ے ۔ اتھ وا آنسو مدن ک ہگا جو اندو ن ک دیا جبھی ی جلتا ے ہ ہ ۔ ہہ ے

وئ ےکی پشت پر گرا اس ن اندو کو اپن ساتھ لپٹات ہ ے ے ے ۔ ا ۔ک ہ

یمت" !" لیکن ان سب باتوں ن مدن س اس کی ب ہدئ ے ے ے ۔چھین لی تھی

وئ چکلی بھابھی دو ان ایک ایک کر ک سب رخصت ے۔م ہ ے ہ ےبچوں کو انگلیوں س لگائ سیڑھیوں کی اونچ نیچ س ے ے

وئی چل دی دریا آباد والی پھوپھی ۔تیسرا پیٹ سنبھالتی ہ و جان پر شور مچاتی ار ک گم ےجو اپن "نولکھ " ہ ے ہ ے ے و گئی تھی اور جو غسل خان وش وئی ب ےواویال کرتی ہ ہ ے ہ

یز میں س اپن حص ک تین و ا مل گیا تھا، ج ےمیں پڑا ے ے ے ہ ہ ےکپڑ ل کر چلی گئی پھر چاچا گئ جن کو ان ک ج ے ے۔ ۔ ے ے

و جان کی خبر تار ک ذریع ملی تھی اور جو شاید ےپی ے ے ہ ن کا من چومن چل ےبد حواسی میں مدن کی بجائ دل ے ہ ہ ے

ے۔تھ

ن بھائی چھوٹی ۔گھر میں بوڑھا باپ ر گیا تھا اور چھوٹ ب ہ ے ہ تی ی بغل میں گھسی ر ر وقت بھابی کی ۔دالری تو ہ ہ ہ ن کو دیکھ یا ن دیکھ ے۔گلی محل کی کوئی عورت دل ہ ے ہ ے

۔دیکھ تو کتنی دیر دیکھ ی سب اس ک اختیار میں تھا ے ہ ے۔ ے و ن لگی لیکن ست پرانی ست آ وا اور آ ےآخر ی سب ختم ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ے۔کا کا جی کی اس نئی آبادی ک لوگ اب بھی آت جات ے ے ان س ےمدن تو اس ک سامن رک جات اور کسی بھی ب ے ہ ے ے ے

ی ایک دم گھونگٹ کھینچ یں دیکھت ہاندر چل آت اندو ان ے ہ ے۔ ے

Page 43: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےلیتی لیکن اس چھوٹ س وقف میں جو کچھ دکھائی د ے ے ے ی ن د سکتا تھا ۔جاتا و بنا گھونگٹ ک دکھائی ے ہ ہ ے ہ

یں بڑی سپالئی وال ےمدن کا کاروبار گند بروز کا تھا ک ہ ۔ ے ے ےدو تین جنگلوں میں چیڑ اور دیودار ک پیڑوں کی جنگل وئ خاک سیا ہمیں آگ ن آ لیا تھا اور و دھڑا دھڑ جلت ے ہ ے ہ ے

وا جو مدن ہو کر ر گئ تھ شادی کی رات بالکل و ن ہ ہ ے۔۔ ے ہ ہےن سوچا تھا جب چکلی بھابی ن پھسال کر مدن کو بیچ ۔ ے ےوال کمر میں دھکیل دیا تو اندو سامن شالوں میں ے ے

ر چکلی بھابی ی تھی با ہلپٹی اندھیر کا بھاگ بنی جا ر ۔ ہ ے نسی، ہاور دریا آباد والی پھوپھی اور دوسری عورتوں کی

ےرات ک خاموش پانیوں میں مصری کی طرح دھیر ے ی سمجھتی تھیں ک ی تھی عورتیں سب ی ہدھیر گھل ر ہ ۔ ہ ے یں جانتا کیونک جب و جان پر بھی مدن کچھ ن ہاتنا بڑا ۔ ہ ے ہ اں، ا تھا "ک ڑبڑا ر ہاس بیچ رات س جگایا گیا تو و ۔ ہ ہ ہ ے ے

؟ و مجھ ی اں لئ جا ر ےک ہ ہ ے ہ "

لی رات ک ےان عورتوں ک اپن اپن دن بیت چک تھ پ ہ ے۔ ے ے ے ے ا اور مانا روں ن جو کچھ ک ہبار میں ان ک شریر شو ے ہ ے ے ی تھی و ہتھا، اس کی گونج ان ک کانوں میں باقی ن ر ۔ ہ ہ ے ن کو ہخود رس بس چکی تھیں اور اب اپنی ایک اور ب وئی تھیں زمین کی ی بیٹیاں مرد کو تو ہبسان پر تلی ۔ ہ ے

ہےیوں سمجھتی تھیں جیس بادل کا ٹکڑا جس کی طرف ے ی پڑتا ن برس تو ےبارش ک لئ من اٹھا کر دیکھنا ہ ہے۔ ہ ہ ے ے یں جادو یں چڑھاو چڑھان پڑت ۔منتیں ماننی پڑتی ہ ے ے ے ۔ ہ یں حاالنک مدن کالکا جی کی اس نئی وت ہٹون کرن ۔ ہ ے ہ ے ے ہآبادی میں گھر ک سامن کی جگ میں پڑا اسی وقت کا ے ے ےمنتظر تھا پھر شامتl اعمال پڑوسی سبط کی بھینس ۔

ی ک پاس بندھی تھی جو بار بار پھنکارتی ےاس کی کھاٹ ہ اتھ اٹھا اٹھا کر ہوئی مدن کو سونگھ لیتی تھی اور و ہ ہ

ےاس دور رکھن کی کوشش کرتا ایس میں بھال نیند کا ۔ ے ے اں تھا؟ ی ک ہسوال ہ

روں اور عورت ک خون کو راست بتان واال ےسمندر کی ل ہ ے ہ ےچاند ایک کھڑکی ک راست س اندر چال آیا تھا اور دیکھ ے ے اں ا تھا درواز ک اس طرف کھڑا مدن اگال قدم ک ہر ے ے ۔ ہ

ی تھی و ر ہرکھتا مدن ک اپن اندر ایک گھن گرج سی ہ ے ے ہے۔ ا تھا جیس بجلی کا و ر ےاور اس اپنا آپ یوں معلوم ہ ہ ے

Page 44: اردو ادب کے مشہور افسانے

ٹ ہکھمبا جس کان لگان س اس اندر کی سنسنا ے ے ے ے ہے ن ک بعد ی کھڑ ر ےسنائی د جائ گی کچھ دیر یون ے ہ ے ہ ۔ ے ے

ےاس ن آگ بڑھ کر پلنگ کو کھینچ کر چاندنی میں کر دیا ے ر تو دیکھ سک پھر و ٹھٹک گیا جب اس ن کا چ ۔تاک دل ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ یں ہن سوچااندو میری بیوی کوئی پرائی عورت تو ن ہے۔ ے

وں شالو ی س پڑھتا آیا ۔جس ن چھون کا سبق بچپن ہ ے ہ ے ہ ے وئ اس ن فرض کر لیا، ن کو دیکھت وئی دل ےمیں لپٹی ے ہ ے ہ ہ اتھ بڑھا کر اس ن پاس و گا اور جب اں اندو کا من ےو ہ ۔ ہ ہ ہ

یں اندو کا من تھا مدن ن سوچا ےپڑی گٹھڑی کو چھوا تو و ۔ ہ ہ ےتھا و آسانی س مجھ اپنا آپ ن دیکھن د گی لیکن ے ہ ے ے ہ

ہاندو ن ایسا ن کیا جیس پچھل کئی سالوں س و بھی ے ے ے ۔ ہ ے و اور کسی خیالی بھینس ک ےاسی لمح کی منتظر ہ ے

و غائب نیند ی ن س اس بھی نیند ن آ ر ۔سونگھت ر ہ ہ ہ ے ے ے ہ ے ےاور بند آنکھوں کا کرب اندھیر ک باوجود سامن ے ے

وئ عام نچت ا تھا ٹھوڑی تک پ وا نظر آ ر ےپھڑپھڑاتا ہ ے ہ ۔ ہ ہ اں تو سبھی گول و جاتا لیکن ی ر لمبوترا ہطور پو چ ہے ہ ہ ہ ونٹوں ک ےتھا شاید اسی لئ چاندنی کی طرف گال اور ہ ے ۔

وئی تھی جیسی دو سر ۔بیچ ایک سائ دار کھو سی بنی ہ ہ ے وتی ماتھا کچھ تنگ تھا ہے۔سبز اور شاداب ٹیلوں ک بیچ ہ ے

۔لیکن اس پر س ایکا ایکی اٹھن وال گھنگھریال بال ے ے ے ے

ر چھڑا لیا جیس و دیکھن کی ےجبھی اندو ن اپنا چ ہ ے ہ ہ ے یں آخر شرم و لیکن اتنی دیر ک لئ ن ۔اجازت تو دیتی ہ ے ے ہ اتھوں وتی مدن ن ذرا سخت ہکی بھی تو کوئی حد ے ہے۔ ہ ر پھر س ن کا چ وئ دل اں کرت وں ی سی ےس یوں ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ا "اندو ۔اوپر کو اٹھا دیا اور شرابی سی آواز میں ک ہ !"

لی بار کسی اجنبی ہاندو کچھ ڈر سی گئی زندگی میں پ ۔ ہن اس کا نام اس انداز س پکارا تھا اور و اجنبی کسی ے ے ست اس ست آ ہخدائی حق س رات ک اندھیر میں آ ہ ہ ہ ے ے ے

ا تھا وتا جا ر ۔۔اکیلی ب یار و مددگار عورت کا اپنا ہ ہ ے

ےمیں ن تو ابھی س چار سوٹ اور کچھ برتن الگ کر" ے یں اس ک لئ اور جب مدن ن کوئی جواب ن دیا ہڈال ے ے ے ہ ے

وت وئ بولی "تم کیوں پریشان ےتو اس جھنجھوڑت ہ ۔ ے ہ ے ے و یں اپنا وچن؟ تم اپن دکھ مجھ د چک ۔ویاد ن ہ ے ے ے ے ہ "ہ

Page 45: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیا" ا اور جیس ب فکر وئ ک ہایں؟" مدن ن چونکت ے ے ہ ے ہ ے ے اں ہلیکن اب ک جب اس ن اندو کو اپن ساتھ لپٹایا تو و ے ے ے و یں ر گیا تھا ساتھ ایک روح بھی شامل ی ن ہایک جسم ہ ہ ہ

۔گئی تھی

ی روح تھی اندو کا جسم بھی تھا ۔مدن ک لئ اندو روح ہ ے ے میش کسی ن کسی وج س مدن کی نظروں ےلیکن و ہ ہ ہ ہ ہ

ا ایک پرد تھا خواب ک تاروں س بنا ی ر ےس اوجھل ے ۔ ہ ۔ ہ ہ ے وں کی زر تاری س ق وں ک دھوئیں س رنگین ق ےوا ان ہ ہ ے ے ہ ۔ ہتا تھا مدن کی ر وقت اندو کو ڈھانپ ر ۔چکا چوند جو ہ ے ہ

اتھوں ک دو شاسن صدیوں س اس وں اور اس ک ےنگا ے ہ ے ہ رن کرت آئ تھ جو ک عرفl عام میں ہدرو پدی کا چیر ے ے ے ہ

میش اس آسمانوں س تھانوں ک التی لیکن ےبیوی ک ے ے ہ ہ ہے ہ ےتھان، گزوں ک گز، کپڑا ننگا پن ڈھانپن ک لئ ملتا آیا ے ے ے اں گر پڑ تھ لیکن اں و ار ک ی ےتھا دو شاسن تھک ے ے ہ ہ ے ہ ۔ یں کھڑی تھیں، عزت اور پاکیزگی کی ایک ہدرو پدی و ی ہسفید اور ب داغ ساری میں ملبوس و دیوی لگ ر ہ ے اتھ خجالت ک پسین س وئ ےتھی اور مدن ک لوٹت ے ے ہ ے ہ ے ے ۔

وا میں اٹھا یں اوپر ، جس سکھان ک لئ و ان وئ ہتر ہ ہ ے ے ے ے ے ہ وا، اتھ ک پنجوں کو پور طور پر پھیال تا ہدیتا اور پھر ے ے ہ ایک تشنجی کیفیت میں اپنی آنکھوں کی پھیلتی پھٹتیےوئی پتلیوں کو سامن رکھ دیا اور پھر انگلیوں ک بیچ ے ہےمیں س جھانکتااندو کا مر مریں جسم خوش رنگ اور

وتا استعمال ک لئ پاس، ابتذال ک ےگداز سامن پڑا ے ے ۔ ہ ے و جاتی تو اس قسم ہلئ دورکبھی جب اندو کی ناک بندی ہ ے

وت ےک فقر ہ ے ے

؟" یں گ یں و کیا ک ےائ جی" گھر میں چھوٹ بڑ ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ہ

یں یںبڑ انجان بن جات تا "چھوٹ سمجھت ن ۔مدن ک ہ ے ے ہ ے ے ۔ ہ "

و ارنپور ہاسی دوران میں بابو دھنی رام کی تبدیلی س ہ اں و ریلو میل سروس میں سیلیکشن گریڈ ک ےگئی و ے ہ ہ ۔ و گئ اتنا بڑا کوارٹر مال ک اس میں آٹھ کنب ےیڈ کلرک ہ ے۔ ہ ہی ہر سکت تھ لیکن بابو دھنی رام اس میں اکیل ے ے ے ہ ت زندگی بھر و بال بچوں س ےٹانگیں پھیالئ کھڑ ر ہ ے۔ ہ ے ے وئ تھ سخت گھریلو قسم ک یں Pحد ن ےکبھی علی ے۔ ے ہ ہ ہ

ائی ن ان ک دل میں ےآدمی آخری زندگی میں اس تن ے ہ ۔

Page 46: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےوحشت پیدا کر دی لیکن مجبوری تھی، بچ سب دلی یں اسکول میں ہمیں مدن اور اندو ک پاس تھ اور و ے ے

یں بیچ میں اٹھانا ل ان ہپڑھت تھ سال ک خاتم س پ ے ہ ے ے ے ے۔ ے ےان کی پڑھائی ک لئ اچھا ن تھا بابو جی ک دل ک ے ۔ ہ ے ے

ے۔دور پڑن لگ ے ے

وئیں ان ک بار بار لکھن پر ےبار گرمی کی چھٹیاں ے ۔ ہ ے ارنپور ہمدن ن اندو کو کندن، پاشی اور دالری ک ساتھ س ے ے

یں دفتر ک اں ان ےبھیج دیادھنی رام کی دنیا چمک اٹھی ک ہ ہ ۔ ی اں اب کام ی فرصت تھی اور ک ہکام ک بعد فرصت ہ ہ ے یں اں کپڑ اتارت ی کی طرح ج ہکام تھا بچ بچوں ے ے ہ ہ ے ۔ یں سمیٹت پھرت اپن ن دیت اور بابو جی ان یں پڑ ر ےو ے۔ ے ہ ے ے ہ ے ہ ناو تک وئی رتی، اندو تو اپن پ ےمدن س دور السانی ہ ے ہ ے و گئی تھی و رسوئی میں یوں پھرتی تھی ہس غافل ۔ ہ ے

ر کی طرف من اٹھا اٹھا ، با اؤس میں گائ ہجیس کانجی ہ ے ہ ے و کام وام کرن ک بعد و ہکر اپن مالک کو ڈھونڈا کرتی ے ے ۔ ہ ے

ر کنیر ک بوٹ ےکبھی اندر ٹرنکوں پر لیٹ جاتی کبھی با ے ہ ۔ ےک پاس اور کبھی آم ک پیڑ تل جو آنگن میں کھڑا ے ے

وئ تھا زاروں دلوں کو تھام ۔سینکڑوں ے ہ ے ہ

ر کا دریچ ہساون بھادوں میں ڈھلن لگا آنگن میں س با ہ ے ۔ ے وئ وئی لڑکیاں پینگ بڑھات ی ےکھلتا تو کنواریاں، نئی بیا ہ ے ہ ہ ےگاتیںجھوال کن ت ڈارور امریاںاور پھر گیت ک بول ک ے ے ے

یں چار مل جاتیں ہمطابق دو جھولتیں اور دو جھالتیں اور ک و جاتیں ادھیڑ عمر کی بوڑھی عورتیں ۔تو بھول بھلیاں ہ وتا جیس و ہایک طرف کھڑی تکا کرتیں اندو کو معلوم ے ہ ۔ و گئی جبھی و من پھیر لیتی اور ہبھی ان میں شامل ہ ہے۔ ہ وئی سو جاتی بابو جی پاس س ےٹھنڈی سانسیں بھرتی ۔ ہ ، اٹھان کی ذرا بھی کوشش ن ہگزرت تو اس جگان ے ے ے ے

ے۔کرت

نگا وا بیروز م ہمیسور اور آسام کی طرف س منگوایا ہ ہ ے نگ داموں خریدن کو تیار ن تھ ے۔پڑتا تھا اور لوگ اس م ہ ے ے ہ ے

ی دکان و گئی تھی اس پر مدن جلدی ہایک تو آمدنی کم ۔ ہ ۔اور اس ک ساتھ واال دفتر بند کر ک گھر چال آتا گھر ے ے

وتی ک سب کھائیں ی نچ کر اس کی ساری کوشش ی ہپ ہ ہ ہ ےپئیں اور اپن اپن بستروں میں دبک جائیں جب و کھات ہ ۔ ے ے

ن ک سامن رکھتا ےوقت خود تھالیاں اٹھا اٹھا کر باپ اور ب ے ہ

Page 47: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےاور ان ک کھا چکن ک جھوٹ برتنوں کو سمیٹ کر نل ے ے ے و بھابی ن مدن ک ےک نیچ رکھ دیتا سب سمجھت ب ے ۔ ہ ے ۔ ے ے

ےکان میں کچھ پھونکا اور اب و گھر ک کام کاج میں ہ ہے ۔دلچسپی لین لگا مدن سب س بڑا تھا کندن اس ے ہے۔ ے ےس چھوٹا اور پاشی سب س چھوٹا جب کندن بھابی ک ۔ ے ے ےسواگت میں سب ک ایک ساتھ بیٹھ کر کھان پر اصرار ے

یں ڈانٹ دیتا ۔کرتا تو باپ دھنی رام و ہ

" اور پھر رسوئی" تا "و بھی کھا لیں گ ےکھاؤ تم " و ک ہ ہ ہ ۔ و کھان پین س ےمیں ادھر ادھر دیکھن لگتا اور جب ب ے ے ہ ے

وتی تو بابو و جاتی اور برتنو ں کی طرف متوج ہفارغ ہ ہ و برتن صبح ن د ب ت "ر وئ ک ہدھنی رام اس روکت ے ے ہ ے۔ ہ ے ہ ے ے

ے۔و جائیں گ "ہ

وں جھپاک یں بابو جیمیں ابھی کئ دیتی تی "ن ےاندو ک ہ ے ہ ہ ے۔س "

ت "مدن وئی آواز میں ک ےتب بابو دھنی رام ایک لرزتی ہ ہ ؟ اور اندو یں ن کرن دیتی و، تو ی سب تم وتی ب ۔کی ماں ے ہ ہ ہ ہ ہ

اتھ روک لیتی ۔ایک دم اپن ہ ے

ن ہچھوٹا پاشی بھابی س شرماتا تھا اس خیال س ک دل ہ ے ۔ ے و، چمکی بھابی اور دریا باد والی ری ہکی گود جھٹ س ہ ے ی کو اندو کی گود میں ہپھوپھی ن ایک رسم میں پاشی ے

ہڈاال تھا جب س اندو اس ن صرف دیور بلک اپنا بچ ہ ہ ے ے ۔ ےسمجھن لگی تھی جب بھی و پیار س پاشی کو اپن ے ہ ۔ ے

ہبازوؤں میں لین کی کوشش کرتی تو و گھبرا اٹھتا اور ے و جاتا دیکھتا اتھ کی دوری پر کھڑا ۔اپنا آپ چھڑا کر دو ہ ہ

ٹتا ایک عجیب اتفاق س تا پاس آتا تو دور نستا ر ےاور ۔ ہ ۔ ہ ہ وت اور پاشی کو یں موجود میش و ےایس میں بابو جی ہ ہ ہ ہ ے

ت "ار جانا بھابی پیا ر کرتی ابھی س وئ ک ےڈانٹت ہے ے ے ہ ے ہ ے ی ن چھوڑتی اس کا و گیا تو؟" اور دالری تو پیچھا ۔مرد ہ ہ ہ

"ک اصرار ن بابو ی سوؤں گی ے"میں تو بھابی ک ساتھ ے ۔ ہ ے ۔جی ک اندر کوئی جنا ردھن جگا دیا تھا ایک رات اس ے

ہبات پر دالری کو زور س چپت پڑی اور و گھر کی آدھی ے وئ ےکچی، آدھی پکی نالی میں جا گری اندو ن لپکت ہ ے ے ۔

ےپکڑا تو سر س دوپٹ اڑ گیا بالوں ک پھول اور چڑیاں، ۔ ہ ے و گئ ے۔مانگ کا سیندور، کانوں ک کرن پھول سب ننگ ہ ے ے

Page 48: اردو ادب کے مشہور افسانے

اایک ساتھ وئ ک " اندو ن سانس کھینچت ہ"بابو جی ے ہ ے ے ۔ ےدالری کو پکڑن اور سر پر دوپٹ اوڑھن میں اندو ک ے ہ ے

ےپسین چھوٹ گئ اس ب ماں بچی کو چھاتی س لگائ ے ے ے۔ ے اں ہوئ اندو ن اس ایک ایس بستر میں سال دیا ج ے ے ے ے ہ

یں پائنتی تھی ی تکئ تھ ن ک ، تکئ ان ی سر ان ہسر ہ ے۔ ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ یں کو چبھن والی ےن کاٹھ ک بازو چوٹ تو ایک طرف ک ہ ۔ ے ہ

ےچیز بھی ن تھی پھر اندو کی انگلیاں دالری ک پھوڑ ے ۔ ہ ی تھیں اور مزا وئی اس دکھا بھی ر ہایس سر پر چلتی ے ہ ے

ی تھیں دالری ک گالوں پر بڑ بڑ اور پیار ےبھی د ر ے ے ے ۔ ہ ے ےپیار گڑھ پڑت تھ اندو ن ان گڑھوں کا جائز لیت ہ ے ے۔ ے ے ے

، کیس گڑھ پڑ ائ ری منی! تیری ساس مر ا " ےوئ ک ے ے ے ہ ہ ے ہیں گالوں پر ہر ہے !"

یں ار بھی تو پڑت ا "گڑھ تم ہمنی ن منی کی طرح ک ے ے ہ ے ۔ ہ ے ۔بھابی "

" ا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا ۔اں منو!" اندو ن ک ہ ے ہ

ی کھڑا سب کچھ ہمدن کو کسی بات پر غص تھا و پاس ہ ۔ ہ ی وں ایک طرح س اچھا تا ا تھا "میں تو ک ہے۔سن ر ہ ے ہ ہ ۔ ہ "

" ؟" اندو ن پوچھا ۔کیوں اچھا کیوں ے ہے

و تو کوئی جھگڑا" �گ بانس ن بج بانسریسانس ن ہاںن ا ہ ے ہ ے ہ ہا "تم جاؤ وئ ک وت " اندو ن ایکا ایکی خفا تا یں ر ۔ن ہ ے ہ ے ہ ے ۔ ہ ہ

وآدمی جیتا تو لڑتا نا؟ مر و جا کربڑ آئ ہےجی سو ر ہے ہ ے ے ہ ہگھٹ کی چپ چاپ س جھگڑ بھل جاؤ ن رسوئی میں ے۔ ے ے

ارا کیا کام؟ ہتم "

و کر ر گیا بابو دھنی رام کی ڈانٹ س ےمدن کھسیانا ۔ ہ ہ ی اپن اپن بستروں میں یوں جا پڑ ل ےباقی بچ تو پ ے ے ہ ے ہ ے

یں و تی ۔تھ جیس دفتروں میں چھٹیاں سٹارٹ ہ ہ ے ے

ا احتیاج ن اس ڈھیٹ اور ب یں کھڑا ر ےلیکن مدن و ے ے ۔ ہ ہ ےشرم بنا دیا تھا لیکن اس وقت جب اندو ن بھی اس ے

و کر اندر چال گیا انسا ۔ڈانٹ دیا تو و رو ہ ہ ہ

ا لیکن بابو جی ک ےدیر تک مدن بستر میں پڑا کسمساتا ر ہ مت ن پڑتی تھی اس ۔خیال س اندو کو آواز دین کی ہ ہ ے ے و گئی تھی جب منی کو سالن ک ےکی ب صبری کی حد ے ۔ ہ ے

Page 49: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےلئ اندو کی لوری کی آواز سنائی دی"تو آ نندیا رانی، ۔بورائی مستانی "

ی تھی، مدن کی نیند ی لوری جو دالری منی کو سال ر ہو ہ و کر اس ن زور س ی تھی اپن آپ س بیزار ےبھگا ر ے ہ ے ے ۔ ہ

ےچادر سر پر کھینچ لی سفید چادر ک سر پر لپیٹن اور ے ۔ ےسانس ک بند کرن س خوا مخوا ایک مرد کا تصور ہ ہ ے ے ے و گیا مدن کو یوں لگا جیس و مر چکا اور اس ہےپیدا ہ ے ۔ ہ ن اندو اس ک پاس بیٹھی زور زور س سر پیٹ ےکی دل ے ہ ، دیوار ک ساتھ کالئیاں مار مار کر چوڑیاں توڑ ی ےر ہے ہ یں اٹھا اٹھا کر اگل ر لپک جاتی اور بان ی اور پھر با ےر ہ ہے ہ ہے ہ

۔محل ک لوگوں س فریاد کرتی "لوگو! میں لٹ گئی ہے۔ ے ے ے یں یں قمیض کی پروا ن ۔" اب اس دوپٹ کی پروا ن ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے

ےمانگ کا سیندور، بالوں ک پھول اور چوڑیاں، جذبات اور یں ۔خیاالت ک طوط تک اڑ چک ہ ے ے ے

ہمدن کی آنکھوں س ب تحاش آنسو ب ر تھ حاالنک ے۔ ہے ہہ ہ ے ے اگ ی تھی پل بھرمیں اپن س نس ر ہرسوئی میں اندو ے ۔ ہ ہ

۔ک اجڑن اور پھر بس جان س ب خبر مدن جب ے ے ے ے ے وئ اپن ےحقائق کی دنیا میں واپس آیا تو آنسو پونچھت ے ہ ے

ی تھی لیکن نس ر نسن لگاادھر اندو تو ہاس رون پر ہ ے ہ ے نسی دبی دبی تھی بابو جی ک خیال س و ہاس کی ے ے ۔ ہ ٹ نستی تھی جیس کھلکھال ہکبھی اونچی آواز میں ن ے ہ ہ

نسی ایک ، خاموشی، دوپٹ اور دبی دبی ہکوئی ننگا پن ہ ہے ےگھونگٹ پھر مدن ن اندو کا ایک خیالی بت بنایا اور اس ۔

ےس بیسیوں باتیں کر ڈالیں یوں اس س پیار کیا جیس ے ۔ ے ہابھی تک ن کیا تھاو پھر اپنی دنیا میں لوٹا جس میں ساتھ ہ ول س آواز دیاندوایک اونگھ ےکا بستر خالی تھا اس ن ے ہ ے ۔ ی یوں لگا جیس شادی کی رات ےسی آئی لیکن ساتھ ہ

ےوالی، پڑوسی سبط کی بھینس من ک پاس پھنکارن ے ہ ے ےلگی و ایک ب کلی ک عالم میں اٹھا، پھر رسوئی کی ے ہ ہے۔ وئ دو تین جمائیاں ل کر ، سر کو کھجات ےطرف دیکھت ے ہ ے ے

لیٹ گیاسو گیا

۔مدن جیس کانوں کو کوئی سندیس د کر سویا تھا جب ے ہ ے ےاندو کی چوڑیاں بستر کی سلوٹیں سیدھی کرن س ے

ڑبڑا کر اٹھ بیٹھا یوں ایک دم ۔کھنک اٹھیں تو و بھی ہ ہ

Page 50: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیا تھا پیار کی ۔جاگن میں محبت کا جذب اور بھی تیز ہ ہ ے ےکروٹوں کو توڑ بغیر آدمی سو جائ اور ایکا ایکی اٹھ ے ے

ہے۔تو محبت دم توڑ دیتی مدن کا سارا بدن اندر کی آگ ی اس ک غص کا کرن بن گیا ا تھا اور ی ۔س پھنک ر ے ے ہ ۔ ہ ے

ا وئ انداز میں ک ۔جب اس ن بوکھالئ ہ ے ہ ے ے

"تو تم آ گئیں؟"

" ۔اں "ہ

"سنیسو مر گئی؟"

ائ و گئی " ےاندو جھکی جھکی ایک دم سیدھی کھڑی ہ ۔ ہ ا وئ ک اتھ ملت وئ ۔رام" اس ن ناک پر انگلی رکھت ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ی ومر کیوں بیچاری ماں باپ کی ایک ن ہ"کیا ک ر ہ ۔ ے ہ ہے ہہ

۔بیٹی "

" اور ایک دم" ی نند "بھابھی کی ایک ا ۔اںمدن ن ک ہ ۔ ہ ے ہوئ بوال "زیاد من مت لگاؤ اس ج اختیار کرت ہتحکمان ل ہ ۔ ے ہ ے ہ ہ ہ

۔چڑیل کو "

؟" ہےکیوں اس میں کیا پاپ "

ی" ا "و پیچھا وئ ک " مدن ن اور چڑت ی پاپ ہی ہ ۔ ہ ے ہ ے ے ہے ہ ارا جب دیکھو جونک کی طرح چمٹی یں چھوڑتی تم ۔ن ہ ہ

وتی یں ی ن ۔وئی دفان ہ ہ ہ ہے۔ "ہ

نوں اور" ا "ب وئ ک ہااندو ن مدن کی چارپائی پر بیٹھت ۔ ہ ے ہ ے ے ہئ بیچاری دو دن کی یں چا ے۔بیٹیوں کو یوں تو دھتکارنا ن ہ ہ

یں تو پرسوں ایک دن تو چل یں تو کل کل ن مان آج ن ۔م ہ ۔ ہ ۔۔ ہ تی تھی لیکن و نا چا " اس ک بعد اندو کچھ ک ہی د گی ہ ہ ے ۔ ے ہو گئی اس کی آنکھوں ک سامن اپن ماں باپ، ےچپ ے ے ۔ ہ

ن چچا بھی گھوم گئ کبھی و بھی ان کی دالری ہبھائی ب ے۔ ہ و گئی اور پھر دن رات ی نیاری ۔تھی جو پلک جھپکت ہ ہ ے ۔

و ن لگیں جیس گھر میں ےاس ک نکال جان کی باتیں ۔ ے ہ ے ے ے تی اور نی جس میں کوئی ناگن ر ہےکوئی بڑی سی با ہ ہے ہ یں جاتی گھر ک لوگ آرام ےجب تک و پکڑ کر پھنکوائی ن ۔ ہ ہ یں سکت دور دور س کیلن وال لتھن ےکی نیند سو ن ے ے ے۔ ہ ےکرن وال دات چھوڑن وال ماندری بلوائ گئ اور بڑ ے ے ے ے ے۔ ے

۔دھتور اور موتی ساگر آخر ایک دن اتر پچھم کی طرف ے

Page 51: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی تو ایک الری کھڑی تھی ہس الل آندھی آئی جو صاف ے ن بیٹھی تھی وئی ایک دل ۔جس میں گوٹ کنری میں لپٹی ہ ہ ے نائی بین کی وئی ش ہپیچھ گھر میں ایک سر پر بجھتی ہ ے ی تھی پھر ایک دھچک ک ساتھ الری ور ےآواز معلوم ے ۔ ہ ہ ا"تم ہچل دی مدن ن کچھ برافروختگی ک عالم میں ک ے ے ۔ ی اس گھر میں و ابھی کل وتی ہعورتیں بڑی چاالک ۔ ہ ہ م س زیاد پیار کرن یں اں ک سب لوگ تم و اور ی ےآئی ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

یں؟ ہلگ ے "

" ا ۔اں!" اندو ن اثبات میں ک ہ ے ہ

" یں سکتا ی ن و ی ۔ی سب جھوٹ ہ ہ ہ ہ ہے ہ "

ارا مطلب میں" ہےتم ہ "

اں" ہدکھاوا ی سب ہ ہے !"

" ا "ی وئ ک ہاچھا جی؟" اندو ن آنکھوں میں آنسو الت ۔ ہ ے ہ ے ے ےسب دکھاوا میرا؟ اور اندو اٹھ کر اپن بستر میں چلی ہے ان میں من چھپا کر سسکیاں بھرن لگی ۔گئی اور سر ے ہ ے ہ ۔ ی اٹھ کر مدن ی تھا ک اندو خود ہمدن اس منان واال ہ ہ ے ے

وئ اتھ پکڑت ےک پاس آ گئی اور سختی س اس کا ہ ے ہ ے ے وا کیا و ت ت ر ر وقت جلی کٹی ک ہےبولی "تم جو ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ۔

یں لینا یں؟" مجھ تم س کچھ ن ۔تم ہ ے ے ہ "

" اندو بولی زندگی" یں لینا مجھ تو لینا یں کچھ ن ۔تم ہے۔ ے ہ ہ ےبھر لینا اور و چھینا جھپٹی کرن لگی مدن اس ۔ ے ہ ہے

ہدھتکارتا تھا اور و اس س لپٹ لپٹ جاتی تھی و اس ۔ ے ہ اؤ میں ب جان کی بجائ ےمچھلی کی طرح تھی جو ب ے ہہ ہ

نچانا ی اوپر پ وئی اوپر ہآبشار ک تیز دھار کو کاٹتی ہ ہ ے ے و تی ۔چا ہ ہ

ی تھی نستی و ک ر اتھ پکڑتی، روتی ، وئ ہچٹکیاں لیت ہہ ہ ہ ہ ے ہ ے

؟" و گ ےپھر مجھ پھاپھا کٹنی ک ہ ے "

" یں وتی ۔و تو سبھی عورتیں ہ ہ ہ "

وا جیس اندو کوئی گالی" اری تو" یوں معلوم روتم ےٹھ ہ ہ ہ واور اس ن من میں کچھ منمنایا بھی مدن ن ےدین والی ۔ ہ ے ہ ے ا؟" اور اندو ن اب کی سنائی دین ا "کیا ک وئ ک ےمڑت ے ہ ۔ ہ ے ہ ے

Page 52: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی نس پڑا اگل رایا مدن کھلکھال کر ہوالی آواز میں د ے ۔ ہ ۔ ہ ی تھی "تم ہلمح اندو مدن ک بازوؤں میں تھی اور ک ر ہہ ے ے وتا اس ک سبھی ےمرد لوگ کیا جانو؟جس س پیار ہے ہ ے

ن" یں کیا باپ کیا بھائی اور کیا ب وت ہعزیز پیار معلوم ۔ ہ ے ہ ے وئ بولی "میں تو یں دور س دیکھت ۔اور ایکا ایکی ک ے ہ ے ے ہ

۔دالری منی کا بیا کروں گی ہ "

یں" وئی ن اتھ کی ا "ابھی ایک و گئی" مدن ن ک ہحد ہ ہ ۔ ہ ے ہ ۔اور بیا کی سوچن لگیں ے ہ "

" اتھ کی لگتی نا؟" اندو بولی اور پھر اپن یں ایک ےتم ہے ہ ہ ن لگی "ذرا وئ ک ۔اتھ مدن کی آنکھوں پر رکھت ے ہ ے ہ ے ہی " مدن ن سچ مچ ہآنکھیں بند کرو اور پھر کھولو ے ۔

ہآنکھیں بند کر لیں اور جب کچھ دیر تک ن کھولیں تو اندو و جاؤں ہبولی "اب کھولو بھیاتنی دیر میں تو میں بوڑھی ۔

ےگی جبھی مدن ن آنکھیں کھول دیں لمح بھر ک لئ ے ہ ۔ ے ۔ یں منی بیٹھی اور و ہاس یوں لگا جیس سامن اندو ن ہے ہ ے ے ے

و ہکھو سا گیا بلک موقع ن پا کر اس شلوار کو جو ب ہ ہ ۔ میش اپنی ساس وال ےدھوتی س بدل آتی اور جس و ہ ہ ہ ے ے

ےپران صندل ک صندوق پر پھینک دیتی، اٹھا کر کھونٹی پر ے یں سب س نظریں بچانا پڑتیں ےلٹکا دیت ایس میں ان ہ ے ے۔

ی تو نیچ کون ےلیکن ابھی شلوار کو سمیٹ کر مڑت ے ہ ے مت جواب و ک محرم پر پڑ جاتی تب ان کی ہمیں نگا ب ۔ ے ہ ہ

ےد جاتی اور و شتابی کمر س نگل بھاگت جیس ے۔ ے ے ہ ے و پھر برآمد میں ان کی ر آگیا ےسانپ کا بچ بل س با ۔ ہ ہ ے ہ

ےآواز سنائی دین لگی اوم نموم بھوت دا سو دیوا ۔ ے

ےاڑوس پڑوس کی عورتوں ن بابو جی کی خوبصورتی کی نچا دی تھیں جب کوئی عورت ۔داستانیں دور دور تک پ ہ

و ک پیار پن اور سڈول جسم کی ےبابو جی ک سامن ب ے ہ ے ے م تو ت " ہباتیں کرتی تو و خوشی س پھول جات اور ک ے ہ ے ے ہ مار گھر میں ، امی چند کی ماں! شکر و گئ ےدھنی ہ ہے ے ہ ہ وئ ان کی ت " اور ی ک ےبھی کوئی صحت واال جیو آیا ہ ے ہ ہ ۔

اں دق ک عارض تھ نچ جاتیں ج یں دور پ یں ک ے۔نگا ے ے ہ ۔ ہ ہ ہ ےدوائی کی شیشیاں، اسپتال کی سیڑھیاں یا چیونٹیوں ک وئ جسم وال ےبل، نگا قریب آتی تو موٹ موٹ گدرائ ے ہ ے ے ے ہ وئ ےکئی بچ بغل میں جانگھ پر، گردن پر چڑھت اترت ہ ے ے ے

Page 53: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتا جیس ابھی اور آ ر وت اور ایسا معلوم ہےمحسوس ے ہ ے ہ و کی کمر زمین ک ساتھ اور وئی ب لو پر لیٹی ےیں پ ہ ہ ہ ۔ ہ

یں اور و دھڑا دھڑ بچ ےکول چھت ک ساتھ لگ ر ہ ہ ہے ے ہے ی اور ان بچوں کی عمر میں کوئی فرق ہےجنتی جا ر ہ

جڑواںتوام اوم یں کوئی بڑا ن چھوٹا سبھی ایک س ےن ۔ ہ ہے ۔ ہ ےنمو بھگوت

ے۔آس پاس ک سب لوگ جان گئ تھ اندو بابو جی کی ے ے و چنانچ دودھ اور چھاچھ ک مٹک دھنی رام یتی ب ےچ ے ہ ہے۔ ہ ہ

ےک گھر آن لگ اور پھر ایک دم سالم دین گوجر ن ے ے ے ا "بی بی میرا بیٹا آر ایم ایس ۔فرمائش کر دی اندو ن ک ۔ ہ ے ۔

ےمیں قلی رکھوا دو الل تم کو اچھا د گا " اندو ک ۔ ے ہ ۔ و گیا و ہاشار کی دیر تھی ک سالم دین کا بیٹا نو کر ۔ ہ ہ ے

و سکا اس کی قسمت، آسامیاں زیاد ہبھی سارٹر، جو ن ہ ہ ۔ن تھیں ہ

و ک کھان پین اور اس کی صحت کا بابو جی خیال ےب ے ے ہ ےرکھت تھ دودھ پین س اندو کو چڑ تھی و رات ک ہ ۔ ے ے ے۔ ے

و ہوقت خود دودھ کو باالئی میں پھینٹ، گالس میں ڈال، ب ےکو پالن ک لئ اس کی کھٹیا ک پاس آ جات اندو اپن ے۔ ے ے ے ے

یں بابو جی مجھ "ن تی وئ اٹھتی اور ک ہآپ کو سمیٹت ۔ ہ ے ہ ے " "تیرا تو سسر بھی پئ گا " و مذاق یں پیا جاتا ہس ن ۔ ے ۔ ہ ے

ت ے۔س ک ہ ے

وئی جواب دیتی" نستی " اندو ہتو پھر آپ پی لیجیئ نا ہ ۔ ے ے۔اور بابو جی ایک مصنوعی غص س برس پڑت "تو ے ے

و جو تیری ساس ی حالت تی بعد میں تیری بھی و ہچا ہ ہے ہ وئی؟ ہکی "

وںاندو الڈ س روٹھن لگی آخر کیوں ن روٹھتی و ہوں ۔ ہ ۔ ے ے ہ ہاں و لیکن ی یں منان واال کوئی ن یں روٹھت جن ہلوگ ن ہ ہ ے ہ ے ہ ، روٹھن واال صرف ایک جب اندو ۔منان وال سب تھ ے ے ے ے

اتھ س گالس ن لیتی تو و اس کھٹیا ک ےبابو جی ک ے ہ ہ ے ہ ے "، تیری اور "ل ی پڑا ان ک نیچ رکھ دیت ہےپاس سر ہ ے ے ے ے ے ہ وئ چل دیت ت یں مرضی تو ن پی" ک ے۔مرضی تو پی ن ے ہ ے ہ ہ ہ ہے

نچ کر دھنی رام دالری منی ک پاس ےاپن بستر پر پ ہ ے ےکھیلن لگت دالری کو بابو جی ک ننگ پنڈ ک ساتھ ے ے ے ے۔ ے ےپنڈا گھسان اور پھر پیٹ پر من رکھ کر پھنکڑا پھالن کی ہ ے

Page 54: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہےعادت تھی آج جب بابو جی اور منی ی کھیل کھیل ر ہ ۔ ، تو منی ن بھابی کی طرف نسا ر تھ نس ےتھ ے ہے ہ ہ ے۔ و جائ گا بابو جی ا "دودھ تو خراب وئ ک ۔دیکھت ے ہ ۔ ہ ے ہ ے

یں ی ن ۔بھابی تو پیتی ہ ہ "

" اتھ س ےپئ گی ضرور پئ گی بیٹا" بابو جی ن دوسر ہ ے ے ے ے ا "عورتیں گھر کی کسی چیز کو وئ ک ۔پاشی کو لپٹات ہ ے ہ ے

یں دیکھ سکتیں وت ن ۔خراب ہ ے ہ "

وتا ک ایک طرف ی میں ہابھی ی فقر بابو جی ک من ہ ہ ہ ے ہ ہ و ش خصم کھانی" کی آواز آن لگتی پت چلتا ب ہس " ہ ۔ ے ہے ہ ے

ی اور پھر غٹ غٹ سی سنائ دیتی اور ےبلی کو بھگا ر ہے ہ وبھابی ن دودھ پی لیا کچھ دیر ک بعد ےسب جان لیت ب ۔ ے ہ ے

ی تا "بوجیبھابی رو ر ہے۔کندن بابو جی ک پاس آتا اور ک ہ ہ ے "

ت اور پھر اٹھ کر اندھیر میں دور" ےائیں؟" بابو جی ک ے ہ ہوتی و کی چارپائی پڑی ۔اسی طرف دیکھن لگت جدھر ب ہ ہ ے ے ن ک بعد و پھر لیٹ جات اور ی بیٹھ ر ےکچھ دیر یوں ہ ے ے ہ ے ہ ت "جاتو سو جاو بھی وئ کندن س ک ہکچھ سمجھت ے۔ ہ ے ے ہ ے

۔سو جائ گی اپن آپ ے ے "

وئ وئ بابو دھنی رام آسمان پر کھل ےاور پھر لیٹت ہ ے ے ہ ے ےپرماتما ک گلزار کو دیکھن لگت اور اپن من میں ے ے ے وئ وئ " چاندی ک ان کھلت بند ےبھگوان س پوچھت ہ ے ہ ے ے ے ے

یں ؟" اور پھر پورا آسمان ان ا ہپھولوں میں میرا پھول ک ہے ہ ےدرد کا ایک دریا دکھائی دین لگتا اور کانوں میں مسلسل

وئ و اؤ کی آواز سنائی دیتی جس سنت ہایک ے ہ ے ے ہ !" اور روت "جب س دنیا بنی انسان کتنا رویا ت ےک ہے ہے ے ے۔ ہ

ے۔روت سو جات ے

ی میں مدن ن واویال ےاندو ک جان س بیس پچیس روز ہ ے ے ے ےشروع کر دیا اس ن لکھا میں بازار کی روٹیاں کھات ۔ ے ۔

و گئی گرد کا درد وں مجھ قبض ےکھات تنگ آگیا ہے۔ ہ ے ۔ ہ ے و گیا پھر جیس دفتر ک لوگ چھٹی کی ےشروع ے ہے۔ ہ

یں مدن ۔عرضی ک ساتھ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھیج دیت ہ ے ے ےن بابو جی کو ایک دوسر س تصدیق کی چھٹی لکھوا ے ے وا تو ایک ڈبل تارجوابی ۔بھیجی اس پر بھی جب کچھ ن ہ ہ ۔ ےجوابی تار ک پیس مار گئ لیکن بال س اندو اور بچ ے۔ ے ے ے ے

ی ہلوٹ آئ تھ مدن ن اندو س دو دن سیدھ من بات ہ ے ے ے ے۔ ے

Page 55: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی کا تھا ایک دن مدن کو اکیل ےن کی ی دکھ بھی اندو ۔ ہ ہ ۔ ہ ےمیں پا کر و پکڑ بیٹھی اور بولی "اتنا من پھالئ بیٹھ ے ہ ۔ ہ

؟ ہےومیں ن کیا کیا ے "ہ

و جا میر ا "چھوڑدور وئ ک ہمدن ن اپن آپ کو چھڑات ۔ ہ ے ہ ے ے ے ےآنکھوں س کمی "

؟" ن ک لئ اتنی دور س بلوایا ی ک ہےی ے ے ے ے ہ ہ "

"!ہاں"

" ۔ٹاؤ اب "ہ

تی تو کیا" ی کیا دھرا جو تم آنا چا ارا ہخبرداری سب تم ہے ہ ہ ہ ؟ ےبابو جی روک لیت "

ائ جیتم بچوں کی سی باتیں ا " ےاندو ن ب بسی س ک ہ ۔ ہ ے ے ے یں بھال کیس ک سکتی تھی؟ سچ پوچھو و میں ان ہہکرت ے ہ ۔ ہ ے

ہے۔تو تم ن مجھ بلوا کر بابو جی پر تو بڑا جلم کیا ے ے "

"کیا مطلب ؟"

" وا تھا بال بچوں میں ت لگا یںان کا جی ب ۔مطلب کچھ ن ہ ہ ہ "

"اور میرا جی؟"

" و اندو ن یں بھی لگا سکت ارا جی؟" تم تو ک ےتم ۔ ہ ے ہ ہ ا اور اس طرح س مدن کی طرف دیکھا ےشرارت س ک ہ ے و گئیں یوں ۔ک اس کی مدافعت کی ساری قوتیں ختم ہ ہ ان کی تالش تھی ا س ن ےبھی اس کسی اچھ س ب ۔ ے ہ ے ے ے

۔اندو کو پکڑ کر سین س لگا لیا اور بوال "بابو جی تم ۔ ے ے ؟ ت خوش تھ ےس ب ہ ے "

" ان ےاں" اندو بولی "ایک دن میں جاگی تو دیکھا سر ہ ۔ ہیں ۔کھڑ مجھ دیکھ ر ہ ہے ے ے "

" و سکتا یں ۔ی ن ہ ہ ہ "

"!اپنی قسم"

" یںمیری قسم کھاؤ ۔اپنی قسم ن ہ "

" یں کھاتیکوئی کچھ بھی د اری قسم تو میں ن ے۔تم ہ ہ "

Page 56: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ا "کتابوں میں اس وئ ک ےاں!" مدن ن سوچت ۔ ہ ے ہ ے ے ہیں ت ۔سیکس ک ہ ے ہ "

" ؟ وتا ۔سیکس؟" اندو ن پوچھا و کیا ہے ہ ہ ے

" وتا ی جو مرد اور عورت ک بیچ ہے۔و ہ ے ہ "

" ا "گند وئ ک ٹت ےائ رام!" اندو ن ایک دم پیچھ ۔ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ہیں آئی بابو جی ک بار میں ایسا یں ک شرم ن ےک ے ہ ے ہ

؟ وئ ےسوچت ہ ے "

؟" وئ ےتو بابو جی کو ن آئی تجھ دیکھت ہ ے ے ہ "

" ا وئ ک ۔کیوں؟" اندو ن بابو جی کی طرف داری کرت ہ ے ہ ے ے وں گ و ر و کو دیکھ کر خوش ے۔"و اپنی ب ہ ہے ہ ہ ہ "

" و و تم ایسی یں جب ب ۔کیوں ن ہ ہ ۔ ہ "

ارا" ا اس لئ تم ارا من گندا اندو ن نفرت س ک ہتم ے ۔ ہ ے ے ہے۔ ہ اری کتابیں سب گندگی ہکاروبار بھی گند بروز کا تم ہے۔ ے ے

اری کتابوں کو اس ک یں اور تم یں تم ےس بھری پڑ ی ہ ہ ۔ ہ ے و گئی یں دیتا ایس تو جب میں بڑی ہسوا کچھ دکھائی ن ے ۔ ہ ےتھی تو میر پتا جی ن مجھ س ادھک پیار کر نا شروع ے ے ےکر دیا تھا تو کیا و بھیو تھا نگوڑاجس کا تم ابھی نام ل ہ ہ ۔

اں بال لو ان " اور پھر اندو بولی "بابو جی کو ی ۔ر تھ ہ ۔ ے۔ ہے وں گ تو کیا تم یں لگتا و دکھی اں جرا بھی جی ن ےکا و ہ ہ ۔ ہ ہ

؟ و گ یں ےدکھی ن ہ ہ "

ت پیا ر کرتا تھا گھر میں ماں کی ۔مدن اپن باپ س ب ہ ے ے ی ون ک کارن سب س زیاد اثر مدن پر ہموت ن بڑا ہ ے ے ے ہ ے

ن ےکیا تھا اس اچھی طرح س یاد تھا ماں ک بیمار ر ہ ے ۔ ے ے ۔ ےک باعث جب بھی اس کی موت کا خیال مدن ک دل ے

میں آتا تو آنکھیں موند کر پرارتھنا شروع کر دیتااوم نموتا تھا ک باپ کی یں چا ہبھگوت دا سوویوا اوم نمواب و ن ہ ہ ہ ۔ ے

ےچھتر چھایا بھی سر س اٹھ جائ خاص طور پر ایس ے۔ ے یں پایا تھا اس ن ےمیں جبک و اپن کاروبار کو بھی جما ن ۔ ہ ے ہ ہ ن ا "ابھی ر ج میں اندو س صرف اتنا ک ےغیر یقینی ل ہ ۔ ہ ے ے ہ لی بار آزادی ک م دونوں پ ےدو بابو کو شادی ک بعد ہ ہ ے ۔

یں ۔ساتھ مل سکت ہ ے "

Page 57: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا خط ہتیسر چوتھ روز بابو جی کا آنسوؤں میں ڈوبا ے ے ےآیا میر پیار مدن ک تخاطب میں میر پیار ک ے ے ے ے ے ۔

و ک ےالفاظ شور پانیوں میں دھل گئ تھ لکھا تھا "ب ہ ۔ ے۔ ے اری ، تم ی پران دن لوٹ آئ تھ ون پر میر تو و اں ہی ے ے ے ہ ے ے ہ ہ وئی تھی تو و بھی ماری نئی شادی ہماں ک دن، جب ہ ہ ے

وئ کپڑ ادھر ادھر ڑ تھی ایس میں اتار ی ال ےایسی ے ہ ے ے ۔ ہ ہ ی صندل کا ہپھینک دیتی اور پتا جی سمیٹت پھرت و ے۔ ے ۔

وں ا وں آ ر ا ی بیسویں خلجنمیں بازار جا ر ۔صندوق، و ہ ہ ۔ ہ ہ ہ وں اب گھر میں ا ی بڑ یا ربڑی ال ر یں تو د ۔کچھ ن ہ ہ ے ہ ہ

" اں صندل کا صندوق پڑا تھا، خالی یں و جگ ج ہےکوئی ن ہ ہ ہ ۔ ہ ۔اور پھر ایک آدھ سطر اور دھل گئی تھی آخر میں لکھا

اں ک بڑ بڑ اندھ ، ی ےتھا "دفتر س لوٹت سم ے ے ے ہ ے ے ے ۔ ول سا وئ میر من میں ایک وت ہکمروں میں داخل ے ے ہ ے ہ وکا خیال رکھنا اس کسی ایسی ےاٹھتا " اور پھر"ب ۔ ہ ہے۔

۔ویسی دای ک حوال مت کرنا ے ے ہ "

اتھوں س چٹھی پکڑ لی سانس کھینچ ۔اندو ن دونوں ے ہ ے وئی بولی وتی ۔لی، آنکھیں پھیالتی شرم س پانی پانی ہ ہ ے

ہ"میں مر گئی بابو جی کو کیس پت چل گیا؟ ے ۔ "

یں؟ ت ا "بابو جی کیا ک وئ ک ہمدن ن چٹھی چھڑات ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ےمیں پیدا کیا ہے۔دنیا دیکھی ہ ہے۔

"اور پھر" یں وئ ی ک " اندو بولی "ابھی دن ۔اں مگر ہ ے ہ ے ہ ۔ ۔ ہےاس ن ایک تیز سی نظر اپن پیٹ پر ڈالی جس ن ابھی ے ے یں کیا تھا اور جیس بابو جی یا کوئی ےبڑھنا بھی شروع ن ہ و اس ن ساری کا پلو اس پر کھینچ لیا اور ا ےاور دیکھ ر ۔ ہ ہ ر پر ےکچھ سوچن لگی جبھی ایک چمک سی اس ک چ ہ ے ۔ ے اری سسرال س شیرینی آئ گی "تم ۔آئی اور و بولی ے ے ہ ۔ ہ "

" ا وئ ک اں مدن ن راست پات ۔میری سسرال؟"اور ہ ے ہ ے ہ ے ۔ ہ ین شادی ک ے"کتنی شرم کی بات ابھی چھ آٹھ م ے ہ ہے۔

ا "اور اس ن اندو ک پیٹ کی یں اور چال آ ر ےوئ ے ہے۔ ہ ہ ے ہ۔طرف اشار کیا ہ

ی تھیں اس وقت خوف ۔مدن کی ٹانگیں ابھی تک کانپ ر ہ یںتسلی س ے۔س ن ہ ے

و؟" ہچال آیا یا تم الئ ے ہے "

Page 58: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ایسی" وتی ارا کچھ عورتیں ہتمی سب قصور تم ہ ہے۔ ہ ہ ۔یں "ہ

یں؟" یں پسند ن ہتم ہ "

یں" ہایک دم ن "

"کیوں؟"

" ے۔چار دن تو مز ل لیتی زندگی ک ے ے "

ج میں" یں؟" اندو ن صدم زد ل ےکیا ی جندگی کا مجا ن ہ ہ ہ ے ہ ہ یں؟ بھگوان ن بن ا مرد عورت شادی کس لئ کرت ےک ہ ے ے ۔ ہ وتا پھر و یں ہمانگ د دیا نا؟ پوچھو ان س جن ک ن ۔ ہ ہ ے ے ے ے یں یں پیروں فقیروں ک پاس جاتی ۔کیا کچھ کرتی ہ ے ۔ ہ

یں، شرم و حیا ہسمادھیوں، مجاوروں پر چوٹیاں باندھتی و کر سرکنڈ کاٹتی، ےتج کر دریاؤں ک کنار ننگی ہ ے ے

۔شمسانوں میں مسان جگاتی "

" ی شروع کر دیا ۔اچھا! اچھا!" مدن بوال "تم ن بکھان ہ ے ۔ ؟ ۔اوالد ک لئ تھوڑی عمر پڑی تھی ے ے "

" ےو گا تو!" اندو ن سرزنش ک انداز میں انگلی اٹھات ے ے ہیں، ارا ن اتھ بھی مت لگانا و تم "جب تم اس ا ہوئ ک ہ ہ ۔ ہ ے ۔ ہ ے ہیں، پر اس ک دادا یں تو اس کی جرورت ن و گا تم ےمیرا ہ ہ ۔ ہ " اور پھر کچھ خجل، کچھ وں ت ی میں جانتی ۔کو ب ہ ہ ہے۔ ہ اتھوں س چھپا لیا و کر اندو ن اپنا من دونوں ۔صدم زد ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ےو سوچتی تھی پیٹ میں اس ننھی سی جان کو پالین ک ے ہ

مدردی تو ت وتا سوتا تھوڑی ب ہسلسل میں، اس جان کا ہ ہ ے ا ایک لفظ بھی ی لیکن مدن چپ چاپ بیٹھا ر ۔کر گا ہ ہ ے

اتھ اٹھا کر ر پر س ہاس ن من س ن نکاال اندو ن چ ے ے ہ ے ۔ ہ ے ہ ے لوٹن ک خاص انداز ون والی پ ےبدن کی طرف دیکھا اور ہ ے ہ و وں سب پیچھ ی ہمیں بولی "و تو جو کچھ میں ک ر ے ہ ہ ہہ ہ ۔

م یںمجھ بچپن س و ی ن ل تو میں بچوں گی ہےگا پ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ۔ ۔اس بات کا "

و گیای خوبصورت "چیز" جو حامل ہمدن بھی جیس خائف ہ ہ ے و گئی مر جائ ےو جان ک بعد اور بھی خوبصورت ہے ہ ے ے ہ

ےگی؟ اس ن پیٹھ کی طرف س اندو کو تھام لیا اور پھر ے و ہکھینچ کر اپن بازوؤں میں ل آیا اور بوال "تجھ کچھ ن ہ ے ۔ ے ے

Page 59: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےگا اندومیں تو موت ک من س بھی چھین کر ل آؤں گا ے ہ ے یں، سی دان کی باری اب ساوتری کی ن ہےتجھ ہ ہ ے "

ی گئی ک اس کا اپنا بھی ہمدن س لپٹ کر اندو بھول ہ ے ہےکوئی دکھ

ارنپور س ےاس ک بعد بابو جی ن کچھ ن لکھا البت س ہ ہ ۔ ہ ے ے ہایک سارٹر آیا جس ن صرف اتنا بتایا ک بابو جی کو پھر ے

یں ایک دور میں تو و قریب ہس دور پڑن لگ ے ۔ ہ ے ے ے ے ی بس تھ مدن ڈر گیا اندو رون لگی ۔قریب چل ے ۔ ے۔ ے ہ میش کی طرح مدن ن ےسارٹر ک چل جان ک بعد ہ ہ ے ے ے ے

ی من میں پڑھن لگااوم نمو ےآنکھیں موند لیں اور من ہ ےبھگوت

ی مدن ن باپ کو چٹھی لکھیبابو جی! چل ےدوسر روز ے ہ ے و بھی " لیکن آخری یں اور آپ کی ب ت یاد کرت ہآؤبچ ب ہ ے ہ ے

ےنوکری تھی اپن بس کی بات تھوڑی تھی دھنی رام ک ۔ ے ۔ ان ک ےخط ک مطابق و چٹھی کا بندوبست کرر تھ ے ہے ہ ے

"اگر ۔بار میں دن ب دن مدن کا احساس جرم بڑھن لگا ے ہ ے ن دیتا تو میرا کیا بگڑجاتا؟ یں ر ےمیں اندو کو و ہ ہ "

ل مدن اضطراب ک عالم ےوج دشمی س ایک رات پ ے ہ ے ے ا تھا ک ل ر ر برآمد میں ٹ ہمیں بیچ وال کمر ک با ہ ہ ے ہ ے ے ے

ےاندر س رو ن کی آواز آئی اور و چونک کر درواز کی ہ ے ے و ر آئی اور بولی "مبارک ۔طرف لپکا بیگم دای با ہ ۔ ہ ہ ۔

وا و بابو جیلڑکا ہے۔"مبارک ہ ہ "

ج میں بوال "بی" ا اور پھر متفکران ل ۔لڑکا ؟" مدن ن ک ے ہ ہ ہ ے ؟" ۔بی کیسی ہے

ی میں ن ابھی تک اس لڑکی ر ہبیگم بولی "خیر م ے ے ہے ہ ۔ یں و جائ تو ا س کی آنول ن زچ زیاد خوش ہبتائی ے ہ ہ ہ ہے

۔گرتی نا "

ا" وئ ک ہتو" مدن ن بیوقوفوں کی طرح آنکھیں جھپکت ے ہ ے ے یں ہاور کمر میں جان ک لئ آگ بڑھا بیگم ن اس و ے ے ۔ ے ے ے ے ے ارا اندر کیا کام؟" اور پھر ایکا ن لگی "تم ہروک دیا اور ک ۔ ے ہ ہایکی درواز بھیڑ کر اندر لپک گئی یا شاید اس لئ ک جب ے ہ

Page 60: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ہکوئی اس دنیا میں آتا تو ارد گرد ک لوگوں کی ی ے ہے وتا وتی مدن ن سن رکھا تھا جب لڑکا پیدا ہےحالت ہ ے ہے۔ ہ

یں ک یں گویا ڈر ر ہتو گھر ک در و دیوار لرزن لگت ہ ہے ۔ ہ ے ے ے میں بیچ گا یا رکھ گا مدن ن محسوس کیا و کر ےبڑا ۔ ے ے ہ ہ ی تھیںزچگی ک لئ ی دیواریں کانپ ر ےک جیس سچ مچ ے ہ ہ ے ہ ت ہچکلی بھابی تو ن آئی تھیں کیونک اس کا اپنا بچ تو ب ہ ہ ہ نچی تھیں ہچھوٹا تھا البت دریا آباد والی پھوپھی ضرور پ ہ

ےجس ن پیدائش ک وقت رام، رام، رام، رام کی رٹ لگا ے ی تھی و ر ی رٹ مدھم ۔دی تھی اور اب و ہ ہ ہ

ہزندگی بھر مدن کو اپنا آپ اس قدر فضول اور بیکار ن لگا ےتھا اتن میں پھر درواز کھال اور پھوپھی نکلی برآمد ۔ ہ ے ۔ ر بھوت ک ےکی بجلی کی مدھم روشنی میں اس کا چ ہ ہ

ا تھا مدن ن اس ر کی طرح ایک دم دودھیا نظر آ ر ےچ ۔ ہ ے ہ ا"اندو ٹھیک نا پھوپھی وئ ک ۔کا راست روکت ہے ہ ے ہ ے ہ "

ا اور" ! پھوپھی ن تین چار بار ک ہٹھیک ٹھیک ٹھیک ے ہے ہے ہے اتھ مدن ک سر پر رکھ کر اس نیچا وا ےپھر اپنا لرزتا ے ہ ہ

ر لپک گئی ہکیا، چوما اور با "

وئی نظر آ ر جاتی ہپھوپھی برآمد ک درواز میں س با ہ ے ے ے ے اں باقی بچ سو ر نچی ج ی تھی و بیٹھک میں پ ہےر ے ہ ہ ہ ۔ ہ

اتھ پھیرا اور ہتھ پھوپھی ن ایک ایک ک سر پر پیار س ے ے ے ے۔ ہپھر چھت کی طرف آنکھیں اٹھا کر من میں کچھ بولی اور و کر منی ک پاس لیٹ گئی اوندھیاس ےپھر نڈھال سی ہ

ی ا تھا جیس رو ر وئ شانوں س پت چل ر ہک پھڑکت ے ہ ہ ے ے ہ ے ے واپھوپھی تو کئی زچگیوں س گزر چکی ے مدن حیران ہ ہے۔پھر ادھر ک کمر ے، پھر کیوں اس کی روح کانپ اٹھی ے ہے ہےر لپکی دھوئیں کا ایک غبار سا آیا ر مل کی بو با ۔س ۔ ہ ہ ے

۔جس ن مدن کا احاط کر لیا اس کا سر چکرا گیا جبھی ۔ ہ ے ر نکلی کپڑ پر وئ با ےبیگم دای کپڑ میں کچھ لپیٹ ۔ ہ ے ہ ے ے ہ

ی خون تھا جس میں کچھ قطر نکل کر فرش پر ےخون ۔ ہ ا وش اڑ گئ اس معلوم ن تھا ک و ک ہگر گئ مدن ک ہ ہ ہ ے ے۔ ہ ے ے۔ ا وئی تھیں اور کچھ دکھائی ن د ر ہں آنکھیں کھلی ے ہ ہ ہے۔

" ئ ائ " ےتھا بیچ میں اندو کی ایک نر گھلی سی آواز آئی ے ہ ۔ ۔ ۔اور پھر بچ ک رون کی آواز ے ے ے "

Page 61: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا مدن ن گھر ک ایک طرف ت کچھ ےتین چار دن میں ب ے ۔ ہ ہ ےگڑھا کھو د کر آنول کو دبا دیا کتوں کو اندر آن س روکا ے ۔ رمل کی ہلیکن اس کچھ یاد ن تھا اس یوں لگا جیس ے ے ۔ ہ ے ، وش آیا ی اس ہےبو دماغ میں بس جان ک بعد آج ہ ے ہ ے ے ی تھا اور اندونند اور جسووھااور ہکمر میں و اکیال ہ ے ےدوسری طرف نند الالندو ن بچ کی طرف دیکھا اور ے

ی پر گیا ہکچھ ٹو لین ک س انداز میں بولی "بالک تم ۔ ے ے ے ہ "ہے۔

" وئ وئی نظر بچ پر ڈالت " مدن ن ایک اچٹتی ےو گا ہ ے ے ہ ے ۔ ہوں شکر بھگوان کا ک تم بچ گئیں تا ا "میں تو ک ۔ک ہ ہے ہ ہ ۔ ہ "

۔اں!" اندو بولی "میں تو سمجھتی تھی" "ہ

" وئ "مدن ن ایک دم اندو کی بات کاٹت ےشبھ شبھ بولو ہ ے ے ۔ ار پاس بھی میں تو اب تم وا اں تو جو کچھ ا "ی ےک ہ ہے ہ ہ ۔ ہ " اور مدن ن زبان دانتوں تل دبا لی یں پھٹکوں گا ۔ن ے ے ۔ ہ "

" " اندو بولی ۔توب کرو ۔ ہ

اور اندو نحیف اتھ س پکڑ لئ ےمدن ن اسی دم کان اپن ے ہ ے ے نسن لگی ۔آواز میں ے ہ

ون ک کئی روز تک اندو کی ناف ٹھکان پر ن آئی و ہبچ ۔ ہ ے ے ے ہ ہ ی تھی جو اب ہگھوم گھوم کر اس بچ کی تالش کر ر ے

ر کی دنیا میں جا کر اپنی اصلی ماں کو ، با ہاس س پر ے ے ےبھول گیا تھا اب سب کچھ ٹھیک تھا اور اندو شانتی س ۔ ی ک وتا تھا اس ن مدن ی تھیمعلوم ےاس دنیا کو تک ر ہ ے ہ ہ

یں اور گاروں ک گنا معاف کر دئ یں دنیا بھر ک گنا ہن ے ہ ے ہ ے ہ مدن ن ی ےدیوی بن کر دیا اور کرونا ک پرساد بانٹ ر ہے ہ ے ےاندو ک من کی طرف دیکھا اور سوچن لگا اس سار ۔ ے ہ ے

و کر اندو اور بھی اچھی ہخون خراب ک بعد کچھ دبلی ے ے اتھ اپنی جبھی ایکا ایکی اندو ن دونوں ہلگن لگی ے ہے ے

ے۔چھاتیوں پر رکھ لئ

" وا؟" مدن ن پوچھا ۔کیا ے ہ

" یں اندو تھوڑا سا اٹھن کی کوشش کر ک بولی ۔کچھ ن ے ے ۔ ہ " اور اس ن بچ کی طرف اشار کیا ۔"اس بھوک لگی ہ ے ے ہے ے

Page 62: اردو ادب کے مشہور افسانے

ل بچ کی طرف اور پھر اندو" ؟بھوک؟"مدن ن پ ےاس ے ہ ے ے یں کیس پت چال؟ ا "تم وئ ک ہکی طرف دیکھت ے ہ ہ ے ہ ے "

" وئ بولی یں" اندو نیچ کی طرف نگا کرت ۔دیکھت ن ے ہ ے ہ ے ہ ے و گیا ہے۔"سب کچھ گیال ہ "

۔مدن ن غور س ڈھیل ڈھال گل کی طرف دیکھا جھر ے ے ے ے ے ی تھی ا تھا اور ایک خاص قسم کی بو آ ر ۔جھر دودھ ب ر ہ ہ ہہ

ا وئ ک اتھ بڑھات ۔پھر اندو ن بچ کی طرف ہ ے ہ ے ہ ے ے

ےاس مجھ د دو" ے ے !"

اتھ پنگھوڑ کی طرف بڑھایا اور اسی دم کھینچ ےمدن ن ہ ے وئ اس ن بچ کو یوں مت س کام لیت ےلیا پھر کچھ ے ے ہ ے ے ہ ۔ ا آخر اس ن بچ کو وا چو ےاٹھایا جیس و کوئی مرا ے ہے۔ ہ ہ ہ ے

ےاندو کی گود میں د دیا اندو مدن کی طرف دیکھت ۔ ے ر ۔وئ بولی "تم جاؤبا ہ ۔ ے "ہ

" ر کیوں جاؤں؟" مدن ن پوچھا ۔کیوں؟"با ے ہ

" وئ ، کچھ شرمات ےجاؤ نا اندو ن کچھ مچلت ہ ے ے ے ۔ ؟ " "ار یں پال سکوں گی ار سامن میں دودھ ن "تم ا ےک ۔ ہ ے ے ہ ۔ ہ " یں پال سک گی ؟ن ۔مدن حیرت س بوال" میر سامن ے ہ ے ے ے

ر ہاور پھر نا سمجھی ک انداز میں سر کو جھٹکا د کر با ے ے نچ کر اس ن مڑت ےکی طرف چل نکال درواز ک پاس پ ے ہ ے ے ۔ ۔وئ اندو پر ایک نگا ڈالی اتنی خوبصورت اندو آج تک ہ ے ہ

یں لگی تھی ۔ن ہ

ل س آدھ ےبابو دھنی رام چھٹی پر گھر لوٹ تو و پ ے ے ہ ہ ے ےدکھائی پڑت تھ جب اندو ن پوتا ان کی گود میں دیا تو ے۔ ے ےو کھل اٹھ ان ک پیٹ ک اندر کوئی پھوڑا نکل آیا تھا ے ے۔ ہ یں سولی پر لٹکائ رکھتا اگر منا ۔جو چوبیس گھٹن ان ے ہ ے وتی ۔روتا تو بابو جی کی اس س دس گنا بری حالت ہ ے

ےکئی عالج کئ گئ بابو جی ک آخری عالج میں ڈاکٹر ن ے ے۔ ے ل ےادھنی ک برابر پندر بیس گولیاں روز کھان کو دیں پ ہ ۔ ے ہ ے

یں اتنا پسین آیا ک دن میں تین تین چار چار بار ہی دن ان ہ ہ ہر بار مدن کپڑ اتار کر بالٹی میں ےکپڑ بدلن پڑ ہ ے۔ ے ے

و گئی ی بالٹی ایک چوتھائی ہنچوڑتا صرف پسین س ہ ے ے ۔

Page 63: اردو ادب کے مشہور افسانے

ون لگی تھی اور یں متلی سی محسوس ےتھی رات ان ہ ہ ۔ ا و ر ت خراب و ذرا داتن تو دینا ذائق ب وں ن پکارا"ب ہان ہ ہ ہ ہ ے ہ وئی گئی اور داتن ل کر آئی بابو جی اٹھ و بھاگی ۔" ب ے ہ ہ ہے۔ی خون ی ر تھ ک ایک ابکائی آئی ساتھ ہکر داتن چبا ۔ ہ ے ہے ہ ان کی طرف لٹایا تو ےکا پرنال ل آئی بیٹ ن واپس سر ہ ے ے ۔ ے ہ ی دم میں و اوپر ہان کی پتلیاں پھر چکی تھیں اور کوئی ہ وں ن اپنا اں ان نچ چک تھ ج ےآسمان ک گلزار میں پ ہ ہ ے ے ہ ے

چان لیا تھا ہپھول پ

وئ تھ اندو ن �ل بیس پچیس روز وئ ک ےمن کو پیدا ے۔ ے ہ ے ہ ے ۔من نوچ کر، سر اور چھاتی پیٹ پیٹ کر خود کو نیال کر لیا ہ ی منظر تھا جو اس ن تصور میں اپن ےمدن ک سامن و ے ہ ے ے

ےمرن پر دیکھا تھا فرق صرف اتنا تھا ک اندو ن چوڑیاں ہ ۔ ے یں ہتوڑن کی بجائ اتار کر رکھ دی تھیں سر پر راکھ ن ۔ ے ے ےڈالی تھی لیکن زمین پر س مٹی لگ جان اور بالوں ک ے ے و گیا تھا "لوگو! میں لٹ ر بھیانک ۔بکھر جان س چ ہ ہ ہ ے ے

" کی جگ اس ن ایک دل دوز آواز میں چالنا شروع ےگئی ہ ۔ م لٹ گئ ےکر دیا تھا "لوگو! ہ ۔ !"

۔گھر بارکا کتنا بوجھ مدن پر آ پڑا تھا اب کا ابھی مدن کو ون تک اس کا دل لپک کر ےپوری طرح انداز ن تھا صبح ہ ۔ ہ ہ ر بدرو ہمن میں آگیا و شاید بچ ن پاتا اگر و گھر ک با ے ہ ۔ ہ ہ ۔ ہ

ےک کنار سیل چڑھی مٹی پر اوندھا لیٹ کر اپن دل کو ے ے ےٹھکان پر ن التادھرتی ماں ن چھاتی س لگا کر اپن بچ ے ے ے ہ ے ےکو بچا لیا تھا چھوٹ بچ کندن، دالری منی، پاشی یوں ے ۔ ےچال ر تھ جیس گھونسل پر شکر ک حمل پر چڑیا ے ے ے ے ے ہے یں یں ان ہک بونٹ چونچیں اٹھا اٹھا کر چیں چیں کرت ۔ ہ ے ے ےاگر کوئی پروں ک اندر سمیٹتی تو اندونالی ک کنار ے ہے ے و ہپڑ پڑ مدن ن سوچا اب تو ی دنیا میر لئ ختم ے ے ہ ے ے ے نس ہگئی کیا میں جی سکوں گا؟ زندگی میں کبھی ہے۔ ۔بھی سکوں گا؟ و اٹھا اور اٹھ کر گھر ک اندر چال آیا ے ہ

ہسیڑھیوں ک نیچ غسل خان تھا جس میں گھس کر اندر ے ے وئ مدن ن ایک بار پھر اس سوال ےس کواڑ بند کرت ے ہ ے ے نس بھی سکوں گا؟" اور و کھل رایا"میں کبھی ہکو د ہ ہ ا تھا حاالنک اس ک باپ کی الش ابھی نس ر ےکھال کر ہ ۔ ہ ہ

ی بیٹھک میں پڑی تھی ۔پاس ہ

Page 64: اردو ادب کے مشہور افسانے

ل مدن ارتھی پر پڑ ےباپ کو آگ میں حوال کرن س پ ے ہ ے ے ے ہوئ جسم ک سامن ڈنڈوت ک انداز میں لیٹ گیا ی ۔ ے ے ے ے ہ

ہاس کا اپن جنم داتا کو آخری پرنام تھا تس پر بھی و رو ۔ ے ون ا تھا اس کی ی حالت دیکھ کر ماتم میں شریک ےن ر ہ ہ ۔ ہ ہ

ندو راج ک ےوال رشت دار محل سن س ر گئ پھر ہ ے۔ ہ ے ہ ہ ے ون کی حیثیت س مدن کو چتا ےمطابق سب س بڑا بیٹا ے ہ ے وئی کھوپڑی میں کپال کرپا کی الٹھی ہجالنی پڑی جلتی ۔ ی س شمشان ک کنویں پر س ر ےمارنی پڑتیعورتیں با ے ے ہ ہ

ا نچا تو و کانپ ر ا کر لوٹ چکی تھیں جب مدن گھر پ ہن ہ ہ ۔ ہ ےتھا دھرتی ماں ن تھوڑی دیر ک لئ جو طاقت اپن بیٹ ے ے ے ے ۔ ول میں ہکو دی تھی، رات گھر ک گھر آن پر پھر س ے ے ے

ئ تھا، کسی ایس جذب کا ارا چا ےڈھل گئیاس کوئی س ے ے ہ ہ ے و اس وقت دھرتی ماں کی ارا جو موت س بھی بڑا ۔س ہ ے ہ و کر ہبیٹی جنک دالری اندو ن کسی گھڑ میں س پیدا ے ے ے وں میں ل لیااس رات کو اگر اندو ےاس رام کو اپنی بان ہ ےاپنا آپ یوں اس پر نثار ن کرتی تو اتنا بڑا دکھ مدن کو ل ہ

۔ڈوبتا

ین ک اندر اندر ان کا دوسرا بچ چال آیا بیوی ی م ۔دس ہ ے ے ہ ہ کو اس دوزخ کی آگ میں دھکیل کر خود اپنا دکھ بھولےگیا تھا کبھی کبھی اس خیال آتا اگر میں شادی ک بعد ے ۔ وتی تو اندو کو ن بال لیتا تو شاید و ہبابو جی ک پاس گئی ہ ہ ے ےاتنی جلدی ن چل دیت لیکن پھر و باپ کی موت س پیدا ہ ے ہ ےون وال خسار کو پورا کرن میں لگ جاتاکاروبار جو ے ے ے ہ~ چل نکال و گیا تھامجبورا ی کی وج س بند ل ب توج ہپ ے ہ ہ ے ے ہ ےان دنوں بڑ بچ کو مدن ک پاس چھوڑ کر، چھوٹ کو ے ے ے ےچھاتی س گل لگائ اندو میک چلی گئی پیچھ منا ۔ ے ے ے ے

طرح طرح کی ضد کرتا تھا جو کبھی مانی جاتی تھی اوراں اپن یں بھی میک س اندو کا خط آیامجھ ی ےکبھی ن ہ ے ے ے ۔ ہ

یں؟ ، اس کوئی مارتا تو ن ی ہبیٹ ک رون کی آواز آ ر ے ہے ہ ے ے ے ل ان پڑھ عورت ایسی وئیایک جا ہمدن کو بڑی حیرت ہ

؟ پھر اس ن اپن آپ س ےباتیں کیس لکھ سکتی ے ے ہے ے ؟ وا فقر ہےپوچھاکیا ی بھی کوئی رٹا ہ ہ ہ

ےسال گزر گئ پیس کبھی اتن ن آئ ک ان میں س کچھ ہ ے ہ ے ے ے۔ و و سک لیکن گزار ک مطابق آمدنی ضرور ہپیش ے ے ے ہ وتی جب کوئی بڑا خرچ ہجاتی تھی دقت اس وقت پر ۔

Page 65: اردو ادب کے مشہور افسانے

، دالری منی کا شگن ہےسامن آ جاتاکندن کا داخل دینا ہ ے ہبھجوانا اس وقت مدن من لٹکا کر بیٹھ جاتا اور پھر ہے۔

تی "کیوں وئی اور ک ہاندو ایک طرف س آتی مسکراتی ہ ے و؟" مدن امید بھری نظروں س اس کی و ر ےدکھی ہ ہے ہ

وں؟ کندن کا بی ا کا تا "دکھی ن وئ ک ےطرف دیکھت ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے تی "چلو میر نستی اور ک ےداخل دینا منی" اندو پھر ۔ ہ ہ ہے ہ ےساتھ " اور مدن بھیڑ ک بچ کی طرح اندو ک پیچھ ے ے ے نچتی جس ےچل دیتا اندو صندل ک صندوق ک پاس پ ہ ے ے ۔

اتھ لگان کی اجازت ن تھی کبھی ۔کسی کو، مدن سمیت ہ ے ہ تا "مرو گی تو اس و کر مدن ک ےکبھی اس بات پر خفا ۔ ہ ہ اں! ل تی " "اور اندو ک ےبھی چھاتی پر ڈال ک ل جانا ہ ۔ ہ ۔ ے ے اں س مطلوب رقم نکال کر " پھر اندو و ہجاؤں گی ے ہ ۔

۔سامن رکھ دیتی ے

؟" اں س آ گئ ےی ک ے ہ ہ "

" یں آم کھان س مطلب یں س بھیتم ہے۔ک ے ے ہ ے ہ "

"پھر بھی؟"

" ۔تم جاؤ اپنا کام چالؤ "

تی "میں ن ایک ےاور جب مدن زیاد اصرار کرتا تو اندو ک ۔ ہ ہ نسن لگتی " اور پھر ۔۔سیٹھ دوست بنایا نا ے ہ ۔ ہے

وئ بھی مدن کو ی مذاق اچھا ن لگتا پھر ۔جھوٹ جانت ہ ہ ے ہ ے ؟" سخی اور یں جانت وںتم ن تی "میں پورا لٹیرا ےاندو ک ہ ہ ۔ ہ اتھ س گریب اتھ س لوٹتا اور دوسر ےلٹیراجو ایک ہ ے ہے ے ہ وئی جس پر "اس طرح منی کی شادی ہگربا کو دبا دیتا ہے ی لوٹ ک زیور بک قرض چڑھا اور پھر اتر بھی ہایسی ے۔ ے ہ ی ا گیا ان شادیوں میں اندو ی کندن بھی بیا ہگیا ایس ۔ ہ ہ ے ۔

و جاتی تھ بھرا" کرتی تھی اور ماں کی جگ کھڑی ۔" ہ ہ ہ ےآسمان س بابو جی اور ماں دیکھا کرت اور پھول برسات ے ے وا، اوپر ماں اور بابو ہجو کسی کو نظر ن آت پھر ایسا ے۔ ہ ا "تم تو ہجی میں جھگڑا چل گیا ماں ن بابو جی س ک ے ے ۔

و اس کا سکھ بھی دیکھا اتھ کی پکی کھا کر آئ و ک ۔ب ہ ے ہ ے ہ یں دیکھا " اور ی ہ پر میں نصیبوں جلی ن کچھ بھی ن ۔ ہ ے ہے۔وں ن ماں ک نچا ان یش اور شیو تک پ ےجھگڑا دشنو، م ے ہ ۔ ہ ہ

Page 66: اردو ادب کے مشہور افسانے

و ہحق میں فیصل د دیااور یوں ماں، مات لوک میں آ کر ب ے ہ وئی پھر اں ایک بیٹی پیدا ہکی کوکھ میں پڑیاور اندو ک ی ہ ے ۔اندو ایسی دیوی بھی ن تھی جب کوئی اصول کی بات ہ

ےوتی تو نند دیور کیا خود مدن س بھی لڑ پڑتیمدن راست ہا ریش چند ر کی بیٹی ک و کر ہبازی کی اس پتلی کو خفا ہ ہ ون ک باوجود ےکرتا تھا چونک اندو کی باتوں میں الجھاؤ ے ہ ہ ۔

، اس لئ مدن اور کنب ت تھ ےسچائی اور دھرم قائم ر ے ے ے ہ ےک باقی سب لوگوں کی آنکھیں اندو ک سامن نیچ ے ے ے

ر ی تی تھیں جھگڑا کتنا بھی بڑھ جائ مدن اپن شو ہر ے ے۔ ۔ ہ ےزعم میں کتنا بھی اندو کی بات کو رد کر د لیکن آخر ی کی شرن میں آت تھ وئ اندو ی سر جھکائ ےسب ے ہ ے ہ ے ہ

ے۔اور اسی س چھما مانگت تھ ے ے

ن کو تو و بھی بیوی تھی لیکن اندو ہنئی بھابھی آئی ک ے ہ ۔ یں اس ک الٹ ت ےایک عورت تھی، جس بیوی ک ۔ ہ ے ہ ے

یں ت ۔چھوٹی بھابھی رانی ایک بیوی تھی جس عورت ک ہ ے ہ ے وا اور ج پی چاچا کی ےرانی ک کارن بھائیوں میں جھگڑا ہ ے

وئیں جس میں ماں باپ کو ہمعرفت جائیداد تقسیم وئی چیزیں بھی ہجائیداد تو ایک طرف اندو کی اپنی بنائی

ہتقسیم کی زد میں آ گئیں اور اندو کلیج مسوس کر ر ہ و کر بھی و جان ک بعد اور الگ اں سب کچھ ہگئی ج ے ے ہ ہ ۔

اں اندو کا ، و یں بس سک تھ ہکندن اور رانی ٹھیک س ن ے ے ہ ے ی میں جگ مگ جگ مگ کرن لگا تھا ۔نیا گھر دنوں ے ہ

ر ی بچی ہبچی کی پیدائش ک بعد اندو کی صحت و ن ر ۔ ہ ہ ہ ے اں سبھی تی ج ہوقت اندو کی چھاتیوں س چمٹی ر ہ ے

اں ایک ہگوشت ک اس لوتھڑ پر تھو تھو کرت تھ و ے ے ے ے ےاندو تھی جو اس کلیج س لگائ پھرتی لیکن کبھی ے ے ے و اٹھتی اور بچی کو سامن جھلنگ میں ےخود پریشان ے ہ

وئ ک اٹھتی "تو مجھ بھی جین د گیماں؟" ےپھینکت ے ے ۔ ہہ ے ہ ے ۔اور بچی چال چال کر رون لگتی ے

ےمدن اندو س کٹن لگا شادی س ل کر اس وقت تک ے ۔ ے ے ہاس و عورت ن ملی تھی جس کا و متالشی تھا گند ۔ ہ ہ ہ ے

ت سا روپی اندو س باال باال ےبروز بکن لگا اور مدن ن ب ہ ہ ے ے ہ ےخرچ کرنا شروع کر دیا بابو جی ک چل جان ک بعد ے ے ے ۔

۔کوئی پوچھن واال بھی تو ن تھا پوری آزادی تھی ۔ ہ ے

Page 67: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےگویا پڑوسی سبط کی بھینس پھر مدن ک من ک پاس ہ ے ے ۔پھنکارن لگی بلک بار بار پھنکارن لگی شادی کی رات ے ہ ۔ ے ۔والی بھینس تو بک چکی تھی لیکن اس کا مالک زند تھا ہ

اں وں پر جان لگا ج ہمدن اس ک ساتھ ایسی جگ ے ہ ے یں ۔روشنی اور سائ عجیب ب قاعد سی شکلیں بنات ہ ے ہ ے ے

ہےنکڑ پر بھی کبھی اندھیر کی تکون بنتی اور اوپر کھٹ ے ر آ کر اس کاٹ دیتی ہے۔س روشنی کی ایک چوکور ل ے ہ ے

وتا بغل س ایک یں بنتی معلوم ےکوئی تصویر پوری ن ہے ہ ۔ ہ ےپاجام نکال اور آسمان کی طرف اڑ گیا یا کسی کوٹ ن ۔ ہ ۔دیکھن واال کا من پوری طرح س ڈھانپ لیا اور کوئی ے ہ ے ۔سانس ک لئ تڑپن لگا جبھی روشنی کی ایک چوکور ے ے ے

ر ایک چوکٹھا بن گئی اور اس میں ایک صورت آ کر کھڑ ہل اتھ بڑھایا تو و آر پار چال گیا ۔و گئی دیکھن وال ن ہ ہ ے ے ے ۔ ہاں کچھ بھی ن تھا پیچھ کوئی کتا رون لگا ۔جیس و ے ے ۔ ہ ہ ے

۔اوپر طبل ن اس کی آواز ڈبو دی ے

ر جگ ہمدن کو اس ک تصور ک خد و خال مل لیکن ہ ے ے ے ا تھا جیس آرٹسٹ س ایک خط غلط و ر ےایسا معلوم ے ہ ہ نسی کی آواز ضرورت س زیاد بلند تھی اور ہلگ گیا یا ے ہ نسی کی تالش میں کھو گیا ۔۔مدنداغ صناعی اور متوازن ہ

ےسبط ن اس وقت اپنی بیوی س بات کی جب اس کی ے ے ر کی حیثیت س سبط ک ےبیگم ن مدن کو مثالی شو ے ے ہ ے

یں کیا بلک من پ مارا اس کو ی ن ۔سامن پیش کیا پیش ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ے وتا تھا ہاٹھا کر سبط ن بیگم ک من پر د مارا معلوم ۔ ے ہ ے ے ے ےکسی خونین تربوز کا گودا جس ک رگ و ریش بیگم ے ہے

یں کروڑ وئ ۔کی ناک اس کی آنکھوں اور کانوں پر لگ ہ ے ہ ے وئی بیگم ن حافظ کی ٹوکری میں ےکروڑ گالی بکتی ے ہ

ےس گودا اور بیج اٹھائ اور اندو ک صاف ستھر صحن ے ے ے ے۔میں بکھیر دئ

و گئیں ایک تو اندو خود تھی ۔ایک اندو کی بجائ دو اندو ہ ے وا خط جو اندو ک پور جسم کا ےاور دوسری ایک کانپتا ے ہ یں ا تھامدن ک یں آ ر وئ تھا اور جو نظر ن ہاحاط کئ ہ ہ ے ہ ے ہ ن، ا دھو، اچھ کپڑ پ و کرن ہبھی جاتا تھا تو گھر س ے ے ہ ہ ے

و، ہمگھئی کی ایک گلوری جس میں خوشبودار قوام لگا ہمن میں رکھ کرلیکن اس دن مدن گھر آیا تو اندو کی

ر پر پوڈر تھوپ رکھا ی دوسری تھی اس ن چ ےشکل ہ ے ۔ ہ

Page 68: اردو ادب کے مشہور افسانے

ون پر ےتھا گالوں پر روج لگا رکھی تھی لپ اسٹک ن ہ ہ ۔ ۔ اور بال کچھ اس ےونٹ ماتھ کی بندی س رنگ لئ تھ ے ے ے ہ

ہطریق س بنائ تھ ک مدن کی نظریں ان میں الجھ کر ے ے ے ے و کر پوچھا ۔ر گئیں "کیا بات آج ؟" مدن ن حیران ہ ے ہے ۔ ہ

ا "آج" وئ ک یں" اندو ن مدن س نظریں بچات ۔کچھ ن ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے۔فرصت ملی "

ےشادی ک پندر بیس برس گزر جان ک بعد اندو کو آج ے ہ ے ر پر ےفرصت ملی تھی اور و بھی اس وقت جب چ ہ ہ

ہجھائیاں آ چلی تھیں ناک پر ایک سیا کاٹھی بن گئی تھی ۔ ےاور بالؤز ک نیچ ننگ پیٹ ک پاس کمر پر چربی کی ے ے ے

یں سی دکھائی دین لگی تھیںآج اندو ن ایسا ےدو ت ے ہ ےبندوبست کیا تھا ک ان عیوب میں س ایک بھی چیز نظر ہ ےن آتی تھییوں بنی ٹھنی کسی کسائی و ب حد حسین لگ ہ ۔ ہ

و سکتا" مدن ن سوچا اور اس ایک یں ی تھی"ی ن ےر ے ہ ہ ہ ہ ےدھچکا سا لگا اس ن پھر ایک بار مڑ کر اندو کی طرف ۔ ےدیکھا جیس گھوڑوں ک بیوپاری کسی نامی گھوڑی کی ے

اں گھوڑی بھی تھی اور الل لگام یںو ہطرف دیکھت ہ ے ، شرابی آنکھوں کو ن دیکھ اں جو غلط خط لگ تھ ہبھیی ے ے ہ

اندو سچ مچ خوبصورت تھی آج بھی پندر سال ک ےسک ہ ۔ ے نیں ان ک ، مسز رابرٹ اور ان کی ب ےبعد پھوالں، رشید ہ ہ

ےسامن پانی بھرتی تھیںپھر مدن کو رحم آن لگا اور ایک ے ےڈرآسمان پر کوئی خاص بادل بھی ن تھ لیکن پانی پڑنا ہ و گیا ادھر گھر کی گنگا طغیانی پر تھی اور اس ۔شروع ہ ےکا پانی کناروں س نکل نکل کر پوری اترائی اور اس ک ے

ےآس پاس بسن وال گاؤں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں ے وتا تھا ک اسی رفتار س اگر پانی ا تھا ایسا معلوم ےل ر ہ ہ ۔ ہ ے

ا تو اس میں کیالش پربت بھی ڈوب جائ گاادھر تا ر ےب ہ ہ ۔بچی رون لگی ایسا رونا جو و آج تک ن روئی تھی مدن ہ ہ ۔ ے ہن اس کی آواز سن کر آنکھیں بند کر لیں کھولیں تو و ۔ ے یں، و اندو یں ن ہسامن کھڑی تھی جوان عورت بن کرن ہ ہ ۔ ے ۔تھی، اپنی ماں کی بیٹی، اپنی بیٹی کی ماں جو اپنی

ونٹوں ک کون س ےآنکھوں ک دنیال س مسکرائی اور ے ے ہ ے ے ے ۔دیکھن لگی ے

رمل کی دھونی ن مدن اں ایک دن ےاسی کمر میں ج ہ ہ ے ۔کو چکرا دیا تھا، آج اس کی خوشبو ن بوکھال دیا تھا ے

Page 69: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر وتی اس لئ با ہلکی بارش تیز بارش س خطرناک ے ہے۔ ہ ے ہوا اندو اور مدن ہکا پانی اوپر کسی کڑی میں س رستا ے ا تھا اس نش و ر ےک بیچ ٹپکن لگالیکن مدن تو شرابی ۔ ہ ہ ے ے و کر ا ہمیں اس کی آنکھیں سمٹن لگیں اور تنفس تیز ے

ا ۔نسان کا تنفس ن ر ہ ہ

ا اور اس کی آواز شادی کی رات والی" ۔اندو" مدن ن ک ہ ے ا وئ ک ۔پکار س دو سر اوپر تھیاور اندو ن پر دیکھت ہ ے ہ ے ے ے ے ے"جی " اور اس کی آواز دو سر نیچ تھیپھر آج چاندنی ل ک مدن اندو کی ہکی بجائ اماؤس تھی اس س پ ے ہ ے ے

ی مدن س لپٹ گئی پھر اتھ بڑھاتا اندو خود ۔طرف ے ہ ۔ ہ اتھ س اندو کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور دیکھن ےمدن ن ے ہ ے

؟ اندو ن ایک نظر مدن ےلگا اس ن کیا کھویا، کیا پایا ۔ ہے ے ۔ ر کی طرف پھینکی اور آنکھیں بند وئ چ وت ےک سیا ہ ے ہ ے ہ ہ ے

۔کر لیں

اری آنکھیں سوجی" ا "تم وئ ک ہی کیا؟" مدن ن چونکت ۔ ہ ے ہ ے ے ہ یں ۔وئی ہ "ہ

" وئ ا اور بچی کی طرف اشار کرت ی" اندو ن ک ےیوں ہ ے ہ ہ ے ہ ے۔بولی "رات بھر جگایا اس چڑیل میا ن ہے ۔ "

و چکی تھی گویا و دم سادھ ےبچی اب تک خاموش ہ ۔ ہ ؟ آسمان س پانی پڑنا ون واال ی تھی اب کیا ےدیکھ ر ہے ے ہ ۔ ہ و گیا تھا و گیا تھا؟ واقعی آسمان س پانی پڑنا بند ۔بند ہ ے ہ ا وئ ک ۔مدن ن پھر غور س اندو کی طرف دیکھت ہ ے ہ ے ے ے

اں مگر ی آنسو؟ ہ" ہ "

" یں" اندو ن جوا ب دیا آج کی رات میری ہے۔خوشی ک ۔ ے ہ ے وئ و مدن س نست نسی ےاور پھر ایک عجیب سی ہ ے ہ ے ہ ہ

ا "آج ۔چمٹ گئی ایک تلذذ ک احساس س مدن ن ک ہ ے ے ے ۔ وئی اندو! میں ہبرسوں ک بعد میر من کی مراد پوری ے ے

ا تھا میش چا ہن ہ ہ ے "

" اندو بولی "یاد شادی والی رات" یں ا ن ہےلیکن تم ن ک ۔ ۔ ہ ہ ے ےمیں ن تم ن س کچھ مانگا تھا؟ ے ے "

" ۔اں!" مدن بوال "اپن دکھ مجھ د دو ے ے ے ۔ "ہ

Page 70: اردو ادب کے مشہور افسانے

" یں مانگا مجھ س ےتم ن کچھ ن ہ ے "

ا "میں کیا مانگتا؟" وئ ک وت ہمیں ن ؟" مدن ن حیران ے ہ ے ہ ے ے ۔میں تو جو کچھ مانگ سکتا تھا و سب تم ن د دیا ے ے ہ ےمیر عزیزوں س پیاران کی تعلیم، بیا شادیاںی پیار ہ ہ ے ے

ی کچھ تو تم ن د دیا ۔پیار بچ ے ے ہ ے ے "

" اندو بولی "لیکن اب جا کر" ی سمجھتی تھی ۔میں بھی ی ہ یں ۔پت چال، ایسا ن ہ ہ "

"کیا مطلب؟"

ا " میں ن بھی ایک" " پھر اندو ن رک کر ک یں ےکچھ ن ۔ ہ ے ۔ ہ ۔چیز رکھ لی "

"کیا چیز رکھ لی؟"

وئ ی اور پھر اپنا من پر کرت ےاندو کچھ دیر چپ ر ہ ے ے ہ ہ اپن ےبولی "اپنی الجاپنی خوشیاس وقت تم بھی ک دیت ے ہہ

۔سکھ مجھ د دوتو میں" اور اندو کا گال رندھ گیا اور ے ے ا یں ر ۔کچھ دیر بعد بولی "اب تو میر پاس کچھ بھی ن ہ ہ ے ۔ "

اتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی و زمین میں ہمدن ک ۔ ہ ے یں تو ی تو ؟ ن وا فقر ہگڑ گیا ی ان پڑھ عورت؟کوئی رٹا ہ ہ ہ ہ ۔

ی زندگی کی بھٹی س نکال ابھی تو اس پر برابر ہے۔ابھی ے ہ ا یں اور آتشیں براد چاروں طرف اڑ ر ہےتھوڑ پڑ ر ہ ہ ہ ہے ے ہ

وش ٹھکان آئ اور بوال "میں ۔کچھ دیر بعد مدن ک ے ے ہ ے وئ مدن اور اندو ایک دوسر ےسمجھ گیا اندو" پھر روت ے ہ ے اتھ پکڑا اور اس ایسی اندو ن مدن کا ےس لپٹ گئ ہ ے ے ے نچ سکتا ی پ اں انسان مر کر ہے۔دنیاؤں میں ل گئی ج ہ ہ ہ ے

بالؤز

(سعادت حسن منٹو)

ت ب قرار تھا اس کا وجود کچا ۔کچھ دنوں س مومن ب ے ہ ے ، وئ ےپھوڑا سا بن گیا تھا کام کرت وقت، باتیں کرت ہ ے ے ۔ وئ بھی اس ایک عجیب قسم کا درد Pی ک سوچت ےحت ے ہ ے ہ

Page 71: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا وتا تھا ایسا درد جس کو اگر و بیان کرنا چا ہمحسوس ہ ۔ ہ ۔تو ن کر سکتا ہ

ےبعض اوقات بیٹھ بیٹھ و ایک دم چونک پڑتا دھندل ۔ ہ ے ے ےدھندل خیاالت جو عام حالتوں میں ب آواز بلبلوں کی ے یں مومن ک دماغ میں و کر مٹ جایا کرت ےطرح پیدا ہ ے ہ ی ک ساتھ پھٹت وت اور شور ے۔بڑ شور ک ساتھ پیدا ے ہ ے ہ ے ے ر وقت ہاس ک دل و دماغ ک نرم و نازک پردوں پر ے ے تی ہجیس خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی ر ے

ےتھیں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس ک اعضا میں پیدا ۔ وتی تھی اس ت تکلیف ۔و گیا تھا جس ک باعث اس ب ہ ہ ے ے ہہتکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس ک جی میں آتا ک ے اون میں ڈال د اور کسی س ےاپن آپ کو ایک بڑ س ے ہ ے ے ے

۔ک ک مجھ کوٹنا شروع کر دیں ے ہ ہے

ہےباورچی خان میں گرم مصالح جات کوٹت وقت جب لو ے ہ ے ا ٹکراتا اور دھمکوں س چھت میں ایک گونج سی ےس لو ہ ے ت بھلی ہدوڑ جاتی تو مومن ک ننگ پیروں کو ی لرزش ب ہ ے ے وئی وتی پیروں ک ذریع ی لرزش اس کی تنی ہمعلوم ہ ے ے ۔ ہ نچ وئی اس ک دل تک پ ہپنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ے ہ وئ دی کی لو کی طرح وا میں رکھ ےجاتی جو تیز ے ہ ے ہ

۔کانپنا شروع کر دیتا

واں بھی لگا ہمومن کی عمر پندر برس تھی شاید سول ۔ ہ یں تھا و ایک ہو اس اپنی عمر ک متعلق صحیح انداز ن ۔ ہ ہ ے ے ۔ ہ

ےصحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی س ا تھا اسی دوڑ ن ےجوانی ک میدان کی طرف بھاگ ر ۔ ہ ے

ر قطر و ک ےجس س مومن بالکل غافل تھا اس ک ل ہ ے ہ ے ے ےمیں سنسنی پیدا کر دی و اس کا مطلب سمجھن کی ہ ۔

تا ۔کوشش کرتا مگر ناکام ر ہ

ی تھیں گردن جو و ر ۔اس ک جسم میں کئی تبدیلیاں ہ ہ ے وں ک پٹھوں و گئی تھی بان ل پتلی تھی اب موٹی ےپ ہ ۔ ہ ے ہ ا تھا سین و گئی تھی کنٹھ نکل ر ےمیں اینٹھن سی پیدا ۔ ہ ۔ ہ و گئی تھی اور اب کچھ دنوں س ےپر گوشت کی موٹی ت ہ ہہ

ہپستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگ ابھر آئی تھی ہے۔جیس کسی ن ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ان ابھاروں ے ے و تا تھا ت درد محسوس اتھ لگان س مومن کو ب ۔کو ہ ہ ے ے ہ

Page 72: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےکبھی کبھی کام کرن ک دوران میں غیر ارادی طور پر ے اتھ ان گولیوں س چھو جاتا تو و تڑپ اٹھتا ۔جب کا ہ ے ہ ےقمیض ک موٹ اور کھردر کپڑ س بھی اس کی ے ے ے ے

وتی تھی ٹ محسوس ۔تکلیف د سرسرا ہ ہ ہ

ات وقت یا باورچی خان میں جب کوئی ہغسل خان میں ن ے ہ ے وتا مومن اپن قمیض ک بٹن کھول کر ان ےاور موجود ن ے ۔ ہ ہ وتا، اتھوں س مسلتا درد ہگولیوں کو غور س دیکھتا ۔ ے ہ ۔ ے وئ پیڑ کی ےٹیسیں اٹھتیں جیس جسم پھلوں س لد ہ ے ے ے و کانپ کانپ جاتا مگر اس ک ال دیا گیا ےطرح زور س ۔ ہ ہ ے

تا ۔باوجود و اس درد پیدا کرن وال کھیل میں مشغول ر ہ ے ے ہ ےکبھی کبھی زیاد دبان پر ی گولیاں پچک جاتیں اور ان ک ہ ے ہ

۔من س ایک لیس دار لعاب نکل آتا اس کو دیکھ کر اس ے ہ و جاتا و ی سمجھتا ک ر کان کی لوؤں تک سرخ ہکا چ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

و گیا گنا اور ثواب ک ےاس س کوئی گنا سر زد ہ ہے۔ ہ ہ ے ر و فعل جو ایک ت محدود تھا ہمتعلق مومن کا علم ب ہ ۔ ہ و، اس ک ےانسان دوسر انسان ک سامن ن کر سکتا ہ ہ ے ے ے

ےخیال ک مطابق گنا تھا چنانچ جب شرم ک مار اس ے ہ ۔ ہ ے و جاتا تو و جھٹ س ر کان کی لوؤں تک سرخ ےکا چ ہ ہ ہ ہ

د کرتا ک ہاپنی قمیض ک بٹن بند کر لیتا اور دل میں ع ہ ے یں کر گا لیکن اس ےآئند ایسی فضول حرکت کبھی ن ہ ہ د ک باوجود دوسر یا تیسر روز تخلی میں و پھر ہع ے ے ے ے ہ ی و جاتا مومن کا بھی بالکل ی ہاسی کھیل میں مشغول ۔ ہ ےحال تھا و کچھ دنوں س موڑ مڑتا زندگی ک ایک ایس ے ے ہ ۔

�ر یں تھا مگر ب حد پ ےراست پر آ نکال تھا جو زیاد لمبا تو ن ہ ہ ے ےخطر تھا اس راست پر اس ک قدم کبھی تیز تیز اٹھت ے ے ۔ یں تھا ک ایس ول و در اصل جانتا ن ول ، کبھی ےتھ ہ ہ ہ ے۔ ہ ے ہ ے

یں جلدی ط کرنا ئ ان ےراستوں پر کس طرح چلنا چا ہ ے۔ ہ ست ادھر ادھر کی ست آ ئ یا کچھ وقت ل کر آ ہچا ہ ہ ہ ے ے ہ ئ مومن ک ننگ ارا ل کر ط کرنا چا ےچیزوں کا س ے ے۔ ہ ے ے ہ

ےپاؤں ک نیچ آن وال شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں ے ے ے یں رکھ سکتا تھا ی تھیں و اپنا توازن برقرار ن ۔پھسل ر ہ ہ ۔ ہ ےاس لئ ب حد مضطرب تھا اسی اضطراب ک باعث ۔ ے ے ہکئی بار کام کرت کرت چونک کر و غیر ارادی طور پر ے ے اتھوں س پکڑ لیتا اور اس ک ےکسی کھونٹی کو دونوں ے ہ

وتی ک ش پیدا ہساتھ لٹک جاتا پھر اس ک دل میں خوا ہ ہ ے ۔ ین ہٹانگوں س پکڑ کر اس کوئی اتنا کھینچ ک و ایک م ہ ہ ے ے ے

Page 73: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےتار بن جائ ی سب باتیں اس ک دماغ ک کسی ایس ے ے ہ ے۔ وتی تھیں ک و ٹھیک طور پر ان کا ہگوش میں پیدا ہ ہ ے

یں سمجھ سکتا تھا ۔مطلب ن ہ

۔مومن س سب گھر وال خوش تھ بڑا محنتی لڑکا تھا ے۔ ے ے ر کام وقت پر کر دیتا تو کسی کو شکایت کا موقع ہجب

وئ اں اس کام کرت ےکیس ملتا ڈپٹی صاحب ک ی ہ ے ے ہ ے ۔ ے وئ تھ لیکن اس قلیل عرص میں اس ین ےصرف تین م ے ے ہ ے ہ ر فرد کو اپنی محنت کش طبعیت س متاثر ےن گھر ک ہ ے ے

وا تھا مگر دوسر ین پر نوکر ےکر لیا تھا چھ روپ م ہ ے ہ ے ۔ ی اس کی تنخوا میں دو روپ بڑھا دئ گئ تھ ین ے۔م ے ے ے ہ ہ ے ہ

اں ت خوش تھا اس لئ ک اس کی ی ہو اس گھر میں ب ہ ے ہ ہ ۔قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں س و ب قرار تھا ے ہ ے و ہایک عجیب قسم کی آوارگی اس ک دماغ میں پیدا ے تا تھا ک و سارا دن ب مطلب ےگئی تھی اس کا جی چا ہ ہ ہ ۔

ےبازاروں میں گھومتا پھر یا کسی سنسان مقام پر جا کر ہے۔لیٹا ر

یں لگتا تھا لیکن اس ب دلی ک ےاب کام میں اس کا جی ن ے ہ ی وج ک یں برتتا تھا چنانچ ی لی ن وئ بھی و کا ہوت ہے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ ے ہ ے ہےگھر میں کوئی بھی اس ک اندرونی انتشار س واقف ے ، نئی نئی یں تھا رضی تھی سو و دن بھر باج بجان ےن ہ ہ ہ ۔ ہ ےفلمی طرزیں سیکھن اور رسال پڑھن میں مصروف ے ے ی ن کی تھی تی تھی اس ن کبھی مومن کی نگرانی ۔ر ہ ہ ے ۔ ہ ےشکیل البت مومن س ادھر ادھر ک کام لیتی تھی اور ے ہ ہ ےکبھی کبھی اس ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں س ے

ےو بھی چند بالؤزوں ک نمون اتارن میں ب طرح ے ے ے ہ یلی ک تھ جس ےمشغول تھی ی بالؤز اس کی ایک س ے ے ہ ہ ۔

نن کا ب حد شوق تھا شکیل ہنئی نئی تراشوں ک کپڑ پ ۔ ے ے ہ ے ے ےاس س آٹھ بالؤز مانگ کر الئی تھی اور کاغذوں پر ان ی تھی چنانچ اس ن بھی کچھ دنوں س ےک نمون اتار ر ے ہ ہ ے ے

یں دیا تھا ۔مومن کی طرف دھیان ن ہ

یں تھی گھر ۔ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت ن ہ ہمیں دو نوکر تھ یعنی مومن ک عالو ایک بڑھیا بھی تھی ے ے ۔جو زیاد تر باورچی خان کا کام کرتی تھی مومن کبھی ے ہ اتھ بٹا دیا کرتا تھا ڈپٹی صاحب کی بیوی ن ےکبھی اس کا ۔ ہ و ہممکن مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہے

Page 74: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کیا تھا اور و ہمگر اس ن مومن س اس کا ذکر ن ہ ے ے ا ہانقالب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر ر ۔تھا، اس س تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی ے یں تھا اس لئ و مومن کی ہچونک اس کا کوئی لڑکا ن ے ہ ہ

یں سمجھ سکی اور پھر نی اور جسمانی تبدیلیوں کو ن ہذ ہ ہے۔مومن نوکر تھانوکروں ک متعلق کون غور و فکر کرتا ے

ےبچپن س ل کر بڑھاپ تک و تمام منزلیں پیدل ط کر ہ ے ے ے وتی یں یں اور آس پاس ک آدمیوں کو خبر تک ن ۔جات ہ ہ ے ہ ے

و؟ بس کچھ وکیا تا تھا ک کچھ ہغیر شعوری طور پر و چا ہ ہ ہ ہ وئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا ہو میز پر قرین س چنی ے ے ۔ ہ

ی ابال س وا ڈھکا پانی ایک ےشروع کریں کیتلی پر رکھا ہ ہ ۔ ہاوپر کو اڑ جائ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈال تو و ے ے۔

و جائ اور اس میں س پانی کا ایک فوار سا ری ہدو ے ے ہ ہ ہپھوٹ نکل اس ایک ایسی زبردست انگڑائی آئ ک اس ے ے ے۔ و جائیں اور اس میں ہک سار جوڑ جوڑ علیحد علیحد ہ ہ ے ے

و جائ ے۔ایک ڈھیال پن پیدا ہ

ل کبھی ن و جو اس ن پ ہکوئی ایسی بات وقوع پذیر ے ہ ے ہ و ۔دیکھی ہ

ت ب قرار تھا رضی نئی طرز سیکھن میں ےمومن ب ہ ۔ ے ہ ےمشغول تھی اور شکیل کاغذوں پر بالؤزوں ک نئ نمون ے ے ہ

ی تھی جب اس ن ی کام ختم کر لیا تو و نمون جو ہاتار ر ہ ہ ے ۔ ہ ےان سب میں اچھا تھا، سامن رکھ کر اپن لئ اودی ساٹن ے ے ہکا بالؤز بنانا شروع کر دیا اب رضی کو بھی اپنا باج اور ہ ۔ ونا پڑا ۔فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوج ہ ہ

تمام اور چاؤ س کرتی تھی جب ر کام بڑ ا ۔شکیل ے ہ ے ہ ہ ےسین پرون بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ے ن رضی کی طرح و افرا تفری ہوتی تھی اپنی چھوٹی ب ہ ہ ۔ ہیں کرتی تھی ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑ ےپسند ن ۔ ہ

ہے۔اطمینان س لگاتی تھی تاک غلطی کا امکان ن ر ہ ہ ے ل ت صحیح تھی اس لئ ک پ ےپیمائش بھی اس کی ب ہ ہ ے ۔ ہ

ہکاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیاد صرف وتی تھی ۔وتا مگر چیز بالکل فٹ تیار ہ ہے ہ

اتھ ہشکیل بھر بھر جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ے ے ہ ت گدگد تھ گوشت بھری مخروطی انگلیوں ک آخر ےب ے۔ ے ہ

Page 75: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چالتی تھی تو ہمیں و اتھ کی حرکت س کبھی کبھی غائب ہی ننھ گڑھ ے ہ ے ے ہ

ے۔جات تھ ے

ست ہشکیل مشین بھی بڑ اطمینان س چالتی تھی آ ہ ۔ ے ے ہ ست اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی ک ساتھ ےآ ہ ہ

لکا سا خم تھی گھماتی تھیں کالئی میں ایک ہمشین کی ۔ ہ و جاتا تھا گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی ۔پیدا ہ ےاور بالوں کی ایک لٹ جس شاید اپن لئ کوئی مستقل ے ے یں ملتی تھی نیچ پھسل آتی تھی شکیل اپن کام ےجگ ن ہ ۔ ے ہ ہ

ٹان یا جمان کی تی ک اس مک ر ےمیں اس قدر من ے ہ ے ہ ہ ہ یں کرتی تھی ی ن ۔کوشش ہ ہ

ےجب شکیل اودی ساٹن سامن پھیال کر اپن ماپ کا بالؤز ے ہ وئی ۔تراشن لگی تو اس ٹیپ کی ضرورت محسوس ہ ے ے

و ہکیونک ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑ ٹکڑ ے ے ہ ےگیا تھا لو کا گز موجود تھا مگر اس س کمر اور سین ے ہے ۔ و سکتی اس ک اپن کئی بالؤز ےکی پیمائش کیس ے ہے۔ ہ ے

و گئی ل س کچھ موٹی ہموجود تھ مگر اب چونک و پ ے ے ہ ہ ہ ے تی تھی قمیض ۔تھی اس لئ ساری پیمائش دوبار کرنا چا ہ ہ ے

ےاتار کر اس ن مومن کو آواز دی جب و آیا تو اس س ہ ۔ ے ا "جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر س کپڑ کا گز ل آؤ ۔ک ے ے ے ہ

نا شکیل بی بی مانگتی ہے۔ک ہ ہ "

یں شکیل کی سفید بنیان س ٹکرائیں و ہمومن کی نگا ۔ ے ہ ہ ہکئی بار شکیل بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا وئی ۔مگر آج اس ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہ ے

وں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور ہاس ن اپنی نگا ے ا "کیسا گز بی بی جی ٹ میں ک ۔گھبرا ۔ ہ ہ "

ار سامن ےشکیل ن جواب دیا"کپڑ کا گزایک گز تو ی تم ے ہ ہ ے ے ہ وتا کپڑ کا ۔پڑا ی لو کا ایک دوسرا گز بھی ے ہے ہ ہے۔ ہے ہ ہے۔

نا ہجاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ ک ان س ی گز ل آؤ ک ۔ ے ہ ے ے ہے۔شکیل بی بی مانگتی ہ "

ی کپڑ کا ~ ےچھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا مومن فورا ہ ۔ ا اتھ س ل لیا اور ک ہگز ل کر آگیا شکیل ن اس ک ے ے ہ ے ے ہ ۔ ے

Page 76: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن " پھر و اپنی ب ر جا اس ابھی واپس ل جانا اں ٹھ ہ"ی ہ ۔ ے ے ۔ ہ ہ وئی ان لوگوں کی کوئی چیز اپن ےرضی س مخاطب ۔ ہ ے ہ

ےپاس رکھ لی جائ تو و بڑھیا تقاض کر ک پریشان کر ے ہ ے اں س میرا ماپ لو ادھر آؤ ی گز لو اور ی ۔دیتی ے ہ ہ ہے

ےرضی ن شکیل کی کمر اور سین کا ماپ لینا شروع کیا ہ ے ہ لیز وئیں مومن درواز کی د ہتو ان ک درمیان کئی باتیں ے ۔ ہ ے

ا ۔پر کھڑا تکلیف د خاموشی س ی باتیں سنتا ر ہ ہ ے ہ

" یں لیتیںپچھلی دفع ہرضی تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں ن ہ ہ وا جب تم ن ماپ لیا اور میر بالؤز کا ستیا ی ےبھی ی ے ۔ ہ ہ و گیااوپر ک حص پر اگر کپڑا فٹ ن آئ تو ادھر ےناس ہ ہ ے ہ

یں ۔ادھر بغلوں میں جھول پڑ جات ہ ے "

اں کا ن لوں تم تو عجب مخمص میں" اں کا لوں، ک ےک ۔ ہ ہ ہ ا اں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم ن ک و ی ہڈال دیتی ے ہ ۔ ہ و گیا تو کون سی آفت آ ہذرا اور نیچ کا لوذرا چھوٹا بڑا ے

۔جائ گی ے "

ی میں ساری خوبصورتی" ون چیز ک فٹ ہبھئی وا ے ہ ے ہ نتی مجال ہےوتی ثریا کو دیکھو کیس فٹ کپڑ پ ہے۔ ہ ے ے ہے۔ ہیں وت ، کتن خوبصورت معلوم یں شکن پڑ ہجو ک ے ہ ے ے ہ

لو اب تم ماپ لو ۔ایس کپڑ ے ے "

ہی ک کر شکیل ن سانس ک ذریع اپنا سین پھالنا شروع ے ے ے ہ ہہ ہ ےکیا جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس ن ۔

ا "لو اب جلدی کرو ۔گھٹی گھٹی آواز میں ک ہ "

وا خارج کی تو مومن کو ایسا ہجب شکیل ن سین کی ے ے ہ وا ک اس ک اندر ربڑ ک کئی غبار پھٹ گئ ےمحسوس ے ے ے ہ ہ ا "گز الئی بی بی جید آؤں ۔یں اس ن گھبرا کر ک ے ے ہ ے ۔ "ہ

ر جا ۔شکیل ن اس جھڑ ک دیا "ذرا ٹھ ہ ۔ ے ے ہ "

وئ کپڑ کا گز اس ک ننگ بازو س لپٹ گیا ت ۔ی ک ے ے ے ے ے ہ ے ہ ہ ےجب شکیل ن اس اتارن کی کوشش کی تو مومن کو ے ے ہ

ےاس کی سفید بغل میں کال کال بالوں کا ایک گچھا نظر ے ی بال اگ ر ہےآیا مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایس ہ ے ۔

وا ایک سنسنی ت بھال معلوم ۔تھ مگر ی گچھا اس ب ہ ہ ے ہ ے ۔سی اس ک سار بدن میں دوڑ گئی ایک عجیب و ے ے

Page 77: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی ک ی کال کال ش اس ک دل میں پیدا ےغریب خوا ے ہ ہ ہ ے ہ �ھٹوں ک ےبال اس کی مونچھیں بن جائیں بچپن میں و ب ہ ۔

ری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا ۔کال اور سن ہ ے ٹ ونٹ پر جمات وقت جو سرسرا ہان کو اپن باالئی ے ہ ے

ٹ اس وتی تھی اسی قسم کی سرسرا ہاس محسوس ۔ ہ ے ونٹ اور ناک میں پیدا کر دی ش ن اس ک باالئی ۔خوا ہ ے ے ہ

ےشکیل کا بازو اب نیچ جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی ہ ا تھا ۔تھی مگر مومن بھی کال بالوں کا و گچھا دیکھ ر ہ ہ ے

ا ی اٹھا ر ہاس ک تصور میں شکیل کا بازو دیر تک ویس ہ ے ہ ے ہے۔اور بغل میں اس ک سیا بال جھانکت ر ے ہ ے

ا "جاؤ، ہتھوڑی دیر بعد شکیل ن مومن کو گز د دیا اور ک ے ے ہ ت شکری ادا کیا ت ب نا ب ہے۔واپس د آؤ ک ہ ہ ہ ہ ۔ ے "

ر صحن میں بیٹھ گیا اس ک ےمومن گز واپس د کر با ۔ ہ ے و ر تھ دیر ے۔دل و دماغ میں دھندل دھندل خیال پیدا ہے ہ ے ے ا جب کچھ ہتک ان کا مطلب سمجھن کی کوشش کرتا ر ے ےسمجھ میں ن آیا تو اس ن غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا ہ

ےسا ٹرنک کھوال، جس میں اس ن عید ک لئ نئ کپڑ ے ے ے ے ےبنوا رکھ تھ جب ٹرنک کا ڈھکنا کھوال اور نئ لٹھ کی ے ے۔ ے ش پیدا نچی تو اس ک دل میں خوا ہبو اس کی ناک تک پ ے ہ ن کر و سیدھا شکیل بی ا دھو کر ی نئ کپڑ پ ہوئی ک ن ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہےبی ک پاس جائ اور اس سالم کر اس کی لٹھ کی ے۔ ے ے ے ےشلوار کس طرح کھڑ کھڑ کر گی اور اس کی رومی

وں ک سامن اس کا ی مومن کی نگا ےٹوپی کا خیال آت ے ہ ہ ے ی ان کال کال بالوں ک ~ ےپھندنا آگیا اور پھندنا فورا ے ے ہ

و گیا جو اس ن شکیل کی بغل میں ہگچھ میں تبدیل ے ہ ے ےدیکھا تھا اس ن کپڑوں ک نیچ س اپنی نئی رومی ے ے ے ۔ اتھ ہٹوپی نکالی اور اس ک نرم اور لچکیل پھندن پر ے ے ے

ی کیا تھا ک اندر س شکیل بی بی کی آواز ہپھیرنا شروع ے ہ ہ ۔آئی "مومن "

ےمومن ن ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چال اں شکیل نمون ک مطابق اودی ساٹن ک کئی ےگیا ج ے ے ہ ہ ےٹکڑ کاٹ چکی تھی ان چمکیل اور پھسل پھسل جان ے ۔ ے

ہوال ٹکڑوں کو ایک جگ رکھ کر و مومن کی طرف متوج ہ ہ ے یں اتنی آوازیں دیں سو گئ تھ کیا؟ ےوئی "میں ن تم ے ۔ ہ ے ۔ "ہ

Page 78: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں بی بی جی و گئی "ن ۔مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہ ۔ ہ "

؟" ےتو پھر کیا کر ر تھ ہے "

" یں ۔کچھکچھ بھی ن ہ "

ی" " شکیل ی سوال کئ جا ر و گ ہکچھ تو ضرور کرت ے ہ ہ ے۔ ہ ے تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بالؤز کی طرف تھا

۔جس اب اس کچا کرنا تھا ے ے

نسی ک ساتھ جواب دیا ٹرنک کھول ۔مومن ن کھسیانی ے ہ ے ا تھا ۔کر اپن نئ کپڑ دیکھ ر ہ ے ے ے

نسی رضی ن بھی اس کا ساتھ دیا ۔شکیل کھل کھال کر ے ہ ۔ ہ ہ

نست دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین ےشکیل کو ہ ہ وئی اور اس تسکین ن اس ک دل میں ی ہمحسوس ے ے ہ

ش پیدا کی ک و کوئی ایسی مضحک خیز طور پر ہخوا ہ ہ ہ نسن کا ےاحمقان حرکت کر جس س شکیل کو اور زیاد ہ ہ ہ ے ے ہ

ج ےموقع مل چنانچ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور ل ہ ہ ے ا "بڑی بی بی جی ٹ پیدا کر ک اس ن ک ۔میں شرما ہ ے ے ہ

۔س پیس ل کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا ے ے ے "

وئ اس س پوچھا "کیا کرو گ اس نست ےشکیل ن ۔ ے ے ہ ے ہ ے ہ "رومال کو ؟

ےمومن ن جھینپ کر جوا ب دیا "گل میں باندھ لو ں گا ۔ ے و گا ۔بی بی جیبڑا اچھا معلوم ہ "

یں نستی ر ۔ی سن کر شکیل اور رضی دونوں دیر تک ہ ہ ہ ہ ہ

" ےگل میں باندھو گ تو یاد رکھنا اسی س پھانسی د ے ے ے نسی دبان کی کوشش ےدوں گی" ی ک کر شکیل ن اپنی ہ ے ہ ہہ ہ ی بھال ا "کم بخت ن مجھ س کام ہکی اور رضی س ک ے ے ۔ ہ ے ہ

ےدیا رضی میں ن اس کیوں بالیا تھا؟ ے ہ ۔ "

ہرضی ن جواب ن دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کر ے ہ ی تھی اس دوران میں ۔دی جو و دو روز س سیکھ ر ہ ے ہ ی یاد آگیا ک اس ن مومن کو کیوں بالیا ےشکیل کو خود ہ ہ ہ

۔تھا

Page 79: اردو ادب کے مشہور افسانے

" وں یں ی بنیان اتار کر دیتی ۔دیکھو مومن میں تم ہ ہ ہ اں اں ج ہدوائیوں ک پاس جو ایک دکان نئی کھلی نا، و ہ ہے ے اں جاؤ اور پوچھ ک آؤ ےتم اس دن میر ساتھ گئ تھ و ہ ے۔ ے ے

م چھ لیں گ نا ے۔ک ایسی چھ بنیانوں ک و کیا ل گاک ہ ہ ے ہ ے ہ سمجھ لیا نا؟ ےاس لئ کچھ رعایت ضرور کر ے "

" اں ۔مومن ن جواب دیا "جی ہ ۔ ے "

" ٹ جاؤ ۔اب تم پر ہ ے "

و گیا چند ر نکل کر درواز کی اوٹ میں ۔مومن با ہ ے ہ ےلمحات ک بعد بنیان اس ک قدموں ک پاس آ گرا اور ے ے ی م اس قسم کی نا ہاندر س شکیل کی آواز آئی "ک ہ ہ ۔ ہ ے

ئ ونا چا یں ی چیز لیں گ فرق ن ے۔ڈیزائن کی بالکل ی ہ ہ ہ ے۔ ہ "

ت اچھا ک کر بنیان اٹھا لیا جو پسین ک باعث ےمومن ن ب ے ہہ ہ ے ا تھا جیس کسی ن بھاپ پر رکھ کر و ر ےکچھ کچھ گیال ے ہ ہ وئی و بدن کی بو بھی اس میں بسی ی اٹھا لیا ~ ہفورا ۔ ہ ہ

ہتھی میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی ی تمام چیزیں اس کو ۔ ۔ وئیں ت بھلی معلوم ۔ب ہ ہ

ےو اس بنیان کو جو بلی ک بچ کی طرح مالئم تھا، اپن ے ے ہ ر چال گیا جب بھاؤ دریافت کر ک وا با ےاتھوں میں مسلتا ۔ ہ ہ ہہبازار س واپس آیا تو شکیل بالؤز کی سالئی شروع کر ے

ےچکی تھی اس اودی، اودی ساٹن ک بالؤز کی جو مومن ۔ یں زیاد چمکیلی اور ہکی رومی ٹوپی ک پھندن س ک ہ ے ے ے

ا تھا ہلچک دار تھی ی بالؤز شاید عید ک لئ تیار کیا جا ر ے ے ہ ۔ ۔کیونک عید اب بالکل قریب آ گئی تھی مومن کو ایک دن ہ

، استری نکالن ک ےمیں کئی بار بال گیا دھاگ الن ک لئ ے ے ے ے ہ ۔ ، شام ک ، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی الن ک لئ ےلئ ے ے ے ے

ےقریب جب شکیل ن دوسر روز پر باقی کام اٹھا دیا تو ے ہ ےدھاگ ک ٹکڑ اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھان ے ے ے

۔ک لئ بھی اس بالیا گیا ے ے ے

۔مومن ن اچھی طرح جگ صاف کر دی باقی سب چیزیں ہ ے ر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی ہاٹھا کر با یں ہجیب میں رکھ لیںبالکل ب مطلب کیونک اس معلوم ن ے ہ ے

ےتھا ک و ان کا کیا کر گا؟ ہ ہ

Page 80: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےدوسر روز اس ن جیب س کترنیں نکالیں اور الگ بیٹھ ے ے ہکر ان ک دھاگ الگ کرن شروع کر دئ دیر تک و اس ے۔ ے ے ے

ا حتیP ک دھاگ ک چھوٹ چھوٹ ےکھیل میں مشغول ر ے ے ے ہ ہ اتھ میں ل کر و ہٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ے ہ ۔

ی ا لیکن اس ک تصور میں شکیل کی و ا، مسلتا ر ہدباتا ر ہ ے ہ ہ ےبغل تھی جس میں اس ن کال کال بالوں کا ایک چھوٹا ے ے

۔سا گچھا دیکھا تھا

ےاس دن بھی اس شکیل ن کئی بار بالیااودی ساٹن ک ے ہ ے ی وں ک سامن آتی ر ر شکل اس کی نگا ۔بالؤز کی ہ ے ے ہ ہ

ل جب اس کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگ ک ےپ ے ے ے ہ وئ تھ پھر اس پر استری ے۔بڑ بڑ ٹانک جا بجا پھیل ے ہ ے ے ے ے و گئیں اور چمک ہپھیری گئی جس س سب شکنیں دور ے ی میں شکیل و گئی اس ک بعد کچی حالت ہبھی دوباال ہ ے ۔ ہ نا رضی کو دکھایا دوسر کمر میں سنگھار ےن اس پ ے ۔ ہ ۔ ہ ے ے لو س اچھی ر پ ےمیز ک پاس آئین میں خود اس کو ہ ہ ے ے

اں اں ج و گیا تو اس اتارا ج ہدیکھا جب پورا اطمینان ہ ۔ ے ہ ۔ اں نشان لگائ اس کی ساری خامیاں ے۔تنگ یا کھال تھا و ہ و گیا ن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہدور کیں ایک بار پھر پ ہ ۔

۔تو پکی سالئی شروع کی

lدھر مومن ک دماغ ا تھا، ا �دھر ساٹن کا ی بالؤز سیا جا ر ےا ہ ہ جب ےمیں عجیب و غریب خیالوں ک ٹانک ادھڑ ر تھ ہے ے ے یں چمکیلی ہاس کمر میں بالیا جاتا اور اس کی نگا ے ے اتھ س تا ک و ےساٹن ک بالؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چا ہ ہ ہ ہ ے

یں بلک اس کی ی ن ہچھو کر اس دیکھ صرف چھو کر ہ ہ ے ے اتھ پھیرتا ر اپن ےمالئم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہے۔ ہ

اتھ ۔کھردر ہ ے

ہاس ن ان ساٹن ک ٹکڑوں س اس کی مالئمت کا انداز ے ے ے ےکر لیا تھا دھاگ جو اس ن ان ٹکڑوں س نکال تھ اور ے ے ے ے ۔ و گئ تھ جب اس ن ان کا گچھا بنایا ےبھی زیاد مالئم ے۔ ے ہ ہ وا ک ان میں ربڑی کی سی ہتو دبات وقت اس معلوم ہ ے ے و جب بھی اندر آ کر بالؤز کو دیکھتا تو کا ہلچک بھی ہے

~ ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس ن شکیل ہخیال فورا ے ۔کی بغل میں دیکھ تھ کال کال بال مومن سوچتا تھا ے ے ے۔ ے

؟ وں گ ی کی طرح مالئم ےک و بھی ساٹن ہ ہ ہ ہ

Page 81: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیامومن کمر ک فرش پر گیال کپڑا ےبالؤز باالخر تیار ے ہ ا تھا ک شکیل اندر آئی قمیض اتار کر اس ن پلنگ ےپھیر ر ۔ ہ ہ ہ ےپر رکھی اس ک نیچ اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس ے ۔

ےکا نمون ل کر مومن بھاؤ دریافت کرن گیا تھااس ک ے ے ہ ک نا سامن ک وا بالؤز پ اتھ کا سال ہاوپر شکیل ن اپن ے ے ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ

و گئی ۔لگائ اور آئین ک سامن کھڑی ہ ے ے ے ے

وئ آئین کی طرف دیکھا ۔مومن ن فرش صاف کرت ہ ے ہ ے ے ہبالؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی ایک دو جگ پر و اس ہ ۔ و گیا وتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہقدر چمکتا تھا ک معلوم ہ ہ ہشکیل کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہےون ک باعث اپنی پوری ےڈی کی لمبی جھری بالؤز فٹ ے ہ ہا ن گیا چنانچ رائی ک ساتھ نمایاں تھی مومن س ر ہگ ۔ ہ ہ ے ۔ ے ہ

ا"بی بی جی، آپ ن درزیوں کو بھی مات کر دیا ےاس ن ک ہ ے "ہے۔

و ئی مگر و رضی کی ہشکیل اپنی تعریف سن کر خوش ہ ہ ہ ہرائ طلب کرن ک لئ ب قرار تھی اس لئ و صرف ے ۔ ے ے ے ے ے

ر دوڑ گئیمومن آئین کی طرف دیکھتا ے"اچھا نا" ک کر با ہ ہہ ہے ہر گیا جس میں بالؤز کا سیا اور چمکیال عکس دیر تک ہ

ا ۔موجود ر ہ

ےرات کو جب و پھر اس کمر میں صراحی رکھن ک لئ ے ے ے ہ ینگر میں اس بالؤز کو ہآیا تو اس ن کھونٹی پر لکڑی ک ے ے یں تھا چنانچ آگ بڑھ ےدیکھا کمر میں کوئی موجود ن ہ ۔ ہ ے ۔

اتھ ل اس ن غور س دیکھا پھر ڈرت ڈرت اس پر ہکر پ ے ے ے ے ے ہ وئ یوں لگا ک کوئی اس ک جسم ک ےپھیرا ایسا کرت ے ہ ے ہ ے ۔

اتھ وائی لمس کی طرح ول بالکل ول ہمالئم روؤں پر ہ ے ہ ے ہ ا ہے۔پھیر ر ہ

ےرات کو جب و سویا تو اس ن کئی اوٹ پٹانگ خواب ہ ڈپٹی صاحب ن پتھر ک کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر ےدیکھ ے ے

ا جب اس ن ایک کوئل اٹھایا اور اس پر ہاس کوٹن کو ک ے ہ ے ے ہتھوڑ کی ضرب لگائی تو و نرم نرم بالوں کا ایک گچھا ے ہین تار تھ جن کا گوال بنا ین م ےبن گیای کالی کھانڈ ک م ہ ہ ے ہ وا میں اڑن ےوا تھاپھر ی گول کال رنگ ک غبار بن کر ہ ے ے ے ے ہ ہ

پھر آندھی آ گئی ت اوپر جا کر ی پھٹن لگ ب و گئ ےشروع ے ہ ہ ے ہ و یں غائب ہاور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا ک ہ

Page 82: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں ہگیاپھندن کی تالش میں نکالدیکھی اور ان دیکھی جگ ے یں س آنا یں ک انئ لٹھ کی بو بھی ی ےمیں گھومتا ر ہ ہ ے ے ہ

واایک کالی ساٹن کی بالؤز و گئی پھر ن جان کیا ہشروع ے ہ ۔ ہ وئی چیز اتھ پڑا کچھ دیر تک و کسی دھڑکتی ہپر اس کا ہ ہ ڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھوڑی ا پھر دفعت اتھ پھیرتا ر ۔پر اپنا ہ ہہ ۔ ہ ہ و گیا اس ک بعد ےدیر تک و کچھ سمجھ ن سکا کیا ہے۔ ہ ہ ہ وا ۔اس خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہ ے

ل اس ےاس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھیپ ے ہ وئی مگر چند لمحات ک بعد ےتکلیف د حرارت محسوس ۔ ہ ہ

ر اس ک جسم میں رینگن لگی ۔ایک ٹھنڈی سی ل ے ے ہ

ہعید گا

(منشی پریم چند)

۔رمضان ک پور تیس روزوں ک بعد آج عید آئی کتنی ے ے ے انی اور رنگین صبح بچ کی طرح پر تبسم درختوں ےس ہے۔ ہ ریاول کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔پر کچھ عجیب ہ ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا آج کا آفتاب دیکھ کتنا ہے۔

ا ہے۔پیارا گویا د�نیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد د ر ہ ے ہے ل عید گا جان کی دھوم ل پ ہے۔گاؤں میں کتنی چ ے ہ ہے۔ ہ ہ

یں تو سوئی تاگا لین دوڑ یں ےکسی ک کرت میں بٹن ن ے ہ ہ ے ے یں اس تیل اور و گئ ا کسی ک جوت سخت ےجا ر ۔ ہ ے ہ ے ے ہے۔ ہ ا جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی ہے۔پانی س نرم کر ر ہ ے و جائ گی تین ر ۔د دیں عید گا س لوٹت لوٹت دوپ ے ہ ہ ے ے ے ہ ۔ ے ےکوس کا پیدل راست پھر سینکڑوں رشت قرابت والوں ہ

ل لوٹنا غیر ممکن لڑک ر س پ ےس ملنا مالنا دوپ ہے۔ ے ہ ے ہ ۔ ے یں کسی ن ایک روز رکھا، و بھی ہسب س زیاد خوش ہ ے ۔ ہ ہ ے

یں لیکن عید گا جان کی ر تک کسی ن و بھی ن ےدوپ ہ ہ ہ ے ۔ ہ ، وں گ ےخوشی ان کا حص روز بڑ بوڑھوں ک لئ ہ ے ے ے ے ہے۔ ہ ہبچوں ک لئ تو عید روز عید کا نام رٹت تھ آج و آ ے ے ہے۔ ے ے

یں چلت وئی ک عید گا کیوں ن ے۔گئی اب جلدی پڑی ہ ہ ہ ہے ہ ۔ �وں ک لئ گھر ؟ سوی یں گھر کی فکروں س کیا واسط ےان ے ہ ے ہ

یں کیا یں، اس کی ان یں یا ن ہمیں دودھ اور شکر میو ہ ہ ے اجن ہفکر؟ و کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں ک م ے ہ یں، ان کی ہچودھری قاسم علی ک گھر دوڑ جا ر ہے ے ے

وا بار بار جیب ہے۔اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزان رکھا ہ ہ

Page 83: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں اور یں دوستوں کو دکھات ہس خزان نکال کر گنت ے ۔ ہ ے ہ ے ی دو چار پیسوں میں د�نیا یں ان و کر رکھ لیت ہخوش ۔ ہ ے ہ ےکی سات نعمتیں الئیں گ کھلون اور مٹھائیاں اور بگل ے۔ ہاور خدا جان کیا کیا سب س زیاد خوش حامد و ۔ ہے ہ ے ۔ ے ، جس کا باپ ہےچار سال کا غریب خوب صورت بچ ہ

و گیا تھا اور ماں ن جان کیوں یض کی نذر ےپچھل سال ہ ہ ہ ہ ے وتی ایک دن مر گئی کسی کو پت ن چال ک وتی ہزرد ہ ہ ۔ ہ ہ

؟ کون سنن واال تھا؟ دل پر تی کس س ؟ ک ےبیماری کیا ے ہ ہے ا گیا تو د�نیا س تی تھی اور جب ن س ےجو گزرتی تھی س ہ ہ ہ

و گئی اب حامد اپنی بوڑھی دادی امین کی گود خصت ہر� ۔ ہ ی خوش اس ک ابا جان بڑی د�ور ےمیں سوتا اور اتنا ہے۔ ہ ہے

ت سی تھیلیاں ل کر آئیں گ ے۔روپ کمان گئ تھ اور ب ے ہ ے ے ے ے یں اس لئ ےامی جان الل میاں ک گھر مٹھائی لین گئی ۔ ہ ے ے ہ

یں سر پر ایک یں ۔خاموش حامد ک پاؤں میں جوت ن ہ ہ ے ے ہے۔ و گیا پھر بھی ہےپرانی دھرانی ٹوپی جس کا گوٹ سیا ہ ہ ہ ہے �ا جان تھیلیاں اور اماں جان ےو خوش جب اس ک اب ہے۔ ہ

۔نعمتیں ل کر آئیں گ تب و دل ک ارمان نکال گا تب ے ے ہ ے ے اں س ےدیکھ گا ک محمود اور محسن آذر اور سمیع ک ہ ہ ے

یں د�نیا میں مصیبتوں کی ساری فوج ل ےاتن پیس الت ۔ ہ ے ے ے ، اس کی ایک نگا معصوم اس پامال کرن ک لئ ےکر آئ ے ے ے ہہ ے

ہے۔کافی

یں ام�اں! میں ، "تم ڈرنا ن تا ہحامد اندر جا کر امین س ک ہے ہ ے ہ ہگاؤں والوں کا ساتھ ن چھوڑوں گا بالکل ن ڈرنا لیکن امین ہ ۔ ہ یں مانتا گاؤں ک بچ اپن اپن باپ ک ساتھ جا ےکا دل ن ے ے ے ے ۔ ہ یں ی جائ گا اس بھیڑ بھاڑ میں ک یں حامد کیا اکیال ہر ۔ ے ہ ۔ ہ ہے

ا ن جان د گی یں امین اس تن و؟ ن ۔کھو جائ تو کیا ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہننھی سی جان تین کوس چل گا تو پاؤں میں چھال ن پڑ ے ے ۔

؟ ےجائیں گ

اں سو�یاں کون پکائ گا، بھوکا ےمگر و چلی جائ تو ی ہ ے ہ ر کو لوٹ گا، کیا اس وقت سو�یاں پکان بیٹھ ےپیاسا دوپ ے ے ہ یں اس ن یں ےگی رونا تو ی ک امین ک پاس پیس ن ۔ ہ ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ۔

مین ک کپڑ سی تھ آٹھ آن پیس مل تھ اس ے۔ف ے ے ے ے۔ ے ے ے ہ ےاٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید ک ےلئ لیکن گھر میں پیس اور ن تھ اور گوالن ک پیس ے ے ہ ے ے

Page 84: اردو ادب کے مشہور افسانے

، دین پڑ حامد ک لئ روز دو پیس ےاور چڑھ گئ تھ ے ے ے۔ ے ے ے یں �ل دو آن پیس بچ ر ۔کا دودھ تو لینا پڑتا اب ک ہ ہے ے ے ہے

ت س ےسمیع: سنا چودھری صاحب ک قبض میں ب ہ ہ ے ہے ، چودھری صاحب یں کوئی چیز چوری چلی جائ ےجنات ۔ ہ

ے۔اس کا پت بتا دیں گ اور چور کا نام تک بتا دیں گ ے ہ ۔جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا تین دن حیران یں ن مال، تب جھک مار کر چودھری ک پاس گئ ، ک ے۔وئ ے ہ ہ ے ہ

یں مال جنات آ ا، مویشی خان میں اور و ۔چودھری ن ک ہ ہے ہ ہ ے یں یں سب خبریں د جایا کرت ۔کر ان ہ ے ے ہ

ر ایک کی سمجھ میں آ گیا ک چودھری قاسم علی ہاب ہ ہک پاس کیوں اس قدر دولت اور کیوں و قرب و جوار ہے ے

یں روپ د یں جنات آ کر ان اجن ےک مواضعات ک م ے ہ ۔ ہ ہ ے ے اں پولیس وال یں آگ چلئ ی پولیس الئن ی ےجات ہ ہے۔ ہ ے ے ۔ ہ ے

یں رائٹ لپ، پھام پھو ۔قواعد کرت ۔ ہ ے

یں جب ر دیت اں پولیس وال پ ۔نوری ن تصحیح کی، "ی ہ ے ہ ہ ے ہ ے ت خبر اجی حضرت ی لوگ چوریاں کرات یں ب ےی تو ان ہ ہے۔ ہ ہ ہت یں سب ان س مل ر ر ک جتن چور ڈاکو ےیں ش ہ ے ے ہ ے ے ہ ۔ ہ

یں اور ت � میں چوروں س ک ہیں رات کو سب ایک محل ے ہ ے ہ ۔ ہو میر ماموں یں جاگت ر � میں پکارت ےدوسر محل ۔ ہ ے ہ ے ہ ے

یں ین پات یں بیس روپ م ی ہصاحب ایک تھان میں سپا ے ہ ہ ے ۔ ہ ہ ہ یں میں ن ایک بار ےلیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجت ۔ ہ ے یں تو ایک دن میں ہپوچھا تھا، ماموں اتن روپ آپ چا ے ے یں جس میں اپنی ی لیت م تو اتنا ہالکھوں بار الئیں ے ہ ہ ۔

و اور نوکری بنی ر ہے۔بدنامی ن ہ ہ

یں تو ہحامد ن تعجب س پوچھا، "ی لوگ چوری کرات ے ہ ے ے می پر یں؟ " نوری ن اس کی کوتا ف یں کوئی پکڑتا ن ہان ہ ے ہ ہ

یں کون پکڑ گا، پکڑن ا، "ار احمق! ان ےرحم کھا کر ک ے ہ ے ہ یں سزا بھی خوب دیتا یں لیکن الل ان ہے۔وال تو ی خود ہ ہ ہ ہ ے

وئ ماموں ک گھر میں آگ لگ گئی سارا ۔تھوڑ دن ے ے ہ ے ۔مال متاع جل گیا ایک برتن تک ن بچا کئی دن تک درخت ہ ۔

اں س ، الل قسم پھر ن جان ک ےک سائ ک نیچ سوئ ہ ے ہ ہ ے ے ے ے ے ے۔قرض الئ تو برتن بھانڈ آئ ے ے "

ون لگی عید گا جان والوں ک مجمع ےبستی گھنی ے ے ہ ۔ ے ہ وئ ن ے۔نظر آن لگ ایک س ایک زرق برق پوشاک پ ہ ے ہ ے ے۔ ے

Page 85: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےکوئی تانگ پر سوار کوئی موٹر پر چلت تھ تو کپڑوں ے ے �ڑتی تھی ۔س عطر کی خوشبو ا ے

قانوں کی ی مختصر سی ٹولی اپنی ب سر و سامانی ےد ہ ہ ہس ب حس اپنی خست حالی میں مگر صابر و شا کر ے ے ےچلی جاتی تھی جس چیز کی طرف تاکت تاکت ر جات ہ ے ے ۔ ون پر بھی خبر ن ارن کی آواز ہاور پیچھ س بار بار ے ہ ہ ے ے

۔وتی تھی محسن تو موٹر ک نیچ جات جات بچا ے ے ے ے ۔ ہ

و گئی املی ک ےو عید گا نظر آئی جماعت شروع ہے۔ ہ ۔ ہ ہ وا پخت فرش جس ہے۔گھن درختوں کا سای نیچ کھال ہ ہ ے ہے ہ ے

وا اور نمازیوں کی قطاریں ایک ک ےپر جاجم بچھا ہے ہ یں پخت اں تک چلی گئی ہپیچھ دوسر خدا جان ک ۔ ہ ہ ے ے ے

یں یں کئی قطاریں کھڑی ہفرش ک نیچ جاجم بھی ن ۔ ہ ے ے یں آگ اب جگ وت جات یں پیچھ کھڑ ہجو آت جات ے ۔ ہ ے ے ہ ے ے ہ ے ے یں دیکھتا اسالم کی د ن تب اور ع اں کوئی ر� ی ی یں ر ۔ن ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہ قانوں ن بھی وضو کیا اور یں د ےنگا میں سب برابر ہ ۔ ہ ہ

و گئ کتنی باقاعد منظم جماعت ہجماعت میں شامل ے۔ ہ یں، ایک ساتھ دو زانو ہ، الکھوں آدمی ایک ساتھ جھکت ے ہےا و ر وتا ایسا معلوم یں اور ی عمل بار بار ہبیٹھ جات ہ ہے ہ ہ ہ ے و جائیں ہ گویا بجلی کی الکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہے�ر احترام رعب انگیز نظار ہاور ایک ساتھ بجھ جائیں کتنا پ ۔ نگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک م آ ہ جس کی ہ ہے۔ہوجدانی کیفیت پیدا کر دیتی گویا اخوت کا رشت ان ہے۔

وئ ہے۔تمام روحوں کو منسلک کئ ے ہ ے

یں کچھ لوگ م گل مل ر و گئی لوگ با ۔نماز ختم ہ ہے ے ہ ہے ہ اں یں جو آج ی ہمحتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر ر ۔ ہ ہے قانوں ن مٹھائی اور مار د یں و گئ ےزاروں جمع ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ

ےکھلونوں کی د�کانوں پر یورش کی بوڑھ بھی ان ۔ یں یں ۔دلچسپیوں میں بچوں س کم ن ہ ہ ے

نڈوال ایک پیس د کر آسمان پر جات معلوم ےی دیکھو ے ہ ہے ہ ہ یں ی چرخی لکڑی ک ےوں گ کبھی زمین پر گرت ہے ہ ہ ے ے۔ ہ

یں ایک پیس وئ اتھی منجوں س لٹک �ونٹ، ، ا ہگھوڑ ۔ ہ ے ہ ے ے ہ ے ۔د کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مز لو محمود اور ہ ے یں آذر اور سمیع گھوڑوں نڈول پر بیٹھ ۔محسن دونوں ہ ے ے ہ

۔پر "

Page 86: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی طفالن اشتیاق س چرخی پر بیٹھ ےان ک بزرگ اتن ے ہ ہ ے ے یں ی پیس تو اس ک پاس ۔یں حامد دور کھڑا تین ہ ے ے ہ ہے ۔ ہ

یں ص�رف ہذرا سا چکر کھان ک لئ و اپن خزان کا ثلث ن ہ ے ہ ے ے ے ہےکر سکتا محسن کا باپ بار بار اس چرخی پر بالتا ے ۔

یں اس لڑک میں ت وتا بوڑھ ک یں ےلیکن و راضی ن ہ ے ہ ے ۔ ہ ہ ہ ، کیوں کسی کا ہےابھی س اپنا پرایا آ گایا حامد سوچتا ہے۔ ے

ہاحسان لوں؟ عسرت ن اس ضرورت س زیاد ذکی ے ے ے یں �ترت ۔الحس بنا دیا سب لو گ چرخی س ا ہ ے ے ہے۔

ی اور گجریا اور وتی سپا ہکھلونوں کی خرید شروع ہے۔ ہ شتی ب امتیاز ران ےراج رانی اور وکیل اور دھوبی اور ب ہ ہ یں دھوبی راج رانی کی بغل میں ہس ران مالئ بیٹھ ۔ ہ ے ے ے

شتی وکیل صاحب کی بغل میں وا کتن ے اور ب ہ ۔ ہ ہےو جاتا ی پر لٹو یں محمود سپا ت ی چا ہےخوبصورتبوال ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ وتا ہےخاکی وردی اور پگڑی الل، کندھ پر بندوق، معلوم ہ ے شتی پسند ا محسن کو ب ہابھی قواعد ک لئ چال آ ر ہے۔ ہ ے ے اتھ س ان ایک وئی اس پر مشک کا د ےآیا کمر جھکی ہ ہ ہ ہے ہ ۔

ر ، کتنا بشاش چ اتھ میں رسی وئ دوسر ہپکڑ ہ ہے ہ ے ہے۔ ے ہ ے وا ا مشک س پانی ٹپکتا ہ، شاید کوئی گیت گا ر ے ہے۔ ہ ہے

وتا نوری کو وکیل س مناسبت کتنی عالمان ہمعلوم ہے۔ ے ہے۔ ہ ، سیا چغ نیچ سفید اچکن، اچکن ک سین کی ہصورت ے ے ہ ہ ہے اتھ میں قانون کی کتاب ری زنجیر، ایک ہجیب میں سن ہ

، ابھی کسی عدالت س جرح یا وتا وئ معلوم ےلئ ہے ہ ہے۔ ے ہ ے یں ی سب دو دو پیس ک کھلون ےبحث کر ک چل آ ر ے ے ہ ۔ ہ ہے ے ے یں اگر دو کا ایک ۔یں حامد ک پاس کل تین پیس ہ ے ے ۔ ہ

یں کھلون فضول ےکھلونا ل ل تو پھر اور کیا ل گا؟ ن ہ ے ے ے و جائ ذرا سا اتھ س گر پڑ تو چور چور یں ے۔یں ک ہ ے ے ہ ہ ۔ ہےپانی پڑ جائ تو سارا رنگ د�ھل جائ ان کھلونوں کو ل ے۔ ے

یں؟ ہکر و کیا کر گا، کس مصرف ک ے ے ہ

شتی روز پانی د جائ گا صبح ، "میرا ب تا ےمحسن ک ے ہ ہے ہ ۔شام "

ےنوری بولی، "اور میرا وکیل روز مقدم لڑ گا اور روز ے ےروپ الئ گا ے "

یں، ی تو ہحامد کھلونوں کی مذمت کرتا مٹی ک ہ ے ہے۔ وئی ر چیز کو للچائی و جائیں، لیکن ہگریں تو چکنا چور ہ ہ

Page 87: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا ک ذرا دیر ک لئ ا اور چا ےنظروں س دیکھ ر ے ہ ہے ہ ہے ہ ے ، طرح اتھ میں ل سکتا ی بساطی کی دکان یں ہےان ہ ۔ ے ہ ہ

وئی گیند، ہے۔طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہ زاروں چیزیں ، ربڑ ک کھلون اور ۔سیٹیاں، بگل، بھنور ہ ے ے ے

ہےمحسن ایک سیٹی لیتا محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو ہچوں چوں کرتا اور سمیع ایک خنجری اس و بجا بجا ے ۔ ہے

ا ر ایک کو حسرت س دیکھ ر ہے۔کر گائ گا حامد کھڑا ہ ے ہ ۔ ے ےجب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا تو و بڑ اشتیاق ہ ہے

، لیکن اتھ میں ل کر دیکھن لگتا ہےس ایک بار اس ے ے ہ ے ے وت خاص کر جب ک ابھی یں ہلڑک اتن دوست نواز ن ے۔ ہ ہ ے ے

و کر ر جاتا ی مایوس ہے۔دلچسپی تاز ب چار یوں ہ ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ

ےکھلونوں ک بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی ن ریوڑیاں ے ن حلو مز یں، کسی ن گالب جامن، کسی ن سو ےلی ہ۔ ہ ے ے ہ

یں حامد ان کی برادری س خارج ہے۔س کھا ر ے ۔ ہ ہے ے یں کچھ یں، کیوں ن ہکمبخت کی جیب میں تین پیس تو ہ ے وں س سب کی طرف دیکھتا ہے۔ل کر کھاتا حریص نگا ے ہ ۔ ے

ا، "حامد ی ریوڑی ل جا کتنی خوشبودار ےمحسن ن ک ہ ہ ے ۔یں "ہ

ہے۔حامد سمجھ گیا ی محض شرارت ک محسن اتنا فیاض ہ ےطبع ن تھا پھر بھی و اس ک پاس گیا محسن ن دون ے ۔ ے ہ ۔ ہ ۔س دو تین ریوڑیاں نکالیں حامد کی طرف بڑھائیں ۔ ے

اتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اتھ پھیالیا محسن ن ہحامد ن ے ۔ ہ ے ۔اپن منھ میں رکھ لیں محمود اور نوری اور سمیع خوب ے و گیا محسن نسن لگ حامد کھسیان ۔تالیاں بجا بجا کر ہ ہ ے۔ ے ہ

ا ۔ن ک ہ ے

" ۔اچھا اب ضرور دیں گ ی ل جاؤ الل قسم ہ ۔ ے ہ ے۔ "

یں کیا میر پاس پیس ن ا، "رکھی رکھی ہحامد ن ک ے ے ے ے ہ ے "ہیں؟

؟ یں، کیا کیا لو گ ی پیس تو ےسمیع بوال، "تین ہ ے ہ "

ہمحمود بوال، "تم اس س مت بولو، حامد میر پاس آؤ ی ۔ ے ے ےگالب جامن ل لو "

Page 88: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہے۔حامد: "مٹھائی کون سی بڑی نعمت کتاب میں اس یں ۔کی برائیاں لکھی ہ "

و گ ک کچھ مل جائ تو ےمحسن: لیکن جی میں ک ر ہ ے ہ ہے ہہ ؟" محمود: اس کی یں نکالت ےکھا لیں اپن پیس کیوں ن ہ ے ے ۔ مار سار پیس خرچ وں جب ےوشیاری میں سمجھتا ے ے ہ ۔ ہ ہمیں چڑا چڑا کر ، تب ی مٹھائی ل گا اور ہو جائیں گ ے ہ ے ہ

۔کھائ گا ے

ہےحلوائیوں کی د�کانوں ک آگ کچھ د�کانیں لو کی چیزوں ے ے ےکی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع ک زیورات کی لڑکوں ک ۔ ے اں دلچسپی کا کوئی سامان ن تھا حامد لو کی ہےلئ ی ۔ ہ ہ ے وئ ےد�کان پر ایک لمح ک لئ رک گیا دست پنا رکھ ہ ے ہ ۔ ے ے ہ

یں ہتھ و دست پنا خرید ل گا ماں ک پاس دست پنا ن ہ ے ۔ ے ہ ہ ے۔ اتھ جل جاتا اگر و یں تو ہ تو س روٹیاں اتارتی ہے۔ ہ ہ ے ے ہے۔

وں ہدست پنا ل جا کر اماں کو د د تو و کتنی خوش ہ ے ے ے ہ یں جلیں گی، گھر میں ایک ہگی پھر ان کی انگلیاں کبھی ن ۔

و جائ گی کھلونوں س کیا فائد م�فت ہ۔کام کی چیز ے ۔ ے ہ وتی ی تو خوشی یں ذرا دیر وت ہےمیں پیس خراب ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے

یں دیکھتا یا تو گھر �ٹھا کر کبھی ن یں کوئی آنکھ ا ۔پھر تو ان ہ ہ و جائیں گ یا چھوٹ نچت ٹوٹ پھوٹ کر برباد نچت پ ےپ ے ہ ے ہ ے ہ یں ضد کر ک ل لیں گ یں جا سکت ےبچ جو عید گا ن ے ے ہ ے ہ ہ ے

ہے۔اور توڑ ڈالیں گ دست پنا کتن فائد کی چیز روٹیاں ہ ے ہ ے۔ �تار لو، چولھ س آگ نکال کر د دو اماں کو ۔تو س ا ے ے ے ے ے

یں اں ملت اں بازار آئیں اور اتن پیس ک ۔فرصت ک ہ ے ہ ے ے ہے ہ یں یں اس ک ساتھی آگ بڑھ گئ اتھ جال لیتی ۔روز ہ ے ے ے ۔ ہ ہ یں یں کتن اللچی ۔سبیل پر سب ک سب پانی پی ر ہ ے ۔ ہ ہے ے ۔سب ن اتنی مٹھائیاں لیں کسی ن مجھ ایک بھی ن دی ہ ے ے ے یں میر ساتھ کھیلو میری تختی دھو الؤ ت ۔اس پر ک ۔ ے ہ ے ہ

ا تو خبر لوں اں محسن ن کوئی کام کرن کو ک ہاب اگر ی ے ے ہ ی من سڑ گا، پھوڑ پھنسیاں نکلیں ےگا، کھائیں مٹھائیآپ ے ہ ہ و جائ گی، تب پیس چرائیں ی زبان چٹوری ےگی آپ ے ہ ہ ۔ و گی ۔گ اور مار کھائیں گ میری زبان کیوں خراب ہ ے۔ ے ی دوڑ کر ہاس ن پھر سوچا، اماں دست پنا دیکھت ے ہ ے یں گی میرا بیٹا اپنی اتھ س ل لیں گی اور ک ۔میر ہ ے ے ہ ے

زاروں د�عائیں دیں گی پھر ، ۔ماں ک لئ دست پنا الیا ہ ہے ہ ے ے ہاس پڑوسیوں کو دکھائیں گی سار گاؤں میں وا وا ہ ے ۔ ے

Page 89: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں د�عائیں ہمچ جائ گی ان لوگوں ک کھلونوں پر کون ان ے ۔ ے ہد گا بزرگوں کی د�عائیں سیدھی خدا کی درگا میں ۔ ے ت س یں میر پاس ب وتی ~ قبول یں اور فورا نچتی ےپ ہ ے ۔ ہ ہ ہ ہ

ی تو محسن اور محمود یوں مزاج یں جب یں ہپیس ن ۔ ہ ہ ے یں میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا و کھلون ےدکھات ہ ۔ ۔ ہ ے

ی کسی س کچھ ےکھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب س ۔ ہ ی پھر یں جاتا آخر ابا کبھی ن کبھی آئیں گ ہمانگن تو ن ے ہ ۔ ہ ے ؟ ایک ایک ےان لوگوں س پوچھوں گا کتن کھلون لو گ ے ے ے ےکو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں ک دوستوں ک ساتھ ہ یں سب ہاس طرح سلوک کیا جاتا جتن غریب لڑک ے ے ہے۔ ہکو اچھ اچھ کرت دلوا دوں گا اور کتابیں د دوں گا، ی ے ے ے ے

یں ک ایک پیس کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھان ےن ہ ہ ہ نسیں گ احمق ے۔لگیں دست پنا دیکھ کر سب ک سب ہ ے ہ ۔ ی سب اس ن ڈرت ڈرت د�کاندار س پوچھا، "ی یں ہتو ے ے ے ے ۔ ہ ہ

؟ ےدست پنا بیچو گ ہ "

ہدکاندار ن اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی ن ے یں ار کام کا ن ا، و تم ہے۔دیکھ کر ک ہ ے ہ ہ ہ

یں؟" ہبکاؤ یا ن ہے "

یں" اں کیوں الد کر الئ ہبکاؤ جی اور ی ے ہ ہے "

؟" یں؟ ک پیس کا دو گ ےتو بتالت کیوں ن ے ے ہ ے "

ےچھ پیس لگ لگا" ے "

ےحامد کا دل بیٹھ گیا کلیج مضبوط کر ک بوال، تین پیس ے ہ ۔ ، مگر ؟ اور آگ بڑھا ک د�کاندار کی گھرکیاں ن سن ےلو گ ہ ہ ے ے ہد�کاندار ن گھرکیاں ن دیں دست پنا اس کی طرف بڑھا ۔ ہ ے ےدیا اور پیس ل لئ حامد ن دست پنا کندھ پر رکھ ہ ے ے۔ ے ے وا اپن رفیقوں ک ےلیا، گویا بندوق اور شان س اکڑتا ے ہ ے ہے ا، "ی دست پنا الیا وئ ک نست ہے۔پاس آیا محسن ن ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ۔

؟ ےاحمق اس کیا کرو گ ے "

شتی ا، "ذرا اپنا ب ہحامد ن دست پنا کو زمین پر پٹک کر ک ہ ہ ے و جائیں گی بچو ہزمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور

"کی

Page 90: اردو ادب کے مشہور افسانے

؟ ہےمحمود: "تو ی دست پنا کوئی کھلونا ہ ہ "

؟ ابھی کندھ پر رکھا، بندوق یں ےحامد: "کھلونا کیوں ن ہے ہ وں تو اس و گیا، چا اتھ میں ل لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا" ہ ے ہ ہ

اری ناک پکڑ لوں ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں ک ےس تم ۔ ہ ے ی ار کھلون کتنا ہسار کھلونوں کی جان نکل جائ تم ے ے ہ ے۔ ے ادر شیر یں کر سکت میرا ب ہزور لگائیں، اس کا بال بیکا ن ے۔ ہ

ہ۔ ی دست پنا ہ "ہے

؟ دو و کر بدال، "میری خنجری س بدلو گ ےسمیع متاثر ے ہ ہےآن کی ے "

ا، ہحامد ن خنجری کی طرف حقارت س دیکھ کر ک ے ے اری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈال ے۔"میرا دست پنا چا تو تم ہ ہے ہ

۔بس ایک چمڑ کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولن لگی ے ے ادر دست پنا تو و جائ میرا ب ہذرا سا پانی لگ تو ختم ہ ے۔ ہ ے ہےآگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا ر

ت دور پیچھ چھوٹ چکا تھا دس بج ر تھ ے۔گا میل ب ہے ۔ ے ہ ہ ۔ یں مل سکتا نچن کی جلدی تھی اب دست پنا ن ہگھر پ ہ ۔ ے ہ

، حامد بڑا یں ر ہےتھا اب کسی ک پاس پیس بھی تو ن ہے ہ ے ے ۔ ، محمود، محسن اور نوری و گئ ےوشیار اب دو فریق ہ ۔ ہا دوسری طرف سمیع غیر ۔ایک طرف، حامد یک و تن ہ ہ و جائ ےجانبدار جس کی فتح دیکھ گا اس کی طرف ہ ے ہے

و گیا آج حامد کی زبان بڑی صفائی ۔گا مناظر شروع ہ ہ ۔ ی اتحادl ثالث اس ک جارحان عمل س ےس چل ر ہ ے ہ ہے۔ ہ ے

، حامد ا ثالث ک پاس تعداد کی طاقت و ر ہےپریشان ے ہ ہے۔ ہ ہ ےک پاس حق اور اخالق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی ا جو اس وقت اپن آپ کو ےچیزیں دوسری جانب اکیال لو ہ

یں شیر ا و روئیں تن صف شکن اگر ک ہفوالد ک ر ہے ہے ہ ہے۔ ہ ہہ شتی ک اوسان خطا ےکی آواز کان میں آ جائ تو میاں ب ہ ے

ی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں وکیل ۔و جائیں میاں سپا ہ ۔ ہہصاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائ چغ میں، من ے ے۔ ند لپک کر l ستم ادر ی ر� ہمیں چھپا کر لیٹ جائیں مگر ب ہ ہ ۔ و جائ گا اور اس کی آنکھیں ےشیر کی گردن پر سوار ہ

۔نکال ل گا ے

ارا ا، "اچھا تم ہمحسن ن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ک ہ ے یں بھر سکتا حامد ن دست پنا کو ہدست پنا پانی تو ن ے ۔ ہ ہ

Page 91: اردو ادب کے مشہور افسانے

شتی کو ایک ڈانٹ پالئ گا تو دوڑا ا ک ی ب ےسیدھا کر ک ک ہ ہ ہ ہ ے ۔وا پانی ال کر اس ک درواز پر چھڑکن لگ گا جناب ے ے ے ے ہ

۔اس س چا گھڑ مٹک اور کونڈ بھر لو ے ے ے ہے ے

نچائی، "بچ و گیا نوری ن کمک پ ہمحسن کا ناطق بند ہ ے ۔ ہ ہ و جائیں تو عدالت میں بندھ بندھ پھریں گ ے۔گرفتار ے ے ہ ی پیروی کریں گ بولئ مار وکیل صاحب ےتب تو ے۔ ہ ے ہ

"جناب

~ اس ہحامد ک پاس اس وار کا دفیع اتنا آسان ن تھا، دفعتا ہ ے لت پا جان ک اراد س پوچھا، "اس پکڑن ےن ذرا م ے ے ے ے ے ہ ے

ےکون آئ گا؟ "

ی بندوق واال ا، "ی سپا ہمحمود ن ک ہ ہ ے "

ند کو پکڑ ا ی ب چار اس رستم ہحامد ن منھ چڑا کر ک ے ے ہ ہ ے و جائ اس کی صورت ؟ اچھا الؤ ابھی ذرا مقابل ے۔لیں گ ہ ہ ے

ی بچ کی ماں مر جائ گی، پکڑیں گ کیا ب ےدیکھت ے ے ہ ہ ے ےچار "

ار دست پنا کا منھ و کر وار کیا، "تم ہمحسن ن تاز دم ے ہ ہ ہ ے " حامد ک پاس جواب تیار تھا، ےروز آگ میں جال کر گا ۔ ے

ی ار ی وکیل اور سپا یں جناب تم ادر کودت ہ"آگ میں ب ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ یں سب گھر میں گھس جائیں گ آگ شتی ڈرپوک ے۔اور ب ۔ ہ ہ

ی کر سکتا ستم ہے۔میں کودنا و کام جو ر� ہ ہے ہ "

ارا دست پنا ائی جدت س کام لیا، "تم ہنوری ن انت ہ ے ہ ے ےباورچی خان میں زمین پر پڑا ر گا میرا وکیل شان س ۔ ہے ہ

ےمیز کرسی لگا کر بیٹھ گا اس جمل ن م�ردوں میں بھی ہ ۔ ے "ب شک بڑ معرک ےجان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا ے ے ۔ ی، دست پنا باورچی خان میں پڑا ر گا ہےکی بات ک ہ ہ ہ "

ہےحامد ن دھاندلی کی، میرا دست پنا باورچی خان میں ر ہ ہ ے یں زمین ہگا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گ تو جا کر ان ے ۔پر پٹک د گا اور سارا قانون ان ک پیٹ میں ڈال د گا ے ے ے

ےاس جواب میں بالکل جان ن تھی، بالکل ب تکی سی بات ہ ۔تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالن والی بات چھا گئی تینوں ے ہسورما منھ تکت ر گئ حامد ن میدان جیت لیا، گو ثالث ے ے۔ ہ ے

ےک پاس ابھی گیند سیٹی اور بت ریزرو تھ مگر ان ے

Page 92: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہے۔مشین گنوں ک سامن ان بزدلوں کو کون پوچھتا ے ے ند اس میں کسی کو چوں چرا کی l ہے۔دست پنا رستم ہ ہ

یں ۔گنجائش ن ہ "

ہفاتح کو مفتوحوں س خوشامد کا مزاج ملتا و حامد ہے۔ ے ےکو ملن لگا اور سب ن تین تین آن خرچ کئ اور کوئی ے ے ے ی پیسوں میں رنگ ہکام کی چیز ن ال سک حامد ن تین ے ے۔ ہ ۔جما لیا کھلونوں کا کیا اعتبار دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ ۔ میش صلح ہجائیں گ حامد کا دست پنا تو فاتح ر گا ہ ۔ ہے ہ ے۔

ون لگیں ۔کی شرطیں ط ے ہ ے

م بھی تو دیکھیں تم ا، "ذرا اپنا چمٹا دو ۔محسن ن ک ہ ۔ ہ ے میں اس میں کوئی مارا وکیل دیکھ لو حامد! و تو ہچا ہ ہ یں و فیاض طبع فاتح دست پنا باری ہاعتراض ن ہے۔ ہ ہے۔ ہ

اتھوں ہباری س محمود، محسن، نور اور سمیع سب ک ے ے اتھ میں ہمیں گیا اور ان ک کھلون باری باری حامد ک ے ے ے ی وتا بوال یں، معلوم ہآئ کتن خوبصورت کھلون ہے ہ ہ ے ے ے۔

یں د�عا کون د گا؟ یں مگر ان کھلونوں ک لئ ان ت ےچا ہ ے ے ۔ ہ ے ہ و گا جتنا ہکون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش

lوں گی اس اپن طرز ےاماں جان دست پنا کو دیکھ کر ے ۔ ہ ہ یں پھر اب دست پنا تو اور ہےعمل پر مطلق پچھتاوا ن ہ ہے۔ ہ

ےسب کا بادشا راست میں محمود ن ایک پیس کی ے ے ہ۔ ہککڑیاں لیں اس میں حامد کو بھی خراج مال حاالنک و ہ ۔ ا محسن اور سمیع ن ایک ایک پیس ک ےانکار کرتا ر ے ے ۔ ہ

ند کی ، حامد کو خراج مال ی سب رستم ہفالس لئ ہ ۔ ے ے ۔برکت تھی

و گئی میل وال آ ل ل پ ےگیار بج سار گاؤں میں چ ے ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ شتی اس ک ن ن دوڑ کر ب ےگئ محسن کی چھوٹی ب ہ ے ہ ے۔

ےاتھ س چھین لیا اور مار خوشی جو اچھلی تو میاں ے ہl جاودانی کو سدھار اس پر شتی نیچ آ ر اور عالم ے۔ب ہے ے ہ وئی دونوں خوب روئ ان کی ن میں مار پیٹ ے۔بھائی ب ۔ ہ ہ رام سن کر اور بگڑیں دونوں کو اوپر س ےاماں جان ی ک ۔ ہ ہ ےدو دو چانٹ رسید کئ میاں نوری ک وکیل صاحب کا ے۔ ے وا وکیل زمین پر یا طاق پرتو ۔حشر اس س بھی بدتر ہ ے و ی یں بیٹھ سکتا اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہن ہ ۔ ہ ۔گا دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں ان پر چیڑ کا ایک ۔

ےپرانا پڑا رکھا گیا پڑ پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا ۔

Page 93: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہگیا جو منزل قالین کا تھا وکیل صاحب عالم باال پ جلو ہ ۔ ۂ یں س قانونی بحث کریں گ نوری ایک وئ ی ے۔افروز ے ہ ے۔ ہ

وا س یا یں پنکھ کی ےپنکھا ل کر جھلن لگی معلوم ن ہ ے ہ ۔ ے ے ےپنکھ کی چوٹ س وکیل صاحب عالم باال س د�نیائ ے ے ے وئ ے۔فانی میں آ ر اور ان کی مجسم خاکی ک پرز ہ ے ے ۂ ہے۔

وا اور وکیل صاحب کی میت پارسی ہپھر بڑ زور کا ماتم ے ہدستور ک مطابق کوڑ پر پھینک دی گئی تاک ب کار ن ے ہ ے ے

ے۔جا کر زاغ و زغن ک کام آ جائ ے

ی و محترم اور ذی ر�عب ہاب ر میاں محمود ک سپا ۔ ہ ے ہے یں ۔ستی اپن پیروں چلن کی ذلت اس گوارا ن ہ ے ے ے ہے ہ

ی کو ہمحمود ن اپنی بکری کا بچ پکڑا اور اس پر سپا ہ ے ی کو پکڑ اتھ س سپا ن ایک ےسوار کیا محمود کی ب ہ ے ہ ہ ۔ ےوئ تھی اور محمود بکری ک بچ کا کان پکڑ کر اس ہ ے ے ہ

ی کی ا تھا اور اس ک دونوں بھائی سپا ہدرواز پر چال ر ے ہ ے و" پکارت چلت تھ ے۔طرف س "تھون وال داگت ل ے ے ہ ے ے ے ے

ی اپن گھوڑ کی پیٹھ س وا، میاں سپا یں کیا ےمعلوم ن ے ے ہ ہ ہ ہے۔گر پڑ اور اپنی بندوق لئ زمین پر آ ر ایک ٹانگ ے ے

وشیار یں، محمود و گئی مگر کوئی مضائق ن ہمضروب ہ ہ ۔ ہ ےڈاکٹر ڈاکٹر نگم اور بھاٹی اس کی شاگردی کر سکت ہ ہے۔

~ میں جوڑ د گا صرف گولر ~ فانا ۔یں اور ی ٹوٹی ٹانگ آنا ے ہ ہئ گولر کا دودھ آتا ٹانگ جوڑی جاتی ہےکا دودھ چا ہے۔ ے۔ ہ

lو جاتی عمل ، ٹانگ پھر الگ وتا ی کھڑا ہے۔لیکن جوں ہ ہے ہ ہ و جاتا تب محمود اس کی دوسری ٹانگ ہے۔جراحی ناکام ہ ہے۔بھی توڑ دیتا اب و آرام س ایک جگ بیٹھ سکتا ایک ہ ے ہ ہے۔ ہٹانگ س تو ن چل سکتا تھا ن بیٹھ سکتا تھا اب و گوش ہ ۔ ہ ہ ے

۔میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیل گا ے

ی ہاب میاں حامد کا قص سنئ امین اس کی آواز سنت ے ہ ے۔ ہ ~ اس �ٹھا کر پیار کرن لگی دفعتا ۔دوڑی اور اس گود میں ا ے ے

اتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی ۔ک ہ ے

اں تھا بیٹا؟" ہی دست پنا ک ہ ہ "

" ، تین پیس میں ۔میں ن مول لیا ے ہے ے "

ہامین ن چھاتی پیٹ لی "ی کیسا ب سمجھ لڑکا ک ہے ے ہ ۔ ے ہ و گئی ن کچھ کھایا ن پیا الیا کیا ی دست پنا ر ہ۔دوپ ہ ۔ ہ ہ ۔ ہ ہ

۔سار میل میں تجھ اور کوئی چیز ن ملی ہ ے ے ے "

Page 94: اردو ادب کے مشہور افسانے

اری انگلیاں تو س ا، "تم ےحامد ن خطاواران انداز س ک ے ہ ہ ے ہ ے یں؟ ہجل جاتی تھیں ک ن ہ "

و گیا اور شفقت ~ شفقت میں تبدیل ۔امین کا غص فورا ہ ہ ہ وتی اور اپنی ساری تاثیر یں جو من پر بیان ہےبھی و ن ہ ہ ہ ہ ۔لفظوں میں منتشر کر دیتی ی ب زبان شفقت تھی ے ہ ہے۔

�ف کتنی نفس کشی کتنی وئی ا ہے۔دردl التجا میں ڈوبی ۔ ہ ےجانسوزی غریب ن اپن طفالن اشتیاق کو روکن ک ے ہ ے ے ہے۔

وں ہلئ کتنا ضبط کیا جب دوسر لڑک کھلون ل ر ہے ے ے ے ے ۔ ے و گا راتا ، اس کا دل کتنا ل وں گ ، مٹھائیاں کھا ر ۔گ ہ ہ ے ہ ہے ے وا کیونک اپنی بوڑھی ماں کی یاد ہاتنا ضبط اس س ۔ ہ ے

ی میرا الل میری کتنی فکر رکھتا اں بھی ر ہے۔اس و ۔ ہ ہ ے اتھ میں وا ک اس ک ہاس ک دل میں ایک ایسا جذب پیدا ے ہ ہ ہ ے ت آ جائ اور و اس حامد ک اوپر نثار کر ےد�نیا کی بادشا ے ہ ے ہ

ے۔د

وئی بڑھیا امین ننھی سی امین ہاور تب بڑی دلچسپ بات ہ ۔ ہ ۔بن گئی و رون لگی دامن پھیال کر حامد کو د�عائیں دیتی ے ہ ۔

ےجاتی تھی اور آنکھوں س آنسو کی بڑی بڑی بوندیں ہگراتی جاتی تھی حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور ن شاید ۔

ی سمجھ سکیں گ ے۔مار بعض ناظرین ہ ے ہ

گڈریا

(اشفاق احمد)

ہے۔ی سردیوں کی ایک یخ بست اور طویل رات کی بات ہ ہ ری نیند سو ہمیں اپن گرم گرم بستر میں سر ڈھانپ گ ے ے ا تھا ک کسی ن زور س جھنجھوڑ کر مجھ جگا دیا ۔ر ے ے ے ہ ہ

"میں ن چیخ کر پوچھا اور اس ک جواب میں" ےکون ے ہے۔ اتھ میر سر س ٹکرایا اور گھپ اندھیر ےایک بڑا سا ے ے ہ ۔س آواز آئی "تھان والوں ن رانو کو گرفتار کر لیا ے ے ے "

؟" ا "کیا اتھ کو پر دھکیلنا چا وئ ہےکیا؟" میں لرزت ۔ ہ ے ہ ے ہ ے "

ےاور تاریکی کا بھوت بوال "تھان والوں ن رانو کو گرفتار ے ۔کر لیااس کا فارسی میں ترجم کرو ہ "

Page 95: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا "آدھی آدھی" وئ ک " میں ن اونگھت ہداؤ جی ک بچ ے ہ ے ے ے ے یں آپ ک یں میں ن و جاؤ میں ن ودفع ےرات کو تنگ کرت ہ ہ ہ ہ ے !" اور میں کت یں پڑھتا داؤ جی ک بچ تا میں ن ےگھر ر ے ے ہ ۔ ہ

۔رون لگا ے

یں تو پاس کیس ا "اگر پڑھ گا ن ےداؤ جی ن چمکار کر ک ہ ے ہ ے و گا تو بڑا آدمی ن بن سک گا، پھر لوگ یں ےو گا! پاس ن ہ ہ ہ ہ

؟ ےتیر داؤ کو کیس جانیں گ ے ے "

" ےالل کر سب مر جائیں آپ بھی آپ کو جانن وال ے ۔ ے ہ "بھیاور میں بھی میں بھی

ی لمحوں میں ہاپنی جواں مرگی پر ایسا رویا ک دو ہ ۔گھگھی بندھ گئی

اتھ پھیرت جات تھ ےداؤ جی بڑ پیار س میر سر پر ے ے ہ ے ے ے ۔اور ک ر تھ "بس اب چپ کر شاباشمیرا اچھا بیٹا اس ے ہے ہہ

یں جگاؤں گا ، پھر ن ۔وقت ی ترجم کر د ہ ے ہ ہ "

ا "آج ا تھا میں ن جل کر ک ہآنسوؤں کا تار ٹوٹتا جا ر ے ۔ ہ ےحرامزاد رانو کو پکڑ کر ل گئ کل کسی اور کو پکڑ ے ے

ہلیں گ آپ کا ترجم تو ے۔ "

ا" ا "میرا تیرا وعد ر وں ن بات کاٹ کر ک یں" ان یں ن ہن ہ ہ ے ہ ہ ہ ہآج ک بعد رات کو جگا کر کچھ ن پوچھوں گاشاباش اب ے " میں ن روٹھ ےبتا "تھان والوں ن رانو کو گرفتار کر لیا ۔ ے ے

یں آتا ا "مجھ ن ۔کر ک ہ ے ہ "

ا" اتھ اٹھا کر ک وں ن سر س " ان یں ک دیتا ~ ن ہفورا ہ ے ے ہ ہے ہہ ہ یں کرتا!" میں ن جل کر جواب دیا " "ن ۔"کوشش تو کرو ے ہ ۔

نس اور بول "کارکنانl گزم خان رانو را ہاس پر و ذرا ہ ے ے ہ ہ یں نیا ، تھان وال بھولنا ن ہتوقیف کردندکارکنانl گزم خان ے۔ ے ہ ہ

و ، دس مرتب ک ۔لفظ نئی ترکیب ہ ہ ہے ہے۔ "

یں، نا چار گزم خان ہمجھ پت تھا ک ی بال ٹلن والی ن ہ ہ ے ہ ہ ہ ے اڑ شروع کر دیا، جب دس مرتب ک چکا تو داؤ ہہوالوں کا پ ہ ہ ہ

و ا اب سارا فقر پانچ بار ک ۔جی ن بڑی لجاجت س ک ہ ہ ہ ے ے وں ن مجھ آرام وئی تو ان ےجب پنجگان مصیبت بھی ختم ے ہ ہ ہ

ا وئ ک وئ اور رضائی اوڑھات ۔س بسترمیں لٹات ہ ے ہ ے ے ہ ے ے

Page 96: اردو ادب کے مشہور افسانے

" پھر و جدھر س ی پوچھوں گا یں! صبح اٹھت ے"بھولنا ن ہ ۔ ہ ے ہ ے۔آئ تھ ادھر لوٹ گئ ے ے

ےشام کو جب میں مال جی س سیپار کا سبق ل کر لوٹتا ے ے و کر اپن گھر جایا کرتا اس ۔تو خراسیوں والی گلی س ے ہ ے ے۔گلی میں طرح طرح ک لوگ بست تھ مگر میں صرف ے ے م سب "کدو کریال ہموٹ ماشکی س واقف تھا جس کو ے ے

ت تھ " ک ے۔ڈھائی آن ے ہ ے

ےماشکی ک گھر ک ساتھ بکریوں کا ایک باڑ تھا جس ک ہ ے ے ےتین طرف کچ پک مکانوں کی دیواریں اور سامن آڑی ے ے ترچھی لکڑیوں اور خار دار جھاڑیوں کا اونچا اونچا جنگال

ار ہتھا اس ک بعد ایک چوکور میدان آتا تھا، پھر لنگڑ کم ے ے ۔ ےکی کوٹھڑی اور اس ک ساتھ گیرو رنگی کھڑکیوں اور ۔پیتل کی کیلوں وال دروازوں کا ایک چھوٹا سا پکا مکان ے وتا اور قدر تنگ ےاس ک بعد گلی میں ذرا سا خم پیدا ہ ے ہو جاتی پھر جوں جوں اس کی لمبائی بڑھتی توں توںے۔اس ک دونوں بازو بھی ایک دوسر ک قریب آت جات ے ے ے ے

مار قصب کی سب س لمبی گلی تھی اور حد ےشاید و ے ے ہ ہ میش وئ مجھ ہس زیاد سنسان! اس میں اکیل چلت ہ ے ے ہ ے ے ہ ے ا ہیوں لگتا تھا جیس میں بندوق کی نالی میں چال جا ر ے

ر نکلوں گا زور ان س با ی میں اس ک د ہوں اور جون ے ے ہ ے ہ ہو گا اور میں مر جاؤں گا مگر شام ک ےس "ٹھائیں" ۔ ہ ے

گیر اس گلی میں ضرور مل جاتا ہوقت کوئی ن کوئی را ہ ےاور میری جان بچ جاتی ان آن جان والوں میں کبھی ے ۔ وتا ہکبھار ایک سفید سی مونچھوں واال لمبا سا آدمی ت ملتی تھی ۔جس کی شکل بار ما وال ملکھی س ب ہ ے ے ہ ہ

ہسر پر ململ کی بڑی سی پگڑی ذرا سی خمید کمر پر ۔ ہخاکی رنگ کا ڈھیال اور لمبا کوٹ کھدر کا تنگ پائجام اور ۔ ی عمر کا ہپاؤں میں فلیٹ بوٹ اکثر اس ک ساتھ میری ے ۔

ن وتا جس ن عین اسی طرح ک کپڑ پ ےایک لڑکا بھی ہ ے ے ے ہ ےوت اور و آدمی سر جھکائ اور اپن کوٹ کی جیبوں ے ہ ے ہست اس س باتیں کیا کرتا جب و ست آ اتھ ڈال آ ہکی ۔ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ےمیر برابر آت تو لڑکا میری طرف دیکھتا تھا اور میں ے ےاس کی طرف اور پھر ایک ثانی ٹھٹھک بغیر گردنوں کو ہ

م اپنی اپنی را پر چلت جات ے۔ذرا ذرا موڑت ے ہ ہ ے

Page 97: اردو ادب کے مشہور افسانے

ڑ س مچھلیاں ےایک دن میں اور میرا بھائی ٹھٹھیاں ک جو ہ ے ےپکڑن کی ناکام کوشش ک بعد قصب کو واپس آ ر تھ ہے ہ ے ے

ی آدمی اپنی پگڑی گود میں ڈال بیٹھا ر ک پل پر ی ےتو ن ہ ے ہ ےتھا اور اس کی سفید چٹیا میری مرغی ک پر کی طرح

وئی تھی اس ک قریب س ےاس ک سر س چپکی ے ۔ ہ ے ے اتھ رکھ کر زور س وئ میر بھائی ن ماتھ پر ےگزرت ہ ے ے ے ے ہ ے

ال کر جواب "داؤ جی سالم" اور داؤ جی ن سر ہسالم کیا ے ۔ و ۔دیا "جیت ر ہ ے ۔ "

ےی جان کر ک میرا بھائی اس س واقف میں ب حد ہے ے ہ ہ وا اور تھوڑی دیر بعد اپنی منمنی آواز میں چالیا ۔خوش ہ

۔"داؤ جی سالم "

اتھ اوپر اٹھا کر" وں ن دونوں و!!" ان و جیت ر ہجیت ر ے ہ ہ ے ۔ ہ ے ا اور میر بھائی ن پٹاخ س میر زناٹ کا ایک تھپڑ ےک ے ے ے ے ہ

۔دیا

" و چیخا جب میں ن سالم کر دیا تو" ، کت ےشیخی خور ۔ ہ ے ے ر بات میں اپنی ٹانگ ہتیری کیا ضرورت ر گئی تھی؟ ہ

؟ "بھال کون و ہپھنساتا کمین ہے ہ ہے "

" ا ۔داؤ جی" میں ن بسور کر ک ہ ے

" ۔کون داؤ جی" میر بھائی ن تنک کر پوچھا ے ے

" ا یں" میں ن آنسو پی کر ک ۔و جو بیٹھ ہ ے ہ ے ہ

" ۔بکواس ن کر" میرا بھائی چڑ گیا اور آنکھیں نکال کر بوال ہ ۔ر بات میں میری نقل کرتا کتاشیخی خورا ہے "ہ

ا یں بوال اور اپنی خاموشی ک ساتھ را چلتا ر ۔میں ن ہ ہ ے ہ ےدراصل مجھ اس بات کی خوشی تھی ک داؤ جی س ہ ے

و گیا اس کا رنج ن تھا ک بھائی ن میر تھپڑ ےتعارف ے ہ ہ ۔ ہ ر ہکیوں مارا و تو اس کی عادت تھی بڑا تھا نا اس لئ ے ۔ ہ ۔

۔بات میں اپنی شیخی بگھارتا تھا

ی گئی تھی اس لئ میں و ےداؤ جی س علیک سلیک تو ہ ہ ے ہکوشش کر ک گلی میں س اس وقت گزرن لگا جب و ے ے ے

یں سالم کر ک بڑا مزا آتا تھا اور جواب پا وں ان ےآ جا ر ہ ۔ ہ ہے و کچھ ہکر اس س بھی زیاد اس س بھی زیاد جیت ر ے ہ۔ ے ہ ے

Page 98: اردو ادب کے مشہور افسانے

و سی جاتی اور ت ک زندگی دو چند ہایسی محبت س ک ہ ے ہ ے وا میں چلن لگتاسالم کا ےآدمی زمین س ذرا اوپر اٹھ کر ہ ے ا اور اس اثناء میں ی چلتا ر ہی سلسل کوئی سال بھر یون ہ ہ ہ

و سکا ک داؤ جی گیرو رنگی ہمجھ اس قدر معلوم ہ ے یں اور چھوٹا سا لڑکا ان ت ہکھڑکیوں وال مکان میں ر ے ہ ے ےکا بیٹا میں ن اپن بھائی س ان ک متعلق کچھ اور ے ے ے ہے۔

ا مگر و بڑا سخت آدمی تھا اورمیری ہبھی پوچھنا چا ہ ر سوال ک جواب میں ےچھوٹی بات پر چڑ جاتا تھا میر ہ ے ۔

وت تھ "تجھ ےا س ک پاس گھڑ گھڑائ دو فقر ے۔ ے ہ ے ے ے ے ےکیا" اور "بکواس ن کر" مگر خدا کا شکر میر تجسس ہے ہ ہکا ی سلسل زیاد دیر تک ن چال اسالمی پرا ئمری سکول ۔ ہ ہ ہ ہ ائی سکول کی ہس چوتھی پاس کر ک میں ایم بی ۔ ے ے ی داؤ جی کا لڑکا وا تو و ہپانچویں جماعت میں داخل ہ

م جماعت نکال اس کی مدد س اور اپن بھائی کا ےمیرا ے ۔ ہ ےاحسان اٹھائ بغیر میں ی جان گیا ک داؤ جی کھتری تھ ہ ہ ے ےاور قصب کی منصفی میں عرضی نویسی کا کام کرت ہ

ہتھ لڑک کا نام امی چند تھا اور و جماعت میں سب ے ے۔ شیار تھا اس کی پگڑی کالس بھر میں سب ۔س زیاد ہ ہ ے

ر بلی کی طرح چھوٹا چند لڑک ےس بڑی تھی اور چ ۔ ہ ہ ے ت تھ اور باقی نیوال ک کر پکارت تھ مگر ےاس میاؤں ک ے ہہ ے ے ہ ے ی س پکارتا ےمیں داؤ جی کی وج س اس ک اصلی نام ہ ے ے ہ

م ن ایک دوسر ےتھا اس لئ و میرا دوست بن گیا اور ے ہ ہ ے ۔ ۔کو نشانیاں د کر پک یار بنن کا وعد کر لیا تھا ہ ے ے ے

و گا فت ون میں کوئی ایک ہگرمیوں کی چھٹیاں شروع ہ ہ ے ہ لی مرتب اس ک گھر گیا و ہجب میں امی چند ک ساتھ پ ۔ ے ہ ہ ے ر تھی لیکن شیخ ہگرمیوں کی ایک جھلسا دین والی دوپ ے انیاں حاصل کرن کا شوق مجھ پر بھوت بن ےچلی کی ک ہ ہکر سوار تھا اور میں بھوک اور دھوپ دونوں س ب پروا ے ے

۔و کر سکول س سیدھا اس ک ساتھ چل دیا ے ے ہ

ی صاف ستھرا ت ہامی چند کا گھر چھوٹا سا تھا لیکن ب ہ ےاور روشن پیتل کی کیلوں وال درواز ک بعد ذرا سی ے ے ۔ ےڈیوڑھی تھی آگ مستطیل صحن، سامن سرخ رنگ کا ے ۔

ی بڑا کمر صحن میں ایک ہ۔برآمد اور اس ک پیچھ اتنا ہ ے ے ہ ےطرف انار کا پیڑ عقیق ک چند پود اور دھنیا کی ایک ے ۔

Page 99: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔چھوٹی سی کیار ی تھی دوسری طرف چوڑی سیڑھیوں ےکا ایک زین جس کی محراب تل مختصر سی رسوئی ہ

ہتھی گیرو رنگی کھڑکیاں ڈیوڑھی س ملحق بیٹھک میں ے ۔ م ہکھلتی تھیں اور بیٹھک کا درواز نیل رنگ کا تھا جب ۔ ے ہ

وئ تو امی چند ن چال کر "ب ب ےڈیوڑھی میں داخل ے ے ے ہ ا اور مجھ صحن ک بیچوں بیچ چھوڑ کر !" ک ےنمست ے ہ ے

ےبیٹھک میں گھس گیا برآمد میں بوریا بچھائ ب ب ے ے ے ۔ ی ایک لڑکی بڑی ی تھی اور اس ک پاس ہمشین چال ر ے ہ

ی ی تھی ب ب ن من ہسی قینچی س کپڑ قطع کر ر ہ ے ے ے ۔ ہ ے ے ی ی مشین چال تی ر ۔من میں کچھ جواب دیا اور ویس ہ ہ ے ہ

یں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور گردن موڑ ہلڑکی ن نگا ے ا "ب ب شاید ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے۔کر ک ے ے ۔ ہ "

۔مشین رک گئی

" اتھ ک اشار س ا اور اں" ب ب ن مسکرا کر ک ےاں ے ے ہ ہ ے ے ے ہ ہےمجھ اپنی طرف بالیا میں اپن جز دان کی رسی مروڑتا ۔ ے ےاور ٹیڑھ ٹیڑھ پاؤں دھرتا برآمد ک ستون ک ساتھ آ ے ے ے ے

۔لگا

" ارا" ب ب ن چمکار کر پوچھا اور میں ن ےکیا نام تم ے ے ے ہ ہے ت ست س اپنا نام بتا دیا "آفتاب س ب یں جھکا کر آ ہنگا ے ۔ ے ہ ہ ہ ا " اس لڑکی ن قینچی زمین پر رکھ کر ک ۔شکل ملتی ہ ے ہے۔

ے" نا ب ب ؟ ے ہے "

" وا یں بھائی جو ۔کیوں ن ہ ہ "

ےآفتاب کیا؟" اندر س آواز آئی، آفتاب کیا بیٹا؟" "

ا "امی" وئ ک ۔آفتاب کا بھائی داؤ جی" لڑکی ن رکت ہ ے ہ ے ے ہے ہے۔چند ک ساتھ آیا ے "

وں ن گھٹنوں تک اپنا وئ ان ےاندر س داؤ جی برآمد ہ ے۔ ہ ے وا تھا مگر سر پر پگڑی ۔پائجام چڑھا رکھا اور کرت اتارا ہ ہ ہ لکی سی بالٹی اٹھا و برآمد میں ےبدستور تھی پانی کی ہ ہ ۔ اں وئ بول " ہآ گئ اور میری طرف غور س دیکھت ے۔ ے ہ ے ے ے ت دبال اور ی گولو ت شکل ملتی مگر میرا آفتاب ب ہب ہے ہ ہے ہ

وں ن میر " پھر بالٹی فرش پر رکھ ک ان ےمولو سا ے ہ ے ہے۔ اتھ پھیرا اور پاس کا ٹھ کا ایک اسٹول کھینچ کر اس ہسر

Page 100: اردو ادب کے مشہور افسانے

ست س وں ن آ ےپر بیٹھ گئ زمین س پاؤں اٹھا کر ان ہ ہ ے ہ ے ے۔ یں جھاڑا اور پھر بالٹی میں ڈال دئ "آفتاب کا خط آتا ے۔ان ہ وں ن بالٹی س پانی ک چلو بھر بھر کر ٹانگوں ے؟" ان ے ے ہ ہےا ول س ک وئ پوچھا "آتا جی" میں ن ۔پر ڈالت ہ ے ے ہ ے ہے ۔ ے ہ ے

۔"پرسوں آیا تھا "

" ؟" ۔کیا لکھتا ہے

" یں جی، ابا جی کو پت ہے۔پتا ن ہ ہ "

ا "تو ابا جی س پوچھا کرنا!" ال کر ک وں ن سر ےاچھا" ان ۔ ہ ہ ے ہ وتا یں یں اس کسی بھی بات کا علم ن ۔جو پوچھتا ن ہ ہ ے ہ "

ا ۔میں چپ ر ہ

وئ پوچھا ی چلو ڈالت وں ن ویس ۔تھوڑی دیر ان ے ہ ے ہ ے ے ہ و؟ ہ"کونسا سیپار پڑھ ر ہے ہ "

" ۔چوتھا" میں ن وثوق س جواب دیا ے ے

" وں ن پوچھا ۔کیا نام تیسر سیپار کا؟" ان ے ہ ے ے ہے

" یں پت "میری آواز پھر ڈوب گئی ۔جی ن ہ۔ ہ

ا پھر" ر نکال کر ک اتھ با وں ن پانی س ۔تلک الرسل" ان ہ ہ ہ ے ے ہ رات ر ب وا میں ل اتھ جھٹکت اور ےتھوڑی دیر بعد و ہے۔ ے ہ ہ ے ہ ہ ی و لڑکی نعمت خان س روٹی ےب مشین چالتی ر ے ہ ۔ ہ ے

ےنکال کر برآمد کی چوکی پر لگان لگی اور میں جزدان ے ا امی چند ابھی تک بیٹھک ک ےکی ڈوری کو کھولتا لپیٹتا ر ۔ ہ ی تھا اور میں ستون ک ساتھ ساتھ جھینپ کی ےاندر ہ

یں ~ داؤ جی ن نگا ا تھا، معا رائیوں میں اترتا جا ر ہعمیق گ ے ہ ہ ا ہمیری طرف پھیر کر ک

" ۔سورة فاتح سناؤ ہ "

" ا و کر ک یں آتی جی" میں ن شرمند ۔مجھ ن ہ ہ ہ ے ہ ے

وں ن حیرانی س میری طرف دیکھا اور پوچھا ےان ے ہ ؟ یں جانت ے"الحمدلل بھی ن ہ ہ "

" ا وں جی" میں ن جلدی س ک ۔الحمدلل تو میں جانتا ہ ے ے ہ ہ

Page 101: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ن لگ "ایک ہو ذرا مسکرائ اور گویا اپن آپ س ک ے۔ ے ہ ے ے ے ہ وں ن سر ک اشار !!" پھر ان ی بات ! ایک ےبات ے ے ہ ہے ہ ہے

وں ن اپنا پائجام ا سناؤ جب میں سنان لگا تو ان ہس ک ے ہ ے ۔ ہ ے ےگھٹنوں س نیچ کر لیا اور پگڑی کا شمل چوڑا کر ک ہ ے ے

ا تو میر �ن� ک �ی ہکندھوں پر ڈال دیا اور جب میں ن و�ال� الض�ال ے وا ک و ا مجھ خیال وں ن بھی آمین ک ی ان ہ ساتھ ہ ہ ے ۔ ہ ے ہ ہ ےلی مرتب ہابھی اٹھ کر مجھ کچھ انعام دیں گ کیونک پ ہ ہ ے ے

وں ہجب میں ن اپن تایا جی کو الحمدلل سنائی تھی تو ان ہ ے ے ی ایک روپی ا تھا اور ساتھ ی آمین ک ہن بھی ایس ہ ہ ہ ے ے

ہےمجھ انعام بھی دیا تھا مگر داؤ جی اسی طرح بیٹھ ر ے ۔ ے و گئ اتن میں امی چند کتاب تالش ےبلک اور بھی پتھر ے۔ ہ ہ ےکر ک ل آیا اور جب میں چلن لگا تو میں ن عادت ک ے ے ے ے وں ن ویس ا "داؤ جی سالم" اور ان ست س ک ےخالف آ ے ہ ہ ے ہ ہ

و ول س جواب دیا "جیت ر ۔ی ڈوب ڈوب ہ ے ۔ ے ے ہ ے ے "ہ

ا "کبھی کبھی امی چند ک ےب ب ن مشین روک کر ک ہ ے ے ے ۔ساتھ کھیلن آ جایا کرو ے "

اں آ جایا کر" داؤ جی چونک کر بول "آفتاب بھی" ے۔اں ہ ہمارا ا " وئ ک وں ن بالٹی پر جھکت ہآیا کرتا تھا" پھر ان ہ ے ہ ے ے ہ و گیا اور فارسی کا شعر سا ت دور م س ب ہآفتاب تو ہ ے ہ

ے۔پڑھن لگ ے

لی باقاعد مالقات تھی اور اس ہی داؤ جی س میری پ ہ ے ہ ےمالقات س میں ی نتائج اخذ کر ک چال ک داؤ جی بڑ ہ ے ہ ے ر س یں اور کچھ ب یں حد س زیاد چپ ےکنجوس ے ہ ہ ہ ے ۔ ہ

ہیں اسی دن شام کو میں ن اپنی اماں کو بتایا ک میں ے ۔ ہہےداؤ جی ک گھر گیا تھا اور و آفتاب بھائی کو یاد کر ر ہ ے

ے۔تھ

ا "تو مجھ س پوچھ تو لیتا ۔اماں ن قدر تلخی س ک ے ہ ے ے ے ت عزت ا اور ان کی ب ہب شک آفتاب ان س پڑھتا ر ہے ہ ے ے

یں کسی بات یں ۔کرتا مگر تیر اباجی ان س بولت ن ہ ہ ے ے ے ہے و گیا تھا سو اب تک ناراضگی چلی آتی اگر ہے۔پر جھگڑا ہ ، وں گ اں گیا تھا تو و خفا یں پت چل گیا ک تو ان ک ےان ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ا "اپن ابا س اس کا ذکر ن مدرد بن کر ک ہپھر اماں ن ے ے ہ ہ ے

۔کرنا "

Page 102: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےمیں ابا جی س بھال اس کا ذکر کیوں کرتا، مگر سچی ا اور خوب خوب اں جاتا ر ہبات تو ی ک میں داؤ جی ک ہ ے ہ ہے ہ

ا ۔ان س معتبری کی باتیں کرتا ر ہ ے

ست س وت میں آ ےو چٹائی بچھائ کوئی کتا ب پڑھ ر ہ ہ ے۔ ہ ہے ے ہ و جاتا اور و کتاب بند کر ک ےان ک پیچھ جا کر کھڑا ہ ہ ے ے

ت نس کر ک ت "گول آ گیا" پھر میری طرف مڑت اور ےک ہ ہ ے ے ہ ے"کوئی گپ سنا" اور میں اپنی بساط ک اور سمجھ ک ے ہمطابق ڈھونڈ ڈھانڈ ک کوئی بات سناتا تو و خوب ے نست حاالنک مجھ اب ی میر لئ ےنست بس یون ہ ے ہ ے ے ہ ے۔ ہ

وتی وتا ک و ایسی دلچسپ باتیں بھی ن ہمحسوس ہ ہ ہ ہے ہ ت ل ےتھیں، پھر و اپن رجسٹر س کوئی کاغذ نکال کر ک ے ہ ے ے ہ

ےایک سوال نکال اس س میری جان جاتی تھی لیکن ان ۔ وتا تھا ک ایک سوال اور پندر منٹ ہکا وعد بڑا رسیال ہ ہ ہ

۔باتیں اس ک بعد ایک اور سوال اور پھر پندر منٹ گپیں ہ ے ۔ ےچنانچ میں مان جاتا اور کاغذ ل کر بیٹھ جاتا لیکن ان ک ے ہ وت ک اگلی باتوں ہخود ساخت سوال کچھ ایس الجھ ے ہ ے ے ہ

۔اور اگل سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا اگر خوش ے اتھ لگا و جاتا تو و چٹائی کو ہقسمی س سوال جلد حل ہ ہ ے ؟ "چٹائی" میں من پھاڑ کر جواب دیتا ہکر پوچھت ی کیا ہے ہ ے ت "فارسی میں بتاؤ" تو میں ال کر ک وں" و سر ے"اوں ہ ہ ہ ہ میں کوئی فارسی پڑھائی ہتنک کر جواب دیتا "لو جی وں ت "میں جو پڑھاتا " اس پر و چمکار کر ک ہجاتی ے ہ ہ ہے وںسنو! فارسی میں بوریا، عربی ہگولومیں جو سکھاتا تا "بخشو اتھ جوڑ کر ک ہمیں حصیر" میں شرارت س ہ ے یں پڑھتا ہجی بخشو، فارسی بھی اور عربی بھی میں ن ہےمجھ معاف کرو" مگر و سنی ان سنی ایک کر ک ک ے ہ ے ےجات فارسی بوریا، عربی حصیر اور پھر کوئی چا اپن ہے ۔ ے ےکانوں میں سیس بھر لیتا داؤ جی ک الفاظ گھست چل ے ے ۔ ہ

امی چند کتابوں کا کیڑا تھا سارا دن بیٹھک میں ۔جات تھ ے ے تا داؤ جی اس ک اوقات میں مخل ن ہبیٹھا لکھتا پڑھتا ر ے ۔ ہ

وت ، لیکن ان ک داؤ امی چند پر بھی برابر ےوت تھ ہ ے ے ے ہ، و اپنی نشست س اٹھ کر گھڑ س پانی پین آیا، ےتھ ے ے ے ہ ے یں اٹھا کر پوچھا "بیٹا؟؟؟؟ کیا ۔داؤ جی ن کتاب س نگا ہ ے ے ا اور ہ اس ن گالس ک ساتھ من لگائ لگائ "ڈیڈ" ک ے ے ہ ے ے ہے۔۔پھر گالس گھڑونچی تل پھینک کر اپن کمر میں آگیا ے ے ے

Page 103: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گئ گھر میں ان کو ے۔داؤ جی پھر پڑھن میں مصروف ہ ے م سب اس بی بی ک کر ہہاپنی بیٹی س بڑا پیار تھا ے ہ ۔ ے

وا تھا ۔پکارت تھ اکیل داؤ جی ن اس کا نام قرة رکھا ہ ے ے ے۔ ے ت "قرة بیٹی ی قینچی تجھ انک لگا کر ک ہاکثر بیٹھ بیٹھ ے ہ ہ ے ے ےس کب چھوٹ گی؟" اور و اس ک جواب میں مسکرا ہ ے ے و جاتی ب ب کو اس نام س بڑی چڑ تھی ۔کر خاموش ے ے ے ۔ ہ

ۃو چیخ کر جواب دیتی "تم ن اس کا نام قر رکھ کر اس ے ۔ ہ و تو یں من اچھا ن ہک بھاگ میں کرت سین لکھوا دئ ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ے ئیں" اور داؤ جی ایک لمبی سانس ہشبد تو اچھ نکالن چا ے ے

ل اس کا مطلب کیا جانیں" اس پر ب ب ت "جا ےل کر ک ے ہ ے ہ ے تی ہکا غص چمک اٹھتا اور اس ک من میں جو کچھ آتا ک ہ ے ہ

، پھر بد دعائیں اور آخر میں ل کوسن ےچلی جاتی پ ے ہ ۔ وائیں ت " ہگالیوں پر اتر آتی بی بی رکتی تو داؤ جی ک ے ہ ۔

یں روکو یں بیٹا اور گالیاں برسن کو، تم ان وتی ہچلن کو ے ہ ہ ے یں ٹوکو مت پھر و اپنی کتابیں سمیٹت اور اپنا ےمت، ان ہ ۔ ہ ے۔محبوب حصیر اٹھا کر چپک س سیڑھیوں پر چڑھ جات ے ے

ےنویں جماعت ک شروع میں مجھ ایک بری عادت پڑ ے ے۔گئی اور اس بری عادت ن عجیب گل کھالئ حکیم علی ے ی حکیم تھ عالج مار قصب ک ایک ے۔احمد مرحوم ہ ے ے ے ہ

ہمعالج س ان کو کچھ ایسی دلچسپی ن تھی لیکن باتیں ے ہ ، جنوں بھوتوں ےبڑی مزیدار سنات تھ اولیاؤں ک تذکر ے ے۔ ے انیاں اور حضرت سلیما اور ملک سبا کی گھریلو ہکی ک ن� ہ دف ٹوٹک تھ ان ک ےزندگی کی داستانیں ان ک تیر ب ے۔ ے ہ ے

ےتنگ و تاریک مطب میں معجون ک چند ڈبوں، شربت کی ےدس پندر بوتلوں اور دو آتشی شیشیوں ک سوا اور کچھ ہ

ہن تھا دواؤں ک عالو و اپنی طلسماتی تقریر اور ہ ے ۔ ہ ےحضرت سلیما ک خاص صدری تعویذوں س مریض کا ے ن� ی باتوں ک لئ دور دراز گاؤں ک ےعالج کیا کرت تھ ان ے ے ہ ے۔ ے

و کر ہمریض ان ک پاس کھنچ چل آت اور فیض یاب ے ے ے ے فت کی صحبت میں میرا ان ک ساتھ ایک فت دو ےجات ہ ہ ہ ہ ے۔

سپتال س ان ک لئ خالی و گیا، میں اپن د ےمعا ے ے ہ ے ہ ہ ہ ےبوتلیں اور شیشیاں چرا ک التا اور اس ک بدل و مجھ ہ ے ے ے

ے۔داستانl امیر حمز کی جلدیں پڑھن ک لئ دیا کرت ے ے ے ہ

ہی کتابیں کچھ ایسی دلچسپ تھیں ک میں رات رات بھر ہ یں پڑھا کرتا اور صبح دیر تک ہاپن بستر میں دبک کر ان ے

Page 104: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا، اماں میر اس روی س سخت ناالں تھیں، ابا ےسویا ر ے ے ہ ون کا خطر الحق تھا لیکن ہجی کو میری صحت برباد ے ہ

ےمیں ن ان کو بتا دیا تھا ک چا جان چلی جائ اب ک ے ہے ہ ے ۔دسویں میں وظیف ضرور حاصل کروں گا رات طلسم ہ

و وتی اور دن بینچ پر کھڑ ہوشربا ک ایوانوں میں بسر ے ہ ے ہی وت بچا ششما وت ی امتحان میں فیل ہکر، س ما ۔ ے ہ ے ہ ہ ہ

ےمیں بیمار پڑ گیا اور ساالن امتحان ک موقع پر حکیم جی ہ و گیا ۔کی مدد س ماسٹروں س مل مال کر پاس ہ ے ے

، فسان آزاد اور الف لیلیP ساتھ ۂدسویں میں صندلی نام ہ ، فسان آزاد اور صندلی نام گھر پر رکھ ےساتھ چلت تھ ہ ۂ ے ے تی ، لیکن الف لیلیP سکول ک ڈیسک میں بند ر ۔تھ ہ ے ے ازی ک ےآخری بینچ پر جغرافی کی کتاب تل سند باد ج ہ ے ہ

ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتابائیسہمئی کا واقع ک صبح دس بج یونیورسٹی س نتیج کی ے ے ہ ہے ہ

نچی امی چند ن صرف ائی سکول پ ہکتاب ایم بی ۔ ہ ہ ۔ ےسکول میں بلک ضلع بھر میں اول آیا تھا چھ لڑک فیل ۔ ہ ہتھ اور بائیس پاس حکیم جی کا جادو یونیورسٹی پر ن ۔ ے ےچل سکا اور پنجاب کی جابر دانش گا ن میرا نام بھی ہ ی ن ےان چھ لڑکوں میں شامل کر دیا اسی شام قبل گا ہ ہ ۔

ر نکال دیا میں ۔بید س میری پٹائی کی اور گھر س با ہ ے ے ٹ کی گدی پر آ بیٹھا اور رات گئ تک ےسپتال ک ر ہ ے ہئ ئ اور اب کدھر جانا چا ا ک اب کیا کرنا چا ے۔سوچتا ر ہ ے ہ ہ ہ

تھکنڈوں یں تھا اور میں عمرو عیار ک ہخدا کا ملک تنگ ن ے ہ ازی ک تمام طریقوں س واقف تھا مگر ےاور سند باد ج ے ہ

۔پھر بھی کوئی را سجھائی ن دیتی تھی کوئی دو تین ہ ہ ےگھنٹ اسی طرح ساکت و جامد اس گدی پر بیٹھا زیست

ا اتن میں اماں سفید چادر یں سوچتا ر ےکرن کی را ۔ ہ ہ ے ےاوڑھ مجھ ڈھونڈتی ڈھونڈتی ادھر آ گئیں اور اباجی ے

ےس معافی ل دین کا وعد کر ک مجھ پھر گھر ل ے ے ہ ے ے ے ہگئیں مجھ معافی وافی س کوئی دلچسپی ن تھی، ے ے ۔

اں گزارنی تھی اور ہمجھ تو بس ایک رات ا ور ان ک ی ے ے ونا تھا، چنانچ میں آرام ہصبح سویر اپن سفر پر روان ہ ہ ے ے ےس ان ک ساتھ جا کر حسب معمول اپن بستر پر دراز ے ے

۔و گیا ہ

Page 105: اردو ادب کے مشہور افسانے

ون وال ساتھیوں میں س خوشیا ےاگل دن میر فیل ے ے ہ ے ے ےکوڈو اور دیسو یب یب مسجد ک پچھواڑ ٹال ک پاس ے ے ور جا کر بزنس کرن کا پرو گرام بنا ےبیٹھ مل گئ و ال ہ ہ ے۔ ے

ور میں بڑا ہر تھ دیسو یب یب ن مجھ بتایا ک ال ہ ے ے ے۔ ہے ےبزنس کیونک اس ک بھایا جی اکثر اپن دوست فتح ے ہ ہے

ےچند ک ٹھیکوں کا ذکر کیا کرت تھ جس ن سال ک ے ے ے ے ےاندر اندر دو کاریں خرید لی تھیں میں ن ان س بزنس ے ۔

ور میں ا ال ہکی نوعیت ک بار میں پوچھا تو یب یب ن ک ہ ے ے ے ئ اور ونا چا ےر طرح کا بزنس مل جاتا بس ایک دفتر ہ ہ ہے۔ ہ۔اس ک سامن بڑا سا سائن بورڈ سائن بورڈ دیکھ کر ے ے

یں اس وقت بزنس س ی بزنس د جات ےلوگ خود ۔ ہ ے ے ہ ا تھا ۔مراد و کرنسی نوٹ ل ر ہ ے ہ

ی تو کوڈو چمک کر بوال ہمیں ن ایک مرتب پھر وضاحت چا ہ ے یں؟ ہ"یار دیسو سب جانتا ی بتا، تو تیار یا ن ہے ہ ہے۔ "

ےپھر اس ن پلٹ کر دیسو س پوچھا "انار کلی میں دفتر ے ےبنائیں گ نا؟ "

ا "انار کلی میں یا شا عالمی ک ےدیسو ن ذرا سوچ کر ک ہ ہ ے یں یں ایک سی ی جگ ر دونوں ۔با ہ ہ ہ ہ "

ی زیاد ا انار کلی زیاد مناسب کیونک و ہمیں ن ک ہ ہ ہے ہ ہ ے ار نکلت ور جگ اور اخباروں میں جتن بھی اشت ےمش ہ ے ہے ہ ہ

وتا ور لکھا ہے۔یں ان میں انار کلی ال ہ ہ "ہ

م ہچنانچ ی ط پایا ک اگل دن دو بج کی گاڑی س ے ے ے ہ ے ہ ہ و جائیں ور روان ہال ہ ہ !

نچ کر میں سفر کی تیاری کرن لگا بوٹ پالش کر ۔گھر پ ے ہ ا وئ ک ا تھا ک نوکر ن آ کر شرارت س مسکرات ہر ے ہ ے ے ے ہ ہ

یں ۔"چلو جی ڈاکٹر صاحب بالت ہ ے "

و" یں؟" میں ن برش زمین پر رکھ دیا اور کھڑا اں ہک ے ہ ہ ۔گیا

ا تھا کیونک میری" ہسپتال میں " و بدستور مسکرا ر ہ ہ ہےپٹائی ک روز حاضرین میں و بھی شامل تھا میں ڈرت ۔ ہ ے

ست س جالی واال ےڈرت برآمد کی سیڑھیاں چڑھا پھر آ ہ ہ ۔ ے ے ا ں وا تو و ہدرواز کھول کر اباجی ک کمر میں داخل ہ ے ے ہ

Page 106: اردو ادب کے مشہور افسانے

م م س ےان ک عالو داؤ جی بھی بیٹھ تھ میں ن س ہ ے ہ ے ے۔ ے ہ ے ےداؤ جی کو سالم کیا اور اس ک جواب میں بڑی دیر ک ے

و کی مانوس دعا سنی ۔بعد جیت ر ہ ے

" و؟" اباجی ن سختی س پوچھا چانت ۔ان کو پ ے ے ہ ے ہ

" ا ذب سیلزمین کی طرح ک ۔ب شک" میں ن ایک م ہ ہ ے ے

" ، میں تیری ی سب ، حرامزاد ۔ب شک ک بچ ہ ے ے ے ے "

ا "ی تو" اتھ اوپر اٹھا کر ک ہن ن ڈاکٹر صاحب" داؤ جی ن ہ ہ ے ہ ہ ی اچھا بچ اس کو تو ت ہےب ہ ہ ہ "

یں ا "آپ ن ہاور ڈاکٹر صاحب ن بات کاٹ کر تلخی س ک ہ ے ے ےجانت منشی جی اس کمین ن میری عزت خاک میں مال ے ے

۔دی "

" مار ا "ی ےاب فکر ن کریں " داؤ جی ن سر جھکائ ک ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ین اور ایک دن ہےآفتاب س بھی ذ ہ ے "

اتھ وں ن میز پر ہاب ک ڈاکٹر صاحب کو غص آگیا اور ان ے ہ ہ ے و منشی جی! ی آفتاب ک ا "کیسی بات کرت ےمار کر ک ہ ہ ے ہ

یں کر سکتا ۔جوت کی برابری ن ہ ے "

ےکر گا، کر گاڈاکٹر صاحب" داؤ جی ن اثبات میں سر" ے ے ا "آپ خاطر جمع رکھیں وئ ک ۔الت ہ ے ہ ے "ہ

اتھ رکھ ہپھر و اپنی کرسی س اٹھ اور میر کندھ پر ے ے ے ے ہ وں، تم بھی میر ساتھ آؤ، ےکر بول "میں سیر کو چلتا ہ ے

ے۔راست میں باتیں کریں گ ے "

ےاباجی اسی طرح کرسی پر بیٹھ غص ک عالم میں اپنا ے ے ست ست آ ہرجسٹر الٹ پلٹ کرت اور بڑبڑات ر میں ن آ ہ ہ ہ ے ہے۔ ے ے ےچل کر جالی واال درواز کھوال تو داؤ جی ن پیچھ مڑ کر ے ہ

ا ۔ک ہ

" ۔ڈاکٹر صاحب بھول ن جائی ابھی بھجوا دیجئ گا ے ے ہ "

ےداؤ جی ن مجھ ادھر ادھر گھمات اور مختلف درختوں ے ے اں ر ک اسی پل پر ل گئ ج ہک نام فارسی میں بتات ن ے ے ے ہ ے ے

Page 107: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا تھا اپنی مخصوص ل میرا ان س تعارف ل پ ۔پ ہ ے ہ ے ہ وں ن پگڑی اتار کر گود میں ڈال ےنشست پر بیٹھ کر ان ہ اتھ پھیرا اور مجھ سامن بیٹھن کا اشار کیا ۔لی سر پر ہ ے ے ے ہ

یں ا "آج س میں تم وں ن آنکھیں بند کر لیں اور ک ہپھر ان ے ہ ے ہ ہپڑھاؤں گا اور اگر جماعت میں اول ن ال سکا تو فرسٹ ر اراد میں خداوند ےڈویژن ضرور دلوا دوں گا میر ہ ے ۔

ستی ن مجھ وتی اور اس ےتعالیP کی مدد شامل ے ہ ہے ہ یں کیا ہاپنی رحمت س کبھی مایوس ن ے "

و گی" میں ن گستاخی س بات" ےمجھ س پڑھائی ن ے ہ ہ ے ۔کاٹی

" وں ن مسکرا کر پوچھا و گا گولو؟" ان ۔تو اور کیا ے ہ ہ

ا "میں بزنس کروں گا، روپی کماؤں گا اور اپنی ہمیں ن ک ہ ے اں ضرور آؤں گا، پھر دیکھنا" اب ک داؤ جی ےکار ل کر ی ہ ے

ا "خدا ایک ہن میری بات کاٹی اور بڑی محبت س ک ے ے ےچھوڑ تجھ دس کاریں د لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں ے

۔ن میں بیٹھوں گا ن ڈاکٹر صاحب ہ ہ "

یں ڈاکٹر ا "مجھ کسی کی پروا ن ہمیں ن جل کر ک ہ ے ہ ے اں خوش ۔صاحب اپن گھر راضی، میں اپن ی ہ ے ے "

یں؟" میں و کر پوچھا "میری بھی پروا ن وں ن حیران ہان ہ ہ ے ہ و گئ اور بار بار ی واال تھا ک و دکھی س ن ےکچھ ک ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

ے۔پوچھن لگ ے

یں؟" ہمیری بھی پروا ن ہ "

یں؟" ہاو گولو میری بھی پروا ن ہ "

ست س ج پر ترس آن لگا اور میں ن آ ےمجھ ان ک ل ہ ہ ے ے ے ہ ے ے وں ن میری بات ن سنی ا آپ کی تو مگر" مگر ان ہک ے ہ ہے ۔ ہ

ن لگ اگر اپن حضرت ک سامن میر من س ےاور ک ہ ے ے ے ے ے ے ہ ہہایسی بات نکل جاتی؟ اگر میں ی کفر کا کلم ک جاتا تو ہ ہ اتھ وں ن فورا پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی اور ہتو " ان ے ہ

ن لگ "میں حضور ک دربار کا ایک ادنیP کتا ۔جوڑ ک ے ے۔ ے ہ و کر آقا ہمیں حضرت موالنا کی خاک پا س بد تر بند ہ ے ل کا نتا؟ خاندانl ابو ج تا لعنت کا طوق ن پ ہس ی ک ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ۔خانواد اور آقا کی ایک نظر کرم حضرت کا ایک اشار ۔ ہ

Page 108: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں منشی ت ہحضور ن چنتو کو منشی رام بنا دیا لوگ ک ے ہ ۔ ے وں رحم الل علی کا کفش بردارلوگ تا ہجی، میں ک ہ ۃ ہ ہ ، کبھی سر اتھ جوڑت یں" داؤ جی کبھی ےسمجھت ہ ہ ے

ےجھکات کبھی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو لگات اور بیچ ے ے۔بیچ میں فارسی ک اشعار پڑھت جات میں کچھ پریشان ے ے ا تھا ست ک ر ست آ ہسا پشیمان سا، ان کا زانو چھو کر آ ہہ ہ ہ ہ ہ ے"داؤ جی! داؤ جی" اور داؤ جی "میر آقا، میر موالنا، ے

ے۔میر مرشد" کا وظیف کئ جات ے ہ ے

یں اوپر اٹھا کر بول وا تو نگا ےجب جذب کا ی عالم دور ہ ہ ہ ہے"کیا اچھا موسم دن بھر دھوپ پڑتی تو خوشگوار ہے

وتا " پھر و پل کی دیوار س اٹھ اور ےشاموں کا نزول ے ہ ہے ہ " میں ہے۔بول "چلو اب چلیں بازار س تھوڑا سودا خریدنا ے ے ےجیسا سرکش و بد مزاج بن کر ان ک ساتھ آیا تھا، اس یں زیاد منفعل اور خجل ان ک ساتھ لوٹا گھمس ےس ک ۔ ے ہ ہ ے وں ہپنساری یعنی دیسو یب یب ک باپ کی دکان س ان ے ے

ےن گھریلو ضرورت کی چند چیزیں خریدیں اور لفاف گود ے ، میں بار بار ان س لفاف لین کی ےمیں اٹھا کر چل دئ ے ے ے

مت ن پڑتی ایک عجیب سی شرم ایک ۔کوشش کرتا مگر ہ ہ ٹ مانع تھی اور اسی تامل اور جھجک چکچا ہانوکھی سی ہ

نچ گیا ۔میں ڈوبتا ابھرتا میں ان ک گھر پ ہ ے

اں سویا کرو ی ک نچ کر ی بھید کھال ک اب میں ان اں پ ہو ے ہ ہ ہ ہ ہ یں پڑھا کروں گا کیونک میرا بستر مجھ س ےں گا اور و ہ ۔ ہ

اں مار ی ی وا تھا اور اس ک پاس نچا اں پ ل و ہبھی پ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ری کین اللٹین بھی رکھی تھی وئی ایک ۔س بھیجی ہ ہ ے ےبزنس مین بننا اور پاں پاں کرتی پیکارڈ اڑائ پھرنا میر ے

ےمقدر میں ن تھا گو میر ساتھیوں کی روانگی ک ے ۔ ہ ور س پکڑ یں ال ی روز بعد ان ک والدین بھی ان ےتیسر ہ ہ ے ہ ے وتا تو شاید اس وقت انار ہالئ لیکن اگر میں ان ک ساتھ ے ے یں ترقی ک کون س شاندار مارا دفتر، پت ن ےکلی میں ے ہ ہ ہ

وتا و چکا ۔سال میں داخل ہ ہ

ہداؤ جی ن میری زندگی اجیرن کر دی، مجھ تبا کر دیا، ے ے مجھ پر جینا حرام کر دیا، سارا دن سکول کی بکواس

ےمیں گزرتا اور رات، گرمیوں کی مختصر رات، ان ک ، کوٹھ پر ان کی کھاٹ میر ےسواالت کا جواب دین ے ے

ہبستر ک ساتھ لگی اور و مونگ، رسول اور مرال کی ہ ہے ے

Page 109: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں، میں ن بالکل ٹھیک بتا دیا روں ک بابت پوچھ ر ےن ہ ہے ے ہ یں، میں ن پھر ٹھیک را ر ے، و پھر اسی سوال کو د ہ ہے ہ ہ ہے

، روں کو آگ ال کھڑا کیا ی ن وں ن پھر ان ہےبتا دیا اور ان ے ہ ہ ے ہ ہے یں یں پت میں ن تا "مجھ ن ہمیں جل جاتا اور جھڑک کر ک ہ ہ ے ہ

، میں و جات اور دم سادھ لیت ےبتاتا" تو و خاموش ے ہ ہ ہآنکھیں بند کر ک سون کی کوشش کرتا تو و شرمندگی ے ے

۔کنکر بن کر پتلیوں میں اتر جاتی

تا "داؤ جی ست س ک ۔میں آ ہ ے ہ ہ "

" ۔وں" ایک گھمبیر سی آواز آتی ہ

’ ۔دداؤ جی کچھ اور پوچھو "

م و کر تیر کوچ س ت ب آبرو ا "ب ہداؤ جی ن ک ے ے ے ہ ے ہ ہ ے ۔نکل اس کی ترکیب نحوی کرو ے۔ "

ت لمبا ا "جی ی تو ب ہمیں ن سعادت مندی ک ساتھ ک ہ ہ ے ے ے۔فقر صبح لکھ کر بتا دوں گا کوئی اور پوچھئ ہے ہ "

ا "میرا گولو وں ن آسمان کی طرف انگلی اٹھائ ک ہان ے ے ہ ت اچھا ہے۔ب ہ "

، ت اچھا صفت نا شروع کیا ب ہےمیں ن ذرا سوچ کر ک ہ ہ ے حرف ربط مل کر بنا مسند اور داؤ جی اٹھ کر چارپائی پر

ا ل بھی ک اتھ اٹھا کر بول جانl پدر، تجھ پ ہےبیٹھ گئ ہ ے ہ ے ے ہ ے۔ ل بنایا ہے۔مسند الی پ ے ہ ہ

ےمیں ن ترکیبl نحوی س جان چھڑان ک لئ پوچھا "آپ ے ے ے ے ؟ ت یں ک یں جانl داؤ کیوں ن ت ےمجھ جانl پدر کیوں ک ہ ہ ہ ے ہ ے "

ت "ایسی باتیں پوچھن کی" و کر ک ےشاباش" و خوش ے ہ ہ ہ یں جان لفظ فارسی کا اور داؤ بھاشا کا ان ک ےوتی ۔ ہے ۔ ہ ہ

یں لگ سکتی جو لوگ دن بدن ۔درمیان فارسی اضافت ن ہ و یں، روز بروز ک یں سخت غلطی کرت ہلکھت یا بولت ہ ے ہ ے ے

ےیا دن پر دن اسی طرح س "

Page 110: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہاور جب میں سوچتا ک ی تو ترکیبl نحوی س بھی زیاد ے ہ ہ وں تو جمائی ل کر پیار ےخطرناک معامل میں الجھ گیا ہ ے

ی ا "داؤ جی اب تو نیند آ ر ہےس ک ہ ہ ے !"

" ے۔۔اور و ترکیب نحوی؟" و جھٹ س پوچھت ے ہ ہ

زار ان کرتا ادھر ادھر کی ہاس ک بعد چا میں الکھ ب ے ہ ہے ے ، بلک ت ہباتیں کرتا، مگر و اپنی کھاٹ پر ایس بیٹھ ر ے ہ ے ے ہ

وئی پگڑی و جاتی تو کرسی پر رکھی ہاگر ذرا سی دیر ہ ر وتا ان ک ہاٹھا کر سر پر دھر لیت چنانچ کچھ بھی ے ۔ ہ ہ ے۔

۔سوال کا خاطر خوا جواب دینا پڑتا ہ

ےامی چند کالج چال گیا تو اس کی بیٹھک مجھ مل گئی اور ہداؤ جی ک دل میں اس کی محبت پر بھی میں ن قبض ے ے ت اچھ لگن لگ تھ لیکن ےکر لیا اب مجھ داؤ جی ب ے ے ے ہ ے ۔ ہان کی باتیں جو اس وقت مجھ بری لگتی تھیں و اب ۔ ے

، ل س بھی کسی قدر زیاد یں بلک اب پ ہبھی بری لگتی ے ے ہ ہ ہ ار طالب علم ون ہشاید اس لئ ک میں نفسیات کا ایک ہ ہ ے

ئی مکتب ک پرورد تھ سب ے۔وں اور داؤ جی پران م�ال� ہ ے ے ہن ےس بری عادت ان کی اٹھت بیٹھت سوال پوچھت ر ہ ے ے ے ے

ہکی تھی اور دوسری کھیل کود س منع کرن کی و تو ۔ ے ے ت تھ ک آدمی پڑھتا ر پڑھتا ر اور جب اس ہےبس ی چا ہے ہ ے ے ہ ہ ےمدقوق کی موت کا دن قریب آئ تو کتابوں ک ڈھیر پر ے

ےجان د د صحتl جسمانی قائم رکھن ک لئ ان ک ے ے ے ے۔ ے ی نسخ تھا، لمبی سیر اور و بھی صبح ہپاس بس ایک ہ ہ

~ سورج نکلن س دو گھنٹ پیشتر و مجھ ےکی تقریبا ہ ے ے ے ۔ ت "اٹھو گولو ال کر ک ےبیٹھک میں جگان آت اور کندھا ہ ہ ے ے اں ک والدین صبح جگان ک لئ و گیا بیٹا" دنیا ج ےموٹا ے ے ے ہ ہ

و گئی یا سورج نکل آیا مگر یں ک اٹھو بیٹا صبح ا کرت ہک ہ ہ ے ہ ، میں منمناتا و گیا" ک کر میری تذلیل کیا کرت ےو "موٹا ہہ ہ ہ و جائ گا بیٹا تو، گھوڑ پر ضلع ت "بھدا ےتو چمکار کر ک ے ہ ے ہ اتھ ہکا دور کیسا کر گا!" اور میں گرم گرم بستر س ے ے ہ

تا ہجوڑ کر ک

ےداؤ جی خدا ک لئ مجھ صبح ن جگاؤ، چا مجھ قتل" ہے ہ ے ے ے ۔کر دو، جان س مار ڈالو ے "

~ میر ےی فقر ان کی سب س بڑی کمزوری تھی و فورا ہ ے ہ ہ ر نکل جات ب ب کو ان ےسر پر لحاف ڈال دیت اور با ے ے۔ ہ ے

Page 111: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےداؤ جی س الل واسط کا بیر تھا اور داؤ جی ان س ے ہ ے ، و سارا دن محل والیوں ک کپڑ سیا ت ڈرت تھ ےب ے ے ہ ے ے ہ

۔کرتیں اور داؤ جی کو کوسن دئ جاتیں ان کی اس زبان ے ے ہدرازی پر مجھ بڑا غص آتا تھا مگر دریا میں ر کر مگر ہ ے و سکتا تھا کبھی کبھار جب و ناگفتنی ہمچھ س بیر ن ۔ ہ ہ ے

ےگالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں آ جات اور اتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جات تھوڑی دیر بعد ے۔کانوں پر ہ ت "غیبت کرنا بڑا گنا لیکن میرا خدا مجھ معاف ےک ہے ہ ے ہ

ےکر تیری ب ب بھٹیارن اور اس کی سرائ میں، میں، ہے ے ے ے م تینوں بڑ ےمیری قرة العین اور تھوڑا تھوڑا، تو بھی، ہ

یں " اور واقعی ب ب بھٹیارن سی تھی ۔عاجز مسافر ے ے ۔ ہ ےان کا رنگ سخت کاال تھا اور دانت ب حد سفید، ماتھا ہمحراب دار اور آنکھیں چنیاں سی چلتی تو ایسی گرب ۔ ) کٹنی ےپائی ک ساتھ جیس (خدا مجھ معاف کر ے ے ے

ہے۔کنسوئیاں لیتی پھرتی بچاری بی بی کو ایسی ایسی وا کرتی لکان تی ک و دو دو دن رو رو کر ۔بری باتیں ک ہ ہ ہ ہ ہ ہایک امی چند ک ساتھ اس کی بنتی تھی شاید اس وج ے م شکل تھ یا شاید اس وج س ک م دونوں ہس ک ے ہ ے ہ ہ ہ ے

۔اس کو بی بی کی طرح اپن داؤ جی س پیار ن تھا یوں ہ ے ے ت اچھی لگتی تھی مگر اس س ےتو بی بی ب چاری ب ہ ے

وں، ا ہمیری بھی ن بنتی میں کوٹھ پر بیٹھا سوال نکال ر ہ ے ۔ ہ یں اور بی بی اوپر برساتی س ےداؤ جی نیچ بیٹھ ہ ے ے

ےایندھن لین آئی تو ذرا رک کر مجھ دیکھا پھر منڈیر س ے ے ا، تنکوں کی طرح یں ر ہجھانک کر بولی، داؤ جی! پڑھ تو ن ہ

ا ہے۔چارپائیاں بنا ر ہ "

یں تا "تجھ کیا، ن ہمیں غصیل بچ کی طرح من چڑا کر ک ے ہ ہ ے آئی بڑی تھانیدارنی ۔پڑھتا، تو کیوں بڑ بڑ کرتی ہے "

ت "ن گولو مولو انک لگا کر ک ہاور داؤ جی نیچ س ے ہ ہ ے ے یں کرت نوں س جھگڑا ن ے۔ب ہ ے ہ "

وں جی، جھوٹ بولتی ا ہاور میں زور س چالتا "پڑھ ر ہ ے "ہے۔

ست سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جات اور ست آ ےداؤ جی آ ہ ہ ہ ہ ت "قرة ےکاپیوں ک نیچ نیم پوشید چارپائیاں دیکھ کر ک ہ ہ ے ے

Page 112: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےبیٹا تو اس کو چڑایا ن کر ی جن بڑی مشکل س قابو کیا ہ ۔ ہ ۔ اگر ایک بار بگڑ گیا تو مشکل س سنبھل گا ے ے "ہے۔

تی "کاپی اٹھا کر دیکھ لو داؤ جی اس ک نیچ ےبی بی ک ے ہ ا تھا ۔ و چارپائی جس س کھیل ر ہ ے ہ "ہے

وں س بی بی کو دیکھتا اور و لکڑیاں ر آلود نگا ہمیں ق ے ہ ہ ہاٹھا کر نیچ اتر جاتی پھر داؤ جی سمجھات ک بی بی ی ہ ے ۔ ے تی ورن اس کیا پڑی ک ہکچھ تیر فائد ک لئ ک ہے ے ہ ہے ہ ے ے ے ے

! مگر و ویا پاس اس کی بال س ہمجھ بتاتی پھر فیل ے ہ ے۔ ے تی اور داؤ جی کی تری چا ، تیری ب تی ہےتیری بھالئی چا ہ ہ ہے ہ

ر گز سمجھ میں ن آتی تھی میری شکایتیں کرن ےی بات ۔ ہ ہ ہ ۔والی میری بھالئی کیونکر چا سکتی تھی! ہ

ل داؤ جی ےان دنوں معمول ی تھا ک صبح دس بج س پ ہ ے ے ہ ہ اں س چل دیتا گھر جا کر ناشت کرتا اور پھر سکول ہک ۔ ے ہ ے نچ جاتا آدھی چھٹی پر میرا کھانا سکول بھیج دیا جاتا ۔پ ہ ون پر گھر آ ک اللٹین تیل س ےاور شام کو سکول بند ے ے ہ

اں آ جاتا پھر رات کا کھانا بھی ۔بھرتا اور داؤ جی ک ی ہ ے ی بھجوا دیا جاتا جن ایام میں ۔مجھ داؤ جی ک گھر ہ ے ے وتی، داؤ جی سکول کی گراؤنڈ میں آ کر ہمنصفی بند اں س گھر تک ےبیٹھ جات اور میرا انتظار کرن لگت و ہ ے۔ ے ے تی سکول میں جو کچھ پڑھایا گیا ۔سواالت کی بوچھاڑ ر ہ ، پھر مجھ گھر تک چھوڑ کر ےوتا اس کی تفصیل پوچھت ے ہمار قصب میں منصفی کا کام ہخود سیر کو چل جات ے ہ ے۔ ے وتا تھا اور بیس دن منصف صاحب ین میں دس دن ہم ے ہ تی تھی ی دس دن داؤ جی ری ضلع میں ر ادر کی کچ ہب ۔ ہ ہ ہ ری میں گزارت تھ ایک آدھ عرضی آ جاتی ے۔باقاعد کچ ے ہ ہ اں بھی ہتو دو چار روپ کما لیت ورن فارغ اوقات میں و ہ ے ے

۔مطالع کا سلسل جاری رکھت ب ب کا کام اچھا تھا اس ے ے ے۔ ہ ہ ےکی کتر بیونت اور محل والوں س جوڑ توڑ اچھ مالی ے ے ےنتائج پیدا کرتی تھی چونک پچھل چند سالوں س گھر کا ے ہ ۔ ہبیشتر خرچ اس کی سالئی س چلتا تھا، اس لئ و داؤ ے ے و گئی تھی ایک دن خالف معمول ۔جی پر اور بھی حاوی ہ ری بند ہداؤ جی کو لین میں منصفی چال گیا اس وقت کچ ۔ ے ےو گئی تھی اور داؤ جی نانبائی ک چھپر تل ایک بینچ پر ے ہ

ول س جا کر ان ےبیٹھ گڑ کی چائ پی ر تھ میں ن ے ہ ے ے۔ ہے ے ے ا یں ڈال کر ک ہکا بست اٹھا لیا اور ان ک گل میں بان ہ ے ے ہ

Page 113: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں ن میری طرف وں" ان ، آج میں آپ کو لین آیا ے"چلئ ہ ہ ے ے ، ایک آن جیب ہدیکھ بغیر چائ ک بڑ بڑ گھونٹ بھر ے ے ے ے ے ے

ےس نکال کر نانبائی ک حوال کیا اور چپ چاپ میر ے ے ے ے۔ساتھ چل دئ

، ب ب کو ا "گھر چلئ ےمیں ن شرارت س ناچ کر ک ے ے ہ ے ے یں اں چائ پیت ۔بتاؤں گا ک آپ چوری چوری ی ہ ے ے ہ ہ "

ےداؤ جی جیس شرمندگی ٹالن کو مسکرائ اور بول ے ے ے وتی اور گڑ کی چائ س ت اچھی ے"اس کی چائ ب ے ہے ہ ہ ے

و جاتی پھر ی ایک آن میں گالس بھر ک ےتھکن بھی دور ہ ہ ہے ہ نگام کھڑا نا، خوا مخوا ہدیتا تم اپنی ب ب س ن ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے ہے۔

و کر و کر کچھ مایوس وں ن خوفزد ہکر د گی پھر ان ہ ہ ے ہ ۔ ے " اس دن مجھ داؤ ی ایسی ا "اس کی تو فطرت ےک ہے۔ ہ ہ ت کچھ کرن کو ےجی پر رحم آیا میرا جی ان ک لئ ب ہ ے ے ۔ ی ن کا ن لگا مگر اس میں میں ن ب ب س ن ک ہچا ے ہ ہ ے ے ے ے ے ہ ت کچھ کیا جب اس واقع ہوعد کر ک ان ک ک لئ ب ۔ ہ ے ے ے ے ہ اتھ ہکا ذکر میں ن اماں س کیا تو و بھی کبھی میر ے ہ ے ے

اں دودھ، پھل اور ہاور کبھی نوکر کی معرفت داؤ جی ک ے ےچینی وغیر بھیجن لگیں مگر اس رسد س داؤ جی کو ے ہ وں میں اں ب ب کی نگا وا ہکبھی بھی کچھ نصیب ن ے ے ہ ۔ ہ ہ

ےمیری قدر بڑھ گئی اور اس ن کسی حد تک مجھ س ے ۔رعایتی برتاؤ شروع کر دیا "

، ایک صبح میں دودھ س بھرا تاملوٹ ان ک ےمجھ یاد ے ہے ے اں ل کر آیا تھا اور ب ب گھر ن تھی و اپنی سکھیوں ہی ۔ ہ ے ے ے ہ ڑ میں اشنان کرن گئی تھی ےک ساتھ بابا ساون ک جو ہ ے ے ے۔اور گھر میں صرف داؤ جی اور بی بی تھ دودھ دیکھ ا "چلو آج تینو ں چائ پئیں گ میں ے۔کر داؤ جی ن ک ے ہ ے

" بی وں، تم پانی چول پر رکھو ۔دکان س گڑ ل کر آتا ہے ہ ے ے ا سلگایا میں پتیلی میں پانی ڈال ۔بی ن جلدی س چول ہ ے ے یں چوک پر بیٹھ کر باتیں کرن م دونوں و ےکر الیا اور پھر ے ہ ہ ا "تم دونوں وں ن ک ہلگ داؤ جی گڑ ل کر آ گئ تو ان ے ہ ے ے ے۔ "چنانچ بی بی وں ہاپن اپن کام پر بیٹھو چائ میں بناتا ۔ ہ ے ے ے

lن ڈائریکٹ کی ےمشین چالن لگی اور میں ڈائریکٹ ا ا بھی جھونکت جات تھ ےمشقیں لکھن لگا داؤ جی چول ے ے ہ ۔ ے ےاور عادت ک مطابق مجھ بھی اونچ اونچ بتات جات ے ے ے ے ے

ے۔تھ

Page 114: اردو ادب کے مشہور افسانے

" گلیلیو ن ا "زمین سورج ک گرد گھومتی ےگلیلیو ن ک ہے۔ ے ہ ے ہدریافت کیا ک زمین سورج ک گرد گھومتی ی ن لکھ ہ ہے۔ ے ہ

ا تھا داؤ جی ہدینا ک سورج ک گرد گھومتی پانی ابل ر ہے۔ ے ہ و ر تھ اسی خوشی میں جھوم جھوم کر و اپنا ہخوش ے۔ ہے ہ وا گیت گا ر تھ او گولو! او گولو! گلیلیو کی ے۔تاز بنایا ہے ہ ہ وں ن چائ ےبات مت بھولنا، گلیلیو کی بات مت بھولنا ان ے ہ ۔ وئ پانی میں ڈال دی برتن ابھی تک ۔کی پتی کھولت ے ہ ے

ی تھا اور داؤ جی ایک چھوٹ س بچ کی طرح ےچول پر ے ے ہ ہے ےپانی کی گلب گل بل ک ساتھ گولو گلیلیو! گولو گلیلیو ا ا تھا اور اپنا کام کئ جا ر نس ر ، میں ہکئ جا ر تھ ے ہ ہ ے ہے ے ی تھی اور مشین چالئ جاتی تھی ےتھا، بی بی مسکرا ر ہ ی خوش تھ م تینوں اپن چھوٹ س گھر میں بڑ ےاور ہ ے ے ے ے ہ ےگویا سار محل بلک سار قصب کی خوشیاں بڑ بڑ ے ہ ے ہ ے ے

مار گھر میں اتر آئی ےرنگین پروں والی پریوں کی طرح ہ ۔۔وں ہ

وئی داؤ جی ۔اتن میں درواز کھال اور ب ب اندر داخل ہ ے ے ہ ے ےن درواز کھلن کی آواز پر پیچھ مڑ کر دیکھا اور ان کا ے ہ ے وئی پتیلی س گرم گرم بھاپ و گیا چمکتی ےرنگ فق ہ ۔ ہ ی تھی اس ک اندر چائ ک چھوٹ چھوٹ چھالو ےاٹھ ر ے ے ے ے ے ۔ ہ

ہایک دوسر ک پیچھ شور مچات پھرت تھ اور ممنوع ے ے ے ے ے ے ےکھیل رچان واال بڈھا موقع پر پگڑا گیا ب ب ن آگ بڑھ ے ے ے ۔ ے

ےکر چول کی طرف دیکھا اور داؤ جی ن چوک س اٹھت ے ے ے ہے ا "چائ ج میں ک ہےوئ معذرت بھر ل ے ہ ے ہ ے ے "!ہ

ا تڑ داؤ جی کی کمر پر مارا اور ک ہب ب ن ایک دو ہ ے ے ے ، تجھ ار پھر یں آتی تجھ پر ب ا تجھ الج ن ے"بڈھ برو ے ہ ۔ ہ ے ہ ے

یں میں بیو گھر ، ی تیر چائ پین ک دن ہیم سمیٹ ۔ ہ ے ے ے ے ہ ے ا تیر بھانویں میں ےمیں ن تھی تو تجھ کسی کا ڈر ن ر ۔ ہ ہ ے ہ و تیری آسیں ۔کل کی مرتی آج مروں تیرا من راضی ہ وں کس مرن جوگی ن جنا اور کس لیکھ کی ےپوری ۔ ہ

وں یں آتیاوں ہریکھا ن میر پل باندھ دیاتجھ موت ن ہ ے ے ے ے وئ ب ےتجھ کیوں آئ گی" اس فقر کی گردان کرت ے ہ ے ے ے ے

ےب بھیڑنی کی طرح چوک پر چڑھی کپڑ س پتیلی پکڑ ے ے ے ۔کر چول س اٹھائی اور زمین پر د ماری گرم گرم ے ے ہے

ےچائ ک چھپاک داؤ جی کی پنڈلیوں اور پاؤں پر گر اور ے ے ے

Page 115: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں ت و " ک و جائ ! او تیرا بھال و جائ ہو "او تیرا بھال ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے۔س ایک بچ کی طرح بھاگ اور بیٹھک میں گھس گئ ے ے ے

ہان ک اس فرار بلک اندازl فرار کو دیکھ کر میں اور بی ے نسی کی آواز ایک ثانی ماری نس بنا ن ر سک اور ہبی ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ۔ک لئ چاروں دیواروں س ٹکرائی میں تو خیر بچ گیا ے ے ے

ےلیکن ب ب ن سیدھ جا کر بی بی کو بالوں س پکڑ لیا ے ے ے ے ، ہےاور چیخ کر بولی "میری سوت بڈھ س تیرا کیا ناط ہ ے ے وں تو ن اس کو چائ کی یں تو اپنی پران لیتی ےبتا ن ے ۔ ہ ہ

ےکنجی کیوں دی؟" بی بی بیچاری پھس پھس رون لگی تو ۔میں بھی اندر بیٹھک میں کھسک آیا داؤ جی اپنی

ال ر تھ ے۔مخصوص کرسی پر بیٹھ تھ اور اپن پاؤں س ہے ہ ے ے ے یں اس حالت میں دیکھ کر مجھ پھر کیوں یں ان ےپت ن ہ ہ ہ

نسن لگا، وئی ک میں الماری ک اندر من کر ک ےگدگدی ہ ے ہ ے ہ ہ اتھ ک اشار س مجھ پاس بالیا اور بول وں ن ےان ے ے ے ے ہ ے ہ ے۔"شکرl کردگار کنم ک گرفتارم ب مصیبت ن ک معصیت ہ ہ ے ہ ہ

ا "میں اس ک کتوں کا بھی کتا ےتھوڑی دیر رک کر پھر ک ہ ر پر مک کی ایک کم نصیب بڑھیا ےوں جس ک سرl م�ط ہہ ے ہ

۔غالظت پھینکا کرتی تھی "

ےمیں ن حیرانی س ان کی طرف دیکھا تو و بول "آقائ ے ہ ے ے ےنامدار کا ایک ادنیP حلق بگوش، گرم پانی ک چند چھینٹ ے ہ ہپڑن پر نال شیون کر تو لعنت اس کی زندگی پر و ۔ ہے ے ہ ے ی نم س بچائ خدائ ابرا ن�اپن محبوب ک طفیل نارl ج ہ ے ے۔ ے ہ ے ے ، موالئ ایو مجھ صبر کی ےمجھ جرأت عطا کر ن� ے ے ے

ے۔نعمت د "

ا "داؤ جی آقائ نامدار کون؟ ےمیں ن ک ہ ے "

وں ن شفقت وئی ان ےتو داؤ جی کو ی سن کر ذرا تکلیف ہ ۔ ہ ہ ا "جان پدر یوں ن پوچھا کر میر استاد، میر ےس ک ے ۔ ہ ہ ے

ےحضرت کی روح کو مجھ س بیزار ن کر، و میر آقا بھی ہ ہ ے ، میر باپ بھی اور میر استاد بھی، و تیر دادا ےتھ ہ ے ے ے

اتھ سین پر رکھ وں ن دونوں یںدادا استاد" اور ان ےاستاد ہ ے ہ ہ ہلئ آقائ نامدار کا لفظ اور کوتا و قسمتl مجوز کی ہ ے ے۔ لی بار داؤ جی س سنی ی واقع سنان ےترکیب میں ن پ ہ ہ ۔ ے ہ ے ی دیر لگا دی کیونک ایک ایک فقر وں ن کنتی ےمیں ان ہ ہ ے ہ

Page 116: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےک بعد فارسی ک بیشمار نعتی اشعار پڑھت تھ اور بار ے ہ ے ے نچات تھ ے۔بار اپن استاد کی روح کو ثواب پ ے ہ ے "

ےجب و ی واقع بیان کر چک تو میں ن بڑ ادب س ے ے ے ہ ہ ہ ےپوچھا "داؤ جی آپ کو اپن استاد صاحب اس قدر اچھ ے اتھ کیوں جوڑت ےکیوں لگت تھ اور آپ ان کا نام ل کر ہ ے ے ے

یں؟ ت ہیں اپن آپ کو ان کا نوکر کیوں ک ے ہ ے "ہ

ا "جو طویل ک ایک خر کو ایسا ےداؤ جی ن مسکرا کر ک ے ہ ے یں و مسیحا یں ی منشی چنت رام جی ہبنا د ک لوگ ک ۔ ہ ہ ہ ہ ے

و؟ و تو پھر کیا و، آقا ن ہن ہ ہ ہ ہ "

ست پھسل کر بستر ست آ ہمیں چارپائی ک کون س آ ہ ہ ہ ے ے ے نچ گیا اور چاروں طرف رضائی لپیٹ کر داؤ جی ہمیں پ

ےکی طرف دیکھن لگا جو سر جھکا کر کبھی اپن پاؤں کی ے الت تھ چھوٹ ےطرف دیکھت تھ اور کبھی پنڈلیاں س ے۔ ے ہ ے ے

و نست اور پھر خاموش ہچھوٹ وقفوں ک بعد ذرا سا ے ہ ے ے ے۔جات

و گیاحضرت موالنا ارا کیا تھا اور کیا ن لگ "میں تم ہک ہ ے ے ہ لی آواز کیا تھی! میری طرف سر مبارک اٹھا کر ہکی پ مار پاس آؤ، میں الٹھی ٹیکتا ان ک ےفرمایا، چوپال زاد ے ہ ے

ات ک لڑک نیم وا چھت پٹھار اور دیگر دی ےپاس جا کھڑا ے ہ ہ ۔ ہ ے۔دائر بنائ ان ک سامن بیٹھ سبق یاد کر ر تھ ایک ہے ے ے ے ے ہ

مت ن ہدربار لگا تھا اور کسی کو آنکھ اوپر اٹھان کی ہ ے م تم کو روز ہتھیمیں حضور ک قریب گیا تو فرمایا، بھئی ے

یں چرن چگن ک لئ یں ان اں بکریاں چرات دیکھت ےی ے ے ے ہ ۔ ہ ے ے ہ مار پاس آ جایا کرو اور کچھ پڑھ لیا کروپھر ےچھوڑ کر ہ

ہےحضور ن میری عرض سن بغیر پوچھا ک کیا نام ہ ے ے تھوڑا ا چنتومسکرائ ارا؟" میں ن گنواروں کی طرح ک ےتم ہ ے ہ

ی ؟ پھر خود نس بھی فرمان لگ پورا نام کیا ہسا ہے ے ے ے ہ ال دیاحضور ک شاگرد و گامیں ن سر ےبول چنتو رام ہ ے ہ ے

ے۔کتاب س نظریں چرا کر میری طرف دیکھ ر تھ ہے ے ےمیر گل میں کھدر کا لمبا سا کرت تھا پائجام کی بجائ ہ ۔ ہ ے ے ےصرف لنگوٹ بندھا تھا پاؤں میں ادھوڑی ک موٹ جوت ے ے ۔

وا تھا بکریاں میری ۔اور سر پر سرخ رنگ کا جانگی لپیٹا ہ ہ "

ےمیں ن بات کاٹ کر پوچھا "آپ بکریاں چرات تھ داؤ ے ے "جی؟

Page 117: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں " و فخر س بول "میں گڈریا تھا اور میر باپ" ےاں ے ے ہ ہ ہ۔کی بار بکریاں تھیں ہ "

ہہحیرانی س میرا من کھال ر گیا اور میں ن معامل کی ت ہ ے ہ ہ ے نچن ک لئ جلدی س پوچھا "اور آپ سکول ک ےتک پ ۔ ے ے ے ے ہ

"داؤ جی ن کرسی چارپائی ےپاس بکریاں چرایا کرت تھ ے۔ ے ےک قریب کھینچ لی اور اپن پاؤں پائ پر رکھ کر بول ے ے ے

یں روں میں بھی سکول ن ہ"جان پدر اس زمان میں تو ش ہ ے تر وں آج س چو ا ، میں گاؤں کی بات کر ر ہوت تھ ے ۔ ہ ہ ے ے ہائی سکول کا نام بھی ار ایم بی ل کوئی تم ہبرس پ ے ہ ے ہ

۔جانتا تھا؟ و تو میر آقا کو پڑھان کا شوق تھا ارد گرد ے ے ہ ےک لوگ اپن لڑک چار حرف پڑھن کو ان ک پاس بھیج ے ے ے ے ان کا سارا خاندان زیورl تعلیم س آراست اور دینی ہدیت ے ے

ےاور دنیوی نعمتوں س ماال مال تھا والد ان ک ضلع بھر ۔ ے اراج ی حکیم اور چوٹی ک مبلغ تھ جدl امجد م ہک ایک ہ ے۔ ے ہ ے ، ت تھ ےکشمیر ک میر منشی گھر میں علم ک دریا ب ے ہ ے ۔ ے ، اقلیدس، حکمت اور علم ہفارسی، عربی، جبر و مقابل ےیئت ان ک گھر کی لونڈیاں تھیں حضور ک والد کو ۔ ے ہوا لیکن آپ کی زبانی ان ک یں ےدیکھنا مجھ نصیب ن ہ ہ ے

ہتبحرl علمی کی سب داستانیں سنیں، شیفت اور حکیم ےمومن خاں مومن س ان ک بڑ مراسم تھ اور خود ے ے ے ہموالنا کی تعلیم دلی میں مفتی آزرد مرحوم کی نگرانی

وئی تھی ہمیں "

ےمجھ داؤجی ک موضوع س بھٹک جان کا ڈر تھا اس ے ے ے ےلئ میں ن جلدی س پوچھا "پھر آپ ن حضرت موالنا ۔ ے ے ے اں" داؤ جی اپن آپ س " " ےک پاس پڑھنا شروع کر دیا ے ہ ۔ ے ی ایسی تھیں ان کی ، "ان کی باتیں ۔باتیں کرن لگ ہ ے ے

، ی ایسی تھیں جس کی طرف توج فرمات تھ یں ےنگا ے ہ ہ ہ ےبند س موال کر دیت تھ مٹی ک ذر کو اکسیر کی ے ے۔ ے ے ے میں تو ا پنی الٹھی زمین پر ڈال کر ےخاصیت د دیت تھ ے ے ےان ک پاس بیٹھ گیا فرمایا، اپن بھائیوں ک بوری پر ے ے ۔ ے ا جی اٹھار برس دھرتی پر بیٹھ گزر گئ ےبیٹھو میں ن ک ے ہ ہ ے ۔ ےاب کیا فرق پڑتا پھر مسکرا دئ اپن چوبی صندوقچ ے ے ہے۔ ے۔س حروف ابجد کا ایک مقوا نکاال اور بول الف ب ب ے۔ ۔ ے ے

، سبحان الل کیا آواز تھی کس شفقت س بو ل تھ ےت ے ے ۔ ہ ے ، ت " اور جی داؤ ، پ ج میں فرما ر تھ الف، ب ےکس ل ے ے ہے ہ ہ

Page 118: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ اپن ماضی میں کھو ےجی ان حرفوں کا ورد کرت ے ہ ے ے۔گئ

ا "ادھر اتھ اٹھا کر ک وں ن اپنا دایاں ۔تھوڑی دیر بعد ان ہ ہ ے ہ وں " پھر ان ٹ تھا اور اس ک ساتھ مچھلیوں کا حوض ہر ۔ ے ہ

ا "اور اس طرف را کر ک وا میں ل اتھ ہن اپنا بایاں ہ ہ ہ ے ، دونوں ک درمیان حضور کا باغیچ ہمزارعین ک کوٹھ ے ے ے ےتھا اور سامن ان کی عظیم الشان حویلی اسی باغیچ ۔ ے ہےمیں ان کا مکتب تھا درl فیض کھال تھا جس کا جی چا ۔

ب کی قید ن ملک کی پابندی ، ن مذ ہآئ ہ ہ ے "

ہمیں ن کافی دیر سوچن ک بعد با ادب با مالحظ قسم ے ے ے ےکا فقر تیار کر ک پوچھا "حضرت موالنا کا اسم گرامی ہ وں ن میرا فقر ٹھیک کیا اور ل ان ہشریف کیا تھا؟" تو پ ے ہ ے ہ ےپھر بول "حضرت اسماعیل چشتی فرمات تھ ک ان ک ہ ے ے ے۔

lجاناں ک کر پکارت تھ کبھی جان lیں جان میش ان ے۔والد ے ہہ ہ ہ ہ ر جانl جاناں بھی ک دیت تھ ے۔جاناں کی رعایت س مظ ے ہہ ہ ے

ش مند انی سنن کا ابھی اور خوا ہمیں ایسی دلچسپ ک ے ہ ے۔تھا ک داؤ جی اچانک رک گئ اور بول سب سڈی ایری ے ہ

و ی ایسٹ انڈیا کمپنی ہسسٹم کیا تھا؟ ان انگریزوں کا برا ہ ، سار ےکی صورت میں آئ یا ملک وکٹوری کا فرمان ل ے ہ ہ ے

اڑ کی طرح یں سوا ک پ ےمعامل میں کھنڈت ڈال دیت ہ ے ۔ ہ ے ے ہمیں ن سب سڈی ایری سسٹم کا ڈھانچ ان کی خدمت ے وں ن میز س گرائمر کی کتاب ےمیں پیش کر دیا پھر ان ے ہ ۔ ر جا کر دیکھ ک آ ک تیری ب ب کا ےاٹھائی اور بول "با ے ہ ے ہ ے

ان " میں دوات میں پانی ڈالن ک ب یں وا یا ن ےغص کم ہ ے ے ۔ ہ ہ ہ ر گیا تو ب ب کو مشین چالت اور بی بی کو چکوا ےبا ے ے ہ

۔صاف کرت پایا ے "

ی کمزور تھا لو بڑا ۔داؤ جی کی زندگی میں ب ب واال پ ہ ہ ے ے ےجب و دیکھت ک گھر میں مطلع صاف اور ب ب ک ے ے ہے ہ ے ہ

ت "سب ایک ، تو و پکار کر ک یں ر پر کوئی شکن ن ےچ ہ ہ ہے ہ ے ہ وتا اور میں ل مجھی س تقاضا ہایک شعر سناؤ" پ ے ے ہ

تا ی ک ہچھوٹت ہ ے :

ہالزم تھا ک دیکھو میرا رست کوئی دن اور ہا کوئی دن اور و تن ا گئ کیوں اب ر ہتن ہ ے ہ

Page 119: اردو ادب کے مشہور افسانے

ت "اولین شعر ن سنوں گا، ہاس پر و تالی بجات اور ک ے ہ ے ہ ر گز ن سنوں ہاردو کا کم سنوں گا اور مسلسل نظم کا ہ

۔گا "

۔بی بی بھی میر ی طرح اکثر اس شعر س شروع کرتی ے

ہشنیدم ک شاپور دم در کشیدچو خسرو بر آتش قلم در کشید

ےاس پر داؤ جی ایک مرتب پھر آرڈر آرڈر پکارت ہ

تی ہبی بی قینچی رکھ کر ک :

ےشور شد و از خوابl عدم چشم کشوریم ہدیدیم ک باقی ست شبl فتن غنودیم ہ

ی ی بھی ک ہہداؤ جی شاباش تو ضرور ک دیت لیکن ساتھ ہ ہ ے ہہ �و کئی مرتب سنا چکی ہے۔دیت "بیٹا ی شعر ت ہ ہ ے "

اری ت "بھئی آج تم ہپھر و ب ب کی طرف دیکھ کر ک ے۔ ہ ے ے ہ ےب ب بھی ایک سنائ گی" مگر ب ب روکھا سا جواب ے ے ے ے

یں آت شیر، کبت ۔دیتی "مجھ ن ے ہ ے "

ی سنا د اپن بیٹوں ک ت "گھوڑیاں ےاس پر داؤ جی ک ے ے۔ ہ ے۔ ہ ی گا د ے۔بیا کی گھوڑیاں ہ ہ

ونٹ مسکران کو کرت لیکن و مسکرا ہاس پر ب ب ک ے ے ہ ے ے ے ےن سکتی اور داؤ جی عین عورتوں کی طرح گھوڑیاں گان ہ ےلگت ان ک درمیان کبھی امی چند اور کبھی میرا نام ے۔

ت "میں اپن اس گولو مولو کی شادی ےٹانک دیت پھر ک ے ہ ے۔ ےپر سرخ پگڑی باندھوں گا برات میں ڈاکٹر صاحب ک ۔

ادت ک ےساتھ ساتھ چلوں گا اور نکاح نام میں ش ہ ے یں ہدستخط کروں گا میں دستور ک مطابق شرما کر نگا ے ۔ ر یں اس ملک ک کسی ش ت "پت ن ہنیچی کر لیتا تو و ک ے ہ ہ ے۔ ہ ہ و پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھ ہمیں میری چھوٹی ب وتی فت میں ایک دن لڑکیوں کی خان داری و گی، ی ہر ہ ہ ہ ہ ہ

و گی ت سی چیزیں پکانی سیکھ لی ۔ اس ن تو ب ہ ہ ے ہے۔و گی اس بدھو کو تو ی بھی یاد وشیار ہپڑھن میں بھی ۔ ہ ہ ے وتی یا مرغی و تو فر فر تا ک مادیاں گھوڑیاں یں ر ہن ۔ ہے ہ ہ ہ ہ

Page 120: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گی میں تو اس کو فارسی پڑھاؤں ۔سب کچھ سناتی ہ ل اس کو خطاطی کی تعلیم دوں گا پھر خطl شکست ہگا پ ے ہ یں آتا میں اپنی ۔سکھاؤں گا مستورات کو خطl شکست ن ہ ہ ۔ و ی ر و کو سکھا دوں گاسن گولو! پھر میں تیر پاس ہب ہ ے ہ و فارسی میں باتیں کریں گ و بات ہگا میں اور میری ب ے۔ ہ ۔ ہےبات پر بفرمائید بفرمائید ک گی اور تو احمقوں کی طرح

اتھ رکھ کر جھکت ےمن دیکھا کر گا پھر و سین پر ہ ے ہ ۔ ے ہ ت جانl پدر چرا ایں قدر ے۔"خیل خوب خیل خوب" ک ہ ے ے ت یں کیا کیا کچھ ک ے۔زحمت می کشیخوبیاد دارماور پت ن ہ ہ ہ

ےبچار داؤ جی! چٹائی پر اپنی چھوٹی سی دنیا بسا کر ےاس میں فارسی ک فرمان جاری کئ جات ے ے

ی وئ و ایسی ہایک دن جب چھت پر دھوپ پر بیٹھ ہ ے ہ ے ن لگ "جس ول س مجھ ک ے۔دنیا بسا چک تھ تو ے ہ ے ے ے ہ ے ے

ےطرح خدا ن تجھ ایک نیک سیرت بیوی اور مجھ ے ے ی و اپن فضل س و عطا کی ویس ےسعادت مند ب ے ہ ہ ے ہے ہ

ے۔میر امی چند کو بھی د ے "

، ی سوانگ ی یں لگت ہاس ک خیاالت مجھ کچھ اچھ ن ہ ے ہ ے ے ے یں اور امی چند ہمسلم لیگ ی بیلچ پارٹیاں مجھ پسند ن ے ہ ہ

ا میری تو و کب مان ےالٹھی چالنا گٹکا کھیلنا سیکھ ر ہ ہے ہ اں خدائ بزرگ و برتر اس کو ایک نیک مومن سی ےگا، ہ

۔بیوی دال د تو و اس را راست پر ل آئ گی ے ے ہہ ے ہ ے

وئی اور میں ت تکلیف ہاس مومن ک لفظ پر مجھ ب ہ ے ے وا تھا ک اگر میں ن و گیا چپ محض اس لئ ےچپ سا ہ ہ ے ۔ ہ

~ ایسی بات نکل گی جس س داؤ جی ےمن کھوال تو یقینا ے ہ ی و گامیری اور امی چند کی تو خیر باتیں ہکو بڑا دکھ ہ ۔تھیں، لیکن بار جنوری کو بی بی کی برات سچ مچ آ گئی ہ

ت ہجیجا جی رام پرتاب ک بار میں داؤ جی مجھ ب ے ے ے ت اچھا لڑکا اور اس شادی ک ےکچھ بتا چک تھ ک و ب ہے ہ ہ ہ ے ے

وں ن جو استخار کیا تھا اس پر و پورا اترتا ہبار میں ان ہ ے ہ ے ہ سب س زیاد خوشی داؤ جی کو اس بات کی تھی ک ہ ے ہے۔

ےان ک سمدھی فارسی ک استاد تھ اور کبیر پنتھی ے ے ب س تعلق رکھت تھ بار تاریخ کی شام کو بی بی ہمذ ے۔ ے ے ہ رام مچ گیا، ب ب زار و ون لگی تو گھر بھرمیں ک ےوداع ے ہ ے ہ

ا اور محل کی ا ر ی امی چند آنسو ب ےقطار رو ر ہے ہ ہ ہے ہ یں میں دیوار ک ساتھ لگا ی ےعورتیں پھس پھس کر ر ۔ ہ ہ

Page 121: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں اتھ رکھ کھڑ وں اور داؤ جی میر کندھ پر ہکھڑا ے ے ہ ے ے ہ یں یں آج زمین کچھ میر پاؤ ں ن ہاور بار بار ک ر ے ہ ہے ہہ

یں رکھ سکتا جیجا جی ک باپ ےپکڑتی میں توازن قائم ن ۔ ہ ۔ " تو بی بی میں اجازت دیجئ ےبول "منشی جی اب ہ ے۔ وا کرن ےپچھاڑ کر گر پڑی اس چارپائی پر ڈاال، عورتیں ہ ے ۔

ارا ل کر اس کی چارپائی کی ےلگیں اور داؤ جی میرا س ہ وں ن بی بی کو کندھ س پکڑ کر اٹھایا ےطرف چل ان ے ے ہ ے۔

اری نئی اور خود وا بیٹا اٹھو! ی تو تم ا "ی کیا ہاور ک ہ ۔ ہ ہ ہ لی گھڑی اس یوں منحوس ن بناؤ ۔مختار زندگی کی پ ہ ے ہے۔ ہ وئ داؤ جی س لپٹ ےبی بی اس طرح دھاڑیں مارت ے ہ ے

ا "قرة وئ ک اتھ پھیرت وں ن اس ک سر پر ہگئی، ان ے ہ ے ہ ے ے ہ وں ک تجھ پڑھا ن سکا تیر گار ےالعین میں تیرا گن ۔ ہ ے ہ ہ ہ

یز ن د سکا تو وں ک تجھ علم کا ج ۔سامن شرمند ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ےمجھ معاف کر د گی اور شاید برخوردار رام پرتاب ے ۔بھی لیکن میں اپن کو معاف ن کر سکوں گا میں خطا ہ ے

" ی سن کر وں اور میرا خجل سر تیر سامن خم ہکار ہے۔ ے ے ہ ےبی بی اور بھی زور زور س رون لگی اور داؤ جی کی ے

ےآنکھوں س کتن سار موٹ موٹ آنسوؤں ک قطر ے ے ے ے ے ے ےٹوٹ کر زمین پر گر ان ک سمدھی ن آگ بڑھ کر ے ے ے۔

ا "منشی جی آپ فکر ن کریں میں بیٹی کو کریما پڑھا ہک ۔ ہ ا "کریما تو اتھ جوڑ کر ک ۔دوں گا" داؤ جی ادھر پلٹ اور ہ ہ ے وں، ، گلستان بوستان بھی ختم کر چکا ہی پڑھ چکی ہے ہ

نس کر " اس پر و وئی یں ہلیکن میری حسرت پوری ن ہ ۔ ہ ہ اں یں پڑھی، ج ہبول "ساری گلستان تو میں ن بھی ن ہ ے ے۔

اتھ ہعربی آتی تھی، آگ گزر جاتا تھا’داؤ جی اسی طرح ے ، بی بی ن گوٹ لگی ہجوڑ کتنی دیر خاموش کھڑ ر ے ہے ے ے ل امی اتھ نکال کر پ ےسرخ رنگ کی ریشمی چادر س ہ ہ ے

اتھ پھیرا اور سکھیوں ک ےچند اور پھر میر سر پر ہ ے ۔بازوؤں میں ڈیوڑھی کی طرف چل دی داؤ جی میرا وں ن مجھ اپن ساتھ زور س ارا ل کر چل تو ان ےس ے ے ے ہ ے ے ہ

ارا بنا مارا س ا دیکھو ا "ی لو ی بھی رو ر ہبھینچ کر ک ہ ہے۔ ہ ہ ہ ۔ ہ و گیاجانl پدر تو تجھ کیا ہپھرتا او گولواو مردم دید ے ہ ہے۔

"کیوں

و گئ ے۔اس پر ان کا گال رندھ گیا اور میر آنسو بھی تیز ہ ے ے۔برات وال تانگوں اور اکوں پر سوار تھ بی بی رتھ میں ے

ی تھی اور اس ک پیچھ امی چند اور میں اور ےجا ر ے ہ

Page 122: اردو ادب کے مشہور افسانے

ے۔مار درمیان میں دا ؤ جی پیدل چل ر تھ اگر بی بی ہے ے ہےکی چیخ ذرا زور س نکل جاتی تو داؤ جی آگ بڑھ کر ے ت "ال حول پڑھو بیٹا، الحول ے۔رتھ کا پرد اٹھا ت او ر ک ہ ے ہ "اور خود آنکھوں پر رکھ رکھ ان کی پگڑی کا ےپڑھو ے ۔

۔شمل بھیگ گیا تھا ہ

مار محل کا کثیف سا انسان تھا، بدی اور کین ہرانو ے ے ہ ہپروری اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر ی تھی و ۔

، اسی کا تھا اس میں بیس ۔باڑ جس کا میں ن ذکر کیا ہے ے ہ تیس بکریاں اور گائیں تھیں جن کا دودھ صبح و شام رانو

~ ۔گلی ک بغلی میدان میں بیٹھ کر بیچا کرتا تھا تقریبا ے ےسار محل وال اسی س دودھ لیت تھ اور اس کی ے ے ے ے ے مار گھر ک آگ ےشرارتوں کی وج س دبت بھی تھ ے ے ہ ے۔ ے ے ہ

ی شوقی الٹھی زمین پر بجا کر داؤ وئ و یون ہس گزرت ہ ہ ے ہ ے ے ۔جی کو "پنڈتا ج رام جی کی "ک کر سالم کیا کرتا ہہ ے

یں ہداؤ جی ن اس کئی مرتب سمجھایا بھی ک و پنڈت ن ہ ہ ہ ے ے یں کیونک پنڈت ان ک نزدیک بڑ ےیں معمولی آدمی ے ہ ہ ہ

ا جا سکتا تھا لیکن رانو ہپڑھ لکھ اور فاضل آدمی کو ک ے ے تا "ار بھئی یں مانتا تھا و اپنی مونچھ کو چبا کر ک ےن ۔ ہ ہ ہ

" چوروں وتا ی پنڈت و و ہےجس ک سر پر بودی (چٹیا) ہ ہ ہ ے ےیاروں س اس کی آشنائی تھی شام کو اس ک باڑ میں ے ے وتا اور گندی اور فحش بولیوں کا مشاعر بی ہ۔جوا بھی ہ ےبی ک جان ک ایک دن بعد جب میں اس س دودھ لین ے ے ے ے ا "مورنی تو ۔گیا تو اس ن شرارت س آنکھ میچ کر ک ہ ے ے " میں ۔چلی گئی بابو اب تو اس گھر میں ر کر کیا ل گا ے ہ

وئ ا تو اس ن جھاگ وال دودھ میں ڈب پھیرت ےچپ ر ہ ے ہ ے ے ہ تی تھی سچ بتا ک غوط لگایا ک ا "گھر میں گنگا ب ہک ہ ہ ہ ۔ ہ

" مجھ اس بات پر غص آگیا اور میں ن تاملوٹ یں ےن ہ ے ۔ ہ ےگھما کر اس ک سر پر د مارا اس ضربl شدید س ۔ ے ے

وا لیکن و چکرا کر تخت پر گرپڑا ہخون وغیر تو برآمد ن ہ ہ ہ ہاور میں بھاگ گیا داؤ جی کو سارا واقع سنا کر میں دوڑا ۔ ۔دوڑا اپن گھر گیا اور ابا جی س ساری حکایت بیان کی ے ے وئی اور حوالدار ہان کی بدولت رانو کی تھان میں طلبی ہ لکی سی گو شمالی ک بعد اس سخت تنبی ہصاحب ن ے ے ہ ے

ےکر ک چھوڑ دیا اس دن ک بعد رانو دا ؤ جی پر آت ے ۔ ے

Page 123: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہجات طرح طرح ک فقر کسن لگا و سب س زیاد ے ہ ۔ ے ے ے ے ےمذاق ان کی بودی کا اڑایا کرتا تھا اور واقعی داؤ جی ک ۔فاضل سر پر و چپٹی سی بودی ذرا اچھی ن لگتی تھی ہ ہ

ت تھ "ی میری مرحوم ماں کی نشانی اور ہےمگر و ک ہ ے۔ ے ہ ہ ہمجھ اپنی زندگی کی طرح عزیز و اپنی آغوش میں ہے۔ ے ی س دھوتی تھی اور کڑوا تیل ےمیرا سر رکھ کر اس د ہ ے ےلگا کر چمکاتی تھی گو میں ن حضرت موالنا ک سامن ے ے ۔ یں کی، لیکن و ہکبھی بھی پگڑی اتارن کی جسارت ن ہ ے

ائی سکول ہجانت تھ اور جب میں دیال سنگھ میموریل ے ے ےس ایک سال کی مالزمت ک بعد چھٹیوں میں گاؤں آیا ے یں کٹوا دی؟" ر جا کر چوٹی تو ن ہتو حضور ن پوچھا "ش ہ ے وئ ت خوش ےتو میں ن نفی میں جواب دیا اس پر و ب ہ ہ ہ ۔ ے

وتا ہاور فرمایا تم سا سعادت مند بیٹا کم ماؤں کو نصیب و گا م سا خوش قسمت استاد بھی خال خال ہ اور ہ ہے

و، وا ہجس تم ایس شاگردوں کو پڑھان کا فخر حاصل ہ ے ے ے ا حضور آپ مجھ شرمند ہمیں ن ان ک پاؤں چھو کر ک ے ہ ے ے نس کر ، یں ی سب آپ ک قدموں کی برکت ہکرت ہے ے ہ ۔ ہ ے مار پاؤں ن چھوا کرو بھال ایس ےفرمان لگ چنت رام ہ ے ہ ے ے و میری میں احساس ن ۔لمس کا کیا فائد جس کا ہ ہ ہ ہ

ا اگر کوئی مجھ بتا ےآنکھوں میں آنسو آ گئ میں ن ک ہ ے ے۔ ۔د تو سمندر پھاڑ کر بھی آپ ک لئ دوائی نکال الؤں ے ے ے ےمیں اپنی زندگی کی حرارت حضور کی ٹانگوں ک لئ ے

و گئ اور یں چلتاخاموش ےنذر کر دوں لیکن میرا بس ن ہ ہ ی ی منظور تو ایس یں اوپر اٹھا کر بول خدا کو ی ہنگا ے ہے ہ ے ہ ار کندھوں پر میں ن کوئی و ک تم ی تم سالمت ر ےس ے ہ ہ ہ ۔ ہ " داؤ جی گزر ایام ےدس سال بعد سارا گاؤں دیکھ لیا ہے

وئ ک ر تھ ے۔کی ت میں اترت ہے ہہ ے ہ ے ہہ

ےمیں صبح سویر حویلی کی ڈیوڑھی میں جا کر آواز دیتا" و جاتیں تو حضور ہ"خادم آ گیا" مستورات ایک طرف

ےصحن س آواز د کر مجھ بالت اور میں اپنی قسمت ے ے ے اتھ جوڑ جوڑ ان کی طرف بڑھتا پاؤں تا ۔کو سرا ے ے ہ ہ ےچھوتا اور پھر حکم کا انتظار کرن لگتا، و دعا دیت میر ے ہ ے ، گاؤں کا حال دریافت فرمات ےوالدین کی خیریت پوچھت ے

وں کی گٹھڑی کو ت "لو بھئی چنت رام ان گنا ہاور پھر ک ے ہ یں اٹھاتا اور کمر پر الد ہاٹھا لو" میں سبدl گل کی طرح ان میں باغ کا چکر ، ر آ جاتا کبھی فرمات ہکر حویلی س با ے ۔ ہ ے

Page 124: اردو ادب کے مشہور افسانے

ٹ ک پاس ل چلو اور کبھی وتا سیدھ ر ےدو کبھی حکم ے ہ ے ہ میں ت چنت رام تھک ن جاؤ تو ہکبھار بڑی نرمی س ک ہ ے ہ ے

ر ہمسجد تک ل چلو میں ن کئی بار عرض کیا ک حضور ہ ے ۔ ے ی فرمات یں مان ی ےروز مسجد ل جایا کروں گا مگر ن ہ ے ہ ے

وں میں وضو تا تو تم س ک دیتا ۔ر ک کبھی جی چا ہ ہہ ے ہے ہ ہ ہے لک جوت لک ےکرن وال چبوتر پر بٹھا کر ان ک ے ہ ے ہ ے ے ے ے

یں جھولی میں رکھ کر دیوار س لگ کر بیٹھ ےاتارتا اور ان ہ ےجاتا چبوتر س حضور خود گھسٹ کر صف کی جانب ے ۔

یں اس طرح جات ےجات تھ میں ن صرف ایک مرتب ان ہ ہ ے ے۔ ے وئی ان ک جوت اتارن ےدیکھا تھا اس ک بعد جرأت ن ے ے ۔ ہ ہ ے ہک بعد دامن میں من چھپا لیتا اور پھر اسی وقت سر ے

ے۔اٹھاتا جب و میرا نام ل کر یاد فرمات واپسی پر میں ے ہ ےقصب کی لمبی لمبی گلیوں کا چکر کاٹ کر حویلی کو

ماری یں چنت رام تم م جانت ہلوٹتا تو فرمات ہ ے ہ ے ۔ میں بڑی و لیکن ہخوشنودی ک لئ قصب کی سیر کرات ہ ے ہ ے ے وں اور مجھ ی وتی ایک تو تم پر لدا لدا پھرتا ہتکلیف ے ہ ہے۔ ہ ارا وقت ضائع ما دوسر تم وتا ک ایک ہمحسوس ے ہے ہ ہ ہے ہ ی وں اور حضور س کون ک سکتا ک آقا ی وقت ہکرتا ہ ہ ہہ ے ۔ ہ

ی میری ہمیری زندگی کا نقط عروج اور ی تکلیف ہ ہے ۂ ہے۔حیات کا مرکز

ما ی ایک ہےاور حضور س کون ک سکتا ک آقا ی وقت ہ ہ ہ ہ ہہ ے جس دن ہےجس ن اپنا سای محض میر لئ وقف کر دیا ے ے ہ ے یں سنایا اس قدر ۔میں ن سکندر نام زبانی یاد کر ک ان ہ ے ہ ے

و گئی ی نصیب فت اقلیم کی بادشا وئ گویا ۔خوش ہ ہ ہ ے ہ lر دعا س مجھ ماال مال کیا دست ۔دین و دنیا کی ے ے ہ

ہشفقت میر سر پر پھیرا اور جیب س ایک روپی نکال کر ے ے ۔انعام دیا میں ن اس حجرl اسود جان کر بوس دیا ہ ے ے ۔

ےآنکھوں س لگایا اور سکندر کا افسر سمجھ کر پگڑی اتھ اوپر اٹھا کر دعائیں د ر تھ ےمیں رکھ لیا دونوں ہے ے ہ ۔

و سکا و تو ن کر م س ن ےاور فرما ر تھ جو کام ہ ہ ہ ے ہ ے ہے ۔دکھایا تو نیک خدا ن تجھ ی سعادت نصیب کی چنت ہ ے ے ہے ۔ �و شا بطحا کا پیرو اس ہےرام تیرا مویشی چرانا پیش ت ہ ہے ہ ےلئ خدائ عز و جل تجھ برکت دیتا و تجھ اور بھی ہ ہے ے ے ے

ےبرکت د گا تجھ اور کشائش میسر آئ گی ے ۔ ے "

Page 125: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےداؤ جی ی باتیں کرت کرت گھٹنوں پر سر رکھ کر ے ہ و گئ ے۔خاموش ہ

وت جا ر ا تھا اور داؤ جی سخت ہےمیرا امتحان قریب آ ر ے ہ ہ ر فارغ وقت پر کوئی ن کوئی کام وں ن میر ہتھ ان ہ ے ے ہ ے۔

وتا تو دوسر کی د برا ےپھیال دیا تھا ایک مضمون س ع ہ ہ ہ ے ۔ و جات تھ پانی پین اٹھتا ےکتابیں نکال کر سر پر سوار ے۔ ے ہ یں تو تاریخ ہتو سای کی طرح ساتھ ساتھ چل آت اور ن ے ے ہ

نچن کا ی پوچھت جات شام ک وقت سکول پ ےک سن ہ ے ے۔ ے ہ ے وں ن وطیر بنا لیا تھا ایک دن میں سکول ک بڑ ےان ے ۔ ہ ے ہ

ہدرواز س نکلن کی بجائ بورڈنگ کی را پر کھسک لیا ے ے ے ے وں ن جماعت ک کمر ک سامن آ کر بیٹھنا ےتو ان ے ے ے ے ہ ون ک عالو بد ہشروع کر دیا میں چڑچڑا اور ضدی ے ے ہ ۔

، گویا میرا تکی کالم و گیا تھا داؤ جی ک بچ ہزبان بھی ے ے ۔ ہ ےبن گیا تھا اور کبھی کبھی جب ان کی یا ان ک سواالت ن س بھی ن یں کت ک ہکی سختی بڑھ جاتی تو میں ان ے ے ہ ے ہ

ت "دیکھ ل و جات تو بس اس قدر ک ےچوکتا ناراض ے ہ ے ہ ۔ ا تیری بیوی بیا کر الؤں گا ہڈومنی تو کیسی باتیں کر ر ہے۔ ہ ی بتاؤں گا ک جانl پدر ی تیر باپ کو کتا ل اس ی ےتو پ ہ ہ ہ ے ے ہ ا کرت تا تھا " میری گالیوں ک بدل و مجھ ڈومنی ک ےک ہ ے ہ ے ے ۔ ہ

ت اس وتا تو من چڑی ڈومنی ک یں زیاد دکھ ے۔تھ اگر ان ہ ہ ہ ہ ہ ے۔ وتا تھا میر اصلی یں غص آتا تھا ن دکھ ےس زیاد ن ان ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

یں پکارا میر بڑ بھائی کا ذکر وں ن کبھی ن ےنام س ان ے ہ ے ہ ے یں یاد کرت تھ ےآتا تو بیٹا آفتاب، برخوردار آفتاب ک کر ان ے ہ ہہ

ر روز نئ نئ نام رکھت تھ جن میں گولو ے۔لیکن میر ے ے ے ہ ے ونق ت مرغوب تھا طنبورا دوسر درج پر مسٹر یں ب ہان ہ ے ۔ ہ ہ ےاور اخفش اسکوائر ان سب ک بعد آت تھ اور ڈومنی ے ے ت ہصرف غص کی حالت میں کبھی کبھی میں ان کو ب ۔ ہ یں، مجھ ےدق کرتا و اپنی چٹائی پر بیٹھ کچھ پڑھ ر ہ ہے ے ہ ۔

ان کی ہالجبر کا ایک سوال د رکھا اور میں سار ج ے ہے ے ے وں تو میں کاپیوں ہابجد کو ضرب د د کر تنگ آ چکا ے ے

ےاور کتابوں ک ڈھیر کو پاؤں س پر دھکیل کر اونچ ے ے ے ۔اونچ گان لگتا ے ے

ےتیر سامن بیٹھ ک رونا ت دکھ تینوں نیو دسنا ے ے ے

ےدا ؤ جی حیرانی س میری طرف دیکھت تو میں تالیاں ے ۔بجان لگتا اور قوالی شروع کر دیتا نیوں نیوں نیوں دسنا ۔ ے

Page 126: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔ت دکھ تینوں نیوں دسنادسنا دسنا دسناتینوں تینوں تینوں ے ےسار گاما رونا رونا سار گاما رونا رونات دیکھ تینوں ے ے

ےنیوں دسنا و عینک ک اوپر س مسکرات میر پاس آ ے۔ ے ے ہ ۔ ، صفح نکالت اور تالیوں ک درمیان اپنا ےکر کاپی اٹھات ے ہ ے

اتھ کھڑا کر دیت ے۔بڑا سا ہ

ت "ی کوئی مشکل سوال" ہسن بیٹا" و بڑی محبت س ک ے ہ ے ہ اتھ نیچ کرت ی و سوال سمجھان ک لئ ے! " جون ے ہ ے ے ے ہ ہ ہے

یں ہمیں پھر تالیاں بجان لگتا "دیکھ پھر، میں تیرا داؤ ن ۔ ے ے۔و؟" و بڑ مان س پوچھت ے ے ہ ہ

" تا یں" میں من پھاڑ کر ک ۔ن ہ ہ ہ

" و جات ے۔تو اور کون ؟" و مایوس س ہ ے ہ ہے

" ےو سچی سرکار" میں انگلی آسمان کی طرف کر ک ہ تا و سچی سرکار، و سب کا پالن ےشرارت س ک ہ ہ ۔ ہ ے

ےواالبول بکر سب کا والی کون؟ "

ےو میر پاس س اٹھ کر جان لگت تو میں ان کی کمر ے ے ے ہ " و مسکران و گئ کیا اتھ ڈال دیتا "داؤ جی خفا ےمیں ہ ۔ ے ہ ہ

ا ! چھوڑ بیٹا! میں تو پانی پین جا ر ہلگت "چھوڑ طنبور ے ے ے۔ ے۔تھامجھ پانی تو پی آن د ے ے

تا "لوجی جب مجھ سوال ےمیں جھوٹ موٹ برامان کر ک ۔ ہ وا داؤ جی کو پانی یاد آگیا ۔سمجھنا ہ "

ت "اخفش ے۔و آرام س بیٹھ جات اور کاپی کھول کر ک ہ ے ے ہ ا تھا تو تو ہاسکوائر جب تجھ چار ایکس کا مربع نظر آ ر ے ہن تیسرا فارموال کیوں ن لگایا اور اگر ایسا ن بھی کرتا ہ ے

یں داؤ جی کتن دن پانی ن پیت ے۔تو"اور اس ک بعد پت ن ہ ے ہ ہ ے

فت کی بات امتحان میں کل ڈیڑھ ہے۔فروری ک دوسر ہ ہ ے ے ین ر گیا تھا اور مجھ پر آن وال خطرناک وقت کا ےم ے ہ ہ ہ و گیا تھا میں ن خود اپنی ےخوف بھوت بن کر سوار ۔ ہ

و گیا ل س تیز کر دی تھی اور کافی سنجید ہپڑھائی پ ہ ے ے ہ ےتھا لیکن جیومیٹری ک مسائل میری سمجھ میں ن آت ہ ے

ت کوشش کی لیکن بات ن بنی آخر ۔تھ داؤ جی ن ب ہ ہ ے ے۔ یں زبانی یاد �ل باون پراپوزیشنیں ا ک وں ن ک ہایک دن ان ہ ے ہ

Page 127: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں رٹن یں چنانچ میں ان ےکر ل اس ک سوا کوئی چار ن ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے و گیا لیکن جو پراپوزیشن رات کو یاد کرتا ہمیں مصروف مت چھوڑ سی و کر ہصبح کو بھول جاتا میں دل برداشت ہ ہ ۔ ےبیٹھا ایک رات داؤ جی مجھ س جیومیٹری کی شکلیں ۔ ہبنوا کر اور مشقیں سن کر اٹھ تو و بھی کچھ پریشان ے ت کوفت یں ب و گئ تھ میں بار بار اٹکا تھا اور ان ہس ہ ے۔ ے ہ ے

ےوئی تھی مجھ سون کی تاکید کر ک و اپن کمر ے ہ ے ے ے ۔ ہےمیں چل گئ تو میں کاپی پینسل ل کر پھر بیٹھ گیا اور ے ے ا مگر جب ہرات ک ڈیڑھ بج تک لکھ لکھ کر رٹا لگاتا ر ے ے ےکتاب بند کر ک لکھن لگتا تو چند فقروں ک بعد اٹک ے ے ر یاد کر ک اور اپنی ےجاتا مجھ داؤ جی کا مایوس چ ہ ہ ے ۔ ر صحن میں آ ہحالت کا انداز کر ک رونا آگیا اور میں با ے ہ ےکر سیڑھیوں پر بیٹھ ک سچ مچ رون لگا، گھٹنوں پر سر ے

ا تھا ا تھا اور سردی کی شدت س کانپ ر ۔رکھ رو ر ہ ے ہ ے ہاسی طرح بیٹھ بیٹھ کوئی ڈیڑھ گھنٹ گزر گیا تو میں ے ے ی ترکیب سوچی ک ہن داؤ جی کی عزت بچان ک لئ ی ہ ے ے ے ے

ےڈیوڑھی کا درواز کھول کر چپک س نکال جاؤں اور پھر ے ہ ےواپس ن آؤں جب ی فیصل کر چکا اور عملی قدم آگ ہ ہ ۔ ہ ےبڑھان ک لئ سر اوپر اٹھایا تو داؤ جی کمبل اوڑھ ے ے ے

وں ن مجھ بڑ پیار س اپن ےمیر پاس کھڑ تھ ان ے ے ے ے ہ ے۔ ے ے ی سلسل صحن میں ہساتھ لگایا تو سسکیوں کا المتنا ہ ا "ل بھئی ےپھیل گیا داؤ جی ن میرا سر چوم کر ک ۔ ہ ے ۔

مت ی کم ت ہطنبور میں تو یوں ن سمجھتا تھا تو تو ب ہ ہ ہ ے وں ن مجھ اپن ساتھ کمبل میں لپیٹ لیا " پھر ان ےنکال ے ے ہ ۔

وں ن میر ےاور بیٹھک میں ل آئ بستر میں بٹھا کر ان ے ہ ے۔ ے ےچاروں طرف رضائی لپیٹی اور خود پاؤں اوپر کر ک

ے۔کرسی پر بیٹھ گئ

اتھوں ی ایسی تو اس ک ا "اقلیدس چیز وں ن ک ہان ے ہے۔ ہ ہ ے ہ وا تھا حضرت ، میں اس س اور طرح تنگ ۔یوں ناال ں ہ ے ہے

ہموالنا ک پاس جبر و مقابل اور اقلیدس کی جس قدر ے یں میں اچھی طرح پڑھ کر اپنی کاپیوں پر ہکتابیں تھیں ان یں تھی جس س الجھن ےاتار چکا تھا کوئی ایسی بات ن ہ ۔ وں لیکن و گیا ر ہوتی میں ن ی جانا ک ریاضی کا ما ہ ہ ہ ہ ے ۔ ہ

ےایک رات میں اپنی کھاٹ پر پڑا متساوی الساقلین ک ایک ا تھا ک بات الجھ گئی میں ن دیا جال ےمسئل پر غور کر ر ۔ ہ ہ ہ ہکر شکل بنائی اور اس پر غور کرن لگا جبر و مقابل کی ۔ ے

Page 128: اردو ادب کے مشہور افسانے

ندس س پای l ۂرو س اس کا جواب ٹھیک آتا تھا لیکن علم ے ہ ہ ے ا نچتا تھا میں ساری رات کاغذ سیا کرتا ر ہثبوت کو ن پ ہ ۔ ہ ہ یں علی الصبح میں حضرت ۔لیکن تیری طرح س رویا ن ہ ے وں ن اپن دستl مبارک وا تو ان ےکی خدمت میں حاضر ے ہ ہ ےس کاغذ پر شکل کھینچ کر سمجھانا شروع کیا لیکن

lیں حضرت موالنا کی طبع وئی تھی و اں مجھ الجھن ہج ہ ے ہ م وئی فرمان لگ "چنت رام اب ہرسا کو بھی کوفت ے۔ ے ۔ ہ یں پڑھا سکت جب استاد اور شاگرد کا علم ایک ے۔تم کو ن ہ و جائ تو شاگرد کو کسی اور معلم کی طرف رجوع ےسا ہ ئ " میں ن جرأت کر ک ک دیا ک حضور اگر ہکرنا چا ہہ ے ے ے۔ ہ

تا تو میں اس کفر ک مترادف ےکوئی اور ی جمل ک ے ہ ہ ہ

l ر شوش میر لئ حکم ر حرف اور ےسمجھتا لیکن آپ کا ے ہ ہ ہ و ں بھال آقائ یں اس لئ خاموش ےربانی س کم ن ۔ ہ ے ۔ ہ ے

ت ہغزنوی ک سامن ایاز کی مجال! لیکن حضور مجھ ب ے ے ے و بات وا فرمان لگ "تم ب حد جذباتی آدمی ۔دکھ ہ ے ے ے ہے۔ ہ ا ارشاد! فرمایا وتی، میں ن سر جھکا کر ک ہتو سن لی ے ہ ندس ک بڑ l ے"دلی میں حکیم ناصر علی سیستانی علم ے ہ ہ

ی شوق تو ان ک پاس یں اگر تم کو اس کا ایسا ر ےما ہے ہ ہ ہ م ان ک نام رقع لکھ ہچل جاؤ اور اکتسابl علم کرو ے ہ ۔ ے ر کی تو فرمایا اپنی والد ہدیں گ میں ن رضا مندی ظا ہ ے ے۔ مار پاس آناوالد وں تو ہس پوچھ لینا اگر و رضامند ے ہ ہ ہ ے ےمرحوم س پوچھا اور ان س اپنی مرضی ک مطابق ے ے ہ یں ونی بات تھی چنانچ میں ن ان س ن ہجواب پانا ان ے ے ہ ۔ ہ

۔پوچھا

ہحضور پوچھت تو میں دروغ بیانی س کام لیتا ک گھر کی ے ے وں گا تو والد س وں جب فارغ ا ےلپائی تپائی کر ر ہ ہ ہ ہ

۔عرض کروں گا "

ے۔چند ایام بڑ اضطرار کی حالت میں گزر میں دن رات ے ےاس شکل کو حل کرن کی کوشش کرتا مگر صحیح

وتا اس ال ینحل مسئل س طبیعت میں ےجواب برآمد ن ہ ۔ ہ ہ تا تھا لیکن حضور وا میں دلی جانا چا ہاور انتشار پیدا ۔ ہ

، و والد کی رضامندی ہس اجازت مل سکتی تھی ن رقع ہ ہ ہ ے ہک بغیر اجازت دین وال ن تھ اور والد اس بڑھاپا میں ے ہ ے ے ے ا و سکتی تھیںایک رات جب سارا گاؤں سو ر ہکیس آماد ہ ہ ے

ہتھا اور میں تیری طرح پریشان تھا تو میں ن اپنی والد ے

Page 129: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےکی پٹاری س اس کی کل پونجی دو روپ چرائ اور ے ے ےنصف اس ک لئ چھوڑ کر گاؤں س نکل گیا خدا مجھ ۔ ے ے ے

ےمعاف کر اور میر دونوں بزرگوں کی روحوں کو مجھ ے ! واقعی میں ن بڑا گنا کیا اور ابد تک ربان رکھ ہپر م ے ے ہ ےمیرا سر ان دونوں کرم فرماؤں ک سامن ندامت س ے ے ےجھکا ر گاگاؤں س نکل کر میں حضور کی حویلی ک ے ہے اں بیٹھ کر آپ نچا ج ہپیچھ ان کی مسند ک پاس پ ہ ے ے

و کر میں ن زمین کو بوس ہپڑھات تھ گھٹنوں ک بل ے ہ ے ے۔ ے وں ا وں، ب اجازت جا ر ا "بد قسمت ہدیا اور دل میں ک ہ ے ہ ۔ ہ

وں گا میرا ۔لیکن آپ کی دعاؤں کا عمر بھر محتاج ر ہ ۔قصور معاف ن کیا تو آ ک قدموں میں جان د دوں گا ے ے ہ اں س ےاتنا ک کر اٹھا اور الٹھی کندھ پر رکھ کر میں و ہ ے ہہ

؟" داؤ جی ن میری طرف غور س دیکھ ا ےچل دیاسن ر ے ہے ہ ۔کر پوچھا

، میں ن آنکھیں جھپکائیں اور ےرضائی ک بیچ خارپشت بن ے ے ا "جی؟ ۔ول س ک ہ ے ے "ہ

نا شروع کیا "قدرت ن میری کمال مدد ےداؤ جی ن پھر ک ہ ے ی ہکی ان دنوں جاکھل جنید سرس حصار والی پٹڑی بن ر ہ ۔ یں مزدوری ی راست سیدھا دلی کو جاتا تھا اور ی ہتھی ی ہ ہ ۔ ۔ملتی تھی ایک دن میں مزدوری کرتا اور ایک دن چلتا، نچ ار سول دن میں دلی پ ہاس طرح تائیدl غیبی ک س ہ ے ہ ے

رl مقصود کا اتھ آ گئی تھی لیکن گو ہگیا منزل مقصود تو ہ ۔ ےسراغ ن ملتا تھا جس کسی س پوچھتا حکیم ناصر علی ۔ ہ ، نفی میں جواب ملتا دو اں ۔سیستانی کا دولت خان ک ہے ہ ہ ی لیکن پت ن پا سکا قسمت ۔دن ان کی تالش جاری ر ہ ہ ہ

ےیاور تھی صحت اچھی تھی انگریزوں ک لئ نئی کوٹھیاں ے ۔ و کر اں کام پر جان لگا شام کو فارغ ی تھیں و ہبن ر ۔ ے ہ ۔ ہ ےحکیم صاحب کا پت معلوم کرتا اور رات ک وقت ایک ہ

ری نیند سو جاتا مثل ۔دھرم شال میں کھیس پھینک کر گ ہ ہ ! آخر ایک دن مجھ حکیم صاحب ور جوئند یابند ےمش ہ ہ ہے ہ و گئی، و پتھر پھوڑوں ک محل ائش معلوم ہکی جائ ر ے ہ ہ ہ ے ت تھ شام ک وقت ےکی ایک تیر و تاریک گلی میں ر ے ے ہ ہ وا ایک چھوٹی سی ۔میں ان کی خدمت میں حاضر ہ ےکوٹھڑی میں فروکش تھ اور چند دوستوں س اونچ ے ے

لیز ک اندر ی تھی میں جوت اتار کر د و ر ےاونچ گفتگو ہ ے ۔ ہ ہ ے

Page 130: اردو ادب کے مشہور افسانے

؟" میں ن سالم "کون و گیا ایک صاحب ن پوچھا ےکھڑا ہے ۔ ے ۔ ہ " حکیم صاحب ا "حکیم صاحب س ملنا ہے۔کر ک ک ے ۔ ہ ے

ےدوستوں ک حلق میں سر جھکائ بیٹھ تھ اور ان کی ے ے ہ ے ےپشت میری طرف تھی اسی طرح بیٹھ بول "اسم ے ۔

وں اور ا "پنجاب س آیا اتھ جوڑ کر ک ہگرامی" میں ن ے ۔ ہ ہ ے و! ہ" میں بات پوری بھی ن کرپا یا تھا ک زور س بول "او ے ے ہ ہ

و؟" میں کچھ جواب ن د سکا فرمان لگ ے۔چنت رام ے ۔ ے ہ ہ ہے"مجھ اسماعیل کا خط مال لکھتا شاید چنت رام ہے ے و گیا میں بتائ بغیر گھر س فرار ار پاس آئ ہےتم ہ ے ے ہ ے۔ ے ہ

ا تو ہاس کی مدد کرنا " میں اسی طرح خاموش کھڑا ر ۔ ہپاٹ دار آواز میں بول "میاں اندر آ جاؤ کیا چپ کا روز ے ؟" میں ذرا آگ بڑھا تو بھی میری طرف ن دیکھا ہرکھا ے ہے

ی عروسl نو کی طرح بیٹھ ر پھر قدر ےاور ویس ہے۔ ے ہ ے یں بیٹھ ا "برخوردار بیٹھ جاؤ میں و ہتحکمان انداز میں ک ۔ ۔ ہ ہ رو مجھ اس ےگیا تو اپن دوستوں س فرمایا، بھئی ذرا ٹھ ہ ے ے

ندس کا وا بتاؤ اتھ کر لین دو پھر حکم ہس دو دو ہ ہ ۔ ے ہ ے یں آتا میں ن ڈرت اری سمجھ میں ن ےکونسا مسئل تم ے ۔ ہ ہ ہ

وں ن اسی طرح کندھوں کی طرف ےڈرت عرض کیا تو ان ہ ے �رتا یوں اوپر کھینچ لیا ک ست ک ست آ اتھ بڑھائ اور آ ہاپن ہ ہ ہ ہ ے ہ ے و گئی پھر فرمایا "بناؤ اپنی انگلی س ن ےان کی کمر بر ۔ ۔ ہ ہ ہ " مجھ پر سکت کا ہمیری کمر پر ایک متساوی الساقین ۔ ٹن مت تھی ن پیچھ ےعالم طاری تھا ن آگ بڑھن کی ہ ے ہ ہ ے ے ہ ۔

، میاں جلدی کرو نابینا ۔کی طاقت ایک لمح ک بعد بول ے ے ہ ۔ یں سمجھتا میں ڈرت ڈرت آگ ےوں کاغذ قلم کچھ ن ے ے ۔ ہ ۔ ہ

وئی انگلیوں انپتی ہبڑھا اور ان کی چوڑی چکلی کمر پر ہ ہس متساوی الساقین بنان لگا جب و غیر مرئی شکل ۔ ے ے "س" س خط "ب ج" پر ےبن چکی تو بول اب اس نقط ہ ے اں کچھ وا تھا دوسر و ہعمود گراؤ ایک تو میں گھبرایا ے ہ ۔ ی اٹکل س میں ن ایک مقام پر انگلی رکھ ےن آتا تھا یون ے ہ ۔ ہ و ی ا تو تیزی س بول کیا کرت ہکر عمود گرانا چا ہ ے ہے ہے ے ے ہ

ہےنقط کیا؟ ہ

و جاؤ گ و بول ر ست عادی ست آ ی بول آ ہےپھر خود ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ا تھا ک ابھی ان وت بیٹھا تھا یوں لگ ر ہتھ اور میں مب ہ ۔ ہ ے

ےک آخری جمل ک ساتھ نور کی لکیر متساوی الساقین ے ے " پھر داؤ جی دلی ک ےبن کر ان کی کمر پر ابھر آئیں گی ۔

ہدنوں میں ڈوب گئ ان کی آنکھیں کھلی تھیں و میری ے۔

Page 131: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں دیکھ ر تھ میں ے۔طرف دیکھ ر تھ لیکن مجھ ن ہے ہ ے ے ہے وں ن وا داؤ جی؟"ان و کر پوچھا "پھر کیا ےن ب چین ہ ہ ۔ ہ ے ے

ت گزر چکی اب تو ا "رات ب وئ ک ہےکرسی س اٹھت ہ ہ ے ہ ے ے " میں ضدی بچ کی طرح ان ک ےسو جا پھر بتاؤں گا ے ۔ ل وعد کر ک آئند ا "پ وں ن ک ہپیچھ پڑ گیا تو ان ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ے

و گا اور ان چھوٹی چھوٹی پراپوزیشنوں کو یں ہمایوس ن ہ ہپتاش سمجھ گا" میں ن جواب دیا "حلو سمجھوں گا ۔ ے ے ے

وئ وں ن کھڑ کھڑ کمبل لپیٹت ےآپ فکر ن کریں" ان ہ ے ے ے ے ہ ہ ا "بس مختصر ی ک میں ایک سال حکیم صاحب کی ہک ہ ۔ ہ

ا اور اس بحرl علم س چند قطر حاصل ےحضوری میں ر ے ہ ۔کر ک اپنی کور آنکھوں کو دھویا واپسی پر میں سیدھا ے نچا اور ان ک قدموں پر سر ےاپن آقا کی خدمت میں پ ہ ے

و تو ان م میں قوت ہرکھ دیا فرمان لگ چنت رام اگر ہ ے ے ۔ ۔پاؤں کو کھینچ لیں اس پر میں رو دیا تو دستl مبارک

م تم س ، ن لگ ےمحبت س میر سر پر پھیر کر ک ہ ے ے ہ ے ے ت طویل یں لیکن ایک سال کی فرقت ب یں ہے۔ناراض ن ہ ہ ہ

وئ ت میں بھی ساتھ ل جانا، ی ک و تو یں جانا ےآئند ک ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ےداؤ جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئ اور و مجھ اسی ہ ے

ے۔طرح گم سم چھوڑ کر بیٹھک میں چل گئ ے "

ا تھا لیکن و ر ہامتحان کی قربت س میرا خون خشک ہ ے ن ا تھا داؤ جی کو میر موٹاپ کی فکر ر ےجسم پھول ر ہ ے ے ۔ ہ

ت "اسپl تازی اتھ پکڑ کر ک ے۔لگی اکثر میر تھن متھن ہ ہ ے ے ۔ ت ناگوار گزرتا " مجھ ان کا ی فقر ب ہبن طویل خر ن بن ہ ہ ے ۔ ہ ہ ~ ان س کالم بند کر دیتا میر مسلسل ےاور میں احتجاجا ۔ ے ہمرن برت ن بھی ان پر کوئی اثر ن کیا اور ان کی فکر، ے

ےاندیش کی حد تک بڑھ گئی ایک صبح سیر کو جان س ے ۔ ہ وں ن مجھ آ جگایا اور میری منتوں، خوشامدوں، ل ان ےپ ے ہ ے ہ نا ہگالیوں اور جھڑکیوں ک باوجود بستر س اٹھا کوٹ پ ے ے

ےکر کھڑا کر دیا پھر و مجھ بازو س پکڑ کر گویا ے ہ ۔ ر گئ سردیوں کی صبح کوئی چار بج وئ با ےگھسیٹت ے۔ ہ ے ہ ے

ےکا عمل گلی میں آدم ن آدم زاد، تاریکی س کچھ بھی ہ ۔ ےدکھائی ن دیتا تھا اور داؤ جی مجھ اسی طرح سیر کو ہ

ا تھا اور و ک ر تھ ابھی ےل جا ر تھ میں کچھ بک ر ہے ہہ ہ ہ ے۔ ہے ے ا وئی ابھی طنبورا بڑبڑا ر یں ہے۔گراں خوابی دور ن ہ ہ ہ

ت کوئی سر نکال طنبور ےتھوڑ تھوڑ وقف ک بعد ک ے ہ ے ہ ے ے

Page 132: اردو ادب کے مشہور افسانے

م بستی س دور ! جب ا نگ پر بجا ی کیا کر ر ےکی آ ہ ہے ہ ہ ہ وا ن میری آنکھوں کو ےنکل گئ اور صبح کی یخ ہ ے

۔زبردستی کھول دیا تو داؤ جی ن میرا بازو چھوڑ دیا ے ٹ آیا اور نکل گیا ندی آئی اور پیچھ ر ہسرداروں کا ر ے ۔ ہ

ی ہگئی قبرستان گزر گیا مگر داؤ جی تھ ک کچھ آیتیں ہ ے ۔ نچ تو میری روح فنا ےپڑھت چل جا ر تھ جب تھب پر پ ہ ہ ے۔ ہے ے ے

ر ک وقت بھی ن گزرت تھ اں س لوگ دوپ ےو گئی ی ے ہ ے ہ ے ہ ۔ ہو ا تھا مرن ر غرق اں ایک ش ےکیونک پران زمان میں ی ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ تی تھیں اور آن جان ےوالوں کی روحیں اسی ٹیل پر ر ے ہ ے

ےوالوں کا کلیج چبا جاتی تھیں میں خوف س کانپن لگا ے ۔ ہ ےتو داؤ جی ن میر گل ک گرد مفلر اچھی طرح لپیٹ ے ے ے

ا ۔کر ک ہ

ےسامن ان دو کیکروں ک درمیان اپنی پوری رفتار س ے ے دس چکر لگاؤ، پھر سو لمبی سانسیں کھینچو اور چھوڑ

وں، میں تھب س اں بیٹھتا ےدو، تب میر پاس آؤ، میں ی ہ ہ ہ ے و ہجان بچان ک لئ سیدھا ان کیکروں کی طرف روان ہ ے ے ے

ل ایک بڑ س ڈھیل پر بیٹھ کر آرام کیا اور ساتھ ےگیا پ ے ے ے ہ ۔ و گا، اس ہی حساب لگایا ک چھ چکروں گا وقت گزر چکا ہ ہ

ست اونٹ کی طرح کیکروں ک درمیان ست آ ےک بعد آ ہ ہ ہ ہ ے و گئ تو پھر ےدوڑن لگا اور جب دس یعنی چار چکر پور ہ ے ے

۔اسی ڈھیل پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں کھینچن لگا ے ے ےایک تو درخت پر عجیب و غریب قسم ک جانور بولن ے

و گیا ہلگ تھ دوسر میری پسلی میں بال کا درد شروع ے ے ے ی مناسب سمجھا ک تھب پر جا کر داؤ جی کو سوئ ےتھا ی ہ ہ ہ ۔ ہوئ اٹھاؤں اور گھر ل جا کر خوب خاطر کروں؟ غص ے ے ہنچا شت س لرزتا میں ٹیل ک پاس پ ۔س بھرا اور د ہ ے ے ے ہ ے وئ ےداؤ جی تھب کی ٹھیکریوں پر گھٹنوں ک بل گر ہ ے ے ہ

ےدیوانوں کی طرح سر مار ر تھ اور اونچ اونچ اپنا ے ے ہے ے۔محبوب شعر گار تھ ہے

ہجفا کم کن ک فردا روزl محشرہب پیشl عاشقاں شرمند باشی ہ !

تھیلیاں زور س زمین پر مارت اور سر اوپر ےکبھی دونوں ے ہ الت جیس کوئی ادت فضا میں یوں ےاٹھا کر انگشتl ش ے۔ ہ ہ و دیکھ لو، و اور اس س ک ر ہان ک سامن کھڑا ہے ہہ ے ہ ے ے وںایک ا وں سنا ر ا یں بتا ر یںمیں تم ہسوچ لو میں تم ہ ہ ہ ہ ہ

Page 133: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےدھمکی دئ جات تھ پھر تڑپ کر ٹھیکریوں پر گرت اور ے۔ ے ے وئ رون لگت تھوڑی دیر ت ے۔جفا کم کن جفا کم کن ک ے ے ہ ے ہ ا اور پھر زور س چیخ مار کر ےمیں ساکت و جامد کھڑا ر ہ ےبجائ قصب کی طرف بھاگن ک پھر کیکروں کی طرف ے ہ ے l اعظم جانت تھ اور و جن ہدوڑ گیا داؤ جی ضرور اسم ے ے ۔ ےقابو کر ر تھ میں ن اپنی آنکھوں س ایک جن ان ک ے ے ے۔ ہے

۔سامن کھڑا دیکھا تھا بالکل الف لیلیP با تصویر واال جن ے ےتھا جب داؤ جی کا طلسم اس پر ن چل سکا تو اس ن ہ ۔

یں نیچ گرا لیا تھا و چیخ ر تھ جفا کم کن جفا کم ےان ہے ہ ۔ ے ہ یں تھا میں اسی ڈھیل پر بیٹھ کر ےکن مگر و چھوڑتا ن ۔ ہ ہ ل جیسا وں ن پ ےرون لگاتھوڑی دیر بعد داؤ جی آئ ان ہ ے ہ ے ے

" اور میں ڈرتا ڈرتا ان ک ا "چل طنبور ر بنا کر ک ےچ ے ۔ ہ ہ ہ وئی وں ن گل میں لٹکتی و لیا راست میں ان ہپیچھ ے ے ہ ہ ۔ ہ ے

اتھ میں پکڑ لئ اور جھوم ےکھلی پگڑی ک دونوں کون ہ ے ے ے۔جھوم کر گان لگ ے

ےتیر لم لم وال فریدا ٹریا جا ے ے !

وئ میں ن ان آنکھوں س ےاس جادو گر ک پیچھ چلت ے ے ہ ے ے ے و گیا ان ۔واقعی ان آنکھوں س دیکھا ک ان کا سر تبدیل ہ ہ ے ےکی لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر جھولن لگیں اور ان کا و گیااس ک بعد چا کوئی میری ہےسارا وجود جٹا دھاری ے ہ

ر گز ن ہبوٹی بوٹی اڑا دیتا، میں ان ک ساتھ سیر کو ہ ے !جاتا

مار گھر میں ی دن بعد کا قص ک ےاس واقع ک چند ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ےمٹی ک بڑ بڑ ڈھیل اور اینٹوں ک ٹکڑ آ کر گرن ے ے ے ے ے ے

۔لگ ب ب ن آسمان سر پر اٹھا لیا کتیا کی بچوں کی ے ے ے ے۔ ےطرح داؤ جی س چمٹ گئی سچ مچ ان س لپٹ کر ۔ ے ی یں دھکا د کر زمین پر گرا دیا و چال ر ہگئی اور ان ہ ۔ ے ہ یں ی سب تیری ہتھی "بڈھ ٹوٹکی ی سب تیر منتر ۔ ہ ے ہ ے ۔

مار سر پر آگیا ہے۔خارسی تیرا کاال علم جو الٹا ے ہ ہے ہے۔ یں اجاڑ مانگت ےتیر پریت میر گھر میں اینٹیں پھینکت ۔ ہ ے ے ے " پھر و زور زور س چیخن لگی یں ت ےیں موت چا ے ہ ۔ ہ ے ہ ۔ ہے"میں مر گئی، میں جل گئی، لوگوں اس بڈھ ن میر ے ے

ہے۔امی چند کی جان لین کا سمبندھ کیا مجھ پر جادو کیا ے " امی چند تو داؤ جی کو ہے۔ اور میرا انگ انگ توڑ دیا ہے

ےاپنی زندگی کی طرح عزیز تھا اور اس کی جان ک

Page 134: اردو ادب کے مشہور افسانے

و سکت تھ لیکن جنوں کی خشت ےدشمن بھال و کیونکر ے ہ ہ یں کی وج س عمل میں آئی تھی جب میں ن ےباری ان ۔ ے ہ ہ

لی ہبھی ب ب کی تائید کی تو داؤ جی ن زندگی میں پ ے ے ے ا "تو احمق اور تیری ب ب ام ےبار مجھ جھڑک کر ک ے ہے ہ ے وا ک تو جنوں لینمیری ایک سال کی تعلیم کا ی اثر ہالجا ہ ہ ہ

ےبھوتوں میں اعتقاد کرن لگا افسوس تو ن مجھ ے ۔ ے ےمایوس کر دیا، ا وائ ک تو شعور کی بجائ عورتوں ک ے ہ ے ے ےاعتقاد کا غالم نکال افسوس صد افسوس" ب ب کو ے ۔

ت چھوڑ کر میں ےاسی طرح چالت اور داؤ جی کو یوں کرا ہ ے ےاوپر کوٹھ پر دھوپ میں جا بیٹھا اسی دن شام کو جب

ا تھا تو راست میں رانو ن اپن ےمیں اپن گھر جا ر ے ے ہ ے ےمخصوص انداز میں آنکھ کانی کر ک پوچھا "بابو تیر ے

ار پنڈت ک گھر یں لگا؟ سنا تم ےکوئی اینٹ ڈھیال تو ن ے ہ ہے ہ یں ۔میں روڑ گرت ہ ے ے "

ہمیں ن اس کمین ک من لگنا پسند ن کیا اور چپ چاپ ہ ے ہ ے و گیا رات ک وقت داؤ جی مجھ س ےڈیوڑھی میں داخل ے ۔ ہ

وئ پوچھن لگ "بیٹا کیا ےجیومیٹری کی پراپوزیشن سنت ے ے ہ ے تم سچ مچ جن، بھوت یا پری چڑیل کو کوئی مخلوق

نس پڑ و؟" میں ن اثبات میں جواب دیا تو و ےسمجھت ہ ہ ے ہ ے ت بھوال اور میں ن خوا مخوا ہاور بول واقعی تو ب ہ ے ہے ہ ے وت ل کیوں ن بتایا ک جن ےجھڑ ک دیا بھال تو ن مجھ پ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ۔

م ن جو یں ےیں اور اس طرح س اینٹیں پھینک سکت ہ ۔ ہ ے ے ہ، و تیر ےدلی اور پھت مزدور کو بال کر برساتی بنوائی ہ ہے ے

ہکسی جن کو ک کر بنوا لیت لیکن ی تو بتا ک جن صرف ہ ے ہہ یں ک چنائی بھی کر لیت ی کرت ےاینٹیں پھینکن کا کام ہ ہ ے ہ ے و کر لو مگر ا "جتن مذاق چا " میں ن جل کر ک ہیں ے ہ ے ۔ ہ" داؤ جی ن ےجس دن سر پھٹ گا اس دن پت چل گا داؤ ۔ ے ہ ے

وئی اینٹ س تو تا قیامت سر ا "تیر جن کی پھینکی ےک ہ ے ہ یں پھٹ سکتا اس لئ ک و ن ن اس س اینٹ اٹھائی ےن ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ےجا سک گی اور ن میر تیر یا تیری ب ب ک سر میں ے ے ے ے ہ ے

۔لگ گی ے "

l طبعی کا موٹا اصول ک کوئی ہپھر بول "سن! علم ہے ے۔ یں ہمادی ش کسی غیر مادی وجود س حرکت میں ن ے ے

۔الئی جا سکتی سمجھ گیا "

" ا ۔سمجھ گیا" میں ن چڑ کر ک ہ ے

Page 135: اردو ادب کے مشہور افسانے

ائی سکول ضرور تھا لیکن میٹرک کا ہمار قصب میں ہ ے ہمیں ضلع جانا ہامتحان کا سنٹر ن تھا امتحان دین ک لئ ے ے ے ۔ ہ

ماری جماعت ہوتا تھا چنانچ و صبح آ گئی جس دن ہ ہ ۔ ہی تھی اور الری ک ارد ےامتحان دین ک لئ ضلع جا ر ہ ے ے ے جوم جوم تھا اور اس ہگرد والدین قسم ک لوگوں کا ہ ے

ے۔میں داؤ جی کیس پیچھ ر سکت تھ اور سب لڑکوں ے ہ ے ے یں خیر و برکت کی دعاؤ ں س نواز ر ہےک گھر وال ان ے ہ ے ے

ہتھ اور داؤ جی سار سال کی پڑھائی کا خالص تیار کر ے ے ےک جلدی جلدی سوال پوچھ ر تھ اور میر ساتھ ساتھ ے ہے ے

ی جواب دیت جات تھ اکبر کی اصطالحات س ےخود ے۔ ے ے ہ اں س نچ جات و ےاچھل کر موسم ک تغیر و تبدل پر پ ہ ے ہ ے

ےپلٹت تو "اس ک بعد ایک اور بادشا آیا ک اپنی وضع س ہ ہ ے ے وتا تھا و نش میں چور تھا ایک صاحبl جمال ہندو معلوم ہ ۔ ہ ہ

تی تھی اتھ پکڑ کر ل آئی تھی اور جدھر چا ہاس کا ے ہ ہپھراتی تھی " ک کر پوچھت تھ ی کون تھا؟ ے ے ہہ

م" ان" انگیر " میں ن جواب دیا اور و عورت "نور ج ہج ہ ۔ ہ ۔ ے ہ "صفتl مشب اور اسم فاعل میں ہدونوں ایک ساتھ بول ے

ےفرق؟" میں ن دونوں کی تعریفیں بیان کیں بول ۔ ے ےمثالیں؟ میں ن مثالیں دیں سب لڑک الری میں بیٹھ ۔ ے

وا تو ہگئ اور میں ان س جان چھڑا کر جلدی س داخل ے ے ے ےگھوم کر کھڑکی ک پاس آ گئ اور پوچھن لگ بریک ان ے ے ے

۔اور بیک ان ٹو کو فقروں میں استعمال کرو ان کا و چلی تو اس ک و گیا اور موٹر سٹارٹ ےاستعمال بھی ہ ہ

ےساتھ قدم اٹھا کر بول طنبور مادیاں گھوڑیاں ماکیاں ے ہمرغیمادیاں گھوڑیاںماکیاںایک سال بعد خدا خدا کر ک ی ے

وئی اور میں ن آزادی کا سانس لیا ےآواز دور ہ !

وا دوسر دن جغرافی کا ت اچھا ل دن تاریخ کا پرچ ب ہپ ے ۔ ہ ہ ہ ے ہ ےاس بھی بڑھ کر، تیسر دن اتوار تھا اور اس ک بعد ے

۔حساب کی باری تھی اتوار کی صبح کو داؤ جی کا کوئی ےبیس صفح لمبا خط مال جس میں الجبر ک فارمولوں ے ہ

ہاور حساب ک قاعدوں ک عالو اور اور کوئی بات ن ہ ے ے ۔تھی

ےحساب کا پرچ کرن ک بعد برآمد میں میں ن لڑکوں ے ے ے ہ ہس جوابات مالئ تو سو میں س اسی نمبر کا پرچ ے ے ے

Page 136: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیا زمین پر پاؤں ن ہٹھیک تھا میں خوشی س پاگل ۔ ہ ے ۔ ے۔پڑتا تھا اور میر من س مسرت ک نعر نکل ر تھ ہے ے ے ے ہ ے

ر رکھا داؤ جی کھیس ی میں ن برآمد س پاؤں با ۔جون ہ ے ے ے ہ ے۔کندھ پر ڈال ایک لڑک کا پرچ دیکھ ر تھ میں چیخ ہے ہ ے ے ے

ےمار کر ان س لپٹ گیا اور اسی نمبر!! اسی نمبر" ک ۔ ے اتھ س وں ن پرچ میر ےنعر لگان شروع کر دی ان ہ ے ہ ے ہ ے۔ ے ے

و گیا؟" ہچھین کر تلخی س پوچھا "کون سا سوال غلط ے ا "چار دیواری واال " جھال کر بول "تو ےمیں ن جھوم کر ک ہ ے " میں ن ان وں گ ےن کھڑکیاں اور درواز منفی ن کئ ے ہ ے ہ ے ے ا وئ ک اتھ ڈال کر پیڑ کی طرح جھالت ہکی کمر میں ے ہ ے ہ اں جی گولی مارو کھڑکیوں کو " داؤ جی ڈوبی اں ہ" ہ ےوئی آواز میں بول "تو ن مجھ برباد کر دیا طنبور ے ے ے ہ

ا تا ر ہسال ک تین سو پینسٹھ دن میں پکار پکار کر ک ہ ے ےسطحات کا سوال آنکھیں کھول کر حل کرنا مگر تو ن

پور بیس نمبر ۔میری بات ن مانی بیس نمبر ضائع کئ ے ے ۔ ہ "

ر دیکھ کر میری اسی فیصد کامیابی ہاور داؤ جی کا چ ہ ےبیس فیصد ناکامی ک نیچ یوں دب گئی گویا اس کا ے ت ر ی ن تھا راست بھر و اپن آپ س ک ہے۔کوئی وجود ے ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ وا تو دو ایک نمبر تو ضرور د ے"اگر ممتحن اچھ دل کا ہ ے

" اس پرچ ک بعد داؤ جی ےگا، تیرا باقی حل تو ٹھیک ے ہے۔ ہامتحان ک آخری دن تک میر ساتھ ر و رات ک بار ے ہ ہے۔ ے ے اں ہبج تک مجھ اس سرائ میں بیٹھ کر پڑھات ج ے ے ے ے

ےکالس مقیم تھی اور اس ک بعد بقول ان ک اپن ایک ے ے اں چل جات صبح آٹھ بج پھر آ جات اور ےدوست ک ے ے۔ ے ہ ے

ے۔کمر امتحان تک میر ساتھ چلت ے ہ

ی میں ن داؤ جی کو یوں چھوڑ دیا وت ےامتحان ختم ہ ے ہ چان ن تھی سارا دن دوستوں ۔گویا میری ان س جان پ ہ ہ ے

۔یاروں ک ساتھ گھومتا اور شام کو ناولیں پڑھا کرتا اس ے دوران میں اگر کبھی فرصت ملتی تو داؤ جی کو سالم

ر روز ہکرن بھی چال جاتا و اس بات پر مصر تھ ک میں ہ ے ہ ۔ ے ےکم از کم ایک گھنٹ ان ک ساتھ گزاروں تاک و مجھ ہ ہ ے ہ

ےکالج کی پڑھائی ک لئ بھی تیار کریں لیکن میں ان ک ے ے ونا ہپھند میں آن واال ن تھا مجھ کالج میں سو بار فیل ے ۔ ہ ے ے

یں ۔گوارا تھا اور لیکن داؤ جی س پڑھنا منظور ن ہ ے ہے ۔پڑھن کو چھوڑیئ ان س باتیں کر نا بھی مشکل تھا ے ے ے

Page 137: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا اس کا فارسی میں وں ن ک ہمیں ن کچھ پوچھا ان ے ہ ۔ ے ےترجم کرو، میں ن کچھ جواب دیا فرمایا اس کی ترکیب ہ

ےنحوی کرو حوالداروں کی گائ اندر گھس آئی میں اس ے ۔ یں وں اور داؤ جی پوچھ ر ا ر نکال ر ہلکڑی س با ہے ہ ہ ہ ے

cow ر عقل کا اندھا پانچویں ہناؤن یا ورب اب ۔ ہے ہےجماعت پڑھا جانتا ک گائ اسم مگر داؤ جی فرما ر ہے ے ہ ہے

۔۔یں ک اسم بھی اور فعل بھی ہے ہ ہ

cow to ہکا مطلب ڈرانا، دھمکی دینا اور ی ان دنوں ۔ ہے و کر نتیج کا یں جب میں امتحان س فارغ ہکی باتیں ہ ے ہ

م چند دوست ا تھاپھر ایک دن و بھی آیا جب ہانتظار کر ر ہ ہ ےشکار کھیلن ک لئ نکل تو میں ن ان س درخواست ے ے ے ے ے اں داؤ جی ہکی ک منصفی ک آگ س ن جائیں کیونک و ہ ہ ے ے ے ہ ےوں گ اور مجھ روک کر شکار، بندوق اور کارتوسوں ے ہےک محاور پوچھن لگیں گ بازار میں دکھائی دیت تو ے۔ ے ے ے ~ ملن ےمیں کسی بغلی گلی میں گھس جاتا گھر پر رسما ۔ ۔جاتا تو ب ب س زیاد اور داؤ جی س کم باتیں کرتا ے ہ ے ے ے میں ا کرت افسوس آفتاب کی طرح تو بھی ہاکثر ک ے۔ ہ

~ خیل خوب خیل خوب ک ا میں شرارتا ہہفراموش کر ر ے ے ہے۔ ہ نسن لگتا ۔کر ے ہ

ہجس دن نتیج نکال اور ابا جی لڈوؤں کی چھوٹی سی ےٹوکری ل کر ان ک گھر گئ داؤ جی سر جھکائ اپن ے ے۔ ے ے وئ ےحصیر میں بیٹھ تھ ابا جی کو دیکھ کر اٹھ کھڑ ہ ے ے۔ ے

ےاور اندر س کرسی اٹھا الئ اور اپن بوری ک پاس ڈال ے ے ے ے وں، لیکن ہکر بول "ڈاکٹر صاحب آپ ک سامن شرمند ہ ے ے ے ، میرا خیال تھا ک ہاس بھی مقسوم کی خوبی سمجھئ ے ے ےاس کی فرسٹ ڈویژن آ جائ گی لیکن اس کی بنیاد

"کمزور تھی

" میں ن چمک کر بات کاٹی اور" ی تو نمبر کم ۔ایک ے ہے۔ ہ یں جانتا اس ایک نمبر ہو میری طرف دیکھ کر بول "تو ن ے ہ و گیا خیر میں اس منجانب الل ہس میرا دل دو نیم ے ہے۔ ہ ے

وں پھر اباجی اور و باتیں کرن لگ اور میں ےخیال کرتا ے ہ ۔ ہ و گیا ۔ب ب ک ساتھ گپیں لڑان میں مشغول ہ ے ے ے ے

ہاول اول کالج س میں داؤ جی ک خطوں کا باقاعد ے ے ا اس ک بعد ب قاعدگی س لکھن لگا اور ےجواب دیتا ر ے ے ے ۔ ہ

Page 138: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیا چھٹیوں میں جب ست ی سلسل بھی ختم ست آ ۔آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ےگھر آتا تو جیس سکول ک دیگر ماسٹروں س ملتا ے ے ی داؤ جی کو بھی سالم کر آتا اب و مجھ س ےویس ہ ۔ ہ ے

ے۔سوال وغیر ن پوچھت تھ کوٹ، پتلون اور ٹائی دیکھ کر ے ہ ہ وت چارپائی پر بیٹھن ن دیت "اگر مجھ ت خوش ےب ے۔ ہ ے ے۔ ہ ہ

" اور میں کرسی یں دیتا تو خود کرسی ل ل ےاٹھن ن ے ہ ے ےکھینچ کر ان ک پاس ڈٹ جاتا کالج الئبریری س میں جو ۔ ے

یں دیکھن کی تمنا ضرور کرت ےکتابیں ساتھ الیا کرتا ان ے ہ مار گھر آ کر ےاور میر وعد ک باوجود اگل دن خود ہ ے ے ے ے ہکتابیں دیکھ جات امی چند بوجو کالج چھوڑ کر بنک میں ے۔ و گیا تھا اور دلی چال گیا تھا ب ب کی سالئی کا ےمالزم ے ۔ ہ ہکام بدستور تھا داؤ جی منصفی جات تھ لیکن کچھ ن ے ے ۔

ےالت تھ بی بی ک خط آت تھ و اپن گھر میں خوش ہ ے ے ے ے۔ ے ےتھی کالج کی ایک سال کی زندگی ن مجھ داؤ جی س ے ے

مار ساتھ ل ت دور کھینچ لیا و لڑکیاں جو دو سال پ ےب ہ ے ہ ہ ۔ ہ ۔آپو ٹاپو کھیال کرتی تھیں بنت عم بنت بن گئی تھیں سیکنڈ ر چھٹی میں آپو ٹاپو میں گزارن کی ےائیر ک زمان کی ہ ے ے وتا گھر کی ۔کوشش کرتا اور کسی حد تک کامیاب بھی ہ ہمختصر مسافت ک سامن ایبٹ آباد کا طویل سفر زیاد ے ے

انا بن گیا ۔تسکین د اور س ہ ہ

لی مرتب ایک خوبصورت گالبی پیڈ ی ایام میں میں ن پ ہان ہ ے ہ ی لفافوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا اور ان پر ن ہاور ایس ہ ے ی داؤ جی کو ۔ابا جی کو خط لکھ جا سکت تھ اور ن ہ ہ ے ے ے و سکی ر کی چھٹیوں میں داؤ جی س مالقات ہن دس ے ے ہ ہ ی ایسٹر گزر ہتھی ن کرسمس کی تعطیالت میں ایس ے ۔ ہ ملک کو آزادی ملن لگی تو ی ایام گزرت ر ےگیا اور یوں ہے ے ہ

ر طرف س و گئیں وئ پھر لڑائیاں شروع ےکچھ بلو ہ ۔ ہ ے ہ ے م سب کو گھر ہفسادات کی خبریں آن لگیں اور اماں ن ے ے و کار ت محفوظ جگ تھی بنئ سا مار لئ ی ب ہبلوا لیا ے ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ ۔ ےگھر بار چھوڑ کر بھاگ ر تھ لیکن دوسر لوگ خاموش ے ہے

اجرین کی آمد کا سلسل ی دنوں بعد م ہتھ تھوڑ ہ ہ ے ے۔ ی لوگ ی خبر الئ ک آزادی مل گئی! و گیا اور و ہشروع ے ہ ہ ہ

مار قصب میں بھی چند گھروں کو آگ لگی اور ےایک دن ے ہ وئی تھان وال اور ملٹری ک ےدو ناکوں پر سخت لڑائی ے ے ۔ ہ

وا تو سب یوں ن کرفیو لگا دیا اور جب کرفیو ختم ہسپا ے ہ ر کو اماں جی ن ، دوپ ےندو سکھ قصب چھوڑ کر چل دئ ہ ے ہ ہ

Page 139: اردو ادب کے مشہور افسانے

نچانی ہمجھ دا ؤ جی کی خبر لین بھیجا تو اس جانی پ ے ے مار گھر ےگلی میں عجیب و غریب صورتیں نظر آئیں ہ ۔ ےیعنی داؤ جی ک گھر کی ڈیوڑھی میں ایک بیل بندھا تھا ا تھا میں ن گھر آ ےاور اس ک پیچھ بوری کا پرد لٹک ر ۔ ہ ہ ے ے

ےکر بتایا ک داؤ جی اور ب ب اپنا گھر چھوڑ کر چل گئ ے ے ے ہ وئ میرا گال رندھ گیا اس دن مجھ یوں ت ےیں اور ی ک ۔ ے ہ ے ہ ہ ہیں اور میش ک لئ چل گئ میش ہلگا جیس داؤ جی ے ے ے ے ہ ہ ہ ہ ے

ےلوٹ کر ن آئیں گ داؤ جی ایس ب وفا تھ ے ے ے۔ ہ !

ےکوئی تیسر روز غروب آفتاب ک بعد جب میں مسجد ے ےمیں نئ پنا گزینوں ک نام نوٹ کر ک اور کمبل ے ہ ے

ےبھجوان کا وعد کر ک اس گلی س گزرا تو کھل میدان ے ے ہ ے اجر لڑک ےمیں سو دو سو آدمیوں کی بھیڑ جمع دیکھی، م ہ

ے۔الٹھیاں پکڑ نعر لگا ر تھ اور گالیاں د ر تھ میں ہے ے ے ہے ے ے ےن تماشائیوں کو پھاڑ کر مرکز میں گھسن کی کوشش ے م گیا اجرین کی خونخوار آنکھیں دیکھ کر س ۔کی مگر م ہ ہ

ا تھا ۔ایک لڑکا کسی بزرگ س ک ر ہ ہہ ے

وا تھا جب لوٹا تو اپن گھر میں" ےساتھ وال گاؤں گیا ہ ے ۔گھستا چال گیا "

" ۔کون س گھر میں؟" بزرگ ن پوچھا ے ے

" ا اجروں ک گھر میں" لڑک ن ک تکی م ۔ر ہ ے ے ے ہ ہ

" ندو نکال وں ن پکڑ لیا دیکھا تو ۔پھر کیا ان ہ ۔ ے ہ "

ا "اوئ رانو ےاتن میں بھیڑ میں س کسی ن چال کر ک ۔ ہ ے ے ے " رانو ۔جلد آ اوئ جلدی آتیری سامیپنڈتتیری سامی ے

یں روک ا تھا ان ہبکریوں کا ریوڑ باڑ کی طرف ل جا ر ۔ ہ ے ے ہکر اور ایک الٹھی وال لڑک کو ان ک آگ کھڑا کر ک و ے ے ے ے ے

ےبھیڑ میں گھس گیا میر دل کو ایک دھکا سا لگا جیس ے ۔ و میں ن ملزم کو دیکھ وں ن داؤ جی کو پکڑ لیا ےان ے ۔ ہ ے ہ

ا ۔بغیر اپن قریبی لوگوں س ک ہ ے ے

" وی اس کچھ مت ک ہی بڑا اچھا آدمی بڑا نیک آدمی ہ ے ہے ہے ہ وئی چند آنکھوں ن میری طرف ائی ےتوی تو" خون میں ن ہ ہ ہ

۔دیکھا اور ایک نوجوان گنڈاسی تول کر بوال

Page 140: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےبتاؤں تجھ بھی آگیا بڑا حمایتی بن کرتیر ساتھ کچھ" ے و گا ا "انصار یں نا" اور لوگوں ن گالیاں بک کر ک ہوا ن ۔ ہ ے ہ ہ

۔شاید "

۔میں ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں گھس گیا رانو کی ےقیادت میں اس ک دوست داؤ جی کو گھیر کھڑ تھ ے ے ے

ا ا تھا اور پوچھ ر ال ر ہاور رانو داؤ جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہ ہ ، ےتھا اب بول بیٹا، اب بول" اور داؤ جی خاموش کھڑ تھ ے ۔ ل بودی کاٹو بودی" اور ا "پ ےایک لڑک ن پگڑی اتار کر ک ہ ۔ ہ ے ے

ےرانو ن مسواکیں کاٹن والی درانتی س داؤ جی کی ے ے ؟" اور رانو ی لڑکا پھر بوال "بال دیں ج ےبودی کاٹ دی و ہ ۔ ، میر ساتھ بکریاں چرایا کر "جان دو بڈھا ا ےں ن ک ے ہے ے ۔ ہ ے

ا وئ ک " پھر اس ن داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھات ہگا ے ہ ے ے ۔ ست س بول ے"کلم پڑھ پنڈتا" اور داؤ جی آ ے ہ ہ ہ :

"کون سا؟"

ےرانو ن ان ک ننگ سر پر ایسا تھپڑ مارا ک و گرت ہ ہ ے ے ے ےگرت بچ اور بوال "سال کلم بھی کوئی پانچ سات ے ے ے

"!ہیں

اتھ ہجب و کلم پڑھ چک تو رانو ن اپنی الٹھی ان ک ے ے ے ہ ہ یں "چل بکریاں تیرا انتظار کرتی ا ۔میں تھما کر ک ہ ۔ ہ "

ےاور ننگ سر داؤ جی بکریوں ک پیچھ پیچھ یوں چل ے ے ے ے و! ا ۔جیس لمب لمب بالوں واال فریدا چل ر ہ ہ ے ے ے

گنڈاسا

(احمد ندیم قاسمی)

ےاکھاڑ جم چکا تھا طرفین ن اپنی اپنی "چوکیاں" چن لی ۔ ہ ےتھیں "پڑکوڈی" ک کھالڑی جسموں پر تیل مل کر بجت ے ۔

وں ن رنگین لنگوٹیں ےوئ ڈھول ک گرد گھوم ر تھ ان ہ ے۔ ہے ے ے ہےکس کر باندھ رکھی تھیں ذرا ذرا س سفید پھینٹھئ ان ے ۔ وئ النب البن پٹوں ک نیچ س گزر کر سر ےک چپڑ ے ے ے ے ے ہ ے ے

ہےک دونوں طرف کنول ک پھولوں ک س طر بنا ر ے ے ے ے ے ےتھ وسیع میدان ک چاروں طرف گپوں اور حقوں ک ے ے۔

ےدور چل ر تھ اور کھالڑیوں ک ماضی اور مستقبل کو ے ہے

Page 141: اردو ادب کے مشہور افسانے

ور جوڑیاں ابھی میدان میں ا تھا مش ہجانچا پرکھا جا ر ۔ ہ یں اتری تھیں ی نامور کھالڑی اپن دوستوں اور عقیدت ےن ہ ۔ ہ ہےمندوں ک گھیر میں کھڑ اس شدت س تیل چپڑوا ر ے ے ے ے

ےتھ ک ان ک جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک ن ے ہ ے ہبالکل تانب کا سا رنگ د دیا تھا، پھر ی کھالڑی بھی ے ے

وئ ڈھولوں ک گرد چکر وں ن بجت ، ان ےمیدان میں آئ ے ہ ے ے ہ ے وئ ےکاٹ اور اپنی اپنی چوکیوں ک سامن ناچت کودت ہ ے ے ے ے ے

~ سار میدان میں ایک ~ فانا ےبھاگن لگ اور پھر آنا ے ے ؟ اں "موال ک ہےسرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی ہ ۔ "

ات س ی کا کھیل دیکھن تو ی لوگ دور دراز ک دی ےموال ہ ے ہ ے ہ ے۔کھنچ چل آئ تھ "موال کا جوڑی وال تاجا بھی تو ے ے ے

وا لوگ پوربی چوکوں کی طرف یں!" دوسرا بھنور پیدا ہن ہ وا پڑ ٹوٹ گیا ، جما ۔تیز تیز قدم اٹھات بڑھن لگ ہ ے ے ے

ےمنتظمین ن لمب لمب بیدوں اور الٹھیوں کو زمین پر مار ے ے جوم ک سامن گرد کا طوفان اڑان وئ ےمار کر بڑھت ے ے ہ ے ہ ے

ہکی کوشش کی ک پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون ن تھا مگر جب ہ وا ایک ہی سرگوشی ان ک کانوں میں سیروں بارود بھرا ے ہ ر طرف ہگوال ایک چکرا دین وال دھماک س پھٹ پڑا ۔ ے ے ے ے ۔سناٹا چھا گیا لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس ےجان لگ موال اپن جوڑی وال تاج ک ساتھ میدان میں ے ے ے۔ ے

وئ ےآگیا اس ن پھندنوں اور ڈوریوں س سج اور لد ہ ے ے ے ے ۔ ےڈھول ک گرد بڑ وقار س تین چکر کاٹ اور پھر ڈھول ے ے ے اتھ ہکو پوروں س چھو کر یا عل کا نعر لگان ک لئ ے ے ے ہ ی� ے ی تھا ک ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم ہوا میں بلند کیا ہ ہ" ےچیرتی پھاڑتی اس ک سین پر گنڈاسا بن کر پڑی مول ے ے

و گیا ہ"ا مول بیٹ تیرا باپ قتل ے۔ ے ے !"

را گیا اور اتھ سانپ ک پھن کی طرح ل وا ہموال کا اٹھا ے ہ ہ ت نکل آئ ے۔پھر ایک دم جیس اس ک قدموں میں ن ے ہ ے ے

!" ان کی ے"رنگ ن تیر باپ کو ادھیڑ ڈاال گنڈاس س ے ہے ے ے ے ےماں کی آواز ن اس کا تعاقب کیا !

ےپڑ ٹو ٹ گیا ڈھول رک گئ کھالڑی جلدی جلدی کپڑ ے۔ ۔ وئی اور پھر بھگدڑ جوم میں افراتفری پیدا نن لگ ہپ ہ ے۔ ے ہ ےمچ گئی موال ک جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں ۔

ت پیچھ اس کا جوڑی ا تھا ب ےکونڈت بکھیرتا اڑا جا ر ہ ۔ ہ ے ےوال تاجا اپن اور موال ک کپڑوں کی گٹھڑی سین س ے ے ے

Page 142: اردو ادب کے مشہور افسانے

جوم ا تھا اور پھر اس ک پیچھ ایک خوف زد ہلگائ آ ر ہ ے ے ہ ے ےتھا جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگ سر پھرن کا ے ۔ اں موال صرف ایک گالبی لنگوٹ و سکتا تھا و ہحوصل ن ہ ہ ہ

ناریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں ک ریوڑوں ےباندھ پ ہ ے ا تھا اور جب و رنگ کی چوپال ک وا لپکا جا ر ےکو چیرتا ے ہ ہ ہ جوم میں س پیر نچا تو سامن ایک اور ےبالکل سامن پ ہ ے ہ ے ےنور شا نکل اور موال کو للکار کر بول "رک جا مول ے۔ ے ہ !"

ےموال لپکا گیا مگر پھر ایک دم جیس اس ک قدم جکڑ لئ ے ے ہگئ اور و بت کی طرح جم کر ر گیا پیر نور شا اس ۔ ہ ہ ے

ےک قریب آئ اور اپنی پاٹ دار آواز میں بول "تو آگ ے۔ ے ے یں جائ گا موال ےن ہ !"

وا موال کچھ دیر پیر نور شا کی آنکھوں میں آنکھیں ہانپتا ہ ہیں جاؤں گا پیر جی تو زند ا پھر بوال "آگ ن ہڈال کھڑا ر ہ ے ۔ ہ ے

وں گا؟" ۔کیوں ر ہ

" وئ دبدب وں" پیر جی "میں پر زور دیت ا ےمیں ک ر ے ہ ے ہ ہ ہہ ے۔س بول ے "

ی سانس میں بولتا چال گیا انپن ک باوجود ایک ۔موال ہ ے ے ہ ے"تو پھر میر من پر کالک بھی مل ڈالئ اور ناک بھی کاٹ ہ ے

ہےڈالئ میری، مجھ تو اپن باپ ک خون کا بدل چکانا ہ ے ے ے ے ن پر وتی تو میں آپ ک ک ےپیر جی بھیڑ بکریوں کی بات ہ ے ہ ۔

یں س پلٹ جاتا ۔ی ے ہ "

ےموال ن گردن کو بڑ زور س جھٹکا د کر رنگ ک ے ے ے ے ے ےچوپال کی طرف دیکھا رنگا اور اس ک بیٹ بٹھوں سر ے ۔ ےگنڈاس چڑھائ چوپائ پر تن کھڑ تھ رنگ کا بڑا ے۔ ے ے ے ے ے

۔لڑکا بوال

وئ پیٹ" ی وار س پھٹ ےآؤ بیٹ آؤ گنڈاس ک ایک ہ ے ے ہ ے ے ۔ ے یں، ہمیں س انتڑیوں کا ڈھیرا ن اگل ڈالوں تو قادا نام ن ہ ے

ےمیرا گنڈاسا جلد باز اور کبڈی کھیلن وال الڈل بیٹ ے ے ے ہے یں اور کفن کا لٹھا ، روت یں لیت ہباپ ک قتل کا بدال ن ے ے ہ ے

یں ۔ڈھونڈن چل جات ہ ے ے ے "

ی ون ک انتظار میں تھا ایک ہموال جیس بات ختم ۔ ے ے ہ ے نچ گیا مگر اب کبڈی ۔رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پ ہ

Page 143: اردو ادب کے مشہور افسانے

نچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس جوم بھی پ ہک میدان کا ہ ے و گیا تھا جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا ۔ک راست میں حائل ہ ے ے

اتھوں س نکل نکل جاتا ےاس لئ و روکن والوں ک ہ ے ے ہ ے جوم کا ایک حص رنگ اور اس ک ےمگر پھر جکڑ لیا جاتا ے ہ ہ ۔ وئ ا تھا چار گنڈاس ڈوبت ےتینوں بیٹوں کو بھی روک ر ہ ے ے ۔ ہ

سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکاجوم کو سانپ سو نگ ہر تھ ک اچانک جیس سار ے ے ہ ے ہے اتھوں میں بلند کئ ےگیا پیر نور شا قرآن مجید کو دونوں ہ ہ ۔ "اس کالم الل کا ہچوپال کی سیٹرھیوں پر آئ اور چالئ ے۔ ے ہواسط اپن اپن گھروں کو چل جاؤ ورن بدبختو گاؤں کا ے ے ے ہ ، یں خدا اور رسو کا واسط ہگاؤں کٹ مر گا جاؤ تم ن� ہ ۔ ے

، جاؤ، چل جاؤ ۔قرآن پاک کا واسط ے ہ "

ےلوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرن لگ موال ن جلدی ے۔ ے ےس تائ س پٹکا ل کر ادب س اپن گھٹنوں کو چھپا لیا ے ے ے ے ے ۔اور سیٹرھیوں پر س اتر گیا پیر صاحب قرآن مجید کو ے یں "الل تعالی تم ہبغل میں لئ اس ک پاس آئ اور بول ہ ے۔ ے ے ے

ے۔صبر د اور آج ک اس نیک کام کا اجر د ے ے "

ہموال آگ بڑھ گیا تاجا اس ک ساتھ تھا اور جب و گلی ے ۔ ے نچ تو موال ن پلٹ کر رنگ کی چوپال پر ےک موڑ پر پ ے ے ہ ے

۔ایک نظر ڈالی

" ا ؟" تاج ن بڑ دکھ س ک و مول ۔تم تو رو ر ہ ے ے ے ے ے ہ ہے

ا "تو ۔اور موال ن اپن ننگ بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر ک ہ ے ے ے یں؟ ہکیا اب روؤں بھی ن "

" ؟" تاج ن مشور دیا یں گ ۔لوگ کیا ک ہ ے ے ے ہ

" !" موال ن دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا ۔اں تاج ے ے ہ، میر یں گ وں ک لوگ کیا ک ا ی سوچ ر ے"میں بھی تو ی ے ہ ہ ہ ہ ہ اں گلی یں اور میں ی ی ہباپ ک خون پر مکھیاں اڑ ر ہ ہ ے

وں ا وئ کت کی طرح دم دبائ بھاگا جا ر ہمیں ڈور ہ ے ے ے ہ ے ےماں ک گھٹن س لگ کر رون ک لئ ے ے ے ے ے !"

یں و گھر ک ےلیکن موال ماں ک گھٹن س لگ کر رویا ن ہ ۔ ہ ے ے ے وا تو رشت دار اس ک باپ کی الش ےداالن میں داخل ہ ہ ہتھان اٹھا ل جان کا فیصل کر چک تھ من پیٹتی اور ے۔ ے ہ ے ے ے

Page 144: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں آتی" ہبال نوچتی ماں اس ک پاس آئی اور "شرم تو ن ے ےک کر من پھیر کر الش ک پاس چلی گئی موال ک تیور ۔ ے ہ ہہ

ےاسی طرح تن ر اس ن بڑھ کر باپ کی الش کو کندھا ہے۔ ے و گیا ۔دیا اور برادری ک ساتھ روان ہ ہ ے

و گی ک رنگ کی چوپال نچی یں پ ےاور ابھی الش تھان ن ہ ہ ہ ہ ے ےپر قیامت مچ گئی رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر س اترکر ۔

یں س ی لگا تھا ک ک ون ےسامن اپن گھر میں داخل ہ ہ ہ ے ہ ے ے ےایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس ک پھٹ ے

لیز پر بھاپ ر ابل کر اس ک گھر کی د ہوئ پیٹ س با ے ہ ے ے ہےچھوڑن لگا کافی دیر کو افراتفری ک بعد رنگ ک بیٹ ے ے ے ۔ ے

، مگر و کر رپٹ ک لئ گاؤں س نکل ےگھوڑوں پر سوار ے ے ے ہ نچ تو ی دیکھ کر دم بخود ر گئ ک جس ہجب و تھان پ ے ہ ہ ے ہ ے ہ یں و اپن باپ کی ےشخص ک خالف و رپٹ لکھوان آئ ہ ہ ے ے ہ ے ا تھا ۔الش ک پاس بیٹھا تسبیح پر قل ھو الل کا ورد کر ر ہ ہ ے

یر پھیر کی کوشش کی ت وں ن ب ہتھان دار ک ساتھ ان ہ ے ہ ے ے رایا مگر تھانیدار ن ی کو ٹھ ےاور اپن باپ کا قاتل موال ہ ہ ے

یں سمجھایا ک "خوا مخوا اپن باپ ک قاتل کو ضائع ےان ے ہ ہ ہ ہ ، کوئی عقل کی بات کرو ادھر ی میر پاس ےکر بیٹھو گ ہ ۔ ے ار باپ ا ادھر تم ےاپن باپ ک قتل کی رپٹ لکھوا ر ہ ہے ہ ے ے

ہے۔ک پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ے "

، لیکن دونوں قتلوں کا وئ ےآخر دونوں طرف س چاالن ہ ے و ہکوئی چشم دید ثبوت ن ملن کی بناء پر طرفین بری ے ہ

و کر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں ا ہگئ اور جس روز موال ر ہ ے ےس ماتھ پر ایک طویل بوس ثبت کران ک بعد سب ے ہ ے ے اں گیا اس بھینچ کر گل لگایا اور ل تاج ک ےس پ ے ۔ ہ ے ے ے ہ ے ارا گھوڑا میر کام ن آت تو آج ا "اس روز تم اور تم ےک ہ ے ہ ۔ ہ وتا ا ۔میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک ر ہ ہ

اری جان کی قسم جب میں ن رنگ ک پیٹ کو کھول ےتم ے ے ہ ، آندھی بن گیا خدا کی قسم ہےکر رکاب میں پاؤں رکھا نچی تھی ک میں یں پ ہاسی لئ تو الش ابھی تھان بھی ن ہ ہ ے ے

۔اتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا "ہ

، مگر ی ہےسار گاؤں کو معلوم تھا ک رنگ کا قاتل موال ہ ے ہ ے یں جانتا ہمول ک چند عزیزوں اور تاج ک سوا کوئی ن ے ے ے ے وا کیس پھر ایک دن گاؤں میں ی خبر ہتھا ک ی سب کچھ ے ہ ہ ہ

Page 145: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےگشت کرن لگی ک موال کا باپ تو رنگ ک بڑ بیٹ ے ے ے ہ ے ا تھا شکار ر ہقادر ک گنڈاس س مرا تھا رنگا تو صرف ہ ے ے ے ہبیٹوں کو رات کو چوپالوں اور گھروں میں ی موضوع چلتا ۔

ا اور صبح کو پت چال ک قادر اپن کوٹھ کی چھت پر ےر ے ہ ہ ہ ےمرد پایا گیا اور و بھی یوں ک جب اس ک بھائیوں پھل ے ہ ہ ہ ےاور گل ن اس اٹھان کی کوشش کی تو اس کا سر ے ے ے ےلڑھک کر نیچ گرا اور پرنال تک لڑھکتا چال گیا، رپٹ ے

و گیا مرچوں کا دھواں پیا، ۔لکھوائی اور موال پھر گرفتار ہ ا کتنی راتیں روں میں لو کی چادر پر کھڑا ر ۔تپتی دوپ ہ ہے ہ وا اور آخر ہاس اونگھن تک ن دیا گیا مگر و اقبالی ن ہ ہ ہ ے ے

و کر گاؤں میں آ نکال اور جب اپن ا ینوں ک بعد ر ےم ہ ہ ے ہ و ئی آئی اس ک ےآنگن میں قدم رکھا تو ماں بھاگی ۔ ہ

یں ہماتھ پر طویل بوس لیا اور بولی "ابھی دو اور باقی ۔ ہ ے ، تو جبھی بتیس ہےمیر الل رنگ کا کوئی نام لیوا ن ر ہ ے ۔ ے ےدھاریں بخشوں گی میر دودھ میں تیر باپ کا خون ے ۔

ےتھا مول اور تیر خون میں میرا دودھ اور تیر ہے ے ے ۔ یں چڑھن دیا "موال اب عالق ےگنڈاس پر میں ن زنگ ن ۔ ے ہ ے ے

یبت بن گیا تھا اس کی مونچھوں میں دو دو بل آ ۔بھر کی ہ ےگئ تھ کانوں میں سون کی بڑی بڑی بالیاں، ے۔ ے

رئی بالوں میں آگ کی قلمیں ےخوشبودار تیل اس ک ل ہ ے اللی کنگھا اتر کر اتھی دانت کا ہسی جگائ رکھتا تھا ہ ۔ ے ہاس کی کنپٹی پر چمکن لگا تھا و گلیوں میں چلتا تو ۔ ے

بند کا کم س کم آدھا گز تو اس ک عقب میں ےپٹھ ک ت ے ہ ے ے وا جاتا باریک ململ کا پٹکا اس ک کندھ پر پڑا ےلوٹتا ے ۔ ہ

تا اور اکثر اس کا سرا گر کر زمین پر گھسٹن لگتا اور ۔ر ے ہ میش اس ک قد س اتھ میں ےگھسٹتا چال جاتا موال ک ے ہ ہ ہ ے ۔ وتی اور جب و گلی ک کسی ےبھی لمبی تلی پلی لٹھ ہ ہ

ےموڑ یا کسی چورا پر بیٹھتا تو ی لٹھ جس انداز س اس ہ ہے تی اور گلی ہک گھٹن س آ لگتی اسی انداز س لگی ر ے ے ے ے وتی ک و موال ہمیں س گزرن والوں کو اتنی جرأت ن ہ ہ ہ ے ے ۔کی لٹھ ایک طرف سرکان ک لئ ک سکیں اگر کبھی ہہ ے ے ے

، ےلٹھ ایک دیوار س دوسری دیوار تک تن گئی تو لو گ آت ے ےموال کی طرف دیکھت اور پلٹ کر کسی دوسری گلی

ی چھوڑ ہمیں چل جات عورتوں اور بچوں ن تو و گلیاں ہ ے ے۔ ے اں موال بیٹھن کا عادی تھا مشکل ی تھی ک ہدی تھیں ج ہ ۔ ے ہ ہموال کی لٹھ پر س االنگن کا بھی کسی میں حوصل ن ہ ے ے

ےتھا ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں س ۔

Page 146: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا موال اس وقت ایک دیوار س لگا لٹھ س ےگزر ے ۔ ہ ا تھا اجنبی آیا اور لٹھ پر ۔دوسر دیوار کو کرید جا ر ہ ے ے

ےس االنگ گیا ایکا ایکی موال ن بپھر کر ٹینک میں س ے ۔ ے ، ر جاؤ چھوکر "ٹھ ےگنڈاسا نکاال اور لٹھ پر چڑھا کر بوال ہ ۔

و تم ن کس کی لٹھ االنگی ی موال کی لٹھ ہے۔جانت ہ ہے ے ہ ے ۔مول گنڈاس وال کی ے ے ے "

ول ی یک لخت زرد پڑ گیا اور ےنوجوان موال کا نام سنت ہ ہ ے " موال ن گنڈاسا اتار یں تھا، مول ےس بوال "مجھ پت ن ے۔ ہ ہ ے ۔ ے ےکر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ ک ایک سر کو نوجوان ے لک س دبا کر بوال "تو پھر جا کر اپنا کام ۔ک پیٹ پر ے ے ہ ے اں تک پھیال کر بیٹھ گیا اں س و " اور پھرو لٹھ کو ی ۔کر ہ ے ہ ہ ۔

موال کا لباس، اس کی چال، اس کی مونچھیں اور سبل گاؤں ک ےس زیاد اس کا ال ابالی انداز، ی سب پ ے ہ ہ ہ ے

وئ اور پھر عالق بھر ک فیشن پر اثر ےفیشن میں داخل ے ے ہ و وئ لیکن موال کی جو چیز فیشن میں داخل ن ہانداز ہ ے ہ

ےسکی و اس کی النبی لٹھ تھی تیل پلی، پیتل ک کوکوں ۔ ہ وئی، گلیوں ک وئی، لو کی شاموں میں لپٹی ےس اٹی ہ ہے ہ ے

اں تک پھیل کر آن والوں اں س و ےکنکروں پر بجتی اور ی ہ ے ہ ہکو پلٹا دین والی لٹھ اور پھر و گنڈاسا جس کی میان ے

موال کی ٹینک تھی اور جس پر اس کی ماں زنگ کا ایکیں دیکھ سکتی تھی ۔نقط تک ن ہ ہ

ت تھ ک موال گلیوں ک نکڑوں پر لٹھ پھیالئ اور ےلوگ ک ے ہ ے ے ہ ےگنڈاسا چھپائ گل اور پھل کی را تکتا قادر ک قتل ے ہے۔ ہ ے ے ے و کر چال ائی ک بعد پھال فوج میں بھرتی ہاور مول کی ر ے ہ ے

ور رس گیر چوھدری ہگیا تھا اور گل ن عالق ک مش ہ ے ہ ے ے اں و چوھدری ک اں پنا لی تھی، ج ی ک Pےمظفر ال ہ ہ ہ ہ ے ہ

ےدوسر مالزموں ک ساتھ چناب اور راوی پر س بیل اور ے ے ۔گائیں چوری کر ک التا چوھدری مظفر اس مال کو ے

منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب

ےچناب اور راوی ک کھوجی مویشیوں ک کھروں ک ے ے ےسراغ ک ساتھ ساتھ چلت چوھدری مظفر ک قصب ک ے ے ے ے

ی ٹھنکا ل مارا ماتھا پ ت " نچت تو جی میں ک ہقریب پ ے ہ ہ ے۔ ہ ے ہ یں معلوم تھا ک اگر و کھروں ک سراغ ک ساتھ ےتھا! ان ے ہ ہ ہ نچ تو پھر کچھ دیر ےساتھ چلت چودھری ک گھر تک جا پ ہ ے ے

Page 147: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےبعد لوگ مویشیوں کی بجائ خود کھوجیوں کا سراغ ےلگات پھریں گ اور لگا ن پائیں گ و چوھدری ک خوف ہ ے۔ ہ ے ے

ےک مار قصب ک ایک طرف س نکل کر اور تھلوں ک ے ے ے ے ے وئ واپس آ جات "کھروں ک ت نچ کر ی ک ےریت میں پ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے

یں و ر اں س غائب ۔نشان ی ہ ہے ہ ے ہ "

وئ بازوؤں ےموال ن چوھدری مظفر اور اس ک پھیل ہ ے ے ے ہک بار میں سن رکھا تھا اس کچھ ایسا لگتا تھا ک ے ۔ ے ے

ی جو اس کی ہےجیس عالق بھر میں صرف ی چوھدری ہ ہ ہ ے ےلٹھ االنگ سکتا لیکن فی الحال اس رنگ ک دونوں ے ے ہے

۔بیٹوں کا انتظار تھا

ےتاج ن بڑ بھائیوں کی طرح مول کو ڈانٹا "اور کچھ ے ے ے وئی یں تو اپنی زمینوں کی نگرانی کر لیا کر، ی کیا بات ہن ہ ہ یں اور ہک صبح س شام تک گلیوں میں لٹھ پھیالئ بیٹھ ے ے ے ہ

یں تو شاید ی ۔میراثیوں، نائیوں س خدمتیں لی جا ر ہ ہ ے ی بھال ک مائیں یں جانتا پر جان ل تو اس میں تیرا ہن ہے ہ ے ہ

یں، لڑکیاں تو تیرا نام ہبچوں کو تیرا نام ل کر ڈران لگی ے ے تی و تو ک یں، کسی کو بد دعا دینی ی تھوک دیتی ہسنت ہ ہ ہ ے

و مول ےیں الل کر تجھ موال بیا کر ل جائ سنت ہ ے ے۔ ے ہ ے ے ہ "!ہ

ہلیکن موال تو جس بھٹی میں گودا تھا اس میں پک کر پخت ےو چکا تھا بوال "اب جا تاج اپنا کام کر، گاؤں بھر کی ے ۔ ہ؟ ہےگالیاں سمیٹ کر میر سامن ان کا ڈھیر لگان آیا ے ے ے ، تیرا جی ےدوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات پٹھ ہے ہے۔چھوٹ گیا تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتا ہے یں ہجا اپنا کام کر، میر گنڈاس کی پیاس ابھی تک ن ے ے

ےبجھیجااس ن الٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی ک ے ےسامن وال مکان میں میراثی کو بانگ لگائی "اب اب ۔ ے ے یں کر چکا الو ک پٹھ جا کر گھر والوں ےتک چلم تاز ن ے ہ ہ

۔کی گود میں سو گیا چلم ال "

ےتاجا پلٹ گیا مگر گلی ک موڑ پر رک گیا اور مڑ کر مول ے ےکو کچھ یوں دیکھا جیس اس کی جواں مرگی پر پھوٹ

۔پھوٹ کر رو د گا ے

ا تھا اٹھا اور لٹھ کو اپن ےموال کنکھیوں س اس دیکھ ر ہ ے ے ےپیچھ گھسیٹتا تاج ک پاس آ کر بوال دیکھ تاج مجھ ے ے ے ے

ا اس لئ ک کسی ہایسا لگتا تو مجھ پر ترس کھا ر ے ہے ہ ہے

Page 148: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہےزمان میں تیری یاری تھی پر اب ی یاری ٹوٹ گئی ہ ے یں د سکتا تو پھر ایسی یاری کو ل ےتاج تو میرا ساتھ ن ے ہ ے یں تھا ک رنگ ےکر چاٹنا میر باپ کا خون اتنا سستا ن ہ ہ ے ہے۔

، ی بیٹ ک خون س حساب چک جائ ےاور اس ک ایک ے ے ے ہ ے ، ، پوتیوں، نواس ےمیرا گنڈاسا تو ابھی اس ک پوت ے ے

نچ گا، اس لئ جا اپنا کام کر تیری میری ۔نواسیوں تک پ ے ے ہ ہیار ختم اس لئ مجھ پر ترس ن کھایا کر، کوئی مجھ پر ے ۔

نچتی جا ۔ترس کھائ تو آنچ میر گنڈاس پر جا پ ہے ہ ے ے ے "

ےواپس آ کر موال ن میراثی س چلم ل کر کش لگایا تو ے ے اتھ پر گری ہسلف ابھر کر بکھر گیا ایک چنگاری موال ک ے ۔ ہ ی میراثی ن چنگاری کو یں چمکتی ر ےاور ایک لمح تک و ۔ ہ ہ ہ اتھ اتھ پر اس زور س ا تو موال ن اس ک ہجھاڑنا چا ے ہ ے ے ہ اتھ کو ران اور پنڈلی ہمارا ک میراثی بل کھا ر گیا اور ہ ہ

ٹ گیااور موال گرجا "ترس کھاتا ۔میں دبا کر ایک طرف ہ ہ۔ حرامزاد "ہے

ےاس ن چلم اٹھا کر سامن دیوار پر پٹخ دی اور لٹھ اٹھا ے ۔کر ایک طرف چل دیا

ےلوگوں ن موال کو ایک نئی گلی ک چورا پر بیٹھ دیکھا ہے ے ے وئ ادھر ادھر بکھر گئ ے۔تو چونک اور سرگوشیاں کرت ے ہ ے ے

ائیں" کرتی واپس ہعورتیں سر پر گھڑ رکھ آئیں اور " ے ے وئی اں تک پھیلی اں س و ہچلی گئیں موال کی لٹھ ی ہ ے ہ ۔ ۔تھی اور لوگوں ک خیال میں اس پر خون سوار تھا ے ۔

وئی چیل کو ہموال اس وقت دور مسجد ک مینار پر بیٹھی ے ا تھا اچانک اس کنکروں پر لٹھ ک بجن کی ےتک جا ر ے ے ۔ ہ ے ےآواز آئی چونک کراس ن دیکھا ک ایک نوجوان لڑکی ن ہ ے ۔ ہےاس کی لٹھ اٹھا کر دیوار ک ساتھ رکھ دی اور ان ے

وئ اس ک ی جو جھکت ےالنبی سرخ مرچوں کو چن ر ے ہ ے ہے ہ وئی گٹھڑی میں س گر گئی تھیں موال ۔سر پر رکھی ے ہ

ا اس ن ےسناٹ میں آگیا لٹھ کو االنگنا تو ایک طرف ر ہ ے ےیعنی ایک عورت ذات ن لٹھ کو گند چیتھڑ کی طرح ے ے ےاٹھا کر پر ڈال دیا اور اب بڑ اطمینان س موال ک ے ے ہے ے

ی اور جب موال ن کڑک کر ےسامن بیٹھی مرچیں چن ر ہے ہ ے اتھ رکھا جانتی و تم ن کس کی الٹھی پر ا "جانتی ہےک ہ ے ہ ۔ ہ

وئی اتھ بلند کر ک چنی وں تو اس ن ہو میں کون ے ہ ے ہ ہ

Page 149: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا کوئی سڑی لگت وئ ک ےمرچیں گٹھڑی میں ٹھونست ہ ے ہ ے ۔و "ہ

وا لڑکی بھی اٹھی اور اس ۔موال مار غص ک اٹھ کھڑا ہ ے ے ے ےکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی س بولی اسی لئ ے یں د ماری ایس ار سر پر ن اری لٹھ تم ےتو میں ن تم ے ہ ے ہ ہ ے ۔لٹ لٹ س لگت تھ مجھ تو تم پر ترس آگیا تھا ے ے ے ے ے ے "

" یں موال پر؟ موال دھاڑا ۔تر س آگیا تھا تم ہ

اتھوں س تھام لیا اور" ےموال!"لڑکی ن گٹھڑی کو دونوں ہ ے ۔ذرا سی چونکی

ا اور و ذرا" ہاں، موال، گنڈاس واال" موال ن ٹھس س ک ہ ے ے ے ے ہاں ہسی مسکرا ک گلی میں جان لگی موال کچھ دیر و ۔ ے ے

ا اور پھر ایک سانس ل کر دیوار س ےچپ چاپ کھڑا ر ے ہ ےلگ کر بیٹھ گیا لٹھ کو سامن کی دیوار تک پھیال لیا تو ۔ ےپرلی طرف س ادھیڑ عمر کی ایک عورت آتی دکھائی ےدی موال کو دیکھ کر ٹھٹکی موال ن لٹھ اٹھا کر ایک ۔ ۔

یں ہطرف رکھ دی اور بوال "آ جاؤ ماسی، آ جاؤ میں تم ۔ ۔کھا تھوڑی جاؤں گا "

ےحواس باخت عورت آئی اور مول ک پاس س گزرت ے ے ے ہ اں یں ج ت یں لوگ، ک ہوئ بولی "کیسا جھوٹ بکت ہ ے ہ ہ ے ۔ ے ہ

، اں س باؤ کتا بھی دبک کر گزرتا و و ہےموال بخش بیٹھا ے ہ ہ ۔پر تو ن میر لئ اپنی لٹھ ے ے ے "

" وا ؟" موال اٹھ کھڑا تا ۔کون ک ہ ہے ہ

، ابھی ابھی کنویں پر" تا یں، سارا گاؤں ک ت ہےسب ک ہ ہ ے ہ ی تھیں، پر میں ن تو اپنی آنکھوں س و ر ی باتیں ےی ے ہ ہ ہ

ہدیکھ لیا ک موال بخش "

لیکن موال اب تک اس گلی میں لپک کر گیا تھا جس میںہابھی ابھی نوجوان لڑکی گئی تھی و تیز تیز چلتا گیا اور ۔ ی لڑکی جاتی نظر آئی، ہآخر دور لمبی گلی ک سر پر و ے ے

وئی عورتیں دروازوں ہو بھاگن لگا آنگنوں میں بیٹھی ۔ ے ہ ےتک آ گئیں اور بچ چھتوں پر چڑھ گئ موال کا گلی س ے۔ ے

۔بھاگ کر نکلنا کسی حادث کا پیش خیم سمجھا گیا لڑکی ہ ے

Page 150: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہن بھی موال ک قدموں کی چاپ سن لی تھی، و پلٹی ے ے ی کیا یں جم کر کھڑ ی ر گئی اس ن بس اتنا ہاور پھر و ے ۔ ہ ہ

اتھوں س تھا م لیا، چند مرچیں ےک گٹھڑی کو دونوں ہ ہ وئ انگاروں کی طرح اس ک پاؤں پر بکھر گئیں کت ۔د ے ے ہ ے ہ

یں" " موال پکارا "کچھ ن وں گا یں ک یں کچھ ن ہمیں تم ۔ ۔ ہ ہ ہ یں وں گا تم ۔ک ہ ہ "

یں رکی ڈریں میر دشمن ۔لڑکی بولی "میں ڈر ک ن ے ۔ ہ ے ۔ "

وا اس ک پاس آیا اور ول چلتا ول ےموال رک گیا، پھر ہ ے ہ ے ہ و کون؟ ہبوال "بس اتنا بتا دو تم ۔ "

۔لڑکی ذرا سا مسکرا دی

ےعقب س کسی بڑھیا کی آواز آئی "ی رنگ ک چھوٹ ے ے ہ ۔ ے ، موال بخش ۔بیٹ کی منگیتر راجو ہے ے "

ےموال آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجو کو دیکھن لگا اس راجو ۔ ے ۔ک پاس رنگا اور رنگ کا سارا خاندان کھڑا نظر آیا اس ے ے اتھ ٹینک تک گیا اور پھر رس کی طرح لٹک گیا راجو ۔کا ے ہ

۔پلٹ کر بڑی متوازن رفتار س چلن لگی ے ے

رو راجو، ہموال ن الٹھی ایک طرف پھینک دی اور بوال "ٹھ ۔ ے ۔ی اپنی مرچیں لیتی جاؤ ہ "

ےراجو رک گئی موال ن جھک کر ایک ایک مرچ چن لی اور ۔ یں راجو کی گٹھڑی میں ٹھونست اتھ س ان ےپھر اپن ہ ے ہ ے

یں مجھ پر ترس آیا تھا نا راجو؟" ۔وئ بوال "تم ہ ۔ ے ہ

و گئی اور اپن راست پر ےلیکن راجو ایک دم سنجید ے ہ ہ ی گیا تھا ک ہولی موال بھی واپس جان لگا کچھ دور ہ ۔ ے ۔ ہ

یں رکھی ر گئی اری لٹھ تو ی ہبڑھیا ن اس پکارا "ی تم ہ ہ ہ ۔ ے ے "!موال بخش

وئ بڑھیا س پوچھا ۔موال پلٹا اور لٹھ لیت ے ے ہ ے

" ؟ میں ن ن والی ی کی ر ےماسی! ی لڑکی راجو کیا ی ہے ے ہ ہ ہ یں دیکھا ۔تو اس کبھی ن ہ ے "

Page 151: اردو ادب کے مشہور افسانے

" " بڑھیا بولی "اس ک یں بھی یں کی بھی بیٹا اور ن ےی ۔ ۔ ہ ہے ہ ےباپ ن الم میں دونوں بیٹوں ک مرن ک بعد جب دیکھا ے ے ے یں جا سکتا تو ل اٹھا کر اتنی دور کھیتوں میں ن ہک و روز ہ ہ ہ

اں س یوں ےگاتن وال گھر کی چھت اکھیڑی اور ی ہ ے ۔سمجھو ک کوئی دو ڈھائی کوس دور ایک ڈھوک بنا لی ہ

، تیسر چوتھ دن تی یں راجو اپن باپ ک ساتھ ر ےو ے ہے ہ ے ے ہ ۔گاؤں میں سودا سلف خریدن آ جاتی اور بس ہے ے "

وں" ک کر واپس چال گیا، لیکن ہہموال جواب میں صرف " ہ ہگاؤں بھر میں ی خبر آندھی کی طرح پھیل گئی ک آج موال ہ ۔اپنی لٹھ ایک جگ رکھ کر بھول گیا باتوں باتوں میں راجو ہ ےکا ایک دو بار نام آیا مگر دب گیا رنگ ک گھران اور ے ے ۔ ہموال ک درمیان صرف گنڈاس کا رشت تھا نا اور راجو ے ے

ی ک بیٹ کی منگیتر تھی اور اپنی جان کس ےرنگ ے ے ہ ے وتی یں ۔پیاری ن ہ ہ "

و گیا سارا دن ۔اس واقع ک بعد موال گلیوں س غائب ہ ے ے ہ تا اور ہگھر میں بیٹھا الٹھی س داالن کی مٹی کریدتا ر ے وں میں پھرپھرا کر ر جاتا بھی تو کھیتوں چراگا ہکبھی با ہ ےواپس آ جاتا ماں اس ک روی پر چونکی مگر صرف ے ۔

ت ہچونکن پر اکتفا کی و جانتی تھی ک موال ک سر پر ب ے ہ ہ ۔ ے ا دئ گئ اور و بھی جو یں، و بھی جو ب ہس خون سوار ے ے ہ ہ ہ ے

ائ ن جا سک ے۔ب ہ ے ہ

و گئ ین تھا نقار پٹ پٹا کر خاموش ےی رمضان کا م ہ ے ۔ ہ ہ ہ ی ی تھیں د و ر ہتھ گھروں میں سحری کی تیاریاں ۔ ہ ہ ے۔ ےبلون اور تو پر روٹیوں ک پڑن کی آواز مندروں کی ے ے ے

ی تھیں موال کی و ر ۔گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہ ہ ا جالئ بیٹھی تھی اور موال مکان کی چھت ےماں بھی چول ہ ا تھا یکا یک ۔پر ایک چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھور جا ر ہ ے

~ لٹھ پر نگام مچ گیا موال ن فورا ےکسی گلی میں ایک ۔ ہ ہ ر ہگنڈاسا چڑھایا اور چھت پر س اتر کر گلی میں بھاگا ۔ ے ی تھیں اور شور بڑھ ہطرف گھروں میں اللٹینیں نکلی آ ر وا ک تین مسافر جو نچ کر موال کو معلوم اں پ ا تھا و ہر ہ ہ ہ ۔ ہ

ت س بیلوں اور گائ ، ب ےنیزوں، برچھیوں س لیس تھ ے ہ ے ے نکائ لئ جا ر تھ ک ہبھینسوں کو گلی میں س ے ہے ے ے ہ ے

وں ن چوکیدار کو یں ٹوکا اور جواب میں ان ےچوکیدار ن ان ہ ہ ے ، ی ی کا Pا ک ی مال چوھدری مظفر ال ہگالی د کر ک ہے ہ ہ ہ ہ ے

Page 152: اردو ادب کے مشہور افسانے

، چوھدری کا ہےگلی تو خیر ایک ذلیل س گاؤں کی گلی ے ور کی ٹھنڈک سڑک پر س بھی گزر تو کوئی ےمال تو ال ے ہ

ے۔اف ن کر ہ

وا جیس چوھدری مظفر ےموال کو کچھ ایسا محسوس ہ ےخود، ب نفسl نفیس گاؤں کی اس گلی میں کھڑا اس س ہ ، کڑک کر بوال "چوری کا ی مال تا ہگنڈاسا چھیننا چا ۔ ہے ہ

یں گزر گا، چا ی چوھدری مظفر کا ہمیر گاؤں س ن ہے ے ہ ے ے ہو چا الٹ صاحب کا ی مال چھوڑ کر چپک س اپنی را ے ے ہ ۔ ہے ہےلو اور اپنی جان ک دشمن ن بنو!" اس ن لٹھ کر جھکا ہ ے ۔کر گنڈاس کو اللٹینوں کی روشنی میں چمکایا "جاؤ ۔ ے "

نکان وئ مویشیوں کو لٹھ س ایک طرف ےموال گھر ہ ے ے ہ ے ےلگا "جا کر ک دو اپن چوھدری س ک موال گنڈاس ن ے ہ ے ے ہہ ۔

یں سالم بھیجا اور اب جاؤ اپنا کام کرو ۔تم ہے ہ "

وئ جوم ک بدل ےمسافروں ن موال ک ساتھ سار ہ ے ے ہ ے ے ے ےتیور دیکھ تو چپ چاپ کھسک گئ موال سار مال کو ے۔ ے ا ک "ی وئ ماں س ک ہاپن گھر ل آیا اور سحری کھات ہ ہ ے ے ہ ے ے ے

یں، ان ک مالک پرسوں تک آ مان مار م ےسب ب زبان ہ ہ ے ہ ے یں س اور گاؤں کی عزت میری عزت ہےنکلیں گ ک ے ہ ے

نچ گئ ر کو پ ی دن دوپ " مالک دوسر ے۔۔ماں ہ ہ ہ ے ۔

ےی غریب کسان اور مزارع کوسوں کی مسافتیں ط کر ے ہ نچ تھ اور اں تک پ ےک کھوجیوں کی ناز برداریاں کرت ی ے ہ ہ ے ے ۂی سوچت آ ر تھ ک اگر ان کا مال چوھدری ک حلق اثر ے ہ ے ہے ے ہ

و گا اور جب موال ان کا مال ان ک نچ گیا تو پھر کیا ےتک پ ہ ہ و گیا ر گلی میں جمع ا تھا تو سارا گاؤں با ہحوال کر ر ہ ہ ے جوم میں راجو بھی تھی اس ن اپن سر پر ےتھا اور اس ے ۔ ہ

وا تھا اور منتشر ہاینڈوا جما کر مٹی کا ایک برتن رکھا جوم میں جب راجو موال ک پاس س گزری وئ ےوت ے ہ ے ہ ے ہو راجو ت دنوں بعد گاؤں میں آئی ا "آج ب ۔تو موال ن ک ہ ہ ۔ ہ ے "

" ا جیس "میں کسی س ےکیوں؟" اس ن کچھ یوں ک ے ہ ے و میں تو کل تی وں" کا تاثر پیدا کرنا چا ۔ڈرتی تھوڑی ہ ہ ہ ۔آئی تھی اور پرسوں اور ترسوں بھی ترسوں تھوم پیاز

Page 153: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےخریدن آئی پرسوں بابا کو حکیم ک پاس الئی، کل ۔ ے وں ی آ گئیں اور آج ی گھی بیچن آئی ۔ویس ہ ے ہ ہ ے "

" ی کیوں آ گئیں؟" موال ن بڑ اشتیاق س ےکل ویس ے ے ہ ے ۔پوچھا

" یلیوں س مل اور چل ، س ا آ گئ ی بس جی چا ےویس ے ے ہ ے ہ ہ ے ، کیوں؟ ےگئ "

ا، پھر ایک دم اس ایک" ی" موال ن بجھ کر ک ےویس ہ ے ہ ے ہخیال آیا "ی گھی بیچو گی؟ ۔ "

" یں بیچوں گی اتھ ن ، پر تیر ۔اں بیچنا تو ہ ہ ے ہے "ہ

"کیوں؟"

" اتھوں میں میر رشت داروں کا خون ہے۔تیر ہ ے ہ ے "

ہموال کو ایک دم خیال آیا ک و اپنی لٹھ کو داالن میں اور ہ اتھوں ہگنڈاس کو بستر تل رکھ کر بھول آیا اس ک ے ہے۔ ے ے ون لگی اس ن گلی میں ایک کنکر اٹھایا ےمیں چل سی ۔ ے ہ

۔اور اس انگلیوں میں مسلن لگا ے ے

۔راجو جان ک لئ مڑی تو موال ایک دم بوال "دیکھو راجو ے ے ے ی اور ان پر ابھی جان کتنا اور اتھوں پر خون ےمیر ہ ہے ہ ے

، یں گھی بیچنا اور مجھ خریدنا ہےخون چڑھ گا، پر تم ے ہے ہ ے اتھ بیچ دو اتھ ن بیچو، میری ماں ک ۔میر ہ ے ہ ہ ے "

"راجو کچھ سوچ کر بولی"چلوآؤ

م سا ہموال آگ آگ چلن لگا جات جات جان اس و ے ے ے ے ۔ ے ے ے ی ہے۔گزرا ک راجو اس کی پیٹھ اور پٹوں کو گھور جا ر ہ ے ہ وئ ےایک دم اس ن مڑ کر دیکھا راجو گلی میں چگت ہ ے ے

ی وئی آ ر ہمرغی ک چوزوں کو بڑ غور س دیکھتی ہ ے ے ے یں ~ بوال"ی چوز میر ۔تھی و فورا ہ ے ے ہ ہ ۔ "

" " راجو بولی ۔وں گ ے۔ ہ

و چکا تھا، بوال "ماں ی سب گھی ہموال اب آنگن میں داخل ہ یں تھوڑ دنوں میں مان آن وال ۔خرید لو، میر م ے ہ ے ے ہ ے "

Page 154: اردو ادب کے مشہور افسانے

ان پر س کپڑا کھوال تاک ہراجو ن برتن اتار کر اس ک د ے ے ہ ے ے ، مگر و اندر چلی گئی تھی ترازو ہبڑھیا گھی سونگھ ل ے

ر ےلین اور موال ن دیکھا ک راجو کی کنپٹیوں پر سن ہ ہ ے ے یں اور اس کی پلکیں یوں کمانوں کی طرح مڑی ہروئیں یں جیس اٹھیں گی تو اس کی بھنووں کو مس کر ےوئی ہ ہیں اور اس ک ناک ےلیں گی اور ان پلکوں پر گرد ک ذر ہ ے ے ےپر پسین ک ننھ ننھ سوئی ک ناک س قطر چمک ے ے ے ے ے ے ے یں اور نتھنوں میں کچھ ایسی کیفیت جیس گھی ےر ہے ہ ہے و اس ک اوپر ی ےک بجائ گالب ک پھول سونگھ ر ۔ ہ ہ ے ے ے ہےونٹ کی نازک محراب پر بھی پسین اور ٹھوڑی اور ہ ہ

وا لگ ونٹ ک درمیان ایک تل جو کچھ یوں اچٹا ہنچل ہے ے ہ ے ا جیس پھونک مارن س اڑ جائ گا کانوں میں ۔ر ے ے ے ے ہے ہ ےچاندی ک بند انگور ک خوشوں کی طرح لس لس ے ے

یں اور ان بندوں میں اس ک بالوں وئ لرز ر ےکرت ہ ہے ے ہ ے وئی مول گنڈاس وال ےکی ایک لٹ ب طرح الجھی ے ے ہے۔ ہ ے

ا ک و بڑی نرمی س اس لٹ کو چھڑا کر راجو ےکا جی چا ہ ہ ہ ی چھوڑ د یا ےک کانوں ک پیچھ جما د یا چھڑا کر یون ہ ے ے ے ے تھیلی پر پھیال کر ایک ایک بال کو گنن لگ یا ےاس اپنی ے ہ ے

ل دیکھ ل ماسی، ےماں ترازو ل کر آئی تو راجو بولی "پ ے ہ ۔ ے ی کو تاز تاز مکھن گرم کیا ہرگڑ ک سونگھ ل آج صبح ہ ہ ے۔ ے

ل ےتھا پر سونگھ ل پ ہ ے ۔ !"

ا "میرا تو" " ماں ن ک ہن بیٹی میں تو ن سونگھوں گی ے ۔ ہ ہ ! وتا ۔روز مکرو ہے ہ ہ ہ "

" ست ہلو" موال ن لٹھ کی ایک طرف گرا دیا پانچوں آ ہ ۔ ے جوم جیس دیوار س ست ا س کی طرف بڑھن لگ ےآ ے ہ ے۔ ے ہ ہ

اروں ک آو پر ٹ کر کم ت پیچھ ےچمٹ ر گیا بچ ب ے ہ ہ ے ہ ے ۔ ہ ے۔چڑھ گئ تھ ے

" ؟" موال ن گل س پوچھا ۔کیا بات ے ے ے ہے

نچ گیا تھا بوال ۔گال جواب اس ک پاس پ ہ ے

ےتم ن چوھدری مظفر کا مال روکا تھا" !"

"پھر؟" ا ۔اں" موال ن بڑ اطمینان س ک ہ ے ے ے "ہ

Page 155: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےگل ن کنکھیوں س اپن ساتھیوں کو دیکھا اور گال صاف ے ے ے یں اس کا انعام بھیجا وئ بوال چوھدری ن تم ہےکرت ہ ے ۔ ے ہ ے م ی انعام ان سار گاؤں والوں ک سامن ا ک ےاور ک ے ے ہ ہ ہ ہے ہ

" "انعام!" موال چونکا "آخر بات کیا ار حوال کر دیں ۔تم ۔ ے ے ہ "ہے؟

ہگل ن تڑاخ س ایک چانٹا موال ک من پر مارا اور پھر ے ے ے ے وئ بوال "ی بات ٹت ہے۔بجلی کی سی تیزی س پیچھ ہ ۔ ے ہ ے ہ ے ے "

وئ سورج کی روشنی ےتڑپ کر موال ن لٹھ اٹھائی، ڈوبت ہ ے ے ےمیں گنڈاسا شعل کی طرح چمکا، پانچوں نووارد غیر ، مگر گال الری ک پرلی ےانسانی تیزی س واپس بھاگ ے ے

وا موال رک گیا، ہطرف کنکروں پر پھسل کر گر گیا لپکتا ۔ یں وا گنڈاسا جھکا اور جس زاوی پر جھکا تھا و ہاٹھا ے ہ

جوم دیوار س اچٹ اچٹ کر آگ آ ےجھکا ر گیادم بخود ے ہ ہ ، نورا دکان وئ اتر آئ ا تھا بچ آو کی راکھ اڑات ےر ے ہ ے ے ے ۔ ہ

ر آگیا ۔میں س با ہ ے

ےگل ن اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یوں گاڑ ے تا اور ہےرکھا تھا جیس دھرتی ک سین میں اتر جانا چا ہ ہ ے ے ۔ وتا تھا کچھ دیر ک لئ سکت میں ےپھر موال، جو معلوم ے ے ہ

، ایک قدم آگ بڑھا، لٹھ کو دور دکان ک سامن ےآگیا ے ے ہے ےاپن کھٹول کی طرف پھینک دیا اور گل کو بازو س پکڑ ے ے ے وئ بوالچوھدری کو میرا سالم ےکر بڑی نرمی س اٹھات ہ ے ے نچان آؤ ، رسید میں خود پ نا ک انعام مل گیا ےدینا اور ک ہ ہے ہ ہ

۔ں گا "

، اس ک ٹوٹ ول گل ک کپڑ جھاڑ ول ےاس ن ے ے ے ے ے ے ہ ے ہ ے ی کو د دیتا ےوئ طر کو سیدھا کیا اور بوال "رسید تم ہ ۔ ے ے ہا بننا ابھی اس لئ جاؤ، اپنا کام کرو یں تو دول ےپر تم ہے ہ ہ "

ست ول چلتا گلی میں مڑ گیاموال آ ول ہگال سر جھکائ ہ ے ہ ے ہ ے ا ست کھاٹ کی طرف بڑھا، جیس جیس و آگ بڑھ ر ہآ ے ہ ے ے ہ ہ ٹ ر تھ اور ےتھا ویس ویس لوگوں ک قدم پیچھ ہے ہ ے ے ے ے اروں ک آو کی ا تو کم ےجب اس ن کھاٹ پر بیٹھنا چا ے ہ ہ ے وئی آئی ہطرف س اس کی ماں چیختی چالتی بھاگتی ے

ایت وحشت س بولن ےاور موال ک پاس آ کر ن ے ہ ے

Page 156: اردو ادب کے مشہور افسانے

! "تجھ گل ن تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپک س ےلگی ے ے ے ے ۔ ہار تو تو میرا حاللی بیٹا تھا تیرا گنڈاسا کیوں ن اٹھا؟ تو ۔ ے ت نرم آواز وئ اچانک رک گئی اور ب " و اپنا سر پیٹت ہن ے ہ ے ہ ے ؟ ا مول ت دور س بولی "تو تو رو ر ےمیں جیس ب ہے ہ ۔ ے ہ ے "

وئ اپنا ایک ےمول گنڈاس وال ن چارپائی پر بیٹھت ہ ے ے ے ے ے ونٹوں س بالکل وئ ےبازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزت ہ ے ہ ے ول بوال "تو کیا اب روؤں بھی ےمعصوم بچوں کی طرح ہ

یں! ۔ن ہ "

حرام جادی

(محمد حسن عسکری)

ہدرواز کی دھڑ دھڑ اور"کواڑ کھولو" کی مسلسل اور ےضدی چیخیں اس ک دماغ میں اس طرح گونجیں جیس ے

ر تاریک کنوئیں میں ڈول ک گرن کی طویل، گرجتی ےگ ے ے ہ ست ہوئی آواز اس کی پر خواب او نیم رضا مند آنکھیں آ ہ ۔ ہ

لک ی من اندھیر ک ست کھلیں لیکن دوسر لمح ےآ ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ی اس ک وئی سرم جیسی سیا ےلک اجال میں ملی ہ ہ ہ ے ے ہ

و گئیں آنکھوں ک ےپپوٹوں میں بھرن لگی اور و پھر بند ۔ ہ ہ ے ےپرد بوجھل کمبلوں کی طرح نیچ لٹک گئ اور ڈلوں کو ے ے نگی چھوڑ م آ ہدبا دبا کر سالن لگ لیکن کان آنکھوں کی ہ ے ے

ہکر بھنبھنا ر تھ و اس سحر خیز حمل آور کی تاز ہ ہ ے۔ ہے ت تھ اور پھر ےیورش ک خالف اپن روزن بند کر لینا چا ے ہ ے ے

ے۔بھی بھنبھنا ر تھ ہے

ی اپن ےامید و بیم کی ی کشمکش جس نیند شاید جلد ہ ے ہ ی اب ک ےدھار میں غرق کر لیتی، زیاد دیر جاری ن ر ۔ ہ ہ ہ ے

ی تھیں اور آوازیں زیاد لی جا ر ہتو درواز کی چولیں تک ہ ہ ہ وئ گل س نکل ےب صبر، ب تاب، کرخت اور بھرائ ے ے ہ ے ے ے "ی آوازیں پتلی، نوک دار تتلیوں ی تھیں "کھولو کھولو ہر ۔ ۔ ہ ےکی طرح دماغ میں گھس کر نیند ک پردوں کو تار تار

ی تھی ک پکارن واال ی تھیں و ی بھی سن ر ےکئ د ر ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے ست ناخوشگوار ارادوں ہکھولو کھولو ک وقف ک درمیان آ ہ ے ہ ے ۔

یں بلک کوئی شخص اس ی ن ار بھی کر دیتا تھا ی ےکا اظ ہ ہ ہ ۔ ہ ا ہسڑک ک ڈھیلوں کو استعمال کرن کی ترغیب د ر ے ے ے

Page 157: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھوں کو ہتھا آخر اس ن آنکھیں پوری کھول دیں اور ے ۔ "نصیبن دیکھو تو کون ؟ ا وئ ک ہےچارپائی پر جھٹکت ۔ ہ ے ہ ے "

ہی اس ک لئ کوئی نئی بات ن تھی جب س و اس قصب ہ ے ہ ے ے ہ ی وتا تھا ی و کر آئی تھی ی سب کچھ روز ہمیں مڈ وائف ہ ہ ہ

ی تلخ ٹ فرض اور آرام کی ی ی دھڑ دھڑا ہچیخیں، ی ہ ہ ٹ اور پسپائی سب اسی طرح، اس ی جھال ےکشمکش ی ہ ہ

ی اٹھ کر جانا پڑتا تھا اور پھر اس کا سارا دن نو ہصبح اتھ پاؤں پھینکت دنیا ، ~ چیخت چالت ےواردوں کو احتجاجا ہ ے ے وؤں کی رفتار وئ دیکھن میں، کچھ دن آئ ہمیں آت ے ے ے ہ ے ےک معائن میں اور آمد و رفت ک اندراج ک لئ ٹاؤن ے ے ہ ے

ر ہایریا ک دفتر تک بار بات دوڑن میں گزرتا تھا اس دوپ ے ۔ ے ے زار کھینچ تان ہکو کھانا کھان اور آرام کرن کا وقت بھی ے ے

ےک بعد ملتا تھا اور و بھی یقینی ن تھا کیونک بچ پیدا ہ ہ ہ ے ، یں کرت صبح چار بج ےون میں موقع کا مطلق لحاظ ن ے۔ ہ ے ہ

ر گھڑی اس ر گھنٹ ، رات ک دو بج ر ک بار بج ےدوپ ہ ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ نا پڑتا تھا ن ک لئ تیار ر ہکو ندا کی آواز پر لبیک ک ے ے ے ہ ہہ

ےاوربچ تھ ک ایسی تیزی س چل آ ر تھ جیس ے ہے ے ے ہ ے ے وئ پتھر، ضبطl تولید ک چرچ اڑی ندی میں لڑھکت ےپ ے ے ہ ے ہ

ر س مالن والی کچی اور گڑھوں والی ےدولت نگر کو ش ے ہ ہسڑک کو ط ن کر سکت تھ اور اگر بالفرض محال و ے ے ہ ے نچ بھی جات تو ی یقینی بات تھی اں تک پ وئ و ہرینگت ے ہ ہ ے ہ ے یں ذرا بھی قابلl اعتنا ن سمجھت کیونک ہک قصب وال ان ے۔ ہ ہ ے ے ہ ےو اچھی طرح جانت تھ ک بچ خدا ک حکم س پیدا ے ے ہ ے ے ہ

یں اس میں انسان کا کیا دخل ۔وت ۔ ہ ے ،18ہ ے سال لڑک 56ہ ڑ لڑکیاں، ادھیڑ عورتیں، سب ک سب ، ال ےسال بڈھ ہ ے ہ

تی ک ساتھ سڑکوں کی ی اور یک ج ےحیرت انگیز تن د ہ ہ ےنالیوں میں کھیلن وال بچوں کی تعداد میں اضاف کئ ہ ے ے

ہچل جا ر تھ گویا و قومی دفاع کی خاطر کارخانوں ے۔ ہے ے یں اور پھر و بچار کرت ےمیں کام کرن وال مزدور ے ہ ہ ے ے

ہبھی کیا و تو خدا ک حکم س ب بس تھ غرض ی ک ہ ے۔ ے ے ے ہ ۔ ، پرنچ مرغ کی ، پیل بچ ےبچ چل آ ر تھ کال بچ ے ے ے ے ے۔ ہے ے ے

، ےطرح سرخ بچ اور کبھی کبھی گور بچ دبل پتل ے ے ے ے وئ بالوں ، مڑ ےڈیوں کا ڈھانچ یا بعض موٹ تاز بچ ہ ے ے ے ے ہ ہ، لکڑی ، چھچھوندر کی طرح گلگل ےوال چپٹی ناک وال ے ے

ر قسم ک بچ ر رنگ اور ے۔۔جیس سخت، ے ہ ہ ے

Page 158: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےایملی ن اپنی دادی س سنا تھا ک ان ک بچپن میں ایک ہ ے ے ہمرتب پاؤ پاؤ بھر ک مینڈک برس تھ و کبھی کبھی سو ے۔ ے ے ہ نسی بھی آ ہچا کرتی تھی اور اس وقت اس ب ساخت ہ ے ے یں پاؤپاؤ ی برسن وال مینڈک ۔جاتی تھی ک ی بچ و ہ ے ے ہ ے ہ ہ

۔بھر ک زرد زرد مینڈک ے

ر قطر کو ی زرد مینڈکوں کی بارش ک ہاور اس ان ہ ے ہ ے وئ دیکھن ک لئ قصب کی ٹوٹی پھوٹی روڑوں ےبرست ے ے ے ے ہ ے وئی گلیوں، گرد و غبار، ہکی سڑکوں، تنگ و تاریک، سیلی وئ الل پیل کتوں اور ےکوڑ کرکٹ ک ڈھیروں، بھونکت ے ہ ے ے ے

وئ ےکسانوں کی گاڑیوں اور گھاس دالیوں س ٹھنس ہ ے ے ۔بازاروں میں سارا سارا دن گھومنا پڑتا تھا پتلی پتلی

وتا تھا ہسڑکوں پر دونوں طرف ریت کا حاشی ضرور بنا ہ تی تھیں ہاور پھر نالیاں تو ٹھیک سڑکوں ک بیچوں بیچ ب ے وئ کاجل کی ی کسی گنوار دن ک ب ےجن کی سیا ہ ہے ے ہ

تی تھی صفائی ۔طرح سڑک کا کافی حص غصب کئ ر ہ ے ہ ےک بھنگی نالیوں کی گندگی سمیٹ سمیٹ کر سڑک پر

ےپھیال دیت تھ جن س اپنی ساڑھی کو محفوظ رکھن ے ے ے لک فیروزی سینڈل ک بجائ لک ےک لئ ایملی کو ے ے ہ ے ہ ے ے

ننا پڑتا تھا گو اس صورت میں ۔اونچی ایڑی واال جوتا پ ہ وئ ال تعداد کنکر اس ک پیروں کو ےسڑک ک ابھر ے ہ ے ے

ےڈگمگا دیت تھ راست میں گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلن ہ ے۔ ے ر دفع اپنا ہوال لونڈوں کا ال ابالی پن اس ک کپڑوں پر ہ ے ے میش اپنی ہنشان چھوڑ جاتا تھا مگر خیر شکر تھا ک و ہ ہ ہ ۔

اں کی گرمی! ہآنکھیں اور دانت سالمت ل آتی تھی اور ی ے~ پسینوں میں گھل گھل کر وتا تھا ک و یقینا ہاس معلوم ہ ہ ے

و جائ گی ان تنگ سڑکوں پر بھی سورج اس تیزی ۔ختم ے ہ ےس چمکتا تھا ک اس ک بدن پر چنگاریاں ناچن لگتیں ے ہ ے

ےاور اس کی نیل پھولوں والی چھتری محض ایک بوجھ بن ہجاتی جب و اپنی اونچی ایڑیوں پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی، ۔

ےدھوپ میں جلتی بھنتی سڑکوں پر س گزرتی تو اس ے ےدور آلھا گان کی آواز، ڈھول کی کھٹ کھٹ اور درخت

ر ق دوپ ہک نیچ تاش کی پارٹیوں ک بلند اور کرخت ق ہے ہ ے ے ے ٹ ہکی نیند حرام کر دین والی بوجھل مکھیوں کی بھنبھنا ے وت اور و چار زا معلوم lست �ر ا ہکی طرح بیزار کن اور پ ے ہ ہ ر کا خیال کرن لگتی مگر وئ ش ل چھوڑ ین پ ۔م ے ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ر اس وقت خوابوں کی و سر زمین بن جاتا جس ےش ہے ہ ہ

Page 159: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کیا جا زار کوششوں ک باوجود کچھ یاد ن ہصبح اٹھ کر ے ہ ےسکتا اور جس کی لطافت کا یقین دن بھر دل کو ب چین

وتی ایک ہکئ رکھتا اس کچھ روشنی سی معلوم ے ہے۔ ے ریالی اس ک نائی کچھ ےچمک، ایک کشادگی، ایک پ ہ ہ

وئی کنکروں، نالیوں ہسامن تیرتی اور و پھر اسی تپتی ہ ے ی ہاور ریت والی سڑک پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی چل ر

ےوتی بجلی ک پنکھ وال کمر کا تصور اس تپش اور ے ے ے ۔ ہہسوزش کو کم کرن میں اس کی مدد ن کرتا تھا لیکن، ے

وتی ہاں! جب کبھی و خوش قسمتی س رات کو فارغ ے ہ ہےاور اس اپن بستر پر کچھ دیر جاگن کا موقع مل جاتا تو ے ے

ر کی زندگی کی تصویریں سینما ک پرد ےاس وقت ش ے ہ ےکی طرح پوری طرح روشنی اور صفائی ک ساتھ اس

ہکی نظروں ک سامن گزرن لگتیں اور و جس تصویر کو ے ے ے را لیتی لیکن جب و ان تصویروں س تی ٹھ ےجتنا دیر چا ہ ہ ہ ےلطف اٹھان ک درمیان ان مناظر کو یاد کرتی جن س ے ے

ونا پڑتا تھا تو اس کی خستگی اور ر وقت دو چار ہاس ہ ے ست عود کر آتی گھرکی دیواریں مع رات ست آ ۔بیزاری آ ہ ہ ہ ہ ےکی تاریکیوں ک اس پر جھک پڑتیں دل بھنچن لگتا، ۔ ے

و جاتا اور اس کا سر کمننی کھا ہسانس گرم اور دشوار و جاتا اور و خواب وشی میں غرق ہکھا کر نیند کی ب ہ ہ ے

نچ گئی سپتال میں پ ر ک ہمیں دیکھتی ک و پھر اسی ش ہ ے ہ ہ ہ ے، مگر ان در و دیوار س بجائ رفاقت ک کچھ بیگانگی ے ے ہےےسی ٹپکتی اور خود اس ک اعضاء منجمد اور ناقابل ہے

یں اور کوئی نامعلوم خوف اس ک دل پر و گئ ےحرکت ہ ے ہ ی خواب تین چار مرتب دیکھتی ہمسلط تھا و صبح تک ی ہ ہ ۔ ونا بھی ہاور دراصل اس ک لئ ان زندگیوں کا انتقال ے ے

ر میں ی اثرات پیدا کرن واال، مانا ک ش ئ تھا ایس ہچا ہ ے ہ ے ۔ ے ہ وئی گلیاں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گرد ی ملی ہبھی ایسی ہ

ےو غبار، شریر لڑک موجود تھ اور و ان ک وجود س ے ہ ے ے وا کی چڑیوں کی طرح ان سب ہب خبر ن تھی لیکن و تو ہ ہ ے وئی ہس ب پروا اور مطمئن تانگ ک گدوں پر جھولتی ے ے ہ ے ے ےان اطراف س کبھی دسویں پندرھویں نکل جایا کرتی ےتھی اس کی دنیا تو ان عالقوں س دور ضلع ک صدر ے ۔ اں ؛ اور و وئی جگ تھی و ہسپتال میں تھی کتنی کھلی ہ ہ ہ ۔ ہ

سپتال ک ےکا لطف تو ساری عمر ن بھول سک گی ہ ۔ ے ہ ےسامن تار کول کی چوڑی سڑک تھی جس پر دن میں دو میش شیش کی طرح ےمرتب جھاڑو دی جاتی تھی اور جو ہ ہ ہ

Page 160: اردو ادب کے مشہور افسانے

یلی ڈینا ک ساتھ اس پر ےچمکا کرتی تھی جب و اپنی س ہ ہ وئ کھیتوں لن ک لئ نکلتی تھی تو دور دور تک پھیل ےٹ ہ ے ے ے ے ہ

ر وا ک جھونک چ ےاور میدانوں پر س آن والی ٹھنڈی ہ ے ے ہ ے ے لکا کر دیت تھ اس ے۔اور آنکھوں پر لگ لگ کر دماغ کو ے ہ ےکی ساڑھی پھڑپھڑان لگتی، ماتھ پر بالوں کی ایک لڑی ے

و جاتی ۔تیرتی اور اس کی رفتار سبک اور تیز ہ

وتا تھا ۔ایس وقت باتیں کرنا کتنا خوشگوار اور پر لطف ہ ے اں نام بھی ن تھا مئی جون ک جھکڑ ےگرد و غبار کا تو ی ۔ ہ ہ

سپتال کی سفید اور شیشوں والی عمارت پر س ےبھی ہ ر کی طرف گزرت چل جات تھ اور وئ ش ےسنسنات ے ے ے ہ ے ہ ے ر کی ن وال کمر میں دوپ ہبجلی ک پنکھ س سرد ر ے ے ے ہ ے ے ے ہسختی اور اداسی اپنا سای تک ن ڈال سکتی تھی جب و ۔ ہ ہ ےپر وقار انداز س ساڑھی کا پل سنبھال گزرتی تھی تو ہ ے ہہسپتال ک نوکر چاروں طرف س اس "میم صاحب" ک ے ے ے ہ

اں بھی اس سب لوگ میم ےکر سالم کرن لگت تھ گو ی ہ ے۔ ے ے ت تھ سڑکوں پر جھاڑو دین وال بھنگی ی ک ےصاحب ے ے۔ ے ہ ہ ےاس آت دیکھ کر تھم جات تھ بلک قصب ک زمیندار تک ہ ہ ے ے ے ے اں و ہاس "آپ" س مخاطب کرت تھ مگر پھر بھی ی ہ ے۔ ے ے ے

، و و سکتی تھی و رعب، و دبدب اں حاصل ہبات ک ہ ہ ہ ۔ ہ ہ سپتال کا ایک اں تو اس کی شخصیت ہمالکان احساس، و ہ ہ ۔جزوl الینفک تھی اس سفید، سرد اور متین عمارت او ر ےاس ک غیر مرئی مگر اٹل قانونوں اور اصولوں کا ایک سپتال ک نشتر ک سامن آن ک بعد ےزند مجسم ے ے ے ے ہ ہ۔ ہ

یں کر سکتا تھا اسی طرح ~ حرکت ن ۔کوئی شخص احتجاجا ہ ر چیز کو اس کی ون والی ہاس کی حدود میں داخل ے ہ

ونا پڑتا تھا جب اس کا مریضوں ک ےمرضی کا پابند ۔ ہ ون ی س تیاریاں ل ےمعائن کا وقت آتا تھا تو وارڈ میں پ ہ ے ہ ے ہ ہ ےلگتی تھیں و دو روپ روزان کرای دین والیوں تک کو ہ ہ ے ہ ۔

ےجھڑک دیتی تھی کیونک اس صاف کمروں میں پان کی ہ ہپیک تک دیکھنا گوارا ن تھا و بڑی بڑی نازک مزاجوں کو ۔ ہ

دایات کی خالف ورزی پر ب ےذرا سی ب احتیاطی اور ہ ے میش سب س تم ک کر بولتی تھی ۔طرح ڈانٹتی تھی اور ہہ ے ہ ہ ی من پھٹ تھیں و اس س ت اں کی عورتیں تو ب ےمگر ی ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ےراساں اور خوف زد تو ضرور تھیں مگر اس دوبدو ہ ہ

ےجواب دین س ن چوکتی تھیں تھوڑ دن تک ان پر اپنا ۔ ہ ے ے ہاختیار جمان کی کوشش کرن ک بعد اب و تھک چکی ے ے ے

Page 161: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہتھی اور ان کی باتوں میں زیاد دخل ن دیتی تھی اور ہ وا تک ن لگی ہصفائی اور سلیق کی تو ان عورتوں کو ہ ہ

~ ایک کمر میں بند کر ےتھی زچ کو گرمی میں بھی فورا ہ ۔ ، چاروں ےدیا جاتا تھا جس میں جاڑوں ک لحاف پنکھون ے وئی چارپائیاں، ، ٹوٹی ہاور دوسری جنسوں ک سٹک ے ے

برتن، کوئلوں کا گھڑا، سوت اور رولڑ کی گٹھڑیاں، سبوت تھ اور ایک انگیٹھی پر گھٹی چڑھا دی ےالم غلم بھر ے ہ ے

ہجاتی تھی بعض بعض جگ تو جلدی جلدی کمر میں ہ ۔ ون لگتی تھی جو پیروں س اکھڑ اکھڑ کر فرش ےگوبری ے ہ

ن دیتی تھی اور جس کی ےکو چلن ک قابل بھی ن ر ہ ہ ے ے ےسیلن انگیٹھی کی گرمی س مل کر سانس لینا دشوار

ےکر دیتی تھی گھر کی سب عورتیں اور و کم س کم چار ہ ۔ ےوتی تھیں، اپن بدبو دار کپڑوں سمیت کمر میں گھس ے ہٹ میں سار سامان کو ایسا الٹ ےآتی تھیں اور گھبرا ہ ۔پلٹ کر دیتی تھیں ک ذرا سی کتر تک ن ملتی تھی اندر ہ ہ " اور وں "یا الل یاالل ہکی کھسر پھسر، گھڑڑ بڑر، کرا ہ ہ ر آن جان س ےعورتوں ک بار بار کواڑ کھول کر اندر با ے ے ہ ے

ےگھر ک بچ جاگ جات تھ اور اپن آپ کو اماں ک ے ے ے ے ے ےقریب ن پا کر چیخنا شروع کر دیت تھ اور ان کی بڑی ے ہ الن کی یں ب نیں چمکارچمکار کر اور تھپک تھپک کر ان ےب ہ ہ ہ

۔کوشش کرتی تھیں

ہےار چپ چپدیکھ بھیا آیا صبح کو دیکھومنا سا بھیا" ے یں اس ہ"مگر صبح کو منا سا بھیا دیکھ سکن کی امید ان ے ےوقت تک کوئی تسکین ن د سکتی اور ان کی روں روں ہ و کر کمر ک خلفشار میں ےدھاڑوں کی شکل میں تبدیل ہ ہ ہاور اضاف کر دیتی ی تو خیر جو کچھ تھا سو تھا، کثیف ۔ ہ وئ وئ تکیوں، پسین میں سڑ ےبستروں پر لیپ چڑھ ہ ے ے ے ہ ے

وئ بالوں کی بدبو س ےکپڑوں اور مدتوں س ن دھل ے ہ ے ہ ے ہجیس گرمی اور بھی دو آتش کر دیتی تھی، اس کا جی ے وئی ر چیز س دامن بچاتی ہالٹن لگتا تھا و تمام وقت ے ہ ہ ۔ ے ہکھڑی کھڑی پھرتی تھی اس کمر میں ایک گھنٹ گزارنا ہ ۔

نم ک عذابوں ک لئ تیاری کرنا تھا ی مانا ک خود ہگویا ج ہ ے ے ے ہ یں کرنا پڑتا تھا کیونک قصب کی عورتیں اپن ےاس کچھ ن ہ ہ ۔ ہ ے ےآپ کو نئ نئ انگریزی تجربوں ک لئ پیش کرن اور ے ے ے ے ، جو ان ےاپن آپ کو ایک اجنبی اور عیسائی مڈ وائف ک ے

Page 162: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھوں میں د ےدیکھ اور مشتب آالت س مسلح تھی، ہ ے ہ ے یں تو قصب کی پرانی ~ تیار ن تھیں ان ہدین ک لئ قطعا ہ ہ ے ے ے

ی اعتقاد تھا وئ گھڑ ک ٹھیکروں پر ہدائی اور چھوٹ ے ے ے ہ ے یں اس پر م ان ک مردوں ن ٹاؤن ایریا س ڈر کر ان ہتا ے ے ے ہ

ےراضی کر لیا تھا ک و نئی عیسائی مڈ وائف ک کمر ے ہ ہ ۔میں موجودگی برداشت کر لیں اس طرح عملی حیثیت

و گیا تھا لیکن آخر ذم داری تو ت کم ہس تو اس کا کام ب ہ ہ ے ر ی ٹاؤن ایریا کمیٹی ک سامن ی تھی اور و ہاس کی ے ے ہ ہ ےبرائی بھالئی ک لئ جواب د تھی اور اس ذم داری س ہ ہ ے ے

واؤں س لڑنا تھا اکثر نوگرفتار اتنا چیختی ونا د برا ۔ع ے ہ ہ ہ ہ یں قابو میں کرنا دو اتھ پیر پھینکتی تھیں ک ان ہچالتیں اور ہ ہ

م جاتی تھیں ک و ڈر ک و جاتا تھا ی پھر ایسی س ےبھر ہ ہ ہ ہ ہ ۔مار ذرا سی حرکت ن کرتی تھیں تین تین چار چار ہ ے

ےبچوں کی مائیں تو اور بھی آفت تھیں و اپن تجربوں ک ے ہ ۔ ر گھومن والی عیسائی ن کر با ےسامن اس ساڑھی پ ہ ہ ے

دایتوں کو کوئی وقعت دین پر تیار ن ہعورت کی انوکھی ے ہ ۔تھیں

وں ک درمیان بھی رک کر دائی کو مشور دین ےو اپنی آ ہ ے ہ ہ ونٹ چبا چبا کر ہلگتی تھیں اور ایملی کو دانتوں س ے اں ہخاموش ر جانا پڑتا تھا اور دائی تو بھال اس کی ک ہ ےسنن والی تھی اس اپنی برتری اور مڈ وائف کی ۔ ے

ی مگر اس کی موجودگی س لیت کا یقین تو خیر تھا ےناا ہ ہ ر بات ہاپنی آمدنی پر اثر پڑتا دیکھ کر اس ن ایملی کی ے

ےکی تردید کرنا اپنا فرض بنالیا تھا گو ایملی ن اس ک ے ۔ ےطنزی جملوں کو پین کی عادت ڈال لی تھی لیکن اس کا ہ ی تھا دائی ک طرزl عمل کو ےدل کوئی پتھر کا تھوڑ ۔ ہ ے

و گئی تھیں اس ۔دیکھ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی دلیر ہ ی و پلنگ کو گھیر لیتی تھیں ۔کی طرف توج کئ بغیر ہ ہ ے ہ ےاور و سب س پیچھ چھوڑ دی جاتی تھی اب اس ک ۔ ے ے ہ

ےسوا کیا ر جاتا تھا ک و جھنجھال جھنجھال کر پیر پٹخ اور ہ ہ ہ یں پکار پکار کر اپنی طرف متوج کرن کی کوشش ےان ہ ہ

ے۔کر

ر بار اندراج ہان سب آزمائشوں س گزرن ک بعد اس ے ے ے ے ےک لئ ٹاؤن ایریا ک دفتر جانا پڑتا تھا اس دیکھ کر ۔ ے ے ے

ےبخشی جی کی آنکھیں چمکن لگتیں اور ان ک پان میں ے

Page 163: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ کال دانت نیم تمسخران انداز میں ان کو ہسن ے ے ہ ے ر نکل آت ےچھوٹی داڑھی اور بڑی بڑی مونچھوں س با ہ ے

و ت "ک وئ ک ہاور و اس کی طرف کرسی کھسکات ے ہ ے ہ ے ہ ےمیم صاحب! لڑکا ک لڑکی؟" مونچھوں ک ان گھن کال ے ے ہ راساں کر دیتی اور اس ایسا ےبالوں کی قربت اس ہ ے

ر ون لگتا جیس ان بالوں میں یکایک بجلی کی ل ہمعلوم ے ے ہ ر س آ و کر اس ک چ ےدوڑ جائ گی اور و سیدھ ہ ہ ے ہ ے ہ ے

ےملیں گ و نفرت اور خوف س پیچھ سمٹ جاتی اور ے ہ ے۔ وئی جلد س جلد اپنا کام ےبخشی جی س نظریں بچاتی ہ ے

۔ختم کرن کی کوشش کرتی ے

~ آٹھ نو بج رات وئی و عموما ےی سار مرحل ط کرتی ہ ہ ے ے ے ہ یں س نچتی تھی جب پیر ک اری اپن گھر پ ےکو تھکی ہ ۔ ہ ے ہ

و، جب جسم کا کوئی بھی وا �ایا وں، سر بھن یں پڑ ر ہک ہ ہ ہے ہ و، تو بھال بھوک ہعضو ایک دوسر کا ساتھ دین کو تیار ن ہ ے ے ےکیا خاک لگ سکتی و جوتا کھول کر پیر س کون میں ے ہ ہے۔

ےاچھال دیتی اور کپڑ اس طرح جھنجھال جھنجھال کر اں یں دھوبی ک ی ہاتارتی ک دوسر دن نصیبن کو ان ے ہ ے ہ ےاستری کران ل جانا پڑتا الٹا سیدھا کھانا حلق ک نیچ ے ۔ ے ے ی ہاتار کر و بستر پر گر پڑتی تکی پر سر رکھت ے ے ۔ ہ ےدیواریں، پیڑ، ساری دنیا اس ک گرد تیزی س گھومن ے ے

ےلگت بھیجا دھرا دھڑ دھرا دھڑا کر کھوپڑی میں س نکل ے۔ ےبھاگن کی کوشش کرتا سر تکی میں گھسا جاتا مگر ۔ ے

و جات وتا بازو شل ے۔تکی اس اوپر اچھالتا معلوم ہ ۔ ہ ے ہ اتھ اوپر ن اٹھ سکت ے۔تھیلیوں میں سیس سا بھر جاتا اور ہ ہ ہ ہ

ےاسی طرح ٹانگیں بھی حرکت س انکار کر دیتیں اور کمر سپتال کو یاد کرنا ہتو بالکل پتھر بن جاتی و اپن پران ے ے ہ ۔ تی، مگر و کسی چیز کو بھی پوری طرح یاد ن کر ہچا ہ ہ

، نی چارپائی کا پای ہسکتی کھڑکی کا کواڑ، مریضوں کی آ ہ وئ ، نیم ک پیڑ کی چوٹی، پان میں ست یئ ےموٹر ک پ ہ ے ے ے ہ ے

ہکال دانت اور گھنی سخت مونچھیں، ی سب باری باری ے ےبجلی ک کوند کی طرح سامن آت او ر آنکھ جھپکت ے ے ے ے و جات و کھڑکی ک کواڑ میں ایک کمر ہمیں غائب ے ہ ے ہ

تی مگر اس میں زیاد س زیاد ایک چٹخنی کا ہجوڑنا چا ے ہ ۔ ہ نی چارپائی کا ایک پای ہاضاف کر سکتی بلک بعض اوقات آ ہ ہ ہ ےتو ایک کھونٹ کی طرح اس ک دماغ میں گڑ جاتا اور ے وتا، نیم کی ہکوشش ک باوجود بھی ٹس س مس ن ہ ے ے

Page 164: اردو ادب کے مشہور افسانے

ری ر ی و سکتا پھر نیم کی ہچوٹی کو کبھی تنا حاصل ن ہ ہ ہ ن لگتی اور ےچوٹی پر ایک ریت ک حاشی والی نالی ب ہ ہ ے وئ کال دانت ےکھڑکی ک شیش پر پان میں سن ے ہ ے ے ے

ےمسکرات اور گھن سخت بالوں والی مونچھیں ب تابی ے ے لتیں مختلف شکلیں ایک دوسر س دست و ےس ے ہ ے

و جاتیں اور دماغ ک ایک سر س دوسر تک ےگریبان ے ے ے ہ ہلڑتی جھگڑتی، ٹکراتی، روندتی، دوڑتی سیا آسمان پر ےروشن ان گنت تاروں ک کچھ ک کچھ بھنگوں کی ے ے ے ےطرح آنکھوں میں گھس گھس کر ناچن لگت اور جلتی ے ست ہوئی آنکھیں کنپٹیوں کی خواب آور بھد بھد س آ ہ ے ے ہو جاتیں سون ک بعد تو ان شکلوں ک اور ست بند ےآ ے ے ہ ہ ہ و جات جو باری باری آت اور ےبھی چھوٹ چھوٹ ٹکڑ ے ہ ے ے ے ی میں ایک ت اتن و جانا چا ہاس ک دماغ پر مسلط ے ے۔ ہ ہ ے ر ل وال کو دھک د کر با نچتا اور پ ہایک دوسرا آ پ ے ے ے ے ہ ہ

وتی ک ایک تیسرا ہنکال دیتا ابھی ی کشمکش ختم بھی ن ہ ہ ہ ۔ ےآ دھمکتا ان سب کی حریفان زور آزمائیاں اس بار بار ہ ۔

لکی سی کرا ک ساتھ آنکھیں کھول ےچونکا دیتیں اور و ہ ہ ہ ےدیتی پھر آنکھوں میں تاروں ک گچھ ک گچھ بھرن ے ے ے ے

یں صبح ک قریب جا کر ی شکلیں تھمتیں اور اپنی ہلگت ک ے ہ ے وا بھی چلنی لکی لکی وتیں ہرزم گا س رخصت ہ ہ ہ ے ہ

و جاتی وش و جاتی اور ایملی نیند میں بالکل ب ہشروع ہ ے ہ ل "کواڑ کھولو " کی ون س پ ےمگر اس کی نیند پوری ہ ے ے ہ

ی ہمسلسل اور ضدی چیخیں اس ک دماغ میں گونجتیں و ے ی تلخ ٹ، فرض اور آرام کی و ی دھڑ دھڑا ہچیخیں، و ہ ہ

ٹ اور پسپائی ی جھال ۔کشمکش، و ہ ہ

ار س لوٹ آئی تھی اس شیخ صفدر علی ک ےنصیبن ب ے ۔ ے ہ ا تھا "جلدی ہاں بالیا گیا تھا اور پکارن وال ن بار بار ک ے ے ے ہ

وا آتا جلدی آخر و کیوں تا ی ک ر ایک ی ہبالیا جلدی " ہے ہ ہ ہ ہ ہے ؟ یا و اس دولت بخش ؟ کیا و ان کی نوکر ےجلدی کر ہ ہے ہ ے نچ گی تو کیا سب مر جائیں ون جلدی! و ن پ یں ےدیت ہ ہ ہ ہہ ہ ۔ ہ ے

یں تی ی کیا اس بال کر؟ک ؟ اور پھر و کریں گ ہگ ہ ے ہ ے ہ ے یں آتا ہچڑیلیں"اس کیا خاک آتا " کیا خاک آتا کچھ ن ہے ہے ے

ےاچھا پھر؟ بیٹھیں اپن گھر، کون ان کی خوشامد کرن جاتا ے یں ان یں آتا؟ جیس جیس آئ اس ن دیکھ ہ کچھ ن ے ے ے ے ے ہ ہے

وں گ ےلوگوں ک تو خواب و خیال میں بھی ن گزر ہ ے ہ ے اتھی دانت ک دست وال اور و ڈاکٹر ہچمکدار، تیز، ے ے ے ہ

Page 165: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےکارٹ فیلڈ ک لیکچر، و نقش دکھا دکھا کر جسم ک ے ہ ے ون یں آتا ہہحصوں کو سمجھاتی تھی کچھ ن ہ ہ !

ل تو اس کا جی ٹ آ گئی پ ونٹوں پر مسکرا ےایملی ک ہ ۔ ہ ہ ے یں آئ یں آسکتی و بالکل ن لوا د و جلدی ن ا ک ک ےچا ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ہ ہ

ی تو ل ہگی مگر پھر اس خیال آیا ک ی لوگ محض جا ہ ہ ہ ے ۔ ن س اس کا بگڑتا کیا اور آخر ذم داری ہیں ان ک ک ہے ے ے ہ ے ۔ ہ

ا "ک ی چنانچ اس ن نصیبن س ک ہہتو خود اس کی ہ ے ے ہ ہے۔ ہ و کر اس ن کروٹ " مطمئن وں ی ےدو ک چلو میں آ ر ہ ۔ ہ ہ ہ

۔ل لی سر کو تکی پر ڈھیال چھوڑ دیا آنکھیں بند کر لیں، ے ۔ ے ر اتھ چ ےایک بازو بستر کی ٹھنڈی چادر پر پھیال دیا اور ہ ہ

ا ک دماغ کو بالکل خالی کر ل اور ےپر رکھ لیا اس ن چا ہ ہ ے ۔ و جائ مگر اس ک دل کی کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ ےساکت ے ہ ی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد یکایک ہکانوں میں بج ر "جلد "جس س اس ےایک پتھر سا دماغ میں آ کر لگتا تھا ۔ ےک ماتھ اور کنپٹیوں کی نسیں تن جاتی تھیں اور ٹوٹتی ے ون لگتی تھیں اس جلدی جانا تھا جلدی ےوئی معلوم ۔ ے ہ ہےاور اسی بات ک تو و ٹاؤن ایریا کمیٹی س تیس روپ ے ہ ے

وار پاتی تھی جلد جانا تھا لیکن آخر و فرض پر صحت ہما ۔ ہ ت ی اس ب یں قربان کر سکتی تھی کل رات ہکو تو ن ے ہ ۔ ہ ی تو تھی ن ک مشین اب و و گئی تھی و انسان ہدیر ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

، ا و ر ی تھی ک اس ک سر میں درد ہےمحسوس کر ر ہ ہ ے ہ ہ و گئ ، کندھ اور ٹانگیں ب جان ی ےکمر بیٹھی جا ر ہ ے ے ہے ہ و گا اور ت مضر ہیں ایسی حالت میں اتنی جلدی ب ہ ۔ ہاں اس کی وا میں ج ~ اس قصب جیسی آب و ہخصوصا ہ ہ

ین میں ی ابھی آخر چار م ےصحت روز بروز گرتی جا ر ہ ہے۔ ہ ی اں جا کر بنا ہاس چار دن بخار آ چکا تھا اور پھر و و ہ ہ ے ہےکیا ل گی، ان لوگوں کو ایسی کیا خاص ضرورت اس ے

و گا تر ی ب ۔کی تھوڑا سا اور سو لینا ہ ہ ہ

و کر صبح کی ہو سو جاتی مگر انگلیوں ک بیچ میں ے ہ ون دیتی ی تھی اور اس کی آنکھوں کو بند ن ےروشنی آ ر ہ ہ ہ اتھ آنکھوں پر کھسکا لیا اور آنکھیں خوب ہتھی اس ن ے ۔ و گئیں ۔بھینچ کر بند کر لیں اب اس جھپکیاں آنا شروع ہ ے ۔ "اٹھ! اٹھ! وئ ر دفع "دودھ اور دودھ "اب او کلو ے۔مگر ہ ے ہ ہ

یں جان کا؟ " کی صداؤں اور نسین کی ےاب پڑھن ن ہ ے ے

Page 166: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہلکڑیاں توڑن اور دیگچیاں اٹھان کی آوازوں س و چونک ے ے ے ےپڑتی تھی سون کی کوشش کرت کرت اس کی آنکھوں ے ے ۔

ون لگا اور ماتھا جلن ےمیں پانی بھر آیا سر میں درد ے ہ ۔ و کر سیدھی لیٹ گئی اور آنکھوں پر ہلگا و مایوس ہ ۔

ےدونوں بازو رکھ لئ اب اس ک اعضاء اور بھی بوجھل ے۔ و گئ اور و ان صداؤں، آوازوں، ان ہاور ناقابل حرکت ے ہ

، اس "اس صبح ک چاند ن ےتحکمان طلبیوں "جلدی بالیا ے ہے۔ ہ تی تھی ک کوئی ایسی ہقصب پر دانت پیسن لگی و چا ہ ہ ۔ ے ہ ہچادر اوڑھ ل ک اس کو ان صداؤں، آوازوں، ان تحکمان ہ ے ، اس قصب "جلدی بالیا "اس صبح ک چاند ن ے۔طلبیوں ے ے ہے ۔

ےسب س چھپاک جس ک نیچ ان میں س کسی کی ے ے ے۔ ے و اں و ان سب س اپن آپ س غافل و، ج نچ ن ہبھی پ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ و ک دو مضبوط اور ہجائ اپن کو کھو د اس محسوس ہ ے ے ے ے

ہےمدت ک آشنا بازو اس ک جسم کا حلق کئ بھینچ ر ے ہ ے ے ےیں سر ک درد کو گویا یکایک کسی ن پکڑ لیا دو آنکھیں ے ہوئیں اور اس وئی معلوم ہبھی ذرا دور چمکیں، مسکراتی ہ ےن اپن آپ کو ان بازوؤں کی گرفت میں چھوڑ دیا جسم ے لک جھکول کھاتا لک و گیا تھا سر لکا ےوا کی طرح ے ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہا تھا سکون تھا، خاموشی تھی اور ا چال جا ر ۔موجوں پر ب ہ ہ ی تھی دو ہصرف دل ک مسرت س دھڑکن کی آواز آ ر ے ے ے ہبازو اس ک جسم کو بھینچ ر تھ و مضبوط اور مدت ے۔ ہے ے

۔ک آشنا بازو ے

ےاس ن ڈرت ڈرت آنکھیں کھولیں صبح ک چاند میں ۔ ے ے ے ۔چمک آ گئی تھی نصیبن ن چول پر دیگچی رکھی بکری ہے ے ۔

ا تھا اور ہواال محل س جان ک لئ بکریاں جمع کر ر ے ے ے ے ہ ی تھی اس کی ۔کنویں کی گراری زور زور س چل ر ہ ے وا میں کسی چیز کو تالش کرن ےآنکھیں اوپر اٹھیں اور ہ

۔لگیں

ےدو بادامی سائ اترن لگ آنکھوں ک پرد پھڑک اور ے ے ے۔ ے ے ست ایک دوسر س مل گئیں گویا و ان ست آ ہپلکیں آ ے ے ہ ہ ہ ہ یں سائ کچھ دور پر رک تی ےسایوں کو پھنسا لینا چا ہ ہ

و وا میں تحلیل وت وت ، و ڈگمگائ اور دھندل ہگئ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ ے ی تھیں اس ۔گئ آنکھیں صبح ب رنگ آسمان کو دیکھ ر ہ ے ے

ہکی گردن ڈھلک گئی اور بازو دونوں طرف گر پڑ و ے اں اں ک ہمدت ک آشنا بازو مگر و ی ہ ہ ے !

Page 167: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن ک بعد و ولیمن کو یاد ہچند لمح ب حس پڑ ر ے ے ہ ے ے ے ، وئ بال، چوڑا سین ہکرن لگی لمب لمب پیچھ الٹ ے ہ ے ے ے ے ۔ ے

وئی آنکھیں، موٹا سا نچال ہسرخ ڈوروں والی جلد، پھرتی وئی قلمیں، سانول رنگ پر ےونٹ، کان کی لو تک کٹی ہ ہ

را نشان، آنکھوں ک نیچ ابھری وئی داڑھی کا گ ےمنڈھی ے ہ ہ ڈیاں اور مضبوط بازودن میں کتنی کتنی مرتب اس ہوئی ہ ہ

ےک بازو اس بھینچت تھ اور ان ک درمیان و بالکل ب ہ ے ے ے ے ے و جاتی تھی اور بعض دفع تو جھنجھال پڑتی تھی مگر ہبس ہ ےاس ک جواب میں اس کا پیار اور بڑھ جاتا تھا اور اس

ےک دونوں گالوں پر و گرم اور نم آلود بوس اور دن میں ہ ے ےکتنی کتنی مرتب اس ک من س شراب کی تیز بدبو تو ہ ے ہ

ےضرور آتی تھی مگر و کیس جوش س اس اپن ے ے ے ہ ۔ ےبازوؤں میں اٹھا لیتا تھا اور پاگلوں کی طرح اس ک

اتھوں، گردن، سین سب پر بوس د ڈالتا تھا اور ، ر ےچ ے ے ہ ے ہ اا می ا ا ا نستا تھا "میری جان ق مار مار کر ےپھر ق ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ

ا "اور و اس کی کیسی ا ا ا ہلی ڈی یرپیاری پیاری ہ ہ ہ ہ داشت کرتا تھا و اس س اپن بازوؤں میں ےنگ ے ہ ۔ ہ

ین میں کیسی ساڑھی الؤ گی، میری "اس م ےپوچھتا ہ ۔ و کیسی یں؟ اس سین پر تو سرخ کھل گی!ک ہجان؟ ے ے ہ

ر میں تو کبھی ن نکلن دیتا ا"اور و اس دو پ ا ا ا ی؟ ےر ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ لوا سپتال س بالیا جاتا تو و ک ہتھا اگر اس ایس وقت ہ ے ہ ے ے

یں اور و اس ک اٹھن س ی ےدیتا ک مس ولیمن سو ر ے ے ہ ہ ہ ہ ل چائ تیار کرا ک اپن آپ اس ک قریب میز پر ال ےپ ے ے ے ے ہ

اں ہرکھتا تھا اور و اس کتن پیار س بھیجتا تھا مگر و ی ہ ے ے ے ہ یں ن جان وتا تو و اس اتن سویر ک اں اں!اگر و ی ےک ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ

یں ن جاتی و تو ایس کواڑ وتا تو و خود ک اں ےدیتا و ی ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ وتا و اس اں ہپیٹ کر جگان وال کا سر توڑ دیتالیکن و ی ہ ہ ہ ے ے

وتی اں کیوں وتا تو و خود ی ۔ک پاس ہ ہ ہ ہ ے

ی ک و اس ک ےلیکن کچھ دوسری شکلیں ابھریں اچھا ہ ہ ہے ہ وئ اور پریشان تھ اور یں اس ک بال الجھ ےپاس ن ے ہ ے ے ہے ہ ا تھا گویا ان کا قیم ونٹ چبا ر ہو اس طرح دانتوں س ہ ہ ے ہ ےکر ک رکھ د گا اور اس ن اس کیسی ب رحمی س ے ے ے ے ے اں "ل اور ل گی بڑی بن کر آئی و ہبید س پیٹا تھا ہے ے ے ۔ ے

"اگر میم صاحب شور سن کر ن آ جاتیں تو ن ہس و ہ ہ ے ےمعلوم و ابھی اور کتنا مارتا ایملی اپن بازوؤں پر نشان ہ ی اچھا کیسی ہدھونڈن لگی ایس ظالم س تو چھٹکار ہ ے ے ے

Page 168: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےخونی آنکھیں اور آخر میں و شراب کتنی پین لگا تھا مگر ہ یں ن جان دیتا مانا ک و وتا تو اس اتن سویر ک ہو ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ ہ

~ تو را تا تھا لیکن ظا لتا ر ہروڈا ک ساتھ رات کو بڑی دیر ٹ ہ ہ ے ا تھا اگر و خود اتنا ی ر ہاس ک ساتھ اس کا برتاؤ ویسا ہ ہ ے ہن بگڑتی اور اس اٹھت بیٹھت طعن ن دیتی تو شاید بات ے ے ے ے ہ نچتی و اس کتن پیار س بھینچتا تھا لیکن و اں تک ن پ ہی ے ے ے ہ ہ ہ ہ و اور وئی، سوکھی جیس لکڑی ڈیاں نکلی ہلمب من پر ے ہ ہ ہ ے نن کا بڑا شوق تھا آپ کو، بڑی میم صاحب بنتی ےفراک پ ہ ہتھیں چار حرف انگریزی ک آ گئ تھ تو زمین پر قدم ن ے ے ے ۔ ن معلوم ایسی کیا چیز لگی ہرکھتی تھی مار شیخی ک ے ے و گیا تھا اس ن خوا ہوئی تھی اس میں جو و ایسا لٹو ے ہ ہ ہ

ےمخوا فکر کی، و خود اس تھک کر چھوڑ دیتا و اس ہ ے ہ ہ ی چلن دیتی تو کیا تھا مگر اس ن کیسی ےتھوڑ دن یون ے ہ ے ی لیا تو کیا اں ایک دفع مار ہب رحمی س اس مارا تھا ہ ہ ے ے ے

وتا تھا اور اس ک ےو گیا و خود بھی شرمند معلوم ہ ہ ہ ۔ ہکاتی تو و شاید ہسامن ن آتا تھا اوراگر ڈینا اس اتنا ن ب ہ ہ ے ہ ے

ےطالق بھی ن لیتی بس و اپنا ذرا مزا لین کو اس ے ہ ۔ ہ یں بول ی ی اچھی دوستی اب و ڈینا س ن ےاکساتی ر ہ ے ہ ہے ہ ہ ہگی اور اگر و مل گی بھی تو و من پھیر کر دوسری ہ ے ہ

ہطرف چل د گی اور جو ڈینا اس س بولی تو و صاف ے ے تی یں بولنا چا ہک د گی ک و دھوکا دین والوں س ن ہ ے ے ہ ہ ے ہہ سپتال س ر ک ےڈینا بگڑ جائ گی تو بگڑا کر اب و ش ہ ے ہ ہ ے۔ ے یں ک بولنا ی آئی، اب کوئی روز کا کام کاج تو ن ہچلی ہ ہے ہ ہی پڑ و اسی طرح ڈینا کی مکاری پر پیچ و تاب کھاتی ے ہ"اجی میم صاحب اٹھو، تی، اگر نصیبن اس ن پکارتی ۔ر ہ ے ہ ڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور چاروں طرف ہسورج نکل آیا " و ہ ۔ ئ تھا مگر پھر بھی پلنگ ےدیکھا اب تو واقعی اس چلنا چا ہ ے ل اس ن کئی مرتب انگڑائیاں لیں ہس نیچ اترن س پ ے ے ہ ے ے ے ے

۔اور تکی پر سر رگڑا ہ

۔و من دھوکر چائ ک انتظار میں پھر بستر پر آ بیٹھی ے ے ہ ہ وئی بولی "و ہنصیبن لکڑیوں کو چول میں ٹھیک کرتی ۔ ہ ہے

اری میم صاحب تو عید کا چاند ی تھیں ک تم ہمنیاین ک ر ہ ہ ہہ ی آؤ ان و یں جھانکتی اجی ہو گئیں کبھی آ ک بھی ن ہ ہ ے ۔ ہ

یں یں تم ہکی طرف میم صاحب کسی دن؛ بڑا یاد کریں ہ !"

Page 169: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی آئ ان کی طرفکیا کر و جا کر میل کچیل ےو ے ہ ے ے ہ ہاں کی عورتوں س و ہپلنگوں پر بیٹھنا پڑتا ٹوٹ ٹاٹ ی ے ہ ے ے ہے۔ یں تو تو قص سنات جاؤ ک اس ؟ بس ان ہکیا باتیں کر ے ے ہ ے

وئی اس کو وا اس کو اتنی تکلیف وا پیدا ۔ک بچ مرا ہ ۔ ہ ہ ہ ے اں تک الئ ایس قص سنان کو ےایسی بیماری تھی و ک ے ے ے ہ ہ ۔ یں اور پھر ی لوگ یں ان ی ن ہاور کوئی بات تو جیس آتی ہ ہ ہ ے وئ کپڑ ل کر سرپر چڑھی یں سڑ ےکتنی بدتمیز ے ے ہ ے ۔ ہ

وئ کتنی اتھ کا پان کھات یں اس ان لوگوں ک ےجاتی ہ ے ہ ے ے ہ ی پڑتا جب و اس س ~ کھانا ےگھن آتی مگر مجبورا ہ ہے ہ ہے یں جیس لک مسکرات جاتی لک یں تو ےباتیں کرتی ہ ے ے ہ ے ہ ہ

وں کن آنکھوں س ایک دوسر کو ی ےاس کا مذاق اڑا ر ے ہ ہ یں گویا و چور اور ان ہےاور سار گھر کو دیکھتی جاتی ہ ہ ے

ی کوئی چیز اڑا د گیی اس س سب ےکی آنکھ بچت ہ ے ہ ے یں؟ کیا و ان کی طرح عورت ہعورتیں جھجکتی کیوں ہ یں ی عورتیں عجیب ب وقوف وا ؟ یا و کوئی یں ۔ن ہ ہ ے ہے ہ ہ ہے ہاں جاتی تو ان ک اشار س اں جب و ان ک ےاور ے ے ہے ہ ے ہ ہ ےجو ان لڑکیاں جلدی جلدی بھاگ کر کمر میں چھپ

یں یں و اندر س جھانک جھانک کر اس دیکھتی ہجاتی ے ے ہ ۔ ہ ٹ جاتی ~ یں اس کی نظر پڑ جائ تو و فورا ہاور اگر ک ہ ے ہ

یں اس نسن کی آواز آتی اور اگر ان ہیں اور اندر س ہے ے ہ ے ہوئی اوپر س ی پڑ جائ تو و بدن چراتی ےک سامن آنا ہ ہ ے ہ ے ے یں جیس اس کی وئ آتی ےنیچ تک خوب دوپٹ تان ہ ے ہ ے ہ ے ےنظر ان میں س کچھ چھٹا ل گی یا اس کی نگا پڑ جان ہ ے ے ہس ان میں کوئی گندگی لگ جائ گیان کی ی حرکت ے ے

یں اور و یں اس پر اعتماد ن ہاس بالکل نا پسند کیا ان ہ ہ ہے۔ ے ی اں ن جانا یں؟ اس س تو ان ک ہاس پر شک کرتی ہ ہ ے ے ہ

ہاچھا بیٹھیں اپنی لڑکیوں کو ل کر اپن گھر میں اور و ے ے ، پیٹ نکال تی، آدھ ننگ ، ناک ب ، مٹی س سن ےگند بچ ے ہ ے ے ے ے یں اور اس ایس غور و جات ےوا، و سامن آ کر کھڑ ے ہ ے ہ ے ے ہ ہوا عجیب و غریب یں جیس و نیا پکڑا ت ہس دیکھت ر ہ ے ہ ے ہ ے ے

ر ہجانور اور جب و ان س بولتی تو و سیدھ با ے ہ ہے ے ہ ہے یں بالکل، جانور بالکل اور ی خوب یں وحشی ہبھاگ جات ہ ہ ے

و جاتی اں جھاڑو شروع ی و نچت ہے۔ ک اس ک پ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہےیں و جاتا ذرا خیال ن ہمار گرد ک سانس لینا مشکل ہے۔ ہ ے ے اں جا کر بیماری یں اور کوئی کیوں ان ک ہتندرستی کا ان ے ہ

ےمول ل اور ان ک مرد، کتنی شرم آتی اس ان ہے ے ے میش ڈیوڑھی میں راست گھیر بیٹھ ےحرکتوں س و ے ہ ہ ہ ہ ے۔

Page 170: اردو ادب کے مشہور افسانے

ٹت یں نچ جائ ن یں اور جب تک و بالکل قریب ن پ ت ےر ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ی اتنی دیر لگا دیت ٹاؤ " اٹھت اٹھت ٹاؤ، حق ے"ار حق ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے وں گ ی ایسی ہیں ک و گھبرا جاتی جان ک کرت ے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ

نچ اں اور جب و اندر پ ہباتیں تاک کھڑی ر و تھوڑی دیر و ہ ہ ہ ہے ہ یں وں کی آواز آتی عجیب بد تمیز ق ہجاتی تو اس ق ہے۔ ہ ہ ے ہے

وتی عورتوں کی و اں کتنی عزت ہانگریزوں ک ۔ ہے ہ ہ ے ت اچھ آدمی تھ ، ب ےبڈھ پادری صاحب جو آیا کرت تھ ے ہ ے ے ے

، ر ایک س کوئی ن کوئی ن بات ضرور کرت تھ ، ےبیچار ے ہ ہ ے ہ ے چان گئ تھ سب مل کر جایا کرت تھ ےبلک اس تو و پ ے ے۔ ے ہ ہ ے ہ اں ہاتوار کو گر جا و خود، ڈینا، کیٹی، میری، شیال اور ہ

ےمرسی مسز جیمس کا کتنا مذاق اڑات تھ سب مل کر ے انپتی اتھ میں لئ ہسب س پیچھ چلتی تھیں، چھتری ے ہ ے ے

ڈیوں کا ڈھانچ تھیں بس اور ی کیا ہوئی اور ان میں تھا ہ ۔ ہ ہوئ تو اور بھی بڑا مزا آتا تھا سب چلت ےگرجا س لوٹت ۔ ے ہ ے ے

نسوڑ ، شیال کس قدر ، مذاق کرت افو نست ، آپس ہتھ ہ ے ے ہ ے نسن پر آتی تھی ےتھی، کیس کیس من بناتی تھی جب ہ ۔ ہ ے ے

اں اب اں و سب باتیں ک ہتو رکن کا نام ن لیتی تھی مگر ی ہ ہ ہ ے یں اور واقعی کیا ی ن تی ہتو جیس و آدمیوں میں ر ہ ہ ہ ے ا ی ک ؟ اول تو اس اتنی فرصت اں وال یں ی ہآدمی ہ ے ے ہ ہ تا اور پھر ایسوں ر وقت پاؤں میں چکر ر ہےملتی ہ ہ ہے۔

؟جیس جانور ن کوئی بات کرن کو، ن ہس کوئی کیا مل ے ہ ے ے ے و ل د ک ر نسن بولن کو، بس آؤ اور پڑ ر ہکوئی ذرا ے ے ے ہ ے ے ہ یں آتی ی ن ہگئی نصیبن، تو اس اس ک سوا کوئی بات ہ ے ے و ہک اس کا بیٹا بھاگ گیا، اس کی اپن میاں س لڑائی ے ے ہ

اں برات بڑی دھوم دھام س آئی اس کیا ےگئی اس ک ی ے ہ ے ۔ وا تو ت ، اس س مطلب یا ب وا کر ، ہان باتوں س ہ ے ے ہ ے

ےاس خوا مخوا ڈراتی ر گی چوروں ک قص سنا سنا ے ہے ہ ہ ے ےکر ایک دفع اس ن سنایا تھا ک ایک دوسر قصب کی ے ہ ے ہ

کا کر ل گئ تھ ے۔مڈ وائف کو کچھ لوگ کیس ب ے ے ہ ے

یں ہاور اس ک ساتھ کیسا سلوک کیا تھابکتی بھال ک ہے ے یں، یں اس ک ساتھ مگر ن وا لیکن اگر ک ہیوں بھی ے ہ ہے ہ وا کر تو لوگ گھر س نکلنا ، جو یوں ےبیکار کا ڈر ے ہ ہے

کا ہچھوڑ دیں بھال دنیا کا کام کیس چل پاگل بڑھیا، ب ہے ے ے ہدیا کسی ن اس مگر ایسی جگ کا کیا اعتبار، ن معلوم ہ ے ے ہے یں اگر و مڈ وائف ن و کوئی ساتھ بھی تو ن و گیا ن ہکیا ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

Page 171: اردو ادب کے مشہور افسانے

تی تھی بلک پاپا ہبنتی تو اچھا تھا اور و تو خود ٹیچر بننا چا ہ ہ ی کسی طرح راضی ن ت تھ مگر ماما ی چا ہبھی ی ہ ے ے ہ ہ

بار سال، کتنا وئ و گئ پاپا کو بھی مر ہوئیں کتن دن ے ہ ے ے ہ ے ہوکتنا وتا جیس کل کی بات ہزمان گزر گیا اور معلوم ے ہے ہ ہ نچان جات تھ ساتھ ےپیار کرت تھ و اس روز سکول پ ے ے ہ ے ہ ے ے

ہکالس میں اس کی سیٹ میز ک پاس تھی اور و ے ، ت اچھ آدمی تھ ب چار ےانگریزی ک ماسٹر صاحب ب ے ے ے ہ ے

ت یں ک ، مگر کبھی کچھ ن ےچا و کام کر ک ن ل جائ ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہے ےتھ اور لڑک تو ن جان اس کیا سمجھت تھ سار ے۔ ے ے ے ہ ے ے

ی لڑکی تھی نا، سب ک سب ےاسکول میں و اکیلی ہ ہ ماسٹر صاحب کی نظریں بچا بچا کر اس کی طرف

ت تھ ار و موٹا کرم چند، بھالو بھی تو اس ہدیکھت ر ہ ے ے ے ہ ے ہکی طرف دیکھتا تھا جیس و بڑا خوبصورت سمجھتی ے اں و عظیم! یاد بھوال تھا بیچارا، سوکھا ۔تھی اس اور ہ ہ ے ہسا زرد، مگر آنکھیں بڑی بڑی تھیں اس کی دیکھتا تو و ۔ تا تھا اس کی طرف، مگر جب کبھی و اس دیکھ ےبھی ر ہ ہ ~ شرما کر نظریں نیچی کر لیتا تھا اور ہلیتی تھی تو و فورا

ہرومال نکال کر من پونچھن لگتا تھا اور اس دن و دل ے ہ نسی تھی اس دن و اتفاق س جلدی آ گئی ےمیں کتنا ہ ۔ ہ ا تھا، جب و ہتھی برآمد میں دوسری طرف س و آ ر ہ ہ ے ہ ۔ و گیا اور گھبرا گھبرا کر ر سرخ ہقریب آیا تو اس کا چ ہ ہ

نچ کر و رک گیا ہچاروں طرف دیکھن لگا اس ک پاس پ ہ ے ۔ ے اتھ ن سا لگا ڈرت ڈرت عظیم ن اس کا ہاور کچھ ک ے ے ے ۔ ے ہ

وا دیکھ ہپکڑ لیا اور پھر جلدی س چھوڑ دیا، اس گھبرایا ے ے ا ت گڑ گڑا کر ک و گیا تھا اور اس ن ب ہکر و خود پریشان ہ ے ہ ہ

"و کتن دن اس بات کو یاد کر ک یں ی گا ن ےتھا "ک ے ہ ۔ ہ ے ہ ۔ و ابھی اسکول ی تھی کتنا سیدھا تھا واقعی و ہنستی ر ہ ہ ہ

تا مگر و زمان تو اب گیا اب تو تی تو کتنا مزا ر ہی میں ر ہ ہ ہ ہیں اں دنیا س الگ پڑی کوئی بات تک کرن کو ن ہو ی ے ہے۔ ے ہ ہ یں "اور جو آیا بھی تو ی "ن ہکسی کا خط بھی جواب و ہ نر میجسٹیز سروس ی لمب بادامی لفاف آن ہبس و ے ے ہ

دایتیں، یوں کرو اوریوں کرو یلتھ آفیسر کی ہڈسٹرکٹ ہ ہکوئی اس کی مان بھی جو و یوں کر خوا مخوا کی ہ ے ہ ے ی دلی س اں س اگر آنٹی ےآفت اور پھر خط آئ بھی ک ہ ے ہ ے ہخط بھیج دیا کریں تو کیا مگر و تو برسوں بھی خبر ہے ر کیا ئ اس دلی اچھا ش یں لیتیں ایک دفع جانا چا ہےن ہ ے ے ہ ہ ہ و یں اور و یں اور سنیما کس کثرت س ہچوڑی سڑکیں ہ ہ ے ہ

Page 172: اردو ادب کے مشہور افسانے

و کائیں، کائیں، کائیں ن اس چونکا دیا ی مگر ۔خیر ے ے ہ ہ ہے ےدھوپ آدھی دیوار تک اتر آئی تھی، کوا زور زور س چیخ

ا تھا اور و بستر پر پیر نیچ لٹکائ لیٹی تھی اس ےر ۔ ے ے ہ ہ ےجلدی جانا تھا اور اس ن ب کار لیٹ لیٹ اتنی دیر لگا ے ے ے ےدی تھی و نصیبن پر اپنا غص اتارن لگی ک اس ن چائ ے ہ ے ہ ہ ۔ ی تھی ک میم یں ال کر رکھی مگر و سمجھ ر ہکیوں ن ہ ہ ہ یں اور واقعی، اس ن خیال کیا اس ی ۔صاحب سو ر ے ہ ہ

ر حال اس ی لیتی تو اچھا تھا ب ہس تو و اتنی دیر سو ۔ ہ ہ ے ا ۔ن نصیبن کو جلدی س چائ الن کو ک ہ ے ے ے ے

ےاس ن دوبار من دھویا اور الٹی سیدھی چائ پین ک بعد ے ے ہ ہ ے ہو کپڑ بدلن چلی ٹرنک کھول کر و سوچن لگی ک ے ہ ۔ ے ے ہ

ن سفید، سرخ کناروں والی مگر کیا ۔کونسی ساڑھی پ ے ہ ی رنگ اور پھر سفید ساڑھی میلی کتنی ہروز روز ایک ار تو بس ایک دن اگل دن وتی اس کی ب ےجلدی ہے۔ ہ ہے۔ ہ ی تھی تینیلی ساڑھی نیچ س چمک ر یں ر ہکام کی ن ے ے ہ ہ ن دیکھ ؟ مگر اس نیلی ساڑھی پ ن ی کیوں ن پ ےاس ہ ے ے ہ ہ ہ ے

و جائیں گ و جدھر س نکلتی ےکر تو لوگ اور بھی باؤل ہ ے ہ ے یں اس بڑی بری ے سب ک سب اس گھورن لگت ۔ ہ ے ے ے ے ہے

وتی ان کی ی عادت اور ان زمینداروں کو ہمعلوم ہے ہ ، یں؟خیر ی تو جو کچھ سو ہےدیکھو، بڑ شریف بنت ہے ہ ہ ے ے یںاور طرح طرح ک نست ےجب و آگ بڑھ جاتی تو و ہ ے ہ ہ ہے ے ہ و یار!""اب مجید ذرا لیجو!"کوئی یں"ک ےآواز کست ہ ہ ے ے ر میں کر ک یںذرا ش ؛ کیا و سمجھتی ن ےکھانسن لگتا ہ ہ ہ ہے ے

اں و کیا یں مگر ی ہدیکھت ایسی باتیں و مزا چکھا دیتی ان ہ ہ ہ ے و جاتی ، مجبور ہے۔کر ہ ے

ی وج س تو اس ن رنگ دار ساڑھیاں چھوڑ دیں ےان کی ے ہ ہ یں مانت اب اگر آج نن لگی، مگر پھر بھی ن ےاور سفید پ ہ ے ہ ن کر جائ گی تو ن معلوم کیا کیا کریں ہو نیلی ساڑھی پ ے ہ ہ ن ل مگر روز روز سفید اور کیا، و ی پ ہگ تو پھر سفید ے ہ ہ ے نسا کریں، کوئی یں تو نست ہکوئی ان س ڈرتی ہ ے ہ ہے۔ ے یں و اس ، بھال کیا بگاڑ سکت ہاس کھا تھوڑی لیں گ ہ ے ے ے نا کر گی دیکھیں و ہکا؟ اب و پھر رنگ دار ساڑھیاں پ ے ہ ہ

وتا نسیں گ تو ضرور مگر اس س یں ہاس کا کیا بنات ے ے ہ ہ ے ن گی ےی کیا آج ضرور نیلی ساڑھی پ ہ ہے !ہ

Page 173: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن کراس ن بال بنان ک لئ آئین سامن ےنیلی ساڑھی پ ہ ے ے ے ے ہ ےرکھا کم خوابی س اس کی آنکھیں الل اور کچھ سوجی ۔

اتھ میں آئین اٹھا کر غور س دیکھن ےوئی سی تھیں و ے ہ ہ ہ ۔ ہا تھا وتا چال جا ر ہلگی مگر ی ا س کا رنگ کیوں خراب ہ ہ

و چلی تھی جب و لڑکی تھی تو ہاور کھال بھی کھردری ۔ ہ ر پر کتنی چمک تھی رنگ سانوال تھا تو کیا، ےاس ک چ ہ ے ا کرتی میش ماما س ک ہچمکدار تو تھا اس کی آنٹی ے ہ ہ

مگر اب" اس ن آئین رکھ یں بیٹی اچھی ملی ہتھیں "تم ے ہے ہ ۔ ےدیا اور اپن جسم کو اوپر س نیچ تک ایسی حسرت ے ے

ےس دیکھن لگی جیس مور اپن پروں کو اس ک بازوؤں ے ے ے ے و گئی اور ہےکا گوشت لٹک آیا اور ٹھوڑی بھی موٹی ہ ہے یں بال بھی سوکھ ساکھ اور ےاتھ اب کتن سخت ے ۔ ہ ے ہی یں ر یں اور تیزی تو اس میں بالکل ن ہے۔لک ر گئ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

ل و کتنا کتنا دوڑتی بھاگتی تھی اور پھر بھی ن تھکتی ہپ ہ ے ہ ی دیر میں اس کی کمر ٹوٹن ےتھی مگر اب تو تھوڑی ہ ۔

ہے۔لگتی

را سانس ہاس ن ایک لمبی سی انگڑائی اور پھر ایک گ ے ر اور پلپل بازوؤں ن نیلی ساڑھی کا ےلیا ب رونق چ ے ے ہ ے ۔ ہرنگ اڑا دیا تھا اس ن بال ایسی ب دلی س بنائ ک ے ے ے ے ۔

ت س تو ادھر ادھر اڑت ر گئ بال بن چک تھ مگر ےب ے ے۔ ہ ے ے ہ ی تھی اوراس کا دماغ سمٹ ہو برابر آئین کو تک جا ر ے ے ہ ی جگ ہکر آنکھوں ک پپوٹوں میں آگیا تھا جن میں ایک ہ ے

ر مرچیں سی لگن لگی تھیں ر ٹھ ۔ٹھ ے ے ہ ے ہ

ےجب اس ن آئین رکھا تو اس میز ک کون پر دیو ار ک ے ے ے ہ ے ےقریب بائبل رکھی نظر آئی ی بچپن میں سالگر ک موقع ہ ہ ۔

ےپر اس ک پاپا ن اس دی تھی مدتوں میں اس ن اس ے ۔ ے ے ے ےکھوال تک ن تھا اور و گرد س اٹی پڑی تھی اس کتاب ن ۔ ے ہ ہ

و ہاس پھر پاپا کی یاد دال دی اور و اس اٹھان پر مجبور ے ے ہ ے ی صفح پر اس کا نام لکھا تھا ی دیکھ کر ل ہگئی پ ۔ ہ ہ ے ہ ۔

نسی آئی ک و اس وقت کیس ٹیڑھ میڑھ ےاس ے ے ہ ہ ہ ے ہحروف بنایا کرتی تھی اس ی بھی یاد آیا ک اس زمان ہ ہ ے ۔ وا ک اب ک را قلم تھا اس کا اراد ےمیں اس ک پاس ہ ہ ہ ۔ ہ ے

را قلم ضرور خرید گی ر جائ گی تو ایک ےجب و ش ہ ے ہ ہ ی کیا اب ۔مگر اس خیال آیا ک و قلم ل کر کر گی ہ ے ے ہ ہ ے

تا ہے۔اس کونسا بڑا لکھنا پڑھنا ر ہ ے

Page 174: اردو ادب کے مشہور افسانے

دایت کیا کرت ےاس ک پاپا اس بائبل پڑھن کی کتنی ہ ے ے ے وئی ہتھ اس اپنی ب پروائی پر شرم سی محسوس ے ے ے۔ ےاور و بائبل ک ورق الٹن لگیپیدائشخروجورق تیزی س ے ے ہ

ہالٹ جان لگ استثنا روت یرمیا حقوقمتی لوقارسولوں ے ے ے اں س پڑھ آدمنوح ےک اعمالک ے ہ ے

یمکشتیصلیبمسیح یسو راجا آئ گرجا کا گھنٹ ہطوفانابرا ے ہ نست مذاق کرت آخر و ، ہسب مل کر گرجا جات تھ ے ے ہ ے ے ےفیصل ن کر سکی ک کون سی جگ س پڑھ اور اس ے ے ہ ہ ہ ہ

یں تھا لیکن اس ن اراد ہجلدی جانا تھا، اتنا وقت بھی ن ے ہ ہکر لیا ک و اب روز صبح کو بائبل پڑھا کر گی ورن کم ے ہ ہ ئ ی لینی چا ےس کم اتوار کو ضرور لیکن دعا تو مانگ ہ ہ ے یں سون ت بری بات ماما کبھی بغیر دعا مانگ ن ےب ہ ے ہے ہ

یں لگتا اور ہدیتی تھیں اور پھر اس میں وقت بھی کچھ ن یں ت ی ر وت ۔لگ بھی تو کیا دنیا ک دھند تو ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ے

ا اور آنکھیں بند کر لیں ہاس ن دماغ کو ساکن بنانا چا ے ل تو اس ےمگر باوجود اس ک آنکھیں پٹ پھٹان س پ ہ ے ے ے کی ماما اس کی آنکھوں میں گھس اور پھر پاپا اور انہک پیچھ پیچھ گرجا کی سڑک، گھنٹ اور سب مل کر ے ے ے

، مذاق کرت نست ے۔گرجا جایا کرت تھ ے ہ ے ے

ےاس ن آنکھیں کھول کر سرکو اس طرح جھٹک دیا گویا ے آخر دماغ ی ہےان سب کو اپنی آنکھوں میں س جھاڑ ر ہ ے

و گیا اور خاموش صرف کانوں اور سر میں ۔بالکل خالی ہ ی تھی اس ن دوبار آنکھیں ہدل ک دھڑکن کی آواز آ ر ے ۔ ہ ے ے راتی چلی اتھ جوڑ لئ او ر دعا کو د ہبند کر لیں دونوں ے ہ ۔ ہےگئی "ا میر باپ تو جو آسمان پر تیرا نام پاک مانا ے ے ۔ ی آئ تیری مرضی جیس آسمان پر ےجائ تیری بادشا ے۔ ہ ے

ماری روز کی روٹی و ی زمین پر وتی ویس ہپوری ۔ ہ ہ ے ہے ہ م مار قصوروں کو معاف کر جیس میں د اور ہآج ے ے ہ ے ہ

یں کیونک قدرت جالل ہبھی اپن قصوروں کو معاف کرت ۔ ہ ے ے ی آمین ہے۔ابد تک تیرا ہ !"

ےآنکھیں کھولن پر اس ن کچھ اطمینان سا محسوس کیا ے ہاور مسکران کی کوشش کرن لگی اس ن پھر آئین میں ے ے ے

ا ک کسی خاص چیز ک لئ دعا مانگ ےجھانکا اور چا ے ے ہ ہ و جائ مگر ر میں ےلیکن کیا چیز؟ کوئی!اس کا تبادل ش ہ ہ ہ

Page 175: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں اس پھر ولیمن کا سامنا کرنا پڑ گا اس س تو ی ہو ے ۔ ے ے ہ انی تھی ک ایک پری تر پھر اور کیا؟ و ایک ک ی ب ہقصب ہ ہ ہے ہ ہ ہ شیں پوری کرن کا وعد کیا ہن ایک آدمی س تین خوا ے ہ ے ے

"تھا پھر آخر کیا؟

ت بازو مل مگر کوئی بات یاد ن آئی اس دیر ےاس ن ب ۔ ہ ے۔ ہ ے شوں کو ی تھی اس لئ اس ن اپنی دعاؤں اور خوا ہو ر ے ے ہ ہ

۔چھوڑ دیا اور چھتری اٹھا کر چل پڑی

نچن کا خیال نچ کر اس پر محض ایک جلدی پ ےسڑک پر پ ہ ہ لی اور سستی ک بعد ےغائب تھا صبح کی اس تمام کا ہ ۔

ی و ر ہاس اعضا کو حرکت دین میں فرحت محسوس ہ ے ے لکی سی گرمی اور چلن س اس ک ےتھی سورج کی ے ے ہ ۔

و گئی تھی اور و سڑک کی نالی ہخون کی حرکت تیز ہ ےریت کنکروں سب س ب پروا اپنا راست ط کرن میں ے ہ ے ے

وئی تھی اگر اس اپنی رفتار میں کبھی کچھ ےلگی ۔ ہ وتی تو و اور قدم بڑھان کی کوشش ےسستی معلوم ہ ہ ے۔کرتی سڑک پر کھیلن وال لڑک ابھی تک ن نکل تھ ے ہ ے ے ے ۔

۔اس لئ اپنی آنکھ ناک کی حفاظت کی ضرورت ن تھی ہ ے ےجب و دیواروں ک سای میں س گزرتی تو اس ک پیر ے ہ ے ہ

ے۔اور بھی تیز اٹھن لگت تھ ے ے

نچ گئی شیخ صفدر علی کا مکان ی بازار میں پ ۔و جلدی ہ ہ ہ و گیا تھا ک ی دور ر گیا تھا اور اطمینان سا ہاب تھوڑی ہ ہ ہ ی تھی ک اس کی نظر وئی و چلی جا ر یں ہزیاد دیر ن ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

ےایک دکاندار پر پڑی و اپن سامن وال کو آنکھ س ے ے ے ہ ۔ ا ا تھا کیا ی اس دیکھ ر ا تھا اور مسکرا ر ہاشار کر ر ے ہ ۔ ہ ہ ہ

وں اور نس ر ل س کسی بات پر ہتھا؟ ممکن و پ ہے ہ ے ے ہ ہ ہے ی تھی ک آواز و گئی تھی و آگ بڑھی ہاس دیر بھی ہ ے ہ ہ ے

وا آج ہےآئی "آج تو آسمان نیال بھئی بڑ دن میں ایسا ہ ے ہے ا پلٹ کر چھتری رسید کر اس بد تمیز ک ے"اس ن چا ے ہ ے

و جائ اور صاف صاف ک د ک و آج و کھڑی ہچا کچھ ے ہہ ے ہ ہ ہ ہے ہو ان لوگوں کی باتیں اچھی طرح سمجھتی اور اب و ہے ہ

اں تک پیر من من بھر یں کر سکتی آخر ک ہزیاد برداشت ن ہ ہ ی تھیں جس س و و گئ تھ اور ٹانگیں تھرتھرا ر ہک ے ہ ے ے ہ ے ےکئی دفع چلت چلت ڈگمگا گئی مگر ان آنکھوں ن جو ے ے ہ

ی تھیں اس ر طرف س اس کی طرف دیکھ ر ےاب ہ ے ہ ۔رکن ن دیا و اپنی ساڑھی میں کچھ سکڑ سی گئی اس ہ ۔ ہ ے

Page 176: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےن پلو اچھی طرح سین پر کھینچ لیا اور سر جھکا کر ے ےقدموں کو سڑک پر س اکھاڑن لگی ے

نچی تو و ڈیوڑھی ہجب و شیخ صفدر علی ک مکان پر پ ہ ے ہ ےمیں کچھ لوگوں ک ساتھ بیٹھ حق پی ر تھ اس ے۔ ہے ہ ے ے ج و گئ اور ایس شکایت آمیز ل ی و کھڑ ےدیکھت ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے اتھ س نکل جان ےمیں جیس اس ن کوئی نایاب موقع ے ہ ے ے مدردی تھی بول ےدیا تھا جس پر شیخ جی کو اس س ہ ے :

ی دیر کر دی تم ن تو" ےاخا میم صاحب! بڑی ہ ہ !"

وئی و زنان کی طرف" تی و گئی "ک اں و ذرا دیر ہجی ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ نچی تو اس ن دیکھا ک قصب ہبڑھی جب و درواز پر پ ہ ے ہ ہ ہ ۔ اتھ ن اتھ پر کپڑ اٹھائ اور دا ہکی پرانی دائی بائیں ے ہ ے ے ہ

وئی "جرا تی ، ی ک ی التی صحن س گزر ر ہمیں لوٹا ہ ہ ہے ہ ے ہ ےدیکھ تو ابھی تک ن نکلی گھرو س حرام جادی ے ہ !

جینی

حمPن) (شفیق الر�

وا نیل وت وقت مجھ کچھ شب از پر سوار ےوائی ج ۔ ہ ہ ے ے ہ ہ ہےلباس وال لڑکی س پوچھا تو اس ن بھی اثبات میں سر ے ے و گیا اور میں از س اتر تو مجھ یقین م ج ہالیا، جب ے ے ے ہ ہ ہ

وئ ج میں انگریزی بولت ےن پائپ پیت آکسفورڈ ل ہ ے ے ہ ے ے م مدتوں ک بعد مل تھ کالج میں ے۔پائیلٹ کو دبوچ لیا ے ے ہ ۔ ی ۔دیر تک اکٹھ ر کچھ عرص تک خط و کتابت بھی ر ہ ے ہے۔ ے و گئ اتن دنوں ک بعد ےپھر ایک دوسر ک لئ معدوم ے ے۔ ہ ے ے ے ی و ر ہاور اتنی دور اچانک مالقات بڑی عجیب سی معلوم ہ

۔تھی

وا ک ی شام کسی اچھی جگ گزاری جائ اور بیت ےط ے ہ ہ ہ ہ ے ےدنوں کی یاد میں جشن منایا جائ میں ن اپنا سفر ایک ے۔

۔روز ک لئ ملتوی کر دیا ے ے

ی تھیں تو میں ن دیکھا ک و کافی حد تک و ر ہجب باتیں ہ ے ہ ہ ےبدل چکا تھا مٹاپ ن اس ک تیکھ خد و خال کو بدل ے ے ے ۔

وں کی و ب ےدیا تھا اس کی آنکھوں کا و تجسس، نگا ہ ہ ہ ۔ و چک تھ و عامیان ین گفتگو سب مفقود ہچینی، و ذ ہ ے۔ ے ہ ہ ہ

Page 177: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتا تھا جیس و اپنی ا تھا یوں معلوم ہسی گفتگو کر ر ے ہ ۔ ہ ےزندگی اور ماحول س اس قدر مطمئن ک اس ن ہ ہے ے م پرانی باتیں ہسوچنا بالکل ترک کر دیا دیر تک ہے۔

ر کو و مجھ ایک اینگلو انڈین لڑکی ک رات ر س پ ےدو ے ہ ہ ہ ہے۔ ے ہ تا تھا لڑکی ن ےاں ل گیا جس و شام کو مدعو کرنا چا ۔ ہ ہ ے ے ہ

م ہبتایا ک شام کا وقت و گرج ک لئ وقف کر چکی ہے۔ ے ے ے ہ ہ ی اں گئ اس ن بھی معذرت چا ہایک اور لڑکی ک ے ے۔ ہ ے

ےکیوں ک اس کی طبیعت نا ساز تھی پھر تیسری ک گھر ۔ ہ ی نچ اگرچ دوسر کمر س خوشبوئیں بھی آ ر ہپ ے ے ے ہ ے۔ ہ

ٹ بھی سنائی د جاتی تھی لیکن ےتھیں اور کبھی کبھار آ ہ تا اں جانا چا یں کھال و ایک اور شناسا لڑکی ک ہدرواز ن ہ ے ہ ۔ ہ ہ یں اور ہتھا لیکن میں ن منع کر دیا تھا ک کوئی ضرورت ن ہ ے

وا تو اچھی طرح باتیں ن کر ہپھر اگر کوئی اور ساتھ ہ ۔سکیں گ واپس آ کر اس ن ٹیلی فون پر کوشش کی ے ے۔ نچ چکی تھی لیکن شام کو اس کی ہچوتھی لڑکی گھر پ

ی تھی اں ل جا ر ۔امی اس نانی جان ک ہ ے ہ ے ے

وٹل میں گئ اں ک سب س بڑ م و وئی تو ے۔شام ہ ے ے ے ہ ہ ہ ۔رقص کا پرو گرام بھی تھا اس ن پینا بھی شروع کر دیا ے ۔ ہمیر لئ بھی انڈیلی اور اصرار کرن لگا ی اس کی ۔ ے ے ے

۔پرانی عادت تھی

ونٹوں س چھوا، کچھ دیر گالس ےمیں ن گالس اٹھا کر ہ ے لتا دریچ تک گیا ایک بڑ س لتا ٹ ا پھر ٹ ےس کھیلتا ر ے ۔ ے ہ ہ ہ ے ہگمل میں انڈیل کر واپس آگیا اس ن دوسری مرتب ے ے

ہانڈیلی مجھ بھی دی میں پھر اٹھا اور اپنا حص کھڑکی ے ر پھینک آیا ۔س با ہ ے

ا تھا کمپنی کی ۔و اپنی روزان زندگی کی باتیں سنا ر ہ ہ ہ ایت طوطا چشم تھیں شراب ک ےلڑکیوں ک متعلق جو ن ۔ ہ ے

ی تھی اپن و تی جا ر نگی ےمتعلق جو دن بدن م ۔ ہ ہ ہ ے۔معاشقوں ک متعلق جو اس ب حد پریشان رکھت تھ ے ے ے ے

تی تھی لیکن و اس ر میں ر ےاس کی بیوی بھی اسی ش ہ ہ ہ ینوں ن ملتا جب کبھی بھول س گھر جاتا تو اتن ےم ے ے ۔ ہ ہ

وا یں سمجھتی ک ایک ہسوال پوچھتی ک عاجز آ جاتا اتنا ن ہ ہ ۔ ہ ہباز کی زندگی کس قدر خطر ناک زندگی اگرچ ی اس ہ ہے۔

۔ن خود منتخب کی تھی ے

Page 178: اردو ادب کے مشہور افسانے

م ن اس لڑکی کو رقص گا ~ ی تھیں ک دفعتا و ر ہی باتیں ے ہ ہ ہ ہ ہ ئ تھا و ونا چا ہمیں دیکھا جس اس وقت گرج میں ۔ ے ہ ہ ے ے

وئی تھی اس ک بعد و لڑکی آ ہایک لڑک ک ساتھ آئی ے ۔ ہ ے ے وا ک چوتھی ہگئی جس کی طبیعت نا ساز تھی پھر معلوم ہ ی اپنی امی یا نانی مار سامن رقص کر ر ہےلڑکی بھی ہ ے ے ہ

وا باز ک ساتھ یں، ایک دوسر ۔جان ک ساتھ ن ے ہ ے ہ ے

میش ہو اپنی قسمت کو کوسن لگا ن جان ی لڑکیاں ہ ہ ے ہ ۔ ے ہ یں آج میش ٹرخا دیتی یں ۔اسی کو کیوں دھوک دیتی ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ا ی اس کی یں چا ہتک کسی لڑکی ن اس دل س ن ۔ ہ ہ ے ے ے

ہزندگی کی سب س بڑی ٹریجڈی و گالس پر گالس ہے۔ ے ا تھا میر حص کی ساری شراب گملوں ےخالی کئ جا ر ے ۔ ہ ے

ی تھی اس حیرت تھی ک ہاور پودوں کو سیراب کر ر ے ۔ ہ ہمجھ جیسا لڑکا جو کالج ک دنوں میں باقاعد سگریٹ ے و گیا ک اتنی پی چکن ک ےبھی ن پیتا تھا اب ایسا شرابی ے ہ ہ ہ

وش میں اس ک خیال میں ایس شخص کو ےبعد بھی ے ہے۔ ہ ۔پالنا قیمتی شراب کا ستیا نا س کرنا تھا

ر چانا مانوس چ روں میں ایک جا نا پ ہپھر ان اجنبی چ ہ ہ ہ ن ایک ےدکھا ئی دیا ی جینی تھی جو رقص کا لباس پ ہ ۔ ہ ۔

م ہادھیڑ عمر ک شخص ک ساتھ ابھی ابھی آئی تھی ۔ ے ے ر کھل وا چ میں دیکھ کر جینی کا مسکراتا ہدونوں اٹھ ہ ہ ہ ے۔

وامیر خاوند س ےگیا و بڑ تپاک س ملی تعارف ے ہ ۔ ے ے ہ ۔ یں اور ی دونوں میر پران دوست ہملئ ے ے ہ ے

اتھ مالت وقت اس ک خاوند کو مبارک باد دیاور ےمیں ن ے ہ ے ا ک و دنیا کا سب س خوش نصیب انسان ہے۔ک ے ہ ہ ہ

و گا ۔میں ن اس غور س دیکھا و چالیس س اوپر کا ہ ے ہ ے ے ے ےاچھا خاصا سیا رنگ، دھندلی تھکی تھکی آنکھیں، ب حد ہ وتا تو ہمعمولی شکل، پست قد اگر و جینی کا خاوند ن ہ ہ ۔ ہ م اس کی طرف دوسری مرتب ن دیکھت لیکن ےشاید ہ ہ ہ

وئی آنکھیں اس ک سوا اور کسی ےجینی کی مسکراتی ہ ی ی ن تھیں و اس کی تعریفیں کر ر ہکی طرف دیکھتی ہ ۔ ہ ہ

ہے۔تھی ک و قریب کی بندرگا کا سب س بڑا بیرسٹر ے ہ ہ ہ ور شخص میں ن جینی ےاس عالق میں سب س مش ہے۔ ہ ے ے ا اس ن آنکھوں آنکھوں اپن خاوند ےکو رقص ک لئ ک ے ۔ ہ ے ے وئ میں ن محسوس کیا ک ہس اجازت لی رقص کرت ے ے ہ ے ۔ ے

Page 179: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےو ب حد مسرور اس قدر مسرور شاید میں ن اس ے ہے۔ ے ہ ر کی چمک دمک یں دیکھا اور اس ک چ ل کبھی ن ےپ ہ ے ہ ے ہ ونٹوں کی و دالویز اور مخمور ی اس ک ہویسی ہ ے ہے۔ ہ ٹ جو اس قدر ٹ جوں کی توں و مسکرا ہمسکرا ہ ہے۔ ہ

ٹ س تشبی دی ور تھی جس مونا لزا کی مسکرا ہمش ے ہ ے ہ ٹ، جس کی م مسکرا ایت پر اسرار اور نا ف ہجاتی تھین ہ ہ ی میش راز ر و سکا جو رائیوں کا کسی کو علم ن ۔گ ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

ا سال س دیکھی تھی ٹ میں ن سال ی مسکرا ۔اور ی ے ہ ے ہ ہ ا جینی ک ٹ س میں مدتوں س شناسا ر ےاس مسکرا ۔ ہ ے ے ہ

ون لگیں کچھ ۔خاوند ک دوست آ گئ اور مقامی باتیں ے ہ ے ے ہدیر ک بعد میں اور میرا دوست اٹھ کر واپس اپنی جگ ے

اں بوتل اس کی منتظر تھی ، ج ۔چل آئ ہ ے ے

یں لیکن ہمیں ن اس س جینی ک متعلق باتیں کرنا چا ے ے ے یں و ان تین لڑکیوں ک لئ ی ن ےاس ن جیس سنا ے ہ ۔ ہ ہ ے ے

ےاداس تھا جو اس دھوک د کر دوسروں ک ساتھ چلی ے ہ ے و ل بھی کئی بار وا، پ یں لی مرتب ایسا ن ہآئیں آج ی پ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔

یں تھیں، پرانی دوست تھیں ہچکا تھا اور ی لڑکیاں اجنبی ن ہ ر جا چکی تھیں اس س بیش قیمت ےاس ک ساتھ با ۔ ہ ے

ر ہتحائف ل چکی تھیں دراصل اب ایسی ٹھوکریں اس ے ۔ ے ار ر جگ و �ا، ی تھیں، ریس، برج، سٹ ہطرف س لگ ر ہ ہ ہ ہ ے P فلم کمپنی کی ایکسٹرا لڑکی جس ک ا تھا ایک ادن ےر ے ۔ ہ ےلئ اس ن سمندر ک کنار مکان لیا، اس چھوڑ کر ے ے ے ے ہکسی بوڑھ سیٹھ ک ساتھ چلی گئی اور میں دزدید ے ے

lاں جینی تھی وفور ا تھا ج وں س اس طرف دیکھ ر ۔نگا ہ ہ ے ہ ا تھا اس کی آنکھیں ر جگمگا ر ۔مسرت س اس کا چ ہ ہ ہ ے

ا ی آنکھیں جو کبھی غمگین اور نم ناک ر ہروشن تھیں و ہ ۔ ۔کرتیں، اب مسرور تھیں رخسار جن پر مدتوں آنسوؤں

یں، اب تاباں تھ و ہکی کی لڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی ر ے۔ ہ د تھی ک دل س اس شدید الم ٹ شا وئی مسکرا ےکھلی ہ ہ ہ ہ

۔کا احساس جا چکا جو جینی کی قسمت بن چکا تھا ہے یں دکھائی دیتی ہاس خوشی میں اب غم کی رمق تک ن

۔تھی

ہلیکن اتنی زائد مسرت کیسی تھی؟ ی انبساط کیسا تھا؟ ٹ ک پیچھ کیا تھا؟ میں ےاور اس پر اسرار مسکرا ے ہ

ت ر کو دیکھ سکتا تھا اس کی روح ب ہصرف اس ک چ ۔ ے ہ ے

Page 180: اردو ادب کے مشہور افسانے

نچ سکتی تھیں کیا یں پ یں ن اں تک میری نگا ۔دور تھی و ہ ہ ہ ہ ۔ اں کوئی عظیم طوفان بپا تھا؟ اذیت کن، کرب ناک ہو

ت کچھ وئ شعلوں کی تپش ن ب ہشدید تالطم؟ یا جلت ے ے ہ ے و چکا تھا؟ برف اں سب کچھ یخ ہبھسم کر دیا تھا؟ یا و ہ

ا تھا؟ اس کا جواب میں ہک تودوں ک سوا کچھ بھی ن ر ہ ے ے ٹ س مانگا ۔ن اس کی مسکرا ے ہ ے

ی اس کی ۔و لگاتار اپن خاوند ک ساتھ رقص کرتی ر ہ ے ے ہ ےآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کئی مرتب و بالکل قریب س ہ ہ ےگزر اس ن میری طرف دیکھا اور مسکرائی پھر ے۔

ٹ پھیلتی چلی گئی اس ن ماضی اور ےجیس و مسکرا ۔ ہ ہ ے ےحال کی حدوں کو محیط کر لیا و سب تصویریں سامن ہ ۔ ن ک تاریک گوشوں میں مدفون تھیں ۔آن لگیں جو ذ ے ہ ے

ل اپن آپ کو یونیورسٹی ک مباحث ےمیں ن برسوں پ ے ے ے ہ ے م ہمیں دیکھا میر ساتھ میرا پرانا دوست رفیق اور ے ۔

ترین مقرر تھا سٹیج پر ۔جماعت جی ب تھا و ان دنوں ب ہ ہ ۔ ی� ۔میش فاتح کی طرح جاتا اور فاتح کی طرح لوٹتا اس کی ہ ہ

وئی تو ایک لڑکی سٹیج پر آئی گھنگھریال ےتقریر ختم ۔ ہ ٹ، مال وئی آنکھیں، لبوں پر محجوب مسکرا ہبال، جھکی ہ

ن ے۔جال انگریزی لباس پ ہ

میں بتایا گیا ک ی نئی ون لگیں، ہال میں سرگوشیاں ہ ہ ے ہ ہیں س آئی اس کا نام کچھ اور لیکن اس ےنئی ک ہے ہے۔ ے ہ

یں شاید اس کی ملیح رنگت اور گھنگھریالی ت ۔لیل ک ہ ے ہ ےے ی، ہپریشان زلفوں کی وج س کچھ دیر و شرماتی ر ہ ے۔ ہ ی ن سکی، پھر ذرا سنبھل کر اس ن جی بی کی ےبول ہ ہ ہتقریر کی مخالفت شروع کی ایس ایس نکت الئی ک ے ے ے ےسب حیران ر گئ جی بی کی تقریر بالکل ب معنی ے۔ ہ

ون لگی ۔معلوم ے ہ

یں پھر ۔جب و سٹیج س اتری تو دیر تک تالیاں بجتی ر ہ ے ہ ال انعام ج بی اور اس لڑکی میں تقسیم وا ک پ ی�معلوم ہ ہ ہ ہکیا جائ گا لیکن جی بی ن ججوں س درخواست کی ک ے ے ے ئ ج بی ک ی حقدار اور اسی کو ملنا چا ےانعام کی و ی� ے۔ ہ ہے ہ یجان پھیل گیا مدتوں ک جوم میں ا گیا ےروی کو سرا ۔ ہ ہ ۔ ہ ے ی تھی، و بھی ایسی ال انعام جیت ر ہبعد ایک لڑکی پ ہ ہ

۔لڑکی جو بالکل نو وارد تھی

Page 181: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےجب لیلیP اسٹیج پر چاندی کا بڑا سا وزنی کپ لین آئی تو یں جھک و گئیں نگا ہاس کی پریشان زلفیں اور پریشان ۔ ہ ہگئیں جب اس س اتنا بڑا کپ ن سنبھاال گیا، تو جی بی ے ۔ ےن لپک کر چوبی حص خود اٹھا لیا لیلیP ن جی بی کو ۔ ہ ے

وں س ایک مرتب دیکھا وئی نگا ۔جھکی ہ ے ہ ہ

وا اس مارا تعارف یوں ڑ لڑکی س ۔اس بھولی بھالی ال ہ ہ ے ہ یرو تھا ۔ک بعد مالقاتوں کا تانتا بندھ گیا جی بی کالج کا ہ ۔ ے

ر دلعزیز کالج میں سب س ےلڑکو ں اور استادوں میں ۔ ہ نس مکھ اور خوش پوشاک بڑ امیر ین، چست، ےذ ۔ ہ ہ

۔والدین کا اکلوتا بیٹا اس کی کار پروفیسروں کی کاروں وتی مجھ اں بھی ادبی تقریب ےس بھی بڑھیا تھی ج ہ ہ ۔ ے

ن پر لیلیP کو بھی مار ک ےاور بی جی کو مدعو کیا جاتا ہ ے ہ ۔ یں تھ اگر اس ےبالیا جاتالیلیP ک خد و خال حسین ن ے۔ ہ ے

یں تھیلیکن ر گز ن ہنقادان طور س دیکھا جاتا تو و حسین ہ ہ ے ہ و ہاگر حسین خد و خال ک بغیر بھی کوئی خوبصورت ے وئی زلفیں، راتی ہسکتا تو و لیلیP تھی اس کی ل ہ ۔ ہ ہے وئ ننھ من وئی شرمیلی آنکھیں، مسکرات ےجھکی ے ے ہ ے ہ

ایت معصوم باتیںسب مل ہونٹ، ملیح چمپئی رنگت اور ن ہےکر نرالی جاذبیت پیدا کر دیت بعض اوقات تو و ب حد ہ ے۔

وتی ۔پیاری معلوم ہ

م ن تی تھی، سب س الگ تھلگ کبھی وسٹل میں ر ےو ہ ۔ ے ہ ہ ہ یں دیکھا اس ک والدین ک ےاس کسی ک ساتھ ن ے ۔ ہ ے ے

یں سنن میں آتیں ان ک ےمتعلق طرح طرح کی افوا ۔ ے ہ ۔خاندان میں انگریزی اور پرتگالی خون کی آمیزش تھی

ندوستان کی تھی اس لئ ن ان کا ہاس کی والد جنوبی ے ۔ ہ ہ ب تھا ن کوئی نسل لیلیP کا نام بھی ۔کوئی خاص مذ ہ ہ

وتا و اپن والدین ےعجیب تھا، اس کا لباس بھی مال جال ہ ہ ور تھا ک ان کی خانگی ہک ذکر س احتراز کرتی ی مش ہ ہ ۔ ے ے یں ایک ت میش جدا ر ایت نا خوشگوار و ہزندگی ن ے ہ ہ ہ ہ ہے۔ ہ

نچ چکا ہے۔دفع ان کا تنازع عدالت تک بھی پ ہ ہ ہ

ی ک دیا ک لیلیP جی بی کی طرف ہپھر کسی ن یون ہہ ہ ے ر جگ اس و گئی تی ی افوا بنی، پھر عام ہدیکھتی ر ہ ۔ ہ ہ ہ ہے۔ ہ

Pون لگ سب ن دیکھا ک لیلی ہنئ معاشق پر تبصر ے ے۔ ے ہ ے ے ے تی و چکا تھا و بی جی کو چا ہے۔ک دل کا راز عیاں ہ ہ ۔ ہ ے

Page 182: اردو ادب کے مشہور افسانے

چان انوں س و اس ملتی جان پ ےطرح طرح ک ب ہ ے ۔ ے ہ ے ہ ے ۔راستوں س ایس گزرتی ک بی جی نظر آ جاتا بی جی ہ ے ے

ہکو دیکھ کر اس دنیا بھر کی نعمتیں مل جاتیں ی نو ۔ ے ہزائید محبت اس کی زندگی میں طرح طرح کی تبدیلیاں

ن لگی ادبی سر گرمیوں میں ۔ل آئی و مسرور ر ے ہ ہ ۔ ے وتا گیا ج درست ۔نمایاں حص لین لگی اس کا اجنبی ل ہ ہ ہ ۔ ے ہ

۔اس کی گفتگو میں مٹھاس آ گئی

وا اس ک لئ ی کوئی یں ہلیکن جی بی کچھ اتنا متاثر ن ے ے ۔ ہ ہ ی مرتب اس محبت خراج ک یں تھی کتنی ےنئی بات ن ے ہ ہ ۔ ہ

۔طور ملی تھی

ےو لیلیP س ملتا، اس ملن ک موقع دیتا، خوب باتیں ے ے ے ہ ہکرتا بڑی شوخ اور چنچل قسم کی گفتگو، جس کا و ۔

۔عادی تھا

وئی لڑکیوں ۔چاندنی رات میں دور ایک باغ میں تقریب ہ یں آیا، مار ساتھ ن ہک ساتھ لیلیP بھی آئی جی بی ے ہ ۔ ے

وا ک و ایک انگریز لڑکی کو ل کر آئ گا جس کا ےمعلوم ے ہ ہ ہ ر بھر میں چرچا تھا جو نوجوانوں کی گفتگو کا ۔ش ہ

۔محبوب ترین موضوع تھی ی اس کی نئی محبوب تھی ہ ہ ۔

نچا، کار س و اکیال اترا و لڑکی اس ہجی بی دیر میں پ ۔ ہ ے ہ ~ یں تھی، و مایوس اور کھویا سا تھا اور فورا ہک ساتھ ن ہ ے تا تھا لیکن اس اجازت ن ملی، و تو ایسی ہواپس جانا چا ہ ے ہ

Pا تھا تو لیلی ہمحفلوں کی جان تھا جب و اپنا غزل سنا ر ہ ۔ ی تھی جیس آئین میں ےاس ایسی نظروں س دیکھ ر ے ہ ے ے و جیس خود اپنی روح کو ی ےخود اپنا عکس دیکھ ر ۔ ہ ہ

و جی بی ن خالف توقع ی ےکسی اور روپ میں دیکھ ر ۔ ہ ہ ، التجا تھی اور ےغم آمیز اشعار سنائ جن میں شکو تھ ے ے یں ا ں ن ستی ک لئ تھ جو و ہو اشعار کسی خاص ہ ے ے ے ہ ہ

۔تھی

ےلیلیP ن کئی مرتب اس س باتیں کرن کی کوشش کی ے ہ ے ا میں ن اس ٹوکا، ایک ےلیکن و بدستور خاموش ر ے ۔ ہ ہ

ی اں تھا ہطرف ل جا کر ڈانٹا بھی لیکن و جیس و و ہ ہ ے ہ ے م دونوں اکیل کھڑ تھ ک لیلیP آ گئی جی بی یں ۔ن ہ ے ے ے ہ ۔ ہ اتھ ا پھر اس کا ی دیکھتا ر ہکچھ دیر اس کی طرف یون ہ ہ وت بنی ہپکڑا اور ایک اونچ سرو ک پیچھ ل گیا و مب ہ ۔ ے ے ے ے

Page 183: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےچپ چاپ چلی گئی جی بی ن اس بازوؤں میں ل کر ے ے ۔ ل بوس س و کانپ اٹھی ان جانی لذت س ےچوم لیا پ ۔ ہ ے ے ے ہ ۔ و کر اس ن آنکھیں بند کر لیں اور جی بی ک ےمغلوب ے ہ

ا ونٹوں س چومتا ر ہسین پر سر لگا دیا و اس پھیک ے ہ ے ے ہ ۔ ے ےایس الفاظ اس ک لبوں س نکلت ر جو لیلیP ک لئ ے ہے ے ے ے ے

یں یں کسی اور ک لئ تھ اس ک بازوؤں میں لیلیP ن ہن ے ے۔ ے ے ہ ےتھی، کوئی اور ب وفا حسین تھی جس ک لئ و ب تاب ہ ے ے ہ ے

۔تھا

ےلیلیP شدتl احساس س آنکھیں بند کئ خاموش کھڑی ے ی، و جی بی اور اس ک بوسوں کی دنیا س دور نکل ےر ے ہ ہ اں اس نچی ج ہگئی و شعر و نغم کی وادیوں میں جا پ ہ ے ہ ۔

اں وئ خوابوں کی تعبیریں آباد تھیں، ج م ہک س ے ہ ے ہ ے و چکی تھیں، ہفضاؤں میں اس کی معصوم امنگیں تحلیل اں صرف رعنائیاں وئ تھ ج اں کیف و خمار چھائ ہج ے ے ہ ے ہ

!تھیں اور محبت پاشیاں

وئی اس کی دنیا ۔اس ک بعد لیلیP کی نئی زندگی شروع ہ ے ل محض تخیل تھا، و ر چیز پر نیا نکھار آگیا جو پ ہمیں ے ہ ہ

ان چ ، خوش الحان طیور چ و گیا غنچ چٹک ےتخلیق ہ ہ ے ے ۔ ہ وائیں بوجھل ہلگ رنگ برنگ پھولوں کی خوشبوؤں ن ے ے۔ ےکر دیں زمین س آسمان تک قوسl قزح ک رنگ مچلن ے ے ۔

ر ش کا خوابید حسن جاگ اٹھا اور اس ک بعد ن ، ہلگ ے ہ ے ہ ے ی اور ن زندگی محض خواب تخیل اور حقیقت کی ہدنیا ر ہ

۔حدوں پر چھا گیا

~ اس ت دیر ک بعد لیلیP اس خواب س چونکی دفعتا ۔ب ے ے ہ وا ک و جی بی ک لئ ےپر اس بھیانک حقیقت کا انکشاف ے ہ ہ ہ یں ہمحض ایک کھلونا تھی جی بی کو اس س محبت ن ے ۔

ےتھی اور و جی بی ک لئ ان متعدد لڑکیوں میں س ایک ے ے ہ ےتھی جو اس کا تعاقب کرتی تھیں اور بغیر کسی صل ک ے

تی تھیں ۔اس چا ہ ے

وئی تو جی بی کتران لگا اس ن ور ت مش ےجب بات ب ۔ ے ہ ہ ہ ۔تقریبوں میں آنا بند کر دیا لیلیP کو دیکھ کر کار تیز کر

۔دیتا اس کی طرف س من پھیر لیتا ہ ے ۔

لی محبت کی شکست پر لیلیP کو یقین ن آیا اس ۔اپنی پ ہ ہ و سکتا م و گمان میں بھی ن تھا ک یوں بھی ہے۔ک و ہ ہ ہ ہ ے

Page 184: اردو ادب کے مشہور افسانے

رائیوں میں چھپا لیا ہاس صدم کو اس ن اپنی روح کی گ ے ے ی و اس س ملن ےلیکن اس کی محبت جوں کی توں ر ے ہ ۔ ہ ان تالش کرتی اس خط لکھتی، تحائف بھیجتی ۔ک ب ے ۔ ے ہ ے

۔ایک روز سب ن لیلیP ک خطوط کو نوٹس بورڈ پر دیکھا ے ے ےی و محبت بھر خطوط تھ جو اس ن جی بی کو ے ے ہ ہ

ت س لڑک ی خطوط دیکھن گئ میں بھی گیا ۔لکھ ب ے ے ہ ے ے ہ ے۔ ےسب ن مز ل ل کر خطوط کو پڑھا، دلچسپ فقر ے ے ے ے

نس بھی ۔نقل کئ خوب ے ہ ے۔

ےبعد میں جب مجھ کچھ خیال آیا تو میں ن جی بی کو ے ئ تھی و یں کرنی چا ر گز ن ا، اس ی حرکت ہبرا بھال ک ۔ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ن لگا ک لیلیP ن اس اس قدر بد نام کر دیا ک اب و ہک ہ ہے ے ے ہ ے ہ ا ہاس ک نام س نفرت کرتا و اس س ملتا ضرور ر ے ہ ہے۔ ے ے ہ لیکن کس علم تھا ک معمولی سا مذاق ایسی شکل ے ہےو جائ گا محض ۔اختیار کر ل گا اور و مفت میں بدنام ے ہ ہ ے ن لگی ےلیلیP کی وج س بقی لڑکیاں اس س دور دور ر ہ ے ہ ے ہ وئی ل بی جی کی طرف س یں ک پ ہیں و سمجھتی ے ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

۔تھی

، م عمر تھ م دونوں ر ا دوست تھا ےجی بی میرا گ ہ ہ ۔ ہ و گیا دیر تک ۔مار خیاالت ایک س تھ میں خاموش ہ ے۔ ے ے ہیں آئی فت کالج میں ن ا لیلیP کئی ۔خطوط کا چرچا ر ہ ے ہ ۔ ہ ا گوشوں میں بیٹھ کر رویا کرتی اس ن کسی س ےتن ے ۔ ہ

ا گیا اس ن خاموشی یں کی جو کچھ اس ک ےشکایت ن ہ ے ۔ ہ ۔س برداشت کیا ے

یلیوں کی منتیں کیں ک اس ےجی بی ن لیلیP کی س ہ ہ ے ےسمجھائیں ک کسی طرح اس دور رکھیں اس ن ان ۔ ے ہ اں لیلیP ک نظر آن کا ےراستوں س گزرنا چھوڑ دیا ج ے ہ ے

وتا اپن کمر کی و کھڑکیاں مقفل کر دیں جو ہاحتمال ے ے ۔ ہ

Pےسڑک کی طرف کھلتی تھیں جن کی طرف س لیلی وئ اس دیکھ لیا کرتی ایک دن مجھ ترس آگیا ۔گزرت ے ۔ ے ے ہ ے

م اتنی لڑکیوں س اں ےمیں جی بی س خوب لڑا ک ج ہ ہ ہ ے اں کبھی کبھی لیلیP س مل لین میں کیا یں و ت ےملت ر ے ہ ہ ے ہ ے

یں معصومیت اور سادگی پسند ن لگا تم ہےحرج و ک ہ ۔ ے ہ ہ ہے۔ یں ڑ لڑکیاں اچھی ن یں مجھ نا پخت اور ال ہمجھ ن ہ ے ۔ ہ ے

وئیں یں خوش ہلگتیں ذرا ذرا سی بات پر آنسو نکل آت ۔ ہ ے ۔

Page 185: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن لگ دنیا کی وئیں تو آنسو ب ے۔تو رون لگیں غمگیں ے ہ ہ ۔ ے ر چیز خود بتانی پڑتی یں یں علم ن ہکسی چیز کا بھی ان ۔ ہ ہ یں مجھ تجرب کار اور کھیلی ہ اور میر پاس اتنا وقت ن ے ہ ے ہے

یں ۔وئی لڑکیاں زیاد پسند ہ ہ ہ

وا ک لیلیP اس س ڈرن ےجی بی ک اس روی کا اثر ی ے ہ ہ ہ ے ے وتا تو یں آمنا سامنا ہلگی و اس دور دور س دیکھتی ک ہ ۔ ے ے ہ ۔

ےو کترا جاتی دوسروں س جی بی ک متعلق پوچھتی ے ۔ ہ ی کئی مرتب میں ن خود اس جی بی ک بار میں ےر ے ے ے ہ ۔ ہ ہباتیں بتائیں اس کی تصویریں بھی دیں جس پر و مجھ ۔ و گیا پھر جی بی کو کچھ عرص ک لئ اپنی ےس خفا ے ے ۔ ہ ے

ےتعلیم چھوڑ دینی پڑی اس ک کچھ رشت دار دوسر ہ ے ۔ ار تھ اسی سلسل میں جی بی ت بڑ تج� ےملک میں ب ے۔ ے ہ ت تھ اور ان ک لئ تعلیم ر بھیجنا چا ےک والد اس با ے ے ے ہ ہ ے ے م دونوں کو ایک دوسر س بچھڑن کا م ن تھی ےاتنی ا ے ے ہ ۔ ہ ہ

م اداس بیٹھ تھ ک میں ن وا ایک شام ت افسوس ےب ہ ے ے ہ ۔ ہ ہ ا اس ن انکار کر ےاس لیلیP س آخری مرتب ملن کو ک ۔ ہ ے ہ ے ے ہدیا جب میں ن پرانی دوستی کا واسط دیا تو و راضی ہ ے ۔

ےو گیا میں ن لیلیP کو بتایا تو اس یقین ن آیا اس ن ۔ ہ ے ے ۔ ہیلیوں س مانگ نا س ترین لباس پ ، اپنا ب ےآنسو خشک کئ ہ ۔ ہ ہ ے

ر ن ان ک مشور س سنگار کیا اپن چ ےکر زیور پ ہ ے ۔ ے ے ے ے۔ ہ ٹ اور دل میں آرزوئیں لئ اپن محبوب س ےپر مسکرا ے ے ہ

وئ تھا بعد میں اس ن ےملن گئی اس رات بی جی پئ ۔ ے ہ ے ۔ ے ےبتایا ک اس ن محض اس مالقات کی وج س پی تھی ہ ے ہ

ے۔تاک و لیلیP س پیار بھری باتیں کر سک ے ہ ہ

میش مسرور ت سی باتیں کیں اس ہاس ن لیلیP س ب ہ ے ۔ ہ ے ے ا جلد لوٹن ک وعد کئ لیلیP کو ایک بار ن کو ک ے۔ر ے ے ے ۔ ہ ے ہ

ےپھر اس فردوسl گمشد کی جھلک دکھا دی جس محبت ہ ل بوس ن تخلیق کیا تھا لیلیP ن اقرار کیا ک و ہک پ ہ ے ۔ ے ے ے ہ ے

۔میش خوش ر گی اور اس کا انتظار کر گی اگر اس ے ہے ہ ہو تو و سزا نچی ہکی وج س جی بی کو کوئی تکلیف پ ہ ہ ے ہ یں دور چلی ہکی طالب اگر جی بی حکم د تو و ک ہ ے ہے۔ وت وقت اس ن ےجائ اگر و چا تو لیلیP مر جائ جدا ے ہ ے۔ ہے ہ ے۔

ہاپنا رومال جی بی کو نشانی ک طور پر دیا ی رومال جی ۔ ے ار پاس محفوظ ن لگا "شاید تم ک ےبی ن مجھ د دیا ہ ے ہ ۔ ے ے ے

Page 186: اردو ادب کے مشہور افسانے

" یں ادھر ادھر پھینک دوں گا ۔ر ورن میں تو اس ک ہ ے ہ ہے ی تھی ایک کون میں ےرومال س بھینی بھینی خوشبو آ ر ۔ ہ ے وا تھا جس لیلیP ن خود ےسرخ دھاگ س ننھا سا دل بنا ے ہ ے ے

۔کاڑھا تھا

وئی ۔جی بی ک چل جان پر لیلیP ذرا بھی غمگین ن ہ ہ ے ے ے ی ی ہاس ک وعدوں کو دل س لگائ انتظار کرتی ر ۔ ہ ے ے ے

وتا گیا ۔انتظار طویل ہ

نیاں لنج منج ر ، ٹ ، پھول مرجھا گئ و کر گر پڑ ہپت زرد ہ ے ے ہ ے ، سوکھ پت اڑن ےگئیں، خزاں آ گئی و ن آیا جھکڑ چل ے ے ے ۔ ہ ہ ۔

ےلگ گرد و غبار ن آسمان پر چھا کر چاندنی اداس کر ے۔ ۔دی تاروں کو ب نور کر دیا وحشتیں پھیل گئیں و ن آیا ہ ہ ۔ ۔ ے ۔

ریالی میں پیلی پیلی سرسوں پھولی، ہکونپلیں پھوٹیں، ، پرندوں ک ےرنگین تتلیاں اڑن لگیں غنچ مسکران لگ ے ے ے ۔ ے ار آ گئی لیکن و ن آیا ۔نغموں س ویران گونج اٹھ ب ہ ہ ہ ے۔ ے ے

وت گئ لمبی لمبی جھڑیاں لگیں سفید بگلوں ۔دن لمب ے۔ ے ہ ے وئی گزر گئیں نیل ےکی قطاریں سیا گھٹاؤں کو چیرتی ۔ ہ ہ

lےبادل آئ اور برس کر چل گئ جھیلوں ک کنار قوس ے ے۔ ے ے لیکن و پھر بھی ن آیا و گئ ۔قزح س رنگیں ہ ہ ے ہ ے

ی کافی دیر ک ت دنوں تک لیلیP کھوئی کھوئی سی ر ےب ۔ ہ ہ ہبعد و سب کچھ سمجھ سکی جب جی بی لوٹا تو و ۔ ہ

یں آیا، اس ک ساتھ اس ےسنبھل چکی تھی جی بی اکیال ن ہ ۔ ہکی بیوی بھی تھی گوری چٹی فرب عورت جو کسی لکھ ۔ ر کسی قسم ک ےپتی کی بیٹی تھی جس کا گول مول چ ہ ہ ۔ ا تھا جس ک دل میں جذبات ک لئ جگ ار س مبر� ہاظ ے ے ے ۔ ے ہ وئی اور ہن تھی جو اس ٹھوس اور مادی دنیا میں پیدا ۔ ہ ےاسی دنیا س تعلق رکھتی تھی ایس اونچ اور امیر ے ۔ ے

و جان پر سب ن جی بی کو مبارکباد ےگھران میں شادی ے ہ ے ۔دی اس کی قسمت پر رشک کیا میں لیلیP کو بھی جانتا ۔ ہتھا اور جی بی کو بھی ی محض اتفاق تھا ک و دونوں اس ہ ہ ۔ ہوقت رقص گا میں تھ جی بی و میرا پرانا دوست تھا ے۔ ہ ا تھا اور لیلیP و ہجو میر ساتھ بیٹھا تھا اور لگا تار پی ر ہ ے

ےجینی تھی جو میر سامن اپن خاوند ک ساتھ رقص کر ے ے ے ی تھی ۔ر ہ

Page 187: اردو ادب کے مشہور افسانے

ے۔لیلیP کو بدستور چھیڑا جاتا طعن دئ جات سب اس کا ے ے ۔ م ن سنا ک و کالج چھوڑ کر گھر ہمذاق اڑات ایک روز ہ ے ہ ے۔ ہچلی گئی کچھ دنوں تک اس کا انتظار کیا گیا لیکن و ۔

ست اس کی باتیں بھی بھولتی گئیں ست آ ۔واپس ن آئی آ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ و گئی ۔کچھ عرص ک بعد لیلیP کا ذکر ایک پرانی بات ہ ے ہ

وئی اب یں س آ کر کالج میں دوبار داخل ۔ایک روز و ک ہ ہ ے ہ ہ یں بلک شوخ و ب وئی لیلیP ن می ےو شرماتی، لجاتی، س ہ ہ ہ ہ ہ ےباک جین تھی ی نیا نام اس ن خود اپن عیسائی نام س ے ے ہ ۔ ی�

ی ایک عیسائی کنب ک ساتھ ےچنا تھا و کالج ک قریب ے ہ ے ہ ۔ یں اٹھائ ، نگا تی تھی صبح صبح جب گردن اونچی کئ ےر ہ ے ۔ ہ ر وقت اس ہسائیکل پر آتی تو لڑک ٹھٹھک کر ر جات ے۔ ہ ے

وتی ٹ ایت ب باک مسکرا ۔ک لبوں پر ن ہ ہ ے ہ ے

ی ڈراما تو و ہیونین کا جلس تو جینی تقریر کر ر ہے ہے۔ ہ ہے ہ ےضرور حص ل گی مباحث تو جینی اچھ اچھوں کی ہے ہ ۔ ے ہ ےدھجیاں اڑا د گی اس کی دلیری اور صاف گوئی س ۔ ے

ا جان لگا اور ےلوگ ڈرت تھ جینی کی ب باکی کو سرا ہ ے ے۔ ے وں س دیکھن لگ تھ ے۔سب اس عزت کی نگا ے ے ے ہ ے

۔ڈ یونین کا صدر تھا، و دبال پتال سا بنگالی لڑکا تھا اس ہ یے ےمیں صرف ی خوبی تھی ک و کئی سال س یونین کا ہ ہ ہ

وئی جب و چان تب س ہصدر تھا میری اس کی جان پ ہ ے ہ ۔ ہوسٹل میں میرا پڑوسی بنا اس کی شاعران باتیں، اس ۔ ہ، اس کا حساس پنا، وائلن پر غمناک ےک انوکھ نظری ے ے وئ لیکن مجموعی ےنغم ی سب مجھ اچھ معلوم ہ ے ے ہ ے۔

یں کیا ۔طور پر بطور انسان ک میں ن اس کبھی پسند ن ہ ے ے ے یں آئی ۔ویس اس میں کوئی نمایاں عیب یا خامی نظر ن ہ ے ، اس کی آنکھوں کی مجرمان ہشاید ی اس کا اجڑا سا حلی ہ ہ میش ار تھا جو مجھ ر کا فاق زد اظ ہبناوٹ، اس ک چ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے

۔اس س دور رکھتا ے

مرا ل جاتا اس طرح ۔کبھی کبھی شام کو اس بھی ے ہ ہ ے وئی ۔اس کی جینی س مالقات ہ ے

~ ڈ کی سب س بڑی خوبی اس کا انکسار تھا اس ےغالبا ۔ ے ے تا بعض اوقات تو و میش احساس ر ہاپنی کمزوریوں کا ۔ ہ ہ ہ ۔اس قدر کسر نفسی س کام لیتا ک ترس آن لگتا یوں ے ہ ے وتا جیس و رحم کا طالب شروع شروع میں ہے۔معلوم ہ ے ہ

Page 188: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی دیکھت ی ادا بھا گئی دیکھ ےشاید جینی کو اس کی ی ہ ے ۔ ہ ۔و جینی میں ضرورت س زیاد دلچسپی لین لگا پھر ے ہ ے ہ

وتی گئی جب و ہجیس جینی بھی اس کی جانب ملتفت ۔ ہ ے یں جینی ک ےوائلن پر درد بھر نغم سناتا تو اس کی نگا ہ ے ے وتی ایت مختصر ر پر جم جاتیں نغم کی پرواز ن ۔چ ہ ہ ے ۔ ے ہ

ےڈ کی انگلیوں س ل کر جینی ک دل تک ے ے ے !

اتھ میں لئ بحث میں ےجب و دونوں فلسف کی کتابیں ہ ے ہ ، آنکھوں آنکھوں میں ک جات ک ب وت تو اکثر ب ےمصروف ہ ہ ے ہ

ون لگتی ۔کچھ اور گفتگو ے ہ

ےان دونوں کی دوستی اشاروں اورکنایوں کی حدود س نچ چکی تھی جینی کو ۔نکل کر کھلم کھال مالقاتوں تک پ ہ

و چال تھا و بنگالی زبان سیکھ ہبنگالی موسیقی س لگاؤ ۔ ہ ے ی تھی جب و بالوں میں پھول لگا کر ساڑی کو ایک ہر ۔ ہ

ن کرنکلتی تو بالکل بنگالی لڑکی معلوم ہخاص وضع س پ ے ےوتی کالج کی کئی لڑکیاں اس دیکھ کر بالوں میں پھول ۔ ہ

۔لگان لگیں ے

و رسل شروع ر س ری ، دوپ م ڈراما کر ر تھ ہان دنوں ہ ے ہ ے ہے ہ ےجاتی شام بھی اکٹھ گزرتی اکثر میں اس گھر چھوڑن ے ۔ ے ۔

وتی کسی روز تو ۔جاتا اس ک کمر کی زیبائش خوب ہ ے ے ۔ را یں جنگل دیواروں پر گ وتا جیس کمر ن ہیوں معلوم ہے۔ ہ ہ ے ہ ہےسبز وال پیپر چسپاں جس پر درخت اور گھنی جھاڑیاں

یں گلدانوں میں لمبی لمبی گھاس اور بڑ وئی ےبنی ۔ ہ ہ وئ یں فرش پر بچھ یں سبز قمقم روشن ےبڑ پت ہ ے ۔ ہ ے ۔ ہ ے ے

وئی تصویریں، ہقالینوں ک نقش و نگار، دیوار س ٹنگی ے ے وئ پود یوں ، گملوں میں رکھ ے۔سبزی مائل پرد ے ہ ے ے

و وتا جیس درندوں کی ی تصویریں ابھی متحرک ہمعلوم ہ ے ہ وتا دیواریں، پرد ےجائیں گیپھر کسی روز سب کچھ زرد ۔ ہ ےغالف، قالین، قمقموں ک شیڈ، گلدانوں میں صحرائی وتیں انگیٹھی ک سامن ریت ک نیاں ےپھول اور خشک ٹ ے ے ۔ ہ ہ

نچ جات یں پ یں ک ک ے۔چھوٹ چھوٹ ڈھیر خیاالت ک ہ ہ ے ہ ۔ ے ے ۔تصور میں لق و دق صحرا کا نظار پھرن لگتا تاروں کی ے ہ

۔چھت تل حدی خوانوں کا نغم گونجن لگتا ے ہ ے

ےپھر کسی روز برف باری ک نظار آنکھوں ک سامن آ ے ے ے ی آرائش طوفان زد سمندر کی ہجات اور کبھی کبھی ی ہ ے۔

Page 189: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا ک تند ریں وئی چنگھاڑتی ل ےیاد دال دیتی جھاگ اڑاتی ہ ۔ ہ ہ ۔ وا ہو تیز تھپیڑ اور آندھیوں میں پت کی طرح کانپتا ے ے

ہسفین !

ےاس ک کمر میں کبھی ایک جیسا گلدست میں ن دو ہ ے ے یں شوخ یں دیکھا گلدان میں بڑ بڑ پھول بھی ۔مرتب ن ہ ے ے ۔ ہ ہ

یں لیکن سب س نمایاں صرف ننھی منی ےپھول بھی ہ یں باقی سب رنگ آپس میں گھل مل ک کھو گئ ےکلیاں ے ۔ ہ یں، یں جا چھپ ، کلیاں، پھول سب ک ہیں کبھی غنچ ے ہ ے ۔ ہ

یں اس ک ےصرف خوشنما وضع ک پت سامن آ گئ ۔ ہ ے ے ے ے وتی وئ گلدستوں کو دیکھ کر مجھ حیرت ہترتیب دئ ے ے ہ ے یں ہک ایس حسین و جمیل پھول بھی آسمان تل کھلت ے ے ے ہ

یں چانتی تک ن یں گلشن میں نگا پ ۔جن ہ ہ ہ ہ

وا ک وئی ط ہایک پروفیسر ک تبادل پر باغ میں پارٹی ہ ے ۔ ہ ے ے یں شام کو بار دری میں چھوٹا سا ڈرام بھی کیا جائ ے۔و ہ ہ ہ

۔جینی کو المی پارٹ مال و دن اس ن اکیل گزارا کسی ے ے ہ ۔ ہ ی لیمپوں کی روشنی یں کی دن بھر اداس ر ۔س بات ن ہ ۔ ہ ے

وا جینی ن اپنا گانا بالکل آخر میں ےمیں ڈراما شروع ۔ ہ ےرکھا لیمپ بجھا دئ گئ سب ن دیکھا ک درختوں ک ہ ے ے۔ ے ۔

ی ا تھا و ایک بنگالی نظم گا ر و ر ہجھنڈ س چاند طلوع ہ ۔ ہ ہ ے ۔تھی جس میں چودھویں ک چاند کو مخاطب کیا گیا تھا ے

ا تھا و سادا سا گیت اور وائلن کا ہڈ وائلن بجا ر ۔ ہ ے وئی جال کا جزو وا نغم چاند س نئی نئی اتری ہتھرتھراتا ے ہ ہ وا اس کی ون لگ پھر جینی کا رقص شروع ۔معلوم ہ ے۔ ے ہ ےانگلیوں کی جنبش جسم ک لوچ اور گھنگرو کی تال پر ےچاند تار ناچن لگ پھر جیس مندروں میں گھنٹیاں ے۔ ے ے ، کنول ک پھول ےبجن لگیں، دیوداسیاں سنگار کئ کئ ے ے ے ے۔تھام آ گئیں پجاریوں ک سر جھک گئ فضاؤں میں ے ۔ ے

ےتقدس برسن لگا پھر جیس چراغوں س دھواں اٹھا اور ے ۔ ے و گیا ۔دھند بن کر چھا گیا سب کچھ آنکھوں س اوجھل ہ ے ۔ ۔صرف جینی ر گئی اور اس کا محبوب، پجاری اور دیوتا ہ

وا ساز یں ۔ی غنائی باغ کی اس چاندنی رات میں ختم ن ہ ہ ہ ہ نگ ر ڈ ن ان پیار بھر جذبات کا م آ ےاور ل دیر تک ے ے ہے۔ ہ ہ ے

یں و دیر س چھپائ بیٹھا تھا اس ن ار کر دیا جن ےاظ ۔ ے ے ہ ہ ہ اک مرت دم ےاپن ب پایاں محبت کا یقین دالیا ی بھی ک ہ ہ ہ ۔ ے ے

Page 190: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔تک و جینی س اسی شدت ک ساتھ محبت کرتا ر گا ہے ے ے ہ ہے۔اور ی ک اس ن اپن والدین کو سب کچھ لکھ دیا ے ے ہ ہ

۔عنقریب اس کی والد آئیں گی اور جینی س ملیں گی ے ہ ار د گا جس را ےپھر و جینی کو رسم ک مطابق سن ہ ہ ے ہ و گا ان دونوں کو وا ۔میں دل کی شکل کا الکٹ پرویا ہ ہ ت بڑی قوت ن آپس میں مال دیا آرٹ ن و ہایک ب ے۔ ہے۔ ے ہ

یں آرٹ جاوداں و جات یں انسان فنا ۔دونوں آرٹسٹ ہ ے ہ ۔ ہ ہے۔

وا ک ہپھر میں ن جینی ک کمر میں ساز دیکھ معلوم ہ ے۔ ے ے ے ی مغربی موسیقی ندوستانی موسیقی سیکھ ر ہے۔و ہ ہ ہ

چان نغم ےس و شناسا تھی میں ن اس جان پ ے ہ ے ے ے ۔ ہ ے ۔گنگنات سنا تھا پیانو پر اس کی انگلیاں خوب چلتی کئی ۔ ے ا اور وا ک ریڈیو پر آرکسٹرا سمفنی بجا ر ہےمرتب یوں ہ ہ ہ ہ

یں ی ک سمفنی ایک نغم ن ہجینی مجھ سمجھا ر ہ ہ ہے ہ ے ےمختلف نغموں کا مرکب ایس نغم جو مختلف ے ہے۔ یں اور ی کیفیتیں بغیر کسی ر کرت ہکیفیتوں کو ظا ہ ے ہ

یں رنج و مسرت، انبساط و حسرت ۔تسلسل ک آتی ہ ے ماری ، امید و بیم، اعترافl غم ہآشامیاں، شک، وسوس ۔ ے وتی اسی یں ۔مسرتیں کبھی زنج کی آمیزش س خالی ن ہ ہ ے

جت کی کرنوں س ےطرح غم کی گھٹائیں بھی اکثر ب ہ یں انسان ک دل میں کوئی جذب مکمل ہجگمگا اٹھتی ے ۔ ہ

یں تبھی تی وتا ی کیفیتیں بدلتی ر یں ۔اور دیرپا ن ہ ہ ہ ۔ ہ ہ یں اور کئی کئی گتیں ہسمفنی میں اتن اتار چڑھاؤ آت ے ے

یں ۔ساتھ ساتھ چلتی ہ

ندوستانی راگ راگنیوں ک کچھ ریکارڈ دئ ےمیں ن اس ے ہ ے ے ایت یں اس ن بڑ شوق س سنا اس ی نغم ن ہجن ے ہ ے ۔ ے ے ے ہ

وا ک ی سب وئ اس ی بھی محسوس ہدلکش معلوم ہ ہ ہ ے ے۔ ہ یں ر کرت ۔راگ مختلف جذبوں اور کیفیتوں کو ظا ہ ے ہ

ال ت بڑا ہمیں ن دربار ی کی تشریح کی ک جیس ایک ب ہ ے ہ ے یں، ہ سامن تخت پر بادشا بیٹھا قندیلیں روشن ہے۔ ہ ے ہے۔یں دور دور تک امراء اور وزراء بیٹھ ےفانوس جگمگا ر ۔ ہ ہے ول خاموشی طاری موسیقار کو بالیا جاتا �ر ہے۔یں پ ہے۔ ہ ۔ ہ

و ہایس ماحول میں شوخ موسیقی ب ادبی میں شمار ے ے لکی پھلکی یں ہگی غمگین موسیقی بھی موزوں ن ۔ ہ ۔

ر ہچیزوں س موسیقار گریز کر گا کیونک و اپن جو ے ہ ہ ے ے

Page 191: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر و جو ہدکھانا چا ہے۔ ہ ےچیز چن گا و درباری اسی طرح اور راگ راگنیوں ک ہے۔ ہ ے

۔متعلق بھی بتایا

ی پھر ایک روز اس ن مجھ چند ےجینی سنتی ر ے ۔ ہ ےتصویریں دکھائیں جو اس ن خود بنائی تھیں اس ۔ ے

ہمصوری کا شوق ضرور تھا لیکن معمولی سا ی اس کی ۔ نی تاثرات لی کوشش تھی ان تصویروں میں اس ن ذ ہپ ے ۔ ہ

ہبرش ک ذریع کاغذ پر منتقل کئ تھ و تاثرات جو ے ے ے ے ےمختلف راگنیاں سن کر اس ن محسوس کئ ی نغم ہ ے۔ ے

ندوستانی موسیقی اس یں سن تھ ل کبھی ن ہاس ن پ ے۔ ے ہ ے ہ ے l۔ک لئ بالکل نئی چیز تھی جوگیا کی تصویر میں تا حد ے ے ، چھوٹ چھوٹ وئ تھ ےافق ننھ من خود رو پھول کھل ے ے ے ہ ے ے ے

ےرنگ برنگ پھول جن میں کلیاں بھی شامل تھیں اور ادھ وئ غنچ بھی پتیوں پر شبنم ک قطر چمک ر lھل ہےک ے ے ۔ ے ے ہ ے ےتھ پس منظر دور افق ک پر برفانی چوٹیاں تھیں، ے ے۔

وئی چوٹیاں، جن س ےاونچی اونچی برف س لدی ہ ے ، شبنم ک ےنورانی شعاعیں منعکس تھیں پودوں ک سائ ے ے ۔ ےچمکیل قطر اور جگمگاتی چوٹیاں سب اس امر ک ۔ ے ے

د تھ ک سورج ابھی ابھی نکال اور سار نظار پر ےشا ے ہے ہ ے ہ لکی نوزائید لکی وئی تھی ہایک اداس سی دھند پھیلی ہ ہ ۔ ہ

ےدھند جس ن فضا میں رنگ و بو ک اس طوفان ک ے ے ۔باوجود ایک غمگین تاثر پیدا کر دیا تھا

ی�دوسری تصویر مالکو کی تھی، اس میں سمندر کی وئ دکھایا تھا روں کو پیانو ک پردوں س کھیلت ےل ہ ے ے ے ہ ی تھیں روں پر تیر ر ۔سفیداور سیا پردوں کی لڑیاں ن ہ ہ ہ

ر آتی تو سار پردوں کو ےکبھی کبھی ایک اونچی سی ل ہ ۔ایک سخت بلندیوں پر ل جاتی راگ کی روانی اور زیر ے

ر کیا گیا تھا روں ک کھیل س ظا ۔وبم کو ل ہ ے ے ہ

ی�چھایا ن کی تصویر منظوم موسیقی کی تصویر تھی جس وئ شوخ نغم مرتعش تھ چنچل ے۔میں مچلت ے ے ہ ے

ر جبنش میں بال ی تھیں ہرقاصائیں گھنگھرو باندھ ناچ ر ۔ ہ ے ۔کا لوچ تھا، مخمور کر دین والی مستی تھی ے

ی لیکن میں ن ان تصویروں کو ےجینی انکار کرتی ر ہ م نمائش میں تھ کسی ے۔نمائش میں رکھوا دیا ایک روز ہ ۔

Page 192: اردو ادب کے مشہور افسانے

جوم اکٹھا ی جینی کا نام ل لیا چند لمحوں میں ہن یون ۔ ے ہ ے ےو گیا ی سب جینی ک مداح تھ جو اس کی تعریفیں ے ہ ہوتی جا ور وا ک جینی مش ہکرن لگ اس روز معلوم ہ ہ ہ ے۔ ے

و ر تھ ی اکھاڑ ک گرد لوگ اکھٹ ی قریب ے۔ر ے ہ ے ے ے ہ ہے۔ ہ ی لوان کی کشتی تھی سان یا کچھ ایسا ہایک چینی پ ی� ۔ ہ

جوم ہنام تھا لوگ دور دور س اس دیکھن آئ تھ اس ے ے۔ ے ے ے ے ا و ر ر دلعزیز ثابت اں و اس قدر ہن گھیر رکھا تھا ج ہ ہ ہ ہ ۔ ے لوان تھا کوئی اں اس ک حریف کو جو مقامی پ ہتھا و ے ہ

وئی اور غل مچ گیا کچھ ی ن تھا کشتی شروع ۔پوچھتا ہ ۔ ہ ہ لوان ن سانگ ~ مقامی پ ا پھر دفعتا ےدیر برابر کا مقابل ر ہ ۔ ہ ہ اتھوں س پکڑ کر سر س اونچا اٹھا لیا اور ےکو دونوں ے ہ

جوم ن اسی و گیا وش ےزمین پر س مارا سانگ ب ہ ۔ ہ ہ ے ۔ ے ا تھا اس پر آواز کسن شروع ےجو اس کی تعریفیں کر ر ے ہ

ار اور کاغذوں ک ٹکڑ پھینک کر ےکر دئ اس پر اشت ے ہ ے۔ ا چھوڑ دیا سانگ ایک بنچ پر اکیال بیٹھا تھا ۔اکھاڑ میں تن ہ ے وئی گئی اور اس س باتیں کرن لگی ۔جینی مسکراتی ے ے ہ

ےاس پسین پونچھن ک لئ اپنا چھوٹا سا معطر رومال دیا ے ے ہ ے ۔جس اس ن شکری ک ساتھ ل لیا جینی کی پیاری ے ے ے ے ے

ٹ اور دلکش باتوں ن اس مو لیا ۔مسکرا ہ ے ے ہ

ہان باتوں میں ایسی حالوت تھی ک سانگ کو اپنی زبوں م ن اکٹھ گزاری ا ساری شام ۔حالت کا احساس ن ر ے ے ہ ۔ ہ ہ

ونٹ لرز ر تھ اور وا تو اس ک ےجب و رخصت ہے ہ ے ہ ہ وسٹل ہآنکھوں میں آنسو تھ ڈ ک والدین آ گئ اور و ہ ے ے ے ے۔ ۔س چال گیا اس کی کی والد ن جینی کو دیکھا جینی کو ے ہ ۔ ے

و گیا ت جلد ختم ۔ان ک گھر بالیا گیا لیکن ی آنا جانا ب ہ ہ ہ ے ےایک روز ڈ جینی س مال اور جی بی ک متعلق پوچھن ے ے ے

انی سنا د ی ہلگا جینی ن شروع س اخیر تک ساری ک ے ے ۔ ےسب کچھ بتا دیا ڈ اس پر برس پڑا ی باتیں اس س ہ ے ۔

یں بتایا گیا ل کیوں ن ۔پوشید کیوں رکھی گئیں اس پ ہ ے ہ ے ۔ ہ وں گ اب ےجی بی ک عالو اور بھی ن جان کتن عاشق ہ ے ے ہ ہ ے

ہے۔اس کیوں کر یقین آ سکتا ک جینی کی محبت صادق ہ ہے ے ~ ۔ی تو محض ڈھونگ تھا کھیل تھا اب اس کھیل کو فورا ۔ ہ

ئ و جانا چا ے۔ختم ہ ہ

ہمیں ن سنا تو ڈ کو سمجھایا ک جن دنوں و جی بی ہ ے ے ےس مال کرتی تھی، ڈ بنگال س آیا بھی ن تھا بھال و ڈ ہ ۔ ہ ے ے ے

Page 193: اردو ادب کے مشہور افسانے

و سکتی تھی اور و بھی بال ہپر اتنی دور کیوں کر عاشق ہ ہدیکھ اور سن اور پھر و خود جینی ک عالو کئی ے ہ ے ے

۔لڑکیوں س محبت جتا چکا تھا جینی جانتی تھی پھر بھی ے یں مانا اس ک خیال ےاس ن باز پرس ن کی لیکن ڈ ن ۔ ہ ے ہ ے ر مرد کا فطری حق ک خود دنیا بھرکی لڑکیوں ہمیں ہے ہ

، لیکن محبوب س ی توقع رکھ ک و لیں کرتا پھر ہس چ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ہےزندگی بھر صرف اسی کو چا گی اس کی منتظر ر ۔ ہے

و جائ گا ک فالں مرد آج ام ی س اس ال ہگی بچپن ے ہ ہ ے ے ہ ۔ و گا رجائی ن آئ گا جو خود ہس اتن سال بعد اس چا ہ ے ے ہ ے ے ے ل لڑکی کی گذشت زندگی کو اچھی طرح ن س پ ہاور چا ے ہ ے ے ہ

۔کرید کر اپنی تسلی کر ل گا ے

ےجینی ن اس و سار وعد یاد دالئ جو اس ن ے ے ے ہ ے ے ہقسمیں کھا کھا کر کئ تھ و محبت بھری باتیں یاد ے۔ ے

رائی گئی تھیں و خواب بتائ جو زاروں بار د ےدالئیں جو ہ ۔ ہ ہ وا ۔دونوں ن اکٹھ دیکھ تھ لیکن اس پر کوئی اثر ن ہ ہ ے ے ے ے ان کی تالش میں تھا دیکھت دیکھت ےو تو جیس کسی ب ے ۔ ے ہ ے ہ

ہجینی میں ب شمار نقص نکل آئ ن اس کا کوئی خاندان ے۔ ے ب سوسائٹی میں اس ک لئ کوئی جگ ن تھی ۔تھا ن مذ ہ ہ ے ے ۔ ہ ہ

ےاس ک خون میں آمیزش تھی اس کی تربیت ایس ۔ ے میش وئی جن کی زندگی ہوالدین ک زیرl سای ہ ہ ہ ے

ی جن میں سب س بڑا عیب ی تھا ک و ہناخوشگوار ر ہ ہ ے ۔ ہ ےغریب بھی تھ اور پھر جینی کچھ اتنی خوبصورت بھی

تر لڑکیاں ڈ کو مل یں حسین اور ب یں تھی اس س ک ےن ہ ہ ے ۔ ہ ےسکتی تھیں ایک حسین لڑکی تو ڈ کی والد ن ڈھونڈ ہ ے ۔ ادر تھ اور لڑکی ک ےبھی لی تھی لڑکی ک والد رائ ب ے ہ ے ے ۔ وں ن ڈ کو ےساتھ الکھوں کی جائیداد د ر تھ ان ے ہ ے۔ ہے ے

۔انگلستان بھیجن کا وعد بھی کیا تھا ہ ے

وئی میر نام دعوتی رقع آیا ۔شادی کی تاریخ مقرر ہ ے ۔ ہ ا جب جینی ک نام رقع بھیجا گیا تو ہمیں خاموش ر ے ۔ ہ ت غص آیا طیش میں آ کر میں ن کئی منصوب ےمجھ ب ے ۔ ہ ہ ے

ڈی پسلی ایک کر ال منصوب ڈ کی ہباندھ سب س پ ے ہ ہ ے ے۔ ن پر میں ن اراد ترک کر ہدین کا تھا لیکن جینی ک ک ے ے ہ ے ے

۔دیا

Page 194: اردو ادب کے مشہور افسانے

م دونوں گئ جینی شادی کا تحف ل کر گئی ۔شادی پر ے ہ ے۔ ہ ےسب ک سامن ی تحف کھوال گیا ڈ کی بیوی ک لئ ے ے ۔ ہ ہ ے ے

وا تھا ار تھاجس میں دل کی شکل کا الکٹ پر ویا را ۔سن ہ ہ ہ ین جینی ن کالج چھوڑ دیا اور گھر چلی گئی ۔اگل م ے ے ہ ے

وا معلوم ۔ایک پارٹی میں میرا تعارف ڈ کی بیوی س ہ ے ے ہوا ک اس دنیا میں اگر کسی چیز س نفرت تھی تو و ے ے ہ ہر ہآرٹ س ی سار مصور، موسیقار، شاعر اس ز ے ے ہ ے۔ ےدکھائی دیت تھ اور سب س زیاد چڑ اس ان امیر ہ ے ے ے

ےلوگوں س تھی جو اس قسم کی فضولیات میں پڑ کر ےاپنا وقت ضائع کرت تھ بھال ستار یا وائلن سیکھن کی ے۔ ے ےکیا ضرورت جب صبح س شام تک ریڈیو پر ساز بجت ے ہے

، جب بازار میں یں مصوری سیکھن میں کیا تک ت ہےر ے ۔ ہ ے ہ یں اگر ۔ر قسم کی تصویریں آسانی س مل جاتی ہ ے ہ

ےکسی ن الفاظ کو توڑ مروڑ کچھ شعر گھڑ لئ تو اس پر ے و جان کی کیا ضرورت ان یا ب قابو ہے۔آنسو ب ے ہ ے ے ہ

۔آخری امتحان پاس کر ک میں کالج س چال آیا ے ے ےمصروفیتوں ن آن دبوچا ملک ک مختلف حصوں میں ۔ ے یں سنا ا مدتوں تک میں ن جینی ک متعلق ن ۔پھر تا ر ہ ے ے ۔ ہ

ےپھر ایک دن ایک پرانا دوست مال میں ن جینی کا ذکر کیا ۔ ل س بالکل بدل چکی ہے۔تو اس ن باتیں سنائیں ک و پ ے ے ہ ہ ہ ے یں ر ور ک و محبت ک بغیر زند ن ی مش ہر جگ ی ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

وا تو دوسرا عنقریب شروع ہےسکتی ایک معاشق ختم ہ ہ ۔ ےو گا کالج چھوڑ کر اس ن مالزمت کر لی اور اب بالکل ۔ ہ

اں لوگوں کا ر شام اس ک تی ہآزادان طور پر ر ے ہ ہے ہ ہ ایت عجیب یں ن تا قسم قسم ک لوگ آت ہجمگھٹا ر ۔ ہ ے ے ہے۔ ہ یں لوگ یں اڑتی وتا پھر خوب افوا جوم ۔و غریب ہ ہ ہے۔ ہ ہ م ن ی کیا و کیا، میر کوٹ ک یں ک ےشیخیاں مارت ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

ہکالر س جو بال چسپاں و جینی کا ی تصویر جینی ہے۔ ہ ہے ے ہن مجھ دی تھی میر رومال پر جو سرخی و جینی ہے ے ۔ ے ے اں ونٹوں کی اس ن ی بھی بتایا ک پچھل سال و ہک ے ہ ہ ے ہے۔ ہ ے

، قحط پڑا جینی ن و گئ ےسیالب آیا تھا لوگ ب گھر ۔ ے ہ ے ۔ ۔کچھ لڑکوں، لڑکیوں کو ساتھ لیا گاؤں گاؤں پھر کر

ےمصیبت زد مخلوق کی مدد کی امیروں س فلرٹ کر ۔ ہ ۔ک چند اکٹھا کیا اپنی صحت اور آرام کا خیال ن رکھا ہ ۔ ہ ے وئی کچھ اوباش ہرات دن محنت کی کئی مرتب بیمار ہ ۔

Page 195: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےقسم ک لوگ محض جینی کی وج س محتاجوں کی ہ ے ان و گئ اس چھیڑا، تنگ کیا ایک شام ب ےامداد پر تیار ہ ۔ ے ے۔ ہ

ی جینی ۔س اپن ساتھ ل گئ اور اس شراب پالنی چا ہ ے ے ے ے ے ہن گرو ک سرغن ک بال نوچ لئ اس کا من طمانچوں ے۔ ے ے ے ہ ے ہس الل کر دیا و ایس گھبرائ ک اسی وقت جینی کو ے ے ہ ۔ ے

ے۔واپس چھوڑ گئ

۔پھر کسی ن جینی کی تصویر اخباروں میں نکلوا دی اس ے ی سمجھا ہکی تعریف بھی شامل تھی جس پر سب ن ی ے ۔ رت کی غرض س جینی ن لوگوں ےک محض سستی ش ے ہ ہ

۔کی مدد کی تھی

وا ک ایک تبادل ن مجھ ےکچھ عرص ک بعد ایسا اتفاق ے ے ہ ہ ے ے نچا دیا محض چند گھنٹوں کی مسافت ۔جینی ک قریب پ ہ ے فت میں اس ملن جاتا سچ مچ ر دوسر تیسر ۔تھی ے ے ے ہ ے ے ہ ۔ یں تندرست اور ل س ک یں تھی پ ہاب و پرانی جینی ن ے ے ہ ۔ ہ ہ ر پر تازگی تھی، نیا وتی تھی اس ک چ ےچست معلوم ہ ے ۔ ہ ونٹوں میں رسیال پن اور رخساروں پر سرخی ہنکھار تھا، ہآچکی تھی اب و اک شعل فروزاں تھی و طرح طرح ۔ ۂ ہ ۔

نتی جگمگ ۔س میک اپ کرتی، شوخ و بھڑ کیل لباس پ ہ ے ے ر وئ زیور، قسم قسم کی خوشبوئیں و ہجگمگ کرت ہ ۔ ے ہ ے

۔موضوع پر بال دھڑک گفتگو کر سکتی تھی کلبوں اور وں میں اس باقاعدگی ک ساتھ دیکھا جاتا ۔رقص گا ے ے ہ ی مختلف مصروفیتوں ک لئ ل ےفت بھر کی شامیں پ ے ہ ے ہ ے ہ

و جاتیں پرانی سیدھی سادی جینی کی جگ اس ہوقف ۔ ہ ہشوخ و شنگ لڑکی کو دیکھ کر میں کچھ چڑ سا گیا ی ۔

۔جذب محض حسد و رشک کا جذب تھا میں شاید برداشت ہ ہ یں کر سکتا تھا ک گفتگو کرت وقت مجھ بار بار ی ہن ے ے ہ ہ

ر بحث میں و وا ک و مجھ س زیاد جانتی ہاحساس ہ ہے۔ ہ ے ہ ہ ہ را د تاش کھیلت وقت میں بغلیں جھانکن ےمجھ ے ے۔ ہ ے

ہلگوں رقص گا میں بعض دفع مجھ ایک لڑکی بھی ن ے ہ ہ ۔ وں و ایسی ہمل اور اس ک لئ بیسیوں لڑک ب قرار ۔ ہ ے ے ے ے ے ہےچیزوں کا ذکر کرتی ر جن کا مجھ شوق تو لیکن ان ے ہے

نچ ذرا مشکل ہے۔تک پ ہ

وتا ان میں زیاد جوم اں لوگوں کا ہشام کو اس ک ۔ ہ ہ ہ ے وتی جو طرح طرح س اپنی محبت کا ےتعداد عشاق کی ہ ار کرت شادی شد حضرات اپنی غمگین ازدواجی ہاظ ے۔ ہ

Page 196: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےزندگی کا رونا رویا کرت ک کس طرح قدرت ن ان کو ہ ے ایت بد مذاق اور ٹھس طبیعت کی رفیق پل ےدغا دی اور ن ہ ہ یں اب ی نم س کم ن ہباندھ دی اب ان ک لئ دنیا ج ۔ ہ ے ہ ے ے ۔

و سکتا خودکشی ک سوا اور کوئی یں ےعذاب برداشت ن ۔ ہ ہ یں لیکن اس سیا خان میں امید کی ایک نورانی ےچار ن ہ ہ ہ

۔کرن نظر آتی و جینی ہے ہ ہے۔

ین قسم ک لوگ اکثر سیاست اور ادب پر ےپر مغز اور ذ ہ ےبحث کرت کارل مارکس فرائیڈ اور موالنا روم ک تذکر ے ے۔ یر پر ہچھیڑت سیاست دانوں کی غلطیاں گنوات مشا ے۔ ے۔

ےتنقیدیں کرت ب لوث اور سچی دوستی کا دم بھرت ے ے۔ ے۔لیکن موقع پا کر عشق بھی جتا دیت ہ

ہایک طبق نفاست پسند اور نازک اندام لوگوں کا تھا ی ۔ ہ ت اپنی بیماریوں ر وقت اپنی کمزوریاں گنوات ر ے۔لوگ ہ ے ہ ے۔کا ذکر کرت اپن آپ کو ب حد ادنیP اور کم تر سمجھت ے ے ے۔

و تو وتا یں برا معلوم : اگر تم ہبار بار جینی س پوچھت ہ ہ ے ے ےمیں آئند ن آیا کروں اگرچ ایسا کرن س مجھ قلبی، ے ے ہ ۔ ہ ہ

ر شام کو آ نچ گا مگر ہجگری اور روحانی صدم پ ۔ ے ہ ہ ے۔دھمکت

ےکئی ایس شرمیل بھی تھ جو چھپ چھپ کر خطوط ے ے ےلکھت جینی پر نظمیں ک کر اس بدنام کرت سامن ے۔ ے ہہ ے۔

و جاتا ۔آت تو شرما شرما کر برا حال ہ ے

ےسب س گھٹیا و عاشق تھ جو اپن آپ کو جینی کا ے ہ ے ت بھائیوں کی سی دلچسپی لیت اس کی ے۔بھائی ک ے۔ ہ

ت لیکن دل میں کچھ اں ر بودگی ک خوا ےحفاظت اور ب ہ ہ ے ہ ت ے۔اور سوچت ر ہ ے

تی کیا ہےمجھ ی تماشا دیکھ کر غص آتا آخر ی لڑکی چا ہ ہ ۔ ہ ہ ے جوم ہک سب ک سب تو اس پسند آن س ر سار ے ہے۔ ے ے ے ے ہ ا ہکو برخاست کر ک ان میں س ایک دو س ملتی ر ے ے ے

وا ک اس ٹوکوں پھر سوچا ک بھال ہکر میرا اراد بھی ۔ ے ہ ہ ہ ے۔ وں، دیکھا جائ تو میں بھی خود ےمیں اس کا کیا لگتا ہ

وں فرق صرف اتنا ک میں جوم میں س ایک ہاسی ہے ۔ ہ ے ہ و ں ل س جانتا ۔اس ذرا پ ہ ے ے ہ ے

Page 197: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتی ہپھر میں ن دیکھا ک و ایک شخص کی جانب ملتفت ہ ہ ے ل تو میں ل پ ی ی انسان بالکل عجیب تھا پ ہجا ر ے ہ ۔ ہ ہے۔ ہ

ی سوچتا ک آخر اس کی زندگی ی ن سکا ی ہاس سمجھ ہ ۔ ہ ہ ے وا ک ہکا مقصد کیا اس قریب س دیکھن پر معلوم ہ ے ے ے ہے۔ یں اس کسی ےاس کی زندگی کا واقعی کوئی مقصد ن ۔ ہ

یں تھا محبت، نفرت، زندگی، موت، انسان، ۔چیز پر یقین ن ہ و ہخدا سب س منکر تھا بات بات پر بحث ک لئ تیار ے ے ۔ ے ۔

ےجاتا سب اس س کترات تھ اس کامریڈ ک نام س ے ے ے۔ ے ے ۔ ےپکارا جاتا محض جینی کی وج س میں اس س ملتا ے ہ ۔

ہورن میر دل میں اس ک لئ نفرت تھی ی نفرت شاید ۔ ے ے ے ہ لی اور آخری بحث کی م ن پ وئی، جب ۔اس دن پیدا ہ ے ہ ہ تا ا پر نکت چینیاں میش برا بھال ک ہکامریڈ عورتوں کو ۔ ہ ہ ہ

۔کرتا ایک روز میں ن اختالف کیا عورت کی زندگی کی ے ۔ ۔ان گنت مجبوریاں جتالئیں لڑکی کی پیدائش کو نام بارک ےسمجھا جاتا لڑکوں ک مقابل میں اس کی پرورش ے ہے۔

ی برتی جاتی بھائی اس ڈانٹت دھمکات ےمیں کوتا ے ے ہے۔ ہ یں اس ک دل میں احساس ےیں اس کا حص چھین لیت ۔ ہ ے ہ ۔ ہ

ون پر کنب اور یں پھر بڑی ےکمتری پیدا کر دیت ے ہ ۔ ہ ے و جاتی دوپٹ کا ذرا سر ےپڑوسیوں کی تنقید شروع ہے۔ ہ وتا ذرا سی ہے۔س اتر جانا خاندان کی ناک پر اثر انداز ہ ے

ہے۔بھول اس زندگی بھر ک لئ مجرم بنا دیتی کالج میں ے ے ے ےاس فلسف سکھایا جاتا مساوات اور آزادی ک سبق ہے۔ ہ ے یں لیکن جب شادی کا سوال آتا تو اس س ےدئ جات ہے ہ ے ے ی کرنا پڑتا جو چند خشک ی پوچھتا اس و ہےکوئی ن ہ ے ۔ ہ یں لیکن لڑکوں کی زندگی بالکل ت ہمزاج بزرگ چا ے ہ ےمختلف و بڑی آسانی س جھوٹی قسمیں کھا کر ہ ہے۔

یں محبت کا واسط دال کر ہلڑکیوں کو دھوکا د سکت ۔ ہ ے ے یں پھر چند خاندانی مجبوریوں کا ۔سب کچھ منوا لیت ہ ے یں اور یں بڑی آسانی س دھتکار سکت ان کر ک ان ہب ے ے ہ ے ہ ہ ہے۔سلیٹ کی طرح بار بار سب کچھ دھل جاتا ان کا

یں رکھتا ان ک لئ بیا شادی ی ن ہماضی کوئی معنی ے ے ۔ ہ ہ ےکھیل لیکن لڑکیوں ک لئ شادی نئی مصیبتوں کا پیش ے ہے

ےخیم بنتی بیوی بن کر بچوں کی پرورش، معاشی ب ہے۔ ہ ےبسی، ذرا ذرا سی بات ک لئ خاوند کی طرف دیکھنا ے

و جان پر اوال د ب مصرف سمجھتی ےپڑتا عمر رسید ے ہ ہ ہے۔ ہے۔، مذاق اڑاتی ہے

Page 198: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا تا ر ی ک وئیں و ی ہکامریڈ کو میری باتیں فضول معلوم ہ ہ ہ ۔ ہ یں لیکن مرد کا رتب دماغی ہک ویس عورت اور مرد برابر ہ ے ہ ےاور جسمانی لحاظ س بلند اس ن دونوں ک دماغ ے ہے۔ ے ےکی بناوٹ اور وزن کا ذکر بھی کیا مرد ک لئ لمب قد ے ے ۔

۔اور مضبوط بازوؤں کا حوال دیا ہ

وئی یں ۔اس ک بعد میری اور اس کی کبھی بحث ن ہ ہ ے

اں تھا اس تا ک یں اس کا ذریع معاش کیا تھا، و ر ۔پت ن ہ ہ ہ ۂ ہ ہ ور تھا اں اور کیس گزری بس ی مش ہکی گذشت زندگی ک ہ ۔ ے ہ ہ

ہے۔ک و جینی کا مداح ہ ہ

۔جینی ان دنوں بڑی ٹھوس قسم کی کتابیں پڑھتی مشکل ہس موضوع پر خشک اور سنجید کتابیں جب و دونوں ۔ ہ ے ت کم لوگ سمجھ سکت ک کس موضوع ہباتیں کرت تو ب ے ہ ے

لو مجھ ی ان دونوں کی دوستی کا ی پ و ر ےپر گفتگو ہ ہ ہے۔ ہ ہ ر ین باتیں ظا وتا جینی کی مدلل اور ذ ت اچھا معلوم ہب ہ ۔ ہ ہ

ےکرتیں ک و دماغی ارتقا کی منزلیں بڑی تیزی س ط ے ہ ہ ی ہے۔کر ر ہ

م ن بار بار ےم پکنک پر گئ ایک تاریخی عمارت کو ہ ے۔ ہمیں ہدیکھا تھا، لیکن جب جینی ن ایک خاص زاوی س ے ے ے وا ک جیس اس باغ اور ا تو یوں معلوم ےدیکھن کو ک ہ ہ ہ ے

لی مرتب دیکھا کامریڈ اچھل پڑا بوال ۔عمارت کو آج پ ہے۔ ہ ہ ےصرف ایک آرٹسٹ کی آنکھ اس زاوی کو چن سکتی ی تھیں تو ایک لڑکا اپنا و ر انیاں ہتھی جب قص ک ہ ہ ے ۔

ےرومان سنان لگا اس ایک لڑکی دور دور س دیکھا ے ۔ ے وئ خطوط پھینک ، پتھروں س لپٹ وت ےکرتی، اشار ے ہ ے ے ے ہ ے ، لیکن و فاصل اتن کا اتنا تھا ن وت د و پیمان ، ع ہجات ۔ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ےو خود قریب آتی ن آن دیتی تنگ آ کر اس ن چھت پر ۔ ے ہ ہ

ےجانا چھوڑ دیا کئی دنوں ک بعدگیا تو لڑکی ن بڑی ے ۔ ہسخت سماجت کی اس ن صاف ک دیا ک اگر اب بھی ہہ ے ۔ یں آؤں گا ۔قریب ن آن دو گی تو آئند کبھی چھت پر ن ہ ہ ے ہ

تی ی ک و گئی بار بار ی ہبڑی مشکلوں ک بعد و رضا مند ہ ۔ ہ ہ ے یں کرن لگیں گ ے۔آپ وعد کیجئ ک مجھ س نفرت تو ن ے ہ ے ہ ے ہ ایت ہاس ن وعد کیا تو مانی ی اس ملن گیا لڑکی ن ے ے ہ ۔ ہ ے

ہحسین تھی لیکن اس کی آنکھوں میں نقص تھا و بھینگی ۔ و ر نست لوگ دو نست ق پڑ ہتھی اس پر بڑ ق ے ہ ے ہ ے ہ ے۔ ہے ہ ے ۔

Page 199: اردو ادب کے مشہور افسانے

و ی، اس کی آنکھیں نمناک ہگئ لیکن جینی خاموش ر ہ ے انی ن ی مجھ بھی اس ک ےگئیں دیر تک و چپ چاپ ر ہ ے ہ ہ ۔

یں تھی رگز مضحک انگیز ن انی ۔اداس کر دیا ی ک ہ ہ ہ ہ ہ ۔

ور ہباغ ک گوش میں ایک کنواں تھا جس ک متعلق مش ے ے ے و ش کی جائ پوری ہتھا ک اس میں جھانک کر جو خوا ے ہ ہ

ر ایک ن کچھ مانگا جب جینی کی باری آئی تو ۔جاتی ے ہ ہے۔ ، مجھ ئ یں چا ا ک مجھ کسی س کچھ ن ےاس ن ک ے ہ ہ ے ے ہ ہ ے

یں، کوئی ارضی یا سماوی ہکسی کی مدد کی ضرورت ن یں د سکتی بس مجھ ایک زندگی ےطاقت مجھ کچھ ن ۔ ے ہ ے

نا ہے۔ملی اور مجھ زند ر ہ ہ ے ہے

ن لگا ک جینی کا ی نظری ہکامریڈ عش عش کر اٹھا ک ہ ہ ے ہ ۔ اں لوگ اب تک ہصحیح ترین نظری ایسی دنیا میں ج ہے۔ ہ

و یں تر نظری ن یں، اس س ب ہبارش ک لئ دعا مانگت ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے یں کر سکتا، تقدیر اور ہسکتا کوئی کسی ک لئ کچھ ن ے ے ۔ ر شخص اپن گرد بچھ یں ےقسمت وغیر فضول چیزیں ے ہ ۔ ہ ہ

ہے۔وئ جال میں گرفتار اپن حاالت س مجبور زندگی ے ے ہے۔ ے ہم یں ، سب حوادث ک غالم ، شدید جذب ہک اٹل اراد ۔ ہ ے ے ے ے میں مال یں ک اتفاق ن ہاس لئ ایک دوسر ک دوست ے ہ ہ ے ے ے م ان لوگوں کی رفاقت ہدیا اسی طرح محض اتفاق س ے ۔ ر دوست بن یں اگر ملت تو شاید گ یں جن ےس محروم ہ ے ہ ۔ ہ ے

ے۔جات

ی کامریڈ جو افالطونی دوستی اور خلوص ہپھر ایک روز و وں ن ےک گن گایا کرتا تھا، جینی کو اپن ساتھ ل گیا ان ہ ۔ ے ے ے ےاکٹھ چائ پی، پکچر دیکھی، چھوٹ موٹ تحف خرید ے ے ے ے ے

ےجب ٹیکسی میں دونوں واپس آ ر تھ تو اس ن جینی ے ہے را لی ہکو چومن کی کوشش کی جینی ن ٹیکسی ٹھ ے ۔ ے ےجتن روپ کامریڈ ن اس شام صرف کئ تھ اس ک ے ے ے ے ے

۔من پر مار اور پیدل واپس چلی آئی ے ہ

ا پھر معافی مانگن آیا جینی ۔کامریڈ کئی روز تک غائب ر ے ہ وئی میں یں آیا، مایوسی ا ک مجھ طیش ن ہے۔ن ک ہ ہ ے ہ ہ ے

یں ان سب س مختلف سمجھتی تھی میرا خیال تھا ۔تم ے ہ و لیکن تم میں اور یں جوم میں س ن ہک تم اس ہ ے ہ ہ

یں ۔دوسروں میں فرق ن ہ

Page 200: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں، میں ہکامریڈ نادم تھا، بوال "میر نظری خوا کیس ے ہ ے ے وں تم میں اتنی زبردست کشش ک میری ہانسان بھی ہے ۔ ہ

ار ی کرتا میں ن کبھی تم وتا تو ی ےجگ کوئی اور بھی ہ ے ۔ ہ ہ ہ اری ب چین روح کو یں دیکھا تم ر کو غور س ن ےچ ہ ۔ ہ ے ے ہ

ار خدوخال ی روح مجھ عزیز اگر تم ےدیکھا اور ی ہ ہے۔ ے ہ ہے اری زندگی وتیں تو تم وت اور تم زیاد خوبصورت تر ہب ہ ہ ے ہ ہ وتیں تو تر گھران میں پیدا وتی اگر تم کسی ب ہمختلف ے ہ ۔ ہ وتی لیکن تم اتنی صالحیتوں ~ آسان اری زندگی مقابلتا ہتم ہ

وتی اری روح اتنی حسین ن وتیں تم ۔کی مالک ن ہ ہ ہ ۔ ہ ہ "

ہجینی عورت تھی، کامریڈ ک رنگیں فقروں ن اس مو ے ے ے ۔لیا اس کی آنکھیں جھک گئیں دل دھڑکن لگا رخسار ے ۔ ۔

و گئ جب کامریڈ ن بازو پھیالئ تو جینی ن ےسرخ ے ے ے۔ ہ ےمزاحمت ن کی اس ک بعد کامریڈ کی گفتگو کا انداز ۔ ہ

ن کا نام ےبدل گیا محبت ایک دوسر کی طرف دیکھن ر ہ ے ے ۔ ن کا نام یں بلک دونوں کا ایک سمت میں دیکھت ر ہےن ے ہ ے ہ ہ

ائی بلندیوں و تو و انت ہمحبت میں اگر رفاقت کی آمیزش ہ ہ راتا " اسی قسم کی باتیں بار بار د نچتی ۔تک جا پ ہ ہے۔ ہ

وتا اس کی ۔کبھی کبھی و مجھ کافی دلچسپ معلوم ہ ے ہ ےچند چیزیں مجھ پسند تھیں اس کی صحرا نوردیاں، ب ۔ ے ہچین طبیعت، سیالنی پن لیکن اس ک شکست خورد ے

وت و ، بال وج کا حزن، تلخ خیاالت بر معلوم ہنظری ے۔ ہ ے ہ ے ہقنوطی تھا اور اذیت پسند اس ن کبھی زندگی کا مقابل ے ۔ میش راست کترا جاتا یں کیا مصیبت کو آت دیکھ ک و ۔ن ہ ہ ہ ہ ہ ے ۔ ہ وا اس کا ۔اپن آپ کو مظلوم سمجھتا دنیا بھر کا ستایا ہ ۔ ے ۔اراد تھا ک عمر بھر اسی طرح سرگرداں ر گا اس کی ہے ہ ہ

یں یں ن ۔منزل ک ہ ہ

وا تو جینی مجھ چھوڑن سٹیشن پر آئی، جدا ےمیرا تبادل ے ہ ہ ےوت وقت میں ن رومال مانگا پوچھن لگی "رومال ل ے ۔ ے ے ہ

ٹوں کی اری شوخ مسکرا ا "رومال تم ؟" ک ہکر کیا کرو گ ہ ہ ے ی کیوں مانگت ر مرتب رومال ےیاد دالتا ر گا " بولی "تم ہ ہ ہ ہے

" بتایا ک اس کی مخمو رکن خوشبو اور ننھ س ےو ے ہ ۔ ہے۔سرخ دل کی وج س ہ

ہاگل سال مجھ کسی ن بتایا ک کامریڈ جینی کو چھوڑ ے ے ے ا جینی کی تمام ۔کر چال گیا و بالکل ویس کا ویسا ر ہ ے ہ ۔

Page 201: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےکوششیں اس میں کوئی تبدیلی ن ال سکیں چلت وقت ۔ ہ ا ک ب سر و سامانی اس کی تقدیر ےاس ن جینی س ک ہ ہ ے ے ےمیں اس کی منزل مفقود و جینی س محبت کرتا ہ ہے۔ ہے۔

ےر گا اس کی تصویر دل س لگا کر رکھ گا دوسر ۔ ے ے ۔ ہے میش یاد رکھ روں س اس خط لکھا کر گا اس ےش ہ ہ ے ۔ ے ے ے ہ

!گااور بس

ا جو کچھ اس ک پاس ےجینی ن اس کا تعاقب کرنا چا ۔ ہ ے یں جب و یں و اس مال یا ن ہتھا فروخت کر دیا پت ن ہ ے ہ ہ ہ ۔ وئی تھیں یں پھیلی ۔واپس آئی تو طرح طرح کی افوا ہ ہ

ا تا تھا اس سخت سست ک ا ر ہجینی ک والد ن جو تن ے ہ ہ ے ے ےاور گھر س نکال دیا کچھ اوباش قسم ک لوگوں ن ے ۔ ے

یں ر چھوڑ کر ک ی لیکن جینی و ش ہاس کی مدد کرنی چا ہ ہ ہ ۔نکل گئی

ندوستانی تھا لوگ اس ۔کینر س میں سمندر پار مال و ہ ہ ۔ ے ی� ، اسی س ی ت ہکی حرکتوں کی وج س اس کیزا نووا ک ے ے ہ ے ے ہ وئی اڑوں ک ایک کیمپ میں لی مالقات پ ۔نام پر گیا پ ہ ے ہ ہ ۔ وا تھا ریوں کو کھان پر بالیا ۔م ن قصب س کچھ ش ہ ے ہ ے ے ے ہ

ی تھیں ک و ایک روسی و ر ہمیس ک خیم میں باتیں ہ ہ ہ ے ے ۔افسر س لڑ پڑا لڑائی کی وج ایک روسی لڑکی تھی ہ ۔ ے ~ اس ڈوئل کی دعوت دی روسی ن اپن ےکینری ن فورا ے ۔ ے ے

م ہریوالور س چار گولیاں نکال لیں اور کینری س بوال ے ے ے۔اس باری باری اپن کان س چھوا کر چالئیں گ اس ے ے ے یں جس کی قسمت میں گولی ہمیں صرف دو گولیاں

و گی، اس ک دماغ میں س نکل جائ گی کینری ۔لکھی ے ے ے ہ ال فائر کینری ن اپن آپ و گیا پ ~ راضی وئ تھا فورا ےپئ ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ےپر کیا، و خان خالی نکال دوسرا فائر روسی ن کیا، کچھ ۔ ہ ہ م ن بڑی مشکلوں وا کینری تیسرا فائر کر چکا تو ےن ہ ۔ ہ ہ یں تھا ک ریوالور یں علیحد کیا کنیری کو یقین ن ہس ان ہ ۔ ہ ہ ے وا ی لبلبی دبا دی، دھماک یں اس ن یون ۔میں گولیاں ہ ہ ہ ے ۔ ہ

۔گولی خیم کی دیوار چیر گئی ے

م دونوں مار کیمپ میں آگیا وا اور و ہاس کا تبادل ۔ ے ہ ہ ہ ہ ت جلد دوست بن گئ ے۔ب ہ

Page 202: اردو ادب کے مشہور افسانے

ایت م دونوں گئ ن میں دعوت دی ر ک حاکم ن ہش ے۔ ہ ۔ ہ ے ے ہ ایت ہدلچسپ پروگرام تھا آغا ن کینری کا تعارف ایک ن ے ۔

۔خوبصورت لڑکی س کرایا ے

ا تھا محفل گرم ۔کینری اس س گھل مل کر باتیں کر ر ہ ے ہوتی جاری تھی ک یکایک گھڑی دیکھ کر کینری اٹھ کھڑا ہےوا اسن مجھ بتایا ک دوسر کیمپ کی قریب کسی ہ ے ۔ ہ۔لڑکی س رات کو ملن کا وعد کیا تھا سردیوں کی ہ ے ے

اں س سو میل ک لگ بھگ ےاندھیری رات تھی کیمپ و ے ہ ۔ میں سب ن منع کیا، لیکن کینری کا وعد تھا کیوں ہتھا ے ہ ۔

لکی لکی وئ تو م جیپ میں روان وتا ہکر پورا ن ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ اڑوں کی پیچید دشوار گزار سڑک ی تھی پ و ر ہبرفباری ہ ۔ ہ ہ

م اتنی تیزی س جار ر وچکی تھی ہےبرف س سفید ے ہ ۔ ہ ے وا میں اٹھ جاتی راست بھر و ہتھ ک موڑوں پر جیپ ے ۔ ہ ہ ے

م ا جب ہاپنی محبوب ک الفانی حسن کی تعریفیں کرتا ر ۔ ہ ے ہ و چکی تھی لڑکی منتظر ملی نچ تو دعوت ختم اں پ ۔و ۔ ہ ے ہ ہ ےکینری ن میرا تعارف کرایا ان دنوں میں ب حد اداس ۔ ے یں مال تھا ینوں س کسی دوست یا عزیز کا خط ن ۔تھا م ہ ے ہ ۔ ےمیں ن بڑی جذباتی قسم کی گفتگو شروع کر دی اس ۔ ے م ایک گوش میں جا بیٹھ وئیں ے۔ی باتیں اچھی معلوم ے ہ ۔ ہ ہ

مار پاس آیا لیکن جلد اٹھ کر چال گیا ۔کینری ایک دو بار ے ہ ا ۔جب لوگ جان لگ تو اس ن مجھ ایک طرف بال کر ک ہ ے ے ے ے ار لئ جیپ بھجوا دوں وں بعد میں تم ا ے"میں جا ر ے ہ ۔ ہ ہ

۔گا "

" و کر پوچھا ۔اور ی لڑکی "میں ن حیران ہ ے ہ

" ار وں میں تم اری میں یاروں کا یار ےی اب تم ہ ۔ ہ ہے۔ ہ ہ وں میں ن تم دونوں کی ا روں کا مطالع کرتا ر ےچ ۔ ہ ہ ہ ہ

لی ہآنکھوں میں اس روشنی کی چمک بھی دیکھی جو پ ہے تا ضرور وتی میں اس چا یں ہمالقات پر بالوج پیدا ن ے ۔ ہ ہ ہ

و ۔وں، لیکن تم بھی میر دوست ہ ے "ہ

ےاس کی شخصیت عجیب تھی ن اس کسی خطر کا ے ہ ۔ میش کام کر چکن ےاحساس تھا ن کسی مصیبت کا ڈر و ہ ہ ہ ۔ ہ ئ تھا ۔ک بعد ی سوچتا ک ی کام اس کس طرح کرنا چا ے ہ ے ہ ہ ہ ے

ی ہاس ک مزاج میں بال کی تندی اور گرمی تھی کیسی ۔ ے ےآفت آن پڑ و کبھی ن گھبراتا ذرا ذرا سی باتوں پر بڑ ۔ ہ ہ ے

Page 203: اردو ادب کے مشہور افسانے

و جاتا اس سکون س ےس بڑا خطر مول لین کو تیار ے ۔ ہ ے ہ ے ےنفرت تھی اس س لڑ، اس س جھگڑ محاذ س واپس ۔ ے ے ۔ زاروں جیت تو کل ، جوئ میں آج ا ےآیا تو ڈوئل لڑ ر ہ ے ہے ہ ہے

ار دیئ ے۔سب ہ

، اس ےسب اس ک کامیاب معاشقوں پر رشک کرت ے تا ی تو کچھ بھی ال کر ک ہکامیابی کا راز پوچھت و سر ہ ہ ہ ے۔ زاروں محبتیں ایسی بھی تھیں جو ادھوری ر گئیں یں، ۔ن ہ ہ ہ وں ن بار بار میرا دل ےجو کبھی بھی ن پنپ سکیں جن ہ ۔ ہ

۔توڑا

ہمار قریب ایک چھوٹا سا خوش نما قصب تھا گلشن، آس ے ہنشا گلشن ک نام س ےپاس ک باشندوں میں کینری ش ے ہہ ہ ے

ور تھا ۔مش ہ

ل کبھی اس پر قتل کا مقدم بن گیا تھا، موت کی سزا ہپ ے ہ و کر و گیا آزاد ہتھی، پھر عجیب س حاالت میں و بری ۔ ہ ہ ے میش زندگی کو ایک نئی زندگی ی کر لیا ک و ہاس ن ت ہ ہ ہ ہ ہ ے ہسمجھ گا جو اس تحف ملی اس زندگی کا گزشت ہے۔ ہۃ ے ے میش مسرور ر گا، آزاد ر یں و ہےزندگی س واسط ن ہے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ے

وئی اس فنا کر د گا، جو بھا گئی ےگا جو چیز نا پسند ے ہ ۔ ۔اس پر چھا جائ گا ے

را پر جینی ہمحض اتفاق تھا ک ایسا شخص زندگی کی شا ہ ہ ۔۔س مال ے

~ میں چھا گیا اور ~ فانا اس کا پیار آندھی کی طرح امڈا، آنا۔طوفان کی طرح اتر گیا

ندوستان آیا شام کو کسی شناسا لڑکی س ےو چھٹی پر ۔ ہ ہ یں ملی مگر ہمالقات کا پروگرام بنا اس ملن گیا، و ن ہ ے ے ۔ و گئی ی لڑکی جینی اں ایک اور لڑکی س مالقات ہو ۔ ہ ے ہ

یلی س ملن آئی تھی کینری ن جینی ےتھی جو اپنی س ۔ ے ے ہ اں ہکو اپنی محبوب کا نعم البدل سمجھا اور جتن دن و و ہ ے ہ ا اس ن قیمتی تحفوں کی ا اس نعم البدل سمجھتا ر ےر ۔ ہ ے ہ

انیوں س ےبارش کر دی اپنی دلچسپ باتوں اور رنگین ک ہ ۔ ےجینی پر جادو کر دیا بھڑکیلی کاروں میں اس لئ لئ ے ے ۔ ےپھرا ایک چاندنی رات کو جب و سمندر میں تیرن گئ ے ہ ۔

ےتو ریت پر بیٹھ کر اس ن محبت کا واسط د کر جینی ہ ے

Page 204: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن کا حلف ےکو شیمپین پالئی عمر بھر با وفا اور صادق ر ہ ۔ د و پیمان کئ ی سب کچھ ن ک ع میش اکٹھ ر ہاٹھایا ے۔ ہ ے ے ہ ے ہ ہ ۔

۔اس قدر پر خلوص تھا ک جینی ن سچ مان لیا ے ہ

وا جس کی توقع کی جا ی ہاس آغاز ک بعد انجام و ہ ے ہسکتی تھی، جو نا گزیر تھا جینی کی زندگی میں و جس ۔

۔طرح آیا تھا اسی طرح چال گیا

۔لیکن جینی کی یاد اس ک دل س مکمل طور پر ن گئی ہ ے ے نا پڑتا، ا ر ہجب کبھی اس کوئی ٹھکرا دیتا، جب دیر تک تن ہ ے ےکوئی بری خبر سنن میں آتی، اداسیاں عود کر آتیں… تو ۔اس جینی کی معصومیت، اس کا خلوص اور پیار یاد آتا ے

م دونوں دیر تک خیم میں بیٹھ ائی میں ےرات کی تن ے ہ ہ واؤں ک جھکڑ چلت تو و جینی کو یاد ر سرد ت با ہر ے ے ہ ہ ے۔ ہ وتا، اپن ےکرتا اپن جھوٹ وعدوں کو یاد کر ک شرمند ہ ہ ے ے ے ۔ تا ک جینی ان سب ہآپ کو گن گار سمجھتا بار بار ک ہ ۔ ہ

۔لڑکیوں س مختلف تھی جو اس کی زندگی میں آئیں ے وتی تو ہاگر اس کی زندگی میں شادی کی کوئی گنجائش

ایت غیر معمولی ہو جینی س ضرور شادی کرتا و ن ہ ۔ ے ہ یں یں کسی کی نگا ہلڑکی تھی اس کسی ن سمجھا ن ۔ ہ ے ے ۔ نچیں اس کی روح کی یں پ ۔اس ک خدوخال س آگ ن ہ ہ ے ے ے

چانا اس میں کسی مصور کی یں پ ۔عظمت کو کسی ن ن ہ ہ ے ۔روح تھی، کسی عظیم شاعر اور بت تراش کی روح اس ہمیں اتنی صالحیتیں تھیں ک ان کی رفاقت کسی کی بھی ۔زندگی چمکا سکتی تھی اس میں بال کی معصومیت تھی ۔اس میں سیتا کا تقدس تھا مریم کی پاکیزگی تھی اس ۔ یں کی بلک صرف ایک ایک ہن کئی مردوں س محبت ن ہ ے ے

ےمرد س محبت کی، ایک مرد جس اس ن کلبالت ے ے ے جوم س چنا اور دوسروں س مختلف سمجھا ےرینگت ے ہ ے

میش دھوک دیا اس کی ۔لیکن اس مرد ن اس ہ ہ ہ ے ے ٹ، ٹ کیسی تھی، بالکل مونالزا کی مسکرا ہمسکرا ہ ٹ ک سامن ےمعصوم، اتھا اور پراسرار، اس کی مسکرا ے ہ ہ

۔کینری جیسا انسان بھی کانپ اٹھا تھا

ہلیکن ایسی باتیں و کبھی کبھی کیا کرتا اور اگلی صبح ۔اکثر بھول جاتا

Page 205: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےاس ک بعد ایک طویل وقف آیا ی وقف ایسا تھا ک اس ن ہ ہ ہ ۔ ہ ے زاروں میل ی میں ہسب کچھ بھال دیا جینی بھی یاد ن ر ۔ ہ ہ ۔ ہک فاصل س واپس ملک میں آیا تو دوبار دور بھیج دیا ے ے ے و جاتی ہگیا اس عرص میں کبھی کوئی پرانی یاد تاز ہ ے ۔

ی سوچتا ک ہاور خیاالت ک تسلسل میں جینی آ جاتی تو ی ہ ے و گی یں ~ اب اس س کبھی مالقات ن ۔غالبا ہ ہ ے

ت س کٹھن لمحوں ک بعد مختصر ائی اور ب ےلگاتار تن ے ہ ہ اڑیوں پر چال گیا و ہسی چھٹی ملی میں قریب کی پ ۔ ہ ۔ ایت سرسبز و شاداب تھا دور دور تک چائ ک ےعالق ن ے ۔ ہ ہ

اں میں ہباغات تھ اور مالدار سوداگروں کی آبادیاں ج ۔ ے ت س اجنبی اں خوب رونق تھی میری طرح ب ےگیا و ہ ۔ ہ ی دنوں ک بعد وئ تھ چند ےچھٹیاں گزارن آئ ہ ے۔ ے ہ ے ے

ل اور شور شغب ل پ ون لگا ک باوجود اتنی چ ہمحسوس ہ ہ ے ہ اں کھینچ کر وا جو مجھ و یں ائی کم ن ہک و احساسl تن ے ہ ہ ہ ہ ے

ا تھا ک ی کھویا کھویا سا پھر ر ہالیا تھا ایک روز میں یون ہ ہ ۔ ےجینی مل گئی ایس دور دراز خط میں اس پا کر ے ے ۔

ل س بالکل وئی اس مرتب تو و پ ےمجھ از حد مسرت ے ہ ہ ہ ۔ ہ ے وئی اس کی باتوں میں حزن کی آمیزش ۔مختلف معلوم ہ ر پژمردگی تھی لیکن ایسی پژمردگی ےتھی اس ک چ ہ ے ۔ جس میں عجیب جاذبیت تھی، جو حسن و شباب کی

ی تھی، اس و ر یں دلفریب معلوم ہتازگی س ک ہ ہ ے ٹ میں افسردگی کی رمق ن ایک عجیب وقار ےمسکرا ہ

۔پیدا کر دیا تھا

تی تھی جو چائ کا اں ر اں اپن کسی عزیز ک ےو و ہ ہ ے ے ہ ہ ی ا محسوس کر ر ہسودا گر تھا و بھی اپن آپ کو تن ہ ے ہ ۔ ےتھی کلب، رقص، پارٹیاں، پکنک سب ب حد اکتا دین ے ۔ ۔

اں اس کا صرف ایک واقف تھا، اسی کمپنی ہوال تھ و ے۔ ے تا جس کی زندگی کا سب ا ر ۔کا ایک بوڑھا مالزم جو تن ہ ہ

ےس قیمتی خزان کتابیں تھیں کام س لوٹ کر و بڑ ہ ے ۔ ہ ے ، ، بحث کرت تمام س کتابیں نکالتا دونوں پڑھت ےا ے ۔ ے ہ

و گئ چھٹی ک بقی دن م تین ساتھی … اب ہجھگڑت ے ے۔ ہ ہ ے ہیوں گزر ک پت بھی ن چال واپس آ کر میں ن تبادل کرا ے ۔ ہ ہ ہ ے ، م جنگلوں میں نکل جات ےلیا اور جینی ک پاس چال گیا ہ ۔ ے

نست ، بچوں کی طرح ، کتابیں پڑھت ےسیریں کرت ہ ے ے ی نئی ہکھیلت میں اس جتنا قریب س دیکھتا اتنی ے ے ے۔

Page 206: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتا ترین رفیق تھی اکثر یوں محسوس ہخوبیاں پاتا و ب ۔ ہ ہ ۔ یں، اس کی ب پنا ی ن ل کبھی مال ہجیس میں اس پ ے ہ ہ ے ہ ے ے م رقص پر جات تو و لگاتار وا یں ہجاذبیت س آشنا ن ے ہ ۔ ہ ہ ے ر پر یں میر چ تی اس کی نگا ےمیری جانب متوج ر ہ ے ہ ۔ ہ ہ

ون لگتا تیں مجھ اس پر فخر ۔جمی ر ے ہ ے ۔ ہ

ت کئی ے۔م ایک دوسر ک قریب خاموش بیٹھ پڑھت ر ہ ے ے ے ے ہمار خیاالت وتی، لیکن ےکئی گھنٹوں تک ایک بات بھی ن ہ ہ ہ

وتی خاموشی اور ، دلوں میں طمانیت وت نگ ۔م آ ہ ے ہ ہ ہوں م باتیں کر ر ۔گویائی کا فرق یوں مٹ جاتا جیس ہ ہے ہ ے

م دونوں کو یں و کون سا رشت تھا جس ن اب تک ہپت ن ے ہ ہ ہ ہ و م ~ دوستی کا جذب ی قرب اس قدر ا ہقریب رکھا غالبا ہ ہ ہ۔ ۔

۔گیا ک ذرا سی جدائی بھی شاق گزرن لگی ے ہ

ےایک روز میں ن اس کی کتابوں میں نظموں کی کاپی ہدیکھی ی نظمیں جینی ن لکھی تھی ی نظمیں کس قدر ۔ ے ہ ۔

ےحزنی تھیں، کتنی کرب انگیز اور درد ناک میں ن اس ۔ ہ ہس پوچھا ک ی اس ن کب اور کن حاالت میں لکھیں؟ ی ے ہ ہ ے وتیں، کیونک جس یں معلوم رگز ن وئی ہاس کی لکھی ہ ہ ہ ہ

وں و تو دلیر اور نڈر اس ن کوئی ےجینی کو میں جانتا ہے۔ ہ ہ ی ۔جواب ن دیا اور خاموش ر ہ ہ

م سیر س واپس آ ر تھ ک بارش ر کو ہایک س پ ے ہے ے ہ ہ ہ ل تو درختوں ک نیچ چھپت ر جب و گئی پ ہے۔شروع ے ے ے ے ہ ۔ ہ

ہموسالدھار مین برسن لگا تو بھاگ کر ایک شکست ے ہ وئی ہجھونپڑی میں پنا لی میں ن اپنا کوٹ سوکھی ے ۔ ہ

م دونوں بیٹھ گئ کچھ دیر خاموشی ے۔گھاس پر بچھا دیا ہ ۔ ی تنگ کرن کو ی میں نظموں کی باتیں کرن لگا یون ےر ہ ۔ ے ۔ ہ ل تو کبھی بھول س بھی کوئی شعر اس کی ا ک پ ےک ے ے ہ ہ ہ یں یں ک زاروں اشعار زبانی یاد ہزبان پر ن آتا تھا اب ۔ ہ ہ ہ ر اتر یں آگیا تھا؟ اس کا چ ہاس کوئی شاعر تو پسند ن ہ ہ ے

۔گیا آنکھوں میں آنسو آ گئ میں ن معافی مانگی شاید ے ے۔ ۔ وئی رگ چھیڑ دی تھی یا تلخ یادیں تاز کرا ہکوئی دکھتی ہ اتھ میں ل لیا دوبار معافی اتھ اپن ہدی تھیں اس کا ۔ ے ہ ے ہ ۔ ٹ اس ک لبوں پر آ گئی ۔مانگی ایک پھیکی سی مسکرا ے ہ ۔ ےجب و میر شان س سر لگائ بیٹھی تھی، تو ایسی ے ے ے ہ و ی تھی جو راست بھول گئی و ر ۔ننھی منی بچی معلوم ہ ہ ہ ہ

Page 207: اردو ادب کے مشہور افسانے

و میں ن ار کی طالب و اور س ےبالکل ب یار و مددگار ۔ ہ ے ہ ہ ے اتھوں س اس ک ےاس ک آنسو خشک کئ دونوں ے ہ ے۔ ے وئ ا چوم ر کو تھام کر اس پیار کیا ان با ر ےچ ہ ے ہ ۔ ے ے ہ

۔ونٹوں پر اب تک تازگی تھی ان آنکھوں میں اب تک ہی جال تھی ی لڑکی ہمعصومیت تھی ان رخساروں پر و ۔ ہ ۔

ل جی بی ی لڑکی تھی جس میں ن برسوں پ ےاب تک و ہ ے ے ہ ۔ک ساتھ مباحث میں دیکھا تھا اس کی زندگی کی ایک ے ے یں سنی تھی انی ایسی بھی ر گئی تھی جو میں ن ن ۔ک ہ ے ہ ہ

انی اس ن خود سنائی ی ایک شاعر ک متعلق تھی ےی ک ہ ۔ ے ہ ہ ۔جو شرابی تھا، جواری تھا، غیر ذم دار تھا، جھوٹا تھا اپنی ہ ۔خود داری اور انفرادیت کو خیر باد ک چکا تھا جس کی ہہ میش ہحرکتیں دیکھ کر افسوس کی بجائ غص آتا جینی ہ ۔ ہ ے ر ممکن طریق س اس کی مدد ےاس پر ترس کھاتی ے ہ ۔ ےکرتی سفارشیں کر ک اس کا کالم چھپوایا اس ادھر ۔ ے ہادھر متعارف کرایا اس کی حوصل افزائی کی ک شاید ی ہ ہ ۔ تر بن سک اور ےاسی طرح سدھر جائ اس کی زندگی ب ہ ے۔ یں ا خزان جو اس ک دماغ میں محفوظ ک ہو بیش ب ہے ے ہ ہ ہ

و جائ ترس کا ی جذب دن بدن بڑھتا گیا جینی ۔ضائع ن ہ ہ ے۔ ہ ہ وتی گئی پھر اس ۔غیر شعوری طور پر اس ک قریب ہ ے

یں ہجذب ن ایک اور شکل اختیار کی جینی کو خود علم ن ۔ ے ے ی ایک دن ہےتھا ک جس و محض جذب ترح�م سمجھ ر ہ ۂ ہ ے ہ

و گا جینی ن ایک آوار و ب ےمحبت کا پیش خیم ثابت ہ ے ۔ ہ ہ ےخانماں کو پنا دی اپنی توج اور اپنا پیار ایس انسان پر ہ ۔ ہ ا ر گز اس کا حق دار ن تھا و سدھرتا جا ر ہضائع کیا جو ہ ۔ ہ ہ ا ی تھی و ک وتی جا ر تر ل س ب ہتھا اس کی حالت پ ہ ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ ۔ ےکرتا ک ک اس جینی کی گزشت زندگی س کوئی سروکار ہ ے ہ ہ یں یں ا ب تو اس اپنی گزشت زندگی س بھی تعلق ن ہن ے ہ ے ۔ ہ

وئی جب اس ن ا تھا اس کی زندگی تب س شروع ےر ہ ے ۔ ہ ل و کیوں یں اس س پ لی مرتب دیکھا پت ن ہجینی کو پ ے ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ یں ر سکتا ا لیکن اب و جینی ک بغیر زند ن ۔کر جیتا ر ہ ہ ہ ے ہ ہ ا جینی کو مخاطب کیا تھا ۔اس ن اپنی نظموں میں بار ہ ے یں محبت کا ار دل میں خلوص ک چشم ابلت ۔تم ہ ے ے ے ے ہ

یں جن پر رات ار دل میں و جذبات ہقلزم رواں تم ہ ے ہ ہے۔ ہے۔دن کا تسلسل قائم زمین و آسمان کی گردش قائم ہے۔ و جائ گی دنیا و گئ انسانیت فنا ۔و جذبات جب فنا ے ہ ے ہ ہ

اں و جائ گی ی ہچاند ستاروں کی طرح اجاڑ اور سنسان ۔ ے ہ ۔کچھ بھی ن ر گا ہے ہ

Page 208: اردو ادب کے مشہور افسانے

، اس دق ہے۔ایک روز اس ن جینی کو بتایا ک و بیمار ے ہے ہ ہ ے کاش ک و تندرست ہکبھی کبھی ی بیماری عود کر آتی ہ ہے۔ ہ ے۔وتا، تب کسی روز و دونوں شادی کر لیت زندگی کتنی ہ ہوتیں و سکتی تھی کیسی کیسی راحتیں میسر انی ۔س ہ ۔ ہ ہ نم میں اب ہتب و سب اذیتیں بھول جاتیں جو دنیا ک ج ے ہ

۔تک برداشت کی تھیں

تا تھا لیکن بڑی مشکلوں ی آوارگی میں مرنا چا ہو یون ہ ہ ۔س جینی ن اس سینی ٹوریم میں بھجوایا اس کا فالتو ے ے ے

ہخرچ برداشت کرن ک لئ و دن بھر دفتر میں کام ے ے ے ۔کرتی رات کو ٹیوشن پر لڑکیوں کو پڑھاتی لگاتار ۔

ن لگی وقت ۔مشقت ن اس کمزور کر دیا و بیمار ر ے ہ ہ ۔ ے ے وا ک شاعر صرف اسی ہگزرتا گیا ایک دن اس معلوم ہ ے ۔

تا اس ک تخیل میں کوئی اور بھی یں ک ےک لئ نظمیں ن ۔ ہ ہ ے ے ہشریک ی سینی ٹوریم کی ایک نرس تھی جس و بعد ے ہ ہے۔

۔میں مال تھا

ی کسی ن اڑا دی ےجینی ن اس افوا پر توج ن دی، یون ہ ہ ہ ہ ے اں رات دن ایک س ماحول میں ر ر کر تھک ہو گی و و ہ ے ہ ہ ۔ ہ

نسن کسی س ئ و گا اس تفریح بھی تو چا ےگیا ہ ے ے۔ ہ ے ۔ ہ یں جب و اس س ملن جاتی تو ےبولن میں کوئی حرج ن ے ہ ۔ ہ ے ۔نرس ک لئ بھی تحائف ل جاتی ان دونوں کی دوستی ے ے ے یں یں کیا لیکن ی افوا محض افوا ن ہپر اس ن کبھی شب ن ہ ہ ہ ہ ہ ے

و کر آیا تو اس ن ی شاعر سینی ٹوریم س تندرست ےر ہ ے ۔ ہ ےشادی کر لی نرس ک ساتھ جینی پھر بھی اس س ۔ ے ۔

ی آخر نرس ن ان ی، اس مالی مدد دیتی ر ےملتی ر ۔ ہ ے ہ ےمالقاتوں پر اعتراض کیا ک جینی جیسی لڑکی س ملنا ہ

ےبدنامی مول لینا شاعر ن اس اعتراض کو سر آنکھوں ہے۔ ےپر لیا ور جینی س ملنا چھوڑ دیا موقع ملن پر و اس ہ ے ۔ ے

ےبدنام بھی کرتا غزلوں میں اپن کارنام بیان کرتا اور ے ۔ راتا ۔جینی ک پران عاشقوں ک قص دو ہ ے ے ے ے

م پران انی سنا چکی تو میں ن اس بتایا ک ےجب و ک ہ ہ ے ے ہ ہ یں دوستی عظیم ترین رشت خلوص پر میرا ہے۔دوست ہ ۔ ہ

یں رگز منکر ن ۔ایمان میں انسانی کمزوریوں س ہ ہ ے ہے۔ و لیکن ان جذبات کی ہشاید مجھ اچھ بر کی تمیز ن ہ ے ے ے

و خوا ان جذبات وں، جن میں خلوص کار فرما ہقدر کرتا ہ ہ یں تی و زندگی میں تبدیلیاں آتی ر ی ہکا انجام کیسا ہ ۔ ہ ہ

Page 209: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتیں لیکن و جذبات جو یں نی کیفیتیں بھی دیر پا ن ہذ ہ ہ ہ یں اس لئ ت میش صادق ر ، ےاپن وقت پر صادق تھ ۔ ہ ے ہ ہ ہ ے ے

اری زندگی میں آئ ناگزیر تھ تم ے۔و مد و جزر جو تم ے ہ ہ ت یں ب ار جذبات سچ تھ میں ن تم ہسچی تھیں تم ہ ے ے۔ ے ے ہ ۔

یں پسند کرن ک عالو میں ہقریب س دیکھا تم ے ے ہ ہے۔ ے وں اری عزت بھی کرتا ۔تم ہ ہ

ر جانا بند ست اس ن لوگوں س ملنا چھوڑ دیا با ست آ ہآ ۔ ے ے ہ ہ ہ ہ تی لیکن اب و مسرور ر وقت میری منتظر ر ہکر دیا و ہ ہ ہ ۔ ا تھا یں ر یں تھی اب اس ماضی یا حال کا اتنا خیال ن ہن ہ ے ۔ ہ ا اور اداس تھی کئی مرتب میں ہجتنا ک مستقبل کا، و تن ۔ ہ ہ ہ

اں اس ہن اس قبرستان میں بیٹھ دیکھا ایک روز میں و ۔ ے ے ے ۔ک پاس چال گیا و عجیب سی باتیں کرن لگی "کبھی ے ہ ۔ ے ےایس پرسکون لمحات بھی آئیں گ جب میں بھی اسی ے و گی؟ انی ہطرح سو جاؤں گی و خاموشی کتنی س ہ ہ ۔

و گی و گا، دل دوز تاریکی ہموت ک بعد اگرچ محض خال ہ ہ ے یں رگز بری ن ہلیکن و تاریکی اس کرب انگیز اجال س ہ ے ے ہ

۔و گی "ہ

رایا "میں ان بد وا ی شعر د ہپھر انگریزی میں لکھا ہ ہ ایت قلیل روشنی ر صبح ن یں وں جن ہنصیبوں میں س ہ ہ ہ ے ہملتی امید کی اتنی سی جlال ک صرف دن بھر زند ر ہ ہ ہے۔

ہسکیں جس روز ی روشنی ن مل سکی میں ظلمتوں میں ہ ۔ ۔کھو جاؤں گی "

ےمیں ن رنگین اور خوش نما چیزوں کی باتیں کر ک ے "کاش تم انداز لگا سکت ا لیکن و بولی ےموضوع بدلنا چا ہ ۔ ہ ہ

وں؟ اگر وں؟ کس قدر افسرد ہک میں کس قدر غمگین ہ ہ ہ و جائیں گ ارا ن مال تو میر خواب تمام ے۔اب مجھ س ہ ے ہ ہ ے

و جاؤں گی و جائیں گ میں گم ۔اصول ختم ہ ے۔ ہ "

تا تھا وں کی تردید کرنا چا ہپھر ایک دن جب میں ان افوا ہ ن لگی ا اپن متعلق سنی تھیں و ک م دونوں ن با ر ےجو ہ ہ ے ہ ے ہ �اح اری سی و میں بھی تم و، سمجھت ہ"تم مجھ جانت ۔ ہ ے ہ ے ے ار ان گنت مشغلوں، طرح طرح وں تم ےروح س آشنا ہ ۔ ہ ے ےک خوابوں کا مجھ احساس میں تم س صرف ذرا ہے۔ ے ے

ارا اپنی زندگی کا وں بالکل ذرا سا س ۔سی توج مانگتی ہ ۔ ہ ہ

Page 210: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں گی میش قانع ر ۔قلیل سا حص مجھ د دو، میں ہ ہ ہ ے ے ہ وں گی تم میرا ساتھ ن دینا یں ہمیں کبھی تم پر بار ن ۔ ہ ہ

ار ساتھ چلوں گی ۔میں تم ے ہ "

ل بھی کئی مرتب اس ہمیں اس اشار کو سمجھ گیا پ ے ہ ۔ ے ہن ایسی باتیں کی تھیں میں ی بھی جانتا تھا ک عورت ہ ۔ ے ایت محدود اس پر کئی اخالقی ہےاور مرد کی دوستی ن ہ

یں ی بندش ایک حد تک درست ہاور سماجی بندشیں عائد ۔ ہ اں فیصل کرنا پڑتا یں آخر ایک مقام آتا ج ہے۔بھی ہ ہ ہے ۔ ہ

۔میں اس مقام س لوٹ آیا ے

وا، میں ہفیصل کرن کا وقت آیا تو میں بزدل ثابت ے ہ و کر میں اس گرو میں شامل و گیا خاموش ہخاموش ہ ۔ ہ

ل آیا گرو جو ہو گیا جو جینی کی زندگی میں مجھ س پ ۔ ے ہ ے ہر کرتا، لیکن دراصل سماجی ر اپن آپ کو باغی ظا ہبظا ے ہ ےروایات کا غالم تھا جینی سمجھ گئی پھر اس ن کبھی ۔ ۔ و گیا د سا م دونوں میں ایک معا یں کیں ۔ایسی باتیں ن ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

و گیا ک جب تک یں آیا، لیکن ط د زبان پر ن ہاگرچ ی معا ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ یں، محض پران دوستوں کی ےایک دوسر ک قریب ہ ے ے

یں گ ے۔طرح ر ہ

ا تو مجھ دوسری جگ بھیج ہپھر میں ن تبادل ک لئ ک ے ہ ے ے ے ے ےدیا گیا چلت وقت جینی مجھ چھوڑن آئی اس کی ے ے ۔ لی مرتب میں ن اس سب ک ےآنکھوں میں آنسو تھ پ ے ے ہ ہ ے۔ ےسامن روت دیکھا ان آنسوؤں ک باوجود و مسکران ہ ے ۔ ے ے

ی تھی بار بار و آنکھیں خشک کرتی ہکی کوشش کر ر ۔ ہ لی سی ہاور جب میں ن رومال مانگا تو اس ن بالکل پ ے ے

؟ میں ن ےشوخی س پوچھا ک رومال ل کر کیا کرو گ ے ے ہ ے ا اس یادگار ک طور پر رکھوں گا ۔ک ے ے ہ

؟ " اس ن گیال" وں گ ےاور میر آنسو کیوں کر خشک ے ہ ے وئ پوچھا ۔رومال دیت ے ہ ے

ینوں ک بعد میں ن سنا ک اس ن کسی س ےچند م ے ہ ے ے ہ ۔شادی کر لی

یں ٹ س مانگا تھا و ن ہجو جواب میں ن اس کی مسکرا ہ ے ہ ے و چکی وا ک موسیقی ختم ہے۔مال پھر یک لخت معلوم ہ ہ ہ ۔

Page 211: اردو ادب کے مشہور افسانے

و چکا اور لوگ کھان ک لئ دوسر کمر ےرقص ختم ے ے ے ے ہے ہ ے۔میں جا ر تھ میں اور جی بی بھی چل گئ جب دیر ے ے۔ ہے

۔ک بعد واپس آئ تو جینی جاچکی تھی اس کا خاوند بھی ے ے یں تھا اں ن ۔و ہ ہ

ت کم ی خیال سا آیا ک اس مرتب جینی س ب ہمجھ یون ے ہ ہ ہ ے ا ن اس س کچھ وئیں میں اس س دور دور ر ےباتیں ہ ۔ ہ ے ۔ ہ

یں مانگا ۔پوچھا ن بتایا اس س رومال بھی تو ن ہ ے ۔ ہ

اں جینی اور ہن جان کیوں م�یں اس گوش میں چال گیا ج ے ے ہ ےاس کا خاوند بیٹھ ر تھ میں ن دیکھا ک میز ک نیچ ے ہ ے ے۔ ہے ے وا رومال پڑا جو رقص کرن وال لوگوں ک ےایک مسال ے ے ہے ہ

ےقدموں تل آ چکا تھا میں ن اس اٹھا لیا، جھاڑا، سلوٹیں ے ۔ ے و گئی ی چانی خوشبو س فضا معطر ہدور کیں جانی پ ۔ ہ ے ہ ۔

اں کیس آیا؟ جینی جان بوجھ کر میر لئ چھوڑ ےرومال ی ے ے ہ ؟ دیر تک میں اس رومال ی اتفاق س ر گیا ۔گئی، یا یون ہ ے ہ وئ سرخ ، مسل وئ ا اس روند یں کھڑا ر ےکو لئ و ہ ے ے ہ ے ۔ ہ ہ ے ا جو اب تک خمار آگیں خوشبو میں بسا ہدل کو دیکھتا ر

۔وا تھا ہ

۔جینی کا دل عورت کا دل

کفن

(منشی پریم چند)

وئ ےجھونپڑ ک درواز پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھ ہ ے ے ے ے وئ تھ اور اندر بیٹ کی ےاالؤ ک سامن خاموش بیٹھ ے ے ہ ے ے ے ی تھی اور ہنوجوان بیوی بدھیا دردl ز س پچھاڑیں کھا ر ے ہ ےر ر کر اس ک من س ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی ہ ے ہ ہ ے۔ک دونوں کلیج تھام لیت تھ جاڑوں کی رات تھی، فضا ے ہ ہ و گیا تھا ۔سناٹ میں غرق سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہ ۔ ے

یں سار ا دن تڑپت وتا بچ گی ن ا "معلوم ےگھسو ن ک ۔ ہ ے ہے ہ ہ ے ۔و گیا، جا دیکھ تو آ "ہ

ی تو جلدی مر ج میں بوال "مرنا ہےمادھو دردناک ل ہ ے ہ یں جاتی دیکھ کر کیا آؤں ۔کیوں ن ۔ ہ "

Page 212: اردو ادب کے مشہور افسانے

! سال بھر جس ک ساتن جندگانی کا" ےتو بڑا بیدرد ب ے ہے ۔سکھ بھوگا اسی ک ساتھ اتنی ب وپھائی ے ے "

یں دیکھا" اتھ پاؤں پٹکنا ن ہتو مجھ س تو اس کا تڑپنا اور ہ ے ۔جا تا "

۔چماروں کا کنب تھا اور سار گاؤں میں بدنام گھسو ایک ے ہ ہدن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا ک ےگھنٹ بھر کام کرتا تو گھنٹ بھر چلم پیتا اس لئ اس ے ۔ ے ے

ی ن تھا گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ۔کوئی رکھتا ہ ہ ۔و تو ان ک لئ کام کرن کی قسم تھی جب دو ایک ے ے ے ہ

و جات تو گھسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ التا ےفاق ہ ے ، ت ےاور مادھو بازار س بیچ التا اور جب تک و پیس ر ہ ے ہ ے

ےدونوں ادھر ادھر ما ر مار پھرت جب فاق کی نوبت ے۔ ے ے ے۔آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑت یا کوئی مزدوری تالش کرت ے

۔گاؤں میں کام کی کمی ن تھی کاشتکاروں کا گاؤں تھا ۔ ہ ےمحنتی آدمی ک لئ پچاس کام تھ مگر ان دونوں کو ے ے ےلوگ اسی وقت بالت جب دو آدمیوں س ایک کا کام پا ے

وتا ۔کر بھی قناعت کر لین ک سوا اور کوئی چار ن ہ ہ ہ ے ے یں قناعت اور توکل ک لئ وت تو ان ےکاش دونوں سادھو ے ہ ے ہ وتی ی ان کی خ�لقی ہضبطl نفس کی مطلق ضرورت ن ۔ ہ ہ ےصفت تھی عجیب زندگی تھی ان کی گھر میں مٹی ک ۔ ۔ یں پھٹ چیتھڑوں س ےدو چار برتنوں ک سوا کوئی اثاث ن ے ۔ ہ ہ ے وئ دنیا کی فکروں س آزاد ۔اپنی عریانی کو ڈھانک ے ے ہ ے ، مار بھی کھات وئ گالیاں بھی کھات ےقرض س لد ے ے۔ ہ ے ے

یں مسکین اتن ک وصولی کی مطلق ہمگر کوئی غم ن ے ۔ ہ یں کچھ ن کچھ قرض د دیت تھ ون پر لوگ ان ے۔امید ن ے ے ہ ہ ے ہ ہ ےمٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں س مٹر یا آلو اکھاڑ الت ے

ےاور بھون بھون کر کھات یا دن پانچ ایکھ توڑ الت اور رات ے دان انداز میں ساٹھ سال ہکو چوست گھسو ن اسی زا ہ ے ے۔ ےکی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹ کی

ا تھا بلک اس کا نام اور ہطرح باپ ک نقش قدم پر چل ر ہ ے ا تھا اس وقت بھی دونوں االؤ ک ےبھی روشن کر ر ۔ ہ

وئ آلو بھون ر تھ جو کسی ک کھیت ےسامن بیٹھ ے ہے ے ہ ے ے وئی ہس کھود الئ تھ گھسو کی بیوی کا تو مدت ے۔ ے ے

وئی تھی و گیا تھا مادھو کی شادی پچھل سال ۔انتقال ہ ے ۔ ہ ےجب س ی عورت آئی تھی اس ن اس خاندان میں تمدن ہ ے

Page 213: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہکی بنیاد ڈالی تھی پسائی کر ک گھاس چھیل کر و سیر ے ۔ ےبھر آٹ کا انتظام کر لیتی تھی اور ان دونوں ب غیرتوں ے تی تھی جب س و آئی ی دونوں اور ہکا دوزخ بھرتی ر ہ ے ۔ ہ

و گئ تھ بلک کچھ اکڑن بھی ےبھی آرام طلب اور آلسی ہ ے ے ہ ےلگ تھ کوئی کام کرن کو بالتا تو ب نیازی کی شان ے ے۔ ے

lی عورت آج صبح س درد ےمیں دوگنی مزدوری مانگت و ہ ے۔ ی تھی اور ی دونوں شاید اسی انتظار میں ہز میں مر ر ہ ہ

۔تھ ک و مر جائ تو آرام س سوئیں ے ے ہ ہ ے

ا "جا دیکھ تو کیا وئ ک ہگھسو ن آلو نکال کر چھیلت ے ہ ے ے اں تو و گا اور کیا ی " اس کی چڑیل کا پھنساؤ ہحالت ۔ ہ ہے

ے۔اوجھا بھی ایک روپی مانگتا کس ک گھر س آئ ے ے ہے۔ ہ "

ہمادھو کو اندیش تھا ک و کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں ہ ہ ۔کا بڑا حص صاف کر د گا بوال ے ہ :

" اں ڈر لگتا ہے۔مجھ و ہ ے "

؟" ہےڈر کس بات کا

ی وں اں ہمیں تو ی ہ ہ "

" یں جا کر دیکھو نا ۔تو تم ہ "

" ےمیری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس ک یں، یں اور پھر مجھ س لجائ گی ک ن ال بھی ن ہپاس س ہ ے ے ہ ہ ے

وا بدن یں دیکھا، آج اس کا اگھڑا ہکبھی اس کا من ن ہ ہ و گی مجھ دیکھ ےدیکھوں اس تن کی سدھ بھی تو ن ۔ ہ ہ ے ۔

اتھ پاؤں بھی ن پٹک سک گی ۔ل گی تو کھل کر ے ہ ہ ے "

" و گا و گیا تو کیا وں ک کوئی بال بچ ۔میں سوچتا ہ ہ ہ ہ ہ یں گھر میں ۔سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو ن ہے ہ "

ہسب کچھ آ جائ گا بھگوان بچ دیں تو، جو لوگ ابھی" ۔ ے ی تب بال کر دیں گ میر یں، و یں د ر ےایک پیس ن ے۔ ہ ہ ہے ے ہ ہ

ر ، گھر میں کچھ بھی ن تھا، مگر اس طرح وئ ہتو لڑک ہ ے ہ ے ۔بار کام چل گیا "

ےجس سماج میں رات دن محنت کرن والوں کی حالت ان ت اچھی ن تھی اور کسانوں ک ےکی حالت س کچھ ب ہ ہ ے

ہمقابل میں و لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں س فائد ے ہ ے

Page 214: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں اس قسم ، و یں زیاد فارغ البال تھ ہاٹھانا جانت تھ ک ے ہ ہ ے ے یں تھی و جانا کوئی تعجب کی بات ن نیت کا پیدا ۔کی ذ ہ ہ ہ

یں گ گھسو کسانوں ک مقابل میں زیاد باریک ہم تو ک ے ے ے ہ ہون ی دماغ جمعیت میں شامل ےبین تھا اور کسانوں کی ت ہ ہ و ہک بدل شاطروں کی فتن پرداز جماعت میں شامل ہ ے ے

اں اس میں ی صالحیت ن تھی ک شاطروں ک ےگیا تھا ہ ہ ہ ہ ۔ اں اس کی ہآئین و آداب کی پابندی بھی کرتا اس لئ ی ج ہ ے ۔

وئ ےجماعت ک اور لوگ گاؤں ک سرغن اور مکھیا بن ہ ے ہ ے ے ا تھا پھر بھی ، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر ر ہتھ ے ی ک اگر و خست حال تو کم ہےاس ی تسکین تو تھی ہ ہ ہ ہ ہ ے یں ہس کم اس کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو ن ے ے ےکرنی پڑتی اور اس کی سادگی اور ب زبانی س دوسر ے ے

یں اٹھات جا فائد تو ن ے۔ب ہ ہ ے

ےدونوں آلو نکال نکال کر جلت جلت کھان لگ کل س ے۔ ے ے ے و یں ٹھنڈا یں کھایا تھا اتنا صبر ن تھا ک ان ہکچھ بھی ن ہ ہ ہ ۔ ہ ےجان دیں کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں چھل جان ۔ ۔ ے

وتا تھا لیکن ہپر آلو کا بیرونی حص تو زیاد گرم ن معلوم ہ ہ ہ ی اندر کا حص زبان اور حلق اور تالو ہدانتوں ک تل پڑت ہ ے ے ے ہکو جال دیتا تھا اور اس انگار کو من میں رکھن س زیاد ے ے ہ ے

اں اس نچ جائ و ےخیریت اسی میں تھی ک و اندر پ ہ ے۔ ہ ہ ہ ےٹھنڈا کرن ک لئ کافی سامان تھ اس لئ دونوں جلد ے۔ ے ے ے

ہجلد نگل جات تھ حاالنک اس کوشش میں ان کی ے ے ے۔آنکھوں س آنسو نکل آت ے

گھسو کو اس وقت ٹھا کر کی برات یاد آئی جس میںل و گیا تھا اس دعوت میں اس جو سیری ےبیس سال پ ۔ ہ ے ہ وئی تھی، و اس کی زندگی میں ایک یادگار واقع ہنصیب ہ ہ

یں ہتھی اور آج بھی اس کی یاد تاز تھی و بوال "و بھوج ن ہ ہ ۔ ہ یں ہبھولتا تب س پھر اس طرح کا کھانا اور بھرا پیٹ ن ے ۔ ےمال لڑکی والوں ن سب کو پوڑیاں کھالئی تھیں، سب ۔

ےکو چھوٹ بڑ سب ن پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی ے ے ۔ ، تین طرح ک سوکھ ساگ، ایک رس دار ےچٹنی، رائت ے ے ہ ی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں ک اس بھوج ہترکاری، د ہ و یں تھی جو چیز چا ہمیں کتنا سواد مال کوئی روک ن ہ ۔

و کھاؤ لوگوں ن ایسا کھایا، ایسا کھایا ےمانگو اور جتنا چا ۔ ہ یں ک ہک کسی س پانی ن پیا گیا، مگر پروسن وال ہ ے ے ہ ے ہ

Page 215: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں وئی کچوریاں ڈال دیت کتی ۔سامن گرم گول گول م ہ ے ہ ہ ے یں اور یں ک دئ جات ئ مگر و یں چا یں ن ہمنع کرت ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہجب سب ن من دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی مال مگر ے وا جاتا تھا اں سدھ تھی کھڑا ن ۔مجھ پان لین کی ک ہ ہ ۔ ہ ے ے

ہجھٹ پٹ جا کر اپن کمبل پر لیٹ گیا ایسا دریا دل تھا و ۔ ے ۔ٹھا کر "

میں کوئی ا "اب وئ ک ہمادھو ن ان تکلفات کا مزا لیت ہ ے ہ ے ے ۔ایسا بھوج کھالتا "

۔اب کوئی کیا کھالئ گا؟" و جمانا دوسرا تھا اب تو سب" ہ ے ہکو کھبایت سوجھتی سادی بیا میں مت کھرچ کرو، ہے۔

۔کریا کرم میں مت کھرچ کرو پوچھو گریبوں کا مال بٹور یں اں رکھو گ مگر بٹورن میں تو کمی ن ہے۔بٹور کر ک ہ ے ے۔ ہ

ہے۔اں کھرچ میں کبھایت سوجھتی "ہ

" وں گی ۔تم ن ایک بیس پوڑیاں کھائی ہ ے "

۔بیس س جیاد کھائی تھیں ہ ے "

" ۔میں پچاس کھا جاتا "

و ں گی، اچھا پٹھا" ہپچاس س کم میں ن بھی ن کھائی ہ ے ے " آلو کھا کر دونوں ن پانی یں ےتھا تو اس کا آدھا بھی ن ہے۔ ہ ۔

یں االؤ ک سامن اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں ےپیا اور و ے ہ ےپیٹ میں ڈال کر سو ر جیس دو بڑ بڑ اژدھا کنڈلیاں ے ے ہے

ی تھی وں اور بڑھیا ابھی تک کرا ر ۔مار پڑ ہ ہ ہ ے ے

ےصبح کو مادھو ن کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی ی و گئی تھی اس ک من پر مکھیاں بھنک ر ہبیوی ٹھنڈی ہ ے ۔ ہ

وئی تھیں سارا وئی آنکھیں اوپر ٹنگی ۔تھیں پتھرائی ہ ہ ۔ ا تھا اس ک پیٹ میں بچ و ر ہجسم خاک میں لت پت ے ۔ ہ ہ

۔مر گیا تھا

وا گھسو ک پاس آیا اور پھر دونوں زور زور ےمادھو بھاگا ہ ائ کرن اور چھاتی پیٹن لگ پڑوس والوں ن ائ ےس ے۔ ے ے ے ہ ے ہ ے

l قدیم ک وئ آئ اور رسم ےی آ و زاری سنی تو دوڑت ے ے ہ ے ہ ہ ے۔مطابق غمزدوں کی تشفی کرن لگ ے

Page 216: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہمگر زیاد رون دھون کا موقع ن تھا کفن کی اور لکڑی ے ے ہ ہکی فکر کرنی تھی گھر میں تو پیس اس طرح غائب تھا ۔

۔جیس چیل ک گھونسل میں بانس ے ے ے

وئ گاؤں ک زمینداروں ک پاس گئ و ہباپ بیٹ روت ے۔ ے ے ے ہ ے ے یں ہان دونوں کی صورت س نفرت کرت تھ کئی بار ان ے۔ ے ے اتھوں پیٹ چک تھ چوری کی علت میں، وعد پر ےاپن ے۔ ے ہ ے ۔کام ن کرن کی علت میں پوچھا "کیا ب گھسوا روتا ے ہے ۔ ے ہ یں آتی اب معلوم ی نظر ن ۔کیوں اب تو تیری صورت ہ ہ ہے۔

ت نا چا یں ر ے۔وتا تم اس گاؤں میں ن ہ ہ ہ ہے "ہ

ےگھسو ن زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرت ے وں مادھو کی گھر والی ا "سرکار بڑی بپت میں ۔وئ ک ہ ۔ ہ ے ہی سرکار آدھی رات تک ۔رات گجر گئی دن بھر تڑپتی ر ہ ۔ و ان بیٹھ ر دوا دارو جو کچھ ہم دونوں اس ک سر ہے۔ ے ے ہ ے ہمیں دگا د گئی اب کوئی ایک ۔سکا سب کیا مگر و ے ہ ہ

و گئ گھر اجڑ گیا آپ ا مالک تبا یں ر ۔روٹی دین واال ن ے۔ ہ ہ ۔ ہ ہ ے وں اب آپ ک سوا اس کی مٹی کون پار لگائ ےکا گالم ے ۔ ہ

اتھ میں جو کچھ تھا، و سب دوا دارو میں اٹھ مار ہگا ہ ے ہ ۔ و گی تو اس کی مٹی اٹھ گی ی کی دیا ۔گیا سرکار ے ہ ہ ۔

۔آپ ک سوا اور کس ک دوار پر جاؤں ے ے "

ےزمیندار صاحب رحمدل آدمی تھ مگر گھسو پر رحم کرنا ہہکال کمبل پر رنگ چڑھانا تھا جی میں تو آیا ک دیں "چل ۔ ے

اں س الش گھر میں رکھ کر سڑا یوں تو بالن و ی ےدور ۔ ے ہ ہ یں آتا آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر ۔س بھی ن ہ ے " مگر ی غص یا انتقام کا یں کا بدمعاش ا حرم خور ک ہر ہ ۔ ہ ہے ہ

~ دو روپ نکال کر پھینک دئ ا ~ و کر یں تھا طوعا ےموقع ن ے ہ ۔ ہ ۔مگر تشفی کا ایک کلم بھی من س ن نکاال اس کی ہ ے ہ ہ

و یں گویا سر کا بوجھ اتارا ۔طرف تاکا تک ن ہ ۔ ہ

ےجب زمیندار صاحب ن دو روپ دئ تو گاؤں ک بنئ ے ے ے ے وتی گھسو زمیندار اجنوں کو انکار کی جرأت کیونکر ۔م ہ ہ

ےک نام کا ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا کسی ن دو آن دئ ے ے ۔ ے ےکسی ن چار آن ایک گھنٹ میں گھسو ک پاس پانچ ے ے۔ ے

و گئی کسی ن غل د دیا، ےروپی کی معقول رقم جمع ہ ے ۔ ہ ہ ر کو گھسو اور مادھو بازار س ےکسی ن لکڑی اور دوپ ہ ے

ے۔کفن الن چل اور لوگ بانس وانس کاٹن لگ ے ے ے

Page 217: اردو ادب کے مشہور افسانے

گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر الش کو دیکھتی تھیںےاور اس کی ب بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی

۔تھیں

نچ کر گھسو بوال "لکڑی تو اس جالن بھر ےبازار میں پ ے ۔ ہ ۔کی مل گئی کیوں مادھو ہے "

ئ ت اب کفن چا اں لکڑی تو ب ے۔مادھو بوال " ہ ہے ہ ہ "

" لکا سا کفن ل لیں ۔تو کوئی ے ہ "

و جائ گی رات کو" ےاں اور کیا! الش اٹھت اٹھت رات ہ ے ے ہہے۔کفن کون دیکھتا "

ےکیسا برا روا ج ک جس جیت جی تن ڈھانکن کو" ے ے ہ ہے ئ ، اس مرن پر نیا کفن چا ے۔چیتھڑا ن مل ہ ے ے ے ہ "

ل ملت تو کچھ دوا ی پانچ روپ پ تا ی ےاور کیا رکھا ر ے ہ ے ہ ہے۔ ہ ے۔دارو کرت "

ےدونوں ایک دوسر ک دل کا ماجرا معنوی طور پر ے اں تک ہسمجھ ر تھ بازار میں ادھر ادھر گھومت ر ی ہے۔ ے ے۔ ہے ~ ایک شراب خان و گئی دونوں اتفاق س یا عمدا ےک شام ے ۔ ہ ہ

نچ اور گویا کسی ط شد فیصل ک ےک سامن آ پ ے ہ ے ے ہ ے ے اں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت ہمطابق اندر گئ و ے۔ ۔میں کھڑ ر پھر گھسو ن ایک بوتل شراب لی کچھ ے ہے۔ ے

ے۔گزک لی اور دونوں برآمد میں بیٹھ کر پین لگ ے ے

م پین ک بعد دونوں سرور میں آ گئ ے۔کئی کچناں پی ے ے ہ

ی تو جاتا ۔گھسو بوال "کفن لگان س کیا ملتا آکھر جل ہ ۔ ے ے و ک ساتھ تو ن جاتا ۔کچھ ب ہ ے ہ "

مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بوال گویا فرشتوں کوی و "دنیا کا دستور ی ا ہاپنی معصومیت کا یقین دال ر ہے۔ ۔ ہ ہ یں کون دیکھتا جاروں روپ کیوں دیت ۔لوگ باسنوں کو ہ ے ے ہ

یں ۔ پرلوک میں ملتا یا ن ہ ہے "ہے۔

مار پاس" ےبڑ آدمیوں ک پاس دھن پھونکیں، ہ ہے ے ے ہے۔پھونکن کو کیا ے "

Page 218: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ؟ لو گ پوچھیں گ ک ہلیکن لوگوں کو کیا جواب دو گ ے ے ؟ اں ہےکفن ک ہ "

نسا "ک دیں گ ک روپ کمر س کھسک گئ ےگھسو ے ے ہ ے ہہ ۔ ہ یں ت ڈھونڈا مل ن ۔ب ہ ے ۔ ہ "

نسا اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت ۔مادھو بھی ہ ۔کو اس طرح شکست دین پر بوال "بڑی اچھی تھی ے

۔بیچاری مری بھی تو خوب کھال پال کر "

و گئی گھسو ن دو سیر ےآدھی بوتل س زیاد ختم ۔ ہ ہ ے پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور چٹ پٹی کلیجیاں

وئی مچھلیاں ۔اور تلی ہ

ےشراب خان ک سامن دکان تھی، مادھو لپک کر دو ے ے و ہپتیلوں میں ساری چیزیں ل آیا پور ڈیڑھ روپ خرچ ے ے ۔ ے

ہے۔گئ صرف تھوڑ س پیس بچ ر ے ے ے ے۔ "

وئ پوریاں کھا ر ہےدونوں اس وقت اس شان س بیٹھ ے ہ ے ے و ن ا ہتھ جیس جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا ر ۔ ہ ہ ے ے

ی کا خوف تھا ن بدنامی کی فکر ضعف ک ان ےجواب د ۔ ہ ہ ل ط کر لیا تھا گھسو ت پ وں ن ب ۔مراحل کو ان ے ے ہ ہ ے ہ

ی تو و ر ماری آتما پرسن ہےفلسفیان انداز س بوال " ہ ہ ہ ۔ ے ہ و گا ۔کیا اس پن ن ہ ہ ے "

ےمادھو ن فرق صورت جھکا کر تصدیق کی"جرور س ے و اس بیکنٹھ و گا بھگوان تم انتر جامی (علیم) ےجرور ۔ ہ ۔ ہ یں آج جو رد س اس دعا د ر م دونوں ۔ل جانا ہ ہے ے ے ے ے ہ ہ ۔ ے

۔بھوجن مال و کبھی عمر بھر ن مال تھا ہ ہ "

ےایک لمح ک بعد مادھو ک دل میں ایک تشویش پیدا ے ہ اں ایک ن ایک دن م لوگ بھی تو و ہوئی بوال "کیوں دادا ہ ہ ۔ ہی" گھسو ن اس طفالن سوال کا کوئی جواب ہجائیں گ ے ہ ے

۔ن دیا مادھو کی طرف پر مالمت انداز س دیکھا ے ۔ ہ

میں کفن" م لوگوں س پوچھ گی ک تم ن اں ہجو و ے ہ ے ے ہ ہ ؟ یں گ ےکیوں ن دیا، تو کیا ک ہ ہ "

" ارا سر یں گ تم ۔ک ہ ے ہ "

" ۔پوچھ گی تو جرور ے "

Page 219: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےتو کیس جانتا اس کفن ن مل گا؟ مجھ اب گدھا" ے ہ ے ہے ے ا ہسمجھتا میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا ر ہے۔ ت اچھا مل گا، ےوں اس کو کفن مل گا اور اس س ب ہ ے ے ۔ ہ

م دیں گ ے۔جو ہ "

ےمادھو کو یقین ن آیا "بو ال کون د گا؟ روپ تو تم ن ے ے ۔ ہ ے۔چٹ کر دئ "

وں اس کفن مل گا تو مانتا تا و گیا "میں ک ےگھسو تیز ے ہ ہ ۔ ہ یں؟ ہکیوں ن "

" یں؟" ۔کون د گا، بتات کیوں ن ہ ے ے

" اں و روپ وں ن اب ک دیا ی لوگ دیں گ جن ےو ہ ہ ۔ ے ے ہ ے ہ اتھ ن آئیں گ اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ےمار ہ ہ ے ہ۔م اس طرح بیٹھ پئیں گ اور کفن تیسری بار ل گا ے ے ے "ہ

جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز۔وتی تھی، میخان کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی کوئی ے ہکتا تھا، کوئی اپن رفیق ک گل لپٹا جاتا ےگاتا تھا، کوئی ب ے ے ہ

۔تھا، کوئی اپن دوست ک من س ساغر لگائ دیتا تھا ے ے ہ ے ے وا میں نش کتن تو چلو اں کی فضا میں سرور تھا، ےو ہ۔ ہ ہ

اں آت تھ تو صرف خود یں ی و جات ی الو ےمیں ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ اں کی ہفراموشی کا مز لین ک لئ شراب س زیاد ی ہ ے ے۔ ے ے ہ اں کھینچ التی وت تھ زیست کی بال ی ہوا س مسرور ے۔ ے ہ ے ہیں ہتھی اور کچھ دیر ک لئ و بھول جات تھ ک و زند ہ ہ ہ ے ے ہ ے ے

یں یں یا زند در گور ۔یا مرد ہ ہ ہ ہ

ےاور ی دونوں باپ بیٹ اب بھی مز ل ل ک چسکیاں ے ے ے ے ہ وئی یں ان کی طرف جمی ہل ر تھ سب کی نگا ہ ے۔ ہے ے

یں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہتھیں کتن خوش نصیب ے ۔ ہے۔

وئی پوریوں کا تیل و کر مادھو ن بچی ہکھان س فارغ ے ہ ے ے ےاٹھا کر ایک بھکاری کو د دیا، جو کھڑا ان کی طرف

" ک غرور اور ا تھا اور "پین وں س دیکھ ر ےگرسن نگا ے ہ ے ہ ہ لی بار احساس ہمسرت اور ولول کا، اپنی زندگی میں پ ہ

ا "ل جا کھوب کھا اور آشیر باد د ےکیا گھسو ن ک ے ہ ے ۔ "

Page 220: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےجس کی کمائی تھی و تو مر گئی مگر تیرا اشیر باد اس ہ نچ جائ گا روئیں روئیں س اشیر باد د بڑی ےجرور پ ے ے ہ

یں ۔گاڑھی کمائی ک پیس ہ ے ے "

ا "و بیکنٹھ ہمادھو ن پھر آسمان کی طرف دیکھ کر ک ہ ے " گھسو کھڑا ۔میں جائ گی دادا بیکنٹھ کی رانی بن گی ے ۔ ے

وا بوال روں میں تیرتا ۔و گیا اور جیس مسرت کی ل ہ ہ ے ہاں بیٹا بیکنٹھ میں ن جائ گی تو کیا ی موٹ موٹ لو گ ے" ے ہ ے ہ ہ یں اور اتھ س لوٹت ، جو گریبوں کو دونوں ہجائیں گ ے ے ہ ے

یں اور ہاپن پاپ ک دھون ک لئ گنگا میں جات ے ے ے ے ے ے یں ۔مندروں میں جل چڑھات ہ ے "

ےی خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدالنش کی خاصیت س ہ ہ وا مادھو بوال "مگر داد بیچاری ن ےیاس اور غم کا دور ۔ ہ ہ

" ۔جندگی میں بڑا دکھ بھوگا مری بھی کتنی دکھ جھیل کر ۔ اتھ رکھ کر رون لگا ۔و اپنی آنکھوں پر ے ہ ہ

و ک و مایا ہگھسو ن سمجھایا "کیوں روتا بیٹا! کھس ہ ہ ہے ے و گئی جنجال س چھوٹ گئی بڑی ۔جال س مکت ے ۔ ہ ے ےبھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا ک مو ک بندھن توڑ ہ ے

ے۔دئ "

و کر گان لگ یں کھڑ ےاور دونوں و ے ہ ے ہ

ےٹھگنی کیوں نیناں جھمکا د ٹھگنی

ےسارا میخان محوl تماشا تھا اور ی دونوں م کش مخمور ہ ہ ےمحویت ک عالم میں گائ جات تھ پھر دونوں ناچن ے۔ ے ے ے

ےلگ اچھل بھی، کود بھی، گر بھی، مٹک بھی، بھاؤ ے ے ے ے۔ یں گر پڑ و کر و ے۔بھی بتائ اور آخر نش س بد مست ہ ہ ے ے ے

کالی شلوار

(سعادت حسن منٹو)

اں ل و انبال چھاؤنی میں تھی، ج لی س آن س پ ہد ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ک تھ ان گوروں س ملن جلن ےکئی گور اس ک گا ے ے ے۔ ہ ے ے

۔ک باعث و انگریزی ک دس پندر جمل سیکھ گئی تھی ے ہ ے ہ ے یں کرتی تھی لیکن ہان کو و عام گفتگو میں استعمال ن ہ

Page 221: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں آئی اور اس کا کاروبار ن چال تو ایک روز اس ہجب و ی ہ ہ ا "دlس لیف ویری ۔ن اپنی پڑوسن طمنچ جان س ک ہ ے ہ ے

یں ی کو ن ، جبک کھان ت بری " یعنی ی زندگی ب ہبیڈ ہ ے ہ ہے ہ ہ ۔ ۔ملتا

ت اچھا چلتا تھا چھاؤنی ۔انبال چھاؤنی میں اس کا دھندا ب ہ ہ ہک گور شراب پی کر اس ک پاس آ جات تھ اور و ے ے ے ے ے

ی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس ہتین چار گھنٹوں میں م وطنوں ، اس ک ہتیس روپ پیدا کرتی تھی ی گور ے ے ہ ۔ ے یں ک و ہک مقابل میں اچھ تھ اس میں کوئی شک ن ہ ہ ے۔ ے ے ے ہایسی زبان بولت تھ جس کا مطلب سلطان کی سمجھ ے ے

یں آتا تھا مگر ان کی زبان س ی العلمی اس ک ےمیں ن ہ ے ہ وتی تھی اگر و اس س کچھ ت اچھی ثابت ےحق میں ب ہ ۔ ہ ہ

ماری ت تو و ک دیا کرتی تھی "صاحب ہرعایت چا ۔ ہہ ہ ے ہ " اور اگر و اس س یں آتی اری بات ن ےسمجھ میں تم ہ ۔ ہ ہ

ہضرورت س زیاد چھیڑ چھاڑ کرت تو و اپنی زبان میں ے ہ ے ےگالیاں دینی شروع کر دیتی تھی و حیرت میں اس ک ہ ۔

تی "صاحب! تم ایک دم الو ۔من کی طرف دیکھت تو و ک ہ ہ ے ہ ج میں ت وقت و ل " ی ک ، سمجھا ، حرامزاد ہکا پٹھا ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہے ہ ہے ےسختی پیدا ن کرتی بلک بڑ پیار ک ساتھ ان س باتیں ے ے ہ ہ نست وقت و سلطان کو نس دیت اور ہکرتی گور ہ ے ہ ے ہ ے ۔

ے۔بالکل الو ک پٹھ دکھائی دیت ے ے

لی میں و جب س آئی تھی ایک بھی گورا اں د ےمگر ی ہ ہ ہ ندوستان ک ین اس کو یں آیا تھا تین م اں ن ےاس ک ی ہ ے ہ ۔ ہ ہ ے

اں اس ن ی سنا تھا ک و گئ تھ ج ت ر میں ر ہاس ش ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ہ یں مگر صرف چھ آدمی اس ک ت ےبڑ الٹ صاحب ر ہ ے ہ ے

ین میں دو اور ان چھ ےپاس آئ تھ صرف چھ، یعنی م ہ ے۔ ے کوں س خدا جھوٹ ن بلوائ ساڑھ اٹھار روپ ےگا ہ ے ے ہ ے ہ

۔وصول کئ تھ تین روپ س زیاد پر کوئی ن مانتا تھا ہ ہ ے ے ے۔ ے ےسلطان ن ان میں س پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپ ے ے ہ ر ایک ن ےبتالیا تھا مگر تعجب کی بات ک ان میں س ہ ے ہ ہے

یں دیں م تین روپ س ایک کوڑی زیاد ن ا "بھئی ی ک ہی ہ ے ے ہ ہ ہ ر ایک ن اس " جان کیا بات تھی ک ان میں س ےگ ے ہ ے ہ ے ے۔

ےتین روپ ک قابل سمجھا چنانچ جب چھٹا آیا تو اس ن ہ ۔ ے ے "دیکھو میں تین روپ ایک ٹیم ک لوں گی؛ ا ےخود اس ک ے ۔ ہ

و تو میں ن لوں گی اب ۔اس س ایک دھیال تم کم ک ہ ہ ے

Page 222: اردو ادب کے مشہور افسانے

" چھٹ آدمی ن ی سن و ورن جاؤ و تو ر اری مرضی ہتم ے ے ۔ ہ ہ ہ ہ ر گیا جب دوسر اں ٹھ ےکر تکرار ن کی اور اس ک ۔ ہ ہ ے ہ

ہکمر میں درواز بند کر ک اپنا کوٹ اتارن لگا تو سلطان ے ے ہ ے " اس ن ایک روپی تو ن ا "الیئ ایک روپ دودھ کا ہن ک ہ ے ۔ ے ے ہ ے وئی چونی جیب میں س ےدیا لیکن نئ بادشا کی چمکتی ہ ہ ے ےنکال کر اس کو د دی اور سلطان ن بھی چپک س ل ے ے ے ہ ے

ہے۔لی ک چلو جو آیا مال غنیمت ہ

ینوں میں بیس روپ وار تین م ےساڑھ اٹھار روپ ما ہ ہ ے ہ ے وار تو اس کوٹھ کا کرای تھا جس کو مالک انگریزی ہما ے ہ تا تھا اس فلیٹ میں ایسا پاخان تھا ہزبان میں فلیٹ ک ۔ ہ

ےجس میں زنجیر کھینچن س ساری گندگی پانی ک زور ے ے وتا و جاتی تھی اور بڑا شور ہس ایک دم نل میں غائب ہ ے ت ڈرایا تھا ۔تھا شروع شروع میں تو اس شور ن اس ب ہ ے ے ۔ ل دن جب و رفع حاجت ک لئ اس پاخان میں گئی تو ہپ ے ے ہ ے ہ و کر جب ا تھا فارغ و ر ہاس کی کمر میں شدت کا درد ہ ہ ارا ل لیا وئی زنجیر کا س ۔اٹھن لگی تو اس ن لٹکتی ے ہ ہ ے ے

ہاس زنجیر کو دیکھ کر اس ن ی خیال کیا چونک ی مکان ہ ہ ے ائش ک لئ تیار کئ کئ م لوگوں کی ر ےخاص طور س ے ے ے ہ ہ ے یں، ی زنجیر اس لئ لٹکائی گئی ک اٹھت وقت ےگئ ہ ہے ے ہ ہ ے

ی زنجیر پکڑ ارا مل جایا کر مگر جون و اور س ہتکلیف ن ے۔ ہ ہ ہ وئی اور پھر ایک ا اوپر کھٹ کھٹ سی ہکر اس ن اٹھنا چا ہ ے ر نکال ک ڈر ک مار اس ےدم پانی اس شور ک ساتھ با ے ہ ہ ے

۔ک من س چیخ نکل گئی ے ہ ے

ےخدا بخش دوسر کمر میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان ے ائیڈرو کونین ا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہدرست کر ر ہ ر ا تھا ک اس ن سلطان کی چیخ سنی دوڑ کر با ہڈال ر ۔ ہ ے ہ ہ اری تھی واچیخ تم ن لگا "کیا ۔نکال اور سلطان س ک ہ ہ ے ہ ے ہ "

ا تھا "ی موا پیخان کیابیچ میں ی ہسلطان کا دل دھڑک ر ہے ہ ہ ۔ ہ ہ ہے۔ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی میری کمر ارا ل لوں گی پر ا چلو اس کا س ۔میں درد تھا میں ن ک ے ہ ہ ے ۔ وا ک میں ہاس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا ک ایسا دھماکا ہ ہ

وں ۔تم س کیا ک ہ ے "

نسا تھا اور اس ن سلطان کو اس ت ہاس پر خدا بخش ب ے ہ ہ ہےپیخان کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا ک ی نئ فیشن کا ے ہ ہ ہ

Page 223: اردو ادب کے مشہور افسانے

الن س سب گندگی نیچ زمین میں ےجس میں زنجیر ے ے ہ ہے۔دھنس جاتی

وا ی ہخدابخش اور سلطان کا آپس میں کیس سمبندھ ہ ے ہ انی خدا بخش راولپنڈی کا تھا انٹرنس ۔ایک لمبی ک ہے۔ ہ ہپاس کرن ک بعد اس ن الری چالنا سیکھا چنانچ چار ۔ ے ے ے ےبرس تک و راولپنڈی اور کشمیر ک درمیان الری چالن ے ہ

ا اس ک بعد کشمیر میں اس کی دوستی ےکا کام کرتا ر ۔ ہ ور ل آیا و گئی اس کو بھگا کر و ال ۔ایک عورت س ے ہ ہ ۔ ہ ے ور میں چونک اس کو کوئی کام ن مال اس لئ اس ن ےال ے ہ ہ ہ

ہاس عورت کو پیش پر بٹھا دیا دو تین برس تک ی سلسل ہ ۔ ے ا اور و عورت کسی اور ک ساتھ بھاگ گئی خدا ۔چلتا ر ے ہ ہ وا ک و انبال میں و اس کی تالش ہبخش کو معلوم ہے ہ ہ ہ ہ

ےمیں انبال آیا اس کو سلطان مل گئی سلطان ن اس کو ہ ۔ ہ ۔ ہ و گیا ۔پسند کیا چنانچ دونوں کا سمبندھ ہ ہ

ہخدابخش ک آن س ایک دم سلطان کا کاروبار چمک ے ے ے ےاٹھا عورت چونک ضعیف االعتقاد تھی اس لئ اس ن ے ہ ۔

ےسمجھا ک خدا بخش بڑا بھاگوان جس ک آن س اتنی ے ے ہے ہ و گئی چنانچ اس خوش اعتقادی ن خدا بخش کی ےترقی ہ ہ

۔وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی

اتھ دھر اتھ پر ہخدا بخش آدمی محنتی تھا و سارا دن ہ ہ ۔ یں کرتا تھا چنانچ اس ن ایک فوٹو گرافر ےکر بیٹھنا پسند ن ہ ہ

ر منٹ ہس دوستی پیداکی جو ریلو اسٹیشن ک با ے ے ے ےکیمر س فوٹو کھینچا کرتا تھا اس س اس ن فوٹو ے ۔ ے ے ےکھینچنا سیکھ لیا پھر سلطان س ساٹھ روپ ل کر ے ے ہ ۔

ست ایک پرد بھی بنوایا دو ست آ ۔کیمر بھی خرید لیا آ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ےکرسیاں خریدیں اور فوٹو دھون کا سب سامان ل کر ے

۔اس ن علیحد اپنا کام شروع کر دیا ہ ے

ی عرص بعد اپنا اڈا ہکام چل نکال چنانچ اس ن تھوڑ ہ ے ے ہ اں و گوروں ک فوٹو ےانبال چھاؤنی میں قائم کر دیا ی ہ ہ ۔ ہ ین ک اندر اندر اس کی چھاؤنی ک تا ایک م ےکھینچتا ر ے ے ہ ۔ ہ و گئی چنانچ و سلطان کو ہمتعدد لوگوں س واقفیت ہ ہ ہ ے اں چھاؤنی میں خدا بخش ک ذریع س یں ل گیا ی ےو ے ے ہ ۔ ے ہ

ک بن گئ اور اس کی ےکئی گور سلطان ک مستقل گا ہ ے ہ ے و گئی ل س دو گنی ۔آمدنی پ ہ ے ے ہ

Page 224: اردو ادب کے مشہور افسانے

، ساڑھ پانچ تول ہسلطان ن کانوں ک لئ بند خرید ے ے ے ے ے ے ہ ہکی آٹھ کنگنیاں بھی بنوا لیں، دس پندر اچھی اچھی

ہساڑھیاں بھی جمع کر لیں گھر میں فرنیچر وغیر بھی ۔ ہآگیا قص مختصر ی ک انبال چھاؤنی میں و بڑی خوش ہ ہ ہ ہ ۔ ےحال تھی مگر ایکا ایکی ن جان خدا بخش ک دل میں ے ہ ۔ لی جان کی ٹھان لی سلطان ہکیا سمائی ک اس ن د ۔ ے ہ ے ہ ت ہانکار کیس کرتی جبک و خدا بخش کو اپن لئ ب ے ے ہ ہ ے

لی جانا ہمبارک خیال کرتی تھی اس ن خوشی خوشی د ے ۔ ر ہقبول کر لیا بلک اس ن ی بھی سوچا ک اتن بڑ ش ے ے ہ ہ ے ہ

یں اس کا دھندا اور بھی اچھا ت اں الٹ صاحب ر ہمیں ج ے ہ ہ ر کی تعریف سن لی ش یلیوں س و د ہچل گا اپنی س ہ ہ ے ہ ۔ ے اں حضرت نظام الدین اولیاءکی خانقا ہچکی تھی پھر و ہ ۔ ہتھی جس س اس ب حد عقیدت تھی چنانچ جلدی ے ے ے

ےجلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش ک نچ کر خدا بخش ن بیس روپ اں پ لی آ گئی ی ےساتھ د ے ہ ہ ۔ ہ

وار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ ل لیا جس میں و دونوں ہما ے ہ ی قسم ک نئ مکانوں کی لمبی سی ن لگ ایک ےر ے ہ ے۔ ے ہ ۔قطار سڑک ک ساتھ ساتھ چلی گئی تھی میونسپل ے

ر کا ی حص خاص کسبیوں ک لئ مقرر کر ےکمیٹی ن ش ے ہ ہ ہ ے ر میں جگ جگ اپن اڈ ن بنائیں نیچ ےدیا تھا تاک و ش ۔ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہ

ائشی فلیٹ تھ چونک ہدکانیں تھیں اور اوپر دو منزل ر ے۔ ہ ہ ی ڈیزائن کی تھیں اس لئ شروع ےسب عمارتیں ایک ہ ت ہشروع میں سلطان کو اپنا فلیٹ تالش کرن میں ب ے ہ وتی تھی، پر جب نیچ النڈری وال ن ےدقت محسوس ے ے ہ

اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکیاں میل کپڑوں کی دھالئی کی جاتی ےنشانی مل گئی "ی ہ ۔ ی و اپنا فلیٹ تالش کر لیا کرتی تھی ۔" ی بورڈ پڑھت ہ ہ ے ہ ہے۔

ت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں ہاسی طرح اس ن اور ب ے اں کوئلوں کی دکان لکھا تھا ~ بڑ بڑ حروف میں ج ہمثال ے ے تی تھی جو کبھی کبھی یرا بالی ر یلی اں اس کی س ہو ہ ہ ہ اں "شرفاء ک کھان ےریڈیو میں گان جایا کرتی تھی ج ے ہ ۔ ے

یلی اں اس کی دوسری س " لکھا تھا و ہکا اعلیP انتظام ہ ہے تی تی تھی نواڑ ک کارخان ک اوپر انوری ر ہمختار ر ے ے ے ۔ ہ ہتھی جو اس کارخان ک سیٹھ ک پاس مالزم تھی چونک ے ے ے ےسیٹھ صاحب کو رات ک وقت کارخان کی دیکھ بھال ے

Page 225: اردو ادب کے مشہور افسانے

ت ی ر وتی تھی اس لئ و رات کو انوری ک پاس ےکرنا ہ ہ ے ہ ے ہ ے۔تھ

یں چنانچ جب ایک ی آت ک تھوڑ ی گا ہدکان کھولت ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ی سوچ کر اپن ی تو اس ن ی ین تک سلطان بیکار ر ےم ہ ے ہ ہ ے ہ

ین گزر گئ اور کوئی اس ےدل کو تسلی دی پر جب دو م ے ہ وئی اس ن خدا ت تشویش ےک کوٹھ پر ن آیا تو اس ب ۔ ہ ہ ے ہ ے ے و ین آج پور ا "کیا بات خدا بخش! دو م ہبخش س ک ے ے ہ ہے ۔ ہ ے یں ی ن ، کسی ن ادھر کا رخ وئ اں آئ میں ی یں ہگئ ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے یں ت مندا پر اتنا بھی تو ن وں آج کل بازار ب ہکیامانتی ہے ہ ہ

" خدا ی دیکھن ن آئ ین بھر میں کوئی شکل ے۔ک م ہ ے ہ ے ہ ہ ی تھی، مگر ت عرص س کھٹک ر ہبخش کو بھی ی بات ب ے ے ہ ہ ےو خاموش تھا پر جب سلطان ن خود بات چھیڑی تو اس ہ ہ وں ایک ا ا "میں کئی دن س اس کی بابت سوچ ر ۔ن ک ہ ہ ے ہ ے

ہبات میری سمجھ میں آئی و ی ک لوگ باگ جنگ ہ ہ ہے ےدھندوں میں پڑن کی وج س بھاگ کر دوسر دھندوں ے ہ ے

و سکتا ک یا پھر ی ہمیں ادھر کا راست بھول گئ ہے ہ ہ ے ہ "

ی واال تھا ک سیڑھیوں پر ن ہو اس س آگ کچھ ک ہ ے ہ ے ے ہ ہکسی ک چڑھن کی آواز آئی خدا بخش اور سلطان ۔ ے ے

وئ تھوڑی دیر ک بعد ےدونوں اس آواز کی طرف متوج ے۔ ہ ہ وئی خدا بخش ن لپک کر درواز کھوال ایک آدمی ۔دستک ہ ے ۔ ہ

ک تھا جس س تین روپ میں ال گا وا ی پ ےاندر داخل ے ہ ہ ہ ۔ ہ ین وا اس ک بعد پانچ اور آئ یعنی تین م ےسودا ط ہ ے ے ۔ ہ ے ےمیں چھ، جن س سلطان ن صرف ساڑھ اٹھار روپ ہ ے ے ہ ے

ے۔وصول کئ

وار تو فلیٹ ک کرای میں چل جات تھ ے۔بیس روپ ما ے ے ہ ے ہ ے ہپانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا اس ک عالو گھر ے ۔ ے۔ک دوسر خرچ تھ کھانا پینا کپڑ لت دوا اور دارو اور ے ے ے ے ینوں میں یں ساڑھ اٹھار روپ تین م ہآمدن کچھ بھی ن ے ہ ے ۔ ہ و یں ک سکت سلطان پریشان ہآئیں تو اس آمدن تو ن ہ ے۔ ہہ ہ ے ہگئی ساڑھ پانچ تول کی آٹھ کنگنیاں جو اس ن انبال ے ے ے ۔ ست بک گئیں آخری کنگنی کی ست آ ۔میں بنوائیں تھیں آ ہ ہ ہ ہ ا "تم میری ۔جب باری آئی تو اس ن خدا بخش س ک ہ ے ے

و گا، پر اں کیا دھرا بھئی ، ی ہسنو اور چلو واپس انبال ہے۔ ہ ہ اں خوب چلتا تھا، ارا کام و یں تم ر راس ن ہمیں تو ی ش ہ ۔ ہ ہ ہ ہوا اس کو اپنا سر صدق یں، جو نقصان یں چلت ہچلو و ہے ہ ہ ے ہ

Page 226: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہسمجھو ی آخری کنگنی بیچ کر آؤ میں اسباب وغیر باندھ ہ ۔ اں س چل وں آج را ت کی گاڑی س ی ےکر تیار رکھتی ہ ے ۔ ہ

ے۔دیں گ "

ا اتھ س ل لی اور ک ہخدابخش ن کنگنی سلطان ک ے ے ہ ے ہ ے لی میں ر یں د یں جائیں گ ی یں جانl من! انبال اب ن ہ"ن ہ ہ ے ہ ہ ہ

یں اری چوڑیاں سب کی سب ی ہکر کمائیں گ ی تم ہ ہ ے۔ ہے۔واپس آئیں گی الل پر بھروس رکھو، و بڑا کارساز ہ ہ ہ ۔ ی د گا اں پر بھی کوئی ن کوئی اسباب بنا ۔ی ے ہ ہ ہ "

اتھ س اتر ی چنانچ آخری کنگنی بھی و ر ےسلطان چپ ہ ہ ہ ہ ہ وتا تھا پر کیا ت رنج اتھ دیکھ کر اس کو ب ہگئی بچ ہ ہ ے ۔

۔کرتی پیٹ کو بھی آخر کسی حیل بھرنا تھا ے

ین گزر گئ اور آمدن خرچ ک مقابل میں ےجب پانچ م ے ے ے ہ ی تو سلطان کی پریشانی ہچوتھائی س بھی کچھ کم ر ہ ے ےاور زیاد بڑھ گئی خدا بخش بھی سارا دن اب گھر س ۔ ہ

ن لگا سلطان کو اس کا بھی دکھ تھا اس میں ۔غائب ر ہ ۔ ے ہ یں ک پڑوس میں اس کی دو تین ملن والیاں ےکوئی شک ن ہ ہ ر ہموجود تھیں جن ک ساتھ و وقت کاٹ سکتی تھی پر ۔ ہ ے ت برا نا اس کو ب اں جانا اور گھنٹوں بیٹھ ر ہروز ان ک ی ہ ے ہ ے یلیوں س ملنا جلنا ےلگتا تھا چنانچ رفت رفت اس ن ان س ہ ے ہ ہ ہ ےبالکل ترک کر دیا سارا دن و اپن سنسان مکان میں ہ ۔

تی، کبھی اپن پران اور تی، کبھی چھالی کاٹتی ر ےبیٹھی ر ے ہ ہ ہ تی اور کبھی بالکونی میں آ ہپھٹ پران کپڑوں کو سیتی ر ے ے

و جاتی تھی اور سامن ریلو ےکر جنگل ک پاس کھڑی ے ہ ے ے ےشیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں ب

تی ۔مطلب دیکھتی ر ہ

ےسڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کون س ے اتھ کو لو کی چھت ک ن وا تھا دا ےاس کون تک پھیال ہے ہ ے ہ ۔ ہ ے ر قسم ک تی تھیں اور ےنیچ بڑی بڑی گانٹھیں پڑی ر ہ ہ ے

اتھ کو کھال ت تھ بائیں ہمال اسباب ک ڈھیر لگ ر ے۔ ے ہ ے ے وئی ہمیدان تھا جس میں ب شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ے ےتھیں دھوپ میں لو کی ی پٹڑیاں چمکتیں تو سلطان اپن ہ ہ ہے ۔

ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل انتی تھیں اس لمب اور کھل ےپٹڑیوں کی طرح ابھری ر ے ۔ ہ تی تھیں ر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی ر ۔میدان میں ہ ہ

Page 227: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔کبھی ادھر کبھی ادھر ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک تی تھیں صبح ۔چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی ر ہ ہسویر جب و اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب ے

ےسماں اس نظر آتا دھندلک میں انجنوں ک من س ہ ے ے ۔ ے ےگاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدل آسمان کی جانب موٹ ے ےاور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا بھاپ ک ۔ ےبڑ بڑ بال بھی ایک عجیب شور ک ساتھ پٹڑیوں س ے ے ے وا ک اندر گھل مل جات تھ ول ول ےاٹھت تھ اور ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ے

ےپھر کبھی کبھی جب و گاڑی ک کسی ڈب کو جس انجن ے ے ہ وں اکیل پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی ےن دھکا د کر چھوڑ دیا ہ ے ے

ےتو اس اپنا خیال آتا و سوچتی ک اس بھی کسی ن ے ہ ہ ۔ ے ی ہے۔پٹڑی پر دھکا د کر چھوڑ دیا اور خود بخود جا ر ہ ہے ے ن ی یں اور و چلی جا ر ہدوسر لوگ کانٹ بدل ر ہے ہ ہ ہ ہے ے ے

اں پھر ایک روز ایسا آئ گا ک جب اس دھک کا ےجان ک ہ ے ۔ ہ ے یں رک جائ گی و جائ گا اور و ک ست ختم ست آ ےزور آ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ

و ۔کسی ایس مقام پر جو اس کا دیکھا بھاال ن ہ ہ ے

ےیوں تو ب مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی پٹڑیوں اور تی تھی وئ انجنوں کی طرف دیکھتی ر ر اور چلت ہٹھ ے ہ ے ے ہ

ت تھ ے۔پر طرح طرح ک خیات اس ک دماغ میں آت ر ے ہ ے ے ے تی تھی تو اسٹیشن ک پاس ےانبال چھاؤنی میں جب و ر ہ ہ ہ اں اس ن کبھی ان چیزوں کو ےی اس کا مکان تھا مگر و ہ ہیں دیکھا تھا اب تو کبھی کبھی اس ۔ایسی نظروں س ن ہ ے

ےک دماغ میں ی بھی خیال آتا ک جو سامن ریل کی ہ ہ ے وا اور جگ جگ س بھاپ اور ےپٹڑیوں کا جال سا بچھا ہ ہ ہے ہ

یں ت سی گاڑیاں ت بڑا چکل ب ا ایک ب ہدھواں اٹھ ر ہ ہے۔ ہ ہ ہے ہ یں ت ۔جن کو چند موٹ موٹ انجن ادھر ادھر دھکیلت ر ہ ے ہ ے ے ے

وت جو ےسلطان کو بعض اوقات ی انجن سیٹھ معلوم ہ ہ ہ اں آیا کرت تھ پھر کبھی ےکبھی کبھی انبال میں اس ک ے ہ ے ہ ست گاڑیوں کی قطار ست آ ہکبھی جب و کسی انجن کو آ ہ ہ ہ ہ

وتا ک ہک پاس گزرتا دیکھتی تو اس ایسا محسوس ہ ے ے ےکوئی آدمی چکل ک کسی بازار میں س اوپر کوٹھوں ے ے

ا ہے۔کی طرف دیکھتا جا ر ہ

ہسلطان سمجھتی تھی ک ایسی باتیں سوچنا دماغ کی ہ ، چنانچ جب اس قسم ک خیاالت اس ےخرابی کا باعث ہ ہے

Page 228: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔کو آن لگ تو اس ن بالکونی میں جانا چھوڑ دیا خدا ے ے ے ا دیکھو، میر حال پر رحم ا ک ےبخش س اس ن با ر ہ ہ ے ے اں بیماروں ا کرو میں سارا دن ی اں گھر میں ر ہکرو ی ۔ ہ ہ ۔ ر بار سلطان س ی وں مگر اس ن تی ہکی طرح پڑی ر ے ہ ہ ے ہ ہ

ر کمان کی ےک کر اس کی تشفی کر دی "جان من میں با ہ ہہ و ا تو چند دنوں میں بیڑا پار وں الل ن چا ا ہفکر کر ر ہ ے ہ ۔ ہ ہ

۔جائ گا ے "

و گئ تھ مگر ابھی تک ن سلطان کا بیڑا ین ہپور پانچ م ہ ے ے ہ ے ہ ے ا تھا مگر ین آ ر وا تھا اور ن خدا بخش کا محرم کا م ہپار ہ ہ ۔ ہ ہ ۔سلطان ک پاس کال کپڑ بنوان ک لئ کچھ بھی ن تھا ہ ے ے ے ے ے ے ہ یملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی ہمختار ن لیڈی ے

ےتھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں اس ک ۔ ےساتھ میچ کرن ک لئ اس ک پاس کالی ساٹن کی ے ے ے ےشلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی انور ی ن ۔

۔ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی ا تھا و اس ساڑھی ک نیچ سفید ےاس ن سلطان س ک ے ہ ہ ے ہ ے

ن گی کیونک ی نیا فیشن اس ہے۔بوسکی کا کوٹ پ ہ ہ ے ہ نن کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا ےساڑھی ک ساتھ پ ہ ے ہالئی تھی جو بڑا نازک تھا سلطان ن جب ی تمام چیزیں ے ہ ۔

ت دکھ دیا ک و ہدیکھیں تو اس کو اس احساس ن ب ہ ہ ے ےمحرم منان ک لئ ایسا لباس خریدن کی استطاعت ے ے ے

یں رکھتی ۔ن ہ

ہانوری اور مختار ک پاس ی لباس دیکھ کر جب و گھر ہ ے وتا ت مغموم تھا اس ایسا معلوم ہآئی تو اس کا دل ب ے ۔ ہ و گیا گھر بالکل ہے۔تھا ک ایک پھوڑا سا اس ک اندر پیدا ہ ے ہ ر تھا دیر تک و ہخالی تھا خدا بخش بھی حسب معمول با ۔ ہ ۔ ی پر جب ہدری پر گاؤ تکی کو سر ک نیچ رکھ لیٹی ر ے ے ے ہ ہاس کی گردن اونچائی ک باعث اکڑ سی گئی تو و اٹھ ے

ےکر بالکونی میں چلی گئی تاک غم افزا خیاالت کو اپن ہ ے۔دماغ س نکال د ے

ے۔سامن پٹڑیوں پر گاڑیوں ک ڈب کھڑ تھ پر انجن ے ے ے ے وچکا تھا یں تھا شام کا وقت تھا چھڑکاؤ ۔کوئی بھی ن ہ ۔ ہ ےاس لئ گرد و غبار دب گیا تھا بازار میں ایس آدمی ۔ ے

و گئ تھ جو تانک جھانک کرن ک بعد چپ ےچلن شروع ے ے ے ہ ے

Page 229: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ایک آدمی ن یں ایس ےچاپ گھروں کا رخ کرت ہ ے ۔ ہ ے ۔گردن اونچی کر ک سلطان کی طرف دیکھا ہ ے

ےسلطان مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونک سامن ہ ہ و گیا تھا سلطان ن غور س ےپٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ے ہ ۔ ہ ست ی خیال ست آ ہاس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آ ہ ہ ہ ہ ےدماغ س نکالن کی خاطر جب اس ن پھر سڑک کی ے ے

ی آدمی بیل گاڑیوں ک پاس کھڑا نظر ےطرف دیکھا تو و ہ ی جس ن اس کی طرف للچائی نظروں س دیکھا ےآیا و ے ہ ۔

اتھ س اس اشار کیا اس آدمی ن ےتھا سلطان ن ۔ ہ ے ے ہ ے ہ ۔ اتھ ک اشار س پوچھا "کدھر س ےادھر ادھر دیکھ کر ے ے ے ہ

ہآؤں؟" سلطان ن اس راست بتا دیا و آدمی تھوڑی دیر ۔ ہ ے ے ہ ا مگر بڑی پھرتی س اوپر چال آیا ۔کھڑا ر ے ہ

ےسلطان ن اس دری پر بٹھایا جب و بیٹھ گیا تو اس ن ہ ے ے ہ وئ ا "آپ اوپر آت ےسلسل گفتگو شروع کرن ک لئ ک ہ ے ہ ے ے ے ہ یں کیس " و آدمی ی سن کر مسکرایا "تم ےڈر ر تھ ہ ۔ ہ ہ ے۔ ہے ی کیا تھی؟" اس پر سلطان ن واڈرن کی بات ےمعلوم ہ ہ ے ہ

یں کھڑ ر ا ک آپ دیر تک و ا ک "ی میں ن اس لئ ک ہےک ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ " و ی سن کر مسکرا دیا ہاور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئ ہ ے۔ ار اوپر وال فلیٹ کی وئی میں تم می یں غلط ف ے"تم ے ہ ۔ ہ ہ ہ اں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ا تھا و ہطرف دیکھ ر ۔ ہ ی تھی مجھ ی منظر پسند آیا پھر بالکونی ہٹھینگا دکھا ر ے ۔ ہ ر وا تو میں کچھ دیر ک لئ اور ٹھ ہمیں سبز بلب روشن ے ے ہ

ت پسند آنکھوں کو اچھی ہے۔گیا سبز روشنی مجھ ب ہ ے ۔ ہلگتی " ی ک کر اس ن کمر کا جائز لینا شروع کر ے ے ہہ ہ ہے۔

" یں وا سلطان ن پوچھا "آپ جا ر ۔دیا پھر و اٹھ کھڑا ہ ہے ے ہ ۔ ہ ہ ۔ ار اس مکان کو دیکھنا یں میں تم ےآدمی ن جواب دیا "ن ہ ہ ۔ ے

وںچلو مجھ تمام کمر دکھا تا ۔چا ے ے ہ ہ "

ے۔سلطان ن اس کو تینوں کمر ایک ایک کر ک دکھا دئ ے ے ے ہ ۔اس آدمی ن بالکل خاموشی س ان کمروں کا جائز لیا ہ ے ے

ل بیٹھ اں پ ےجب و دنوں پھر اسی کمر میں آ گئ ج ے ہ ہ ے ہ ہ ا "میرا نام شنکر ہے۔تھ تو اس آدمی ن ک ہ ے ے "

لی بار غور س شنکر کی طرف دیکھا و ہسلطان ن پ ۔ ے ہ ے ہ ۔متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا مگر ۔اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں

Page 230: اردو ادب کے مشہور افسانے

کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیداےوتی تھی گھٹا اور کسرتی بدن تھا کنپٹیوں پر اس ک ۔ ۔ ہ

ن تھا سفید قمیض و ر تھ گرم پتلون پ ۔بال سفید ے ہ ے۔ ہے ہ وا تھا ۔تھی جس کا کالر گردن پر س اوپر کو اٹھا ہ ے

وتا وا تھا ک معلوم ہشنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہ ہ ک اس احساس ن ےتھا شنکر کی بجائ سلطان گا ہے۔ ہ ہ ے

ےسلطان کو قدر پریشان کر دیا چنانچ اس ن شنکر س ے ہ ے ہ ا "فرمایئ ےک ہ "

۔شنکر بیٹھا تھا، ی سن کر لیٹ گیا "میں کیا فرماؤں، کچھ ہ " جب سلطان کچھ ن ی فرماؤ، بالیا تم ن مجھ ہتم ہ ے۔ ہے ے ہ

ےبولی تو اٹھ بیٹھا "میں سمجھا، لو اب مجھ س سنو جو ۔ ، میں ان لوگوں میں س ےکچھ تم ن سمجھا غلط ہے ہے ے

یں ڈاکٹروں کی طرح وں جو کچھ د جایا کرت یں ۔ن ہ ے ے ہ ہ ی ہمیری بھی فیس مجھ جب بالیا جائ تو فیس دینی ے ے ہے۔

ہے۔پڑتی "

ےسلطان ی سن کر چکرا گئی مگر اس ک باوجود اس ب ے ے ۔ ہ ہ نسی آ گئی ۔اختیار ہ

یں؟" ہآپ کیا کام کرت ے "

و ی جو تم لوگ کرت ۔شنکر ن جواب دیا "ی ہ ے ہ ے "

" یں کرتی ۔کیا؟" "میں میں کچھ بھی ن ہ "

" یں کرتا ۔میں بھی کچھ ن ہ "

وئیآپ کچھ ن کچھ ا "ی کوئی بات ن ہسلطان ن بھنا کر ک ہ ہ ہ ہ ے ہ وں گ ے۔تو ضرور کرت ہ ے "

ہشنکر ن بڑ اطمینان س جواب دیا "تم بھی کچھ ن ے ے ے و گی ۔کچھ ضرور کرتی ہ "

" وں ۔جھک مارتی ہ "

" ۔تو آؤ دونوں جھک ماریں "

Page 231: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں" وں مگر میں جھک مارن ک دام کبھی ن ہمیں حاضر ے ے ۔ ہ ۔دیا کرتا "

" یں ۔وش کی دوا کروی لنگر خان ن ہ ہ ہ "ہ

و" یں ہاور میں بھی والنٹیئر ن ہ !"

وت اں رک گئی اس ن پوچھا "ی والنٹیئر کون ےسلطان ی ہ ہ ے ۔ ہ ہ "ہیں؟

ے۔شنکر ن جواب دیا "الو ک پٹھ ے ۔ ے "

" یں ۔میں بھی الو کی پٹھی ن ہ "

تا ضرور الو کا پٹھا" ار ساتھ ر ہےمگر و آدمی جو تم ہ ے ہ ہ "ہے۔

"کیوں؟"

ہاس لئ ک و کئی دنوں س ایک ایس خدا رسید فقیر ے ے ہ ہ ے ا جس ہےک پاس اپنی قسمت کھلوان کی خاطر جا ر ہ ے ے

" ی ک کر ہہکی اپنی قسمت زنگ لگ تال کی طرح بند ہ ہے۔ ے ے نسا ۔شنکر ہ

مار ان و اس لئ ندو ا "تم ےاس پر سلطان ن ک ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ و ۔بزرگوں کا مذاق اڑات ہ ے "

ندو مسلم کا سوال وں پر ہشنکر مسکرا دیا "ایسی جگ ہ ۔ اں آئیں تو وا کرت بڑ بڑ پنڈت مولوی اگر ی یں ہپیدا ن ے ے ے۔ ہ ہ

۔و شریف آدمی بن جائیں ہ "

و" ہجان تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر ر ہے ے

وں ل بتا چکا و گ اسی شرط پر جو میں پ ۔بولو، ر ہ ے ہ ے ہ "

وئی "تو جاؤ رست پکڑو ۔سلطان اٹھ کھڑی ہ ۔ ہ ہ "

ےشنکر آرام س اٹھا پتلون کی جیبوں میں اس ن اپن ے ۔ ے ا "میں کبھی کبھی وئ ک اتھ ٹھونس اور جات ۔دونوں ہ ے ہ ے ے ہ یں میری ضرورت وں جب بھی تم ہاس بازار س گزرتا ۔ ہ ے

وں ت کام کا آدمی ۔و، بال لینامیں ب ہ ہ "ہ

Page 232: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےشنکر چال گیا اور سلطان کال لباس کو بھول کر دیر تک ہ ی اس آدمی کی باتوں ن اس ےاس ک متعلق سوچتی ر ۔ ہ ے وتا لکا کر دیا تھا اگر و انبال میں آیا ت ہک دکھ کو ب ہ ہ ۔ ہ ہ ے

ی رنگ میں اں و خوش حال تھی تو اس ن کسی اور ہج ے ہ ہ ت ممکن ک اس دھک وتا اور ب ےا س آدمی کو دیکھا ے ہ ہے ہ ہ

تی تھی اس اں چونک و اداس ر وتا ی ر نکال دیا ہد کر با ہ ہ ہ ہ ہ ے ۔لئ شنکر کی باتیں پسند آئیں ے

ےشام کو جب خدا بخش آیا تو سلطان ن اس س پوچھا ے ہ و؟ ہ"تم آج سارا دن کدھر غائب ر ہے "

ن لگا "پران ا تھا ک و ر ےخدا بخش تھک کر چور چور ے ہ ہ ہ ر اں ایک بزرگ کچھ دنوں س ٹھ وں و ا ےقلع س آ ر ہ ے ہ ۔ ہ ہ ے ے مار دن وں ک ر روز جاتا ی ک پاس یں ان ےوئ ہ ہ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ

۔پھرجائیں "

" ا وں ن تم س ک ۔کچھ ان ہ ے ے ہ "

، میں جو ان کی" وئ پر سلطان یں ربان ن یں ابھی و م ہن ے ہ ہ ہ ہ ہ یں جائ گی الل کا وں و اکارت کبھی ن ا ہخدمت کر ر ۔ ے ہ ہ ہ ہ

و جائیں گ ا تو ضرور وار نیار ے۔فضل شاملl حال ر ہ ے ے ہ "

وا تھا ۔سلطان ک دماغ میں محرم بنان کا خیال سمایا ہ ے ے ہ ن لگی سارا سارا دن ۔خدا بخش س رونی آواز میں ک ے ہ ے وں ن تی اں پنجر میں قید ر و میں ی ت ر غائب ر ہبا ۔ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ

وں محرم سر پر آگیا کچھ تم ن اس یں جا سکتی ےک ہے۔ ۔ ہ ہ گھر میں ئیں ۔کی بھی فکر کی ک مجھ کال کپڑ چا ہ ے ے ے ہ یں کنگنیاں تھیں سو و ایک ایک کر ک ےپھوٹی کوڑی تک ن ہ ۔ ہ

و گا؟یوں فقیروں ک ی بتاؤ ک کیا ےبک گئیں اب تم ہ ہ ہ ۔ ےپیچھ کب تک مار مار پھرا کرو گ مجھ تو ایسا ے۔ ے ے ے م س من لی میں خدا ن بھی اں د ہدکھائی دیتا ک ی ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہے۔موڑ لیا میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو

ی جائ گا و ارا ۔س ے ہ ہ ہ "

ن لگا "پر ی کام شروع ہخدابخش دری پر لیٹ گیا اور ک ۔ ے ہ خدا ک لئ ئ ت سرمای چا ےکرن ک لئ بھی تو تھوڑا ب ے ے ہ ہ ہ ے ے ے

یں ہاب ایسی دکھ بھری باتیں ن کرو مجھ س برداشت ن ے ۔ ہ ےو سکتیں میں ن سچ مچ انبال چھوڑن میں سخت ہ ے ۔ ہ

ماری ی کرتا اور ہغلطی کی تھی پر جو کرتا الل ہے ہ ہ ہے ۔

Page 233: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ک لئ کرتا کیا پت کچھ دیر اور تکلیف تری ہےب ہ ہے۔ ے ے ہ ہ م ہبرداشت کرن ک بعد ے ے "

"تم خدا ک لئ کچھ کرو ا ۔سلطان ن بات کاٹ کر ک ے ے ۔ ہ ے ہ ےچوری کرو یا ڈاک ڈالو پر مجھ شلوار کا کپڑا ال دو میر ۔ ے ہ وئی اس کو ہےپاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہ ۔میں کاال رنگوا لوں گی سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی ی جو تم ن دیوالی پر مجھ ال ےمیر پاس موجود و ے ہ ہے۔ ے ی رنگوا لیا جائ گا ۔کر دیا تھا ی بھی قمیض ک ساتھ ے ہ ے ہ ۔ ہایک صرف شلوار کی کسر سو و تم کسی ن کسی ہ ہے

یں میری جان کی قسم، کسی ن ہطرح پیدا کر دودیکھو تم ہ ۔کسی طرح ضرور ال دومیری بھتی ن کھاؤ اگر ن ال ہ ہ "

ےخدابخش اٹھ بیٹھا "اب تم خوا مخوا زور دئ چلی جا ہ ہ ۔ اں س الؤں گاافیم کھان ک لئ تو میر ومیں ک ی ےر ے ے ے ے ہ ہ ہ

یں ۔پاس پیس ن ہ ے "

ےکچھ بھی کرو مگر ساڑھ چار گز کالی شلوار کا کپڑا ال" ۔دو "

" ی الل دو تین بند بھیج د ے۔دعا کرو ک آج رات ے ہ ہ ہ "

" و تو ضرور اتن تم اگر چا یں کرو گ ےلیکن تم کچھ ن ہ ے ہ ل ساٹن بار چود آن و جنگ س پ ےپیس پیدا کر سکت ہ ہ ے ہ ے ۔ ہ ے ے

ےگز مل جاتی تھی اب سوا روپ گز ک حساب س ملتی ے ے ۔ ؟ و جائیں گ ے ساڑھ چار گزوں پر کتن روپ خرچ ہ ے ے ے "ہے

" ی ک کر خدا" و تو میں کوئی حیل کروں گا تی ہہاب تم ک ہ ۔ ہ ہ ہ وٹل س ےبخش اٹھا "لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ میں ہ ۔ ۔

وں ۔کھانا التا ہ "

ر مار کیا اور سو ہوٹل س کھانا آیا دونوں ن مل کر ز ے ۔ ے ہوئی خدابخش پران قلع وال فقیر ک پاس ےگئ صبح ے ہ ے ۔ ہ ے۔ ی کچھ ۔چال گیا سلطان اکیلی ر گئی کچھ دیر لیٹی ر ہ ۔ ہ ہ ۔ ر ی دوپ لتی ر ی ادھر ادھر کمروں میں ٹ ہدیر سوئی ر ۔ ہ ہ ۔ ہ

ہکا کھانا کھان ک بعد اس ن اپنا شفون کا دوپٹ اور سفید ے ے ے ےبوسکی کی قمیض نکالی اور نیچ النڈری وال کو رنگن ے ے

Page 234: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں رنگن کا کام ےک لئ د آئی کپڑ دھون ک عالو و ہ ہ ے ے ے ۔ ے ے ے وتا تھا ۔بھی ہ

ےی کام کرن ک بعد اس ن واپس آ کر فلموں کی کتابیں ے ے ہ انی اور وئی فلموں کی ک ہپڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہ

وئ تھ ی کتابیں پڑھت پڑھت و سو گئی ۔گیت چھپ ہ ے ے ہ ے۔ ے ہ ے ہجب اٹھی تو چار بج چک تھ کیونک دھوپ آنگن میں ے ے

وئی تو ا دھو کر فارغ نچ چکی تھی ن ہموری ک پاس پ ہ ۔ ہ ے ~ ایک وئی قریبا ۔گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آ کھڑی ہ و گئی ی اب شام ہگھنٹ سلطان بالکونی میں کھڑی ر ۔ ہ ہ ہ ی تھیں نیچ سڑک میں رونق ک و ر ےتھی بتیاں روشن ے ۔ ہ ہ ۔

و گئی ہآثار نظر آ ر تھ سردی میں تھوڑی سی شدت ے۔ ہے وا و سڑک پر آت ےتھی مگر سلطان کو ی ناگوار معلوم ن ہ ۔ ہ ہ ہ ہ

ےجات ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرص س دیکھ ے ے نچ ~ اس شنکر نظر آیا مکان ک نیچ پ ی تھی دفعتا ہر ے ے ۔ ے ۔ ہ ہکر اس ن گردن اونچی کی اور سلطان کی طرف دیکھ ے اتھ کا اشار ہکر مسکرایا سلطان ن غیر ارادی طور پر ہ ے ہ ۔

۔کیا اور اس اوپر بال لیا ے

وئی ک اس ت پریشان ےجب شنکر اوپر آگیا تو سلطان ب ہ ہ ہ ہ ی بنا سوچ سمجھ اس ےکیا ک در اصل اس ن ایس ے ے ہ ے ے ہے۔ ےاشار کر دیا تھا شنکر ب حد مطمئن تھا جیس اس کا ے ۔ ہ ل روز کی طرح ےاپنا گھر چنانچ بڑی ب تکلفی س پ ہ ے ے ہ ہے۔ ےگاؤ تکی کو سر ک نیچ رکھ کر لیٹ گیا جب سلطان ن ہ ۔ ے ے ہ ا "تم سو ہدیر تک اس س کوئی بات ن کی تو اس ن ک ے ہ ے و ک ی ک سکتی و اور سو دفع ہدفع مجھ بال سکتی ہ ہہ ہ ہ ہ ے ہ وا کرتا یں ۔چل جاؤمیں ایسی باتوں پر کبھی ناراض ن ہ ہ ے "

یں ن لگی "ن و گئی ک ہسلطان شش و پنج میں گرفتار ۔ ے ہ ہ ہ تا یں جان کو کون ک ہے۔بیٹھو تم ہ ے ہ

یں منظور ہشنکر اس پر مسکر ادیا "تو میری شرطیں تم ۔ ۔یں "ہ

ا "کیا نکاح کر" نس کر ک ہکیسی شرطیں؟" سلطان ن ہ ے ہ ؟ و مجھ س ےر ہ ہے "

Page 235: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ےنکاح اور شادی کیسی؟ن تم عمر بھر میں کسی س ہ یںچھوڑو م لوگوں ک لئ ن ہنکاح کروگی، ن میںی رسمیں ے ے ہ ہ ہ

۔ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو "

"بولو کیا کروں؟"

وکوئی ایسی بات کرو جس س دو گھڑی دل" ےتم عورت ہ یں، ی دکانداری ن اس دل میں صرف دکانداری ل جائ ہب ہ ے ہ

ہے۔کچھ اور بھی "

نی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، ہسلطان ذ ہ و؟ ت و تم مجھ س کیا چا ہصاف صاف ک ے ہ ے ہ "

" " شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا یں ت ۔جو دوسر چا ۔ ہ ے ہ ے

" ا ی کیا ر ۔تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہ ہ "

یں ان میں اور مجھ" ۔تم میں اور مجھ میں کوئی فرق ن ہ وتی ت سی باتیں ہمیں زمین آسمان کا فرق ایسی ب ہ ہے۔

ئیں ئیں خود سمجھنا چا یں چا ۔یں جو پوچھنا ن ہ ہ ہ "ہ

ےسلطان ن تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھن ے ہ وں ا "میں سمجھ گئی ہکی کوشش کی، پھر ک ہ !"

؟" و کیا اراد ہےتو ک ہ ہ "

" وں، آج تک کسی ن تی اری، پر میں ک ، میں ےتم جیت ہ ہ ہ ے و گی ۔ایسی بات قبول ن کی ہ ہ "

یں ایسی ساد لوح" واسی محل میں تم تی ہتم غلط ک ہ ے ہ ہ یں کریں گی ک کیا ہعورتیں بھی مل جائیں گی جو یقین ن ہ ہےعورت ایسی ذلت قبول کر سکتی جو تم بغیر کسی و لیکن ان ک یقین کرن ی ےاحساس ک قبول کرتی ر ے ہ ہ ے

ارا نام وتم زاروں کی تعداد میں موجود ہک باوجود تم ہ ہ ے ۔سلطان نا ہے ہ "

" ی ہے۔سلطان ہ ہ "

ی نام نسن لگا "میرا نام شنکر وا اور ہشنکر اٹھ کھڑا ہے ۔ ے ہ ہ یں چلو اندر چلیں وت ۔بھی عجب اوٹ پٹانگ ۔ ہ ے ہ "

Page 236: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےشنکر اور سلطان دری وال کمر میں واپس آئ تو ے ے ہ نس ر تھ جان کس بات پر جب شنکر جان ےدونوں ۔ ے ے ہے ہ

؟ ا شنکر تم میری ایک بات مانو گ ےلگا تو سلطان ن ک ۔ ہ ے ہ "

ل بات تو بتاؤ؟ ا "پ ~ ک ےشنکر ن جوابا ہ ۔ ہ ے "

و گ میں دام وصول ےسلطان کچھ جھینپ سی گئی "تم ک ہ ۔ ہ وں، مگر تی ہکرنا چا ہ "

و؟" و، رک کیوں گئی و ک ہک ہ ہ "

ا "بات ی ک محرم آ ہسلطان ن جرأت س کام ل کر ک ہے ہ ۔ ہ ے ے ے ہ یں ک میں کالی یں ا اور میر پاس اتن پیس ن ہر ہ ہ ے ے ے ہے ہ

ی اں ک سار دکھڑ تو تم سن ہشلوار بنوا سکوں ی ے ے ے ہ ۔ و قمیض اور دوپٹ میر پاس موجود تھا جو میں ن ےچک ے ہ ۔ ہ ے

ہےآج رنگوان ک لئ د دیا ے ے ے ے !"

یں کچھ و ک میں تم تی ا "تم چا ہشنکر ن ی سن کر ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ۔روپ دوں جو تم کالی شلوار بنا سکو ے "

و یں میرا مطلب ی ک اگر ا "ن ی ک ~ ہسلطان ن فورا ہ ہے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ۔سک تو تم مجھ ایک کالی شلوار بنوا دو ے ے "

ی س کبھی ےشنکر مسکرایا "میری جیب میں تو اتفاق ہ ۔ ر حال میں کوشش کروں گا محرم کی وتا ب ۔کچھ ہ ہے۔ ہ

یں ی شلوار مل جائ گی لو بس اب تو لی تاریخ کو تم ۔پ ے ہ ہ ہ و گئیں پھر سلطان ک بندوں کی طرف دیکھ کر ےخوش ہ ۔ ہ

و؟ ہشنکرن پوچھا "کیا ی بند تم مجھ د سکتی ے ے ے ہ ے "

یں کیا کرو گ چاندی ک ا "تم ان نس کر ک ےسلطان ن ے۔ ہ ہ ہ ے ہ و نگ یں زیاد س زیاد پانچ روپ ک ے۔معمولی بند ہ ے ے ہ ے ہ ۔ ہ ے "

ا "میں ن تم س بند مانگ نس کر ک ےاس پر شنکر ن ے ے ے ہ ہ ے و؟ یں پوچھی بولو دیتی ہیں ان کی قیمت ن ۔ ہ "ہ

" ےل لو" ی ک کر سلطان ن بند اتار کر شنکر کو د ے ے ہ ہہ ہ ے وا، لیکن شنکر جا چکا تھا ۔دئ اس کو بعد میں افسوس ہ ے۔

یں تھا ک شنکر اپنا وعد پورا کر ~ یقین ن ےسلطان کو قطعا ہ ہ ہ ہ لی تاریخ کو صبح نو ہگا مگر آٹھ روز ک بعد محرم کی پ ے ۔

Page 237: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی سلطان ن درواز کھوال تو ہبج درواز پر دستک ے ہ ۔ ہ ے ے وئی چیز اس ن سلطان ہشنکر کھڑا تھا اخبار میں لپٹی ے ہ ۔ ا "ساٹن کی کالی شلوار دیکھ لینا شاید ہے۔کو دی اور ک ہ

وں واب میں چلتا ۔لمبی ہ ہ "

ہشنکر شلوار د کر چال گیا اور کوئی بات اس ن سلطان ے ے وئی تھیں، ہس ن کی اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ۔ ہ ے

وتا تھا ک ابھی ابھی سو وئ تھ ایسا معلوم ہبال بکھر ہ ے۔ ے ہ ے ی چال آیا ہے۔کر اٹھا اور سیدھا ادھر ہ ہے

۔سلطان ن کاغذ کھوال ساٹن کی کالی شلوار تھی ایسی ۔ ے ہ ہی جیسی ک و مختار ک پاس دیکھ کر آئی تھی سلطان ۔ ے ہ ہ ہوئی بندوں اور اس سود کا جو افسوس ت خوش ےب ۔ ہ ہ وا تھا، اس شلوار ن اور شنکر کی وعد ایفائی ن ےاس ہ ے ہ ے

۔دور کر دیا

ر کو و نیچ النڈری وال س اپنی رنگین قمیض اور ےدوپ ے ے ہ ہ ن لئ تو ےدوپٹ ل آئی تینوں کال کپڑ جب اس ن پ ہ ے ے ے ۔ ے ہ

وئی سلطان ن درواز کھوال تو مختار ہدرواز پر دستک ے ہ ۔ ہ ے وئی اس ن سلطان ک تینوں کپڑوں کی ےاندر داخل ہ ے ۔ ہ

وا معلوم ا "قمیض اور دوپٹ تو رنگا ہطرف دیکھا اور ک ہ ۔ ہ ، کب بنوائی؟ ہےوتا پر ی شلوار نئی ہ ہے۔ "ہ

وئ ت " ی ک ی درزی الیا ےسلطان ن جواب دیا "آج ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ ے ہ ےاس کی نظریں مختار ک کانوں پر پڑیں "ی بند تم ن ے ہ ۔ ے

؟ اں س لئ ےک ے ہ "

یں ی منگوائ ۔مختار ن جواب دیا "آج ہ ے ہ ے "

نا پڑا ۔اس ک بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش ر ہ ے

لحاف

(عصمت چغتائی)

وں، تو پاس کی ہجب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی اتھی کی طرح جھومتی ہدیواروں پر اس کی پرچھائیں

وئی وتی اور ایک دم س میرا دماغ بیتی ہوئی معلوم ے ہے ہ ہ

Page 238: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےدنیا ک پردوں میں دوڑن بھاگن لگتا ن جان کیا کچھ ہ ہے۔ ے ے ے ہے۔یاد آن لگتا ے

ےمعاف کیجئ گا، میں آپ کو خود اپن لحاف کا رومان ے وں ن لحاف س کسی قسم ی یں جا ر ےانگیز ذکر بتان ن ہ ۔ ہ ہ ہ ے ی جا سکتا میر خیال میں کمبل آرام ےکا رومان جوڑا ہے۔ ہ وتی جب یں ی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک ن ہد س ہ ہ ہ و ی تب کا ذکر ی ہلحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا ر ۔ ہ ہ ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان۔ک دوستوں ک ساتھ مار کٹائی میں گزار دیا کرتی تھی ے ے ہکبھی کبھی مجھ خیال آتا ک میں کم بخت اتنی لڑاکا ے نیں عاشق وں اس عمر میں جب ک میری اور ب ہکیوں ہ ۔ ہ ر لڑک اور لڑکی س ی تھیں میں اپن پرائ ےجمع کر ر ے ہ ے ے ہ

ی وج تھی ک اماں جب ہجو تم بیزار میں مشغول تھی ی ہ ہ ۔ فت بھر ک لئ مجھ اپنی من بولی ہآگر جان لگیں، تو ے ے ے ے ہ ے ہ اں اماں خوب جانتی ن ک پاس چھوڑ گئیں ان ک ی ہب ے ۔ ے ہ یں اور میں کسی س لڑ بھڑ ن ہتھی ک چو کا بچ بھی ن ے ہ ہ ہے ہ اں تو اماں مجھ بیگم ےسکوں گی سزا تو خوب تھی! ہ ۔

ی بیگم جان جن کا لحاف اب ہجان ک پاس چھوڑ گئیں و ۔ ے ن میں گرم لو ک داغ کی طرح محفوظ ہے۔تک میر ذ ے ہے ہ ے

ےی بیگم جان تھیں جن ک غریب ماں باپ ن نواب صاحب ے ہ ےکو اسی لئ داماد بنالیا ک و پکی عمر ک تھ مگر تھ ے۔ ے ہ ہ ے

یں اں نظر ن ایت نیک کوئی رنڈی بازاری عورت ان ک ی ہن ہ ے ۔ ہ توں کو حج کرا چک تھ مگر ے۔آئی خود حاجی تھ اور ب ے ہ ے ۔

یں ایک عجیب و غریب شوق تھا لوگوں کو کبوتر پالن ےان ۔ ہ یں اس یں، مرغ بازی کرت ، بٹیر لڑات وتا ۔کا شوق ہ ے ہ ے ے ہے ہ یات کھیلوں س نواب صاحب کو نفر ت تھی ۔قسم ک وا ے ہ ے

ت تھ نوجوان گور اں تو بس طالب علم ر ےان ک ی ے۔ ے ہ ہ ے ہگور پتلی کمروں ک لڑک جن کا خرچ و خود برداشت ے ے ے

ے۔کرت تھ ے

یں کل ساز و ہمگر بیگم جان س شادی کر ک تو و ان ہ ے ے ی گھر میں رکھ کر بھول گئ اور و ب ےسامان ک ساتھ ہ ے ہ ے ائی ک غم میں گھلن ےچاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تن ے ہ

۔لگی

اں س وتی و اں س شروع ےن جان ان کی زندگی ک ہ ہے۔ ہ ے ہ ے ہ اں س ون کی غلطی کر چکی تھی، یا و ےجب و پیدا ہ ے ہ ہ

Page 239: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہجب و ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر اں ہزندگی گزارن لگیں یا جب س نواب صاحب ک ی ے ے ۔ ے ےلڑکوں کا زور بندھا ان ک لئ مرغن حلو اور لذیذ ے ے ۔

ےکھان جان لگ اور بیگم جان دیوان خان ک درزوں میں ے ے ے ے ےس ان لچکتی کمروں وال لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور ے

ےمعطر باریک شبنم ک کرت دیکھ دیکھ کر انگاروں پر ے ۔لوٹن لگیں ے

ار گئیں، چل ، جب و منتوں مرادوں س ےیا جب س ہ ے ہ ے و ہبندھ اور ٹوٹک اور راتوں کی وظیف خوانی بھی چت ہ ے ے یں پتھر میں جونک لگتی نواب صاحب اپنی جگ ہگئی ک ہے۔ ہ ۔ وئ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا ے۔س ٹس س مس ن ہ ہ ے ے یں اں بھی ان وئیں لیکن ی ہاور و علم کی طرف متوج ہ ہ ہ ہ

ہکچھ ن مال عشقی ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی ۔ ہ اتھ س گئی اور بیگم ےپستی چھاگئی رات کی نیند بھی ہ ۔ ی یاس و حسرت کی پوٹ ہجان جی جان چھوڑ کر بالکل ، نا جا تا ہےبن گئیں چول میں ڈاال ایسا کپڑا لتا کپڑا پ ہ ۔ ہے ۔

ہکسی پر رعب گانٹھن ک لئ اب ن تو نواب صاحب کو ے۔ ے ے ہفرصت ک شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توج ہ

یں آن جان دیت جب س بیگم جان بیا ہکریں اور ن و ان ے ے۔ ے ے ہ ہ ہ ت اور چل جات ینوں ر ے۔کر آئی تھیں رشت دار آ کر م ے ے ہ ہ ہ

تیں ۔مگر و ب چاری قید کی قید ر ہ ے ہ

وئی چھوٹی سی توند اتھ، کسی ۔پھرتیل چھوٹ چھوٹ ہ ہ ے ے ے ت میش نمی میں ڈوب ر ونٹ، جو وئ ےبڑ بڑ پھول ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے ےاور جسم میں عجیب گھبران والی بو ک شرار نکلت ے ے ے اتھ کس قدر ، وئ ت تھ اور ی نتھن تھ پھول ہر ے ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ، ابھی کمر پر، تو و لیجئ پھسل کر گئ ےپھرتیل تھ ے ہ ے ے

اں رپٹ رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی ےکولھوں پر، و ہ ی ہطرف میں تو جب بھی بیگم جان ک پاس بیٹھتی ی ے ۔ یں یں اور کیا کر ر اں اتھ ک ۔دیکھتی ک اب اس ک ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ

ےگرمی جاڑ بیگم جان حیدر آبادی جالی کارگ ک کرت ے ے ے ر رنگ ک پاجام اور سفید جھاگ س کرت نتیں گ ےپ ے ے ے ے ہ ۔ ہ

لکی دالئی ضرور جسم پر و پھر و ہاور پنکھا بھی چلتا ہ ۔ ہ ت پسند تھا جاڑ میں یں جاڑا ب تی تھیں ان ےڈھک ر ۔ ہ ہ ۔ ہ ے

ت کم لتی جلتی ب وتا و اں اچھامعلوم ہمجھ ان ک ی ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے ی خشک میو چبا یں پیٹھ کھج ر ےتھیں قالین پر لیٹی ہے۔ ہ ۔ ہ ۔

Page 240: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں اور بس ربو س دوسری ساری نوکرانیاں خار ی ےر ۔ ہ ہ ےکھاتی تھیں چڑیل بیگم جان ک ساتھ کھاتی، ساتھ اٹھتی ۔ ی سوتی تھی ربو اور بیگم ۔بیٹھتی اور ماشاءالل ساتھ ہ ہ جان عام جلوؤں اور مجموعوں کی دلچسپ گفتگو کا

ق اٹھ ی اں ان دونوں کا ذکر آیا اور ق ہموضوع تھیں ج ے۔ ہے ہ ہ ۔ ہلوگ ن جان کیا کیا چٹک غریب پر اڑات مگر و دنیا میں ے۔ ے ے ہ اں تو بس و تھیں اور ان کی ہکسی س ملتی ن تھیں و ہ ۔ ہ ے

۔کھجلی

ا ک اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم ہمیں ن ک ہ ے ی پیار کرتی تھیں اتفاق س ت ےجان پر فدا و مجھ ب ۔ ہ ہ ے ہ ۔ یں معلوم تھا ک اکیل گھر میں ےاماں آگر گئیں ان ہ ہ ۔ ے

و گی ماری ماری پھروں گی اس ۔بھائیوں س مار کٹائی ۔ ہ ے فت بھر ک لئ بیگم جان ک پاس چھوڑ گئیں ۔لئ و ے ے ے ے ہ ہ ے

۔میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش آخر کو اماں وئی تھیں ۔کی بھابھی بنی ہ

اں؟ قدرتی طور پر بیگم ہسوال ی اٹھا ک میں سوؤں ک ہ ہ ذا میر لئ بھی ان ک چھپر کھٹ ےجان ک کمر میں ل ے ے ہ ۔ ے ے

ےس لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی گیار بج ہ ۔ ے ، میں اور بیگم جان تاش کھیلت ر ہےتک تو باتیں کرت ر ے ہے ے

ےاور پھر میں سون ک لئ اپن پلنگ پر چلی گئی اور جب ے ے ے ی ی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا ر ہمیں سوئی تو ربو ویسی ہ " میں ن سوچا رات کو میری ایک یں کی ۔تھی "بھنگن ک ے ۔ ہ ۔ ۔دم س آنکھ کھلی تو مجھ عجیب طرح کا ڈر لگن لگا ے ے ے

ےکمر میں گھپ اندھیرا اور اس اندھیر میں بیگم جان کا ہ و بیگم اتھی بند ا تھا جیس اس میں ل ر ۔لحاف ایس ہ ہ ے ہ ہ ے و گیا لحاف لنا بند اتھ وئی آواز نکالی، ۔جانمیں ن ڈری ہ ہ ہ ہ ے

۔نیچ دب گیا ے

" یں س آواز دی و" بیگم جان ن ک ، سو ر ۔کیا ے ہ ے ہ ہے

" ا " میں ن چو کی سی آواز س ک ا ۔ڈر لگ ر ہ ے ہے ے ہے۔ ہ

" ۔سو جاؤ ڈر کی کیا بات آیت الکرسی پڑھ لو ہے۔ ۔ "

" �م� �ع�ل ےاچھامیں ن جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھی مگر ی ~ آ کر اٹک گئی حاالنک مجھ اس وقت �ن� پر دفعتا �ی ےم�ا ب ہ ۔

۔پوری یاد تھی

Page 241: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ار پاس آ جاؤں بیگم جان ۔تم ے ہ "

" ا و" ذرا سختی س ک یں بیٹیسو ر ۔ن ہ ے ہ ہ

ےاور پھر دو آدمیوں ک کھسر پھسر کرن کی آواز سنائی ے ائ ر دوسرا کونمیں اور بھی ڈری ۔دین لگی ے ے ہ ۔ ے

" یں ۔بیگم جانچور تو ن ہ "

" ےسو جاؤ بیٹاکیسا چور" ربو کی آواز آئی میں جلدی س ۔ ۔لحاف میں من ڈال کر سو گئی ہ

ن میں رات ک خوفناک نظار کا خیال بھی ےصبح میر ذ ے ہ ے وں رات کو ڈرنا اٹھ اٹھ کر می میش کی و ا میں ۔ن ر ۔ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہ وتا تھا سب تو ی ۔بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہ ہ ذا مجھ و گیا ل ت تھ ک مجھ پر بھوتوں کا سای ےک ےہ ہے۔ ہ ہ ہ ے ے ہ

ا ا صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آ ر ہخیال بھی ن ر ۔ ہ ہ تھا مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربو اور بیگم

ی ہجان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی س چھپڑ کھٹ پر ے ا تھا اور مجھ خاک سمجھ ن آیا اور کیا فیصل و ر ہط ۔ ہ ے ہ ہ ے چکیاں ل کر روئی پھر بلی کی طرح چڑ چڑ ےوا، ربو ہ ہ

ہہرکابی چاٹن جیسی آوازیں آن لگیں اون میں گھبرا کر ۔ ے ے ۔۔سو گئی

ہان رشت داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا ک ہ ، ، عمد گھی نگلن ےسب ک سب مز س مال اڑان ہ ے ے ے ے

ےجاڑوں کا ساز و سامان بنوان آن مرت اور باوجود نئی ے ر کروٹ ہروئی ک لحاف ک بڑی سردی میں اکڑا کرتیں ۔ ے ے ۔پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر سای ڈالتا مگر ہ

یں زند رکھن ک لئ ےکوئی بھی سای ایسا ن تھا جو ان ے ے ہ ہ ہ ہ و مگر کیوں جئ پھر کوئی، زندگی! جان کی ےکافی ۔ ہ ےزندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں، و پھر جین ہ

!لگیں اور خوب جئیں

یں نیچ گرت گرت سنبھال لیا چپ پٹ دیکھت ےربو ن ان ۔ ے ے ے ہ ے وا گال چمک ونا شروع را ۔دیکھت ان کا سوکھا جسم ہ ہ ہ ے ۔اٹھ اور حسن پھوٹ نکال ایک عجیب و غریب تیل کی ے ۔مالش س بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی معاف ے

Page 242: اردو ادب کے مشہور افسانے

ترین رسال ترین س ب ، اس تیل کا نسخ آپ کو ب ہکیجئ ہ ے ہ ہ ے ۔میں بھی ن مل گا ے ہ

ہجب میں ن بیگم جان کو دیکھا تو و چالیس بیالیس کی ے �فو کس شان س و مسند پر نیم دراز تھیں ہوں گی ا ے ہ ۔ ہی تھی ایک اود ےاور ربو ان کی پیٹھ س لگی کمر دبا ر ۔ ہ ے

ارانوں کی ہرنگ کا دوشال ان ک پیروں پر پڑا تھا اور و م ہ ے ہ ی تھیں مجھ ان کی شکل ب و ر ےطرح شاندار معلوم ے ۔ ہ ہ

تا تھا ک گھنٹوں بالکل پاس ا پسند تھی میرا جی چا ہانت ہ ۔ ہ ۔س ان کی صورت دیکھا کروں ان کی رنگت بالکل ے

یں اور بال سیا اور ہسفید تھی نام کو سرخی کا ذکر ن ہ ۔ ی ت تھ میں ن آج تک ان کی مانگ ہتیل میں ڈوب ر ے ے۔ ے ہ ے

و جائ ے۔بگڑی ن دیکھی مجال جو ایک بال ادھر ادھر ہ ہے ۔ ہ ہان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر ک زائد بال علیحد ے تی تھیں آنکھیں ذرا ۔کر دین س کمانیں س کھچی ر ہ ے ے ے تی تھیں بھاری بھاری پھول پپوٹ موٹی وئی ر ےتنی ے ۔ ہ ہ

ر پر حیرت انگیز ےموٹی آنکھیں سب س جو ان ک چ ہ ے ے ۔ ~ و ونٹ تھ عموما ہجاذبیت نظر چیز تھی، و ان ک ے۔ ہ ے ہ

لکی لکی ونٹوں پر ت تھ اوپر ک ہسرخی س رنگ ر ہ ہ ے ے۔ ے ہ ے ے ےمونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمب لمب بال کبھی ے ر دیکھت دیکھت عجیب سا لگن لگتا تھا ۔کبھی ان کا چ ے ے ے ہ ہ

!کم عمر لڑکوں جیسا

۔ان ک جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی معلوم ے ~ و وں عموما ہوتا تھا، کسی ن کس کر ٹانک لگا دئ ۔ ہ ے ے ے ہےاپنی پنڈلیاں کھجان ک لئ کھولتیں، تو میں چپک چپک ے ے ے ے ت لمبا تھا اور پھر ہان کی چمک دیکھا کرتی ان کا قد ب ۔ ی لمبی چوڑی معلوم ت ون کی وج س و ب ہگوشت ہ ہ ے ہ ے ہ وا جسم تھا بڑ ت متناسب اور ڈھیال ےوتی تھیں لیکن ب ۔ ہ ہ ہ

اتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی ہبڑ چکن اور سفید ے ے ۔پیٹھ کھجایا کرتی تھی یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی ۔ ہپیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں س تھا بلک ے

ہ۔شاید ضرورت زندگی س بھی زیاد ے

ےربو کو گھر کا اور کوئی کام ن تھا بس و سار وقت ان ہ ہ ےک چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی

۔جسم ک دوسر حص کو دبایا کرتی تھی کبھی تو میرا ے ے ے ، یا ی ول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ ن کچھ دبا ر ہےدل ہ ہ ہ

Page 243: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتا وتا تو ن جان کیا ی کوئی دوسرا ۔مالش کر ر ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ وں، کوئی اتنا چھوئ بھی تو میرا جسم سڑ تی ےمیں اپنا ک ہ ہ

و جائ ے۔گل ک ختم ہ ے

یں تھی جس روز ۔اور پھر ی روز روز کی مالش کافی ن ہ ہ ل س تیل اور اتیں یا الل بس دو گھنٹ پ ےبیگم جان ن ے ہ ہ ہ ۔ ہ

وتی و جاتی اور اتنی ہخوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہ ی دل ٹوٹ جاتا کمر ک درواز ےک میرا تو تخیل س ے ے ۔ ہ ے ہ

ےبند کر ک انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور اور تی باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی ی ر ~ صرف ربو ۔عموما ہ ہ

ی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں ۔درواز پر س ہ ے ہ

ےبات ی بھی تھی ک بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا ب ۔ ہ ہ زاروں تیل اور ابٹن وتی تھی اور ہچاری کو ایسی کھجلی ہ

ت ےمل جات تھ مگر کھجلی تھی ک قائم ڈاکٹر حکیم ک ہ ۔ ہ ے ے ے اں کوئی جلد اندر یں جسم صاف چٹ پڑا ہکچھ بھی ن ہے۔ ۔ ہ

یں پاگل یں بھئی ی ڈاکٹر تو موئ و تو خیر ن ۔بیماری ہ ے ہ ہ ۔ ہ ےکوئی آپ ک دشمنوں کو مرض الل رکھ خون میں ہ ہے۔ ے ین نظروں س ین م تی اور م ےگرمی ربو مسکرا کر ک ہ ہ ہ ہے۔

ہبیگم جان کو گھورتی او ی ربوجتنی ی بیگم جان گوری، ہ ہ ۔ ی ی کالی تھی جتنی ی بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہاتنی ۔ ہ ہ

لک چیچک ک لک ا وا لو ےی ی سرخ بس جیس تپا ے ہ ے ہ ۔ ہ ہ ے ۔ ہ ہاتھ، وا ٹھوس جسم پھرتیل چھوٹ چھوٹ ہداغ گٹھا ے ے ے ۔ ہ ۔

ونٹ، وئ وئی چھوٹی سی توند بڑ بڑ پھول ہکسی ے ہ ے ے ے ۔ ہ ت اور جسم میں عجیب میش نمی میں ڈوب ر ےجو ہ ے ہ ہ ت تھ اور ی نتھن ےگھبران والی بو ک شرار نکلت ر ہ ے ے ہ ے ے ے ے

، ابھی کمر پر، اتھ کس قدر پھرتیل تھ ، وئ ےتھ پھول ے ہ ے ہ ے ے اں رپٹ رانوں پر ےتو و لیجئ پھسل کر گئ کولھوں پر، و ہ ے ے ہ ۔اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف میں تو جب بھی بیگم جان یں اں اتھ ک ی دیکھتی ک اب اس ک ہک پاس بیٹھتی ی ہ ہ ے ہ ہ ے

یں ۔اور کیا کر ر ہ ہے

وئی تھی و بڑا جھگڑالو ہآج ربو اپن بیٹ س ملن گئی ۔ ہ ے ے ے ے ت کچھ بیگم جان ن کیا اس دکان کرائی،گاؤں ےتھا ب ۔ ے ہ ۔

ی ن تھا نواب صاحب ۔میں لگایا مگر و کسی طرح مانتا ہ ہ ہ ا خوب جوڑ بھاگ بھی بن ن جان اں کچھ دن ر ےک ی ہ ے۔ ے ے ۔ ہ ہ ے

ی ذا ربو ہکیوں ایسا بھاگا ک ربو س ملن بھی ن آتا تھا ل ےہ ۔ ہ ے ے ہ اں اس س ملن گئی تھی بیگم ۔اپن کسی رشت دار ک ی ے ے ہ ے ہ ے

Page 244: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گئی سارا دان ۔جان ن جان دیتی مگر ربو بھی مجبور ہ ے ہ ا کسی یں اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا ر ۔بیگم جان پریشان ر ہ ۔ ہ وں ن کھانا بھی ن کھایا یں ن بھاتا تھا ان ہکا چھونا بھی ان ے ہ ۔ ہ ہ

یں ۔اور سارا دن اداس پڑی ر ہ

" " میں ن بڑ شوق س وں تی ےمیں کھجا دوں سچ ک ے ے ۔ ہ ہ ا بیگم جان مجھ غور س وئ ک ےتاش ک پت بانٹت ے ۔ ہ ے ہ ے ے ے

۔دیکھن لگیں ے

ی اور بیگم جان چپکی لیٹی ہمیں تھوڑی دیر کھجاتی ر یں دوسر دن ربو کو آنا تھا مگر و آج بھی غائب تھی ۔ر ہ ے ۔ ہ وں وتا گیا چائ پی پی کر ان ہبیگم جان کا مزاج چڑچڑا ے ۔ ہ

۔ن سر میں درد کر لیا ے

ےمیں پھر کھجان لگی، ان کی پیٹھچکنی میز کی تختی ی ان کا کام کر ول کھجاتی ر ول ۔جیسی پیٹھ میں ہ ے ہ ے ہ ۔

وتی تھی ۔ک کیسی خوش ہ ے

" ۔ذرا زور س کھجاؤبند کھول دو" بیگم جان بولیں ے

او سرور ا اں بھئی وا اںو ہادھرا ذرا شان س نیچ ہ ہہ ہ ےہ ے۔ ے ہے ے ار کرن ےمیں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں ل کر اطمینان کا اظ ہ ے

۔لگیں

اتھ خوب جا سکتا تھا مگر" ہاور ادھرحاالنک بیگم جان کا ہ ا و ر ی تھیں اور مجھ الٹا فخر ی کھجوا ر ہو مجھ س ہ ے ہ ہ ے ہ

نسیں میں " و ووا اں اوئیتم تو گدگدی کرتی ۔تھا" ی ہ ہ ہ ہ ہ ی تھی ی تھی اور کھجا بھی ر ۔باتیں بھی کر ر ہ ہ

ی سوتی جاگتی گڑیا یں کل بازار بھیجوں گیکیا لوگیو ۔تم ہ ہ

وں اب میں یں لیتیکیا بچ یں بیگم جانمیں تو گڑیا ن ہن ہ ہ ہ "

یں تو ببوا نسیںگڑیا ن و گئیو یں تو کیا بوڑھی ہبچ ن ہ ہ ہ ہ ہ ت س کپڑ یں ب نانا خود میں دوں گی تم ےلیناکپڑ پ ے ہ ہ ۔ ہ ے

وں ن کروٹ لی ۔سنا" ان ے ہ

" ۔اچھا" میں ن جواب دیا ے

Page 245: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی" و ر اں کجھلی اتھ پکڑ کر ج وں ن میرا " ان ہادھر ہ ہ ہ ے ہ ۔ اں رکھ وتی و یں کھجلی معلوم اں ان ہتھی، رکھ دیا ج ہ ہ ہ ۔ ےدیتی اور میں ب خیالی میں ببو ک دھیان میں ڈوبی ے ے ی اور و متواتر باتیں کرتی ہمشین کی طرح کھجاتی ر ہ

یں ۔ر ہ

" یں کل درزی کو د و گئی اری فراکیں کم ےسنو توتم ۔ ہ ہ ہ اری اماں کپڑ د گئی ےدوں گی ک نئی سی الئ تم ے ہ ے۔ ہ

۔یں "ہ

" میں" یں بنواؤں گیچماروں جیسی ہے۔و الل کپڑ کی ن ہ ے ہ اں اں س ک اتھ ن جان ک ی تھی اور میرا ہبکواس کر ر ے ہ ے ہ ہ ہ وا بیگم جان نچا باتوں باتوں میں مجھ معلوم بھی ن ۔پ ہ ہ ے ۔ ہ

اتھ کھینچ لیا میں ن جلدی س ۔تو چت لیٹی تھیںار ہ ے ے ے

یں کھجاتیمیری پسلیاں نوچ ڈالتی" ےاوئی لڑکیدیکھ کر ن ہ ے" بیگم جان شرارت س مسکرائیں اور میں جھینپ ہے۔

۔گئی

وں ن مجھ بازو پر سر ےادھر آ کر میر پاس لیٹ جا" ان ے ہ ے ۔رکھ کر لٹا لیا

وں ن یں ان ی ی پسلیاں نکل ر ےا کتنی سوکھ ر ہ ۔ ہ ہ ہے۔ ہ ہے ے ۔پسلیاں گننا شروع کر دیں

" ۔اوں" میں منمنائی

!" گرم" �نا ہےاوئیتو کیا میں کھا جاؤں گیکیسا تنگ سویٹر ب میں کلبالن لگی "کتنی پسلیاں نا تم ن یں پ ۔بنیان بھی ن ے ے ہ ہ

وں ن بات بدلی یں" ان ۔وتی ے ہ ہ ہ

ےایک طرف نو اور ایک طرف دس" میں ن اسکول میں" ائی جین کی مدد لی و بھی اوٹ پٹانگ وئی ۔یاد کی ہ ۔ ہ ہ

اں ایکدوتین" اتھ ہٹا لو ہ "ہ

وں ن زور س ا کس طرح بھاگوںاور ان ےمیرا دل چا ے ہ ہ ۔بھینچا

" نسن لگیں ۔اوں" میں مچل گئیبیگم جان زور زور س ے ہ ے ر یاد کرتی ہاب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چ ہ

Page 246: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےوں تو دل گھبران لگتا ان کی آنکھوں ک پپوٹ اور ے ہے۔ ے ہوئی تھی ی گھری ونٹ پر سیا و گئ اوپر ک ۔وزنی ہ ہ ہ ے ے۔ ہ

ونٹوں پر ہباوجود سردی ک پسین کی ننھی ننھی بوندیں ے ے اتھ یخ ٹھنڈ تھ ی تھیں اس ک ے۔اور ناک پر چمک ر ے ہ ے ۔ ہ

وں ن شال اتار و ان ےمگر نرم جیس ان پر کھال اتر گئی ہ ۔ ہ ے ین کرت میں ان کا جسم آٹ کی ےدی اور کارگ ک م ے ہ ے ے

ا تھا بھاری جڑاؤ سون ک گرین ےلونی کی طرح چمک ر ے ۔ ہ و گئی ہبٹن گربیان کی ایک طرف جھول ر تھ شام ے۔ ہے ا تھا مجھ ایک نا ےتھی اور کمر میں اندھیرا گھٹ ر ۔ ہ ے

ری ون لگی بیگم جان کی گ ہمعلوم ڈر س وحشت سی ۔ ے ہ ے ری آنکھیں میں رون لگی دل میں و مجھ ایک مٹی ےگ ہ ۔ ے ۔ ہ ی تھیں ان ک گرم گرم ےک کھلون کی طرح بھینچ ر ۔ ہ ے ے والن لگا مگر ان پر تو جیس بھتنا ےجسم س میرا دل ے ہ ے

ہسوار تھا اور میر دماغ کا ی حال ک ن چیخا جائ اور ن ر ہ ے ہ ہ ہ ے و کر نڈھال لیٹ ہسکوں تھوڑی دیر ک بعد و پست ہ ے ۔

و گیا اور لمبی لمبی ر پھیکا اور بد رونق ہگئیں ان کا چ ہ ہ ۔ اں ہسانسیں لین لگیں میں سمجھی ک اب مریں ی اور و ہ ہ ۔ ے

ر ۔س اٹھ کر سرپٹ بھاگی با ہ ے

وئی جلدی ہشکر ک ربو رات کو آ گئی اور میں ڈری ہ ہے اں چپ گھنٹوں ۔س لحاف اوڑھ کر سو گئی مگر نیند ک ہ ے

ی ۔پڑی ر ہ

یں چکی تھیں بیگم جان س ی ن ےاماں کسی طرح آ ۔ ہ ہ ےمجھ ایسا ڈر لگتا تھا ک میں سار ا دن ماماؤں ک پاس ہ ے ی دم نکلتا ی مگر ان ک کمر میں قدم رکھت ہبیٹھی ر ے ے ے ہ

ی کیا ک بیگم جان س تی تی کس س اور ک ےتھا اور ک ہ ہ ہ ے ہ ۔ڈر لگتا بیگم جان جو میر اوپر جان چھڑکتی تھیں ے ہے۔

و گئیمیری ہآج ربو میں اور بیگم جان میں پھر ان بن ی یا کچھ اور مجھ ان دونوں کی ےقسمت کی خرابی ک ے ہ ی بیگم جان کو خیال آیا ک ہان بن س ڈر لگا کیونک رات ہ ہ ۔ ے وں اور مروں گی نمونی ی ر سردی میں گھوم ر ےمیں با ہ ہ ہ

۔میں

و گیا، تو" وا ہلڑکی کیا میرا سر منڈوائ گی جو کچھ ہ ۔ ے ۔اور آفت آئ گی ے "

Page 247: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھ سلفچی وں ن ن مجھ پاس بٹھا لیا و خود من ہان ہ ہ ۔ ے ے ے ہ ی تھیں، چائ تپائی پر رکھی تھی ۔میں دھو ر ے ہ

" ہچائ تو بناؤایک پیالی مجھ بھی دیناو تولی س من ے ے ہ ے ے ۔خشک کر ک بولیں ذرا کپڑ بدل لوں ے ے "

ی بیگم جان یں اور میں چائ پیتی ر ۔و کپڑ بدلتی ر ہ ے ہ ے ہ ےنائن س پیٹھ ملوات وقت اگر مجھ کسی کام س ے ے ے

۔بلواتیں، تو میں گردن موڑ جاتی اور واپس بھاگ آتی ے ، تو میرا دل الٹن لگا من وں ن کپڑ بدل ہاب جو ان ۔ ے ے ے ے ہ

ی ۔موڑ میں چائ پیتی ر ہ ے ے

ےائ اماںمیر دل ن ب کسی س پکاراآخر ایسا بھائیوں" ے ے ے ے ہمیش س وں جو تم میری مصیبتاماں کو ےس کیا لڑتی ہ ہ ہ ے

و بھال لڑک کیا ےمیرا لڑکوں ک ساتھ کھیلنا ناپسند ک ہ ہے۔ ے یں جو نگل جائیں گ ان کی الڈلی کو؛ اور ےشیر چیت ہ ے

ے۔لڑک بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑ سڑائ ان ے ے یں، و تو عورت ذات کو ہذرا ذرا س ان ک دوست مگر ن ہ ے ے اں بیگم جان کی ہسات سالوں میں رکھن کی قائل اور ی ے یں بس چلتا، سو شت ک دنیا بھر ک غنڈوں س ن ۔و د ہ ے ے ہ ہ ہ اں ن ٹکتی مگر ہاس وقت سڑک پر بھاگ جاتی، پھر و ہ

ی ۔الچار تھی مجبور کلیج پر پتھر رکھ بیٹھی ر ہ ے ہ ۔ "

وئ اور گرم گرم خوشبوؤں ےکپڑ بدل کر سول سنگھار ہ ہ ے یں انگارا بنا دیا اور و چلیں مجھ ہک عطر ن اور بھی ان ہ ے ے

ے۔پر الڈ اتارن

ا" ر رائ ک جواب میں ک ہگھر جاؤں گی" میں ن ان کی ے ے ہ ے یں بازار ل چلوں ےاور رون لگی "میر پاس تو آؤمیں تم ہ ے ۔ ے

۔گیسنو تو "

، ےمگر میں کلی کی طرح پھسل گئی سار کھلون ے ۔ ۔مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جان کی رٹ ایک طرف ے

وں ن پیار س مجھ تھپڑ" اں بھیا ماریں گ چڑیل" ان ےو ے ے ہ ے ہ ۔لگایا

" ی ۔پڑیں ماریں بھیامیں ن سوچا اور روٹھی اکڑتی ر ہ ے یں بیگم جان" جلی کٹی ربو ن وتی ے"کچی امیاں کھٹی ہ ہ ۔رائ دی اور پھر اس ک بعد بیگم جان کو دور پڑ گیا ہ ے ے

Page 248: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی تھیں، نا ر ل مجھ پ ار جو و تھوڑی دیر پ ہسون کا ہ ے ے ہ ہ ہ ے ین جالی کا دوپٹ تار تار اور و مانگ و گیا م ہٹکڑ ٹکڑ ہ ہ ۔ ہ ے ے و ہجو میں ن کبھی بگڑی ن دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہ ے

۔گئی

" و جھٹکی ل ل کر چالن لگیں میں رپٹی" ۔او او او او ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ر ۔با ہ

وش آیا جب میں سون ےبڑ جتنوں س بیگم جان کو ۔ ہ ے ے ےک لئ کمر میں دب پیر جا کر جھانکی، تو ربو ان کی ے ے ے

ی تھی ۔کمر س لگی جسم دبا ر ہ ے

ا اور" وئ ک ہجوتی اتار دواس ن اس کی پسلیاں کھجات ے ہ ے ے یا کی طرح لحاف میں دبک گئی ۔میں چو ہ "

ےسر سر پھٹ کجبیگم جان کا لحاف اندھیر میں پھر ا تھا ۔اتھی کی طرح جھوم ر ہ ہ

اتھی" وئی آواز نکالی لحاف میں ہالل آں" میں ن مری ۔ ہ ے ہ اتھی ن پھر و گئی ےچھلکا اور بیٹھ گیا میں بھی چپ ہ ۔ ہ ۔ ےلوٹ مچائی میرا رواں رواں کانپا آج میں ن دل میں ۔ ۔ وا بلب جال ان لگا مت کر ک سر ہٹھان لیا ک ضرور ے ہ ے ہ ہ ا تھا اور جیس اکڑوں بیٹھن کی اتھ پھڑپھڑا ر ےدوں ے ہ ہ ۔ ی ا تھا چپڑ چپڑ کچھ کھان کی آواز آ ر ہکوشش کر ر ے ۔ ہ و اب میں ا ۔تھیں جیس کوئی مز دار چٹنی چکھ ر ہ ہ ے ے ۔

یں کھایا اور ربو مردی ہسمجھی! ی بیگم جان ن آج کچھ ن ے ہ ی میں ن ےتو سدا کی چٹو ضرور ی تر مال اڑا ر ہے۔ ہ ہ ۔ ہے

وا کو سونگھا سوائ عطر ےنتھن پھال کر سوں سوں ۔ ہ ے ےصندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو ک اور کچھ

وا ۔محسوس ن ہ ہ

ا ک چپکی تیرا چا و ا میں ن ب ہلحاف پھر امنڈنا شروع ہ ہ ے ۔ ہ وں مگر اس لحاف ن تو ایسی عجیب عجیب ےپڑی ر ۔ ہ

وتا تھا ہشکلیں بنانی شروع کیں ک میں ڈر گئی معلوم ۔ ہ ا اور اب ہےغوں غوں کر ک کوئی بڑا سا مینڈک پھول ر ہ ے

۔اچھل کر میر اوپر آیا ے

اں کچھ شنوائی ن مت کر ک گنگنائی مگر و ہآناماںمیں ہ ۔ ے ہ ےوئی اور لحاف میر دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہ

Page 249: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےوا میں ن ڈرت ڈرت پلنگ ک دوسری طرف پیر اتار ے ے ے ے ۔ ہاتھی ن لحاف ک ےاور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا ے ہ ۔

ےنیچ ایک قالبازی لگائی اور پچک گیا قالبازی لگان میں ۔ ے ۔لحاف کا کون فٹ بھر اٹھا ہ

! میں غڑاپ س اپن بچھون میں ۔الل ے ے ے ہ

ہےلو کا کمر بند

(رام لعل)

تا تھا اس ت عرص گزرا کسی ملک میں ایک سوداگر ر ۔ب ہ ہ ہ ت خوبصورت تھی اتنی ک اس کی محض ایک ہکی بیوی ب ۔ ہ

ےجھلک دیکھن ک لئ عاشق مزاج لوگ اس کی گلی ک ے ے ے ہچکر لگایا کرت تھ ی بات سوداگر کو بھی معلوم تھی ے۔ ے ےاس لئ اس ن اپنی بیوی پر سخت پابندیاں عائد کر ے ےرکھی تھیں اس کی اجازت ک بغیر و کسی س مل ہ ے ۔

یں سکتی تھی اس ک قریب قریب تمام مالزم دراصل ےن ۔ ہ ےاس سوداگر ک خفی جاسوس تھ جو اس کی بیوی کی ہ ے ے۔حرکتوں پر کڑی نظر رکھت تھ سودا گر کو کبھی بھی ے ےدو دو تین تین سال ک لئ دور دور ک ممالک میں بیوپار ے ے

ہک سلسل میں جانا پڑتا تھا کیونک سفر میں کئی ۔ ے ے یں عبور کرت وقت کئی وت تھ جن ےسمندر بھی حائل ہ ے ے ہ

۔بار بحری قزاقوں س بھی واسط پڑ جاتا تھا ہ ے

ون واال تھا م پر روان ی ایک تجارتی م ۔ایک بار و ایسی ے ہ ہ ہ ہ ہ ل و اپنی بیوی کی خواب گا ہگھر چھوڑن س ایک رات پ ہ ے ہ ے ے

۔میں گیا اور بوال

" یں ایک تحف ل میں تم ون س پ ہجان من! تم س جدا ہ ے ہ ے ے ہ ے میش میری یاد یں وں مجھ یقین ی تحف تم تا ہدینا چا ہ ہ ہ ہ ہے ے ۔ ہ ہ

میش چپکا ر ار جسم ک ساتھ ہےدالتا ر گا کیونک ی تم ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہے ۔گا "

ےی ک کر سوداگر ن اپنی بیوی ک چاندی س بدن پر کمر ے ے ہہ ہ ہےک نچل حص ک ساتھ لو کا ایک کمر بند جوڑ دیا اور ے ے ے ے

ےکمر بند میں ایک تاال بھی لگا دیا پھر تال کی چابی اپن ے ۔ وئ بوال ۔گل میں لٹکات ے ہ ے ے

Page 250: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر وقت لٹکی ر گی اس کی" ۔ی چابی میر سین پر ہے ہ ے ے ہ وں گا یں یاد کرتا ر ۔وج س میں بھی تم ہ ہ ے ہ "

ےسوداگر کی بیوی ن لو ک کمربند کو غور س دیکھا تو ے ہے ے ےسمجھ گئی ک ی دراصل اس بدکاری س باز رکھن ک ے ے ے ہ ہ

نایا گیا اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئ اور بولی ۔لئ پ ے ہے۔ ہ ے

یں نا! اسی لئ آپ ن ایسا" ےآپ کو مجھ پر اعتماد ن ے ہے ہ وں کبھی آپ کو ۔کیا لیکن میں تو آپ س محبت کرتی ہ ے ہے

"شکایت کا موقع مال؟

۔سوداگر ن جواب دیا ے

یں لیکن" اری طرف س کوئی شب ن ہےمیر دل میں تم ہ ہ ے ہ ے ت خراب اور میں مردوں کی ذات س ےچونک زمان ب ہے ہ ہ ہ

ارا عورتوں میش کمزور اور ب س وں و ہبخوبی واقف ے ہ ہ ہ ۔ ہ یں یں اسی خیال س میں ن تم ت ہکی تاک میں ر ے ے ۔ ہ ے ہ

اری عصمت ہمحفوظ کر دیا اب کوئی بھی شخص تم ہے۔ یں لوٹ سک گا ۔ن ے ہ "

و گیا لیکن اس کی ہی ک کر سوداگر تو اپن سفر پر روان ہ ے ہہ ہ ےبیوی لو ک کمربند کی وج س سخت پریشانی ہ ے ہے

نی ہمحسوس کرن لگی ی تکلیف جسمانی کم تھی ذ ہ ۔ ے ہ۔زیاد

۔کمربند کی وج س و خود کو ایک قیدی سمجھن لگی ے ہ ے ہ وئ لو ک کمربند ےاٹھت بیٹھ اس کمر ک گرد کس ہے ے ہ ے ے ے ے ے

وتا تھا اس کمر بند کی وج س اس ےکا شدید احساس ے ہ ۔ ہ ےدوسر مردوں کا خیال زیاد آن لگا تھا جن س بچان ے ے ہ ے

ر ن ی انوکھا طریق اپنایا تھا و اس ہک لئ اس ک شو ۔ ہ ہ ے ہ ے ے ے یں تھی لیکن اس کی زندگی غالموں س ےکی غالم تو ن ہ

و گئی اور ی سب اس ک ب پنا حسن کی وج ہبھی بدتر ہ ے ے ہ ہ وا تھا ۔س ہ ے

وتی تو اس ک ساتھ اس قسم کا ےو اتنی حسین ن ہ ہ ہ ر ک ظلم رگز ن کیا جاتا اپن شو ےظالمان سلوک بھی ہ ے ۔ ہ ہ ہ

ہکو یاد کر ک اور اپن حسن کو آئین میں دیکھ کر و ے ے ے ی و جاتی اور کبھی رون بھی لگتی لیکن و کر ہدکھی ہ ۔۔ ے ہ ر طرح س ب بس تھی بند ۔کیا سکتی تھی اب تو و ے ے ہ ہ ۔

Page 251: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر اس کتن مردوں کی ےکھڑکیوں اور دروازوں ک با ے ہ ے ےسیٹیاں سنائی دیتی تھیں بعض لوگ تو اس کا نام پکارت ۔

وئ گلی میں س گزرت ی شعر اس ہوئ یا شعر پڑھت ے۔ ے ے ہ ے ے ہہک ب پنا حسن کی تعریف میں یا خود ان کی اپنی ے ے

وت لیکن و کبھی درواز یا ہاندرونی کیفیتوں ک غماز ہ ے ہ ے ر یں جھانکتی تھی کیونک و اپن شو ر ن ہکھڑی کھول کر با ے ہ ہ ہ ہ ت محبت کرتی تھی اس ک مالزم اس قسم کی ےس ب ۔ ہ ے و جات تھ اور و اپن دل میش چوکن ےآوازیں سن کر ہ ے ے ہ ے ہ ہ ش کو بڑی و جان والی اس خوا ہمیں کبھی کبھی پیدا ے ہ

ہسختی س دبا لیتی تھی ک و کسی روز تو کھڑکی کو ذرا ہ ے ی دیکھ ل ے۔سا کھول کر اپن عاشقوں کی شکل ہ ے

ہاس ک کانوں میں جو سیٹیاں گونجتی تھیں اور عاشقان ے ےاشعار پڑھن کی جو آوازیں آتی تھیں، ان کی وج س ہ ے

ادر مردوں کی تصویریں اپن آپ اس کی ےشکیل اور ب ہ ۔آنکھوں ک سامن آ جاتیں ے ے

ن میں ی خیال بھی آتا ک اس ہلیکن کبھی کبھی اس ک ذ ہ ہ ے یں جو مکان ادر آدمی ن ہک عاشقوں میں ایک بھی ایسا ب ہ ے

ے۔کی اونچی دیوار پھالنگ کر اس اغوا کر ک ل جائ ے ے ے

ی اس ےرفت رفت اغواء کئ جان ک تصورl محض س ہ ے ے ے ے ہ ہ ےتسکین ملن لگی اس لگتا ک و ایک اجنبی مرد ک آگ ے ہ ہ ے ۔ ے ےاس ک گھوڑ پر سوار و گھوڑ کو سرپٹ بھگائ ے ہ ہے۔ ے ے

ا اور اس گھر س سینکڑوں کو س دور ایک ےل جا ر ے ہے ہ ے اں س اس کوئی بھی ےگھن جنگل میں ل جاتا ج ے ہ ہے۔ ے ے یں ل جا سک گا اب و اپن شکی مزاج اور ےواپس ن ہ ۔ ے ے ہ و چکی میش ک لئ آزاد ر ک پنج س ہےظالم شو ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ہ

ےلیکن جب و اپن اجنبی عاشق ک ساتھ جسمانی تعلق ے ہ یں ۔کی بات سوچن بیٹھتی تو اس ک آنسو نکل پڑت ہ ے ے ے ہکمر میں لو ک کمربند کی وج س تو و کسی بھی ے ہ ے ہے

ی تھی جب تک اس کمر بند کو یں ر ۔مرد ک کام کی ن ہ ہ ے ر ک ےکھول ن دیا جائ لیکن اس کی چابی تو اس ک شو ہ ے ے ہ

۔پاس تھی

ےایک مرتب سوداگر کی بیوی ک کانوں میں ایک ایسی ہ ی و مضطرب ہمغنی ک گان کی آواز آئی جس سنت ہ ے ے ے ے

Page 252: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا ن گیا اس ن اپن قیمتی زیورات ےو گئی اس س ر ے ۔ ہ ہ ے ۔ ہا ۔اپن نوکروں کو انعام ک طور پر د دئ اور ان س ک ہ ے ے ے ے ے

۔اس مغنی کو تھوڑی دیر ک لئ میر پاس ل آؤ اس" ے ے ے ے ، جس ن ےکا گانا سنوں گی اس کی آواز میں بڑا سوز ہے ۔

ر کی یاد تاز کر دی جو ہےمیر دل میں میر پیار شو ہ ہ ے ے ے زاروں کوس دور پردیس میں ہےایک مدت س مجھ س ہ ے ے وں ۔اور میں اس ک فراق میں دن رات تڑپا کرتی ہ ے "

~ اس مغنی کو بال کر ل آئ و اس عالق کا ےمالزم فورا ہ ے۔ ے ور و معروف مغنی تھا لوگ اس کی آواز سن کر ۔مش ہ ےوجد میں آ جات تھ و مردان حسن و شکو کا ایک ب ہ ہ ہ ے۔ ے

ےمثال نمون تھا اونچا قد، مضبوط جسم، لمب لمب بازو، ے ۔ ہ وئ گھنگھریال بال اس کی رات ۔سانوال رنگ اور ل ے ے ہ ے ہ

آنکھوں میں غضب کی کشش تھی اور محبت کی ایکےعجیب س شدت بھی اس ن بھی سوداگر کی بیوی ک ے ۔ ے ہحسن ک چرچ سن رکھ تھ اور غائبان طور پر اس ے ے ے ے ےس محبت بھی کرن لگا تھا اب جب و اس حسین ک ہ ہ ۔ ے ے

ل تو نچا دیا گیا تو متعجب سا ر گیا پ ےسامن اچانک پ ہ ۔ ہ ہ ے و سکتی اس لئ ا ک ی حقیقت ی ن ر ےاس اعتبار ہے۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

و گیا ک و ہاپنی آنکھیں بار بار ملیں لیکن جب اس یقین ہ ہ ے ل ےسچ مچ اپن دل کی ملک حضور ک سامن کھڑا تو پ ہ ہے ے ے ۂ ے اں کا ی دل میں اپنی خوش نصیبی پر مالکl دوج ہو دل ہ ہ

۔شکر بجا الیا پھر سر جھکا کر بوال

ۂا حسین عالم! میں آپ کی کون سی خدمت سر انجام" ے وں؟ ہد سکتا ے

ی نظر لی ہسوداگر کی بیوی مغنی ک مردان حسن پر پ ہ ہ ے و گئی لیکن اپن مالزموں کی موجودگی میں ےمیں فریفت ہ ہ

ار کرنا مناسب ن سمجھا ۔اس ن اپنی کیفیت کا اظ ہ ہ ے ن پر اکتفا کی ی ک ۔صرف اتنا ے ہ ہ

ر کی جدائی میں ٹرپ" ہنامور مغنی میں اپن پیار شو ے ے وں جس ک لوٹن کی ابھی تین برس تک کوئی ی ےر ے ہ ہ یں تم مجھ کوئی ایسی غزل سناؤ جس س ےتوقع ن ے ہے۔ ہ

Page 253: اردو ادب کے مشہور افسانے

اری پر و مجھ یقین تم ہمیر دل کو راحت نصیب ہے ے ۔ ہ ے م کا کام کر گی ۔سوز آواز میر زخمی دل پر مر ے ہ ے "

ت و مغنی کی آنکھوں میں ڈوب گئی لیکن پھر ت ک ہی ک ے ہ ے ہ ہ ~ سنبھل سی گئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی مغنی ۔فورا ےاس کی حقیقی کیفیت کچھ کچھ بھانپ گیا سوچن لگا ۔ یں؟ ممکن یں و اسی کی محبت میں گرفتار تو ن ہےک ک ہ ہ ہ ہ

ار ن ہاپن مالزموں کی موجودگی ک سبب س اس کا اظ ہ ے ے ے ش ک احترام ک لئ رحال اس کی خوا و! ب ےکر سکتی ے ے ہ ہ ہ

وئ اپن رفیقوں کو بھی اندر بلوا لیا ر کھڑ ۔اس ن با ے ے ہ ے ہ ے ےساز بجن لگ ڈھول پر تھاپ پڑن لگی اور سوداگر کی ے۔ ے ۔عالی شان عمارت اس کی پر سوز آواز س گونج اٹھی ے

ہمغنی ن اس ک سامن اپن ایک پسندید شاعر کی ایک ے ے ے ے ہمنتخب غزل چھیڑ دی جس ک ذریع و اپنی اندرونی ے ے

ار بھی کر سکتا تھا ۔کیفیت کا اظ ہ

ےزمیں والوں پ ی عشق ستم ا آسمان کب تک ہ ہت نازاں تو جس پر و دورl کامراں کب تک ہب ہے ہ

اں تک باغباں کا ناز اٹھائیں گ چمن وال ےک ے ہہےر گا گلشن امید برباد خزاں کب تک

ےاس کی آواز میں ایک عجیب سا جادو تھا جس کا اس اں بھی اس ن اپنی ےخود بھی احساس ن تھا آ ج تک ج ہ ۔ ہ ا تھا میش کامیاب و کامران ر ۔آواز کا جادو جگایا تھا، و ہ ہ ہ ہ ۔اب تو اس ن اپنی آواز میں ایک نیا جذب شامل کر لیا تھا ہ ے اں ہو اپنی محبوب ک سامن بیٹھا تھا اس یقین تھا، ی ے ۔ ے ے ہ ہ

ار کر اس ک ےبھی و کامیاب ر گا ی حسین اپنا دل ہ ہ ہ ۔ ہے ہ و جائ گی ۔قدموں میں رکھ دین ک لئ ضرور مجبور ے ہ ے ے ے

ا تھا، اس کی آنکھیں جذبات کی شدت ہجب و اشعار گا ر ہ و گئی تھیں ادھر سوداگر کی بیوی کی آنکھیں ۔س الل ہ ے ی و جاتی تھیں لیکن دیکھن وال ی ہبھی بار بار غم ناک ے ے ہ

ی ا ر ر کو یاد کر ک آنسو ب ہسمجھ ر تھ ک و اپن شو ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہے ے جب مغنی ن اگال شعر پڑھا، تو سوداگر کی بیوی کی ہے۔

ون لگی ۔کیفیت اور بھی غیر ے ہ

یں بجھن کی ی آتش الفت ہبجھان س ک ہے ے ہ ے ےہار او دید گریاں ی معنی رائیگاں کب تک ۂ ہ ے

Page 254: اردو ادب کے مشہور افسانے

رایا، اس قدر ل مصرع کو اتنی مرتب د ہمغنی ن پ ہ ے ے ہ ے ی تاثر ر مرتب اس س ایک نیا رایا ک ہمستی س د ے ہ ہ ہ ہ ے

ہابھرتا چال گیا مالزموں کو اب ی خدش ستان لگا ک ان ے ہ ہ ۔ وں ن ، اس لئ ان و جائ وش ن یں ب ےکی مالکن ک ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ

و کر چل جان کا اشار کر دیا لیکن ہمغنی کو خاموش ے ے ہ ےسوداگر کی بیوی ن مغنی کو جان س روک لیا اور ے ے

۔بولی

" وں تی ائی میں کچھ باتیں کرنا چا ۔میں تم س تن ہ ہ ہ ے "

ےمغنی ن اپن سار ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود ے ے ےسوداگر کی بیوی ک قدموں میں جھک کر پھر س بیٹھ ے

۔گیا بوال ۔

" وں ۔فرمایئ میں حاضر خدمت ہ ے "

ےسوداگر کی بیوی کی آنکھیں ابھی تک آنسوؤں س بھری ۔وئی تھیں و خاصی دیر تک تو کچھ ن ک سکی آخر ہہ ہ ہ ۔ ہ

وئی آواز میں بولی ۔تھرتھراتی ہ

! کیا تم کسی" اری آواز میں اس قدر سوز کیوں ہےتم ہ و؟ مغنی ن جواب دیا ۔س محبت کرت ے ہ ے ے

" ۔میر سر س میر والدین کا سای بچپن س اٹھ گیا تھا ے ہ ے ے ے وں ا ت چھوٹی عمر س جگ جگ گھوم ر ۔میں ب ہ ہ ہ ہ ے ہ

ےموسیقی س مجھ خاص رغبت اسی میں مجھ ہے۔ ے ے ل میں ن کسی س ےخاص تسکین ملتی اب س پ ے ے ہ ے ہے۔

یں اس ک متعلق میں یقین س کچھ ےمحبت کی یا ن ے ۔ ہ ہے یں ک سکتا ی صحیح ک میں ن عورتیں ب شمار ےن ے ہ ہے ہ ۔ ہہ ہ

وں، یں حسین س حسین ترین عورتیں، بادشا ہدیکھی ے ۔ ہ وتا میش شریک ہامیروں اور سرداروں کی محفلوں میں ہ ہ

ی لیکن میں یں ر اں عورتوں کی کمی ن وں و ا ہےر ہ ہ ہ ۔ ہ ہ وں ک حقیقی ہسچ دل س اس بات کا قرار کر سکتا ہ ے ے

ون لگا ی ےمحبت کا آغاز مجھ آپ کا غائبان ذکر سن کر ہ ہ ہ ے وا ہتھا آج تو مجھ یوں محسوس ے ۔ !"

ا ۔اس س آگ سوداگر کی بیوی ن اس ن بولن دیا، ک ہ ے ہ ے ے ے ے

" و لیکن آئند ت نا چا ہبس، بس میں سمجھ گئی تم کیا ک ہ ے ہ ہ ےایسی بات زبان پر کبھی مت النا سمجھ لو میں اپن ۔

Page 255: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں اس ک عالو میں کسی ر کی پاک دامن بیوی ہشو ے ۔ ہ ہ یں السکتی لیکن ہبھی دوسر کا خیال اپن دل میں ن ے ے

ار جذبات کی میں اس حد تک ضرور قدر کروں گی ےتم ہ اں آ کر مجھ اپن گیت سنا جایا کرو ےک تم کبھی کبھی ی ے ہ ہ و گی ار جذبات کو تسکین حاصل ۔کیونک اس س تم ہ ے ہ ے ہ ار و گی کیونک تم ~ مجھ بھی حاصل ےایسی تسکین یقینا ہ ہ ہ ے ر کی یاد تاز ہگان کی وج س میر دل میں میر شو ہ ے ے ے ہ ے

ر واپس آ جائ گا تو اس ی معلوم ہر گی جب میرا شو ے ے ہ ۔ ہے ےو گا ک اس کی غیر حاضری میں تم ن اپنی موسیقی ک ے ہ ہ

میش جگائ رکھا ےذریع میر دل میں اس کی محبت کو ہ ہ ے ے ت ممکن اس خدمت ک و گا ب ت خوش ے تو و ب ہے ہ ۔ ہ ہ ہ ہے

یں انعامات و کرامات س بھی نواز ے۔عوض و تم ے ہ ہ "

ےسوداگر ک مالزم جو ان کی باتیں پردوں ک پیچھ س ے ے ے و گئ ک ان کی ہسن ر تھ اب پوری طرح مطمئن ے ہ ے۔ ہے

ر کی محبت میں مکمل طور پر سرشار ہمالکن اپن شو ے و گا ۔ اس س ب وفائی کی توقع رکھنا اب ب کار ہ ے ے ے ہے۔ےچنانچ جب مغنی ن سوداگر کی بیوی کی پیش کش ہ

ےقبول کر لی تو پھر اس ک آن جان پر کسی قسم کی ے ے ی آن لگا ےپابندی ن لگائی گئی مغنی قریب قریب روز ہ ۔ ہ ائی ہاور اب و بڑی آزادی س سوداگر کی بیوی س تن ے ے ہ

یں اس طرح ایک دوسر س ےمیں بھی مل لیتا تھا ان ے ہ وئ ایک سال کا عرص گزر گیا لیکن دونوں ن ابھی ےملت ہ ے ہ ے یں چھوا تھا مغنی اسی غم میں دن ۔تک ایک دوسر کو ن ہ ے ون ر کی تازگی رخصت وتا گیا اس ک چ ےبدن کمزور ہ ے ہ ے ۔ ہ

یں آتی ہے۔لگی لگتا تھا اس رات کو کبھی نیند ن ہ ے ۔

تی تھی لیکن و ہسوداگر کی بیوی ی دیکھ کر فکر مند ر ہ ہ ار محبت کرن ےمغنی کو ابھی تک اپن سامن صاف اظ ہ ے ے یں د سکی تھی و جانتی تھی آگ بڑھن ےکی اجازت ن ے ہ ۔ ے ہ

و جائ گا ک اس و گا جب مغنی کو ی معلوم ہکا نتیج کیا ے ہ ہ ۔ ہ ہ وئ بھاری ریشمی لباد ک نیچ اس ن ےک جسم پر پ ے ے ے ہ ے ہ ے وا ہکی کمر ک نچل حص پر لو کا مضبوط کمر بند لگا ہے ے ے ے و سکتا اس ک لئ ی صدم و گا! ہ تو و کتنا مایوس ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ہےو جائ اور و خود کشی کر بیٹھ اسی ےناقابل برداشت ہ ے ہ ی ی رکھتی آ ر ہلئ و اس ابھی تک اپن جسم س دور ہ ے ے ے ہ ے

۔تھی

Page 256: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا تھا اور ہایک دن جب مغنی اس ک ساتھ حسب معمول تن ے ا تھا تو اچانک ار کر ر ہاس ک سامن اپن عشق کا اظ ہ ے ے ے و گیا اور اس ک قدموں س اتھوں ب قابو ےجذبات ک ے ہ ے ہ ے

ن لگا ۔لپٹ کر زار زار رون لگا ک ے ہ ۔ ے

و گیا میں آپ کو اس" نا نا ممکن ہے۔اب میر لئ زند ر ہ ہ ہ ے ے وں بس آپ ۔قید خان س نکال کر ل جان ک لئ تیار ہ ے ے ے ے ے ے

و سکتا ہےک اشار کی دیر اگر آپ ن انکار کیا تو ہ ے ہے۔ ے ے ۔میں زبردستی اٹھا ل جان کی بھی گستاخی کر بیٹھوں ے ے "

ےاغوا کئ جان کا سن کر سوداگر کی بیوی اپن حسین ے ے ےترین خوابوں میں کھو گئی اس قسم ک خواب اس ن ے ۔

وئ دیکھ تھ اس ن سمجھ ےکئی مرتب سوت جاگت ے۔ ے ے ہ ے ے ہ ےلیا ک اس ک خوابوں ک حقیقت میں بدل جان کی ے ے ہ

ی لو ک کمر بند کا ~ نچی لیکن اس فورا ےگھڑی آ پ ہے ہ ے ہے ہ ےخیال آگیا اس کمر بند س چھٹکارا پانا تو کسی طرح ۔

یں ہے۔بھی ممکن ن ہ

ہمغنی کو جب اپنی درخواست کا کوئی جواب ن مال تو و ہ و کر ایک نئی غزل و گیا ب خود سا ہاور بھی غمگین ے ۔ ہ

و گیا ۔گان پر مجبور ہ ے

ہاب سحر کا ن انتظار کردامنl شب کو تار تار کرو

ی ہزندگی رنج و غم کا نام سےمل گئی تو اس پیار کرو ہے

وتی کبھی کبھی تو ہے۔موسیقی بڑوں بڑوں کی کمزوری ہ ےی اچانک ایسا سیالب بن جاتی جس ک سامن کئی ے ہے ہ یں مغنی سمجھ گیا، ۔ثابت قدم بھی ڈگمگا کر ب جات ہ ے ہہ ی شکست د سک ےاپنی محبوب کو و اب اپن فن س ے ہ ے ے ہ ہ ےگا اس لئ اس ن پوری طرح اپن اندر ڈوب کر ایک ل ے ے ے

۔نکالی

ےم س خوئ وفا ن چھوٹ گی ہ ے ے ہتم کوئی جبر اختیار کروہاور چمکاؤ آئین رخ کا

زلف کو اور تابدار کر و

Page 257: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گیا و گئی و ب حال ۔گات گات اس کافی دیر ہ ے ہ ۔ ہ ے ے ے ی حالت تھی آخر اس ن ےسوداگر کی بیوی کی بھی ی ۔ ہ

اتھ پکڑ کر بولی تھیار ڈال دیئ اس کا ۔مغنی ک سامن ہ ے ہ ے ے

وں ک میں بھی تم س محبت کرتی ےمیں اعتراف کرتی ہ ہ وں گی لیکن میں کسی وج س ےوں زندگی بھر کرتی ر ہ ہ ۔ ہ

یں جانت اس گھر کو چھوڑ کر بھی وں، تم ن ےمجبور بھی ہ ہ یں کر سکوں گی ار حوال ن ۔میں اپنا آپ تم ہ ے ے ہ "

ےاس ک بعد اس ن مغنی کو لو ک کمر بند والی بات ہے ے ے ر اپن ساتھ ل گیا ےبھی بتا دی جس کی چابی اس کا شو ے ہ کا بکا سا ر گیا اس یقین ن آیا ہوا تھا ی سن کر مغنی ے ہ ہ ہ ۔ ہا تھا اس ن لباس ک اوپر ےجو کچھ اس کی محبوب ن ک ے ۔ ہ ے ہ و سکا ی اس یقین ہس نیچ ک کمر بند کو چھوا تب ے ہ ے ے ے ر پر ا اس ک چ ےلیکن کئی لمحوں تک و کھڑا سوچتا ر ہ ے ۔ ہ ہ

ریں آئیں اور گئیں، آخر اس ن زبان اس طرح ےکئی ل ہ ۔کھولی "میں اس کمربند کو کاٹ کر پھینک دوں گا ا بھی ۔

وں جو پلک جھپکت ےبازار جا کر اتن تیز اوزار ل کر آتا ہ ے ے ے۔میں اس غیر انسانی کمر بند کو کاٹ دیں گ "

۔ی سن کر سوداگر کی بیوی کو غص آگیا، بولی ہ ہ

ار خیال میں" یں آتی کیا تم یں شرم ن وئ تم ت ےی ک ہ ۔ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ار و گ تو میں تم ےجب تم لو ک کمربند کو کاٹ ر ہ ے ہ ہے ے ہے

وں گی ۔سامن کپڑ اتار کر کھڑی ر ہ ے ے "

ی لیکن ~ معذرت چا ہمغنی ن اپنی غلطی ک لئ فورا ے ے ے ی اس ن ایک اور تجویز بھی پیش کر دی ی کام ہساتھ ۔ ے ہ وں ار دوست ک بھی سپرد کر سکتا ۔میں اپن ایک لو ہ ے ہ ے

اری ہمیں اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دوں گا تاک و تم ہ ہ ےحسین کمر پر نگا ن ڈال سک لیکن و اپن کام میں اتنا ہ ے ہ ہ

lون پر بھی و اپنا کام حسب ر ک آنکھیں بند ہما ے ہ ہ ہے ہ ش انجام د ل گا ۔خوا ے ے ہ "

ہسوداگر کی بیوی ن ی بات بھی منظور ن کی اور مغنی ہ ے ا "جاؤ او مجھ میر حال پر چھوڑ دو ۔س ک ے ے ۔ ہ ے "

اں س جات جات ایک ایک اور بات کا خیال ےمغنی کو و ے ے ہ ا، "حسین عورتوں کا سب ہآیا چنانچ اس ن پلٹ کر ک ے ہ

Page 258: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتا اگر آپ اپنا وزن کم ہے۔س بڑا دشمن ان کا موٹاپا ہ ے ےکرنا شروع کر دیں تو آپ ک جسم کی کشش بھی

و ہبرقرار ر گی اور اس کمربند س بھی نجات حاصل ے ہے ۔جائ گی ے "

سوداگر کی بیوی اچھ�ی اچھ�ی مرغن غذاؤں کی بڑیہدلداد تھی اس قسم کی تجویز کو و کسی صورت میں ۔ ہ

یں کر سکتی تھی چمک کر بولی ۔قبول ن ۔ ہ

اری خاطر میں خود کو بھوکا" و گا ک تم ہاس کا مطلب ی ہ ہ ہ ن س ےماروں! کھانا پینا چھوڑ دوں! لیکن بھوکا پیاسا ر ے ہ

و سکتا پھر بھال ہے۔بیمار پڑ جان کا بھی تو خطر الحق ہ ہ ے ے۔تم میری طرف نظر اٹھا کر بھی کیوں دیکھو گ جاؤ جاؤ

یں اری ایک بھی تجویز معقول ن ہے۔تم ہ ہ "

اں و کر اب و و ت افسرد ہمغنی کا دل بھی ٹوٹ گیا ب ہ ہ ہ ہ ۔ ۔س جان واال تھا ک پلٹ کر پھر آیا اور بوال ہ ے ے

" ے۔خدا ک لئ میری ایک تجویز پر غور ضرور فرما لیجئ ے ے یں ک میں ہکیا آپ مجھ اس بات کی اجازت د سکتی ہ ے ے

؟ مجھ وں ےآپ ک سامن مسلسل کئی روز تک گاتا ر ۔ ہ ے ے ےیقین اپنی موسیقی کی بدولت میں آپ ک بدن میں ہے و جاؤں گا ہایک ایسی سنسنی پیدا کر دین میں کامیاب ے ےجس س آپ کا کمر بند خود بخود کمر س نیچ پھسل ے ے و یجان ک کسی بھی لمح میں ایسا ائی ہجائ گا انت ے ے ہ ہ ۔ ے

ہجانا ممکن آپ کو پت بھی اس وقت لگ گا جب ی کمر ے ہ ہے۔ ۔بند سرک کر آ پ ک قدموں میں آگر گا ے ے "

نسی ہسوداگر کی بیوی ن اس کی نئی تجویز کو بھی ے ن لگی ۔میں اڑا دیا ک ے ہ ۔

و" و کبھی ایسا ل بھی تو کئی بار گانا سنا چک ہتم پ ۔ ہ ے ے ہ وں تم مجھ صرف افسرد بنا سکت ےسکا؟ میں جانتی ہ ے ہ

و سکت یں ے۔و کسی اور بات میں کامیاب ن ہ ہ ۔ "ہ

و کر چل دیا پھر کئی ی مایوس اں س بالکل ۔اب و و ہ ہ ے ہ ہ ینوں تک اس ن پلٹ کر سوداگر کی بیوی کو اپنی ےم ہ

ےصورت ن دکھائی لیکن سوداگر کی بیوی کو اپن مالزموں ہ یں ک و گلی ہک ذریع اس ک بار میں خبریں ملتی ر ہ ہ ے ے ے ے

Page 259: اردو ادب کے مشہور افسانے

تا اب اس اپن تن بدن ےکوچوں میں مارا مارا پھرتا ر ے ہے۔ ہ تا کسی کی فرمائش پر گانا بھی یں ر وش بھی ن ہے۔کا ہ ہ ہ یں گاتا بس ایک خاموشی اس ن اختیار کر رکھی ہے۔ن ے ہے۔ ہ

و گیا ک و سوداگر کی بیوی ور ہلوگوں میں ی بھی مش ہ ہے ہ ہ ہ یں جب و بالکل ہک عشق میں مبتال اور و دن دور ن ہ ہ ہے ے

و جائ گا آخری بات سوداگر کی بیوی ک لئ ےپاگل ے ۔ ے ہ و ہخاصی پریشان کن تھی کیونک اس س اس کی بدنامی ے ہ ی تھی لیکن رفت رفت و بھی اس کی محبت میں گرفتار ہر ہ ہ ہ ون لگا ک محبت ک میدان میں ےون لگی اس احساس ہ ے ہ ے ۔ ے ہی اس س سچا عشق کر ےمغنی زیاد ثابت قدم نکال اور و ہ ہ میش اس ک چرچ کیا کریں ا اگر مرگیا تو لوگ ےر ے ہ ہ ہے۔ ہ یں کیا جائ گا ےگ لیکن اس کبھی اچھ نام س یاد ن ہ ے ے ے ے ی بن گی اس معامل ےکیونک مغنی کی موت کا سبب و ۔ ے ہ ہ ےمیں تھوڑی سی قربانی و بھی د سک تو اس کا نام ے ہ و سکتا ی سب کچھ سوچ کر سوداگر کی ہبھی امر ہے۔ ہ

۔بیوی ن فاق کرن کا منصوب بنا لیا شروع شروع میں تو ہ ے ے ے ےاس ن کھان پین کی مقدار میں کمی کی پھر غذائیت ے ے

ہس بھرپور اور لذیذ چیزیں ترک کر دیں جس س و جلد ے ے و گئی آئین ک سامن جا کر و گئی پر کشش ےی پتلی ے ے ۔ ہ ۔ ہ ہ

۔و اپن آپ کو دیکھتی تو خوشی س پھولی ن سماتی ہ ے ے ہ ہکبھی کبھی اس کا جی و ساری میٹھی اور لذیذ چیزیں

میش مرغوب ر چکی میش ہکھان کو مچل اٹھتا جو اس ہ ہ ہ ہ ے ے ۔تھی و چیزیں اس ک خوابوں میں بھی آتی تھیں ے ہ ۔

ےایک روز و اچانک اچھ اچھ ذائقوں کو یاد کر ک ے ے ہ ےروپڑی اس ن اسی دم اپن محبوب کا خیال دل س ے ے ۔ ےنکال پھینکا اور اپن مالزموں کو حکم دیا ک و اس ک ہ ہ ے

~ حاضر کریں ترین قسم ک سار کھان فورا ۔سامن ب ے ے ے ہ ے ، کیونک اس ن ایک عرص وئ ت حیران ل تو نوکر ب ےپ ے ہ ے ہ ہ ے ہ

یں ہس عمد قسم ک کھانوں کی طرف نگا اٹھا کر ن ہ ے ہ ے د اور چینی ی دودھ، گھی، ش ~ ہدیکھا تھا لیکن و فورا ہ ہ وئ قسم قسم ک لذیذ ترین کھان ل ےوغیر س بنائ ے ے ے ہ ے ے ہ ی و ان پر ٹوٹ سی یں دیکھت و گئ جن ہکر حاضر ہ ے ہ ے ہ د بھی کرتی گئی ک ی میں ی ع وئ و دل ہپڑی کھات ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ۔

Page 260: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کر گی زندگی ن کی کوشش ن ۔اب و کبھی بھوکا ر ے ہ ے ہ ہ ی لذیذ غذاؤں ک کھان میں ترین مسرت ایسی ہے۔کی ب ے ے ہ ہ

ی دنوں میں اس ک جسم ک قوسیں پھر س بھر ےکچھ ے ے ہ ےگئیں جن پر س خوراک میں کمی کر دین کی وج س ہ ے ے ۔

و ون لگ گیا تھا اور و اس بات کی قائل ہگوشت غائب ہ ے ہ ~ نا قطعا ہگئی ک کسی س عشق کرن ک لئ بھوکا ر ے ے ے ے ہ ر چھوڑ کر جا چکا تھا یں مغنی بھی اب ش ۔ضروری ن ہ ہے۔ ہ

یں یں و زند بھی تھا یا ن ہمعلوم ن ہ ہ ہ !

و ی مغنی پھر اس ک درواز پر حاضر ہایک روز اچانک و ے ے ہ ی سوداگر کی بیوی ۔گیا اس ن مالقات کی اجازت چا ہ ے ۔ یں دیکھا تھا اس ن مغنی کو ےن اس ایک مدت س ن ۔ ہ ے ے ے

ی اس ک سامن ایک نئی ~ اندر بلوایا مغنی ن آت ےفورا ے ہ ے ے ۔ ۔تجویز پیش کر دی

ا" ہمیں آپ کی خاطر دور دراز ک عالقوں میں پھرتا ر ے ۔وں میں ایک ایسی جڑی بوٹی کی تالش میں تھا جس ۔ ہےک بار میں سن رکھا تھا ک اس ک استعمال ک ساتھ ے ہ ے ے ونا پڑتا لیکن اس س بدن یں ےلذیذ کھانوں س محروم ن ہ ہ ے

وتی جاتی ہے۔کی فالتو چربی بھی کم ہ "

ےسوداگر کی بیوی اس وقت بڑ اچھ موڈ میں تھی اپن ۔ ے ے ےسامن شکر چڑھ باداموں کی ایک پلیٹ رکھ بیٹھی ے ے ہتھی و ایک ایک بادام اٹھا کر من میں ڈالتی اور دانتوں ہ ۔ ست پیستی اور مسکراتی جاتی تھی ست آ ۔ک درمیان آ ہ ہ ہ ہ ے

ہاچھا تو پھر تم ن و جڑی بوٹی حاصل کر لی؟" ے "

۔مغنی ن جواب دیا ے

ےاس جڑی بوٹی کا صحیح پت ایک بڑھیا کو تھا اس بھی" ۔ ہ اں و جادو ہمیں ن دور افتاد ایک گاؤں س ڈھونڈ نکاال و ہ ۔ ے ہ ے ور اس ن ب شمار امیر و کبیر ےگرنی ک نام س مش ے ہے۔ ہ ے ے و بیٹیوں کا بڑی کامیابی س عالج ےگھرانوں کی ایسی ب ہ و ت فرب ہکیا جو اچھی خوراکیں کھان کی وج س ب ہ ہ ے ہ ے ہے و ہچکی تھیں اور اس طرح اپنی دل کشی س محروم ے وئی تی تھیں اس بڑھیا کی دی ہجان پر افسرد بھی ر ۔ ہ ہ ے

Page 261: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں اپن بدن کی خوب صورتی پھر س واپس ےدوا س ان ے ہ ے یں پڑا ہے۔مل چکی اور ان کی صحت پر بھی برا اثر ن ہ ہے "

ہی ک کر مغنی ن جیب میں س ایک چھوٹی سی ڈبی ے ے ہہ ہ و کر و ڈبی ل لی اور ےنکالی سوداگر کی بیوی ن خوش ہ ہ ہ ے ۔

۔تھوڑی سی دوا اس ن اسی وقت چاٹ لی ے

ےاس ک بعد و دن میں کئی کئی مرتب اس استعمال ہ ہ ے ی روز ہکرن لگی دوا ن واقعی اپنا اثر دکھایا و کچھ ہ ۔ ے ۔ ے وا پلپال و گئی اس ک بدن میں جگ جگ بھرا ہمیں دبلی ہ ہ ے ۔ ہ

و گیا ۔گوشت غائب ہ

ےایک دن و مغنی ک ساتھ اپن مکان ک پائیں باغ میں ے ے ہ ی تھی ک اچانک اس کی کمر ل ر ہتاالب ک کنار کنار ٹ ہ ہ ے ے ے

وا لو کا کمر بند سرک کر نیچ گر پڑا ۔ک ساتھ چپا ے ہے ہ ے وئ کمر بند کو اس ن حیرت س ےپاؤں ک پاس گر ے ے ہ ے ے

و ہدیکھا پھر مسرت کی ایک عجیب س جوش میں مبتال ے ۔کراس ن کمر بند کو زور س ٹھوکر ماری کمر بند ایک ے ے

ےپیڑ ک ساتھ جا ٹکرایا اور اس ن خود کو مغنی ک ے ے ےحوال کر دیا لیکن اس وقت کسی ن درواز پر زنجیر ے ے

ری کی آمد ہکھٹکھٹائی اس ک مالزم کسی غیر ملکی ش ے ۔ اس ن گھبرا کر اس آدمی کو بلوا ےکی خبر ل کر آئ تھ ے۔ ے ے

ےبھیجا پرد کھنچوا دیئ گئ اس ن پرد ک عقب س ے ے ے ے۔ ے ے ۔ وئ دیکھا ےاس غیر ملکی شخص کو سر جھکائ کھڑ ہ ے ے

ا ۔جو اپن ساتھ کئی صندوق بھی الیا تھا اس ن ک ہ ے ۔ ے

" یں وئ رات س بھر یروں اور جوا ۔ی سار صندوق ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ ر نچا دین کا حکم آپ ک شو یں آپ کی خدمت میں پ ہان ے ے ہ ہ

ریل و چکا ایک ز ی مجھ دیا تھا ان کا انتقال ےن ہ ہے۔ ہ ۔ ے ہ ے یں ڈس لیا تھا آپ کا نام مرت دم تک ان کی ےسانپ ن ان ۔ ہ ے وں ن ایک اور چیز بھی آپ ل ان ا مرن س پ ےزبان پر ر ہ ے ہ ے ے ۔ ہ

دایت کی تھی ی ایک چابی نچان کی ہے۔تک پ ہ ۔ ہ ے ہ "

اتھ بڑھا کر و ہسوداگر کی بیوی ن پرد ک پیچھ س ہ ے ے ے ے ے ی چابی تھی جس ک ساتھ ایک پرچ ہچابی ل لی ی و ے ہ ہ ۔ ے

وا تھا جس پر لکھا تھا ۔بھی بندھا ہ :

Page 262: اردو ادب کے مشہور افسانے

!میری پیاری بیوی"و ہاب تم آزاد "!خدا حافظ

۔و چابی سین ک ساتھ لگا کر زور زور س رون لگی ے ے ے ے ہ ت خوش تھا، اس ےمغنی ن جو اس خبر کو سن کر ب ہ ے

۔سمجھایا

" یں ر یں کوئی خطر ن ہاب تو آپ مکمل طور پر آزاد ہ ہ ۔ ہ یں میش ساتھ ر سکت م شادی کر ک ۔گیا اب ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ۔

لیکن اس کی بات سن کر سوداگر کی بیوی کو اچانک۔غص آگیا چال کر بولی ۔ ہ

اری صورت" اں س اب کبھی مت آنا میں تم ہنکل جاؤ ی ۔ ے۔ ہ ر کو کبھی بھال تی میں اپن پیار شو یں چا ہتک دیکھنا ن ے ے ۔ ہ ہ ہن سکو ں گی اور بقی عمر اسی کی یاد میں گزار دوں ہ

و گا " ی میرا ایک مقدس فریض ۔گی ہ ہ ہ ۔ "

ےی ک کر روت روت اس ن لو ک کمربند کو پھر س ے ہے ے ے ے ہہ ہ ل اس ن ٹھوکر مار کر دور ےاٹھایا جس تھوڑی دیر پ ے ہ ے

ےپھینک دیا تھا اس میں چابی لگا کر اس کھوال اور اپنی ۔ ل س بھی زیاد سختی س کس لیا اور ےکمر ک گرد پ ہ ے ے ہ ے

۔چابی تاالب ک اندر پھینک دی ے

اں س چل دیا اس حسین کو و کر و ہمغنی دل برداشت ۔ ے ہ ہ ہ یں ر ہحاصل کرن کی اب اس ک دل میں کوئی امید ن ہ ے ے

ن لگا ر میں جا کر ر ےگئی تھی و کسی دور دراز ک ش ہ ہ ے ہ ۔ اں اس ن کئی سال گزار دئ لیکن محبوب کی یاد ہاور و ے ے ہ

ےاس ک دل س کبھی ن نکل سکی و ابھی تک اس ک ہ ۔ ہ ے ے میش ب قرار رکھتی تھی ۔دل میں بستی تھی اور اس ے ہ ہ ے

ےایک روز اس کا ایک شاگرد جو اسی سوداگر کی بیوی ک تا تھا، اس س ملن ک لئ گیا تو مغنی ن ر میں ر ےش ے ے ے ے ہ ہ ل اپنی محبوب ک بار میں سوال کیا ۔سب س پ ے ے ہ ے ہ ے

؟" یں سوداگر کی بیوی کا کچھ حال معلوم ہےتم ہ "

ا ۔شاگرد ن ک ہ ے

Page 263: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہاستاد کیا عرض کروں! و تو بڑی عجیب و غریب قسم" یں میں ور ۔کی عورت اس ک متعلق کئی قص مش ہ ہ ے ے ہے۔ یں دیکھا لیکن جن لوگوں ن دیکھا و ہن تو اس ن ہے۔ ے ہے ہ ے ے

و گئی اور اس ت زیاد موٹی ل س ب یں ک و پ ت ہےک ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ تا لیکن و ت شدید درد ر ہکی کمر میں کسی وج س ب ہے ہ ہ ے ہ

یں کراتی اگرچ درد کی شدت س ےاس کا عالج بھی ن ہ ۔ ہ یں ک کبھی کبھی اں تک بتات ہمیش تڑپا کرتی لوگ ی ہ ے ہ ہے۔ ہ ہےو تاالب ک کنار جا بیٹھتی اس ن کئی بار تاالب کا ہے۔ ے ے ہ

وئی مٹی ک ےسارا پانی خارج کر لیا اور ت میں جمی ہ ہہ ہے یں ٹوا کر دیکھا معلوم ن ہذر ذر کو اپنی نگرانی میں ہے۔ ہ ے ے

ی ت ہک و کس چیز کی تالش میں شاید کوئی ب ہ ہے۔ ہ ہ و گی جو تاالب میں گر گئی تھی اور اب اس ےقیمتی چیز ہ

ی یں مل ر ہےن ہ ہ !"

ا اور مغنی کی سمجھ میں ن آیا ک و ہاس ک شاگرد ن ک ہ ہ ہ ے ے ے۔نس یا روئ ے ہ

ماں جی

اب) ہقدرت الل ش ہ )

و سکا ۔ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم ن ہ ہ

ا تھا، و ر ہجس زمان میں الئل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہ ے ر قصب س غریب الحال لوگ زمین حاصل ےپنجاب ک ے ہ ے

ےکرن ک لئ اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچ ے ے ے ے۔چل آ ر تھ عرف عام میں الئل پور، جھنگ، سرگودھا ہے ے

ا جاتا تھا ۔وغیر کو "بار" کا عالق ک ہ ہ ہ

۔اس زمان میں ماں جی کی عمر دس بار سال تھی اس ہ ے ےحساب س ان کی پیدائش پچھلی صدی ک آخری دس ے

و گی و ئی ۔پندر سالوں میں کسی وقت ہ ہ ہ

ہماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبال میں ایک ےگاؤں منیل نامی تھا والدین ک پاس چند ایکڑ اراضی ۔ ہ

ند کی ر سر ہتھی ان دنوں روپڑ میں دریائ ستلج س ن ہ ے ے ۔ ر کی کھدائی ی تھی نانا جی کی اراضی ن و ر ہکھدائی ۔ ہ ہ

و گئی رو پڑ میں انگریز حاکم ک دفتر س ےمیں ضم ے ۔ ہ

Page 264: اردو ادب کے مشہور افسانے

ے۔ایسی زمینوں ک معاوض دئ جات تھ نا نا جی دو تین ے ے ے ے ر گئ لیکن سیدھ آدمی ےبار معاوض کی تالش میں ش ے ہ ے ہتھ کبھی اتنا بھی معلوم ن کر سک ک انگریز کا دفتر ے ہ ے۔ اں اور معاوض وصول کرن ک لئ کیا قدم اٹھانا ےک ے ے ہ ہے ہ

ر کی ئ انجام کار صبر و شکر کر ک بیٹھ گئ اور ن ہچا ے ے ے۔ ہ ے۔کھدائی کی مزدوری کرن لگ ے

ی دنوں پرچ لگا ک بار میں کالونی کھل گئی اور نئ ےان ہے ہ ہ ہ ی نا نا جی اپنی بیوی، ہے۔آباد کاروں کو مفت زمین مل ر ہ ےدو ننھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنب ساتھ ل کر الئل پور ہ ے و گئ سواری کی توفیق ن تھی اس لئ پا پیاد ہروان ے ۔ ہ ے۔ ہ ہ

وئ ے۔چل کھڑ ہ ے

ے۔راست میں محنت مزدوری کر ک پیٹ پالت نا نا جی ے ے ےجگ ب جگ قلی کا کام کر لیت یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر ہ ہ ہ

ے۔دیت نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا ۔مکانوں ک فرش اور دیواریں لیپ دیتیں الئل پور کا ے

ےصحیح راست کسی کو ن آتا تھا جگ جگ بھٹکت تھ اور ے ہ ہ ہ ہ فتوں میں ط کرت تھ ے۔پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ے ے ہ

نچ پا پیاد ین کی مسافت ک بعد جڑانوال پ ہڈیڑھ دو م ے۔ ہ ہ ے ے ہ ےچلن اور محنت مزدوری کی مشقت س سب ک جسم ے ے اں پر چند ما قیام کیا وئ تھ ی ۔نڈھال اور پاؤں سوج ہ ہ ے۔ ے ہ ے

ے۔نانا جی دن بھر غل منڈی میں بوریاں اٹھان کا کام کرت ے ہ ہنانی پرچ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر

۔سنبھالتیں جو ایک چھوٹ س جھونپڑ پر مشتمل تھا ے ے ے

وار آیا نا نا جی ک پاس چند روپ ی دنوں بقر عید کا ت ےان ے ۔ ہ ہ وں ن ماں جی کو تین آن بطور و گئ تھ ان ےجمع ے ہ ے۔ ے ہ اتھ اتن لی بار ماں جی ک ےعیدی دئ زندگی میں پ ہ ے ہ ے۔

ت سوچا لیکن اس رقم کا وں ن ب ہپیس آئ تھ ان ے ہ ے۔ ے ے ےکوئی مصرف ان کی سمجھ میں ن آسکا وفات ک وقت ۔ ہ ےان کی عمر کوئی اسی برس ک لگ بھگ تھی لیکن ان

، پانچ روپ ک نوٹوں میں ، دس روپ ےک نزدیگ سو روپ ے ے ے ے ےامتیاز کرنا آسان کام ن تھا عیدی ک تین آن کئی روز ے ہ

ہے۔ماں جی ک دوپٹ ک ایک کون میں بندھ ر جس روز ے ے ے ے ے ی تھیں ماں جی ن گیار و ر ہو جڑانوال س رخصت ے ہ ہ ے ہ ہ

۔پیس کا تیل خرید کر مسجد ک چراغ میں ڈال دیا باقی ے ے

Page 265: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہایک پیس اپن پاس رکھا اس ک بعد جب کبھی گیار ے ۔ ے ہ ~ مسجد میں تیل بھجوا و جات تو و فورا ہپیس پور ے ہ ے ے

۔دیتیں

ساری عمر جمعرات کی شام کو اس عمل پر بڑیت سی مسجدوں یں رفت رفت ب ہوضعداری س پابند ر ہ ہ ۔ ہ ے روں ور اور کراچی جیس ش ہمیں بجلی آ گئی لیکن ال ے ہ

تا تھا جن ک یں ایسی مسجدوں کا علم ر ےمیں بھی ان ہ ہ وت تھ وفات کی شب ے۔چراغ اب بھی تیل س روشن ے ہ ے

ان ململ ک رومال میں بندھ ےبھی ماں جی ک سر ے ے ہ ے ~ ی پیس بھی مسجد ک ےوئ چند آن موجود تھ غالبا ے ہ ے۔ ے ے ہ

ہتیل ک لئ جمع کر رکھ تھ چونک و جمعرات کی شب ہ ے ے ے ے ۔تھی

ہان چند آنوں ک عالو ماں جی ک پاس ن کچھ اور رقم ے ہ ے ےتھی اور ن کوئی زیور اسبابl دنیا میں ان ک پاس گنتی ۔ ہ ، ایک جوڑا ےکی چند چیزیں تھیں تین جوڑ سوتی کپڑ ے ۔

ےدیسی جوتا، ایک جوڑا ربڑ ک چپل، ایک عینک، ایک وئ ےانگوٹھی جس میں تین چھوٹ چھوٹ فیروز جڑ ہ ے ے ے ے

نن ک ےتھ ایک جائ نماز، ایک تسبیح اور باقی الل الل پ ے ہ ہ۔ ہ ے ے۔ تمام س رکھتی تھیں ایک ۔لئ تین جوڑوں کو و خاص ا ے ہ ہ ے

اتھوں س دھو کر تکئ ک نیچ ےزیب تن، دوسرا اپن ے ے ے ہ ے و جائ تیسرا دھون ک لئ تا تھا تاک استری ےرکھا ر ے ے ے۔ ہ ہ ۔ ہ

ہتیار ان ک عالو اگر چوتھا کپڑا ان ک پاس آتا تھا تو و ے ہ ے ۔ ہچپک س ایک جوڑا کسی کو د دیتی تھیں اسی وج ۔ ے ے ے یں سوٹ کیس رکھن کی حاجت ےس ساری عمر ان ہ ے ون ک وئی لمب س لمب سفر پر روان ےمحسوس ن ے ہ ہ ے ے ے ۔ ہ ہ

یں تیاری میں چند منٹ س زیاد ن لگت تھ ے۔لئ ان ے ہ ہ ے ہ ے یں جائ نماز میں لپیٹا جاڑوں ۔کپڑوں کی پوٹلی بنا کر ان ے ہ ےمیں اونی فرد اور گرمیوں میں ململ کی دوپٹ کی بکل وں یئ چلن کو تیار سفرl آخرت بھی ان اں ک ہماری اور ج ۔ ے ے ہ ہ اتھوں ہن اسی سادگی س اختیار کیا میل کپڑ اپن ے ے ے ۔ ے ے ا دھو کر بال سکھائ ےس دھو کر تکئ ک نیچ رکھ ن ہ ے۔ ے ے ے ے

ی منٹوں میں زندگی ک سب س لمب سفر پر ےاور چند ے ے ہ ی تھیں، و گئیں جس خاموشی س دنیا میں ر ہروان ے ۔ ہ ہ

~ اس موقع ۔اسی خموشی س عقبیP کو سدھار گئیں غالبا ے

Page 266: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھ Pہک لئ و اکثر ی دعا مانگا کرتی تھیں، ک الل تعالی ہ ہ ہ ہ ے ے ے۔چلت چالت اٹھا ل الل کبھی کسی کا محتاج ن کر ہ ہ ے۔ ے ے

ہکھان پین میں و کپڑ لت س بھی زیاد ساد اور غریب ہ ے ے ے ہ ے ے ۔مزاج تھیں ان کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، ۔دھنی پودین کی چٹنی ک ساتھ تھی باقی چیزیں ے ے ے

~ یں تقریبا ۔خوشی س تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق س ن ہ ے ے ۔ر نوال پر الل کا شکر ادا کر تی تھیں پھلوں میں کبھی ہ ے ہی مجبور کیا جائ تو کبھی کبھار کیل کی فرمائش ت ےب ے ہ ہ ر ہکرتی تھیں البت ناشت میں چائ دو پیال اور تیسر پ ے ے ے ے ہ ۔ ۔ساد چائ کا ایک پیال ضرور پیتی تھیں کھانا صرف ایک ہ ے ہ ر کا شاذ و نادر رات ۔وقت کھاتی تھیں اکثر و بیشتر دوپ ہ ۔

وئی پتلی وئی ~ مکھن نکالی ہکا گرمیوں میں عموما ہ ۔ ہنمکین لسی ک ساتھ ایک آدھ ساد چپاتی ان کی محبوب ے

۔خوراک تھی

ےدوسروں کو کوئی چیز رغبت س کھات دیکھ کر خوش ے میش دعا کرتی تھیں سب کا بھال خاص ۔و تی تھیں اور ۔ ہ ہ ہوں ن برا راست کبھی کچھ ہاپن یا اپن بچوں ک لئ ان ے ہ ے ے ے ے

ل دوسروں ک لئ مانگتی تھیں اور اس ک ےن مانگا پ ے ے ے ہ ۔ ہ ےبعد مخلوقl خدا کی حاجت روائی ک طفیل اپن بچوں یا ے وں تی تھیں اپن بیٹوں یا بیٹیوں کو ان ہعزیزوں کا بھال چا ے ۔ ہ ن " یا "میری بیٹی" ک ےن اپنی زبان س کبھی "میر بیٹ ہ ے ے ے ے

ا کرتی تھیں میش ان کو الل کا مال ک یں کیا ۔کا دعویP ن ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

ت گراں گزرتا تھا ۔کسی س کوئی کام لینا ماں جی پر ب ہ ے اتھوں خود انجام دیتی تھیں اگر ۔اپن سب کام و اپن ہ ے ہ ے

یں ایک ہکوئی مالزم زبردستی ان کا کوئی کام کر دیتا تو ن ون لگتا تھا اور ےعجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہ تی ہو احسان مندی س سارا دن اس دعائیں دیتی ر ے ے ہ

۔تھیں

ےسادگی اور درویشی کا ی رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت ن ہ ~ زندگی ک ےماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقینا

۔زیر و بم ن سکھایا تھا ے

ےجڑانوال میں کچھ عرص قیام ک بعد جب و اپن والدین ہ ے ہ ہ ےاور خورد سال بھائیوں ک ساتھ زمین کی تالش میں الئل یں معلوم ن تھا وئیں تو ان ہپور کی کالونی کی طرف روان ہ ہ ہ

Page 267: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کس مقام پر جانا اور زمین حاصل کرن ک ےک ان ے ہے ہ ہ ہلئ کیا قدم اٹھانا ماں جی بتایا کرتی تھیں ک اس ہے۔ ے ن میں کالونی کا تصور ایک فرشت ہزمان میں ان ک ذ ہ ے ے

یں سرl را بیٹھا زمین ک ےسیرت بزرگ کا تھا جو ک ک ہ ہ ہ فت ی چھوٹا سا قافل و گا کئی ا ہپروان تقسیم کر ر ہ ے ہ ۔ ہ ہ ے ا لیکن کسی را ہالئل پور ک عالق میں پا پیاد بھٹکتا ر ہ ہ ے ے نما ن مل سکا یں کالونی کا خضر صورت ر ۔گزار پر ان ہ ہ ہ

وں ن چک نمبر ےآخر تنگ آ کر ان جو ان دنوں نیا نیا392ہاں آ کر ا تھا ڈیر ڈال دئ لوگ جوق در جوق و و ر ہآباد ے۔ ے ہ ہ و ر تھ نانا جی ن اپنی سادگی میں ی سمجھا ک ہآباد ہ ے ے۔ ہے ہ و گا چنانچ ی ایک طریق ون کا شاید ی ہکالونی میں آباد ۔ ہ ہ ہ ے ہ وں ن ایک چھوٹا سا احاط گھیر کر گھاس پھونس کی ہان ے ہ ےجھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطع تالش کر ک ہ ی دنوں محکم مال کا ۂکاشت کی تیاری کرن لگ ان ہ ے۔ ے

ےعمل پڑتال ک لئ آیا نانا جی ک پاس االٹ منٹ ک ے ۔ ے ے ہ یں چک س نکال دیا گیا اور ےکاغذات ن تھ چنانچ ان ہ ہ ے۔ ہ

ےسرکاری زمین پر نا جائز جھونپڑا بنان کی پاداش میں ان ےک برتن اور بستر قرق کر لئ گئ عمل ک ایک آدمی ے ے۔ ے ے ےن چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی ک کانوں س اتروا ے ے وئی تو اس ن زور س ےلیں ایک بالی اتارن میں ذرا دیر ے ہ ے ۔

ہکھینچ لی جس س ماں جی ک کان کا زیریں حص بری ے ے ۔ ۔طرح س پھٹ گیا ے

ے س نکل کر جو راست سامن آیا اس پر چل392چک ہ ے وئ گرمیوں ک دن تھ دن بھر لو چلتی تھی ۔کھڑ ے۔ ے ے۔ ہ ے

یں اں ک ہپانی رکھن ک لئ مٹی کا پیال بھی پاس ن تھا ج ہ ۔ ہ ہ ے ے ے ہکوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹ بھگو لیتیں تاک ہ ۔پیاس لگن س اپن چھوٹ بھائیوں کو چساتی جائیں ے ے ے ے

ےاس طرح و چلت چلت چک نمبر ے اں پر507ہ نچ ج ہ میں پ ے ہ چان ک آباد کار ن نا نا جی کو اپنا مزارع رکھ ےایک جان پ ے ہ ل چالت تھ نانی مویشی چران ل جاتی ےلیا نا نا جی ے ے۔ ے ہ ۔

ہتھیں ماں جی کھیتوں س گھاس اور چار کاٹ کر ے ۔ ۔زمیندار کی بھینسوں اور گایوں ک لئ الیا کرتی تھیں ان ے ے

یں مقدور بھی ن تھا ک ایک وقت کی روٹی بھی ہدنوں ان ہ ہ ہپور ی طرح کھا سکیں کسی وقت جنگلی بیروں پر گزار ۔

ے۔وتا تھا کبھی خربوز ک چھلک ابال کر کھا لیت تھ ے ے ے ے ۔ ہ

Page 268: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی مل گئیں تو ہکبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری یں س توریئ اور ےان کی چٹنی بنا لیت تھ ایک روز ک ے ہ ے۔ ے

اتھ آگیا نانی محنت مزدوری ۔کلتھ کا مال جال ساگ ساگ ہ ے ۔میں مصروف تھیں ماں جی ن ساگ چول پر چڑھایا ہے ے ۔

و گیا اور ساگ کو ال�ن لگا کر گھوٹن کا ےجب پک کر تیار ہ نڈیا ہوقت آیا تو ماں جی ن ڈوئی ایس زور س چالئی ک ہ ے ے ے ۔کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ ب کر چول میں آ پڑا ماں ہے ہہ

ےجی کو نانی س ڈانٹ پڑی اور مار بھی رات کو سار ۔ ے وا ساگ انگلیوں س ےخاندان ن چول کی لکڑیوں پر گرا ہ ہے ے

۔چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا

ہ نانا جی کو خوب راس آیا چند ما کی507چک نمبر ۔ ےمحنت مزدوری ک بعد نئی آباد کاری ک سلسل میں ے ے ہآسان قسطوں پر ان کو ایک مربع زمین مل گئی رفت ۔

ےرفت دن پھرن لگ اور تین سال میں ان کا شمار گاؤں ے ہ ون لگا جوں جوں فارغ ۔ک کھات پیت لوگوں میں ے ہ ے ے ے ےالبالی بڑھتی گئی توں توں آبائی وطن کی یاد ستان

ےلگی چنانچ خوشحالی ک چار پانچ سال گزارن ک بعد ے ے ہ ۔ وا ۔سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیل کی طرف روان ہ ہ ہ ت پسند آیا و سارا وقت ہریل کا سفر ماں جی کو ب ۔ ہ یں اس ر من نکال کر تماش دیکھتی ر ۔کھڑکی س با ہ ہ ہ ہ ے

ت س ذر ان کی آنکھوں میں پر ےعمل میں کوئل ک ب ے ہ ے ے ہگئ جس کی وج س کئی روز تک و آشوبl چشم میں ے ہ ے۔

وں ن ساری عمر اپن یں اس تجرب ک بعد ان ےمبتال ر ے ہ ے ے ۔ ہ ر من نکالن کی ےکسی بچ کو ریل کی کھڑکی س با ہ ہ ے ے

۔اجازت ن دی ہ

تی ت خوش ر ہماں جی ریل ک تھرڈ کالس ڈب میں ب ہ ے ے ~ گھل مل م سفر عورتوں اور بچوں س فورا ےتھیں ہ ۔

ےجاتیں سفر کی تھکان اور راست ک گرد و غبار کا ان پر ے ۔ ت وتا اس ک برعکس اونچ درجوں میں ب ہکچھ اثر ن ے ے ۔ ہ ہ ~ ائیر کنڈیشن یں مجبورا و جاتیں ایک دو بار جب ان ہبیزار ۔ ہ و گئیں اور سارا ہڈب میں سفر کرنا پڑا تو و تھک کر چور ہ ے

۔وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا

نچ کر نانا جی ن اپنا آبائی مکان درست کیا عزیز ۔منیل پ ے ہ ہ وئیں اور پھرماں جی ک ےو اقارب کو تحاف دئ دعوتیں ہ ے۔

و گیا ۔لئ بر ڈھونڈن کا سلسل شروع ہ ہ ے ے

Page 269: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہاس زمان میں الئل پور ک مربع داروں کی بڑی دھوم ے ے ۔تھی ان کا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ےو تا تھا چنانچ چاروں طرف س ماں جی ک لئ پ در ے ے ے ہ ۔ ہےپ پیام آن لگ یوں بھی ان دنوں ماں جی ک بڑ ٹھاٹھ ے ے۔ ے ے ےباٹھ تھ برادری والوں پر رعب گانٹھن ک لئ نانی جی ے ے ے۔ نوں ر وقت دل ناتی تھیں اور ر روز نت نئ کپڑ پ یں ہان ہ ہ ے ے ہ ہ

۔کی طرح سجا کر رکھتی تھیں

ےکبھی کبھار پرانی یادوں کو تاز کرن لئ ماں جی بڑ ے ے ہ ا کرتی تھیں ان دنوں میرا تو گاؤں ۔معصوم فخر س ک ہ ے و گیا تھا میں جس طرف س گزر ےمیں نکلنا دو بھر ۔ ہ

ا کرت ی خیال و جات اور ک ہجاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑ ے۔ ہ ے ہ ے ی دیکھئ کون خوش ےبخش مربع دار کی بیٹی جا ر ہے۔ ہ ہ

۔نصیب اس بیا کر ل جائ گا ے ے ہ ے

ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب"م لوگ چھیڑن کی خاطر ان س پوچھا کرت یں تھا!" ے۔ن ے ے ہ ہ

اتھ لگاتیں "میر ی نظر" ہتوب توب پت" ماں جی کانوں پر ہ ہ اں میر دل میں اتنی و سکتا تھا ےمیں بھال کوئی کیس ہ ۔ ہ ے ش ضرور تھی ک اگر مجھ ایسا آدمی مل جو ےسی خوا ے ہ ہ

و گی ربانی و تو خدا کی بڑی م ۔دو حرف پڑھا لکھا ہ ہ ہ "

ش تھی جو ماں جی ی ایک خوا ~ ی ہساری عمر میں غالبا ہ وئی اس کو خدا ۔ک دل میں خود اپنی ذات ک لئ پیدا ہ ے ے ے ہن یوں پورا کر دیا ک اسی سال ماں جی کی شادی عبد ے و گئی ان دنوں سار عالق میں عبد ےالل صاحب س ے ۔ ہ ے ہ ا تھا و ایک امیر کبیر گھران ےالل صاحب کا طوطی بول ر ہ ۔ ہ ہ ےک چشم و چراغ تھ لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں ے و گئ اور ب حد مفلوک الحال بھی جب باپ ۔یتیم بھی ے ے ہ

وا ک ساری آبائی ہکا سای سر س اٹھا تو ی انکشاف ہ ہ ے ہ ن پڑی چنانچ عبد الل صاحب اپنی والد ک ےجائیداد ر ہ ہ ہ ہے۔ ہ

ہساتھ ایک جھونپڑ میں اٹھ آئ زر اور زمین کا ی انجام ے۔ ے وں ن ایسی جائیداد بنان کا عزم کر لیا جو ےدیکھ کر ان ے ہ اتھ گروی ن رکھی جا سک چنانچ عبد الل اجنوں ک ہم ہ ے۔ ہ ہ ے ہ و مک ہصاحب دل و جان س تعلیم حاصل کرن میں من ہ ے ے

ےگئ وظیف پر وظیف حاصل کر ک اور دو سال ک ے ہ ے ے۔ ےامتحان ایک ایک سال میں پاس کر ک پنجاب یونیورسٹی

Page 270: اردو ادب کے مشہور افسانے

ال ~ ی پ ہک میٹریکولیشن میں اول آئ اس زمان میں غالبا ہ ے ے۔ ے ےموقع تھا ک کسی مسلمان طالب علم ن یونیورسٹی ہ

و ۔امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہ

ےاڑت اڑت ی خبر سر سید ک کانوں میں پڑ گئی جو اس ہ ے ے وں ہوقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چک تھ ان ے۔ ے ہن اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبد الل صاحب ے اں پر عبد الل صاحب ہکو وظیف د کر علی گڑھ بال لیا ی ہ ۔ ے ہ

ےن خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکاال اور بی ا کرن ک ے ے ے یں پر انگریزی، عربی، ہبعد انیس برس کی عمر میں و

و گئ ے۔فلسف اور حساب ک لیکچر ہ ے ہ

ہسر سید کو اس بات کی دھن تھی ک مسلمان نوجوان ہزیاد س زیاد تعداد میں اعلیP مالزمتوں پر جائیں چنانچ ۔ ہ ے ہ وں ن عبد الل صاحب کو سرکاری وظیف دلوایا تاک و ہان ہ ہ ہ ے ہ

ےانگلستان میں جا کر آئی سی ایس ک امتحان میں وں ۔شریک ہ

ےپچھلی صدی ک بڑ بوڑھ سات سمندر پار ک سفر کو ے ے ے انی سمجھت تھ عبدالل صاحب کی والد ن ےبالئ ناگ ہ ہ ے۔ ے ہ ے

ہبیٹ کو والیت جان س منع کر دیا عبد الل صاحب کی ۔ ے ے ے وں ن وظیف واپس کر دیا ۔سعادت مندی آڑ آئی اور ان ہ ے ہ ے

ہاس حرکت پر سر سید کو ب حد غص بھی آیا اور دکھ ے وں ن الکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا وا ان ےبھی ہ ۔ ہ

وئ ے۔لیکن عبد الل صاحب ٹس س مس ن ہ ہ ے ہ

" ےکیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم ک مفاد پر ترجیح دیت ے ۔و؟" سر سید ن کڑک کر پوچھا ے ہ

" اں" عبد الل صاحب ن جواب دیا ۔جی ے ہ ہ

و گئ ر ے۔ی ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپ س با ہ ہ ے ے ہ وں ن عبد الل صاحب ل ان ہکمر کا درواز بند کر ک پ ے ہ ے ہ ے ہ ے ےکو التوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں س خوب پیٹا اور

ہہکالج کی نوکری س برخواست کر ک ی ک کر علی گڑھ ہ ے ے اں س میں ےس نکال دیا "اب تم ایسی جگ جا کر مرو ج ہ ہ ے

ارا نا م بھی ن سن سکوں ۔تم ہ ہ "

Page 271: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ، اتن ہعبد الل صاحب جتن سعادت مند بیٹ تھ ے ے ے ے ہ یں سب س ےسعادت مند شاگرد بھی تھ نقش پر ان ہ ے ے۔

ہدور افتاد اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چنانچ و ہ ۔ ہ ی دیکھت نچ اور دیکھت ےناک کی سیدھ میں گلگت پ ہ ے ے ہ

و گئ د پر فائز اں کی گورنری ک ع ے۔و ہ ے ہ ے ہ

ی ی تھی ان و ر ہجن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہ ہ وئ تھ ے۔دنوں عبد الل صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئ ے ہ ے ہ

وا تھا ان کی منگنی ۔قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہ ر گئی تاک عبد الل ہو گئی اور ایک ما بعد شادی بھی ٹھ ہ ہ ہ ہ

ن کو اپن ساتھ گلگت ل جائیں ۔صاحب دل ے ے ہ

یلیوں ک ساتھ ےمنگنی ک بعد ایک روز ماں جی اپنی س ہ ے ~ یا وئی تھیں اتفاقا ۔پاس وال گاؤں میں میل دیکھن گئی ہ ے ہ ے

نچ گئ اں پ ے۔شاید دانست عبد الل صاحب بھی و ہ ہ ہ ہ

ر ایک ن یں گھیر لیا اور یلیوں ن ان ےماں جی کی س ہ ہ ے ہ ے۔چھیڑ چھیڑ کر ان س پانچ پانچ روپ وصول کر لئ عبد ے ے

ت س روپ پیش کئ ےالل صاحب ن ماں جی کو بھی ب ے ے ہ ے ہ ت اصرار بڑھ گیا تو وں ن انکار کر دیا ب ہکئ لیکن ان ۔ ے ہ ے

~ ماں جی ن گیار پیس کی فرمائش کی ۔مجبورا ے ہ ے

ےاتن بڑ میل میں گیار پیس ل کر کیا کرو گی" عبد" ے ہ ے ے ے ۔الل صاحب ن پوچھا ے ہ

ےاگلی جمعرات کو آپ ک نام س مسجد میں تیل ڈال ے ۔دوں گی ما ں جی ن جواب دیا ے ۔

ےزندگی ک میل میں بھی عبد الل صاحب ک ساتھ ماں ہ ے ے ی ہجی کا لین دین صرف جمعرات ک گیار پیسوں تک ہ ے وں ن مانگی ن ا اس س زیاد رقم ن کبھی ان ہمحدود ر ے ہ ہ ہ ے ۔ ہ

۔اپن پاس رکھی ے

۔گلگت میں عبد الل صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی ہ ، وسیع باغ، نوکر چا کر، درواز پر ےخوبصورت بنگل ہ ر جات ر جب عبد الل صاحب دور پر با یوں کا پ ےسپا ہ ے ہ ہ۔ ہ ہ

ےتھ یا واپس آت تھ تو سات توپوں کی سالمی دی جاتی ے ے ۔تھی یوں بھی گلگت کا گور نر خاص سیاسی انتظامی

Page 272: اردو ادب کے مشہور افسانے

اور سماجی اقتدار کا حامل تھا لیکن ماں جی پر اسوا کسی قسم کا ۔سار جا و جالل کا ذر بھی اثر ن ہ ہ ہ ہ ے

وتا تھا بلک ماں جی ہچھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز ن ۔ ہ ہ ر ماحول پر خاموشی ہکی اپنی سادگی اور خود اعتمادی

۔س چھا جاتی تھی ے

یلی حکومتl برطانی کی طرف س ےان دنوں سر مالکم ہ ہ گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹیلی اور ان کی ہک طور پر مامور تھ ایک روز لیڈی ے۔ ے وئ ن وں ن فراک پ ےبیٹی ماں جی س ملن آئیں ان ہ ے ہ ے ہ ۔ ے ے

ےتھ اور پنڈلیاں کھلی تھیں ی ب حجابی ماں جی کو پسند ہ ۔ ے اری عمر تو جیس ا "تم یلی س ک وں ن لیڈی ےن آئی ان ہ ہ ے ہ ے ہ ۔ ہ

ی گئی اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت ہے۔گزرنی تھی گزر ہ یلی کو اپن وں ن مس " ی ک کر ان ےتو خراب ن کرو ہ ے ہ ہہ ہ ۔ ہ

ینوں میں اس کھانا پکانا، سینا ےپاس رکھ لیا اور چند م ہ ےپرونا، برتن مانجھنا، کپڑ دھونا سکھا کر ماں باپ ک ے

۔پاس واپس بھیج دیا

وا تو الرڈ کچنر سرحدوں کا ہجب روس میں انقالب برپا ےمعائن کرن گلگت آئ ان ک اعزاز میں گورنر کی طرف ے۔ ے ہ اتھ س دس وا ماں جی ن اپن تمام ےس ضیافت کا ا ہ ے ے ۔ ہ ہ ے

ےبار قسم ک کھان پکائ کھان لذیذ تھ الرڈ کچز ن ے۔ ے ے۔ ے ے ہ ا "مسٹر گورنر، جس خانساماں ن ی ہاپنی تقریر میں ک ے ہ ربانی میری طرف س آپ ان ک یں، برا م ےکھان پکائ ے ہ ہہ ہ ے ے

۔اتھ چوم لیں "ہ

ےدعوت ک بعد عبد الل صاحب فرحاں و شاداں گھر لوٹ ہ ے ےتو دیکھا ک ماں جی باورچی خان ک ایک کون میں ے ے ہ

ےچٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی ک ساتھ مکئی یں ی ۔کی روٹی کھا ر ہ ہ

ےایک اچھ گورنر کی طرح عبد الل صاحب ن ماں جی ک ے ہ ے ا "اگر الرڈ کچز ی فرمائش کرتا ک و ہاتھ چوم اور ک ہ ہ ہ ے ہتا تو پھر تم کیا اتھ چومنا چا ہےخود خانساماں ک ہ ہ ے

"کرتیں؟

۔میں" ماں جی تنک کر بولیں "میں اس کی مونچھیں" ےپکڑ کر جڑ س اکھاڑ دیتی پھر آپ کیا کرت ؟ ۔ ے "

Page 273: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔میں" عبد الل صاحب ن ڈرام کیا "میں ان مونچھوں کو" ہ ے ہ یں ہروئی میں لپیٹ کر وائسرائ ک پاس بھیج دیتا اور تم ے ے اں یں اور بھاگ جاتا، جیس سر سید ک ہساتھ ل کر ک ے ے ہ ے

۔س بھاگا تھا ے "

وتا تھا لیکن ایک ہماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر ن ہ بارماں جی رشک و حسد کی اس آگ میں جل بھن کر

ر عورت کا ازلی ورث و گئیں جو ہے۔کباب ہ ہ ہ

ر قسم ک احکامات "گورنری" ک نام پر ےگلگت میں ے ہ وں نچا تو ان وت تھ جب ی چرچا ماں جی تک پ ہجاری ہ ہ ے۔ ے ہ

۔ن عبد الل صاحب س گل کیا ہ ے ہ ے

" یں لیکن گورنری گورنری ک ہہبھال حکومت تو آپ کرت ہ ے ہکر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں الیا جاتا خوا ہے

ہمخوا !"

وئ تھ رگl ظرافت ے۔عبد الل صاحب علی گڑھ ک پڑھ ے ہ ے ے ہ ارا ہپھڑک اٹھی اور ب اعتنائی س فرمایا بھاگوان ی تم ہ ۔ ے ے اری سوکن جو دن ہےنام تھوڑا گورنری تو در اصل تم ہ ہے۔

تی ہے۔رات میرا پیچھا کرتی ر ہ "

ےمذاق کی چوٹ تھی عبد الل صاحب ن سمجھا بات آئی ہ ۔ و گئی لیکن ماں جی ک دل میں غم بیٹھ گیا اس ۔گئی ے ہ

ی اندر کڑھن لگیں ۔غم میں و اندر ے ہ ہ

اراج پرتاب سنگھ اپنی ہکچھ عرص ک بعد کشمیر کا م ہ ے ہ ارانی ک ساتھ گلگت ک دور پر آیا ماں جی ن ےم ۔ ے ے ے ہ

ارانی بھی ساد ارانی س اپن دل کا حال سنایا م ہم ہ ۔ ے ے ہ مار راج میں ائ ائ ےعورت تھی جالل میں آ گئی " ہ ے ہ ے ہ ۔ وں گی ک و عبد الل اراج س ک ی م ہایسا ظلم میں آج ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔

۔صاحب کی خبر لیں "

وں ن نچا تو ان اراج پرتاب سنگھ تک پ ےجب ی مقدم م ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہعبد الل صاحب کو بال کر پوچھ گچھ کی عبد الل صاحب ۔ ہ ہبھی حیران تھ ک بیٹھ بٹھائ ی کیا افتاد آپڑی لیکن جب ے ے ہ ے

نس آدمی نچ تو دونوں خوب ے۔معامل کی ت تک پ ہ ے ہ ہہ ے اراج ن حکم نکاال ک ی وضعدار تھ چنانچ م ہدونوں ے ہ ہ ہ ے۔ ہ

ےآئند س گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر ہ

Page 274: اردو ادب کے مشہور افسانے

ے۔وزارت ک نام س پکاراجائ ے ء کی جنگ آزادی تک1947ے ی سرکاری اصطالحات رائج تھیں ۔گلگت میں ی ہ

ارانی ن ماں جی کو بال کر ےی حکم نام سن کر م ہ ہ ہ اراج ن گورنری کو دیس نکاال د ےخوشخبری سنائی ک م ے ہ ہ

ہے۔دیا

ا "کبھی" ارانی ن ک " م اؤ، پوتوں پھلو ۔اب تم دودھوں ن ہ ے ہ ۔ ہ ۔مار لئ بھی دعا کرنا ے ے "ہ

ارانی کی کوئی اوالد ن تھی اس لئ و اکثر اراج اور م ہم ے ۔ ہ ہ ہ ہ ےماں جی س دعا کی فرمائش کرت تھ اوالد ک ے۔ ے ے

ہمعامل میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ ی ے یں ہایک ایسا سوالی نشان جس کا جواب آسانی س ن ے ہے ہ

۔سوجھتا

ا کرتی تھیں ک ان جیسی خوش ی تو ک ہماں جی خود ہ ہ وتی لیکن اگر صبر و شکر، ی ہےنصیب ماں دنیا میں کم ہ ہ ےتسلیم و رضا کی عینک اتار کر دیکھا جائ تو اس خوش

ےنصیب ک پرد میں کتن دکھ، کتن غم، کتن صدم ے ے ے ے ے یں ۔نظر آت ہ ے

ے۔الل میاں ن ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹ عطا کئ ے ے ہ ےدو بیٹیاں شادی ک کچھ عرص بعد یک بعد دیگر فوت ے ہ ے ےو گئیں سب س بڑا بیٹا عین عالم شباب میں انگلستان ۔ ہ

۔جا کر گزر گیا

ن کو تو ماں جی ن ک دیا ک الل کا مال تھا الل ن ل ےک ے ہ ہ ہ ہہ ے ے ہ ےلیا لیکن کیا و اکیل میں چھپ چھپ کر خون ک آنسو ے ہ

وں گی ہرویا ن کرتی ہ !

وا تو ان کی عمر باسٹھ ہجب عبد الل صاحب کا انتقال ہ ر کا ہسال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی س پ ہ ۔ ہوقت تھا عبد الل صاحب بان کی کھردری چارپائی پر ۔

ے۔ تکی لگا کر نیم دراز تھ ماں جیحسب معمول گاؤ ہی ہپائنتی بیٹھی چاقو س گنا چھیل چھیل کر ان کو د ر ے ےہےتھیں و مز مز س گنا چوس ر تھ اور مذاق کر ر ے ہے ے ے ے ہ ۔ن لگ "بھاگوان و گئ اور ک ے۔تھ پھر یکا یک سنجید ے ہ ے ہ ہ ے۔

Page 275: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں گیار پیس دئ ل میل میں میں ن تم ےشادی س پ ے ہ ہ ے ے ے ہ ےیں آیا؟" ہتھ کیا ان کو واپس کرن کا وقت ن ے ے

نوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا ہماں جی ن نئی دل ے و گئیں ان ک سین میں بیک وقت ےچھیلن میں مصروف ے ۔ ہ ے اں آیا سرتاج شادی ت خیال امڈ آئ "ابھی وقت ک ہے۔ب ہ ے۔ ہ

ل گیار پیسوں کی تو بڑی بات لیکن شادی ک ےک پ ہے ہ ے ہ ے ےبعد جس طرح تم ن میر ساتھ نبا کیا اس پر میں ن ہے ہ ے ے

یں یں اپنی کھال کی جوتیاں تم ار پاؤں دھو کر پین ہتم ۔ ہ ے ے ہ اں آیا میر سرتاج یں ابھی وقت ک نانی ۔پ ے ہے ہ ۔ ہ ہ "

ی کھات میں وقت آچکا تھا جب ۔لیکن قضا و قدر ک ب ے ہ ے ہماں جی ن سر اٹھایا تو عبد الل صاحب گن کی قاش من ے ہ ے تیرا بالیا، ہمیں لئ گاؤ تکی پر سو ر تھ ماں جی ن ب ے ے۔ ہے ہ ے ےالیا، چمکارا لیکن عبد الل صاحب ایسی نیند سو گئ تھ ے ہ ہ

یں ی ن ل ممکن ۔جس س بیداری قیامت س پ ہ ہ ے ہ ے ے

ہماں جی ن اپن باقی ماند دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو ے ے ار ابا ےسین س لگا لگا کر تلقین کی "بچ رونا مت تم ہ ۔ ہ ے ے

، اسی آرام س چل گئ ے۔جی جس آرام س سو ر تھ ے ے ے ہے ے نچ گی ۔اب رونا مت ان کی روح کو تکلیف پ ے ہ ۔ "

ن کو تو ماں جی ن ک دیاک اپن ابا کی یاد میں ن رونا، ہک ے ہ ہہ ے ے ہ نچ گی لیکن کیا و خود چوری چھپ ےورن ان کو تکلیف پ ہ ے ہ ہ

و ں گی جس ن باسٹھ ےاس خاوند کی یاد میں ن روئی ہ ہ ن سمجھا اور جس ن ڑ دل یں ایک ال ےسال کی عمر تک ان ہ ہ ہ ےگورنری ک عالو اور کوئی سوکن اس ک سرپر ال کر ہ ے

یں بٹھائی ۔ن ہ

ہجب و خود چل دیں تو اپن بچوں ک لئ ایک سوالی ے ے ے ہ یں عقیدت ک بیابان ےنشان چھوڑ گئیں، جو قیامت تک ان ہ

۔میں سرگرداں رکھ گا ے

ےاگر ماں جی ک نام پرخیرات کی جائ تو گیار پیس س ے ہ ے ے وتی، لیکن مسجد کا مال پریشان ک یں مت ن ہزیاد ہے ہ ہ ہ ہ

و گئی ہبجلی کا ریٹ بڑھ گیا اور تیل کی قیمت گراں ہے ہے۔

Page 276: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےماں جی ک نام پر فاتح دی جائ تو مکئی کی روٹی اور ہ ے ےنمک مرچ کی چٹنی سامن آتی لیکن کھان واال درویش ہے ے

تمام الزم تا ک فاتح درود میں پالؤ اور زرد کا ا ہے۔ک ہ ے ہ ہ ہے ہ

تا ہےماں جی کا نام آتا تو ب اختیار رون کو جی چا ہ ے ے ہے ہلیکن اگر رویا جائ تو ڈر لگتا ک ان کی روح کو تکلیف ہے ے

نچ اور اگر ضبط کیا جائ تو خدا کی قسم ضبط ےن پ ے ہ ہ وتا یں ۔ن ہ ہ

مٹی کی مونا لیزا

ے۔ا حمید) )

؟ ٹ میں کیا بھید ہےمونا لیزا کی مسکرا ہ

ونٹوں پر ی شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہاس ک ہ ے را مالل؟ ان نیم وا وئ آفتاب کا گ وت ہ یا غروب ے ہ ے ہ ہے

؟ ونٹوں ک درمیان ی باریک سی کالی لکیر کیا ہےمتبسم ہ ے ہ ےی طلوع و غروب ک عین بیچ میں اندھیر کی آبشار ے ہ ر طوطوں کی ایک ٹولی ر ؟ ی اں س گر ر ےک ہ ے ہ ہے ہ ے ہ ہے۔شور مچاتی امرود ک گھن باغوں ک اوپر س گزرتی ے ے ے ے

ہویران باغ کی جنگلی گھاس میں گالب کا ایک زرد شگوف ر کی پلیا پر س ن والی ن ےپھوٹتا آم ک درختوں میں ب ہ ے ہ ے ہے۔ ےایک ننگ دھڑنگ کاال لڑکا ریتل ٹھنڈ پانی میں چھالنگ ے

ر بسنتی آموں کا میٹھا رس مٹی وئ گ ےلگاتا اور پک ہ ے ہ ے ہے ہے۔پر گرن لگتا ے

ال ک بک سٹال پر کھڑ میں اس میٹھ رس کی ےسینما ے ے ہ وں اور ایک آنکھ س انگریزی ےگرم خوشبو سونگھتا ہ

وئ دوسری آنکھ س ان عورتوں کو ےرسال کو دیکھت ے ہ ے ے ل سب ون س پ یں میں ن فلم شروع وں جن ےدیکھتا ہ ے ے ہ ے ہ ہ ۔س اونچ درجوں کی ٹکٹوں والی کھڑکی پر دیکھا تھا ے ے

یں سبز رنگ کی لمبی کار میں نکلت ل ان ےاس س پ ہ ے ہ ے یں کسی خواب ل بھی شاید ان ہدیکھا تھا اور اس س پ ے ہ ے ۔ک ویران میں دیکھا تھا ایک عورت موٹی، بھدی، جسم ے ے

وا، آنکھوں میں کاجل کی ر خم گوشت میں ڈوبا ہکا ہ ونٹوں پر لپ سٹک کا لیپ، کانوں میں سون ، ےموٹی ت ہ ہہ ےکی بالیاں، انگلیوں پر نیل پالش، کالئیوں میں سون ک ے

Page 277: اردو ادب کے مشہور افسانے

ار، سین میں سون کا دل، ےکنگن، گل میں سون کا ے ہ ے ے وا جسم، چال میں زیاد وئی جوانی، ڈھال ہڈھلی ہ ہ

ہخوشحالی اور زیاد خوش وقتی کی بیزاری، آنکھوں میں وا بھاری زرتار ہپرخوری کا خمار اور پیٹ ک ساتھ لگایا ے

پرسدوسری لڑکیالٹرا ماڈرن، الٹرا سمارٹ، سادگی بطور، دبلی پتلی، سبز رنگ کی چست قمیض، وئ ےزیور اپنائ ہ ے ، وئ سبز نگین ر بال، کانوں میں چمکت وئ سن ےکٹ ے ہ ے ے ہ ے ہ ے

ےکالئی میں سون کی زنجیر والی گھڑی اور دوپٹ کی ے ر شیڈ کی پنسل ک ابرو، آنکھوں ےرسی گل میں، گ ے ہ ے

ےمیں پرکار سحرکاری، گردن کھل گریبان میں س اوپر ے لکا سا مغرور خم، وئی، دائیں جانب کو اس کا ہاٹھی ہ

ک، ہڈورس ڈ کٹ ک بال، بالوں میں یورپی عطر کی م ے ے وئی کل ک مالل س نا آشنا، دل آن والی ےدماغ گزری ے ے ہ

ےکل ک وسوسوں س ب نیاز، زندگی کی بھر پور ے ے ےخوشبوؤں اور مسرتوں س لبریز جسم، کچھ رکا رکا سا

وا اس دودھ کی طرح جس ےمتحرک سا، کچھ بڑبڑاتا ۔ ہ و سر اینگلو پاکستان، لباس پنجابی، ی واال ۔ابال آن ہ ہ ے

۔زبان انگریزی اور دل ن تیرا ن میرا ہ ہ

وا وت دیکھ کر اٹھ کھڑا یں اندر داخل ہبک اسٹال واال ان ے ہ ہ ۔اور کٹھ پتلی کی طرح ان ک آگ پیچھ چکر کھان لگا ے ے ے ے

ےاس ن پنکھا تیز کر دیا کیونک لڑکی بار بار اپن ننھ ے ہ ۔ ے ی تھی موٹی ۔ریشمی رومال س ماتھ کا پسین پونچھ ر ہ ہ ے ے

۔عورت ن مسکرا کر پوچھا ے

" یں بھجوائ ے۔آپ ن "لک" اور و "ٹریو سٹوری" ن ہ ہ ے

۔سٹال واال احمقوں کی طرح مسکران لگا ے

مارا مال راست میں رک گیا بس اس" ہے۔و جب اب ک ے ہ ے ہ " موٹی عورت ۔فت ک اندر اندر سرٹنلی بھجوا دوں گا ے ے ہ

ا ۔ن ک ہ ے

" ۔پلیز، ضرور بھجوا دیں "

ا ۔لڑکی ن فوٹو گرافی کا رسال اٹھا کر ک ہ ہ ے

" ۔پلیز اس پیک کر ک گاڑی میں رکھوا دیں ے ے "

۔بک سٹال واال بوال

Page 278: اردو ادب کے مشہور افسانے

" یں ی ۔کیا آپ انٹرول میں جا ر ہ ہ "

۔موٹی عورت بولی

" ہے۔یسپکچر بڑی بور "

وں ن ساڑھ تین روپ ک ٹکٹ لئ تھ پکچر پسند ے۔ان ے ے ے ے ے ہ یں آئی لمبی کار کا درواز کھول دیا اور کار دریا کی ہن ۔ ہ روں کی طرح سات روپوں ک اوپر س گزر ےپرسکون ل ے ہ

اری درواز ک ےگئی و سات روپ جن ک اوپر س لو ے ہ ے ے ے ہ ۔ یں ۔ایک کنب ک پور سات دن گزرت ہ ے ے ے ے

ر ایک گند نال بھی اگر آپ کو اری درواز ک با ہے۔اور لو ہ ہ ہ ے ے ہ و تو اس گند نال ک ساتھ ساتھ ےاس کنب س ملنا ے ے ہ ے ے

اتھ کو مل گی اس گلی میں ۔چل جائیں ایک گلی دائیں ے ہ ۔ ے ت ت آتی ی بدبو ب یں آیا لیکن بدبو ب ہسورج کبھی ن ہ ہے۔ ہ ہ و جائ اں ر جائیں تو ی غائب ےحیرت انگیز اگر آپ ی ہ ہ ہ ہ ہے۔

تی ایک بوسید مکان کی اں صغراں بی بی ر ہگی ی ہے۔ ہ ہ ۔ ا ہکوٹھڑی مل گئی درواز پر میال چیکٹ بوریا لٹک ر ے ہے۔

ے، پرد کرن ک لئ جس طرح نئ ماڈل کی شیور لیٹ ے ے ے ہ ہےیں صحن کچا اور نم دار وت ہے۔کار میں سبز پرد لگ ۔ ہ ے ہ ے ے

ا اوپلوں کا ڈھیر ہے۔ایک چارپائی پڑی ایک طرف چول ہ ہے۔ نڈیا مٹی کا لیپ پھیرن ے دیوار ک ساتھ پکان والی ہ ے ے ہے۔

یں ایک سیڑھی چڑھ نڈیا اور دست پنا لگ پڑ ۔والی ہ ے ے ہ ہ ہے۔کر کوٹھڑی کا درواز کوٹھڑی کا کچا فرش سیال در ہے۔ ہ ا سامن دو صندوق ےو دیوار س نم دار اندھیرا رس ر ہے۔ ہ ے یں صندوق ک اوپر صغراں ےایک دوسر ک اوپر رکھ ۔ ہ ے ے ے ےبی بی ن پرانا کھیس ڈال رکھا کون میں ایک ٹوکرا ہے۔ ے

یں دیوار میں دو ۔لٹا رکھا جس ک اندر دو مرغیاں بند ہ ے ہے۔ ےسالخیں ٹھونک کر اوپر لکڑی کا تخت رکھا اس تخت پر ہے۔ ہ اتھ س اخبار ک کاغذ کاٹ کر ےصغراں بی بی ن اپن ے ہ ے ے

یں اندر یں اور تین گالس اور چار تھالیاں ٹکا دی ۔سجائ ہ ہ ے ہے۔بھی ایک چارپائی بچھی اس چارپائی پر صغراں بی بی

یں یں دو بچ اسکول پڑھن گئ ۔ک دو بچ سو ر ہ ے ے ے ۔ ہ ہے ے ے ہے۔صغراں بی بی بڑی گھریلو عورت بالکل آئیڈیل قسم ین کی آخری تاریخوں میں ےکی مشرق عورت خاوند م ہ ۔ ہپٹائی کرتا تو رات کو اس کی مٹھیاں بھرتی و الت ہے۔ ہے

ہے۔مارتا تو صغراں بی بی اپنا جسم ڈھیال چھوڑ دیتی ہے

Page 279: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں خاوند ک پاؤ ں کو چوٹ ن آ جائ کتنی آئیڈیل ے۔ک ہ ے ہ ی عورتوں ک سر ~ ایسی ےعورت ی صغراں بی بی یقینا ہ ہ ہے

وتی خاوند ڈاکی ہے۔پر دوزخ اور پاؤں ک نیچ جنت ہ ہے۔ ہ ے ے لی کو التا پانچ ین کی پ ر م ہے۔ساٹھ روپ کی کثیر رقم ہ ے ہ ہ ے ، پانچ روپ دونوں بچوں ک اسکول ےروپ کوٹھڑی کا کرای ے ہ ے

ین ےکی فیس، بیس روپ دودھ وال ک اور تیس روپ م ہ ے ے ے ے یں ان میں ی لوگ ہبھر ک راشن ک باقی جو پیس بچت ہ ے ے ے ے یں کبھی کبھی صغراں بی ۔بڑ مز س گزر بسر کرت ہ ے ے ے ے ےبی ساڑھ تین روپوں والی کالس میں بیٹھ کر فلم بھی و تو انٹرول میں اٹھ کر ہدیکھ آتی اور اگر پکچر بور ہے

ر ہلمبی کار میں بیٹھ کر اپن گھر آ جاتی بک سٹال واال ہے۔ ے ی ین انگریزی رسال "لک" اور "الئف" اس گھر پر ہم ے ہ ے ہ نچا دیتا و کھان ک بعد میٹھی چیز ضرور کھاتی ہے۔پ ے ے ہ ہے۔ ہ

وئ انناس ک قتل صغراں بی ےدودھ کی کریم میں مل ے ے ہ ے یں کریم کو ت پسند ۔بی اور اس ک خاوند ڈاکئ کو ب ہ ہ ے ے

وں ن اپنی کوٹھڑی ک اندر ایک ےمحفوظ رکھن ک لئ ان ے ہ ے ے ے وا صغراں بی بی کا خیال ہے۔ریفریجریٹر بھی ال کر رکھا ہ

ے ک و اگلی تنخوا پر کوٹھڑی کو ائرکنڈیشنڈ کروا ل ہ ہ ہ ہےےکیونک گرمی حبس اور گند نال کی بدبو کی وج س ہ ے ے ہ

یں اور ہاس ک سار بچوں ک جسموں پر دان نکل آت ے ے ے ے ے تی صغراں بی یں اٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتی ر ہے۔رات بھر ان ہ ہ

ہے۔بی ن ایک ریڈیو گرام کا آرڈر بھی د رکھا ے ے

وم وم! سویٹ وم از دس ہمائی گاڈ وھاٹ ا لولی ہ ۔ ہ ے !

(My God! What a lovely home is this۔ Home، Sweet Home!)

لدی ٹی بی لدی کی طرح اور ہصغراں بی بی کا رنگ ہے ہ اتھوں میں کانچ ہک مرض میں ب حد مفید اس ک ے ہے۔ ے ے

یں ۔کی چوڑیاں ہ

ین ک آخر میں جب اس کا خاوند اس پیٹتا تو ان ہےم ے ے ے ہ ر ما ک یں چنانچ اب و اس ےمیں س اکثر ٹوٹ جاتی ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ی ہے۔خرچ س بچن ک لئ سون ک موٹ کنگن بنوا ر ہ ے ے ے ے ے ے ے یں سکیں گ صغراں بی بی ک ےکم از کم و ٹوٹ تو ن ے۔ ہ ہ

وئی ڈیا ں نکلی ہچاروں بچوں کا رنگ بھی زرد اور ہ ہے

Page 280: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر روز یں کیلشیم ک ٹیک لگاؤ ا ان ہیں ڈاکٹر ن ک ۔ ے ے ہ ہے ہ ے ۔ ہ، گوشت اور سبزیاں دو شام کو ۔صبح مکھن، پھل، انڈ ے

اں ت اچھا اور ہاگر یخنی کا ایک ایک پیال مل جائ تو ب ہے ہ ے ہ و گند کمروں، بد بو دار محلوں یں جس قدر ممکن ےان ہ ہ ۔اور اندھیری کوٹھڑیوں س دور رکھو صغراں بی بی کا ے ہخیال ک و اگلی س اگلی تنخوا پر گلبرگ یا کینال ے ہ ہ ہے

ےپارک میں کسی جگ ان بچوں ک لئ زمین کا چھوٹا سا ے ہ اں ایک چھوٹا سا تین چار کمروں واال مکان ہٹکڑا ل کر و ے

یں جات ےبنوا ل گی دو چھوٹ بچ اب اسکول بھی ن ہ ے ے ۔ ے ہلیکن انشاءالل تعالیP و بھی ایک دن سکول جانا شروع کر ہ وں گ و بھی سکول ہدیں گ اور جو دو بچ مزید پیدا ے ہ ے ے یں کانونٹ میں داخل ہضرور جائیں گ اب کی دفع و ان ہ ہ ے۔

ر صبح خدا ک بیٹ کی اں و ےکروان کا اراد رکھتی ج ے ہ ہ ہ ہے۔ ہ ے یں، فرفر انگریزی ہدعا پڑھیں صغراں بی بی کو ممی ک ۔

ےبولیں اور اردو فارسی پڑھ کر تیل بیچن کی بجائ ے ہمقابل ک امتحان میں بیٹھیں اور اونچا مرتب اور لمبی ے ے

۔کار اور چوڑ الن والی کوٹھی پائیں ے

ہکیلشیم ک ٹیکوں کا پورا سیٹ بیس روپ میں آتا ی تو ہے۔ ے ے ہمعمولی بات اب کی و اپن خاوند س ک گی ک ڈاک ہے ے ے ہ ہے۔

وئ دو سیٹ لیت آؤ لی تاریخ کو گھر آت ۔خان س پ ے ے ہ ے ہ ے ے ےاپنی کوٹھڑی واال ریفریجریٹر اس ن الل الل سیبوں،

ہسرخ اناروں، موٹ انگوروں، مکھن کی ٹکیوں، تاز انڈوں ے ین مز ےاور گوشت ک قتلوں س بھر دیا بچ سارا م ہ ہ ے ہے۔ ے ے

وئی ہس کھائیں گ اور موج اڑائیں گ لیکن خدا کی دی ے ے ے وئ بھی صغراں بی بی ک رخسار کی وت ےر نعمت ک ے ہ ے ہ ے ہ، تا یں کمر میں مستقل درد ر وئی ر کو نکلی ہےڈیاں با ہ ۔ ہ ہ ہ ہ

و کر پیال پر گیا آنکھیں پھٹی پھٹی سی، ر زرد ہے۔چ ہ ہ ہ ؟ یں ان آنکھوں ن کیا دیکھ لیا تی ہےویران ویران سی ر ے ۔ ہ ہ

یں مگر اس کا ۔اس کی عمر پچیس سال س زیاد ن ہ ہ ے اتھ کی نسیں ی اندر گھل گیا ہجسم ڈھل گیا اندر ہے۔ ہ ہے۔ یں وئ ڈھیروں بال جھڑت یں کنگھی کرت ۔ابھر آئی ہ ے ے ہ ے ۔ ہ یں جس طرح ریفریجریٹر ت ر وقت ٹھنڈ ر ہاتھ پیر ے ہ ے ہ ہتا صغراں بی بی ہے۔میں کریم، پھل اور گوشت ٹھنڈا ر ہ

یں اور خاوند ن اس و گئ ےکی شادی کو پانچ سال ے ہ ے ہ یں خدا اس سالمت رکھ ےصرف چار بچ عطا کئ ے ۔ ہ ے ے لی تاریخ کو اس ک ر پ و ں گ ےابھی اور بچ پیدا ہ ہ ے۔ ہ ے

Page 281: اردو ادب کے مشہور افسانے

و جاتی جب بیس ہے۔خاوند کو صغراں بی بی س محبت ہ ے ےروپ دودھ واال ل جاتا تو محبت ک اس تاج کا ایک ہے ے ے ہے۔برج گرتا پانچ روپ کرای جاتا تو دوسرا برج گرتا ہے ہ ے ہے۔ پھر بچوں کی فیسیں، کاپیاں، پنسلیں، کتابیں، راشن،

، کپڑا، پریشانی، تفکرات، لدی، اوپل ےدال، آٹا، نمک، مرچ، ہ ، مالل اور نا امیدیاں اور ی تاج محل گنبد سمیت ہوسوس ے ہےزمین ک ساتھ آن لگتا اور خاوند اپنی محبت کی پٹاری ے

لی تاریخ کی محبوب کی ہمیں س ڈنڈا نکال کر اپنی پ ہ ے ہے۔پٹائی شروع کر دیتا

وم ہونڈر فول !

" یں الئ ےڈیڈی! آج آپ کامک ن ہ !"

" ۔او ممی! ی جیلی گندی اس پھینک دیں ے ہے ہ "

کم آن ڈارلنگ صغراں بی بی! آج الحمرا میں کلچرل شو"نی! بس ی ہدیکھیں ڈانس، میوزک، وھاٹ ا تھرل! ہ ے ۔

ےوائیٹ ساڑھی خوب میچ کر گی اور اس ک ساتھ بالوں ے ےمیں سفید موتی ک پھولوں کا گجراما ئی مائی! یو آر ے

"!سویٹ ڈارلنگ صغراں بی بی

ہے۔ندی کنار ی کاٹیج کس قدر خوبصورت سرسبز الن، ہ ے وئ پھولوں ک وئی گھاس، قطار میں لگ ےترشی ے ہ ے ہ

ایک مالزم غسل خان میں لکس صابن س کت کو ےپود ے ے ے ا اس ک بعد تولی س اس کا جسم خشک کیا ال ر ےن ے ے ہے۔ ہ ہ ےجائ گا کنگھی پھیری جائ گی گل میں ایپرن باندھا ۔ ے ۔ ے

ےجائ گا اور اس دو آدمیوں کا کھانا کھال جائ گا اور پھر ے ے ۔فورڈ کار میں بیٹھ کر مال روڈ کی سیر کروائی جائ گی ے

وتا تو و جانوروں ک ساتھ ےآج اگر گوتم بدھ زند ہ ہ ہ انسانوں کی اتنی شدید محبت کو دیکھ کر کتنا خوشےوتا آج اس انسانی دکھوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر ۔ ہ

ےمحل چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھن کی کبھی بھی ی میں اپنی بیوی وتی بلک و محل ہضرورت محسوس ن ہ ہ ہ ہ تا کتوں کی ایک پوری ۔بچ اور اور لونڈیوں ک ساتھ ر ہ ے ے ےفوج رکھتا، شام کو کلب میں جا کر دوستوں ک ساتھ

یں ہتاش کھیلتا، سینما دیکھتا اور بچوں کو ساتھ ل کر ان ے ےکار میں سیر کرواتا اس ک بچ رنگ دار قمیض اور ے ۔ ن کر گردن اکڑا کر، چھوٹی سی چھاتی پھال کر، ہجینز پ

Page 282: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےپتلی سی کمر مٹکا کر، کالج وال بس سٹاپوں، اعلPی ےوٹلوں اور ناچ گھروں ک چکر لگات و رات کو ایک بج ہ ے۔ ے ہےسوت اور صبح من اندھیر گیار بج اٹھت اور دانت ے ہ ے ہ ے

، اخبار میں فلموں کا پروگرام ےصاف کئ بغیر چائ پیت ے ے ے۔دیکھت گرمیاں کبھی مری اور کبھی سوئٹرز لینڈ میں

ےبسر کرت اور اپن باپ کا نام روشن کرت اور اس کبھی ے ے ے ی لباد پھینک کر ننگ پاؤں نروان حاصل ےبال منڈوا کر شا ہ ہ

ے۔کرن ک لئ جنگل کا رخ ن کرن دیت ے ہ ے ے ے

اری درواز کی اس گندی گلی میں ےاف! مائی گڈنس! لو ہ ےکس قدر حبس ی لوگ کیس چارپائی گندی نالیوں پر ہ ہے۔

یں وھاٹ ا پٹی! مجھ ان لوگوں س ےڈال کر سو ر ے ے ۔ ہ ہے مدردی میں ان ک تمام مسائل س واقف ری ےبڑی گ ے ہے۔ ہ ہ فت ان کی پھیکی اور ب رس زندگی پر ایک ر ےوں میں ے ہ ہ ۔ ہ

وں میرا خیال ک میں ان لوگوں کی ہافسان لکھتا ہے ۔ ہ ہ ہزندگی پر ایک پر مغز تحقیقی مقال لکھ کر سبمlٹ کروا

ہےدوں بڑا ونڈر فل سبجیکٹ ڈاکٹریٹ تو و پڑی جس ہ ہے۔ ۔ ، جس پر تین پھنسیوں زد ہطرح و کھری چارپائی پڑی ہے ہ ی میں ناک پر رومال ہے۔بچ اور ایک بچ زد ماں سو ر ہ ہ ہ ے ، پرنالوں س اپن اجل کپڑ بچاتا، ان لوگوں کا ےرکھ ے ے ے ے

وں ر نکل آیا را مطالع کرتا بدبو دار گلی س با ۔گ ہ ہ ے ہ ہ

وٹل کی ی لیکن اس ور میں قیامت کی گرمی پڑ ر ہال ہے ہ ہ ، ائیرکنڈیشنر بھی خدا کی کتنی ہےفضا کس قدر خنک وٹل میں بڑی رونق سای دار دھیم ےبڑی نعمت آج ہ ہے۔ ہ ہے۔ ر کتن ےقمقموں کی مالئم روشنی میں لوگوں ک چ ے ہ ے

یں ی تو ن یں خواب یں ی ک ۔خواب آور دکھائی د ر ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہے ے ےمیرا خوابصغراں بی بی کا خواب، اس ک ڈاکئ خاوند کا ے

ر ی اوم! و پونی ٹیل والی لڑکی کتنی پیار ی ہےخواب! ہ ہ ےاور و بلیک ٹشو کی چست قمیض والی دوشیز جس ک ہ ہ ریل رنگ ک یں، کانوں میں ز ےبالوں میں ریل ک گجر ے ہ ہ ے ے

ر باقاعد اور قوت بخش غذاؤں یں اور جس کا چ ہنگین ہ ہ ہ ے ےک اثر س کھانا کھان وال چاندی ک چمچ کی طرح ے ے ے ے ر والی موٹی عورت جس ا اور و مرغن چ ےچمک ر ہ ہ ہے ہ

ےکی آدھی آستینوں والی قمیض بازوؤں پر گوشت ک اندر ر موم ک بت کی طرح ےدھنس گئی اس عورت کا چ ہ ہ ہے۔ ہے ب حس اور ٹھنڈا اس کی گاڑی چود گز لمبی اور ہ ۔ ے ہے۔

Page 283: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےغسل خان کا فرش بار مربع گز اس ن ریڈیو گرام ہے۔ ہ ے ، عطر فرانس ےجرمنی س منگوایا قالین ایران س ہے۔ ے ، خاوند پاکستان س حاصل کیا ، کیمر امریک س ہے۔س ے ے ہ ہ ے

فت بھر کا راشن آتا ہےجتن پیسوں کا صغراں بی بی ک ے ہ ے ے ےاتن پیس ی بیر کو ٹپ کر دیتی اس ک بنگل میں ے ہے۔ ے ہ ے ے

میش چاندی ک یں ی ت ےچار کت اور سات بیر ر ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ے ےکافی سیٹ میں کافی پیتی چاندی ک برتنوں میں بڑی ہے۔

یں لگتا دوسر و یں زنگ ن وتی ک ایک تو ان ہخوبی ی ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ یں ایک سیٹ اپن گھریلو استعمال وت ےنان پوائزنس ۔ ہ ے ہ

اری درواز کی گلی وال ڈاکئ کو بھی خرید ےک لئ لو ے ے ہ ے ے ئ ے۔لینا چا ہ

وٹل تو بالکل جنت ایک جوڑا سب س الگ بیٹھا ہے۔ی ے ہے۔ ہ ہ ےلڑکی دبلی پتلی سی چست کپڑوں ن اس اور دبال بنا ے ہے۔ یں ناخنوں پر ریڈ انڈین گالبی رنگ ۔دیا بال ماتھ پر ہ ے ہے۔ لکی ا اسی شیڈ کی لپ اسٹک کی ہکا پالش چمک ر ہے۔ ہ ر پر نسوانی نزاکت ک ونٹوں پر چ ےسی ت پتل پتل ے ہ ہے۔ ہ ے ے ہہ یجان سا کان اپن ےساتھ ساتھ جذبات کا دھیما دھیما ہے۔ ہ

یں اور ب چین آنکھیں موقع ملن پر ےساتھی کی باتوں پر ے ہ یں لڑک کی گردن کالی بو ی ےایک ایک میز کا جائز ل ر ۔ ہ ہ ے ہ

وئی ان ک ےاور بارڈر کالر میں بری طرح پھنسی ہے۔ ہ یں ۔سامن کولڈ کافی ک گالس ہ ے ے

وں کل س صنوعی" ےروشی ڈارلنگ! میں پرومس کرتا ہ یں رکھوں گا ۔ک ساتھ کوئی کنسرن ن ہ ے "

" و ۔شٹ اپ بگ الئرتم مجھ س فلرٹ کر ر ہ ہے ے "

"!فار گاڈ سیک ڈونٹ تھنک الئیک دیٹآئی نو یو ڈارلنگ"

" ۔الئیجھوٹ، بالکل جھوٹ "

" ی تم س شادی کر لوں گا ۔میں یو ک س واپس آت ے ہ ے ے ے "

" اں شادی کر ک آؤ گ ے۔تم و ے ہ "

" م دونوں یو ک چل ےنونیورتم خود دیکھ لو گی پھر ے ہ ۔ و جائیں گ میں اس یں جا کر سیٹل ے۔جائیں گ اور و ہ ہ ے

وںبیرا و گیا ر س بور ہگند ش ہ ے ہ ے !"

Page 284: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ۔یس سر "

"ایک کریم پف"

" ۔یس سر "

"ووڈ یو الئیک مور ڈارلنگ؟"

"نو تھینک یو"

و جاؤں وں ک یو ک جا ک سیٹل ا ۔میں بھی سوچ ر ہ ے ے ہ ہ ہ وں شاید میں و گیا ۔میں بھی اپنی گندی گلیوں س بور ہ ہ ے صغراں بی بی اور اس کی گلی میں کھڑی چارپائی پرہماں ک ساتھ سون وال پھنسی زد بچوں کو بھی لیتا ے ے ے

۔جاؤں

" ۔بیراتھری سکویش مور "

ےاوپر گیلری کو جان والی سیڑھیوں ک پاس والی میز پر ے یں گفتگو برشی ۔تین میڈیکل سٹوڈنٹ بیٹھ باتیں کر ر ہ ہے ے

ےباردوت ک کولھوں، ایگا تھا کرسٹی ک ناولوں اور ے و کر میڈیکل پیش میں ےپکاڈلی کی پر اسرار گلیوں س ہ ے

ر گئی ہے۔آ کر ٹھ ہ

" ۔یار! میں تو فائنل س نکل کر سیدھا لندن چال جاؤں گا ے یں اں کوئی فیوچر ن ہے۔ی ہ ہ "

اں" یں جا کر پریکٹس کروں گا برادر و ہبالکلمیں بھی و ۔ ہ یں وت ۔پیس بھی اور مریض بھی بڑ پالشڈ ہ ے ہ ے ہے ہ "

ےیار میں تو یو ک جا کر کینسر ٹریٹمنٹ میں سپیشالئز" یں اں کینسر سپیشلسٹ ک بڑ چانسز ۔کروں گا ی ہ ے ے ہ ۔

ےبیس روپ فیس رکھوں گا اور ایک سال بعد اپنا کریم کلر و گی اور گلبرگ میں ایک ہکی ففٹی ایٹ ماڈل شو

"کوٹھی

ل مین کیوں بیچ دی؟" ہبھئی یار تم ن ے "

" و گئی تھی آئل بڑا کھان لگی تھی ۔چھکڑا ے ۔ ہ "

" ی ہے۔شی!مس قریشی آ ر ہ "

Page 285: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن مسز ارشاد کو پرسوں" ہصدیقی! تم ن اس کی بڑی ب ے ی تو تھ کیا ے۔گرفن میں دیکھا تھا؟ ار بھئی تم ساتھ ہ ۔ ے

ہے۔کالس ون عورت "

"نو ڈاؤٹبالکل لولو بریجڈا"

یں کوئی برشی ر جا ر ۔سب لوگ پاکستان س با ہ ہے ہ ے ےباردوت ک پاس، کوئی لولو بریجڈا ک پاس، کسی کو ے

، کسی کو ا ، کوئی بیوی کو لئ جا ر ی ہےبیوی لئ جار ہ ے ہے ہ ے م ا اور کسی کو پالشڈ قسم ک مریض ہپیس کھینچ ر ۔ ے ہے ہ ہ اں جائ گا؟ صغراں اں جائیں؟ میرا بھائی ڈاکی ک ےلوگ ک ہ ہ ہ ا ں جائ گی؟ اس ک بیمار بچوں کا عالج کون ےبی بی ک ے ہ ےکر گا؟ مثان کی بیماری میں نیم حکیم س گرد کی ے ے ے

؟ ان اں جائیں گ اتی ک ےدرد کی دوا کھا جان وال دی ہ ہ ے ے ےلوگوں کا عالج پاکستان میں کون کر گا؟ کون والی میز ے ےپر ایک پاکستانی آدمی امریکیوں کی طرح کندھ اچکا کر

ا "بڑی پرابلم بن گئی ہے۔اپن ساتھی کو ک ر ہے۔ ہ ہہ ے "

" ۔کیسی پرابلم؟"

وں میں، یں، ٹھنڈی نشست گا ہسب ڈرائینگ روم لورز ہ ےانناس ک قتل اور کولڈ کافی کا گالس سامن رکھ کر ے ے

یں یوکلپٹس کی یں بھرن وال عاشق ۔محبت کی سرد آ ہ ے ے ہ انیاں لکھن وال ےپتیوں کا فرنچ عطر کانوں پر لگا کر ک ے ہ

ب، ملت اور سیاست ک نام پر یں قوم، مذ ےافسان نگار ہ ۔ ہ ہ ےاپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈلوان وال اور اپنی کوٹھیوں ے

یں عشرت ۔میں نئ کمر بنوان وال درد مندانl قوم ہ ے ے ے ے ، ، خود پسندی ، زر پرستی ، تصنع آمیزی ہےانگیزی ہے ہے ہے

یں یں ک ایک ک بعد بنت چل جا ر ۔جعلی سک ہ ہے ے ے ے ہ ہ ے یں ک ایک ک بعد ایک ابھرت چل جا ر ہےروشنی ک داغ ے ے ے ہ ہ ے

یں صغراں بی بی ک بچوں کی پھنسیوں س ےیں ان ے ہ ۔ ہیں اس ک ڈاکی خاوند ک تاج یں ان ےکوئی سروکار ن ے ے ہ ۔ ہ

ی چارپائی یں کھر� یں ان ہمحل کی بربادی کا کوئی علم ن ۔ ہ ےپر گند نال ک پاس رات بسر کرن والوں س کوئی ے ے ے ے یں دھان زمین میں اگتا یا درختوں پر لگتا ہےدلچسپی ن ہے ۔ ہ یں ی اپن یں ی اپن ملک میں اجنبی یں کوئی خبر ن ےان ہ ۔ ہ ے ہ ۔ ہ ہ

یں چیک بک، یں ی اپنوں میں بیگان ۔گھر میں مسافر ہ ے ہ ۔ ہ ی ان کا ہپاسپورٹ، کار کی چابی، کوٹھی اور الئسنسی

Page 286: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں جن کی تازگی ہپاکستان ی و باسی کھان ے ہ ہ ہے۔ ےریفریجریٹر بھی برقرار ن رکھ سکا ی دو سورجوں ک ہ ۔ ہ

وئ متبسم لبوں ک درمیان یں ی کھل ےدمیان کا پرد ے ہ ے ہ ۔ ہ ہ اں یں ج وا جاال یں ی اس غار ک من پر تنا ہتاریک لکیر ہ ہ ہ ے ہ ۔ ہ

ا و ر ہےچاند طلوع ہ ہ

ےاب رات آسمان کی راکھ میں س تاروں ک انگار ے ے اری درواز کی تنگ و تاریک گلی میں ےکریدن لگی لو ہ ہے۔ ے

، ٹوٹی یں، پسین ، مچھر ، گرمی ، بدبو ہےحبس ہ ہ ہے ہے ہے یں، ہپھوٹی کھڑی چارپائیوں کی بینگی ٹیڑھی قطاریں

وئی گندگی چارپائیوں س نیچ لٹکتی ےنالیوں پر جمی ے ہے۔ ہ یں کمزور وئی ٹانگیں ۔وئی گلی ک فرش پر لگی ہ ہ ے ہ

یں صغراں بی بی اپن ونٹ یں پھٹ پھٹ ر ےباسی چ ۔ ہ ہ ے ے ۔ ہ ے ہ ی کوٹھڑی میں حبس ک ےچاروں بچوں کو پنکھا جھل ر ہے۔ ہ

ا گند نال والی کھڑکی میں گرم ےمار دم گھٹا جا ر ے ہے۔ ہ ے ہایشیائی رات ک سبز چاند کی جگ اوپلوں کا ڈھیر پڑا ے ا ی پڑا خراٹ ل ر ا اس کاڈاکی خاوند پاس ہسلگ ر ے ے ہ ہ ہے۔ ہ

ے پنکھا جھلت جھلت اب صغراں بی بی بھی اونگھن ے ے ہے۔اتھ س چھوٹ کر نیچ گر پڑا ےلگی اب پنکھا اس ک ے ہ ے ہے۔

ے اب کمر میں اندھیرا خاموشی چار بچوں ک ہے۔ ہے۔ ے ہے۔ونٹ نیم وا وئی مٹی کی مونا لیزا ک ہدرمیان سوئی ے ہ ر و گیا آنکھوں ک حلق گ ر کھنچ کر بھیانک ےیں چ ہ ے ے ہے۔ ہ ہ ہ ۔ ہیں اور رخساروں پر موت کی زردی چھا گئی ہے۔و گئ ہ ے ہ

، جس ا و ر ہےاس پر کسی ایس بوسید مقبر کا گمان ہ ہ ے ہ ے وں، جس ک تعویذ پر کوئی ےک گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہ ے و اور جس ک صحن میں کوئی پھول ےاگر بتی ن سلگتی ہ ہ

و ۔ن کھلتا ہ ہ

ا لکشمی کا پل ہم

(کرشن چندر)

ا لکشمی ک اسٹیشن ک اس پار لکشمی جی کا ایک ےم ے ہ یں اس مندر ت ۔مندر اس لوگ ریس کورس بھی ک ہ ے ہ ے ہے۔

ا یں م ت کم یں جیتت ب ارت زیاد ہمیں پوجا کرن وال ۔ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ت بڑی بدرو جو ہےلکشمی سٹیشن ک اس پار ایک ب ہ ے

ےانسانی جسموں کی غالظت کو اپن متعفن پانیوں میں

Page 287: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر چلی جاتی مندر میں انسان ر س با وئی ش ہے۔گھولتی ہ ے ہ ہ ےک دل کی غالظت دھلتی اور اس بدرو میں انسان ک ہے ے

ا لکشمی ہجسم کی غالظت اور ان دونوں ک بیچ میں م ے ا لکشمی ک پل ک اوپر بائیں طرف لو ک ےکا پل م ہے ے ے ہ ہے۔ یں پل ک اس طرح ی را ر ےجنگل پر چھ ساڑھیاں ل ۔ ہ ہ ہ ے یں ی تی راتی ر ہمیش اس مقام پر چند ساڑھیاں ل ۔ ہ ہ ہ ہ ہنن وال یں ان ک پ یں ت قیمتی ن ےساڑھیاں کوئی ب ے ہ ے ۔ ہ ہ ہ

ر روز ان یں ی لوگ یں ت زیاد قیمتی ن ہبھی کوئی ب ہ ۔ ہ ہ ہ ہ یں اور ہساڑھیوں کو دھو کر سوکھن ک لئ ڈال دیت ے ے ے ے

ا لکشمی وئ لوگ، م ہریلو الئن ک آر پار جات ے ہ ے ے ے وئ لوگ، گاڑی کی ےاسٹیشن پر گاڑی کا انتظار کرت ہ ے

ر دیکھن وال لوگ ےکھڑکی اور دروازوں س جھانک کر با ے ہ ے یں و ان وا دیکھت وا میں جھولتا ہاکثر ان ساڑھیوں کو ۔ ہ ے ہ ہ را بھورا، مٹ میال یں بھورا، گ ہک مختلف رنگ دیکھت ۔ ہ ے ے را نیال اور الل، و ہنیال، قرمزی بھورا، گندا سرخ کنار گ ہ ہ

یں وئ دیکھت ی رنگوں کو فضا میں پھیل ۔لوگ اکثر ان ہ ے ے ہ ے ہ ےایک لمح ک لئ دوسر لمح میں گاڑی پل ک نیچ ے ے ے ے۔ ے ے

ہے۔س گزر جاتی ے

یں ر کسی زمان ہان ساڑھیوں ک رنگ اب جاذبl نظر ن ہے۔ ہ ے وں، ان ک رنگ ےمیں ممکن جب ی نئی خریدی گئی ہ ہ ہے

یں متواتر یں وں، مگر اب ن وئ ۔خوبصورت اور چمکت ہ ہ ہ ے ہ ے ہےدھوئ جان س ان ک رنگوں کی آب و تاب مر چکی ے ے ے ے

ےاور اب ی ساڑھیاں اپن پھیک سیٹھ روزمر ک انداز کو ہ ے ے ے ہ یں آپ دن ۔لئ بڑی ب دلی س جنگل پر پڑی نظر آتی ہ ے ے ے ے یں سو بار دیکھیں ی آپ کو کبھی خوب صورت ہمیں ان ۔ ہ

۔دکھائی ن دیں گی ن ان کا رنگ روپ اچھا ن ان کا کپڑا ہ ہے ہ ۔ ہ ر روز دھلن یں ےی بڑی سستی، گھٹیا قسم کی ساڑھیاں ہ ۔ ہ ہ یں یں ک ا ان میں ک و ر ہس ان کا کپڑا بھی تار تار ہ ہے۔ ہ ہ ے

یں یں ک وئ ٹانک یں ادھڑ یں ک ہروزن بھی نظر آت ۔ ہ ے ے ہ ے ہ ۔ ہ ے یں ک دھوئ جان س بھی ےبد نما داغ جو اس قدر پائیدار ے ے ہ ہ یں میں ان ساڑھیوں وت جات ر یں دھلت بلک اور گ ۔ن ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے ہ

وں کیونک میں ان لوگوں کو جانتا ہکی زندگی کو جانتا ہ ا یں ی لوگ م ہوں جو ان ساڑھیوں کو استعمال کرت ہ ۔ ہ ے ہی بائیں طرف آٹھ نمبر کی ہلکشمی ک پل ک قریب ے ے

یں بڑی غریب کی یں ی چال متوالی ن ت ہےچال میں ر ہ ہ ۔ ہ ے ہ وں، اس لئ آپ کو تا ےچال میں بھی اسی چال میں ر ہ ہ ہے۔

Page 288: اردو ادب کے مشہور افسانے

نن والوں ک متعلق سب کچھ ےان ساڑھیوں اور ان ک پ ے ہ ے ت دیر وں ابھی وزیر اعظم کی گاڑی آن میں ب ہبتا سکتا ے ۔ ہ ے آپ انتظار کرت کرت اکتا جائیں گ اس لئ اگر آپ ے ے ے ہے۔ےان چھ ساڑھیوں کی زندگی ک بار میں مجھ س کچھ ے ے

ہسن لیں تو وقت آسانی س کٹ جائ گا ادھر ی جو ۔ ے ے ی ی شانتا بائی کی ہبھور رنگ کی ساڑھی لٹک ر ہے ہ ے

ی و بھی ہساڑھی اس ک قریب جو ساڑھی لٹک ر ہے ہ ے ہے۔ و گی مگر و ہآپ کو بھور رنگ کی ساڑھی دکھائی دیتی ہ ے را بھورا یں میں اس کا گ ر بھور رنگ کی آپ ن ہتو گ ہ ہے۔ ے ے ہ وں کیونک میں اس اس وقت س جانتا ےرنگ دیکھ سکتا ے ہ ہ را بھورا تھا اور اب اس وا گ ہوں جب اس کا رنگ چمکتا ہ ہی بھورا جیسا شانتا ہےدوسری ساڑھی کا رنگ بھی ویسا ہ

بھائی کی ساڑھی کا اور شائد آپ ان دونوں ساڑھیوں۔میں بڑی مشکل س کوئی فرق محسوس کر سکیں ے

نن والوں کی زندگیوں کو دیکھتا ےمیں بھی جب ان ک پ ہ ے لی وں مگر ی پ ت کم فرق محسوس کرتا ہوں تو ب ہ ہ ہ ہ

ہساڑھی جو بھور رنگ کی و شانتا بھائی کی ساڑھی ہے ے را رنگ ہ اور جو دوسری بھور رنگ کی اور جس کا گ ہے ے ہےیں و جیونا بائی ہبھورا صرف میری آنکھیں دیکھ سکتی ۔ ہ

ہے۔کی ساڑھی

ےشانتا بائی کی زندگی بھی اس کی ساڑھی ک رنگ کی ہے۔طرح بھوری شانتا بائی برتن مانجھن کا کام کرتی ے ہے۔ یں ایک بڑی لڑکی دو چھوٹ لڑک ےاس ک تین بچ ے ہے ۔ ہ ے ے

و گی سب س چھوٹا ےیں بڑی لڑکی کی عمر چھ سال ۔ ہ ۔ ہےلڑکا دو سال کا شانتا بائی کا خاوند سیون مل ک کپڑ ہے۔

وتا اس لئ ت جلد جانا ےکھات میں کام کرتا اس ب ہے۔ ہ ہ ے ہے۔ ے ر کا ہشانتا بائی اپن خاوند ک لئ دوسر دن کی دوپ ے ے ے ے

، کیونک صبح اس خود ی کو پکا ک رکھتی ےکھانا رات ہ ہے ے ہ ےبرتن صاف کرن ک لئ اور پانی ڈھون ک لئ دوسروں ے ے ے ے ے وتا اور اب و ساتھ میں اپن چھ ےک گھروں میں جانا ہ ہے ہ ے ر ک قریب ےبرس کی بچی کو بھی ل جاتی اور دوپ ہ ہے ے اتی اور اپنی ہےواپس چال میں آتی واپس آ ک و ن ہ ہ ے ہے۔ ےساڑھی دھوتی اور سکھان ک لئ پل ک جنگل پر ے ے ے ے ہے

ن ہڈال دیتی اور پھر ایک ب حد غلیظ اور پرانی دھوتی پ ے ہے ا ہکر کھان پکان میں لگ جاتی شانتا بائی ک گھر چول ے ہے۔ ے ے

اں چولھ ےاس وقت سلگ سکتا جب دوسروں ک ہ ے ہے

Page 289: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر کو دو بج اور رات ک نو و جائیں یعنی دوپ ےٹھنڈ ے ہ ۔ ہ ے ےبج ان اوقات میں ادھر اور ادھر س دونوں وقت گھر ے۔

وتا ر برتن مانجھن اور پانی ڈھون کا کام کرنا ہے۔س با ہ ے ے ہ ے اتھ بٹاتی شانتا بائی ہے۔اب تو چھوٹی لڑکی بھی اس کا ہ

ہے۔برتن صاف کرتی چھوٹی لڑکی برتن دھوتی جاتی ہے۔ اتھ س چینی ک وا ک چھوٹی لڑکی ک ےدو تین بار ایسا ے ہ ے ہ ہ ے۔برتن گر کر ٹوٹ گئ اب میں جب کبھی چھوٹی لڑکی

وں وئی اور اس ک گال سرخ دیکھتا ہکی آنکھیں سوجی ے ہ وں ک کسی بڑ گھر میں چینی ک برتن ےتو سمجھ جاتا ے ہ ہ یں اور اس وقت شانتا بھی میری نمست کا جواب ےٹوٹ ہ ے

ا سلگان میں یں دیتی جلتی بھنتی بڑبڑاتی چول ےن ہ ۔ ہ و جاتی اور چول میں آگ کم اور دھواں زیاد ہمصروف ہے ہے ہ و جاتی چھوٹا لڑکا جو دو سال کا ہے۔نکالن میں کامیاب ہ ے ہے دھوئیں س اپنا دم گھٹتا دیکھ کر چیختا تو شانتا بائی ے ہےےاس ک چینی ایس نازک رخساروں پر زور زور کی چپتیں ے یں آتی اس پر بچ اور زیاد چیختا یوں ہے۔لگان س باز ن ہ ہ ہ ے ے یں ملتا اور تا کیونک اس دودھ ن ہےتو ی دن بھر روتا ر ہ ے ہ ہے ہ ہ

ی میں تی اور دو سال کی عمر ہاس اکثر بھوک ر ہے ہ ے ےاس باجر کی روٹی کھانا پڑتی اس اپنی ماں کا ہے۔ ے ے ل چھ سات ن کی طرح صرف پ ےدودھ دوسر بھائی ب ہ ہ ے وا، و بھی بڑی مشکل س پھر ی بھی خشک ہما نصیب ے۔ ہ ہ ہ

ماری چال ک سار ےباجری اور ٹھنڈ پانی پر پلن لگا ے ہ ۔ ے ے یں ت یں و دن بھر ننگ ر ہبچ اسی خوراک پر پلت ے ہ ے ہ ۔ ہ ے ے

یں سوت میں بھی ےاور رات کو گدڑی اوڑھ کر سو جات ۔ ہ ے یں اور ت یں اور جاگت میں بھی بھوک ر ت ہو بھوک ر ے ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ

یں تو و جات ہجب شانتا بائی ک خاوند کی طرح بڑ ے ہ ے ے ےپھر دن بھر باجری اور ٹھنڈا پانی پی پی کر کام کرت

ر وقت یں اور ان کی بھوک بڑھتی جاتی اور ہجات ہے ہ ے ےمعد ک اندر اور دل ک اندر اور دماغ ک اندر اک ے ے ے

یں اور جب پگار ملتی ہبوجھل سی دھمک محسوس کرت ے ے تو ان میں س کئی ایک سیدھ تاڑی خان کا رخ کرت ے ے ے ہےو ہیں تاڑی پی کر چند گھنٹوں ک لئ ی دھمک زائل ہ ے ے ۔ ہ

یں پی سکتا ایک دن میش تو تاڑی ن ۔جاتی لیکن آدمی ہ ہ ہ ہے اں ہپئ گا، دو دن پئ گا، تیسر دن کی تاڑی ک پیس ک ے ے ے ے ے

ہے۔س الئ گا آخر کھولی کا کرای دینا راشن کا خرچ ہ ہے۔ ہ ۔ ے ے ہے۔بھاجی ترکاری تیل اور نمک بجلی اور پانی شانتا ہے۔ ہے۔ و ہبائی کی بھوری ساڑھی جو چھٹ ساتویں ما تار تار ہ ے ہے

Page 290: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں چلتی ی مل وال ےجاتی کبھی سات ما س زیاد ن ہ ۔ ہ ہ ے ہ ہے۔ ےبھی پانچ روپ چار آن میں کیسی کھدی نکمی ساڑھی ے وتی چھٹ ما یں یں ان ک کپڑ میں ذرا جان ن ہدیت ے ۔ ہ ہ ے ے ۔ ہ ے

وتا تو ساتویں ما بڑی ونا شروع ہس جو تار تار ہے ہ ہ ے ، ٹانگ لگا ک ، گانٹھ ک ، جوڑ ک ےمشکل س سی ک ے ے ے ے ے

ی پانچ روپ چار آن خرچ کرنا پڑت ےکام دیتا اور پھر و ے ے ہ ہے ی بھور رنگ کی ساڑھی آ جاتی شانتا کو ی ہیں اور و ہے۔ ے ہ ہ

وتا ت دیر میں ت پسند اس لئ ک ی میال ب ہے۔رنگ ب ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ وتی برتن صاف کرن ےاس گھروں میں جھاڑو دینا ہے۔ ہ ے

وتا و یں، تیسری چوتھی منزل تک پانی ڈھونا ہوت ہے۔ ہ ہ ے ہوئ شوخ یں کر گی تو کیا کھلت ےبھورا رنگ پسند ن ہ ے ے ہ

ےرنگ گالبی، بسنتی، نارنجی پسند کر گی و اتنی ب ہ ۔ ے یں و تین بچوں کی ماں لیکن کبھی اس ن ےوقوف ن ہے ہ ہے۔ ہ یں اپن دھڑکت ن تھ ان ، پ ےی شوخ رنگ بھی دیکھ تھ ے ہ ے۔ ے ہ ے ے ہ ےوئ دل ک ساتھ پیار کیا تھا جب و دھار دار میں اپن ہ ۔ ے ے ہ

اں اس ن بادلوں میں شوخ رنگوں والی ےگاؤں میں تھی ج ہ اں میلوں میں اس ن شوخ رنگ ےدھنک دیکھی تھی، ج ہ اں اس ک باپ ک دھان ک ، ج وئ دیکھ تھ ےناچت ے ے ہ ے ے ے ہ ے

ر رنگ ک کھیت اور آنگن ر ، ایس شوخ ےکھیت تھ ے ہ ے ہ ے ے ہمیں پیرو کا پیڑ جس ک ڈال ڈال س و پیرو توڑ توڑ کر ے ے ، یں ی ن ہےکھایا کرتی تھی جان اب پیروؤں میں و مزا ہ ہ ہ ے ۔ یں و رنگ و چمک دمک ی ن ہو شیرینی اور گھالوٹ ہ ہے۔ ہ ہ ہ اں جا ک مر گئی اور و سار رنگ کیوں یک لخت ےک ہ ے ہ و گئ شانتا بائی کبھی برتن مانجھت مانجھت ےبھور ے ے۔ ہ ے

، اس پل ک جنگل پر ال ، اپنی ساڑھی دھوت ےکھانا پکات ے ے ے ے وئ ی سوچا کرتی اور اس کی بھوری ہےکر ڈالت ہ ے ہ ے

ےساڑھی س پانی ک قطر آنسوؤں کی طرح ریل کی ے ے یں اور دور س دیکھن وال لوگ ایک ت جات ےپٹڑی پر ب ے ے ہ ے ے ہ ےبھور رنگ کی بد صورت عورت کو پل ک اوپر جنگل پر ے ے

یں اور بس ہایک بھوری ساڑھی کو پھیالت دیکھت ے ے ہے۔دوسری لمح گاڑی پل ک نیچ س گزر جاتی ے ے ے ے

ےجیونا بائی کی ساڑھی جو شانتا بائی کی ساڑھی ک ر اس کا ر بھور رنگ کی بظا ، گ ی ہساتھ لٹک ر ہے۔ ے ے ہ ہے ہ ےرنگ شانتا بائی کی ساڑھی س بھی پھیکا نظر آئ گا ے

ےلیکن اگر آپ غور س دیکھیں تو اس پھیک پن ک باوجود ے ے

Page 291: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر بھور رنگ کی نظر آئ گی ی ساڑھی ہی آپ کو گ ۔ ے ے ے ہ ہ ی بوسید دو ہے۔بھی پانچ روپ چار آن کی اور بڑی ہ ہ ہے ے ے اں پر ٹانک لگ وئی تھی لیکن اب و ےایک جگ س پھٹی ہ ہ ے ہ اں آپ وت یں یں اور اتنی دور س معلوم بھی ن ہگئ ے۔ ہ ہ ے ہ ے ر نیل رنگ کا یں جو گ ہےو بڑا ٹکڑا ضرور دیکھ سکت ے ے ہ ہ ے ہ ت اں س ی ساڑھی ب ہاور اس ساڑھی ک بیچ میں ج ہ ے ہ ے ےپھٹ چکی تھی لگایا گیا ی ٹکڑا جیونا بائی کی اس س ہ ہے۔ لی ساڑھی کا اور دوسری ساڑھی کو مضبوط بنان ےپ ہے ہ ےک لئ استعمال کیا گیا جیونا بائی بیو اور اس لئ ہے ہ ہے۔ ے ے میش پرانی چیزوں س نئی چیزوں کو مضبوط بنان ےو ے ہ ہ ہ

ےک ڈھنگ سوچا کرتی پرانی یادوں س نئی یادوں کی ہے۔ ے ہے۔تلخیوں کو بھول جان کی کوشش کرتی جیونا بائی ے ، جس ن ایک دن اس تی ےاپن خاوند ک لئ روتی ر ے ہے ہ ے ے ے

ہنش میں مار مار کر اس کی آنکھ کانی کر دی تھی و ۔ ے ۔اس لئ نش میں تھا ک و اس روز مل س نکاال گیا تھا ے ہ ہ ے ے ا تھا گو و یں ر ہبڈھا ڈھونڈو اب مل میں کسی کام کا ن ۔ ہ ہ

اتھوں میں اتنی طاقت ن ت تجرب کار تھا لیکن اس ک ہب ہ ے ے ہ ی تھی ک و جوان مزدوروں کا مقابل کر سکتا بلک و تو ہر ہ ہ ہ ہ ہ

ن لگا تھا کپاس ک ےاب دن رات کھانسی میں مبتال ر ۔ ے ہ ےننھ ننھ ریش اس ک پھیپڑوں میں جا ک ایس دھنس ے ے ے ے ے

ےگئ تھ جیس چرخیوں اور اینٹوں میں سوت ک چھوٹ ے ے ے ے یں جب برسات آتی ین تاگ پھنس کر لگ جات ۔چھوٹ م ہ ے ے ہ ے ےتو ی ننھ من ریش اس دم میں مبتال کر دیت اور جب ے ے ے ے ے ہ

وتی تو و دن بھر اور رات بھر کھانستا ایک ۔برسات ن ہ ہ ہ اں ہخشک مسلسل کھنکار گھر میں اور کارخان میں ج ے ۔۔۔

تی تھی مل ک مالک ن ےو کام کرتا تھا سنائی دیتی ر ے ۔ ہ ۔۔۔ ہ اس کھانسی کی خطرناک گھنٹی کو سنا اور ڈھونڈو کو

۔مل س نکال دیا ڈھونڈو اس ک چھ ما بعد مر گیا ہ ے ۔ ے وا اگر وا کیا ت غم ہجیونا بائی کو اس ک مرن کا ب ۔ ہ ہ ے ے

ےغص میں آ ک ایک دن اس ن جیونا بائی کی آنکھ نکال ے ے ےدی تیس سال کی شادی شد زندگی ایک لمح پر قربان ہ ۔ یں کی جا سکتی اور اس کا غص بجا تھا اگر مل مالک ۔ن ہ ہ ہڈھونڈو کو یوں ب قصور نوکری س الگ ن کرتا تو کیا ے ے ےجیونا کی آنکھ نکل سکتی تھی ڈھونڈو ایسا ن تھا اس ۔ ہ ۔ ےاپنی بیکاری کا غم تھا اپنی پینتیس سال مالزمت س ہ ۔

ون کا رنج تھا اور سب س بڑا رنج اس اس ےبرطرف ے ے ہ ہبات کا تھا ک مل مالک ن چلت وقت اس ایک دھیل بھی ے ے ے ہ

Page 292: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھ ل جیس ڈھونڈو خالی یں دیا تھا پینتیس سال پ ہتو ن ے ے ہ ۔ ہ اتھ واپس لوٹا ہمل میں کام کرن آیا تھا اسی طرح خالی ے

ر نکلن پر اور اپنا نمبری کارڈ پیچھ ےاور درواز س با ے ہ ے ے ر آ ک اس ایسا ےچھوڑ آن پر اس ایک دھچکا سا لگا با ے ہ ۔ ے ے وا ک جیس ان پینتیس سالوں میں کسی ن اس ےمعلوم ے ہ ہ کا سارا رنگ، اس کا سارا خون اس کا سارا رس چوسر کوڑ کرکٹ ک ڈھیر و اور اس بیکار سمجھ کر با ےلیا ے ہ ے ہ

ےپر پھینک دیا اور ڈھونڈو بڑی حیرت س مل ک درواز ے ے ےکو اور اس بڑی چمنی کو دیکھن لگا جو بالکل اس ک ے ےسر پر خوفناک دیو کی طرح آسمان س لگی کھڑ ی

، اتھ مل ےتھی یکایک ڈھونڈو ن غم اور غص س اپن ہ ے ے ے ے ۔ ۔زمین پر زور س تھوکا اور پھر تاڑی خان چال گیا ے ے

ےلیکن جیونا کی ایک آنکھ جب بھی ن جاتی، اگر اس ک ہ وت و آنکھ تو گل گل کر، سڑ ہپاس عالج ک لئ پیس ے۔ ہ ے ے ے سپتالوں میں ڈاکٹروں اور کمپونڈروں اور ہسڑ کر خیراتی نرسوں کی بد احتیاطیوں، گالیوں اور ال پروائیوں کا شکاروئی تو ڈھونڈو بیمار پڑ گیا ہو گئی اور جب جیونا اچھی ہ۔اور ایسا بیمار پڑاک پھر بستر س ن اٹھ سکا ان دنوں ہ ے ہ ےجیونا اس کی دیکھ بھال کرتی تھی شانتا بائی ن مدد ۔ ےک طور پر اس چند گھروں میں برتن مانجھن کا کام ے ے ہدلوادیا تھا اور گو و اب بوڑھی تھی اور مشاقی اور

ہصفائی س برتنوں کو صاف ن رکھ سکتی تھی پھر بھی ے اتھوں میں ست رینگ رینگ کر اپن کمزور ست آ ہو آ ے ہ ہ ہ ہ ہ

ار پر جیس تیس کام کرتی ےجھوٹی طاقت ک بود س ے ے ہ ے ے نن والی، خوشبودار تیل لگان ی خوبصورت لباس پ ےر ے ہ ۔ ہ ی ی اور کام کرتی ر ۔والی بیویوں کی گالیاں سنتی ر ہ ہ

ےکیونک اس کا ڈھونڈو بیمار تھا اور اس اپن آپ کو اور ے ہ ا اور ہاپن خاوند کو زند رکھنا تھا لیکن ڈھونڈو زند ن ر ہ ہ ۔ ہ ے

ہاب جیونا بائی اکیلی تھی خیریت اس میں تھی ک و ہ ۔ ۔بالکل اکیلی تھی اور اب اس صرف اپنا دھندا کرنا تھا ے وئی اں ایک لڑکی پیدا ہشادی ک دو سال بعد اس ک ہ ے ے

وئی تو کسی بدمعاش ک ساتھ بھاگ ےلیکن جب و جوان ہ ہ اں پھر ہے۔گئی اور اس کا آج تک کسی کو پت ن چال ک و ک ہ ہ ہ ہ ہ ت س لوگوں ن بتایا ک ہکسی ن بتایا اور پھر بعد میں ب ے ے ہ ے جیونا بائی کی بیٹی فارس روڈ پر چمکیال بھڑکیال ریشمین بیٹھی لیکن جیونا کو یقین ن آیا اس ن اپنی ےلباس پ ۔ ہ ہے ے ہ

Page 293: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےساری زندگی پانچ روپ چار آن کی دھوتی میں بسر کر ے ےدی تھی اور اس یقین تھا ک اس کی لڑکی بھی ایسا کر ہ ے یں کر گی اس کا اس کبھی خیال ن آیا ہگی و ایسا ن ے ۔ ے ہ ہ ۔ یں گئی کیونک اس یقین تھا ک ہتھا و کبھی فارس روڈ ن ے ہ ہ ہ ۔ اں کیوں یں بھال اس کی بیٹی و اں ن ہاس کی بیٹی و ہے۔ ہ ہ اں اپنی کھولی میں کیا تھا پانچ روپ چار ےجان لگی ی ۔ ہ ۔ ے ۔آن والی دھوتی تھی باجر کی روٹی تھی ٹھنڈا پانی ے ۔ ے

ہتھا سوکھی عزت تھی ی سب کچھ چھوڑ کر فارس روڈ ۔ ۔ ےکیوں جان لگی اس تو کوئی بدمعاش اپنی محبت کا ۔ ے ےسبز باغ دکھا کر ل گیا تھا کیونک عورت محبت ک لئ ے ہ ے

ل اپن ےسب کچھ کر گزرتی خود و تیس سال پ ے ہ ہ ہے۔ یں ہڈھونڈو ک لئ اپن ماں باپ کا گھر چھوڑ ک چلی ن ے ے ے ے

۔آئی تھی جس دن ڈھونڈو مرا اور جب لوگ اس کی الش ےجالن ک لئ ل جان لگ اور جیونا ن اپنی سیندور کی ے ے ے ے ے ے ےڈبیا اپنی بیٹی کی انگیا پر انڈیل دی جو اس ن بڑی مدت ۔س ڈھونڈو کی نظروں س چھپا رکھی تھی عین اسی ے ے وئ جسم کی بھاری عورت بڑا چمکیال ےوقت ایک گدرائ ہ ے

ن اس س آ ک لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ ک ےلباس پ ے ے ے ہ ےرون لگی اور اس دیکھ کر جیونا کو یقین آگیا ک جیس ہ ے ے

ہے۔اس کا سب کچھ مر گیا اس کا پتی اس کی بیٹی، اس ی یں غالظت کھاتی ر ہکی عزتجیس و زندگی بھر روٹی ن ہ ہ ے

ی س یں تھا شروع دن ے جیس اس ک پاس کچھ ن ہ ۔ ہ ے ے ہے۔ی اس س سب کچھ ل ون س پ یں تھا پیدا ےکچھ ن ہ ے ہ ے ے ہ ۔ ہ

تا، ننگا اور ب عزت کر دیا گیا تھا ےچھین لیا گیا تھا اس ن ہ ے ۔ وا ک و جگ ہاور جیونا کو اسی ایک لمح میں احساس ہ ہ ہ ے ا اور و جگ اں اس کا خاوند زندگی بھر کام کرتا ر ہج ہ ہ ہ

اں اس کی و گئی اور و جگ ج اں اس کی آنکھ اندھی ہج ہ ہ ہ ہ ت بڑا کارخان تھا ہبیٹی اپنی دکان سجا ک بیٹھ گئی، ایک ب ہ ے اتھ انسانی جسموں کو ل کر ےجس میں کوئی ظالم جابر ہ

ہےگن کا رس نکالن والی چرخی میں ٹھونستا چال جاتا ے ے اتھ س توڑ مروڑ کر دوسری طرف پھینکتا ےاور دوسر ہ ے ےجاتا اور یکا یک جیونا اپنی بیٹی کو دھکا د کر الگ ہے

و گئی اور چیخیں مار مار کر رون لگی ۔کھڑی ے ہ

یعنی نیال بھی اور ہےتیسری ساڑھی کا رنگ مٹ میال نیال ہے۔ ہےمیال بھی اور مٹیاال بھی کچھ ایسا عجب سا رنگ جو ہے۔

و جاتا ی یں نکھرتا بلک غلیظ ہبار بار دھون پر بھی ن ہے۔ ہ ہ ہ ے

Page 294: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہے۔میری بیوی کی ساڑھی میں فورٹ میں دھنو بھائی کی وں مجھ پینسٹھ روپ تنخوا ملتی ہفرم میں کلرکی کرتا ے ے ہ ی تنخوا ہ سیون مل اور بکسریا مل ک مزدوروں کو ی ہ ے ہے۔ےملتی اس لئ میں بھی ان ک ساتھ آٹھ نمبر کی چال ے ہے وں یں وں مگر میں مزدور ن تا ہکی ایک کھولی میں ر ہ ۔ ہ ہ وں میں دسویں پاس وں میں فورٹ میں نوکر ۔کلرک ہ ۔ ہ وں میں انگریزی میں عرضی ۔وں میں ٹائپ کر سکتا ہ ۔ ہ

وں میں اپن وزیر اعظم کی تقریر ےبھی لکھ سکتا ۔ ہ وں آج ان کی گاڑی ۔جلس میں سن کر سمجھ بھی لیتا ہ ے

یں و ا لکشمی ک پل پر آئ گی، ن ہتھوڑی دیر میں م ہ ے ے ہ یں جائیں گ و سمندر ک کنار ایک ےریس کورس ن ے ہ ے۔ ہ

ے۔شاندار تقریر کریں گ اس موقع پر الکھوں آدمی جمع وں گا میری بیوی ۔وں گ ان الکھوں میں میں بھی ایک ہ ے۔ ہت شوق مگر ہےکو اپنی وزیر اعظم کی باتیں سنن کا ب ہ ے مار آٹھ یں ل جا سکتا کیونک ےمیں اس اپن ساتھ ن ہ ہ ے ہ ے ے

تی جب ر وقت پریشانی سی ر یں اور گھر میں ہے۔بچ ہ ہ ہ ے و جاتی راشن تو روز کم ہے۔دیکھو کوئی ن کوئی چیز کم ہ ہ

ےپڑ جاتا اب نل میں پانی بھی کم آتا رات کو سون ہے۔ ہے۔ ہک لئ جگ بھی کم پڑ جاتی اور تنخوا تو اس قدر کم ہے ہ ے ے ین میں صرف پندر دن چلتی باقی پندر ہپڑتی ک م ہے۔ ہ ے ہ ہ ہے ےدن سود خور پٹھان چالتا اور و بھی کیس گالیاں بکت ے ہ ہے

ے۔بکت گھسیٹ گھسیٹ کر، کسی سست رفتار گاڑی کی ہے۔طرح ی زندگی چلتی ہ

یں پڑھ سکت یں، مگر ی اسکول میں ن ے۔میر آٹھ بچ ہ ہ ہ ے ے ل وں گ پ ےمیر پاس ان کی فیس ک پیس کبھی ن ہ ے۔ ہ ہ ے ے ے

ل جب میں ن بیا کیا تھا اور ساوتری کو اپن گھر یعنی ےپ ہ ے ہ ت کچھ سوچا تھا ان ۔اس کھولی میں الیا تھا تو میں ن ب ہ ے

دنوں ساوتری بھی بڑی اچھی اچھی باتیں سوچا کرتی۔تھی

ر پتوں کی طرح پیاری پیاری ر ےگوبھی ک نازک نازک ہ ے ہ ے ہباتیں جب و مسکراتی تھی تو سینما کی تصویر کی ۔

ٹ ہطرح خوبصورت دکھائی دیا کرتی تھی اب و مسکرا ہ ۔ اں چلی گئی اس کی جگ ایک مستقل تیوری ہن جان ک ہے۔ ہ ے ہ ہن ل لی و ذرا سی بات پر بچوں کو ب تحاش پیٹنا ے ہ ہے۔ ے ے وں، کیس بھی ےشروع کر دیتی اور میں تو کچھ بھی ک ہ ہے

Page 295: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں و بس کاٹ کھان کو ی لجاجت س ک وں، کتنی ےک ہ ہ ے ہ ہ یں مجھ و گیا پت ن یں ساوتری کو کیا ےدوڑتی پت ن ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہے۔ وں و گیا میں دفتر میں سیٹھ کی گالیاں سنتا ۔کیا ہ ہے۔ ہ

تا میش خاموش ر وں اور تا ہگھر پر بیوی کی گالیاں س ہ ہ ہ ہ وں، شاید میری بیوی کو ایک نئی ہوں کبھی کبھی سوچتا ۔ ہ

، شاید اس صرف ایک نئی ےساڑھی کی ضرورت ہے ، ایک نئ گھر، ایک نئ ر یں، اک نئ چ ی کی ن ےساڑھی ے ے ہ ے ہ ہ

ہےماحول، ایک نئی زندگی کی ضرورت مگر اب ان باتوں وتا اب تو آزادی آ گئی اور ہےک سوچن س کیا ہے۔ ہ ے ے ے

م ہمار وزیر اعظم ن ی ک دیا ک اس نسل کو یعنی ہ ہے ہہ ہ ے ے ہیں مل سکتا میں ۔لوگوں کو اپنی زندگی میں کوئی آرام ن ہ ےن ساوتری کو اپن وزیر اعظم کی تقریر جو اخبار میں ے و گئی اور ہچھپی تھی سنائی تو و اس سن کر آگ بگول ہ ے ہ وا ایک چمٹا ہاس ن غص میں آ کر چول ک قریب پڑا ے ہے ے ے

ےمیر سر پر د مارا زخم کا نشان جو آپ میر ماتھ ے ۔ ے ے یں اسی کا نشان ساوتری کی مٹ میلی ہے۔پر دیکھ ر ہ ہے

یں مگر ہنیلی ساڑھی پر بھی ایس کئی زخموں ک نشان ے ے وں ان یں سکیں گ میں دیکھ سکتا یں دیکھ ن ۔آپ ان ہ ے۔ ہ ہ ےمیں س ایک نشان تو اسی مونگیا رنگ کی جارجٹ کی اؤس ک نزدیک بھوندو ےساڑھی کا جو اس ن اوپیرا ہ ے ہے

۔رام پارچ فروش کی دکان پر دیکھی تھی ایک نشان اس ہ ےکھلون کا جو پچیس روپ کا تھا اور جس دیکھ کر ے ہے ے ال بچ خوشی س کلکاریاں مارن لگا تھا، لیکن ےمیرا پ ے ہ ہ

م خرید ن سک اور جس ن پا کر میرا بچ دن بھر ہجس ہ ے ے ہ ہ ے ا ایک نشان اس تار کا جو ایک دن جبل پور س ےروتا ر ہے ۔ ہ آیا تھا جس میں ساوتری کی ماں کی شدید عاللت کیزار تی تھی لیکن ہخبر تھی ساوتری جبل پور جانا چا ہ ۔

ہکوشش ک بعد بھی کسی س مجھ روپ ادھار ن مل ے ے ے ے ۔سک تھ اور ساوتری جبل پور ن جا سکی تھی ایک ہ ے ے

نشان اس تار کا تھا جس میں اس کی ماں کی موت کا۔۔۔ذکر تھا ایک نشان مگر میں کس کس نشان کا ذکر ۔ ، گدل گدل غلیظ داغوں ےکروں ی نشان ان چتل چتل ے ے ے ہ ۔ ےس ساوتری کی پانچ روپ چار آن والی ساڑھی بھری ے ے یں چھوٹت اور ےپڑی روز روز دھون پر بھی ی داغ ن ہ ہ ے ہے۔ یں گ ایک ی ر ے۔شاید جب تک ی زندگی ر ی داغ یوں ہ ہ ہ ہے ہ

وت جائیں گ ے۔ساڑھی س دوسری ساڑھی میں منتقل ے ہ ے

Page 296: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہےچوتھی ساڑی قرمزی رنگ کی اور قرمزی رنگ میں ا یوں تو ی سب مختلف رنگوں ہبھورا رنگ بھی جھلک ر ہے۔ ہ یں،لیکن بھورا رنگ ان سب میں جھلکتا ہوالی ساڑھیاں

وتا جیس ان سب کی زندگی ایک ہے۔ ایسا معلوم ے ہے ہ ہے۔ہجیس ان سب کی قیمت ایک جیس ی سب زمین ے ہے۔ ے وں ن کبھی یں اٹھیں گی جیس ان ےس کبھی اوپر ن ہ ے ۔ ہ ے

وئی شفق، وئی دھنک، افق پر چمکتی نستی ہشبنم میں ہ ہ یں دیکھی جیس شانتا وئی برق ن راتی ےبادلوں میں ل ۔ ہ ہ ہ ہبائی کی جوانی و جیونا کا بڑھاپا و ساوتری کا ہے۔ ہ ہے۔

ہادھیڑ پن جیس ی سب ساڑھیاں، زندگیاں، ایک رنگ، ے ہے۔ وا وئ ہایک سطح، ایک تواتر، ایک تسلسل یکسانیت لئ ے ہ ے

یں ۔میں جھولتی جاتی ہ

ےی قرمزی رنگ کی بھور رنگ کی ساڑھی جھبو بھیئ کی ے ہ یں ہعورت کی اس عورت س میری بیوی کبھی بات ن ے ہے۔

یں اور ہےکرتی کیونک ایک تو اس ک کوئی بچ وچ ن ہ ہ ہ ے ہ وتی و بڑی نحس ہے۔ایسی عورت جس ک کوئی بچ ن ہ ہ ہ ہ ے

ہےجادو ٹون کر ک دوسروں ک بچوں کو مار ڈالتی اور ے ے ے ہے۔بد روحوں کو بال ک اپن گھر میں بسا لیتی میری ے ے یں لگاتی ی عورت جھبو بھیا ن ےبیوی اس کبھی من ن ہ ۔ ہ ہ ے

ن واال ہےخرید کر حاصل کی جھبو بھیا مراد آباد کا ر ے ہ ہے۔ ی س اپنا دیس چھوڑ کر ادھر چال آیا و ہلیکن بچپن ۔ ے ہ

ےمراٹھی اور گجراتی زبان میں بڑی مز س گفتگو کر ے ت جلد پوار مل ک گنی ےسکتا اسی وج س اس ب ہ ے ے ہ ہے۔ ی س بیا ہکھات میں جگ مل گئی جھبو بھیا کو شروع ے ہ ۔ ہ ے ےکا شوق تھا اس بیڑی، کا تاڑی کا، کسی چیز کا شوق ۔ یں تھا شوق تھا تو اس صرف اس بات کا ک اس کی ہن ۔ ہ

و جائ جب اس ک پاس ستر اسی ےشادی جلد س جلد ے۔ ہ ے و گئ تو اس ن اپن دیس جان کی ٹھانی ےروپ اکٹھ ے ے ے ہ ے ے

، مگر پھر اس اں اپنی برادری س کسی کو بیا الئ ےتاک و ہ ے ہ ہ و گا، آن جان کا ےن سوچا ان ستر اسی روپوں س کیا ے ہ ے ے و گا چار سال کی محنت ۔کرای بھی بڑی مشکل س پورا ہ ے ہ

ہک بعد اس ن ی رقم جوڑی تھی لیکن اس رقم س و ے ہ ے ے یں کر سکتا تھا اس ۔مراد آباد جا سکتا تھا، جا ک شادی ن ہ ے ےلئ جھبو بھیا ن ایک بدمعاش س بات چیت کر ک اس ے ے ے

۔عورت کو سو روپ میں خرید لیا ے

Page 297: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہےاسی روپ اس ن نقد دئ بیس روپ ادھار میں ر جو ے ے۔ ے ے ےاس ن ایک سال ک عرص میں ادا کر دئ بعد میں ے ے ے ن وا ک ی عورت بھی مرادآباد کی ر ےجھبو بھیا کو معلوم ہ ہ ہ ہ

ی ہوالی تھی دھیرج گاؤں کی اور اس کی برادری کی ۔ و یں بیٹھ بیٹھ سب کام وا چلو ی ہتھی جھبو بڑا خوش ے ے ہ ۔ ہ ۔ ےگیا اپنی جات برادری کی، اپن ضلع کی اپن دھرم کی ۔ ے ے ۔

یں بیٹھ بٹھائ سو روپ میں مل گئی اس ن ےعورت ی ۔ ے ے ے ہ وا ک اس ہبڑ چاؤ س اپنا بیا رچایا اور پھر اس معلوم ہ ے ہ ے ے ت اچھا گاتی و خود بھی اپنی پاٹ دار ہکی بیوی لڑی ب ہے۔ ہ ی�

ےآواز میں زور س گان بلک گان س زیاد چالن کا ہ ے ے ہ ے ے ےشوقین تھا اب تو کھولی میں دن رات گویا کسی ن ۔ و دن میں کھولی میں لڑیا کام کرت ےریڈیو کھول دیا ۔ ہ

ے۔وئ گاتی تھی رات کو جھبو اور لڑیا دونوں گات تھ ان ے ۔ ے ہوں ن ایک طوطا پال اں کوئی بچ ن تھا اس لئ ان ےک ہ ے ۔ ہ ہ ہ ے

ےرکھا تھا میاں مٹھو خاوند اور بیوی کو گات دیکھ دیکھ کر ۔ ک کر گان لگ لڑیا میں ایک اور بات بھی ک ل ے۔خود بھی ل ے ہ ہ

۔تھی جھبو ن بیڑی پیتا ن سگریٹ ن تاڑی ن شراب لڑیا ہ ہ ہ ہ ۔ ل تی تھی پ ےبیڑی، سگریٹ، تاڑی سبھی کچھ پیتی تھی ک ہ ہ ۔

یں جانتی تھی مگر جب س و ہو ی سب کچھ ن ے ہ ہ ہ ہبدمعاشوں ک پل پڑی اس ی سب بری باتیں سیکھنا ے ے ے ہےپڑیں اور اب و اور سب باتیں تو چھوڑ سکتی مگر ہ

یں چھوڑ سکتی کئی بار تاڑی پی کر لڑیا ۔بیڑی اور تاڑی ن ہ ےن جھبو پر حمل کر دیا اور جھبو ن اس روئی کی طرح ے ہ ے ت شور مچاتا تھا ۔دھنک کر رکھ دیا اس موقع پر طوطا ب ہ ۔

ےرات کو دونوں کو گالیاں بکت دیکھ کر خود بھی پنجر ے ی گالیاں بکتا جو و دونوں وا زور زور س و ہمیں ٹنگا ہ ے ہ

ےبکت تھ ایک بار تو اس کی گالی سن کر جھبو غص ے ے ےمیں آ ک طوط کو پنجر سمیت بدرو میں پھینکن لگا ے ے ے

۔تھا مگر جیونا ن بیچ میں پڑ ک طوط کو بچا لیا ے ے ے منوں کو یں برا ا تم ہطوط کو مارنا پاپ جیونا ن ک ہ ۔ ہ ے ہے۔ ے

ار پندر بیس روپ کھل ےبال ک پرائسچت کرنا پڑ گا تم ہ ے ہ ۔ ے ے ےجائیں گ ی سوچ کر جھبو ن طوط کو بدرو میں غرق ے ہ ے۔

۔کر دین کا خیال ترک کر دیا ے

شروع شروع میں تو جھبو کو ایسی شادی پر چاروںہطرف س گالیاں پڑیں و خود بھی لڑیا کو بڑ شب کی ے ہ ۔ ے ےنظروں س دیکھتا اور کئی بار بالوج اس پیٹا اور خود ہ ے

Page 298: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا ہبھی مل س غیر حاضر ر کر اس کی نگرانی کرتا ر ہ ے ست لڑیا ن اپنا اعتبار ساری چال میں قائم کر ست آ ےمگر آ ہ ہ ہ ہ

تی تھی ک عورت سچ دل س بد معاشوں ک ےلیا لڑیا ک ے ے ہ ہ ۔ تی چا و یں کرتی، و تو ایک گھر چا ہپل پڑنا پسند ن ہے ہے ہ ہ ہ ے و تی جو اس کا اپنا و و ایک خاوند چا ی سا ۔چھوٹا ہ ہے ہ ہ ۔ ہ ہ

ر وقت شور مچان واال، زبان دراز، ےچا و جھبو بھیا ایسا ہ ہ ہے تی چا و و و ایک ننھا بچ چا ی کیوں ن ہشیخی خور ہے ہے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ و اور اب لڑیا ک پاس بھی ی بد صورت کیوں ن ےکتنا ہ ہ ہ

و وا یں تھا تو کیا ہگھر تھا اور جھبو بھی تھا اور اگر بچ ن ہ ہ ہ وتا تو بھگوان کی مرضی ی میاں یں ہجائ گا اور اگر ن ۔ ہ ہ ے

ی اس کا بیٹا بن گا ۔مٹھو ے ہ

ی تھی اور ہایک روز لڑیا اپن میاں مٹھو کا پنجرا جھال ر ے ی تھی اور اپن دل ک سپنوں میں ےاس چوری کھال ر ے ہ ے

مکتا ی تھی جو فضا میں ہایس ننھ س بالک کو دیکھ ر ہ ے ے ے ا تھا ک چال میں ہاس کی آغوش کی طرف بڑھتا چال آ ر ہ ےشور بڑھن لگا اور اس ن درواز س جھانک کر دیکھا ے ے ے

یں اور ان ک ےک چند مزدور جھبو کو اٹھائ چل آ ر ہ ہے ے ے ہ یں لڑیا کا دل دھک س ر وئ ہکپڑ خون س رنگ ے ۔ ہ ے ہ ے ے ے

ےگیا و بھاگتی بھاگتی نیچ گئی اور اس ن بڑی درشتی ے ہ ۔ ےس اپن خاوند کو مزدوروں س چھین کر اپن کندھ پر ے ے ے ے ہاٹھا لیا اور اپنی کھولی میں ل آئی پوچھن پر پت چال ک ہ ے ۔ ے ۔جھبو س گنی کھات ک مینجر ن کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی ے ے ے ے ت اتھ جڑ دئ اس پر ب ہاس پر جھبو ن بھی اس دو ے۔ ہ ے ے

ےواویال مچا اور مینجر ن اپن بد معاشوں کو بال کر جھبو ے ر نکال دیا ۔کی خوب پٹائی کی اور اس مل س با ہ ے ے

وئی ک جھبو بچ گیا ورن اس ک مرن میں کوئی ےخیریت ے ہ ہ ہ مت س کام لیا اس ن اسی ےکسر ن تھی لڑیا ن بڑی ۔ ے ہ ے ۔ ہ ےروز س اپن سر پر ٹوکری اٹھا لی اور گلی گلی ترکاری ے ی دھندا کرتی ہبھاجی بیچن لگی، جیس و زندگی میں ی ہ ے ے

ےآئی اس طرح محنت مزدوری کر ک اس ن اپن جھبو ے ے ہے۔ ےکو اچھا کر لیا جھبو اب بھال چنگا مگر اب اس کسی ہے ۔ یں ملتا و دن بھر اپنی کھولی میں کھڑا ہمل میں کام ن ۔ ہ

الکشمی ک اسٹیشن ک چاروں طرف بلند و باال ےم ے ہ تا سیون مل، نیو ہے۔کارخانوں کی چمنیوں کو تکتا ر ہ ےمل،اولڈ مل، پوار مل، دھن راج مل لیکن اس ک لئ ے

یں کیونک مزدور کو گالیاں کھان ےکسی مل میں جگ ن ہ ہے ہ ہ

Page 299: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں آج کل لڑیا بازاروں اور ہے۔کا حق گالی دین کا حق ن ہ ے ہے ہےگلیوں میں آوازیں د کر بھاجی ترکاری فروخت کرتی ے

ےاور گھر کا سارا کام کاج بھی کرتی اس ن بیڑی، تاڑی ہے۔ اں اس کی ساڑھی، قرمزی بھور ےسب چھوڑ دی ہ ہے۔ ی تھوڑ ےرنگ کی ساڑھی جگ جگ س پھٹتی جا ر ہے۔ ہ ے ہ ہ

ہدنوں تک اگر جھبو کو کام ن مال تو لڑیا کو اپنی ساڑھی پر ےپرانی ساڑھی ک ٹکڑ جوڑنا پڑیں گ اور اپن میاں ے ے ے

۔مٹھو کو چوری کھالنا بند کرنا پڑ گی ے

ر ا نیال ساڑھی کا رنگ گدال ہے۔پانچویں ساڑھی کا کنار گ ہ ہ ر نیال اور اس نیل میں اب بھی ےسرخ لیکن کنار گ ہے ہ ہ ہے یں چمک باقی ی ساڑھی دوسری ساڑھیوں س یں ک ےک ہ ہے۔ ہ ہ

یں ہے۔بڑھیا کیونک ی ساڑھ پانچ روپ چار آن کی ن ہ ے ے ے ہ ہ ہے ےاس کا کپڑا، اس کی چمک دمک ک دیتی ک ی ان س ہ ہ ہے ہے

وتی یں ہذرا مختلف آپ کو دور س ی مختلف معلوم ن ہ ہ ے ہے۔ وں ک ی ان س ذرا مختلف اس ہے۔و گی مگر میں جانتا ے ہ ہ ہ ہتر اس کا کنار چمک دار اس کی قیمت ہے۔کا کپڑا ب ہ ہے۔ ہ

ہپون نو روپ ی ساڑھی منجوال کی ی ساڑھی ہے۔ ہ ہے۔ ے ے ہمنجوال ک بیا کی منجوال ک بیا کو ابھی چھ ما بھی ہ ے ہے۔ ہ ے یں اس کا خاوند گذشت ما چرخی ک گھومت وئ یں ےن ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہوئ پٹ کی لپیٹ میں آ ک مارا گیا تھا اور اب سول ے ے ے ہہے۔برس کی خوبصورت منجوال بیو اس کا دل جوان ہے۔ ہ

یں لیکن و ہاس کا جسم جوان اس کی امنگیں جوان ہ ہے۔ یں کر سکتی کیونک اس کا خاوند مل ک ایک ےاب کچھ ن ہ ہ

وئ ےحادث میں مر گیا و پٹ بڑا ڈھیال تھا اور گھومت ہ ے ہ ہ ہے۔ ے ےبار بار پھٹپھٹاتا تھا اور کام کرن والوں ک احتجاج ک ے ے

یں بدال تھا کیونک کام چل ہباوجود اس مل مالکوں ن ن ہ ے ے ا تھا اور دوسری صورت میں تھوڑی دیر ک لئ کام بند ےر ے ہ

وتا ہے۔کرنا پڑتا پٹ کو تبدیل کرن ک لئ روپی خرچ ہ ہ ے ے ے ے ہے۔ ےمزدور تو کسی وقت بھی تبدیل کیا جا سکتا اس ک ہے۔ وتا لیکن پٹ تو بڑی قیمتی ش ےلئ روپی تھوڑی خرچ ہ ہے ہ ہ ے

ر جان کی ے جب منجوال کا خاوند مارا گیا تو منجوال ن ہ ے ہے۔وئی کیونک منجوال کا خاوند ہدرخواست دی جو نا منظور ہ رجان ن ہاپنی غفلت س مرا تھا، اس لئ منجوال کو کوئی ہ ہ ے ے

ی جو اس ن ر ن کی ساڑھی پ ی نئی دل ہمال اور و اپنی و ے ہ ہ ہ ہ ےک خاوند ن پون نور روپ میں اس ک لئ خریدی کی ے ے ے ے ے

ہتھی کیونک اس ک پاس کوئی دوسری ساڑھی ن تھی جو ے ہ ۔

Page 300: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن سکتی و اپن ےو اپن خاوند کی موت ک سوگ میں پ ہ ۔ ہ ے ے ہ نن پر ن کا لباس پ ےخاوند ک مر جان ک بعد بھی دل ہ ہ ے ے ے

ہمجبور تھی کیونک اس ک پاس کوئی دوسری ساڑھی ن ے ہ ی گدل سرخ رنگ کی تھی ۔تھی اور جو ساڑھی تھی و ی ے ہ ہ

را نیال ہے۔پون نو روپ کی ساڑھی جس کا کنار گ ہ ہ ے ے

ن ےشاید اب منجوال بھی پانچ روپ چار آن کی ساڑھی پ ہ ے ے تا جب کبھی و دوسری ساڑھی ہگی اس کا خاوند زند ر ہ ہ ۔

ےپانچ روپ چار آن کی التی، اس لحاظ س اس کی ے ے یں آیا مگر فرق اتنا ضرور ۔زندگی میں کوئی خاص فرق ن ہ تی ایک سفید ساڑھی ننا چا ہے۔وا ک و ی ساڑھی آج پ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ

یں بیو ن ن ن کر و دل ہپانچ روپ چار آن والی جس پ ہ ہ ہ ہ ے ے ے و سک ی ساڑھی اس دن رات کاٹ کھان کو ےمعلوم ے ہ ے۔ ہ

ےدوڑتی اس ساڑھی س جیس اس ک مرحوم خاوند ے ے ہے۔ ر تار پر اس ک یں، جیس اس ک یں لپٹی ےکی بان ہ ے ے ہ ہ

یں، جیس اس ک تان بان میں ےشفاف بوس مرقوم ے ے ے ہ ے ےاس ک خاوند کی گرم گرم سانسوں کی حدت آمیز

ہغنودگی اس ک سیا بالوں والی چھاتی کا سارا پیار ے ہے۔ ری قبر ، ایک گ یں ہےدفن جیس اب ی ساڑھی ن ہ ہے ہ ہ ے ہے۔

ر وقت اپن جسم ک گرد نائیوں کو و ولناک پ ےجس کی ے ہ ہ ہ ہ ی ہلپیٹ لین پر مجبور منجوال زند قبر میں گاڑی جا ر ہ ہے۔ ے

ہے۔

ونا یں اں ن ہچھٹی ساڑھی کا رنگ الل لیکن اس ی ہ ہ ے ہے نن والی مر چکی پھر بھی ی ئ کیونک اس کی پ ہچا ہے ے ہ ہ ے ہ

اں جنگل پر بدستور موجود روز کی طرح ہے۔ساڑھی ی ے ہ ی ی مائی کی ساڑھی وا میں جھول ر ہےدھلی دھالئی ہ ہے۔ ہ ہ

ماری چال ک درواز ک قریب اندر کھل آنگن میں ےجو ے ے ے ہ ا کرتی تھی مائی کا ایک بیٹا سیتو و اب جیل میں ہر ۔ ہے ۔ ہ

یں نیچ آنگن میں اں سیتو کی بیوی اور اس کا لڑکا ی ے ہ ہ ہے۔یں سیتو اور سیتو کی ت ۔درواز ک قریب نیچ پڑ ر ہ ے ہ ے ے ے ے ماری ہبیوی، ان کی لڑکی اور بڑھیا مائی، ی سب لوگ ہ

یں اور ان یں ان ک لئ کھولی بھی ن ہےچال ک بھنگی ہ ے ے ۔ ہ ے م لوگوں کو ملتا یں ملتا جتنا ہےک لئ اتنا کپڑا بھی ن ہ ہ ے ے

یں یں کھانا کھات یں و ت ہاس لئ ی لوگ آنگن میں ر ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ے یں پ ی بڑھیا ماری یں ی ت یں زمین پر پڑ ک سو ر ہو ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ

Page 301: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہےگئی تھی، و بڑا سوراخ جو آپ اس ساڑھی میں دیکھ ر ہ ، ی کارتوس کی ہیں پلو ک قریب ی گولی کا سوراخ ہے ہ ۔ ے ہڑتال ک دنوں میں لگی تھی ۔گولی مائی کو بھنگیوں کی ے ہ ی تھی و ب چاری یں ل ر ڑتال میں حص ن یں و اس ےن ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ڑتال ت بوڑھی تھی، چل پھر بھی ن سکتی تھی اس ہتو ب ۔ ہ ہ ، ی ہمیں تو اس کا بیٹا سیتو اور دوسر بھنگی شامل تھ ے ے

نگائی مانگت تھ اور کھولی کا کرای مانگت تھ ےلوگ م ے ہ ے ے ہ ےیعنی اپنی زندگی ک لئ دو وقت کی روٹی، کپڑا اور سر ے ڑتال کی ت تھ اس لئ ان لوگوں ن ہپر ایک چھت چا ے ے ے۔ ے ہ ڑتال خالفl قانون قرار د دی گئی تو ان ےتھی اور جب ہ ےلوگوں ن جلوس نکال اور اس جلوس میں مائی کا بیٹا ےسیتو آگ آگ تھا اور خوب زور و شور س نعر لگاتا ے ے ے ےتھا پھر جب جلوس بھی خالفl قانون قرار د دیا گیا تو ۔

ماری چال ک سامن چلی ۔گولی چلی اور ے ے ہ

ٹ میں ہم لوگوں ن اپن درواز بند کر لئ لیکن گھبرا ے ے ے ے ہمیں بند ا اور پھر ہچال کا درواز بند کرنا کسی کو یاد ن ر ہ ہ ہ �دھر ، ا lدھر س وا گویا گولی ا ےکمروں میں ایسا معلوم ہ و تھوڑی دیر ک بعد ی ےس چاروں طرف س چل ر ۔ ہ ہ ے ے

م لوگوں ن ڈرت ڈرت درواز و گیا اور جب ہبالکل سناٹا ے ے ے ہ ہ و چکا تھا ر جھانک ک دیکھا تو جلوس تتر بتر ہکھوال اور با ے ہ

ماری چال ک قریب بڑھیا مری پڑی تھی ی اسی ہاور ۔ ے ہ ہے۔بڑھیاکی الل ساڑھی جس کا بیٹا سیتو اب جیل میں ہے

نتی اس ساڑھی و پ ہے۔اس الل ساڑھی کو اب بڑھیا کی ب ہ ہ ئ تھا مگر کیا کیاجائ تن ےکو بڑھیا ک ساتھ جال دینا چا ے ہ ے

ےڈھکنا زیاد ضروری م�ردوں کی عزت و احترام س ہے۔ ہ یں زیاد ضروری ک زندوں کا تن ڈھکا جائ ی ہبھی ک ے۔ ہ ہے ہ ہ یں تن ڈھک ک لئ ہے۔ساڑھی جلن جالن ک لئ ن ے ے ے ہے۔ ہ ے ے ے ے

ےاں کبھی کبھی سیتو کی بیوی اس ک پلو س اپن آنسو ے ے ہےپونچھ لیتی کیونک اس میں پچھل اسی برسوں ک ے ہ ہے ےسار آنسو اور ساری امنگیں اور ساری فتحیں اور

یں آنسو پونچھ کر سیتو کی بیوی پھر ۔شکستیں جذب ہ یں ی ن وا مت س کام کرن لگتی جیس کچھ ۔اسی ہ ہ ہ ے ہے ے ے ہ

یں گیا بھنگن کی یں چلی، کوئی جیل ن یں گولی ن ۔ک ہ ہ ہ ی ہے۔جھاڑو اسی طرح چل ر ہ

Page 302: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےا لو باتوں باتوں میں وزیر اعظم صاحب کی گاڑی نکل اں ضروری ری میں سمجھتا تھا و ی یں ٹھ اں ن ہگئی و ی ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ۔ ر گی وزیر اعظم صاحب درشن دین ک لئ گاڑی ےٹھ ے ے ۔ ے ہ

لیں گ اور ےس نکل کر تھوڑی دیر ک لئ پلیٹ فارم پر ٹ ہ ے ے ے وئی ان چھ ساڑھیوں کو بھی دیکھ وا میں جھولتی ہشائد ہ ی الکشمی ک پل ک بائیں طرف لٹک ر ہلیں گ جو م ے ے ہ ے

ت معمولی عورتوں کی ہیں ی چھ ساڑھیاں جو ب ہ ۔ ہمار یں ایسی معمولی عورتیں جن س ےساڑھیاں ہ ے ۔ ہ

اں ایک کون میں یں ج ےدیس ک چھوٹ چھوٹ گھر بنت ہ ۔ ہ ے ے ے ے ، ایک کون میں پانی کا گھڑا رکھا اوپری ا سلگتا ہے۔چول ے ہے ہ ، کھاٹ ، سندور کی ڈبیا ، کنگھی ہےطاقچ میں شیش ہے ہے ہ ے

یں ی ان ا الگنی پر کپڑ سوکھ ر ہپر ننھا سو ر ۔ ہ ہے ے ہے۔ ہ ےچھوٹ چھوٹ الکھوں کروڑوں، گھروں کو بنان والی ے ے

یں ی ت ندوستان ک م یں یں جن ہعورتوں کی ساڑھیاں ۔ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ مار یں، مار پیار پیار بچوں کی مائیں ےعورتیں جو ہ ہ ے ے ے ہ

ماری معصوم محبتوں یں، نیں ہبھول بھائیوں کی عزیز ب ہ ہ ے ذیب کا سب س اونچا زار سال ت ماری پانچ یں، ےکا گیت ہ ہ ہ ہ ہ وئی وا میں جھولتی یں وزیر اعظم صاحب! ی ہنشان ہ ہ ۔ ہ یں یں تم کچھ مانگتی تی نا چا ۔ساڑھیاں تم س کچھ ک ہ ۔ ہ ہ ہ ے یں ی یں مانگتی ت بڑی قیمتی چیز تم س ن ہی کوئی ب ۔ ہ ہ ے ہ ہ د اور بڑی موٹر کار، کوئی پرمٹ، ہکوئی بڑا ملک، بڑا ع ہ ، کوئی پراپرٹی، ی ایسی کسی چیز کی طالب ہکوئی ٹھیک ہ

ت چھوٹی چھوٹی چیزیں یں ی تو زندگی کی ب یں ہن ہ ۔ ہ ہ یں ۔مانگتی ہ

! ی شانتا بائی کی ساڑھی جو اپن بچپن کی ےدیکھئ ہے ہ ے وئی دھنک تم س مانگتی ی جیونا بائی کی ہکھوئی ہے۔ ے ہ ہےساڑھی جو اپنی آنکھ کی روشنی اور اپنی بیٹی کی

ےعزت مانگتی ی ساوتری کی ساڑھی جس ک گیت ہے ہ ہے۔ یں اور جس ک پاس اپن بچوں ک لئ اسکول ےمر چک ے ے ے ہ ے

یں ی لڑیا جس کا خاوند ب کار اور ہےکی فیس ن ے ہے ہ ہے۔ ہ ہجس ک کمر میں ایک طوطا جو دو دن کا بھوکا ی ہے۔ ہے ے ے ن کی ساڑھی جس ک خاوند کی زندگی چمڑ ےنئی دل ے ہے ہ ہک پٹ س بھی کم قیمتی ی بڈھی بھنگن کی الل ہے۔ ے ے ے

ل ک پھال میں تبدیل ےساڑھی جو بندوق کی گولی کو ہ ہے و پھول بن کر تی تاک دھرتی س انسان کا ل ہکر دینا چا ے ہ ہے ہ

ران نس کر ل ر خوش ےکھل اٹھ اور گندم ک سن ہ ہ ے ے ہ ے ے

Page 303: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں رکی اور و ہلگ لیکن وزیر اعظم صاحب کی گاڑی ن ہ ے۔ یں دیکھ سکت اور تقریر کرن ک ےان چھ ساڑھیوں کو ن ے ے ہ

وں تا ، اس لئ اب میں آپ س ک ۔لئ چوپاٹی چل گئ ہ ہ ے ے ے ے ے ےاگر کبھی آپ کی گاڑی ادھر س گزر تو آپ ان چھ ے ا لکشمی ک پل ک ےساڑھیوں کو ضرور دیکھئ جو م ے ہ ے

یں اور پھر ان رنگا رنگ ریشمی ی ہبائیں طرف لٹک ر ہ یں دھوبیو ں ن اسی پل ک ےساڑھیوں کو بھی دیکھئ جن ے ہ ے ہےدائیں طرف سوکھن ک لئ لٹکا رکھا اور جو ان ے ے ے اں اونچی اونچی چمنیوں وال یں ج ےگھروں س آئی ہ ہ ے

ت ےکارخانوں ک مالک یا اونچی اونچی تنخوا پان وال ر ہ ے ے ہ ے ےیں آپ اس پل ک دائیں بائیں دونوں طرف ضرور ۔ ہ

ہدیکھئ اور پھر اپن آپ س پوچھئ ک آپ کس طرف ے ے ے ے ! میں آپ س اشتراکی بنن ک یں دیکھئ ت ےجانا چا ے ے ے ۔ ہ ے ہ

وں میں آپ کو جماعتی جنگ کی تلقین ا یں ک ر ۔لئ ن ہ ہ ہہ ہ ے وں ک آپ تا وں میں صرف ی جاننا چا ا یں کر ر ہبھی ن ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

یں یا بائیں طرف؟ ا لکشمی پل ک دائیں طرف ہم ے ہ

اوور کوٹ

�اس) (غالم عب

جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوسنچا اور چیرنگ کراس کا رخ ہروڈ س گزر کر مال روڈ پر پ ے ہکر ک خراماں خراماں پٹری پر چلن لگا ی نوجوان اپنی ۔ ے ے وتا تھا لمبی ۔تراش خراش س خاصا فیشن ایبل معلوم ہ ے وئ بال، باریک باریک مونچھیں گویا ےلمبی قلمیں، چمکت ہ ے

وں بادامی رنگ کا ۔سرم کی سالئی س بنائی گئی ہ ے ے وئ جس ک کاج میں شربتی رنگ ن ےگرم اوور کوٹ پ ے ہ ے ہ وا، سر پر سبز فلیٹ ہک گالب کا ایک ادھ کھال پھول اٹکا ے وئی، سفید سلک ہیٹ ایک خاص انداز س ٹیڑھی رکھی ے ہاتھ کوٹ کی جیب وا، ایک ہکا گلوبند گل ک گرد لپٹا ہ ے ے وئ ےمیں، دوسر میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑ ہ ے ے

۔جس کبھی کبھی مز میں آ ک گھمان لگتا تھا ے ے ے ے

فت کی شام تھی بھر پور جاڑ کا زمان سرد اور تند ہ۔ی ے ۔ ے ہ ہ ےوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ ک لگتی تھی مگر ہوتا تھا اور یں ۔اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم ن ہ ہ

Page 304: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےلوگ خود کو گرم کرن ک لئ تیز قدم اٹھا ر تھ مگر ہے ے ے ے ےاس اس کی ضرورت ن تھی جیس اس کڑکڑات جاڑ ے ے ہ ے

و ا لن میں بڑا مزا آ ر ۔میں اس ٹ ہ ہ ے ہ ے

ےاس کی چال ڈھال س ایسا بانکپن ٹپکتا تھا ک تانگ وال ے ہ ے وئ اس کی ی س دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑات ےدور ہ ے ے ہ یں کر دیتا ۔طرف لپکت مگر و چھڑی ک اشار س ن ہ ے ے ے ہ ے ےایک خالی ٹیکسی بھی اس دیکھ کر رکی مگر اس ن ے

۔"نو تھینک یو" ک کر اس بھی ٹال دیا ے ہہ

ےجیس جیس و مال ک زیاد با رونق حص کی طرف ہ ے ہ ے ے نچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی و من ہپ ہ ۔ ہ ۔س سیٹی بجا ک رقص کی ایک انگریزی دھن نکالن لگا ے ے ے

وئ اٹھن ی اس ک پاؤں بھی تھرکت ےاس ک ساتھ ے ہ ے ے ہ ے یں تھا تو یکبارگی ہلگ ایک دفع جب آس پاس کوئی ن ہ ے۔ ےکچھ ایسا جوش آیا ک اس ن دوڑ کر جھوٹ موٹ بال ہ

و ا و ر ۔دین کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہ ہ ہ ے

ہراست میں و سڑک آئی جو الرنس گارڈن کی طرف ے ےجاتی تھی مگر اس وقت شام ک دھندلک اور سخت ے

ی تھی ک ر میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس ر ہک ہ ے ہ ہاس ن ادھر کا رخ ن کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی ے

ا ۔طرف چلتا ر ہ

نچ کر اس کی حرکات و سکنات ہملک ک بت ک قریب پ ے ے ہ ےمیں کسی قدر متانت آ گئی اس ن اپنا رومال نکاال ۔

ےجس جیب میں رکھن کی بجائ اس ن کوٹ کی بائیں ے ے ے ر پر پھیرا، لک چ لک ےآستین میں اڑس رکھا تھا اور ہ ے ہ ے ہ

و تو اتر جائ پاس گھاس ک ایک ےتاک کچھ گرد جم گئی ے۔ ہ ہ ہےٹکڑ پر کچھ انگریز بچ بڑی سی گیند س کھیل ر ے ے ے

ےتھ و رک گیا اور بڑی دلچسپی س ان کا کھیل دیکھن ے ہ ے۔ ےلگا بچ کچھ دیر تک تو اس کی پروا کئ بغیر کھیل میں ہ ے ۔

ی چال گیا تو و رفت ہمصروف ر مگر جب و برابر تک ہ ہ ے ہ ہے ےرفت شرمان س لگ اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ے ے ہ وئ گھاس ک وئ ایک دوسر ک پیچھ بھاگت ےنست ے ہ ے ے ے ے ے ہ ے ہ

ی س چل گئ ے۔اس ٹکڑ ے ے ہ ے

ہنوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور و ےاس پر آ ک بیٹھ گیا اس وقت شام ک اندھیر ک ساتھ ے ے ۔ ے

Page 305: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی تھی اس کی ی ہساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا ر ۔ ہ ہشدت نا خوشگوار ن تھی بلک لذت پرستی کی ترغیب ہ ی کیا و نا ر ک عیش پسند طبق کا تو ک ہدیتی تھی ش ہ ہ ے ے ہ ۔

ائی میں بسر ی کھل کھیلتا تن ہتو اس سردی میں زیاد ہے۔ ہ ہ یں اور و ہکرن وال بھی اس سردی س ورغالئ جات ہ ے ے ے ے ے

ےاپن اپن کونوں کھدروں س نکل کر محفلوں اور ے ے یں تاک جسموں کا ہمجمعوں میں جان کی سوچن لگت ہ ے ے ے ی جستجو لوگوں کو و حصولl لذت کی ی ہقرب حاصل ۔ ہ ہمال پر کھینچ الئی تھی اور و حسبl توفیق ریستورانوں،

وں، سینماؤں اور تفریح ک اؤسوں، رقص گا ےکافی ہ ہ و ر تھ ے۔دوسر مقاموں پر محظوظ ہے ہ ے

مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھای پٹری پر چلن والوں کی بھی کثرت تھی ۔وا تو تھا ے ہ ہ

ہعالو ازیں سڑک کی دو روی دکانوں میں خرید و فروخت ہ ہکا بازار بھی گرم تھا جن کم نصیبوں کو ن تفریحl طبع کی ۔

ی س ےاستطاعت تھی ن خرید و فروخت کی، و دور ہ ہ ہ وں اور دکانوں کی رنگا رنگ ہکھڑ کھڑ ان تفریح گا ے ے

ال ر تھ ے۔روشنیوں س جی ب ہے ہ ے

ےنوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپن سامن س گزرت ے ے ے ا تھا اس کی نظر ان ۔وئ زن و مرد کو غور س دیکھ ر ہ ے ے ہیں زیاد ان ک لباس پر پڑتی تھی ان روں س ک ۔ک چ ے ہ ہ ے ہ ے ر قماش ک لوگ تھ بڑ بڑ تاجر، ر وضع اور ےمیں ے ے۔ ے ہ ہ

ےسرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں ک طلبا اور طالبات، زیاد تر ، دفتروں ک بابو ہنرسیں، اخباروں ک نمائند ۔ ے ے ے ر قسم ک اوور کوٹ، وئ تھ ن ےلوگ اوور کوٹ پ ہ ے۔ ے ہ ے ہ ےقراقلی ک بیش قیمت اوور کوٹ س ل کر خالی پٹی ے ے ےک پران فوجی اوور کوٹ تک جس نیالم میں خریدا گیا ے ے

۔تھا

نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کار درزی کا وا بھی کسی ما ہکپڑا خوب بڑھیا تھا پھر و سال ہ ہ

ت وتا تھا ک اس کی ب ہتھا اس کو دیکھن س معلوم ہ ہ ے ے ۔ وں کی وا تھا با ہدیکھ بھال کی جاتی کالر خوب جما ۔ ہ ہے۔ یں بٹن سینگ ک یں نام کو ن ےکریز بڑی نمایاں، سلو ٹ ک ۔ ہ ہ

ت مگن معلوم وئ نوجوان اس میں ب ہبڑ بڑ چمکت ے۔ ہ ے ے ے ۔وتا تھا ہ

Page 306: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچ گل میں ڈال ے ہ ۔سامن س گزرا نوجوان ن آواز دی ے ۔ ے ے

" ۔پان واال! "

"!جناب"

؟" ہےدس کا چینج "

یں ال دوں گا کیا لیں گ آپ؟" ے تو ن ۔ ۔ ہ "ہے

ےنوٹ ل ک بھاگ گیا تو؟" ے "

" وں جو بھاگ جاؤں گا اعتبار ن ہاجی وا کوئی چور اچکا ۔ ہ ہ۔ ےو تو میر ساتھ چلئ لیں گ کیا آپ؟ ے۔ ے "ہ

م خود چینج الئ گا لو ی اکنی نکل آئی ایک" یں، یں ن ۔ن ہ ۔ ے ہ ہ ہ ۔سگریٹ د دو اور چل جاؤ ے ے "

ےلڑک ک جان ک بعد مز مز س سگریٹ ک کش ے ے ے ے ے ے ے ت خوش نظر آتا تھا سگریٹ ی ب ۔لگان لگا و ویس ہ ہ ے ہ ۔ ے ۔ک دھوئیں ن اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی ے ے

وئی ہایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ےبنچ ک نیچ اس ک قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرن ے ے ے ےلگی اس ن پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی اس ن ۔ ے ۔

ا اتھ پھیرا اور ک ۔پیار س اس کی پیٹھ پر ہ ہ ے

"پور لٹل سو ل"

وا اور سڑک کو پار کر ہاس ک بعد و بنچ س اٹھ کھڑا ے ہ ے ےک اس طرف چال جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں و چکا تھا برآمد میں ی تھیں تماشا شروع ےجھلمال ر ۔ ہ ۔ ہ

ےبھیڑ ن تھی صرف چند لوگ تھ جو آن والی فلموں کی ے ۔ ہ ےتصویروں کا جائز ل ر تھ ی تصویریں چھوٹ بڑ ے ہ ے۔ ہے ے ہ

انی ک چید چید ہکئی بورڈوں پر چسپاں تھیں ان میں ک ہ ے ہ ۔ ے۔مناظر دکھائ گئ تھ ے ے

تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق وی تھیں ایک خاص شانl استغنا ک ےشوق س دیکھ ر ۔ ہ ے

Page 307: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےساتھ مگر صنفl نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھت ےوئ و بھی ان ک ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصل س ے ے ہ ے ہ

نسی مذاق ا لڑکیاں آپس میں ہان تصویروں کو دیکھتا ر ۔ ہ ۔کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائ زنی بھی ے ، جو اپنی ساتھ والیوں س زیاد ہاتن میں ایک لڑکی ن ے ے ے ےحسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی ک کان

ق لگایا اور پھر ا جس سن کر اس ن ایک ق ہہمیں کچھ ک ہ ے ے ہ ر نکل گئیں نوجوان ن اس کا وئی با نستی ےو تینوں ۔ ہ ہ ہ ہ ہکچھ اثر قبول ن کیا اور تھوڑی دیر ک بعد و خود بھی ے ہ

ر نکل آیا ۔سینما کی عمارت س با ہ ے

ل ےاب سات بج چک تھ اور و مال کی پٹری پر پھر پ ہ ہ ے ے ا تھا ایک ریستوران وا چال جا ر ۔کی طرح مٹر گشت کرتا ہ ہ ر لوگوں کا یں زیاد با ا تھا اندر س ک ہمیں آرکسٹرا بج ر ہ ہ ے ۔ ہ ےجوم تھا ان میں زیاد تر موٹروں ک ڈرائیور، کوچوان، ہ ۔ ہ

، جو اپنا مال بیچ ک خالی ٹوکر لئ ےپھل بیچن وال ے ے ے ے ر گئ تھ کچھ ے۔کھڑ تھ کچھ را گیر جو چلت چلت ٹھ ے ہ ے ے ہ ے۔ ے

ےمزدوری پیش لوگ تھ اور کچھ گداگر ی اندر والوں س ہ ۔ ے ہ وت تھ کیونک و غل یں زیاد گان ک رسیا معلوم ہک ہ ے ے ہ ے ے ہ ہ

یں مچا ر تھ بلک خاموشی س نغم سن ر ہےغپاڑ ن ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ےتھ حاالنک دھن اور ساز اجنبی تھ نوجوان پل بھر ک ے۔ ہ ے۔

۔لئ رکا اور پھر آگ بڑھ گیا ے ے

ےتھوڑی دور چل ک اس انگریزی موسیقی کی ایک بڑی ے ر طرف ہسی دکان نظر آئی اور و بال تکلف اندر چال گیا ۔ ہ ےشیش کی الماریوں میں طرح طرح ک انگریزی ساز ے

وئ تھ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ے۔رکھ ے ہ ے ے۔ورقی کتابیں چنی تھیں ی نئ چلنتر گان تھ سرورق ے ے ہ ۔ وئی ہخوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا ایک چھچھلتی ۔ ٹ آیا اور سازوں کی اں س ہنظر ان پر ڈالی پھر و ے ہ

سپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی و گیا ایک ہطرف متوج ۔ ہ ہ وئی تھی، ناقدان نظر ڈالی اور اس ک ساتھ ےس ٹنگی ہ ہ ے ٹ ا تھا اس پڑھا اس س ذرا ہقیمت کا جو ٹکٹ لٹک ر ے ۔ ے ہ

وا تھا اس کا کور اٹھا ک ےکر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ۔ ہ ۔انگلیوں س بعض پردوں کو ٹٹوال اور پھر کور بند کر دیا ے

ہپیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارند اس کی طرف ۔بڑھا

Page 308: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔گڈ ایوننگ سر کوئی خدمت؟" "

ین کی گراموفون ریکارڈوں کی" اں اس م یں شکری ےن ہ ہ ہ۔ ہ رست د دیجئ ے۔ف ے ہ "

رست ل ل ک اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی دکان ۔ف ے ے ے ہ ر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا راست میں ےس با ۔ ہ ے اں بھی رکا کئی ۔ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا نوجوان ی ہ ۔ اں س اٹھاتا بڑی ےتاز رسالوں ک ورق الٹ رسال ج ہ ہ ے۔ ے ہ �ور آگ بڑھا تو قالینوں کی یں رکھ دیتا ا ےاحتیاط س و ۔ ہ ے

ےایک دکان ن اس کی توج کو جذب کیا مالک دکان ن جو ۔ ہ ے ن اور سر پر کال رکھ تھا گرمجوشی ۔ایک لمبا سا چغ پ ے ہ ے ہ ہ

۔س اس کی آؤ بھگت کی ے

یں" یں ی وں اتاریئ ن تا ہذرا ی ایرانی قالین دیکھنا چا ہ ے ۔ ہ ہ ہ ہےدیکھ لوں گا کیا قیمت اس کی؟ ۔

" ہے۔چود سو تیس روپ ے ہ "

ےنوجوان ن اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا و اتنی ۔"او ہ "

م جتنی بھی رعایت ا "آپ پسند کر لیجئ ہدکاندار ن ک ے۔ ہ ے یں کر دیں گ ے۔کر سکت ہ ے "

ےشکری لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھن آیا" ہ ۔وں "ہ

" ی کی دکان ہے۔شوق س دیکھئ آپ ہ ے۔ ے "

ےو تین منٹ ک بعد اس دکان س بھی نکل آیا اس ک ۔ ے ے ہ ےاوور کوٹ ک کاج میں شربتی رنگ ک گالب کا جو ادھ ے

ر وا تھا و اس وقت کاج س کچھ زیاد با ہکھال پھول اٹکا ہ ے ہ ۔ ہ ا تھا تو اس ک ےنکل آیا تھا جب و اس کو ٹھیک کر ر ہ ہ ۔

وئی ٹ نمودار ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکرا ہ ہ۔اور اس ن پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی ے

ا ائی کورٹ کی عمارتوں ک سامن س گزر ر ہاب و ے ے ے ہ ہ ےتھا اتنا کچھ چل لین ک بعد اس کی فطری چونچالی ے ۔ وئی تھی ن یں آیا ن تکان محسوس ہمیں کچھ فرق ن ہ ہ ۔ ہ

اں پٹری پر چلن والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ ٹ ی ےاکتا ہ ۔ ہ

Page 309: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن لگا تھا ۔سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل ر ے ہ ےاس ن اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمان کی ے وئی اور چھڑی زمین پر گر ہکوشش کی مگر کامیابی ن ہ ہہپڑی "او سوری" ک کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا ہ

۔لیا

ےاس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس ک پیچھ پیچھ ے ے ا تھا اس ک پاس س گزر کر آگ نکل آیا لڑکا ۔چال آ ر ے ے ے ہ ےدراز قامت تھا اور سیا کوڈرائ کی پتلون اور زپ والی ہ ن تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر ےچمڑ کی جیکٹ پ ہ ے ہدار شلوار اور سبز رنگ کا کا کوٹ و بھاری بھرکم سی ۔ وا تھا اس ک بالوں میں ایک لمبا سا سیا چٹا گندھا ہتھی ہ ے ۔

ےجو اس کمر س نیچا تھا لڑکی ک چلن س اس چٹل ے ے ے ۔ ے ےکا پھندنا اچھلتا کودتا پ درپ اس ک فرب جسم س ہ ے ے ے

ےٹکراتا تھا نوجوان ک لئ جو اب ان ک پیچھ پیچھ آ ے ے ے ے ۔ ا تھا ی نظار خاصا جاذب نظر تھا و جوڑا کچھ دیر تک ہر ۔ ہ ہ ہ ا جس ا اس ک بعد لڑک ن کچھ ک ہتو خاموش چلتا ر ے ے ے ۔ ہ

۔ک جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی ے

یں رگز ن یں رگز ن یں ۔رگز ن ہ ہ ۔ ہ ہ ۔ ہ ہ

ا" نا مانو" لڑک ن نصیحت ک انداز میں ک ہسنو میرا ک ے ے ے ہ و گی ۔"ڈاکٹر میرا دوست کسی کو کانوں کان خبر ن ہ ہ ہے۔ "

" یں یں، ن یں، ن ۔ن ہ ہ ہ "

" و گی یں ذرا تکلیف ن وں تم تا ۔میں ک ہ ہ ہ ہ ہ "

" ۔لڑکی ن کچھ جواب ن دیا ہ ے "

و گا ذرا ان کی عزت کا بھی تو" ار باپ کو کتنا رنج ۔تم ہ ے ہ ۔خیال کرو "

" و جاؤں گی و ورن میں پاگل ۔چپ ر ہ ہ ہ "

ےنوجوان ن شام س اب تک اپنی مٹر گشت ک دوران ے ے ےمیں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں س کسی یں کیا تھا ۔ن بھی اس کی توج کو اپنی طرف منعطف ن ہ ہ ے یں یا پھر و ی ن ہفی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ۔ ہ ہ

Page 310: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےاپن حال میں ایسا مست تھا ک کسی دوسر س اس ے ے ہ ے ی ن تھا مگر اس دلچسپ جوڑ ن جس میں ےسروکار ے ہ ہ

ےکسی افسان ک کرداروں کی سی ادا تھی، جیس ے ے ہیکبارگی اس ک دل کو مو لیا تھا اور اس حد درج ے ہ ے

و سک ےمشتاق بنا دیا ک و ان کی اور بھی باتیں سن اور ہ ے ہ ہ ے۔تو قریب س ان کی شکلیں بھی دیکھ ل ے

نچ ہاس وقت و تینوں بڑ ڈاکخان ک چورا ک پاس پ ے ہے ے ے ے ہ ےگئ تھ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رک اور پھر سڑک پار ے۔ ے ی ہکر ک میکلو ڈ روڈ پر چل پڑ نوجوان مال روڈ پر ے۔ ے ا شاید و سمجھتا تھا ک فی الفور ان ک پیچھ را ر ےٹھ ے ہ ہ ۔ ہ ہ

و جائ ک ان کا تعاقب کیا جا یں شب ہگیا تو ممکن ان ے ہ ہ ہ ہے ئ ا اس لئ اس کچھ لمح رک جانا چا ے۔ر ہ ے ے ے ہے۔ ہ

ےجب و لوگ کوئی سو گز آگ نکل گئ تو اس ن لپک کر ے ے ہ ی سڑک پار ا مگر ابھی اس ن آدھی ہان کا پیچھا کرنا چا ے ہ

وئی ایک الری پیچھ س و گی ک اینٹوں س بھری ےکی ے ہ ے ہ ہ وئی میکلوڈ روڈ ہبگول کی طرح آئی اور اس روندتی ے ے

ےکی طرف نکل گئی الری ک ڈرائیور ن نوجوان کی چیخ ے ۔ ہسن کر پل بھر ک لئ گاڑی کی رفتار کم کی پھر و ۔ ے ے

ےسمجھ گیا ک کوئی الری کی لپیٹ میں آگیا اور و رات ک ہ ہ وئ الری کو ل بھاگا دو تین ۔اندھیر س فائد اٹھات ے ے ہ ے ہ ے ے

ہرا گیر جو اس حادث کو دیکھ ر تھ شور مچان لگ ک ے ے ے ہے ے ہ و چکی تھی وا ۔نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر الری ہ ہ

و گئ ٹریفک کا ایک ے۔اتن میں کئی اور لوگ جمع ہ ے ا تھا رک گیا نوجوان ۔انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا ر ہ ت سا خون ہکی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں ب ۔

ا تھا ۔نکل چکا تھا اور و سسک ر ہ ہ

~ ایک کار کو روکا گیا اور اس جیس تیس اس میں ےفورا ے ے سپتال سپتال روان کر دیا گیا جس وقت و ہڈال کر بڑ ہ ۔ ہ ہ ے

نچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی اس ۔پ ہ ۂسپتال ک شعب حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان ے ہناز اور مس گlل ڈیوٹی پر ہاور دو نو عمر نرسیں مس ش ےتھیں جس وقت اس سٹریچر پر ڈال ک آپریشن روم ے ۔

ا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی ۔میں ل جایا جا ر ہ ے ےاس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس ک جسم

Page 311: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا تھا اس ۔پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گل میں لپٹا ہ ے ے۔ک کپڑوں پر جا بجا خون ک بڑ بڑ دھب تھ کسی ے ے ے ے ے یٹ اٹھا ک اس ےن از را دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہ ہہ ے

ے۔ک سین پر رکھ دی تھی تاک کوئی اڑا ن ل جائ ے ہ ہ ہ ے

ا ناز ن گل س ک ہش ے ے ہ :

" وتا ب چار ہ۔کسی بھل گھر کا معلوم ے ہے ہ ے "

۔گل دبی آواز میں بولی

" فت کی شام منان ے۔خوب بن ٹھن ک نکال تھا ب چار ے ہ ہ ے ے "

یں؟" ہڈرائیور پکڑا گیا یا ن "

" یں بھاگ گیا ۔ن ہ "

" ہے۔کتن افسوس کی بات ے "

روں ہآپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چ وں ن ان کی آنکھوں س ےپر جراحی ک نقاب چڑھائ جن ے ہ ے ے ےنیچ ک سار حص کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ ے ے ے

ےبھال میں مصروف تھ اس سنگ مر مر کی میز پر لٹا ے۔ ےدیا گیا اس ن سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا ۔ ک ابھی تک باقی تھی پٹیاں ابھی تک ۔تھا،اس کی کچھ م ہ وئی تھیں حادث س اس کی دونوں ٹانگیں تو ےجمی ے ۔ ہ یں بگڑن پائی تھی ۔ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ ن ے ہ

ل سفید ےاب اس ک کپڑ اتار جا ر تھ سب س پ ہ ے ے۔ ہے ے ے ے ناز ہسلک گلوبند اس ک گل س اتارا گیا اچانک نرس ش ۔ ے ے ے ۔اور نرس گlل ن بیک وقت ایک دوسر کی طرف دیکھا ے ے ر جو دلی ےاس س زیاد و کر بھی کیا سکتی تھیں چ ہ ۔ ہ ہ ے وئ یں، جراحی ک نقاب تل چھپ وت ےکیفیات کا آئین ہ ے ے ے ہ ے ہ ہ

۔تھ اور زبانیں بند ے

ےنوجوان ک گلوبند ک نیچ نکٹائی اور کالر کیا سر س ے ے ے ے اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچ س ایک یں تھی ی ن ےقمیص ے ۔۔۔ ہ ہ ےبوسید اونی سویٹر نکال جس میں جا بجا بڑ بڑ سوراخ ے ہ ہتھ ان سوراخوں س سوئٹر س بھی زیاد بوسید اور ہ ے ے ے۔

ا تھا نوجوان سلک ک گلوبند ےمیال کچیال ایک بنیان نظر آ ر ۔ ہ ہکو کچھ اس ڈھب س گل پر لپیٹ رکھتا تھا ک اس کا ے ے ے

Page 312: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں تا تھا اس ک جسم پر میل کی ت ہسارا سین چھپا ر ے ۔ ہ ہ وتا تھا ک و کم س ر وئی تھیں ظا ےبھی خوب چڑھی ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

ایا البت گردن خوب صاف یں ن ین س ن ہکم پچھل دو م ہ ہ ے ے ہ ے وا تھا سوئٹر اور بنیان لکا پوڈر لگا لکا ۔تھی اور اس پر ہ ہ ہ ناز اور گlل کی نظریں ہک بعد پتلون کی باری آئی اور ش ے ےپھر بیک وقت اٹھیں پتلون کو پیٹی ک بجائ ایک پرانی ے ۔ و گی خوب کس ی ہدھجی س جو شاید کبھی نکٹائی ر ہ ے

ے۔ک باندھا گیا تھا بٹن اور بکسو غائب تھ دونوں ے ۔ ے ہگھٹنوں پر س کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگ کھونچیں ے

ت ےلگی تھیں مگر چونک ی حص اوور کوٹ ک نیچ ر ہ ے ے ے ہ ہ یں پڑتی تھی اب ۔تھ اس لئ لوگوں کی ان پر نظر ن ہ ے ے ہبوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتب پھر مس

وئیں ناز اور مس گlل کی آنکھیں چار ۔ش ہ ہ

ون ک باوجود خوب چمک ر تھ مگر ےبوٹ تو پران ہے ے ے ہ ے ےایک پاؤں کی جراب دوسر پاؤں کی جراب س بالکل ے

وئی بھی تھیں، اس ہمختلف تھی پھر دونوں جرابیں پھٹی ۔ ےقدر ک ان میں س نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ ہ ی تھیں بال شب اس وقت تک و دم توڑ چکا تھا اس کا ۔ر ہ ہ ۔ ہ ر ہجسم سنگ مر مر کی میز پر ب جان پڑا تھا اس کا چ ہ ۔ ے ل چھت کی سمت تھا کپڑ اتارن میں دیوار کی ےجو پ ے ۔ ے ہ وتا تھا ک جسم اور اس ک ساتھ ےطرف مڑ گیا معلوم ہ ہ ۔ م نگی ن اس خجل کر دیا اور و اپن ہروح کی بر ے ہ ہے ے ے ہ

ا ہے۔جنسوں س آنکھیں چرا ر ہ ے

ےاس ک اوور کوٹ کی مختلف جیبوں س جو چیزیں ے وئیں و ی تھیں ہبرآمد ہ ہ :

، ےایک چھوٹی سی سیا کنگھی، ایک رومال، ساڑھ چھ آن ے ہ وا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں ہایک بجھا نئ گراموفون ریکارڈوں کی ایک ےنام اور پت لکھ تھ ے۔ ے ے ار جو مٹر گشت ک دوران رست اور کچھ اشت ان ف ےما ہ ہ ہ ہ

اتھ میں تھما دئ تھ اور ار بانٹن والوں ن اس ک ےاشت ے ہ ے ے ے ہ یں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا ۔اس ن ان ہ ے

ےافسوس ک اس کی بید کی چھڑی جو حادث ک دوران ے ہ رست میں شامل ن تھی یں کھو گئی تھی اس ف ۔میں ک ہ ہ ہ

Page 313: اردو ادب کے مشہور افسانے

پسماندگان

(انتظار حسین)

ہاشم خان اٹھایئس برس کا کڑیل جوان، لمبا تڑنگا، سرخو گیا کمبخت ۔و سفید جسم آن کی آن میں چٹ پٹ ہ

لکی حرارت تھی، اندی آیا صبح کو ہمرض بھی آندھی و ۔ ہ و گیا صبح جب ڈاکٹر آیا تو پت وت بخار تیز وت ہشام ۔ ہ ے ہ ے ہ

و گیا غریب ماں باپ ن اپنی سی سب ےچال ک سرسام ہے۔ ہ ہ ےکچھ کر ڈالی دن بھر میں ڈاکٹر س ل کر پیروں ے ۔

ہفقیروں تک سب ک درواز کھٹکھٹائ لیکن ن دوا دارو ے ے ے وئی تھی ر رات ہن اثر کیا اور ن تعویذ گنڈ کام آئ پ ہ ے۔ ے ہ ے

ہپھر حالت بگڑ گئی اور ایسی بگڑی ک صبح پکڑنی دشوار ےو گئی ماں باپ ن ساری رات آنکھوں میں کاٹی اور ۔ ہو جائ ان ے۔بلک بلک کر دعا مانگی ک کسی طرح صبح ہ ہ ی مگر ادھر صبح کا گجر بجھا وئی تو س ہکی دعا قبول ہ ~ مرن والوں ~ فانا ےادھر مریض ن پٹ س دم د دیا آنا ۔ ے ے ے

~ پھیلتی سار محل میں ملک پڑ گیا ~ فانا ۔کی خبر بھی آنا ہ ے ہے ےجس ن سنا سناٹ میں آگیا حلیم بوا ک گھر خبر نبو ن ے ہ ۔ ے ے

ر ی بولی"اجی حلیم بوا ق لیز میں قدم رکھت نچائی د ہپ ہ ہ ے ہ ۔ ہ و گیا " حلیم بوا ک من س ب ساخت اشم ختم ہو گیا ے ے ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہئ " حلیم بوا اس وقت چول پ بیٹھی بچوں ئ ہنکال " ہے ہ ے ہ ے ہ

ی اتھ اتھ پیر ی تھی مگر ہک ناشت ک لئ روٹی ڈال ر ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ے وں ن الٹا چول کی آگ ٹھنڈی کر دی ~ ن ۔میں ر گیا فورا ہے ے ہ ۔ ہ ہکلثوم کی بیٹی کی خانصا حبنی س ایسی لڑائی تھی ک ے

ہآپس کا بھاجی بخرا بھی بند تھا چنانچ کلثوم کی بیٹی کا ۔ " ی ک کر وا "نابی بی میں ضرور جاؤں گی ہہمن کھال ہ ۔ ہے۔ ہ ہ و ~ خانصاحب مبنی ک گھر کی طرف روان ہچادر اٹھا فورا ہ ے وئی تھیں ی اٹھ کھڑی ۔گئی صوبیدارنی بھی خبر سنت ہ ہ ے ۔

یں کچھ خیال آیا صوبیدار صاحب کو مردان ےمگر پھر ان ۔ ہ ماری طرف دایت کی ک ایک وقت کی روٹی ہس بلوا کر ہ ہ ے وں " پھر ی و گی اس کا انتظام کرواؤ میں جا ر ہس ہ ۔ ہ ے دایت کر ڈالی وں ن چلت چلت نوکرانی کو بھی ایک ہان ے ے ے ہ

یں لونڈ کو ےک ار دیکھ ری رات کی روٹیاں رکھی ہ ے ہ ۔بھوک لگ تو گھی بورا س اس روٹی کھال دیجو ے ے ے "

ہصوبیدارنی ن خانصا حبنی ک گھر تک کا راست عجلت ے ے وں ن عورتوں کی ےس لیکن خاموشی س ط کیا ان ہ ۔ ے ے ے

Page 314: اردو ادب کے مشہور افسانے

جوم س وں ن مردوں ک ےتقلید مناسب ن سمجھی جن ہ ے ے ہ ہ ار ی س اپن جذبات کا دبا دبا اظ وئ گلی ہگزرت ے ے ہ ے ہ ے لیز س گھسن ک بعد ان س اں د ےشروع کر دیا تھا ے ے ے ہ ہ ۔

و سکا ان ک بین صرف چند لمحوں تک سن جا ےضبط ن ے ۔ ہ ہ وا تھا اس میں صوبیدارنی یا رام مچا ۔سک گھر میں ک ہ ہ ے۔

یں د سکتی تھی ۔کسی کی آواز بھی الگ سنائی ن ے ہ

راسی قدر خاموشی وا تھا لیکن با رام مچا ہگھرمیں ک ہ ہ وئی تھی بیٹھک س کرسیاں اٹھا دی گئی تھیں ۔چھائی ے ۔ ہ

وئی تھی ایک شخص اں صرف جاجم بچھی ۔اب و ہ ہ ر پ ن تو ا اس ک چ ہخاموشی س بیٹھا کفن سی ر ہ ے ہ ے ہے۔ ہ ے ہحزن و مالل کی کیفیت تھی اور ن اطمینان اور خوشی یں جو وتی ہکی جھلک تھی ایسی جاندار چیزیں بھی ہ ۔ یں اور ایسی ب وتی ی عاری ےاحساس س سر س ہ ہ ہ ے ے ے

ر دم ایک نئی کیفیت پیدا یں جو وتی ہجان چیزیں بھی ہ ہ یں سفید لٹھا عید کی چاندنی رات کو درزی کی ۔کرتی ہ ےجس دکان اور جس گھر میں نظر آتا اس س حرکت ہے

وتی جب اس کا کفن سلتا تو سفید ہےاور روشنی پیدا ہے۔ ہ ےغبار کی طرح بیٹھن لگتا بیٹھک میں سب س نمایاں ہے۔ ے ی تھا ویس اس س الگ ایک کون میں ےچیز تو ی کفن ے ے ۔ ہ ہ ے۔خان صاحب گھٹنوں میں سر دئ چپ چاپ بیٹھ تھ اکا ے ے

اں نظر آت لیکن زیاد لوگوں ن ےدکا اور لوگ بھی و ہ ے ہ رنا مناسب سمجھا تھا دبی ر گلی میں ٹھ ۔بیٹھک س با ہ ہ ے

و جاتی پھر وتی اور خود بخود ختم ۔دبی آواز میں گفتگو ہ ہ ست س کسی ک وتا آ ےکوئی نیا شخص گلی میں داخل ے ہ ہ ۔ ہ وتا سرگوشی ک انداز میں کچھ سوال ےپاس جا کھڑا ۔ ہ و ار کرتا او ر پھر چپ ہکرتا کچھ غم اور حیرت کا اظ ہ ۔ لیز پر اکڑوں ہجاتا صوبیدار سب س الگ بیٹھک کی د ے ۔

ٹ ہبیٹھ کسی سوچ میں گم تھ بیٹھک ک سامن ذرا ے ے ے۔ ے ہکر ایک دوسرا مکان تھا جس ک پتھر پ باقر بھائی اور ے ول باتیں کرت ول ےتجمل بیٹھ بڑ سنجید انداز میں ے ہ ے ہ ہ ے ے ہتھ ان ک اندازl گفتگو ن علی ریاض کو کئی مرتب ے ے ے۔

اتھ ن ان ہللچایا تھا، لیکن ان ک پاس جان کا اس کوئی ب ہ ہ ہ ے ے ے مت کر ک و نچ تو اں پ ہآیا البت جب چھنوں میاں و ے ہ ے ہ ہ ہ ۔

اشم کی خبر سن ولیا چھنوں میاں ست س ادھر ہبھی آ ۔ ہ ے ہ ہ ت لپ ک چل تھ لیکن گلی میں داخل ےکر گھر س ب ے ے ہ ے

یں اپن ی ان کی رفتار دھیمی پر گئی شاید ان ےوت ہ ہ ے ہ

Page 315: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی تھی چھنوں و ر ٹ س بھی کچھ الجھن ۔قدموں کی آ ہ ہ ے ہ نچ تو اس ےمیاں جب تجمل اور باقر بھائی ک پاس پ ہ ے

اشم خاں ک تھانیداری ک انتخاب کا ذکر کر ےوقت تجمل ے ہ اشم خاں کی چھاتی تھی غضب تھی مجھ س ا تھا " ےر ہ ۔ ہ ہتو دو اس میں سما جائیں بس باقر بھائی سمجھ لو ک ۔

ست " علی ریاض آ ہسپرنٹنڈنٹ ن جو دیکھا تو دنگ ر گیا ہ ۔ ہ ے و ہس بول " کیا خبر بھائی اسی کی نظر لگ گئی ہے ے ے "

۔اں کیا خبر " تجمل ن تائید کی " ے ہے ہ

ن کی ج میں بول " سب ک ےباقر بھائی دھیم س ل ہ ے ے ہ ے ے وتا ان یں موت کا ب ہے۔باتیں ہ ہ ہ ۔ ہ

�م�و�ت¼ lق� ال �ف�س¼ ذ�ائ �ل½ ن ۔ک ہۃ

ےچھنوں میاں ن ٹھنڈا سا سانس لیا "کیا خدا کی قدرت اتھوں س سر پکڑ اکڑوں بیٹھ ے ؟" باقر بھائی دونوں ے ے ہ ہےوئی تھیں اسی کیفیت میں یں زمین پ جمی ۔تھ نگا ہ ہ ہ ے۔

ےبیٹھ بیٹھ پھر بول ے ے

وا کا جھونکا آیا اور گیا" ہےآدمی میں کیا رکھا ہ ہے۔ "

وئی ہعلی ریاض کی آنکھوں میں ایک تحیر کی کیفیت پیدا چکی آئی وتا آدمی اچھا خاصا بیٹھا ک ہ" باقر بھائی کیا ہ ہے۔ ہ ا ٹھوکر لگی آدمی ا جا ر ۔پٹ س دم نکل گیا جا ر ہے۔ ہ ہے۔ ہ ۔ ے

ہےختم کچھ عجب کرشم ہ "

وئ بول "بس بھائی سانس کا ایک ےباقر بھائی سوچت ے ہ ے ، چلتا ذرا ٹھیس لگی، تار ٹوٹا ہے۔تار جب تک چلتا ہے ہے

"آدمی ختم

ری سوچ میں ہباقر بھائی اور چھنوں میاں دونوں کسی گ ا مگر ۔ڈوب گئ چند لمحوں تک علی ریاض بھی چپ ر ہ ے۔ ےو بوال بھی تو کچھ اس انداز س گو یا خواب میں بڑ بڑا ہ

وئی کھیل ختم ا "زندگی کا کیا بھروس آنکھ بند ہر ہ۔ ہے ہ lہکیسا ستم ادھر نوکری کا پروان آیا ادھر موت کا تار ہے

، عجب کارخان اس کا ی جان ہےبرقی آگیا اس ک بھید و ہ ے ہ ے ۔ ۔"پھر علی ریاض بھی کسی سوچ میں ڈوب گیا ایک ڈیڑھ

ی علی ریاض اور چھنوں ۔منٹ تک مکمل خاموشی ر ہ اتھوں وئ تھ باقر بھائی ب دستور ہمیاں دونوں بت بن ہ ے۔ ے ہ ے

Page 316: اردو ادب کے مشہور افسانے

نیاں گھٹنوں پ ٹیک بیٹھ تھ مگر ان ے۔میں سر تھام ک ے ے ہ ہ ے ی تھیں علی ریاض وتی جا ر ۔کی آنکھیں شاید اب بند ہ ہ

وا"باقر بھائی خدا ہپھر چونکا اور باقر بھائی س مخاطب ے یں؟ باقر بھائی ن اپنی آنکھیں کھولیں "بھائی ے بھی یا ن ہ ہے

ی اس کا سب س ےمیر "و رک اور پھر بول "موت ہ ے ے ہ ے ۔بڑا ثبوت ک خدا ہے ہ ہے "

ا پھر خیال کی ن ہعلی ریاض باقر بھائی کی صورت تکتا ر ۔ ہ نچ گیا تجمل اور چھنوں میاں پھر ۔جان کونسی دنیا میں پ ہ ے

ےکسی خیال میں گم تھ پھر چھنوں میاں ن گھٹن س ے ے ے۔ ےاپنی ٹھوڑی اٹھائی اور نیم محسوس س انداز میں پھر

ےچھا گئی باقر بھائی اس طرح ب حس و حرکت بیٹھ ے ۔ ےتھ البت علی ریاض اور تجمل ن ان کی طرف دیکھا ہ ے۔ یں چھنوں میاں کی زبان س ایک فقر ہمگر کچھ بول ن ے ۔ ہ ے

ہے۔پھر نکال "بار بار اس کی شکل آنکھوں ک سامن آتی ے ے یں آتا ک و مرگیا ۔یقین ن ہ ہ ہ

ا تھا "" ست ک ر ست آ ہیقین کیس آئ یار "تجمل آ ہہ ہ ہ ہ ہ ے ے ےترسوں تک تو اچھا بھال تھا بازار میں مجھ س مڈھ بھیڑ ۔ و نوکری پ اشم خاں کب جا ر ہوئی میں پوچھن لگا " ہ ہے ہ ے ۔ ہی جاؤں فت میں چال و گئی اس ہ"بوال" یار تقرری تو ے ہ ہے ہ

۔گا "

ی گیا اں غریب چال ہعلی ریاض ن ٹھنڈا سانس لیا " ہ ۔ ے یں دیا ۔"چھنوں میاں ن علی ریاض ک فقر پر دھیان ن ہ ے ے ے

ےو تجمل س مخاطب تھ "بھئی پچھلی جمعرات کو میں ے ہ یں " شکار ک لفظ ک ساتھ ےاور و دونوں شکار کو گئ ے ہ ے ہ

ےساتھ مختلف انمٹ ب جوڑ تصویریں چھنوں میاں کی ےآنکھوں ک سامن ابھر آئیں پھریری ل کر بول "کیا ے ۔ ے ے اتھ اتھ کو ہنشان تھا نیک بخت کا صبح کی دھند میں ہ ۔ ہ

یں پروں کی پھڑ ڑبڑا کر اٹھی یں دیتا قازیں ۔سجھائی ن ہ ہ ۔ ہ ٹ پ دھوں س گولی چالئی اور قازیں ٹپ ٹپ ےپھڑ پھڑا ہ ہ یں اب اسی دفع کا ذکر صاحب مجھ تو پت ی ہگر ر ے ہے ہ ۔ ہ ہ

رنی کدھر س اٹھی اور کدھر چلی بندوق کو یں ک ۔چال ن ے ہ ہ ہ ، ت دور ا ک ب رنی چلی " میں ن ک وئ بوال "و ہےتانت ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے

ا سنتا تھا دھن س گولی چال دی ۔مگر و بھال مانس ک ے ہ ہ ۔رنی بیس قدم گری، چلی اور پھر لڑکھڑا ک گر پڑی ے "ہ

Page 317: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ بول و گئ پھر کچھ سوچت ےچھنوں میاں چپ ے ہ ے ے۔ ہ ہے"وقت کی بات بعض وقت من س ایسی آواز نکلتی ے ہ ہے۔ ن لگا تی شکار س واپسی میں ک و کر ر ےک پوری ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ م چل جائیں گ ے"چھنوں میاں اپنا ی آخری شکار تھا اب ے ہ ۔ ہ

"غریب سچ مچ چال گیا

وئی سوچت ےباقر بھائی ک جسم کو آخر ذرا جنبش ۔ ہ ے ےوئ بول "جمعرات کا دن تھا وقت کیا تھا؟ علی ریاض ے ہے۔اور تجمل دونوں بھائی کو تکن لگ باقر بھائی اک ذرا ے وئ بول "ایس وقت میں جانور کو چکچات ےتامل س ے ے ہ ے ہ ے

ئ یں مارنا چا ےن ہ ہ "

ست اٹھت قدموں ک افسرد شور س ساری ست آ ےآ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ےبزریا میں ایک خاموشی سی چھا گئی کال پنواڑی کی ۔

و گئ و ر تھ و ایکا ایکی بند ق بلند ے۔دکان پ جو ق ہ ہ ے ہے ہ ہے ہ ہ اڑن ک سلسل میں ہسامن ک کوٹھ والی نکئی پ ے ہ ے ے ے

وا فقر آیا تھا اس ت پھڑکتا ن میں ایک ب ےشبراتی ک ذ ۔ ہ ہ ہ ہ ے ےاس اچھ فقر کا گال گھونٹ دینا پڑا سامن ایک ۔ ے ے

ا تھا میت دیکھ کر و بھی سائیکل ہسائیکل سوار گزر ر ۔ ہ ےس اتر پڑا سمی حلوائی اس وقت موتی چور ک لڈو بنا ۔ ے اتھ یک بیک رک گئ اور آنکھوں میں ایک ا تھا اس ک ےر ہ ے ۔ ہ و گئی مال پنساری ۔حیرت انگیز افسردگی کی کیفیت پیدا ہ ب سوار تھا شائد اس لئ و موت کی ہک اعصاب پر مذ ے ہ ے و جاتا ی مرعوب ہسنجیدگی س کچھ ضرورت س زیاد ہ ہ ے ے ہتھا بڑھیا کو تین پیس کا دھنیا تولت تول و ایک ساتھ ے ے ے ۔

وا اور جب تک جناز کو کاندھا دین کا ثواب ےاٹھ کر کھڑا ے ہ یں آیا یوں تو اس ن واپس آت ےحاصل ن کر لیا پلٹ کر ن ے ۔ ہ ہ ےی کام میں لگ جان کی کوشش کی تھی مگر بڑھیا ک ۔ ے ہےبھی آخر کچھ روحانی مطالبات تھ مالں ک واپس آت ے ے۔ ےی اس ن سوال کیا"بھیا ر یوکس کی میت تھی ؟ ے "ہ

وئ جواب دیا "خانصاحب ےمالں ن ٹھنڈا سانس بھرت ہ ے ے "بڑھیا کی آنکھیں کھلی کی ۔یں نا، ان کا لونڈا گذر گیا ہ

ائ الل ہکھلی ر گئیں " ے ہ ہ "

نچا ہیرا سنار ابھی ابھی گالل لین کی نیت س دکان پ پ ہ ے ے ہہتھا خانصاحب کا سن کر و چونکا "خانصاحب جی کا پتر؟ ۔

Page 318: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گئی " پھر ذرا تامل س بوال ےوامر گیسو؟ بڑی گھٹنا ہ وئی تھی کیس مرگیو؟ ے"واکی دیئی تو بڑی بنی ہ "

اراج موت بڑی بلوان و ہمالں ن پھر ٹھنڈا سانس لیا "م ہے ہ ے ک نکال یرا بھی ب یں چھوڑتی " ہبوڑھ جوان کسی کو ن ہ ہ ے

ارشیوں و موت تو جوگیوں اور م ہ"مالں یو تو سچ کی ہے۔ ے ہ اراجوں کو بھی ہکو بھی آئی اور شکستی مان راجوں م نو تھا پر موت ن داکو بھی ک" چتر ےآئی "راج کنش اد ہ ہ ہ وئی ج میں اب توانائی پیدا " مالں ک ل ی لیو ہداب ے ہ ے ۔ ہ وں یا پیر پیغمبر، موت ن کسی کو ے"الل رشی منی ہ ہ

یں کیا سنا کیا ک افالطون ن ایک بوٹی تیار کی ۔معاف ن ے ہ ۔ ہ ا ک مجھ دفن مت کیجیو ۔اپن شاگرد س مرت وقت ک ے ہ ہ ے ے ے ان چالیس دن تک ےی بوٹی چراغ میں ڈال ک میر سر ہ ے ے ہ ے۔جال ئیو چراغ بجھن ن پائ چالیسویں دن میں اٹھ کھڑا ہ ے ۔ وا ک شاگرد کی آنکھ لگ ہوں گا مگر چالیسویں دن کیا ہ ۔ ہہگئی اور چراغ بجھ گیا افالطون مرا کا مرا ر گیا تو الل ۔ ہ ۔

ہےموت بڑی ظالم "

و ج میں افسردگی پیدا بڑھیا ک ل ہیرا کا سر جھک گیا ہ ہ ے ۔ ہو اں بابا موت پر کسو کا کیا بس "بڑھیا چپ ہگئی " ہے۔ ہ ہگئی مگر جب کوئی کچھ ن مال تو ایک فقر پھر اس کی ہ

ےزبان س نکل گیا "خانصاحب مبنی ک دونوں کڑیل جوان ے ی ر ہے۔گئ اس ک غضب س ڈرتا ہ ے ے ے "

ہمالں ن بڑ فلسفیان انداز میں جواب دیا "بڑی بیو ہ ے ے ہے۔امتحان لیو ے "

ر میں کال کی دکان س اٹھ کر ےشبراتی ن جان کس ل ے ہ ے ہ ہمالں کی دکان پر آ بیٹھا تھا مالں ک اس فقر س و ے ے ے ۔ ، جو اس ک ری ! یوں تیرا خدا بڑی ز ےگرما گیا "مالں ب ہے ہ ے

۔امتحان ک اڑنگ میں آگیا اس کا کباڑا گیا ۔ ے ے "

و مگر ی زندگی میں آیا ۔مالں کو ٹوٹ کر غص تو شاید ہ ہ ہ و گئی می ضرور پیدا لکی سی بر ج میں ہاس ک ل ہ ہ ے ہ ے

ن لگا "بھیا خدا تو میرا بھی اور تیرا بھی ہے۔ک ہے ے ہ

۔شبراتی کی بغاوت کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔جواب و کیا دیتا اس کا سر جھک گیا اور اس کی ٹھوڑی ہ

Page 319: اردو ادب کے مشہور افسانے

~ ےکھسک کر گھٹنوں پ آن ٹکی مالں اب شبراتی س قطعا ۔ ہ و کر فضا میں گھورن لگا تھا ۔ب نیاز ے ہ ے

یرا، شبراتی، مالں چاروں ک چاروں چند ےبڑھیا کنجڑی، ہ روں پ و گئ اور ان ک چ ہلمحوں ک لئ بالکل گم سم ہ ے ے ہ ے ے

و گئی جو زندگی کی ب ثباتی اور ےکچھ ایسی کیفیت پیدا ہ وتی ہے۔کسی بڑی طاقت ک وجود ک احساس س پیدا ہ ے ے ے

ے۔آخر بڑھیا کنجڑی چونکی "ال میر بیرا دھنیا باندھ د ے "میں چلی

ڑبڑا کر ترازو اٹھائی اور دھنیا تول کر کاغذ میں ہمالں ن ے وش میں آگیا تھا اس ن تقاضا یرا بھی ےباندھن لگا اب ۔ ہ ہ ۔ ے

ےکیا "مالں موکو بھی گالل باندھ د "

ےکتن کا دوں؟" "

" ۔اکنی کا "

وار روز روز" ہالل اکنی ک گالل میں آگیا بینک لگ گی ت ے ے ہ ی آو ہےتھوڑ ا ے ہ "

وئی اڑن نکٹی اب بن ٹھن کر اپن چھج پ آ کھڑی ہپ ہ ے ے ہ ےتھی کسی جل تن ک ن پچھل برس اس کی ب ے ے ے ے ۔

اڑ دانتوں س اس کی ناک ےمروتی س بھن کر دن د ے ہ ے ر کی پھبن تو ضرور ےکاٹ لی تھی یوں اس ک سیا چ ہ ہ ے ۔

ر بھری گات کا ہبگڑ گئی تھی مگر اس س ن تو اس کی ق ہ ے وا تھا اور ن اس ک ٹھس میں فرق پڑا تھا ۔جادو زائل ے ے ہ ہ

ےشبراتی ن اس دیکھ کر زور س انگڑائی لی اور اونچی ے ے ۔ل میں گان لگا ے ے

یں؟" بنو کو ی فائد تھا ک ہیارب نگا ناز پ الئسینس کیوں ن ہ ہ ہ ہ ہہ وئی تھی بلک ہخانصابنی کی دیوار س اس کی دیوار ملی ہ ے می سمجھوت س ایک الٹی ےاس مشترک دیوار میں با ے ہ ےسیدھی کھڑکی بھی پھوڑی گئی تھی آج ی کھڑکی بنو ک ہ ۔

وا اور طبیعت ت کام آئی آنسوؤں کا غلب جب بھی کم ہب ہ ۔ ہ وئی بنو اس کھڑکی س ےرون س جب بھی ذرا چاٹ ہ ے ے

نچ گئی ۔نکل کر اپن گھر پ ہ ے

Page 320: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ہحلیم بوا ن تو الٹت وقت اپن ننھ نواس کا خیال ے ے ے ے ے ہ یں کیا تھا اب اس ن بھوک بھوک کا غل مچانا شروع ےن ۔ ہ ےکیا جناز اٹھن ک بعد و بھی اس کھڑکی س نکل بنو ہ ے ے ہ ۔ نچیں ان کا مقصد تو صرف اتنا تھا ک بنو ک ےک گھر جا پ ہ ۔ ہ ے و تو نواس کو کھال کر ےگھر رات کا کوئی ٹکڑا نوال بچا ہ ہ اں و بنو س باتوں میں لگ ےاس کا حلق بند کر دیں و ہ ہ ۔

اشم خاں کی تصویر بار ہگئیں حلیم بوا کی آنکھوں میں ہ ۔ ۔بار پھر جاتی تھی خانصاحبنی کی بد نصیبی کا خیال بھی ی عالم ~ کچھ ی ا تھا بنو پر بھی تقریبا یں ر ر کر آ ر ہان ۔ ہ ہ ہ ہ ا "ڈوبی خانصا ا تھا چنانچ جب حلیم بوا ن ی ک ہگزر ر ہ ے ہ ہ ۔ ہ ےحبنی تو جیت جی مرگئی "تو بنو کی آواز میں بھی درد و گیا بولی "بد نصیب کی کوکھ اجڑ گئی دو پوت تھ ےپیدا ہ

و گئ آنگن میں جھاڑو سی دل گئی ۔دونوں ختم ے۔ ہ

یں پھر کھوئ کھوئ س انداز ےحلیم بوا کچھ دیر چپ ر ے ے ہ ہ وو ی ایسی ہے۔میں بولیں حضوں کی قسمت ے ہ ہ ۔

یں جب یں آئ یاد ن د راس ن ہخانصاحبنی کمبخت کو ع ے۔ ہ ے ہ ےخانصاحب کو مجسٹریٹی ملی تھی تو کیس کھٹیا پ پڑ ہ ے

ے۔تھ

" د وت موئ مرض کی بھینٹ چڑھ گیا ع ہاں آ! حاکم ہ ے ے ہ "ہ

ہحلیم بوا کو خانصاحبنی ک بڑ بیٹ کا واقع یاد آگیا ے ے ے ہ ار میں ی جوانی کی بھری ب ہ"اس کا بڑا پوت بھی ایس ہ ے لی کو تحصیلداری ہگیا ا بی بی ی سمجھو ک چاند کی پ ہ ہ ے ۔

ہکا خط آیا اور ستائیسویں کو اس غریب کا تار آگیا و بھی ۔ وئیں ی ~ گیا خانصاحبی کی ساری موتیں ایس ~ فانا ۔آنا ہ ہ ے ۔ "

۔بنو کسی اور عالم میں کھو گئی تھی اس کی آنکھیں خال ی تھیں اور ان آنکھوں میں ایک عجیب سی ہمیں گھور ر ی پھر و گئی تھی و چند لمح بالکل چپ ر ہکیفیت پیدا ے ہ ۔ ہ وئ بولی "باپالیں پوسیں چھاتی پ سال ہٹھنڈا سانس لیت ے ہ ے

ہے۔سال ک بڑا کریں اور پھر قبر میں سال آئیں غضب ے "

ہبنو پھر اس عالم میں کھو گئی حلیم بوا بھی کچھ متاثر ۔ ۔وئیں اب و بھی چپ تھیں حلیم بوا کو پھرکچھ یاد آیا ہ ۔ ہ ہ

اتھوں میں دل رکھتی تھی پوت کا اس ۔بولیں "کمبخت ہ ہعید پ اس ک لئ و بھاری اچکن بنوائی ک کیا کوئی بیا ہ ہ ے ے ہ

ےمیں بنو ائ گا بنو اسی کھوئ کھوئ انداز میں پھر بولی ے ۔ ے

Page 321: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں چاند ک ے"رزق برق پوشاکیں سب رکھی ر جاویں ۔ ہ ہ ےس ٹکڑوں پ دم ک دم میں سینکڑوں من مٹی پڑ جاو ے ہ ے

و گئی تھی حلیم بوا گم متھان بنی بیٹھی ہ " بنو چپ ۔ ہ ہے۔تھی

وئی ۔بنو ایک ساتھ پھر چونکی اور حلیم بوا س مخاطب ہ ے ہ ے"حلیم بوا ی خدا کا کیا انصاف جس اوالد د گا، دیئ ے ے ہے ہ ہ ےچال جاو گا جس س چھین گا وس کا گھر اجڑ ک رد ے ے ے

۔گا "

ہےحلیم بوا بولیں "اری میا شکایت کیا اس کی چیز تھی ہ ےاس ن ل لی بنو ن اک ذرا تلخی س جواب دیا "اجی ے ۔ ے ے وئی و تو صبر ک بھئ تقدیر میں اوالد ن تھی ن ہاوالد ن ہ ہ ہ ہے ہ ہ اں ہمگر کلیج ک ٹکڑ یوں مٹی میں مالن ک لئ ک ے ے ے ے ے ے

۔س جگر آو ے ے "

و گئیں ہحلیم بوا کو کوئی جواب بن ن آیا تو و خاموش ہ ہ ہ ی ان کی سمجھ میں بات آ گئی بولیں ہلیکن پھر جلد وں ن اک ذرا یں "ان وو ے"اجی سب اپن اپن اعمال ہ ہ ے ہ ے ے م ن تو کسی لڑن ن لگیں "بی بی ےتامل کیا اور پھر ک ے ہ ے ہ

۔والی کو پھلت ن دیکھا کمبخت دانتا کlل کlل کوئی اچھی ہ ے ےبات تھوڑائی کلثوم بات بات پ اس ک بیٹ کو یاد ے ہ ہے۔

و گیا "اس سلسل میں ےکرتی تھی آخر بیٹا بدنصیب ختم ہ ۔ تی تھیں لیکن ان ک الڈل نا چا ےحلیم بوا بھی کچھ ک ے ہ ہ ہ

ی رٹ لگانی شروع کر دی ک "بوا جی ہنواس ن پھر و ہ ے ے الیا پھسالیا مگر ت ب ۔بھوک لگی " حلیم بوا ن اس ب ہ ہ ے ے ہ ہے

اں مانن واال تھا حلیم بوا کو خود بھی اس کی بھوک ہو ک ۔ ے ہ ہ ن لگیں "میرا بچ آج بھوک س ےکا احساس تھا بنو س ک ہ ے ہ ے ۔

وئی "اجی و گیا "بنو کو بھی دبی دبی شکایت پیدا ہلکان ہ ہےابھی تو میت گئی کب لوگ واپس آئ اور کب روٹی ہے

۔ملی "

ہحلیم بوا کو یکایک ایک سوال یاد آیا "اری روٹی کس کی ہےطرف س ؟ ے "

" ی ہےصوبیدارنی د ر ہ ے "

ےپھرتو اچھی روٹی د گی" "

Page 322: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں اچھی روٹی د گی اں ۔بنو تنگ آ کر بولی "اجی ے ہ ہ ی ۔قبولی پک ر ہے ہ "

" وا "ڈوبا ی الغاروں پیس ہقبولی؟ " حلیم بوا کو بڑا تعجب ہ ہ ہ ۔جو و کیا چھاتی پ دھر ک قبر میں ل جاویگی ے ے ہ ہ ہے "

وو ن لگی "حلیم بوا! ی تو سب دل کی بات ہے۔بنو ک ے ہ ہ ہ ے ہ و گا یں تو یاد ہمار باپ کی کیا حیثیت تھی مگر تم ہ ے ہ

" حلیم ہماری ساس ک مرن پ گوشت روٹی دی تھی ۔ ہ ے ے ہج میں بولیں "ار بھئی برادری کا تو لحاظ ےبوا تائیدی ل ے ہ

ی پڑ اور قبولی؟ قبولی تو بڈھوں ٹھڈوں ک ےکرنا ہے ے ہ ۔مرن میں دی جاو ہے ے ے "

ون میں ابھی خاصی دیر تھی علی ریاض، ۔قبر تیار ے ہ ےتجمل، باقر بھائی اور چھنوں میاں قبرستان س نکل کر ولئ ی کربال ایسی لمبی چوڑی عمارت ہکربال کی طرف ے۔ ہ

یں تھی بس ایک بڑ رقب میں پکی چار دیواری ہتو ن ے ۔ ہ تمام کیا گیا تھا ک اس وئی تھی شاید دانست ی ا ہکھینچی ۔ ہ ہ ہ ۔ ہ یں پھر بھی ایک کون میں نیم ون چا یں ےمیں درخت ن ۔ ہ ے ہ ہ

ےک دو گھن درخت نظر آت تھ اس ک عقب میں آموں ے۔ ے ے ے یں بلک ی ن ہکا ایک گھنا باغ تھا بائیں سمت صرف بیریاں ہ ہ ۔

ےاس س پر املی ک بلند و باال درخت بھی نظر آت ے ے ے ہتھ ایس ماحول میں ی کربال لق و دق صحرا کا تاثر بھال ے ے۔ ری اداسی کا رنگ ہکیا پیش کرتی مگر اس کی فضا ایک گ

وئ ضرورتھی ۔لئ ے ہ ے

ی تھی لیکن اس ک پھاٹک کا ےی چار دیواری تو پست ہ ہ ر خاصا بلند تھا اور اس س ایک ایسا وقار ٹپکتا نی کٹ ےآ ہ ہ ہ ےتھا جواس قسم کی عمارتوں ک دروازوں س مخصوص ے یں ر عمارت کی سب س بلند چیز ن نی کٹ ہ مگر ی آ ے ہ ہ ہ ہ ہے۔

نی ہتھی اس درواز میں دو مینار بھی تو شامل تھ جو آ ے ے ۔ یں بلند تھ ی الگ بات ک اس کھلی فضا ر س ک ہکٹ ہے ہ ے۔ ہ ے ے ہ ی نظر آت تھ اس کھلی فضا ےمیں و دور س پست ے ہ ے ہ ےمیں ایک وسیع و عریض چار دیواری ک ساتھ ان دو

میناروں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی کیفیت گزرتیون کی ےتھی جس بعض لوگ کوئی صحیح لفظ موجود ن ہ ہ ے

نی درواز ک عین آ ن لگ ائی ک ےوج س حساس تن ے ہ ے۔ ے ہ ہ ے ہ ےسامن ایک پکی قبر تھی جو زمین کی سطح س بالکل ے

Page 323: اردو ادب کے مشہور افسانے

ل بھی یں اس س پ ی ن ےموار تھی باقر بھائی کو آج ہ ے ہ ہ ۔ ہر سال دلدل کی وا تھا ک ہاکثر مرتب اس قبر پر شک ہ ہ ہ

یں ی ہناپیں اور ماتمیوں ک قدم دونوں اس مس کرت ۔ ہ ے ے ے ہتو خیر سب جانت تھ ک ی قبر موالنا حیدر امام کی تھی ہ ے ے یں مناسب مقام ی ان وئ د کا احترام کرت ہاور ان ک ز ہ ے ہ ے ہ ے ےپردفن کیا گیا تھا مگر علی ریاض اس شعر کو پڑھن کی ۔ ال مصرع تو ا تھا جو اس قبر پر نقش تھا پ ہکوشش کر ر ہ ۔ ہ

!لیکن دوسر ا تھا زمان ےصاف تھا بڑ شوق س سن ر ہ ہ ے ے ۔ میں سوگئ ےمصرع ک آخری لفظ بالکل مٹ گئ تھ ہ ے۔ ے ے ہ ت سر مارا مگر اس کی ت ب ہداستاں علی ریاض ن ب ہ ے

ےسمجھ میں کچھ ن آیا آخر باقر بھائی ن اس معم کو ے ۔ ہ وئ لفظ پڑھن کی اٹکل تھی یں مٹ ےحل کیا کچھ تو ان ے ہ ے ہ ۔ بی کتابوں ک ساتھ ساتھ تھوڑا وں ن مذ ےپھریوں بھی ان ہ ے ہ ۔سا وقت شاعری ک مطالع پر بھی صرف کیا تھا آخر ے ے میں وں ن دوسرا مصرع پڑھا ت سوچ سمجھ کر ان ہب ۔ ہ ے ہ ہ

یں ی ن ہسو گئ داستان سنت سنت علی ریاض ن ہ ے ے۔ ے ے ۔تجمل اور چھنوں میاں ن بھی شعر کی داد دی علی ے

ج میں افسردگی کا رنگ تمام س اپن ل ےریاض ن بڑ ا ہ ے ے ہ ے ے ۔پیدا کیا اور شعر پڑھن لگا ے

ا تھا زمان ہبڑ شوق س سن ر ہ ے ےےمیں سو گئ داستان سنت سنت ے ے ہ

" چھنوں میاں ک من س ب ساخت نکال "کس کا شعر" ہوا ے ے ہ ے ہ "ہے

وئ بوال "انیس ےعلی ریاض تھوڑا سا چکرایا پھر سوچت ہ ے ؟کیوں باقر بھائی ؟ وتا ہےکا معلوم ہ "

ا ہےباقر بھائی ن جواب دیا "بھئی شعر تو من س بول ر ہ ے ہ ے وں ہک میں میر انیس کا ہ "

یں "چھنوں" ہوا وا میر انیس بھی کیا کیا شعر ک گئ ے ہہ ہ ہ ۔میاں ن پھر داد دی ے

" یں ک ج یکایکی بدال "سنت ہباقر بھائی "علی ریاض کا ل ہ ے ہ ہ ت تھ یں ک ۔میرا نیس شعر خود ن ے ے ہ ہ "

Page 324: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر سرخ پر گیا تڑخ کر بول "پھر کیا ےچھنوں میاں کا چ ہ ہ ے۔جنید خاں لکھ ک د جات تھ ے ے ے "

ےعلی ریاض ن جلدی س اپنی بات کی تشریح کی "ابھی ے ےم ن تو ی سنا ک محرم ک دنوں میں میر انیس جب ہ ہے ہ ے ہ

ان امام حسین علی ہسوک اٹھت تھ تو ان ک سر ے ہ ے ے ے ے وتا تھا وا مرثی رکھا ۔السالم کا لکھا ہ ہ ہ "

ر پ سرخی جس تیزی س آئی تھی ےچھنوں میاں ک چ ہ ے ہ ے اں اسی تیزی ک ساتھ ان و گئی ےاسی تیزی س غائب ہ ۔ ہ ے

و گئی تھی ۔کی آنکھوں میں حیرت کی کیفیت پیدا ہ ""اچھا ؟

ےتجمل ن برا راست باقر بھائی س سوال کیا "کیوں ہ ے ہبھائی سچ ی ؟ ہے ۔ "

، کسی بات ےباقر بھائی نا معلوم کس قماش کی آدمی تھ ہکی ن تو زور شور س تائید کرت تھ اور ن زور شور ے ے ے ہ یں اں اور ن ہس تردید کرت تھ ان ک جواب میں ہ ے ے۔ ے ے اں لکھنؤ جا ک ن لگ " وت تھ ک لو شامل ےدونوں پ ہ ے ے ہ ے۔ ے ہ ہ

ےکسی س پوچھ لو اور ی واقع تو لکھنؤ ک بچ بچ کی ے ے ہ ہ ے " تجمل ن ب صبر پن س پوچھا "کیا واقع ؟ ہزبان پ ے ے ے ے ہے ہ "

و گئی ی ک ایک دفع میر انیس اور مرزا دبیر میں بحث ہی ہ ہ ہ ہک دیکھیں مو کو کس کا مرثی پسند دونوں ن مرثی ے ہے۔ ہ � ہ

ےلکھا اور اپنا اپنا مرثی بڑ امام باڑ میں عالموں ک پاس ے ے ہ یں تو میر انیس کا ہرکھ آئ صبح کو جو جا ک دیکھیں ے ے۔ ی لکھا اور مرزا دبیر ک مرثی پ پنج ےمرثی تو ویسا ہ ے ے ہے ہ ہ

ےکا نشان پنج کا نشان؟ "تجمل اور چھنوں میاں دونوں ۔ ۔کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی ر گئیں ہ

اں پنج کا نشان ا " ۔علی ریاض ن بڑ اعتماد س ک ے ہ ہ ے ے ے ا وا سمجھ ک مو ی�بس جناب میر انیس کا تو برا حال ہ ے ہ وئی ذرا و گئی پھر رات ۔کی شان میں کوئی گستاخی ہ ۔ ہ

و گی ک گھوڑ کی ٹاپوں کی آواز آئی میر ا ۔آنکھ جھپکی ے ہ ہ ے۔نیس چونک پڑ علی ریاض رکا اور تجمل اور چھنوں ےمیاں دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال ک باری باری ےدیکھا تجمل اور چھنوں میاں دونوں حیرت س ٹکٹکی ۔ ےباندھ اس دیکھ ر تھ اور تو اور باقر بھائی کی ب ے۔ ہے ے ے

Page 325: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےنیازی میں بھی فرق آ چال تھا علی ریاض پھر بوال "گھوڑ ۔ ہک ٹاپوں کی آواز پاس آتی گئی بس سمجھو ک سارا ۔ ے یں ک ایک ہامام باڑ گونجن لگا میر انیس کیا دیکھت ہ ے ۔ ے ہ

ر پ سیا یں چ ہسفید گھوڑا اس پ ایک بزرگ سوار ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہے۔ وئی، کمر میں تلوار میر انیس ک برابر آئ ےنقاب پڑی ے ۔ ہ

اتھ رکھ کر بول "ک انیس تو میری اوال ہاور ان ک سر پ ے ہ ہ ے ہےد دبیر میرا عاشق اس کا دل ٹوٹ جاتا " میر انیس ہے۔ چکی بندھ گئی آنکھ کھلی تو ن گھوڑا ن ہکی روت روت ہ ۔ ہ ے ے ی و ر ہگھوڑا سوار تڑکا نکل آیا تھا مسجد میں اذان ہ ۔ ۔

۔تھی "

و چکی تھی تجمل اور ۔علی ریاض کی داستان ختم ہ چھنوں میاں ایک ڈیڑھ منٹ تک علی ریاض علی ریاض کو

یں باقر بھائی پ جم گئیں باقر ۔تکت ر پھر ان کی نگا ہ ہ ہے ے ی س کھنکار کر ی ثابت کرن کی ےبھائی ن اک ذرا الپروا ہ ے ہ ے ہکوشش کی ک و اس داستان س کچھ ایس زیاد متاثر ے ے ہ ہ

ن لگ "مگر اس روایت س ی آپ ک یں پھر آپ یں ےن ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ وتا ک انیس خود مرثی لکھت تھ ی ثابت ے۔تو ی ے ہ ہ ہے ہ ہ "

ےمگر صاب " باقر بھائی اب قمچی ک اشار ک بغیر" ے ے یں ہچل ر تھ "انیس کی شاعری واقعی انسانی کالم ن ے ہے

" باقر بھائی چند لمحوں ک لئ بالکل ے معجز ے ۔ ہے ہ ہےی آپ بڑبڑان لگ ے۔خاموش ر اور پھر آپ ے ہ ہے

ہےگودی کبھی ماں کی، کبھی قبر کا آغوش"l سخن کبھی انسان، کبھی خاموش ہےسرگرم

یں کفن پوش ن اکثر نظر آئ ہگل پیر ے ہہگ سخت اور گا جناز ب سرl دوش ہ ہ ہے ہہ

ا کیا ہباقر بھائی اک ذرا رک ان کی آواز ڈوبن لگی تھی " ے ے۔ ۔شعر ہے "

ہاک طور پ دیکھا ن جواں کو ن مسن کو ہ ہیں تابوت میں دن کو ہشب کو تو چھپر کھٹ میں

و گئ اب و پھر بت بن گئ تھ علی ے۔باقر بھائی چپ ے ہ ے۔ ہ ۔ریاض، تجمل اور چھنوں میاں پ بھی سکت چھا گیا تھا ہ ہ

وئی تھی البت آس پاس ہچاروں طرف خاموشی چھائی ۔ ہ ےک نیم اور املی ک درختوں میں دھیما دھیما شور ضرور ے

Page 326: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں تھی اس موسم کا اثر کئ ک ت تیز تو ن وا ب ہبرپا تھا ے ے ۔ ہ ہ ہ ۔ ےوا کا کوئی جھونکا اگر دب پاؤں بھی آتا تو زرد پتوں کو ہنیوں س بچھڑ کر فضا میں تیرن لگت ان مل جاتا اور ٹ ے۔ب ے ے ہ ہ ہ ت س ننھ ننھ وئی ریت ک ریل میں نیم ک ب تی ےب ے ے ہ ے ے ے ہ ہ

ےزرد پت بھی آ گئ تھ اور قبر پ بڑ قرین س بچھ گئ ے ے ے ہ ے ے ے ے۔تھ

ےاس نیم بیدار نیم خوابید فضا میں نیم ک درختوں س ے ہ ر چیز کچھ ہل کر کربال کی دیواروں کی منڈیروں تک ے

ی تھی اور علی ریاض، تجمل، ہاجڑی اجڑی س نظر آ ر ے ےچھنوں میاں گم متھان بن بیٹھ تھ اور باقر بھائی پر ے ے

۔مراقب کی کیفیت طاری تھی ہ

وں ن بڑ ےآخر چھنوں میاں ن اس سکوت کو توڑا ان ے ہ ۔ ے "بھئی دھوپ میں چٹخی وئ انداز میں انگڑائی لی ۔مر ے ہ ے

اں س اٹھو ۔آ گئی ی ے ہ ۔ "

وئ وئ دوسر بھی اٹھ کھڑ ے۔چھنوں میاں کھڑ ہ ے ے ے۔ ہ ے ےچھنوں میاں ن اس سلسل میں مشور یا اطالع کی ے ے

یں سمجھی شاید نا دانست طور پر ان ک قدم ےضرورت ن ہ ۔ ہ ےبیریوں کی طرف اٹھ گئ تھ ی بیریاں اس سال الل دی ہ ہ ے۔ ے ہن ل رکھی تھیں اس ن اس برگزید قافل کو بیریوں ہ ے ۔ ے ے

نچ کر وا تھا قریب پ ہکی طرف آت دیکھا تو ب تحاشا پکا ۔ ہ ے ے ی سالم کیا "میاں سالم ۔ا س ن چھوٹت ہ ے ے "

ےسالم "صرف چھنوں میاں ن سالم کا جواب دینا" ۔ضروری سمجھا

ن لگ "صاب وئ چھنوں میاں ک وت ےبیریوں میں داخل ے ہ ے ہ ے ہ ی گیا دھوپ میں اچھی خاصی تیزی آ ۔موسم اب بدل ہ

ہے۔گئی "

ولی" ی سمجھو میں ہاں" تجمل بوال "جاڑ تو اب گئ ۔ ہ ے ے ہر سونا ولی چلی اور میں ن با وں ہک انتظار میں ے ہ ۔ ہ ے

۔شروع کیا "

و گئ "اب الل دی ےچھنوں میاں الل دی کی طرف متوج ہ ے ے ہ ہ ے ہ ولی ؟ ی ہکب جل ر ہے ہ "

Page 327: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔اگل شکر کو جل جاو گی جی بس چھنوں میاں بیر" ے ے ولی ک بعد ان میں کنڈار پڑ یں ےبھی اگل شکر تک ک ہ ۔ ہ ے ے

ےجاو گی " پھر ذرا رک کر بوال "میاں بیر کھا لو "

و کر بول "میر یار دم تو لین د ےچھنوں میاں بیزار ے ے ے ہ "

و گیا اس ن اپنی رفتار دھیمی کر دی اور ےالل دیا چپ ۔ ہ ہ ولیا کچھ دیر و خاموش ہپیچھ تجمل ک برابر برابر ۔ ہ ے ے

ست س بوال "تجمل میاں کتنی دیر دفن ا پھر آ ہےچلتا ر ے ہ ہ ہ ےون میں ؟ "ہ

ےآدھ گھنٹ س کم کیا لگ گا" ے ے "

چکچا کر بوال "تجمل میاں ا پھر ذرا ہالل دیا خاموش چلتا ر ہ ہ و میرا ماتھا وسی ی ر و ک و و و ونی ہے۔جو ے ہ ہ ے ہ ے ہے ے ہ ہ

اشم میاں کو منع بھی کیا پر ہوخت ٹھنکا تھا میں ن ے ۔ یں وں ن میری سنی ن ۔ون ہ ے ہ "

ے۔علی ریاض چپ چاپ پیچھ چل آ ر تھ ان فقروں پر ہے ے ے وں ن چال تیز کر دی اور پاس وئ ان ےان ک کان کھڑ ہ ے۔ ہ ے ے

ےآ کر بول "کیا بات ؟ "

" وں " الل ا ہامی میں دس روزا ک شکار کی بات کر ر ہ ہ ے و گئی تھی "چھنوں میاں تو ساتھ کی آواز اب ذرا بلند ہدی ے

یں ساال نیل کنٹھ ۔تھا پوچھ لو میں ن منع کیا تھا یا ن ہ ے ۔ اشم میاں لوٹ چل پھر ا ک ہرست کاٹ گیا میں ن ک ہ ہ ے ۔ ہ رنی اٹھی تو میرا کلیج وں ن مجھ ڈپٹ دیا جب ہون ہ ۔ ے ے ہ

وا اور جب و پھر بوال تو ہدھک س ر گیا " الل دیا چپ ہ ہ ہ ے ~ سرگوشی کا رنگ اختیار کر لیا تھا ۔اس کی آواز ن تقریبا ے اشم میاں ن مارا ین رن کو پچھل م ے"اجی دس ک ہ ے ہ ے ہ ے

وو گا ۔تھا میرا دل اندر س یو کیو ک الل دی آج کچھ ے ہ ے ہ ہ ے ے ۔ وں ن اشم میاں گولی مت چالؤ پر جی ون ا ک ےمیں ن ک ہ ۔ ہ ہ ہ ے

ےمجھ پھر جھڑک دیا "

وا شاید ، و گیا بیریوں ک پت خاموش تھ ہالل دیا چپ ے ے ے ۔ ہ ہ و گئی تھی صرف قدموں کی چاپ سنائی ت دھیمی ۔ب ہ ہ

نچ کر سب ی تھی الل دی کی جھونپڑی ک قریب پ ہد ر ے ے ہ ۔ ہ ے ےلوگ چارپائی پر بیٹھ گئ الل دی ن حق بھی تاز کر ک ہ ہ ے ے ہ ے۔

Page 328: اردو ادب کے مشہور افسانے

ے۔رکھ دیا تھا چھنوں میاں ن دو گھونٹ خاموشی س لئ ے ے ۔ م ی ک لو مگر ن لگ بھئی اب کچھ ی آپ ک ہپھر آپ ہہ ہ ے۔ ے ہ ہ م ن تو کبھی شگن یں ےتو بچپن س شکار کھیلت آ ر ہ ۔ ہ ہے ے ے

یں کی ۔وگن کی پروا ن ہ "

م ہعلی ریاض بول "بھائی ی نئی روشنی کا زمان آج ہے۔ ہ ہ ے ، یں ک صاحب بڑ بوڑھ لوگ بڑ دقیانوسی تھ ت ےک ے ے ے ہ ہ ے ہ وا آج بھی پتھر ا م پرست تھ مگر صاحب ان کا ک ہتو ہ ے ہ

۔کی لکیر ہے "

ہے۔تجمل ن ب ساخت ٹکڑا لگایا "ی واقع ہ ہ ہ ے ے "

~ ۔علی ریاض کی بات جاندار تھی چھنوں میاں کو مجبورا ےباقر بھائی س رجوع کرنا پڑا "باقر بھائی آپ کا کیا خیال

"ہے؟

ج میں بول "الل ہباقر بھائی پھر اپن اسی مذبذب س ل ے ے ہ ے ے ت سی رسمیں م ن ب تر جانتا کیا بھید ویس ہب ے ہ ے ہے ہے ہ

ی یں اسالم تو شگون وگون کا قائل ہندوؤں س لی ہے ۔ ہ ے ہیں ہن "

وں وئی تھی پھر بھی ان ہچھنوں میاں کی بات کی تائید ۔ ہ ۔اس جواب پ کچھ ب اطمینانی سی محسوس کی علی ے ہ ا پھر بڑبڑان لگا ےریاض چند لمحوں تک بالکل گم سم ر ہ

" باقر ی جان عجب طلسمات ی دنیا ۔"اس ک بھید و ہ ہے ے۔ ہ ے ی بیٹھ یں تھی بس یون ےبھائی کی نیت جواب دین کی ن ہ ہ ے

یں ک تقدیر میں جو م توی جانت ن لگ "میاں ہبیٹھ ک ہ ے ہ ہ ے ے ہ ے یں سکتا ۔لکھ گیا و مٹ ن ہ ہ "

، علی نچ ےباقر بھائی پھر کسی دوسری دنیا میں جا پ ہ ے۔ریاض، تجمل اور چھنوں میاں گم متھان بن بیٹھ تھ ے ے

و گیا تھا مگر بیریوں ک پتوں ت دھیما ےوا کا تنفس ب ہ ہ ہےمیں ایک دبا دبا سا شور تھا کچھ ایسا شور ک بچ چوری ہ ۔

یں الل دی ن جلدی س ےچھپ کچھ کتر کتر کر کھا ر ے ے ہ ۔ ہ ہے ے ےگوپھیا اٹھائی اور اس میں اینٹ رکھ کر آگ چال بیریوں نچ کر اس ہک بیچوں بیچ درختوں ک گھن سائ میں پ ے ے ے ۔ ے ےن گوپیا گھمائی اور ساتھ میں حلق س للگان کی آواز ے ے وا نگام پیدا ہبھی نکالی بیریوں ک پتوں میں یکایک ایک ہ ہ ے ۔ ےاور طوطوں کی ایک ڈار چیختی چالتی تیزی س پتوں کی

Page 329: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےت س اٹھی اور فضا میں ایک الٹی سیدھی سبز دھاری ہہ را طلسم پیدا کیا اس ک ےبن کر پھیل گئی گوپیا ن دو ہ ے ۔

ےاشار س سبز طوط آسمان کی طرف اٹھ اور سبز ے ے ے ےسرخ بیر زمین پ گر الل دی ن سرخ سرخ بیریوں س ے ے ہ ے۔ ہ مانوں ک سامن جا کر خالی کر ےگود بھری اور اس م ے ہ ے وں ن لگا "میاں پونڈا بیر پک پک بین ک الیا ۔دیا ک ہ ے ے ے ہے ے ہ ۔

۔ذرا یوں چکھ ک دیکھو ے "

اں علی یں کیا ارl خیال ن ہباقر بھائی ن کسی قسم کا اظ ۔ ہ ہ ے ون کی تعریف کی چھنوں ۔ریاض ن ان کی کھٹ مٹھ ے ہ ے ے

وتا تو لطف آ جاتا وا نمک ۔میاں کا خیال تھا اگر پسا ہ ہ ےتجمل بیر کھات کھات پوچھن لگا "اب الل دی بیریوں ہ ے ۔ ے ے ے

و گا ؟ ہس تو تو ن اچھا کما لیا ے ے "

ج میں بوال "اجی تجمل میاں ےالل دیا بڑ افسرد س ل ہ ے ہ ے ہ ۔ان بیروں س کیا بینک لگ گی اب کی برس بڑا گھاٹا آیا ے ے

۔ آموں کی فصل سوکھی نکل گئی ساری رقم ڈوب ہے۔۔گئی سنگھاڑوں کی بیل لی تھی، دس جونک لگ گئی ے ۔

" سنگھاڑوں کی ۔تجمل میاں بس اپنی تو بدھیا بیٹھ گئی و گیا اس ن کسی اور طرف منتقل ۔بیل س الل دیا کا ذ ہ ہ ہ ے و گیا "اجی چھنوں میاں ۔کا رخ چھنوں میاں کی طرف ہ ت گر یں اپنی دس پ آج کل مرغابی ب ہو پوکھر تھی ن ہ ہ ے

۔رئی ا ے "

ےچھنوں میاں چونک "اچھا "

"ہاں میاں"

"دیکھ لیں کسی دن"

ہالل دیا بوال "تو چھنوں میاں اس سال جانور کا بھروس ے ہ یں ا بس چلنا تو جلدی چل چلو کسی دن پو ہن ۔ ے ہے ے۔ ہ ل تاروں کی چھاؤں میں چلو تڑک تڑک ےپھٹن س پ ے ۔ ے ہ ے ے

۔گھر پ آن لگیں گ ے ہ "

ی وال تھ ک علی ریاض بیچ ہچھنوں میاں جواب دین ے ے ہ ے ۔میں بول اٹھا اس کی آنکھیں دور قبرستان کی طرف ا تھا "یار لوگ تو واپس جا ر ی تھیں اور و ک ر ہےدیکھ ر ہ ہہ ہ ہ

ی بیٹھ ر گئ م ی و گئی، ے۔یں حد ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ

Page 330: اردو ادب کے مشہور افسانے

چھنوں میاں، علی ریاض، تجمل، باقر بھائی چاروں اٹھوئ الل دی ن پھر ر نکلت وئ بیریوں س با ےکھڑ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے۔ ہ ے ےچھنوں میاں کو ٹھوکا "تو چھنوں میاں کب چل رئ او؟ "

وئ بول ی دل میں حساب لگات ےچھنوں میاں دل ے ہ ے ہ اں ترسوں آجائیو مگر یں پر سوں نتیج ۔"کل؟ کل ن ہ ہے۔ ہ ہ

ل واپس آنا ل پ ہےدن چڑھ س پ ے ہ ے ہ ے ے "

،؟ کیا ک رئ او چھنوں ےالل دیا گرما کر بوال "دن چڑھ ہہ ے ہ ے۔میاں اجی فجر کی نماز مسجد میں آ ک پڑھیں گ ے ۔ ۔ "

ہشکو شکایت

(منشی پریم چند)

ہزندگی کا بڑا حص� تو اسی گھر میں گزر گیا مگر کبھی ر د�نیا کی نگا میں بڑ نیک وا میر شو ےآرام ن نصیب ہ ہ ے ۔ ہ ہ وں گ لیکن ےاور خوش خلق اور فیاض اور بیدار مغز ہ

ی جانتا د�نیا کو تو ان لوگوں کی ہے۔جس پر گزرتی و ہ ہے نم میں ڈال ر ہےتعریف میں مزا آتا جو اپن گھر کو ج ہ ے ہے ےوں اور غیروں ک پیچھ اپن آپ کو تبا کئ کئ ڈالت ے ے ہ ے ے ے ہ

ہےوں جو گھر والوں ک لئ مرتا اس کی تعریف د�نیا ے ے ۔ ہ، بخیل یں کرت و تو ان کی نگا میں خود غرض ہےوال ن ہ ہ ے۔ ہ ے ، کور باطن اسی طرح جو لوگ ، مغرور ہے۔، تنگ دل ہے ہے ہےیں ان کی تعریف گھر وال کیوں ر والوں ک لئ مرت ےبا ہ ے ے ے ہ

ی کو دیکھوصبح س شام تک مجھ ےکرن لگ اب ان ے ہ ے۔ ے ر س کوئی چیز منگواؤ تو اسی یں با ےپریشان کیا کرت ہ ۔ ہ ے ک بھول کر بھی ن جاتا اں کوئی گا ہد�کان س الئیں گ ج ہ ہ ے ے وتا ہ ایسی د�کانوں پر ن چیز اچھی ملتی ن وزن ٹھیک ہ ہے ہ ہے۔ی وت تو و د�کان بدنام ی مناسب ی نقائص ن ہ ن دام ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہے۔

ی د�کانوں س سودا سلف یں ایسی وتی ان ےکیوں ہ ہ ۔ ہ وئی د�کان س ا کسی چلتی ا ک ےخریدن کا مرض با ر ہ ہ ہ ہے۔ ے

اں مال زیاد کھپتا اس لئ تاز مال ہچیزیں الیا کرو و ے ہے۔ ہ ہ مدردی اور یں ٹٹ پونجیوں س ان کو تا مگر ن ہےآتا ر ہ ے ہ ہے۔ ہ وں الئیں گ تو یں گی �لٹ استر س مونڈت یں ا ےو ان ہ ۔ ہ ے ے ے ے ہ ہ وا، چاول ایسا موٹا ک بیل ہسار بازار س خراب گھنا ہ ے ے

وئ منوں لکڑی جال ے۔بھی ن پوچھ دال میں کنکر بھر ہ ے ے۔ ہ

Page 331: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےڈالو، کیا مجال ک گل گھی الئیں گ تو آدھوں آدھ تیل ے۔ ہ ےاور نرخ اصلی گھی س ایک چھٹانک کم تیل الئیں گ تو ۔ ے

ےمالوٹ کا بالوں میں ڈالو تو چیکٹ جائیں، مگر دام د ۔ وئی ، چنبیلی ک تیل ک چلتی ہآئیں گ اعلیP درج ک ے۔ ے ے ے ے

یں ڈر لگتا شاید"اونچی د�کان ہے۔د�کان پر جات تو جیس ان ہ ے ے تا ک نیچی یں میرا تجرب ک ہاور پھیکا پکوان" ک قائل ہے ہ ہ ۔ ہ ے و تو یں ایک دن کی بات ی ملت ہد�کان پر سڑ پکوان ۔ ہ ے ہ ے ہبرداشت کر لی جائ روز روز کی ی مصیبت برداشت ے۔ وں آخر ٹٹ پونجیوں کی د�کان پر جات تی وتی ک یں ےن ہ ہ ہے۔ ہ ہ

ی ن ل لیا یں، کیا ان کی پرورش کا ٹھیک تم ےی کیوں ے ہ ہ ہ ہ" یں یں"مجھ دیکھ کر بالن لگت ۔؟ آپ فرمات ہ ے ے ے ہ ے ہے

یں بال لیا اور خوشامد ک دو چار الفاظ سنا ےخوب! ذرا ان ہ یں سدھ نچا پھر ان ، بس آپ کا مزاج آسمان پر جا پ ہدئ ۔ ہ ے وں ا یا کیا پوچھتی تی ک و کوڑا کرکٹ باندھ ر یں ر ہن ۔ ہے ہ ہ ہ ہ ہ

و؟ کیوں کسی یں کیو ں ہتم اس راست س جات ہ ے ے ے ؟ ایس اٹھائی گیروں کو من یں جات ہدوسر راست س ن ے ے ہ ے ے ے یں ایک خموشی و؟ اس کا کوئی جواب ن ۔ی کیوں لگات ہ ہ ے ہ

ہے۔سو بالؤں کو ٹالتی

۔ایک بار ایک زیور بنوانا تھا میں تو حضرت کو جانتی تھی ۔ چان ہان س کچھ پوچھن کی ضرورت ن سمجھی ایک پ ۔ ہ ے ے

ی تھی اتفاق س آپ بھی موجود تھ ے۔ک سنار کو بال ر ے ۔ ہ ے یں، دھوکا کھاؤ گی ۔بول ی فرق بالکل اعتبار ک قابل ن ہ ے ہ ہ ے

وا وں میر ساتھ کا پڑھا ہے۔میں ایک سنار کو جانتا ہ ے ۔ ہ یں یں میر ساتھ چالبازی ن ہبرسوں ساتھ ساتھ کھیل ے ۔ ہ ے ہکر سکتا میں ن سمجھا جب ان کا دوست اور و بھی ہے ے ۔ اں تک دوستی کا حق ن نبھائ گا سون کا ےبچپن کا، تو ک ۔ ے ہ ہ ےایک زیور اور پچاس روپ ان ک حوال کئ اور اس بھل ے ے ے ے ےآدمی ن و چیز اور روپ ن جان کس ب ایمان کو د ے ے ہ ے ہ ے

م تقاضوں ک بعد جب چیز بن کر ےدئ ک برسوں ک پی ہ ے ہ ے ہآئی تو روپ میں آٹھ آن تانبا اور اتنی بدنما ک دیکھ کر ے ے

۔گھن آتی تھی برسوں کاارمان خاک میں مل گیا رو پیٹ ۔ یں ی ایس ایس وفادار تو ان ک دوست ہکر بیٹھ ر ے ے ے ۔ ہ یں یں دوست کی گردن پر چھری پھیرن میں عار ن ۔جن ہ ے ہ

یں لوگوں س جو زمان بھر ک ےان کی دوستی بھی ان ہ ہے ے ہ ی ان یں، جن کا پیش ہفاق مست، قالنچ، ب سرو سامان ہ ہ ے ہ

Page 332: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہجیس آنکھ ک اندھوں س دوستی کرنا روز ایک ن ہے۔ ے ے ے یں اور بال ت ہایک صاحب مانگن ک لئ سرپر سوار ر ے ہ ے ے ے وا ک کسی ن یں یں چھوڑت مگر ایسا کبھی ن ےلئ گال ن ہ ہ ہ ے۔ ہ ے

، دو بار وں آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہےروپ ادا کئ ۔ ہ ے ے زار بار کھو کر بھی ، مگر ی بھل مانس ہکھو کر سیکھتا ے ہ ہے وں روپ تو د دئ اب مانگ تی یں سیکھت جب ک ےن ے ے ہ ہ ے۔ ہ

ار دوست؟ تو بس بغلیں یں الت کیا مر گئ تم ےکیوں ن ہ ے ے۔ ہ یں ہجھانک کر ر جات آپ س دوستوں کو سوکھا جواب ن ے ے۔ ہ تی ک یں ک ہدیا جاتا خیر سوکھا جواب ن دو، میں ی بھی ن ہ ہ ہ ہ ۔ یں کیا ۔دوستوں س ب مرو�تی کرو مگر ٹال تو سکت ہ ے ۔ ے ے یں کر سکت کسی ؟ مگر آپ انکار ن یں بنا سکت ان ن ے۔ب ہ ے ہ ے ہ

ےدوست ن کچھ طلب کیا اور آپ ک سر پر بوجھ پڑا ب ۔ ے ے ہچار کیس انکار کریں آخر لوگ جان جائیں گ ی ے ۔ ے ے

یں امیر سمجھتی یں د�نیا ان ہےحضرت بھی فاق مست ہ ۔ ہ ہ تی ی کیوں ن گروی رکھن پڑیں سچ ک ہچا میر زیور ۔ ے ہ ہ ے ہے و جاتی اور ہےوں بعض اوقات ایک ایک پیس کی تنگی ہ ے ہیں جب ۔اس بھل آدمی کو روپ جیس گھر میں کاٹت ہ ے ے ے ے لو قرار ہتک روپ ک وار نیار ن کر ل اس کسی پ ے ے ہ ے ے ے ے وں میرا تو ناک میں دم اں تک ک یں ان ک کرتوت ک ۔ن ہ ہ ے ۔ ہ مان روز بالئ ب درماں کی طرح سر ےآگیا ایک ن ایک م ے ہ ہ ۔ یں اں ک ب فکر ان ک دوست ۔پر سوار ن جان ک ہ ے ے ے ے ہ ے ہ ۔ یں س گھر کیا ، کوئی ک یں س آ کر مرتا ہےکوئی ک ے۔ ہ ہے ے ہ

جوں کو اڈ ذرا سا گھر، مشکل س دو تو ےاپا ہے۔ ہ ہ یں ک یں مگر آپ ہچارپائیاں اوڑھنا بچھونا بھی بافراط ن ہ ہ ۔ مان ک ساتھ ےدوستوں کو دین ک لئ تیار آپ تو م ہ ۔ ے ے ے

ئ اوڑھنا بچھونا یں چارپائی بھی چا ے۔لیٹیں گ اس لئ ان ہ ہ ے ے۔ ، جاتی تو میر ئ ورن گھر کا پرد کھل جائ ےبھی چا ہے ے ہ ہ ے ہ

یں، ہاور بچوں ک سر زمین پر پڑ سکڑ کر رات کاٹت ے ے ۔ ے یں لیکن جاڑوں میں تو بس ہگرمیوں میں تو خیر مضائق ن ہ ی آ جاتی گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو ہے۔قیامت ہ و جاتا اب میں بچوں کو لئ قفس مانوں کا قبض ےم ہے۔ ہ ہ ہ

یں ک جب گھر کی ہمیں پڑی تڑپا کروں اتنی سمجھ بھی ن ہ ۔ مان بنائیں جن ک پاس ےی حالت تو کیوں ایسوں کو م ہ ہے ہ

یں خدا ک فضل س ان ک سبھی ےکپڑ لت تک ن ے ے ۔ ہ ے ے یں، جو یں ایک بھی خدا کا بند ایسا ن ی ہدوست ایس ہ ۔ ہ ہ ے

ے۔ضرورت ک وقت ان ک دھیل س بھی مدد کر سک ے ے ے ے و ہدو ایک بار حضرت کو اس کا تجرب اور ب حد تلخ تجرب ہ ے ہ

Page 333: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےچکا مگر اس مردl خدا ن تو آنکھیں ن کھولن کی ہ ے ہے۔ ، ی ناداروں س ان کی پٹتی ہےقسم کھا لی ایس ے ہ ے ہے۔ ت شرم ےایس ایس لوگوں س آپ کی دوستی ک ک ہ ہ ہے ے ے ے ، ون د ےآتی جس کوئی اپن درواز پر کھڑا بھی ن ے ہ ہ ے ے ے ہے۔ یں، آپ کا ر میں اتن امیر کبیر ہو آپ کا دوست ش ے ہ ہے۔ ہ

یں جات امرا یں، کسی ک پاس ن ے۔کسی س ربط ضبط ن ہ ے ہ ے یں، ان ک پاس یں، خوشامد پسند یں، م�د�م�غ ےمغرور ہ ہ ہ

ےکیس جائیں، دوستی گانٹھیں گ ایسوں س جن ک گھر ے ے ے یں ۔میں کھان کو بھی ن ہ ے

مارا خدمت گار چال گیا اور کئی دن دوسرا ہایک بار وشیار اور سلیق مند نوکر ہخدمت گار ن مال میں کسی ہ ۔ ہ ےکی تالش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد س جلد وئی گھر ک سار ےکوئی آدمی رکھ لین کی فکر سوار ے ۔ ہ ے ا تھا ک و ر ہکام بدستور چل ر تھ مگر آپ کو معلوم ہ ہ ے ہے

اں س ایک بانگڑو کو وئی ایک دن جان ک ےگاڑی رکی ہ ے ہے۔ ہ ہےپکڑ الئ اس کی صورت ک دیتی تھی ک کوئی جانگلو ہ ہے ے۔ ہمگر آپ ن اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں ک کیا ے

، پرل سر کا ایمان دار، بال کا وں! بڑا فرماں بردار ےک ے ہے ہ ا درج کا با تمیز ۔محنتی، غضب کا سلیق شعار اور انت ے ہ ہ

۔خیر میں ن رکھ لیا میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں ے وں، مجھ خود تعجب ی آدمی صرف ہمیں آ جاتی ہے۔ ے ہ

ہشکل س آدمی تھا، آدمیت کی کوئی عالمت اس میں ن ے یں ب ایمان ن تھا مگر احمق ہتھی کسی کام کی تمیز ن ے ۔ ہ ۔ وتا تو کم س کم اتنی تسکین تو ےاو�ل نمبر کا ب ایمان ہ ے ۔

ہے۔وتی ک خود کھاتا کم بخت د�کان داروں کی فطرتوں کا ہ ہو جاتا تھا اس دس تک گنتی بھی ن آتی تھی ایک ۔شکار ہ ے ۔ ہ ہروپی د کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب ن سمجھا ے ہ

ےسک غص پی پی کر ر جاتی تھی خون جوش کھان لگتا ۔ ہ ہ ے۔ ۔تھا ک سور ک کان اکھاڑ لوں مگر ان حضرت کو کبھی ے ہ

ا کر دھوتی چھانٹ ر یں دیکھا آپ ن ت ن ہےاس کچھ ک ہ ۔ ہ ے ہ ے ا میرا خون کھولن ےیں اور و دور بیٹھا تماش دیکھ ر ہے۔ ہ ہ ہ ہوتا جب میر یں یں ذرا بھی احساس ن ےلگتا، لیکن ان ۔ ہ ہ ہ

ےڈانٹن پر دھوتی چھانٹن جاتا بھی تو آپ اس قریب ن آن ہ ے ے ے نر بنا کر دکھایا کرت تھ اور ےدیت اس ک عیبوں کو ے ہ ے ے۔

وت تو ان عیوب پر پرد ڈال ہاس کوشش میں کامیاب ن ے ہ ہ ۔دیت تھ کم بخت کو جھاڑو دین کی بھی تمیز ن تھی ہ ے ے۔ ے

Page 334: اردو ادب کے مشہور افسانے

، ی تو سار گھر میں ڈھنگ کا ایک کمر ہےمردان کمر ہ ے ہ ہ ہ �دھر، اوپر کی نیچ ےاس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز ا

و اور گرد کا ی عالم ک ہگویا سار کمر میں زلزل آ گیا ہ ۔ ہ ہ ے ے ےسانس لینی مشکل مگر آپ کمر میں اطمینان س ے

یں ایک دن میں ن اس ی ن ت گویا کوئی بات ےبیٹھ ر ے ۔ ہ ہ ے۔ ہ ے ےخوب ڈانٹا اور ک دیا، "اگر کل س تو ن سلیق س ے ے ے ہہ

۔جھاڑو ن دی تو کھڑ کھڑ نکال دوں گی ے ے ہ "

وں کمر میں جھاڑو دی ےسویر سو کر اٹھتی تو دیکھتی ہ ے ر ایک چیز قرین س رکھی گرد و غبار کا ہے۔وئی ے ے ہ ہے۔ ہ

و، آج ا، "دیکھتی کیا نس کر ک ~ یں آپ ن فورا یں نام ن ہک ہ ہ ے ۔ ہ ہ ےگھور ن بڑ سویر جھاڑو دی میں ن سمجھا دیا، ہے۔ ے ے ے ے

" لیجئ و و، الٹی ڈانٹن لگتی یں ےتم طریق تو بتالتی ن ۔ ہ ے ہ ہ ہ ی خطا تھی خیر، میں ن سمجھا ےصاحب! ی بھی میری ۔ ہ ہ ےاس ناالئق ن کم س کم ایک کام تو سلیق ک ساتھ ے ے ے

وں میں ہکیا اب روز کمر صاف ستھرا ملتا اور میری نگا ہ ۔ ون لگی اتفاق کی بات ایک دن ۔گھور کی کچھ وقعت ے ہ ے ےمیں ذرا معمول س سویر اٹھ بیٹھی اور کمر میں آئی ے ے وں ک گھور درواز پر کھڑا اور خود ہےتو کیا دیکھتی ے ے ہ ہ

یں مجھ س ی س جھاڑو د ر ےبدولت بڑی تن د ۔ ہ ہے ے ے ہ اتھ س جھاڑو چھین لی اور و سکا ان ک ےضبط ن ہ ے ۔ ہ ہ ۔گھور ک سر پر پٹک دی حرام خور کو اسی وقت ے ے

، اس کی تنخوا تو بیباق کر ہدھتکار بتائی آپ فرمان لگ ے ے ۔ ، اس ، دوسر آنکھیں دکھائ ےدو خوب! ایک تو کام ن کر ے ے ہ ۔ ۔پر تنخوا بھی د دوں میں ن ایک کوڑی بھی ن دی ایک ہ ے ۔ ے ہ ۔کرتا دیا تھا و بھی چھین لیا اس پر حضرت کئی دن مجھ ہ

، بڑی ےس روٹھ ر گھر چھوڑ کر بھاگ جا ر تھ ہے ے ہے۔ ے ے ے۔مشکلوں س رک ے

تر ن اتار کپڑوں کا سوال کیا اس ب کاری ےایک دن م ۔ ے ے ہ یں میر ےک زمان میں فالتو کپڑ کس ک گھر میں ۔ ہ ے ے ے ے

ی کا توش خان یں حضرت اں تو ضروری کپڑ بھی ن ہی ہ ہ ۔ ہ ے ہ یں ہایک بغچی میں آ جائ گا جو ڈاک ک پارسل س ک ے ے ے ےبھیجا جا سکتا پھر اس سال سردی ک موسم میں نئ ے ہے۔ تر کو ہکپڑ بنوان کی نوبت بھی ن آئی تھی میں ن م ے ۔ ہ ے ے ےصاف جواب د دیا سردی کی شدت تھی اس کا مجھ ۔ ے

Page 335: اردو ادب کے مشہور افسانے

، اس کا بھی ہےخود احساس تھا غریبوں پر کیا گزرتی ۔ ےعلم تھا لیکن میر یا آپ ک پاس افسوس ک سوا اور ے ے ےکیا عالج جب رؤسا اور امرا ک پاس ایک مال گاڑی ہے۔ نگی کا وئی تو پھر غربا کیوں ن بر ہکپڑوں س بھری ہ ہے ہ ے ےعذاب جھیلیں خیر! میں ن تو اس جواب د دیا آپ ن ۔ ے ے ے ۔ �تار کر اس ک حوال کر دیا میری ۔کیا کیا، اپنا کوٹ ا ے ے

ی ایک کوٹ ہآنکھوں میں خون اتر آیا حضرت ک پاس ی ے ۔ تر ن سالم کیا، نیں گ کیا م وا ک پ ےتھا ی خیال ن ہ ۔ ے ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ےدعائیں دیں اور اپنی را لی آخر کئی دن سردی کھات ۔ ہ

و ، و سلسل بھی بند ، صبح کو گھومن جایا کرت تھ ہر ہ ہ ے ے ے ہے یں عجیب قسم کا دیا ہے۔گیا مگر دل بھی قدرت ن ان ہ ے ۔

یں آتی میں تو کٹ نت آپ کو شرم ن ۔پھٹ پران کپڑ پ ہ ے ہ ے ے ے نستا تو یں کوئی وں، آپ کو مطلق احساس ن ہےجاتی ہ ۔ ہ ہ ہنس آپ کی بال س آخر مجھ س دیکھا ن گیا تو ایک ے ے۔ ے۔ ہےکوٹ بنوا دیا جی تو جلتا تھا ک خوب سردی کھان دوں ہ ۔

یں بیمار پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جائ ے۔مگر ڈری ک ک ہ ہ وں یں کو کرنا ی اپن دل میں سمجھت ہآخر کام تو ان ے ے ہ ہے۔ ہ وں شاید ۔گ ک میں کتنا نیک نفس اور منکسر المزاج ہ ہ ے

یں یں نیک نفس ن و میں ان یں ان اوصاف پر ناز ہان ہ ۔ ہ ہ یں، سیدھی سادی حماقت وں ی ساد لوحی ن ہسمجھتی ہ ہ ۔ ہ تر کو آپ ن اپنا کوٹ دیا اسی کو میں ن کئی ے جس م ے ہ ہے۔ےبار رات کو شراب ک نش میں بد مست جھومت دیکھا ے ے

، تو پھر دوسروں کی کج روی ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہےوت م کیوں دیں؟ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ےکا تاوان ہ ہ ےتو گھر والوں س بھی تو فیاضان برتاؤ کرت یا ساری ہ ے

ی مخصوص گھر والوں کو ر والوں ک لئ ہے۔فیاضی با ہ ے ے ہ ؟ اتنی عمر گزر گئی ئ ےاس کا عشرl عشیر بھی ن ملنا چا ہ ہ

ےمگر اس شخص ن کبھی اپن دل س میر لئ ایک ے ے ے ے ےسوغات بھی ن خریدی ب شک جو چیز طلب کروں اس ے ۔ ہ

یں مگر یں، مطلق عذر ن یں کالم ن ہبازار س الن میں ان ہ ہ ے ے یں یں خود کبھی توفیق ن ہروپی بھی د دوں ی شرط ان ہ ہے۔ ہ ے ہ یں وں ک بچار اپن لئ بھی کچھ ن ہوتی ی میں مانتی ے ے ے ہ ہ ہ ۔ ہ

ےالت میں جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیت ے۔ ی تا ہےیں مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چا ہ ہ ۔ ہ

وں، گھر میں عورت ک لئ طرح ےاور مردوں کو دیکھتی ے ہ ، شوق سنگھار ک لوازمات الت ےطرح ک زیور، کپڑ ے ے ے

اں ی رسم ممنوع بچوں ک لئ مٹھائی، یں ی ت ےر ے ہے۔ ہ ہ ۔ ہ ے ہ

Page 336: اردو ادب کے مشہور افسانے

، بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی ن ، باج ہکھلون ے ے یں بخیل وں، قسم سی کھا لی اس لئ میں تو ان ہالئ ے ہے۔ ہ ے

یں ک سکتی وں گی فیاض ن ی ک وں گی، مرد دل ۔ک ہہ ہ ۔ ہ ہ ہ ہ

ےدوسروں ک ساتھ ان کا جو فیاضان سلوک اس م�یں ہے ہ ے وں آپ کی ۔حرص نمود اور ساد لوحی پر محمول کرتی ہ ہ ہمنکسر المزاجی کا ی حال ک جس دفتر میں آپ مالزم ہے ہ

یں د دار س آپ کا میل جول ن ۔یں اس ک کسی ع ہ ے ہ ہ ے ہہے۔افسروں کو سالم کرنا تو آپ ک آئین ک خالف نذر یا ے ے

ےڈالی کی بات تو الگ اور تو اور کبھی کسی افسر ک ہے �ٹھائیں تو کون یں اس کا خمیاز آپ ن ا ی ن ہگھر جات ہ ۔ ہ ہ ے یں، آپ کی تنخوا �ٹھائ اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہا ہ ے یں آپ کو کوئی پوچھتا وتی ہکٹتی اوروں کی ترقیاں ہ ہے و جائ تو یں حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ےبھی ن ہ ۔ ہ

یں و جاتا بچار جی توڑ کر کام کرت ۔جواب طلب ہ ے ے ہے۔ ہ یں ک سر منڈھا ، مشکل کام آ جائ تو ان ےکوئی پیچید ہ ے ہ

یں گھسو اور یں، دفتر میں ان یں مطلق عذر ن ہجاتا ان ہ ہ ہے۔ ی یںمگر منزل کتنی وئ ہپسو وغیر خطابات مل ہ ے ہ ے ہ

ی سوکھی گھاس ہدشوار ط کریں ان کی تقدیر میں و ے یں میں تو اس زمان شناسی کا ہلکھی ی انکساری ن ے ہے۔ ہ ہ ہے۔ وں آخر کیوں کوئی شخص آپ س خوش تی ےفقدان ک ۔ ہ ہ م ، اگر ہو د�نیا میں مروت اور رواداری س کام چلتا ہے ے ۔ ہم س ن یں ک و یں تو کوئی وج ن ہکسی س کھنچ ر ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے وتی تو و دفتری ، پھر جب دل میں کبیدگی ہکھنچا ر ہے ہ ہے و جاتی جو ماتحت افسر کو خوش ر ہے۔تعلقات میں ظا ہ ہ ، جس کی ذات س افسر کو ےرکھن کی کوشش کرتا ہے ے ، اس کا لحاظ و وتا ، جس پر اعتبار نچتا ہکوئی فائد پ ہے ہ ہے ہ ہ ےالزمی طور پر کرتا ایس ب غرضوں س کیوں کسی ے ے ہے۔ یں ان ک دل ون لگی افسر بھی انسان مدردی ےکو ۔ ہ ۔ ے ہ ہ و اں پوری وتی و ک وس ۔میں جو اعزاز و امتیار کی ہ ہ ہ ہے ہ ہ

اں مالزمت یں آپ ن ج ی فرنٹ ر ہجب اس ک ماتحت ے ۔ ہ ہ ے اں س نکال گئ کبھی کسی دفتر میں سال دو ے۔کی و ے ے ہ ےسال س زیاد ن چل یا تو افسروں س لڑ گئ یا کام ے ے۔ ہ ہ ے

ے۔کی کثرت کی شکایت کر بیٹھ

ےآپ کو کنب پروری کا دعویP آپ ک کئی بھائی بھتیج ے ہے۔ ہ یں پوچھت مگر آپ برابر ے۔یں و کبھی آپ کی بات بھی ن ہ ہ ۔ ہ

Page 337: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں ان ک ایک بھائی صاحب آج کل ت ےان کا من تاکت ر ۔ ہ ے ہ ے ہ ی کی نگرانی میں یں گھر کی جائیداد ان ہے۔تحصیل دار ہ ۔ ہ

یں، یں، موٹر خرید لی کئی نوکر ت ہو شان س ر ہے۔ ہ ے ہ ے ہ میں یں لکھت ایک بار اں بھول س بھی خط ن ہمگر ی ے۔ ہ ے ے ہ ا اپن برادر وئی، میں ن ک ےروپ کی سخت ضرورت ہ ے ہ ے یں کیوں ن لگ ان ؟ ک یں مانگت ہمکرم س کیوں ن ے ے ہ ے ہ ے

یں بھی تو اپنا خرچ کرنا کون ہے۔پریشان کروں آخر ان ہ ۔ ت مجبور کیا، و گی میں ن ب و جاتی ہسی ایسی بچت ے ۔ ہ ہ یں خط میں کیا لکھا، لیکن ہتو آ پ ن خط لکھا معلوم ن ۔ ے ےروپ ن آن تھ ن آئ کئی دنوں ک بعد میں ن پوچھا، ے ے۔ ہ ے ے ہ ے ؟" ے"کچھ جواب آیا حضور ک بھائی صاحب ک دربار س ے ے وا فت تو خط بھیج ا، "ابھی ایک و کر ک ۔آپ ن ترش ہ ے ہ ہ ہ ہ ے فت اور گزرا اب آپ کا ی ؟ ایک ہابھی کیا جواب آ سکتا ۔ ہ ہ ہے یں عطا ی ن ہحال ک مجھ کوئی بات کرن کا موقع ہ ے ے ہ ہے

ر س وں با یں ک کیا ک ےفرمات اتن بشاش نظر آت ہ ۔ ہ ہ ہ ے ے ے۔ وئ یں تو خوش خوش کوئی ن کوئی شگوف لئ ے۔آت ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے

ی میر میک والوں و ر ےمیری خوشامد بھی خوب ے ہے۔ ہ ہ ی میں حضرت کی چال سمجھ و ر ہے۔کی بھی تعریف ہ ہ ی تھی ی ساری دلجوئیاں محض اس لئ تھیں ک آپ ہر ے ہ ۔ ہ ، ےک برادرم مکرم ک متعلق کچھ پوچھ ن بیٹھوں سار ۔ ہ ے ے ےملکی، مالی، اخالقی تمدنی مسائل میر سامن بیان ے

، اتنی تفصیل اور شرح ک ساتھ ک ہکئ جات تھ ے ے ے ے ےپروفیسر بھی دنگ ر جائ محض اس لئ ک مجھ اس ہ ے ے۔ ہ ےامر کی بابت کچھ پوچھن کا موقع ن مل لیکن میں کیا ہ ے فت گزر گئ اور بیم ہچ�وکن والی تھی، جب پور دو ے ے ہ ے ے

ےکمپنی ک روپ روان کرن کی تاریخ موت کی طرح سر ہ ے ے ار بھائی صاحب وا؟ تم نچی تو میں ن پوچھا کیا ےپر آ پ ہ ہ ے ہ یں ی ن ن مبارک س کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہن د ہ ے ہ ے مارا حص بھی گھر کی جائیداد میں کچھ یا نچا آخر ہےپ ہ ہ ۔ ہ یں؟ پانچ سو روپ م کسی لونڈی باندی کی اوالد یں یا ےن ہ ہ ہ

زار س کم ےسال کا منافع نو دس سال قبل تھا، اب ایک ہ میں ن ملی موٹ و گا کبھی ایک جھنجی کوڑی بھی ےن ۔ ہ ہ ۔ ہ ہ و، ایک زار ن ئ دو زار ملنا چا میں دو ہحساب س ہ ہ ے۔ ہ ہ ہ ے

و تو بیم کمپنی و، کچھ ن و، ڈھائی سو و، پانچ سو ہزار ہ ہ ہ ہ ہ ہماری و تحصیل دار کی آمدنی ہک پریمیم بھرن کو تو ۔ ہ ے ے مار یں تو پھر ، رشوتیں بھی لیت ےآمدنی س چوگنی ہ ۔ ہ ے ہے ے

اں کرن لگ اں یں، یں یں دیت آپ ے۔روپ کیوں ن ے ہ ہ ہ ہ ے۔ ہ ے

Page 338: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں عزیز و اقارب کی ۔بچار گھر کی مرمت کرات ہ ے ے یں پر خوب! گویا جائداد کا مان داری کا بار بھی تو ان ہے۔م ہ ہ

و ہمنشا محض ی ک اس کی کمائی اسی میں صرف ہ ہے ہ یں آت مجھ ان بھی گھڑن ن ے۔جائ اس بھل آدمی کو ب ہ ے ے ہ ے ے۔ زار بتا دیتی ک دیت گھر یں تو ، میں ایک ن ےس پوچھت ہہ ۔ ہ ہ ے ے و گیا یا چوری ۔میں آگ لگ گئی سارا اثاث جل کر خاک ہ ہ ۔ زار کا ہو گئی چور ن گھر میں تنکا تک ن چھوڑا یا دس ۔ ہ ے ۔ ہو گیا گھاٹ س بیچنا پڑا � خریدا تھا اس میں خسار ۔غل ے ے ۔ ہ ہ ۔ ہ و گئی اس میں دیوالی پٹ گیا ۔یا کسی س مقدم بازی ہ ہ ہ ے

۔آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات اس جوالنئ طبع پر یں تقدیر ٹھونک کر بیٹھی ۔آپ مصنف اور شاعر بھی بنت ہ ے یں کام ی پڑوس کی بی بی س قرض لئ تب جا کر ک ہر ے ے ۔ ہ

ےچال پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف ک پل باندھت ے ۔ lےیں تو میر جسم میں آگ لگ جاتی ایس برادران ہے۔ ے ہ

ے۔یوسف س خدا بچائ ے

یں یں، دو بچیاں بھی ۔خدا ک فضل س آپ ک دو بچ ہ ہ ے ے ے ے وں، سب ک سب اتن ر ک وں یا خدا کا ق ےخدا کا فضل ک ے ہ ہ ہ

و گئ ک معاذ الل مگر کیا مجال ک ی بھل مانس ےشریر ہ ہ ہ۔ ہ ے ہ ےکسی بچ کو تیز نگا س بھی دیکھیں رات ک آٹھ بج ۔ ے ہ ے یں آئ میں یں، بڑ صاحب زاد ابھی گھوم کر ن ے۔گئ ہ ے ے ہ ے یں وں آپ اطمینان س بیٹھ اخبار پڑھ ر ی ۔گھبرا ر ہ ہے ے ے ۔ ہ ہ وں، "جا تی وں اور اخبار چھین کر ک وئی آتی ہجھالئی ہ ہ ہ ار اں ر گیا ن جان تم یں لونڈا ک ےکر ذرا دیکھت کیوں ن ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہ ے

ی یں تو خدا ن اوالد یں تم ہدل میں کچھ قلق بھی یا ن ے ہ ۔ ہ ہے و " تب آپ بھی گرم ہناحق دی آج آئ تو خوب ڈانٹنا ۔ ے ۔ یں آیا بڑا شیطان آج بچو� آت یں "ابھی تک ن ےجات ہے۔ ۔ ہ ۔ ہ ے

وں، مار تھپڑوں ک کھال ادھیڑ کر ےیں تو کان اکھاڑ لیتا ے ہ ہےرکھ دوں گا یوں بگڑ کر طیش ک عالم میں آپ اس کو ۔ یں، ادھر یں اتفاق س آپ ادھر جات ہتالش کرن نکلت ے ے ۔ ہ ے ے

وں کدھر س آ گیا و بچار تی ےلڑکا آ جاتا میں ک ہ ۔ ے ہ ہ ہے۔ وتی یں دیکھنا آج کیسی مرمت وئ ہتجھ ڈھونڈن گئ ۔ ہ ے ہ ے ے ے

ی چھوٹ جائ گی دانت پیس ر تھ آت ے ی عادت ے ہے ۔ ے ہ ہ ہے۔و گئ اتھ میں تم اتن شریر وں گ چھڑی بھی ےی ہ ے ہے۔ ہ ے۔ ہ ہ

و گی لڑکا یں سنت آج قدر و عافیت معلوم ۔و ک بات ن ہ ے۔ ہ ہ ہم جاتا اور لیمپ جال کر پڑھن لگتا آپ ڈیڑھ دو ہے۔س ے ہے ہ

Page 339: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں حیران و پریشان اور بدحواس، گھر ۔گھنٹ میں لوٹت ہ ے ے یں؟ یں، "آیا ک ن ی پوچھت ہمیں قدم رکھت ہ ہ ے ہ ے "

وں، "آ کر تی ہمیں ان کا غص بھڑکان ک اراد س ک ہ ے ے ے ے ہ اں ار گئی ک یں، پوچھ کر ہبیٹھا تو جا کر پوچھت کیوں ن ہ ہ ے ہے

یں ی ن ۔گیا تھا کچھ بولتا ہ ہ ۔ "

اں آؤ یں، "منو! ی ہآپ گرج پڑت ہ ے "

و جاتا وا آ کر آنگن میں کھڑا ہے۔لڑکا تھر تھر کانپتا ہ ہ یں ک خدا جان کیا ےدونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہ ہ ون والی چھوٹا بچ کھڑکی س چو کی ہےآفت نازل ے ہ ہے۔ ے ہ

اتھ میں یں ر ا آپ جام س با ہطرح جھانک ر ۔ ہ ہ ے ے ہے۔ ہ ر دیکھ کر پچھتان ےچھڑی میں بھی و غضب ناک چ ہ ہ ہ ہے۔

وں ک کیوں ان س شکایت کی آپ لڑک ک پاس ےلگتی ے ۔ ے ہ ہ یں مگر بجائ اس ک ک چھڑی س اس کی ےجات ہ ے ے ہ ے

اتھ رکھ کر ست س اس ک کندھ پر ہمرمت کریں آ ے ے ے ہ ہ ۔ اں گئ تھ جی! منع یں "تم ک ت ےبناوٹی غص س ک ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ے و خبردار جو اب اتنی دیر کی یں ۔کیا جاتا مانت ن ۔ ہ ہ ے ہے۔ ؟ ہےآدمی شام کو گھر چال آتا یا ادھر ادھر گھومتا ہے "

و گا، ید قصید اب شروع وں ی تم ی ہمیں سمجھ ر ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہ و جاتی ی خاتم ید اں تم یں لیکن ی ہے۔گریز تو بری ن ہ ہ ہ ہ ہ ہ

و گیا لڑکا اپن کمر میں چال جاتا ےبس آپ کا غص فرو ے ۔ ہ ہ ~ خوشی س اچھلن لگتا میں احتجاج کی ہے۔ اور غالبا ے ے ہے، بھال دو چار وں "تم تو جیس ڈر گئ ےصدا بلند کرتی ے ۔ ہ

و جات وت اس طرح تو لڑک شیر ےتمانچ تو لگائ ہ ے ے۔ ہ ے ے ےیں آج آٹھ بج آیا کل نو بج کی خبر الئ گا اس ن ۔ ے ے ہے۔ ے ۔ ہ

و گا ۔بھی دل میں کیا سوچا ہ "

یں میں ن کتنی زور س یں، "تم ن سنا ن ےآپ فرمات ے ہ ے ہ ے و گئی دیکھ لینا جو پھر کبھی ی فنا ۔ڈانٹا بچ کی روح ہ ہ ے ۔

اں آنسو پونچھ دیئ یں " "تم ن ڈانٹا تو ن ے۔دیر میں آئ ہ ہ ے ے۔ "

و ہآپ ن ایک نئی اپج نکالی ک لڑک تادیب س خراب ے ے ہ ہے ے ئ ان نا چا یں آپ ک خیال میں لڑکوں کو آزاد ر ے۔جات ہ ہ ے ۔ ہ ے

ئ بندش س ونا چا ےپر کسی قسم کی بندش یا دباؤ ن ے۔ ہ ہ ہ ےآپ ک خیال میں لڑک کی دماغی نشو و نمامیں رکاوٹ ے

Page 340: اردو ادب کے مشہور افسانے

، کبھی گولیاں، کبھی و جاتی اس کا ی نتیج ہےپیدا ہ ہ ہے۔ ہ یں چالیس یں ک ساتھ کھیلت ۔کنکو حضرت بھی ان ہ ے ے ہ ے۔

ےسال س تو متجاوز آپ کی عمر مگر لڑکپن دل س ہے ے یں گیا میر باپ ک سامن مجال تھی ک کوئی لڑکا ہن ے ے ے ۔ ہ

ے۔کنکوا اڑا ل یا گلی ڈنڈا کھیل سک خون پی جات صبح ے۔ ے ی ہس لڑکوں کو پڑھان بیٹھ جات اسکول س جوں ے ے۔ ے ے ےلڑک واپس آت پھر ل بیٹھت بس شام کو آدھ گھنٹ ے ے۔ ے ے ے

یں ک ہکی چھٹی دیت رات کو پھر کام میں جوت دیت ی ن ہ ہ ے۔ ے۔ ےآپ تو اخبار پڑھیں اور لڑک گلی گلی کی خاک چھانت ے

۔پھریں

یں، لڑکوں ہکبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑ بن جات ے ے یں ایس باپ کا لڑکوں ےک ساتھ تاش کھیلن بیٹھ جات ۔ ہ ے ے ے و سکتا ابا جان ک سامن میر بھائی ےپر کیا رعب ے ے ہے۔ ہ یں دیکھ سکت تھ ان کی ے۔سیدھ آنکھ اٹھا کر بھی ن ے ہ ے

وں ن گھر میں قدم ی قیامت آ جاتی تھی ان ےآواز سنت ہ ۔ ہ ے وئ وئی ان ک رو برو جات ےرکھا اور خاموشی طاری ہ ے ے ۔ ہ

ہلڑکوں کی جان نکلتی تھی اور اسی تعلیم کی برکت ک ہے ت نچ گئ صحت البت کسی کی ب دوں پر پ ہسبھی اچھ ع ہ ے۔ ہ ہ ے

ت ی کون سی ب یں تو ابا جان کی صحت ہاچھی ن ہ ہے۔ ہ میش کسی ن کسی بیماری میں مبتال ہاچھی تھی بچار ہ ہ ے ۔ و جاتی لیکن اں س اچھی ت پھر لڑکوں کی صحت ک ہر ے ہ ے۔ ہ وں ن کسی ک ساتھ و تعلیم و تادیب میں ان ےکچھ بھی ے ہ ہ

یں کی ایک روز میں ن حضرت کو بڑ ےرعایت ن ے ۔ ہ ۔صاحبزاد کی کنکوا کی تعلیم دیت دیکھا یوں گھماؤ، ے ے

۔یوں غوط دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو ایسا دل و جان ہ وں اس دن ، گویا گرو منتر د ر ۔س سیکھا ر تھ ہ ہے ے ے ہے ے

وں گ ے۔میں ن بھی ان کی ایسی خبر لی ک یاد کرت ہ ے ہ ے و میر بچوں کو وت ےمیں ن صاف ک دیا تم کون ہ ے ہ ہہ ے

و، ، ن یں یں گھر س کوئی مطلب ن ہبگاڑن وال تم ہ ہے ہ ے ہ ے۔ ے ، بر بر شوق ن ہلیکن میر بچوں کو خراب مت کیجئ ے ے ے ے یں سکت تو کم س کم یں سدھا ن ےپیدا کیجئ اگر آپ ان ے ہ ہ ے۔ ، ابا جان کسی لڑک کو ےبگاڑیئ تو مت لگ باتیں بنان ے ے ۔ ے ے۔میل تماش ن ل جات تھ لڑکا سر پٹک پٹک کر مر ے ے ہ ے ے

ہجائ مگر ذرا بھی ن پسیجت تھ اور ان بھل آدمی کا ی ے ے ے ہ ے یں چلو ۔حال ک ایک ایک س پوچھ کر میل ل جات ہ ے ے ے ے ہ ہے ، خوب آتش بازیاں چھوٹیں گی، ار اں بڑی ب ہےچلو، و ہ ہ

Page 341: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں، ان میں مز ےغبار اڑیں گ والیتی چرخیاں بھی ہ ے۔ ے اکی کھیلن س بھی ےس بیٹھنا اور تو اور آپ لڑکوں کو ے ہ ے

وت یں روکت ی انگریزی کھیل بھی کتن خوف ناک ےن ہ ے ہ ے۔ ہ لک گیند لگ اکی ایک س ایک م ۔یں کرکٹ، فٹ بال، ہ ے ہ ۔ ہی ل کر چھوڑ مگر آپ کو ان کھیلوں ے۔جائ تو جان ے ہ ے ہےس بڑی رغبت کوئی لڑکا میچ جیت کر آ جاتا تو ہے۔ ے

و یں، گویا کوئی قلع فتح کر آیا وت ۔کتن خوش ہ ہ ہ ے ہ ے یں ک کسی لڑک ک چوٹ ےحضرت کو ذرا بھی اندیش ن ے ہ ہ ہ اتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بچاروں کی و گا ہلگ گئی تو کیا ۔ ہ

۔زندگی کیس پار لگ گی ے ے

ہپچھل سال لڑکی کی شادی تھی آپ کو ی ضد تھی ک ہ ۔ ے یز ک نام کھوٹی کوڑی بھی ن دیں گ چا لڑکی ہےج ے۔ ہ ے ہ ل د�نیا کی خبیث ہساری عمر کنواری بیٹھی ر آپ ا ہے۔

یں پھر بھی چشم بصیرت ت ۔النفسی آئ دن دیکھت ر ہ ے ہ ے ے یں کھلتی جب تک سماج کا ی نظام قائم اور لڑکی کا ہےن ہ ۔ ہ نا انگشت نمائی کا باعث اس ہےبلوغ ک بعد کنواری ر ہ ے

ی و سکتی دو چار افراد بھل یں ہوقت تک ی رسم فنا ن ے ۔ ہ ہ ہ یز لین س انکار کریں ےایس بیدار مغز نکل آئیں جو ج ے ہ ے

وتا اور برائی ہےلیکن اس کا اثر عام حاالت پر کم ہ تی جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں ک ےبدستور قائم ر ہے۔ ہ نا ہلئ بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری ر ے

ی آپ ی ہبدنامی کا باعث ن سمجھا جائ گا اس وقت آپ ہ ۔ ے ہ ، اں پیغام دئ اں ج و جائ گی میں ن ج ےرسم رخصت ہ ہ ے ۔ ے ہ ر موقع پر ٹانگ اڑا دی وا اور آپ ن یز کا مسئل پیدا ۔ج ہ ے ہ ہ ہ

جب اس طرح ایک سال پورا گزر گیا اور لڑکی کاو گیا تو میں ن ایک جگ بات پکی ہسترھواں سال شروع ے ہ

و گئ کیوں ک ان لوگوں ن ےکر لی حضرت بھی راضی ہ ے ہ ۔ یں پورا یقین تھا ک یں کی حاالنک دل میں ان ہقرارداد ن ہ ہ ۔ ہ

ہایک اچھی رقم مل گی اور میں ن بھی ط کر لیا تھا ک ے ے ے �ٹھا ن رکھوں گی شادی ک ےاپن مقدور بھر کوئی بات ا ۔ ہ ے

ہبخیر و عافیت انجام پان میں کوئی شب ن تھا، لیکن ان ہ ے ود اش ک آگ میری ایک ن چلتی تھی ی رسم ب ہے۔م ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ے ے ہ اں اں روپ کی کیا ضرورت؟ ی ہی رسم ب معنی ی ۔ ے ہ ہے۔ ے ہ

ہگیتوں کی کیا ضرورت؟ ناک میں دم تھا ی کیوں و کیوں؟ ہ ۔ یز تم ن میر من میں کالک لگا دی ۔ی تو صاف ج ہ ے ے ہے۔ ہ ہ

ےمیری آبرو مٹا دی ذرا خیال کیجئ بارات درواز پر پڑی ے ۔

Page 342: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں میں ن بھی ےوئی دن لڑکی ک ماں باپ برت رکھت ۔ ہ ے ے ۔ ہہبرت رکھا لیکن آپ کو ضد تھی ک برت کی کوئی ۔

یں رکھت تو یں جب لڑک ک والدین برت ن ےضرورت ن ہ ے ے ۔ ہ ر چند منع ہلڑکی ک والدین کیوں رکھیں اور سارا خاندان ے ا لیکن آپ ن حسب معمول ناشت کیا، کھانا کھایا ۔کرتا ر ہ ے ہ ۔خیر رات کو شادی ک وقت کنیا دان کی رسم آئی آپ ے میش س اعتراض اس آپ ےکو کنیا دان کی رسم پر ہے۔ ے ہ ہ

یں دان روپ یں لڑکی دان کی چیز ن مل سمجھت ےم ۔ ہ ۔ ہ ے ہ یں لیکن وتا جانور بھی دان دئ جا سکت ہپیس کا ے ے ہے ہ ے وں ۔لڑکی کا دان ایک لچر سی بات کتنا سمجھتی ہ ہے۔

، شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے"صاحب پرانا رواج یں ک کان پر یں مگر آپ ہ عزیز و اقارب سمجھا ر ہ ہ ہے ہے۔وں د�نیا کیا ک گی؟ ی لوگ کیا تی یں رینگتی ک ہجوں ن ہے ہ ہ ۔ ہ

یں دھرت پیروں ی ن و گئ مگر آپ کان ب ے۔بالکل ال مذ ہ ہ ے ہ ہ و گا ا ک بابا تم کچھ ن کرنا جو کچھ کرنا اں تک ک ہپڑی، ی ہ ہ ہ ہ

ےمیں کر لوں گی تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی ک ۔ ےپاس بیٹھ جاؤ اور اس د�عا دو مگر اس مرد خدا ن ۔ ے

وت ےمطلق سماعت ن کی آخر مجھ رونا آگیا باپ ک ہ ے ۔ ے ۔ ہ ، ی مجھ ےمیری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کر ہ ے

ا کنیا دان کی رسم ادا کی آپ ۔منظور ن تھا میں ن تن ہ ے ۔ ہ ی مجھ س یں اور لطف ی ک آپ ےگھر جھانک تک ن ہ ہ ہے ہ ہ ے

ےروٹھ بھی گئ بارات کی رخصتی ک بعد مجھ س ے ے۔ یں جھک مار کر مجھی کو منانا پڑا ینوں بول ن ۔م ۔ ہ ے ہ

ےمگر کچھ عجیب دل لگی ک ان ساری برائیوں ک ہ ہے یں ر ہباوجود میں ان س ایک دن ک لئ بھی جدا ن ہ ے ے ے

یں پیار کرتی ہسکتی ان سار عیوب ک باوجود میں ان ے ے ۔ ہوں ان میں و کون سی خوبی جس پر میں فریفت ہے ہ ۔ ہ

یں معلوم مگر کوئی چیز ضرور جو ہےوں مجھ خود ن ۔ ہ ے ۔ ہوئ و ذرا معمول س دیر ےمجھ ان کا غالم بنائ ہ ہے۔ ے ہ ے ے

وں ان کا سر و جاتی یں تو میں ب صبر ۔میں گھر آت ہ ہ ے ہ ے ہے۔بھی درد کر تو میری جان نکل جاتی آج اگر تقدیر ان ے

ےک عوض مجھ کوئی علم اور عقل کا پتال، حسن اور ے �ٹھا کر ےدولت کا دیوتا بھی د تو میں اس کی طرف آنکھ ا

یں ی رگز ن یں ہبھی ن دیکھوں ی فرض کی بیڑی ن ۔ ہ ہ ہے۔ ہ ہ ۔ ہ م دونوں کی فطرتوں یں بلک ہرواجی وفاداری بھی ن ہ ہے ہ و ہمیں کچھ ایسی رواداریاں کچھ ایسی صالحیتیں پیدا

Page 343: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں گویا کسی مشین ک کل پرز گھس گھسا کر ےگئی ے ۔ ہ وں ا ور ایک پرز کی جگ دوسرا پرز کام ن و گئ ہفٹ ہ ہ ے ۔ ہ ے ہ ی سڈول، نیا اور خوشنما ل س کتنا ہد سک چا و پ ے ے ہ ہ ہے ے ے م ب خوف، آنکھیں بند وئ رست س و جان ےکیوں ن ہ ے ے ے ہ ے ۔ ہ ہ یں، اس ک نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ ےکئ چل جات ہ ے ے ے یں اس ک برعکس وئ ماری آنکھوں میں سمائ ےاب ۔ ہ ے ہ ے ہ و سکتا ہکسی انجان رست پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ے ر لمح چور ، و جان ک اندیش ہ قدم قدم پر گمرا ہ ے ے ے ہ ہ ہے۔زن کا خوف، بلک شاید آج میں ان کی برائیوں کو ہاور ر ہ

یں ۔خوبیوں س تبدیل کرن پر بھی تیار ن ہ ے ے

ےستاروں س آگ ے

ۃقرا العین حیدر) )

ےکرتار سنگھ ن اونچی آواز میں ایک اور گیت گانا شروع ا تھا جس کو سنت یا االپ ر ت دیر س ما ےکر دیا و ب ہ ہ ے ہ ہ ۔

، اس ےسنت حمید کرتار سنگھ کی پنکج جیسی تانوں س ہ ے ، ساری کائنات س اب اس ےکی خوبصورت داڑھی س ے

و چال تھا و چکی تھی ک اس خوف ہشدت ک ساتھ بیزار ے ہ ہ ے یں و سچ مچ اس خوا مخوا کی نفرت و بیزاری کا ہک ک ہ ہ ہ ہ ~ برا ہےاعالن ن کر بیٹھ اور کامریڈ کرتار ایسا سویٹ فورا ے ہ وتا تو باقی ہمان جائ گا آج ک بیچ میں اگر و شامل ن ہ ہ ے ۔ ے

ہک ساتھی تو اس قدر سنجیدگی ک موڈ میں تھ ک ے ے ے ۔حمید کو زندگی س اکتا کر خود کشی کر جاتی کرتار ے ہ

ہسنگھ گڈو گراموفون تک ساتھ اٹھا الیا تھا ملک پکھراج کا ۔ ی میں ٹوٹ چکا تھا، لیکن خیر ۔ایک ریکارڈ تو کیمپ ہ

ےحمید اپنی سرخ کنار والی ساری ک آنچل کو شانوں ے ہ و ک ت احتیاط س لپیٹ کر ذرا اور اوپر کو ےک گرد ب ہ ے ہ ے

یا کو ب حد ےبیٹھ گئی جیس کامریڈ کرتار سنگھ ک ما ہ ے ے ی لیکن ن معلوم کیسی الٹی پلٹی ہدلچسپی س سن ر ہے ہ ے ےالجھی الجھی ب تکی باتیں اس وقت اس ک دماغ میں ے ی تھیں و "جاگ سوزl عشق جاگ" واال بیچار ہگھسی آ ر ہ ۔ ہ

۔ریکارڈ شکنتال ن توڑ دیا تھا ے

Page 344: اردو ادب کے مشہور افسانے

چکولوں س اس ک سر میں" " بیل گاڑی ک ےافو بھئی ے ہ ے ۔ ہ ت س کام کرن کو ون لگا اور ابھی کتن ب لکا درد ےلکا ے ہ ے ے ہ ہ ہ

یض ک ٹیک لگان کو پڑ ےپڑ تھ پور گاؤں کو ے ے ے ے ہ ے ے۔ ے !" کامریڈ صبیح الدین ک گھونگریال بالوں ک ےتھ "توب ے ے ہ ے۔

وئ دواؤں ک بکس میں س نکل ےسر ک نیچ رکھ ے ے ہ ے ے ے ی نچ ر ہک دواؤں کی تیز بو سیدھی اس ک دماغ میں پ ہ ے ے

ی تھی ک ہتھی اور اس مستقل طور پر یاد دالئ جا ر ہ ے ے وا، بیکار ایک گھسا ت تلخ اور ناگوار ہزندگی واقعی ب ہے ہ ےاور فالتو سا ریکارڈ جس میں س سوئی کی ٹھیس لگت ے

و جاتی تھیں جو وئی تانیں بلند ی مدھم اور لرزتی ہی و ہ ہ ہت تھک چکی تھیں اگر ت ر روں میں قید ر ۔نغم کی ل ے ہ ے ہ ہ ے ےاس ریکارڈ کو، جو مدتوں س ریڈیو گرام ک نچل خان ے ے ے

ےمیں تاز ترین البم ک نیچ دبا پڑا تھا، زور س زمین پر ے ے ہ ت سی ہپٹخ دیا جاتا تو حمید خوشی س ناچ اٹھی کتنی ب ۔ ے ہ وتیں تو تی تھی ک دنیا میں ن ہایسی چیزیں تھیں جو و چا ہ ہ ہ ہ تااور اس وقت تو ایسا لگا جیس سچ مچ اس ےکیسا مز ر ہ ہ

ےن "I dream I dwell in marble halls ے"وال گھس ے ۔ہےوئ ریکارڈ کو فرش پر پٹخ ک ٹکڑ ٹکڑ کر دیا اور ے ے ے ے ہی لطف آ ت وئ اس ب ہجھک کر اس کی کرچیں چنت ہ ے ے ہ ے ا عنابی موزیک ک اس فرش پر، جس پر ایک دفع ہر ے ہے۔ ہ

وئ اس ن ت لک پھلک فوکس ٹروٹ میں ب ےایک ے ہ ے ہ ے ے ہ ےسوچا تھا ک بس زندگی سمٹ سمٹا ک اس چمکیلی ہ سطح، ان زرد پردوں کی رومان آفرین سلوٹوں اور

وئی ان مدھم برقی روشنیوں ہدیواروں میں س جھانکتی ے ، ی تپش انگیز جاز ہک خواب آور دھندلک میں سما گئی ہے ے ے ی وئ سیا ی بجتا ر گا، اندھیر کونوں میں رکھ ہیون ے ہ ے ے ہے ہ لک جھونکوں لک وا ک ےمائل سبز فرن کی ڈالیاں ہ ے ہ ے ہ

یں گی اور ریڈیو گرام پر چکول کھاتی ر ہمیں اس طرح ے ہ ہمیش پولکا اور رمبا ک نئ نئ ریکارڈ لگت جائیں گ ی ے۔ ے ے ے ے ہ ہیں و ی ممکن ک جو باتیں اس قطعی پسند ن ہتھوڑا ہ ے ہ ہے ہ ی چلی جائیںریکارڈ گھست جائیں اور ٹوٹت و تی ےبس ے ہ ہ

ہجائیں لیکن ی ریکارڈوں کا فلسف کیا آخر؟ حمید کو ہے ہ ہ ۔ ےنسی آ گئی اس ن جلدی س کرتار سنگھ کی طرف ے ۔ ہنس یں و ی ن سمجھ ل ک و اس ک گان پر ہدیکھا ک ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ۔

ی ہے۔ر ہ

Page 345: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا تھا "وس وس و ڈھولنا" اف! ےکامریڈ کرتار گائ جا ر ۔ ہ ے یں وت ۔ی پنجابی ک ک بعض الفاظ کس قدر بھونڈ ہ ے ہ ے ے ے ہ ی طریق س بیٹھ بیٹھ تھک ک بانس ک ےحمید ایک ے ے ے ے ے ہ ہ

وا میں اس وئی تی ار آگ کی طرف جھک گئی ب ہس ہ ہ ۔ ے ے ہ ا تھا ۔کا سرخ آنچل پھٹپھٹائ جا ر ہ ے

ت سوٹ ہاس معلوم تھا ک اس چمپئی رنگ کی ساری ب ے ہ ے ا کرت تھ اگر ےکرتی اس ک ساتھ ک سب لڑک ک ے ہ ے ے ے ہے۔

وت تو ونٹ ذرا اور پتل ےاس کی آنکھیں ذرا اور سیا اور ہ ے ہ ہ ترین نمون بن جاتی ی لڑک عورتوں ےایشیائی حسن کا ب ہ ۔ ہ ہ ر یں یونیورسٹی میں وت ہک حسن ک کتن قدردان ۔ ہ ے ہ ے ے ے

ےسال کس قدر چھان بین اور تفصیالت ک مکمل جائز ے ےک بعد لڑکیوں کو خطاب دئ جات تھ اور جب نوٹس ے ے ے رست لگتی تھی تو ہبورڈ پر سالl نو ک اعزازات کی ف ے وئی ار کرتی ہلڑکیاں کیسی ب نیازی اور خفگی کا اظ ہ ے

ےاس کی طرف نظر کئ بغیر کوریڈور میں س گزر جاتی ے ےتھیں کمبخت سوچ سوچ ک کیس مناسب نام ایجاد ے ۔ ر ایکسپریس"، ہکرت تھ "عمر خیام کی رباعی"، "د ہ ے۔ ے

نقوشl چغتائی" ،"It’s Love I’m after" ،""بال آف فائر۔"، بلڈ بنک "

و ی تھی "کیا بجا ہگاڑی دھچک کھاتی چلی جا ر ۔ ہ ے ےگاکامریڈ؟"گاڑی ک پچھل حص میں س منظور ن ے ے ے ے

۔جمائی ل کر جتندر س پوچھا ے ے

یں" وئ ایک گھنٹ بھی ن میں چلت ہساڑھ چار ابھی ہ ے ہ ے ہ ۔ ے " جتندر اپنا چار خان کوٹ گاڑی بان ک پاس پرال پر ےگزرا ہ ۔ نی پر سر رکھ چپ چاپ پڑا تھا شکنتال بھی ، ک ۔بچھائ ے ہ ے ت دیر س اس کوشش ےشاید سون لگی تھی حاالنک و ب ہ ہ ہ ے

ےمیں مصروف تھی ک بس ستاروں کو دیکھتی ر و اپن ہ ہے۔ ہ ہپیر ذرا اور ن سیکڑتیسکیڑتی لیکن پاس کی جگ کامریڈ ہ ۔کرتار ن گھیر رکھی تھی شکنتال بار بار خود کو یاد دال ے

یں ی تھی ک اس کی آنکھوں میں اتنی سی بھی نیند ن ہر ہ ہ ، ئ ذرا ویسی یعنی نا مناسب سی بات ہےگھسنی چا ے۔ ہ

ےلیکن دھان ک کھیتوں اور گھن باغوں ک اوپر س آتی ے ے ے وا میں کافی خنکی آ چلی تھی اور ستار مدھم ےوئی ہ ہ" اور اب کرتار ۔پڑت جا ر تھ "بس بس و ڈھولنا ے ے۔ ہے ے

ا تھا ک اپنا صاف اتار کر ایک ہسنگھ کا جی ب تحاشا چا ر ہ ہ ہ ے

Page 346: اردو ادب کے مشہور افسانے

اتھ پھیال ک ایک ایسی زور دار وا میں ےطرف ڈال د اور ہ ہ ے ہانگڑائی ل ک اس کی ساری تھکن، کوفت اور درماندگی ے یں کھو جائ یا صرف چند لمحوں میش ک لئ ک ےمیش ہ ے ے ہ ہ ہ ہ

لم ک ی انسان بن جائ جو کبھی ج ےک لئ دوبار و ہ ے ہ ہ ے ے لکور کھاتا دیکھ کر امرجیت ر پانیوں میں چاند کو ےسن ہ ے ہ ، جب ےک ساتھ پنکج کی سی تانیں اڑایا کرتا تھا ی لمح ہ ۔ ے ہک تاروں کی بھیگی بھیگی چھاؤں میں بیل گاڑی کچی

ی تھی اور جب ک وئی آگ بڑھتی جا ر ہسڑک پر گھسٹتی ہ ے ہ ےسار ساتھیوں ک دلوں میں ایک بیمار سا احسا س ے ا تھا ک پارٹی میں کام کرن کا آتشیں جوش و ےمنڈال ر ہ ہ

۔خروش کب کا بجھ چکا تھا

ےوا کا ایک بھاری سا جھونکا گاڑی ک اوپر س گزر گیا ے ہران لگ وا میں ل ےاور صبیح الدین اور جتندر ک بال ے ہ ہ ے ہلیکن کرتار سنگھ لیڈیز کی موجودگی میں اپنا صاف ےکیس اتارتا؟ اس ن ایک لمبا سانس ل کر دواؤں ک ے ے ے

ہبکس پرسر ٹیک دیا اور ستاروں کو تکن لگا ایک دفع ۔ ے ا تھا ک کامریڈ تم اپنی داڑھی ک ےشکنتال ن اس س ک ہ ہ ے ے

و اور ی ک اگر تم ائیر فورس ہباوجود کافی ڈیشنگ لگت ہ ہ ے ےمیں چل جاؤ تو اور بھی killing اف ی لڑکیاں ہلگن لگو ۔ ے !

" " صبیح الدین ن اپنا سگریٹوں کا ڈب ہکامریڈ سگریٹ لو ے ۔ ےمنظور کی طرف پھینک دیا جتندر اور منظور ن ماچس ۔

ےک اوپر جھک ک سگریٹ سلگائ اور پھر اپن اپن ے ے ے ے میش عبد الل اور ہخیالوں میں کھو گئ صبیح الدین ہ ہ ے۔

یں صبیح ۔کریون ا پیا کرتا تھا عبد الل اب تو ملتا بھی ن ہ ہ ۔ ے ی رئیسان خیاالت کا مالک تھا اس ت ۔الدین ویس بھی ب ہ ہ ہ ے

ت بڑا تعلق دار تھا اس کا نام کتنا ۔کا باپ تو ایک ب ہ ہ ہاسمارٹ اور خوبصورت تھا صبیح الدین احمدمخدوم زاد ۔ ! اس ک پاس دو بڑی ےراج صبیح الدین احمد خاں! افو ہ ہ

ے۔چمکدار موٹریں تھیں ایک موریس اور ایک ڈی ک ڈبلیو ۔ ۔ ی آئی ایم ایس میں جان ےلیکن کنگ جارجز س نکلت ہ ے ے

ہکی بجائ و پارٹی کا ایک سر گرم ورکر بن گیا حمید ۔ ہ ے ت پسند کرتی تھی آئیڈیل قسم ک ےایس آدمیوں کو ب ۔ ہ ے

ےلیکن اگر صبیح الدین اپنی موریس ک اسٹیئرنگ پر ایک تا ک حمید مجھ ےبازو رکھ ک اور جھک ک اس س ک ہ ہ ہ ے ے ے

تو ی زیاد ت یں، ب ت اچھی لگتی اری سیا آنکھیں ب ہتم ہ ہ ہ ہ ہ ہ

Page 347: اردو ادب کے مشہور افسانے

دیز ون ~ اس ایک زور دار تھپڑ رسید کرتی " ہہیقینا ہ ۔ ے ےایڈیٹس!"صابن ک رنگین بلبل ے !

ےکرتار سنگھ خاموش تھا سگریٹ کی گرمی ن منظور ۔ وا میں زیاد ہکی تھکن اور افسردگی ذرا دور کر دی تھی ہ ۔

۔۔ٹھنڈک آچکی تھی

ہجتندر ن اپنا چار خان کوٹ کندھوں پر ڈال لیا اور پرانی ے ےپرال میں ٹانگیں گھسا دیں منظور کو کھانسی اٹھن ۔

ئیں " یں پین چا ۔لگی "کامریڈ تم کو اتن زیاد سگریٹ ن ہ ے ہ ہ ے ۔ ا منظور ن اپن مخصوص مدردی ک ساتھ ک ےشکنتال ن ے ۔ ہ ے ہ ے ٹائی اور سگریٹ ہانداز س زبان پر س تمباکو کی پتی ے ے

وئی راتی ہکی راکھ نیچ جھٹک کر دور باجر کی ل ہ ے ے ی ہبالیوں ک پر افق کی سیا لکیر کو دیکھن لگا ۔ ے ہ ے ے

ا کرتا تھا ۔لڑکیاں! طلعت کیسی فکر مندی ک ساتھ ک ہ ے ئیں یں سردیوں میں ٹانک استعمال کرن چا ۔"منظور! تم ہ ے ہ

اسکاٹس ایملشن یا ریڈیو مالٹ یا آسٹو مالٹطلعت، ایرانیلی مرتب جب بوٹ کلب ہبلی! پ ہ Regatta میں ملی تھی تو

یںاور اوپر س ےاس ن "او گوش! تو آپ جرنلسٹ ہ ہ ے یڈی ا تھا ک !" اس انداز س ک ہکمیونسٹ بھی افو ہ ہ ے ہ ۔

ےلیماری بھی رشک کرتی پھر مرمریں ستون ک پاس، پام ۔ ےک پتوں ک نیچ بیٹھا دیکھ لیا تھا اور اس کی طرف آئی ے ے

~ اس ن پوچھا تھا مدردیقینا ےتھیکتنی ۔ ہ :"

اؤ از الئف؟" ہیلو چائلڈ ۔ "ہ

Ask me another ا تھا ۔منظور ن ک ہ ے

" اں کھائ " فکرl ج و گا ! لیکن ی تم سب کا آخر کیا ےالل ہ ۔ ہ ہ ہ روں پر تو ار چ یں سچ مچ تم ی مر جا ر ہجا ر ے ہ ۔ ہ ہے ے ہے۔ ہ ؟ مسوری چلت اں کا پروگرام ےنحوست ٹپکن لگی ک ہے ہ ہے۔ ے

اں، ہو؟ پر لطف سیزن ر گا اب کی دفع بنگال؟ ار ے ہ۔ ہے ہشیں اور دعائیں ترین خوا اں میری ب ہبنگال تو ٹھیک ہ ہ ہے۔ ۔

یں پکچر چلو گ "جین آئر" اس قدر ار ساتھ ے۔تم ۔ ہ ے ہ ےغضب کی گوش!" پھر و چلی گئی پیچھ کافی کی ۔ ہ ہے

ا اور دیواروں لکا شور اسی طرح جاری ر لکا ہمشین کا ہ ہ ےکی سبز روغنی سطح پر آن جان والوں کی پرچھائیں ے

Page 348: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں اور پھر کلکت آن س ایک روز قبل ےرقص کرتی ر ے ے ہ منظور؟ ون " ی تھی ہہمنظور ن سنا ک و اصغر س ک ر ہ ۔ ہ ہہ ے ہ ہ ے "

و تو ستاروں کی ا تھا ک لک گنگناتا ر لک ہصبیح الدین ۔ ہ ے ہ ے ہ ~ ۔شمعیں بجھا دیں، ستاروں کی شمعیں بجھا دیں یقینا ونٹوں پر ایک تلخ سی ن کی دیر حمید ک ہبس ک ے ہ ہے۔ ے ہ

ٹ بکھر ک ر گئی دور دریا ک پل پر گھڑگھڑاتی ےمسکرا ۔ ہ ے ہ ی تھی اس ک ساتھ ساتھ روشنیوں کا ےوئی ٹرین گزر ر ۔ ہ ہ

ا، جیس ایک بلوری میز پر رکھ ےعکس پانی میں نا چتا ر ے ہ ےوئ چاندی ک شمع دان جگمگا اٹھیں چاندی ک شمع ۔ ے ے ہوئی بالکونی، آئس ہدان اور انگوروں کی بیل س چھپی ے ےکریم ک پیال ایک دوسر س ٹکرا ر تھ اور برقی ہے ے ے ے ے وئی و اپن ےپنکھ تیزی س چل ر تھ پیانو پر بیٹھی ہ ہ ے۔ ہے ے ے

و یروئن سمجھن پر مجبور ہآپ کو کس طرح طربی کی ے ہ ہ ۔گئی تھی

"Little Sir Echo how do you do Hell hello wont you come over nad dance with me۔"

ےپھر رافی اسٹیئرنگ پر ایک بازو رکھ کر رابرٹ ٹائیلر ک ت اری ی سیا آنکھیں مجھ ب تا تھا "حمید تم ہانداز س ک ے ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے " حمید ک لئ کیا ن ی زیاد ت " ی ب ی زیاد ت یںب ہپسند ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ےتھا؟ اور جب و سیدھی سڑک پر پینتالیس کی رفتار س ہ ی ہکار چھوڑ کر و "I dreamed well in marble halls" وتی ہگانا شروع کر دیتا تو حمید ی سوچ کر کتنی خوش ہ ہ وتا ک راف کی ماں موزارٹ ےاور کچھ فخر محسو س ہ ہ

وئی آسٹرین اس کی نیلی چھلکتی م وطن ہکی ۔ ہے ہ ! اور کسی گھن ےآنکھیں، اس ک نارنجی باالف الل ہ ے

ر جاتی اور حمید ہناشپاتی ک درخت ک سائ میں کار ٹھ ہ ے ے ے وئ سوچتی ک بس میں بسکٹوں میں ہجام کا ڈب کھولت ے ہ ے ہ یں کترتا ر گا اس کی بیوک وں گی رافی ان ۔جام لگاتی ہے ہ ۔ ہ

ےپینتالیس کی رفتار پر چلتی جائ گی اور ی چناروں س ہ ے و گی لیکن ستاروں کی وئی سڑک کبھی ختم ن ۔گھری ہ ہ ہ

۔شمعیں آپ س آپ بجھ گئیں اندھیرا چھا گیا اور ے ےاندھیر میں بیل گاڑی کی اللٹین کی بیمار روشنی ٹمٹما

ی تھی ۔ر ہ

Page 349: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےو الال ال دور کسی کھیت ک کنار ایک کمزور س کسان ے ے ہانک ہن اپنی پوری طاقت س چڑیوں کو ڈران ک لئ ے ے ے ے ے ےلگائی گاڑی بان اپن مریل بیلوں کی دمیں مروڑ مروڑ ۔

ا تھا اور منظور کی کھانسی اب تک یں گالیاں د ر ہکر ان ے ہ ۔۔ن رکی تھی ہ

وئ ےحمید ن اوپر دیکھا شبنم آلود دھندلک میں چھپ ہ ے ے ۔ ے ہ یں و گئی تھی ک لکی سفیدی پھیلنی شروع لکی ہافق پر ہ ہ ہ وئی صدا بلند ہدور کی مسجد میں س اذان کی تھرائی ے ی تھی حمید سنبھل کر بیٹھ گئی اور غیر ارادی ہو ر ۔ ہ ہ

ہطور پر آنچل س سر ڈھک لیا جتندر اپن چار خان کوٹ ے ۔ ے ےکا تکی بنائ شاید لیٹن کوارٹر اور سو سو ک خواب دیکھ ے ہ ا تھا مائیرا، ڈونا مائیرا حمید کی ساری ک آنچل کی ےر ہ ۔ ۔ ہ ی را ر ہسرخ دھاریاں اس کی نیم وا آنکھوں ک سامن ل ہ ے ے ، جن کی جلتی یب شعل وئ م ےتھیں ی سرخیاں، ی تپت ہ ے ہ ے ہ ہ ۔ ےوئی تیز روشنی آنکھوں میں گھس جاتی تھی اور جن ک ہ

ےلرزت کپکپات سایوں ک پس منظر میں گرم گرم راکھ ے ے وئ سناٹ میں اس ک دل کو ےک ڈھیر رات ک اڑت ے ے ہ ے ے ے ےاپن بوجھ س دبائ ڈال ر تھ مائیرا، اس ک نقرئی ے۔ ہے ے ے ے

وئی ریل کی پٹڑیاں اور ٹوٹ ، اس کا گٹار، اکھڑی ق ےق ہ ہے ہ ےوئ کھمب سانتا کالؤڈ کا و چھوٹا سا ریلو اسٹیشن ہ ے۔ ے ہ

ےجس ک خوبصورت پلیٹ فارم پر ایک اتوار کو اس ن ے ہسرخ اور زرد گالب ک پھول خرید تھ و لطیف سا، ے۔ ے ے

ےرنگین سا سکون جو اس مائیرا ک تاریخی بالوں ک ے ے وتا تھا ۔ڈھیر میں ان سرخ شگوفوں کو دیکھ ک حاصل ہ ے ےو تھک ک گٹار سبز پر ایک طرف پھینک دیتی تھی اور ے ہ وتا تھا ک ساری کائنات سرخ گالب اور ہاس محسوس ہ ے

ائ سحری کی کلیوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لیکن ہے۔ستار ے ہ ہ وئ اس ریلو اسٹیشن ک ےتاکستانوں میں گھر ے ے ہ ے

ٹ اور طیار شکن ہپرخچ اڑ گئ اور طیارو ں کی گڑگڑا ہ ے ے ریں "Rose monde"توپوں کی گرج میں شوبرٹ ہکی ل و گئی ت دور فیڈ آؤٹ یں ب ہاور گٹار کی رسیلی گونج ک ہ ہ ا، وا میں پھٹپھٹاتا ر ہاور حمید کا آنچل صبح کی ٹھنڈی ہ ہ ےاس سرخ پرچم کی طرح جس بلند رکھن ک لئ جدو ے ے ے د اور کشمکش کرت کرت و تھک چکا تھا، اکتا چکا تھا ۔ج ہ ے ے ہ

۔اس ن آنکھیں بند کر لیں ے

Page 350: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ۔سگریٹ لو بھئی " صبیح الدین ن منظور کو آواز دی ے ۔

ت دیر س زیر لب بھیرو" و گا؟" شکنتال ب ےاب کیا بج کیا ہ ہ ی تھی حمید سڑک کی " گنگنا ر ن پیار ہکا "جاگو مو ۔ ہ ے ہ ا تھا ک ی تھی اور کرتار سنگھ سوچ ر ہریکھائیں گن ر ہ ہ

ے۔"وس وس و ڈھولنا" پھر س شروع کر د ے ے

ت دور تھا ۔گاؤں ابھی ب ہ

ٹیلی گرام

(جوگندر پال)

، ا ہےپچھل بار برس س شیام بابو تار گھر میں کام کر ر ہ ے ہ ے یں آئی ک ی ہلیکن ابھی تک ی بات اس کی سمجھ میں ن ہ ہ ہ

ےب حساب الفاظ برقی تاروں میں اپنی اپنی پوزیشن میں و یں، کبھی بدحواس ت ہجوں ک توں کیوں کر بھاگت ر ہ ے ہ ے ے ؟ ٹکرا جائیں تو الکھوں کروڑوں یں جات ےکر ٹکرا کیوں ن ہ ی دم توڑ دیں اور باقی ک الکھوں کروڑوں کی ےٹکرات ہ ے

ےقطاریں ٹوٹ جائیں تو و اپنی سمجھ بوجھ س نئ ے ہ و کر کچھ اس حالت میں ری ہرشتوں میں منسلک نچیں "بیٹ ن ماں کو جنم دیا ہےسیونگ سٹیشنوں پر پ ے ے ہ

ےسٹاپ مبارک باد!" یا "چوروں ن قانون کو گرفتار کر لیا اں اس میں کیا "یا وا ہ" یا "افسوس ک زند بچ پیدا ہے۔ ہ ہ ہ ہ ہے۔

و کر ؟ شیام بابو مشین کی طرح ب الگ ہمضائق ے ہے ہ ےمیکانکی انداز میں برقی پیغامات ک کوڈ کو رومن

ی ا لیکن اس مشین ک اندر ہحروف میں لکھتا جا ر ے ہے ہ ا وئی انسانی سوچوں کا تاالب بھر ر ہےاندر ان بوکھالئی ہ ہ وں ؟ جیسی زندگی، ویس پیغام "کرتا ہکیا مضائق ے ہے ہ ےسٹاپ کشور " اس ن کسی کشور ک تار ک کوڈ ک ے ے ے یں اور و اس بات س ےآخری الفاظ کاغذ پر اتار لئ ہ ہ ے وئ ایک ایک لفظ کو قلم بند کرتا جائ وت ے۔برآمد ے ہ ے ہ

ےسوچنا سمجھنا اس کا کام جس ک نام پیغام موصول ہے جوم ہوا جب دھیرج کو کوئی پکار تو آواز کو تو سارا ے ہی مڑ کر دیکھتا ک کیا ہےسن لیتا لیکن صرف دھیرج ہ ہے ہ ہے ہخالف معمول ن معلوم کیا سوچ کر شیام بابو تار کا

ےمضمون پڑھن لگا "شادی روک لو سٹاپ میں تم س ۔ ہے ے

Page 351: اردو ادب کے مشہور افسانے

نس پڑا و " و وں سٹاپ کشور ا محبت کرتا ہب انت ہے ہ ہ ۔ ہ ہ ے نگام میں ب چار تھوڑی سی محبت کر ک ےدوسر ہ ے ۔ ے ہ ے

یں و گا، مگر اب کوئی را ن ہباقی محبت کرنا بھول گیا ہ ہ ی ی تو باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محبت ہسوجھ ر ہے ہ

ی محبت ا محبت ہمحبت کئ جان کا اعالن کر ر ہے۔ ہ ے ے و جائ وتا ب بی؟ طالق، ڈارلنگ! طالق ےکرن س کیا ہ ے ہے ہ ے ے

ہے۔مگر محبت قائم ر

شیام بابو ایک اور تار کا ی مضمون پڑھن لگا آپ ہےاور ے ہ ۔ وا ہےکی باپ کی موت کی خبر پا کر مجھ ب حد دکھ ہ ے ے وں، اپن نس دیا میں آپ کو یقین دالتا ےشیام بابو پھر ہ ہے۔ ہ

وا ک لفظوں میں ہباپ کی موت پر مجھ اتنا افسوس ہے ہ ے یں کر سکتا ۔بیان ن ہ

، و بھائی؟"\ تاک میرا رونا نکل آئ آیئ ےتو کیوں کر ر ے۔ ہ ہ ہے ے۔آپ بھی میر ساتھ رویئ ے

ا ک بندروں کو چپ کیس کرایا یں آ ر ےسمجھ میں ن ہ ہے ہ ہ یں ی چل جا ر ۔جائ سب ک سب روت ہ ہے ے ہ ے ے ے۔

و؟ ہار بھائی، کیوں رو ر ہے ے

؟ اس س پوچھو ۔مجھ کیا پت ے ہ ے

و؟ ی بتا دو بھائی، کیوں رو ر ہتم ہے ہ

؟ اس س پوچھو ۔مجھ کیا پت ے ہ ے

؟ ہتم؟" مجھ کیا پت ے

و؟"\ بس یوں و بھائی بتاؤ، کیوں رو ر ہتم تو آخری بندر ہے ہ ہےی سوچا ک ذرا فرصت میسر آئی تو ایک بار جی جان ہ ہو گی، ہس رولوں میرا ایک کام کیجئ آپ کو زحمت تو ے۔ ۔ ے

ےمگر میر رون کو کسی تگڑی سی الم ناک خبر میں ے ےپیش کرن ک لئ ایک ارجنٹ ٹیلی گرام کا ڈرافٹ تیار ے ے ، و تو ریئ ہکر دیجئ لکھئ میری ماں مر گئی ٹھ ے ہ ہے ے ے۔

وئی تھی اس دن ۔غریب اسی روز مر گئی تھی جب بیو ہ ہ ! میرا یں دیا لکھئ ی ن م ن اس کی طرف دھیان ےس ہ ہ ے ہ ے یں، سب کو معلوم ی لکھئ مگر ن اں، ی ہےبھائی مرگیا ہ ے ہ ہ ہے یں، و تو ن ن یں بنتی میری ب ماری آپس میں بالکل ن ہک ہ ہ ہ ہ ہ

Page 352: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ، میں ی لکھئ اں! ی ی مر چکی میں ار ل ہپ ے ہ ہ ے ہے ہ ے ہ وں مجھ سب کو فوری طور پر خبر کرنا ک ہمرگیا ہے ے ۔ ہ

وں ی مرگیا ۔میں ہ ہ

وں سٹاپ شیام بابو ک خود کار قلم ےمبارک باد پیش کرتا ہ ےن جلدی جلدی لکھا اور و اپنی تحریر س ب خبر سا ے ہ ے ، مجھ دیکھ کر کون ک سکتا ک میں زند ا ہسوچ ر ہ ہے ہہ ے ہے ہ

وں تو ی میز بھی زند جس پر جھک کر ہےوں میں زند ہ ہ ہ ہ ۔ ہوں چونک ی میز کھائ پئ سوئ ا ےمیں اپنا کام کئ جا ر ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہبغیر زند ر سکتی اس لئ اس کی ڈیوٹی ی ک ہے ہ ے ہے۔ ہ ہ

ےمار دفتر ک اس کمر میں چوبیس گھنٹ خدمت بجا ے ے ے ہےالن ک لئ اپنی چاروں ٹانگوں پر کھڑی ر اور مجھ ہے ے ے ے وتا ہےچونک اپنی مشین کی ٹک ٹک کو بھی چالئ رکھنا ہ ے ہ

اں ڈٹ کرکام ہاس لئ میر لئ ی آرڈر ک آٹھ گھنٹ ی ے ہ ہے ہ ے ے ے ےکرو او ر باقی وقت میں اپنی مشین کی دیکھ بھال ک

وں؟ اں ی تو میں جیتا ک اں، ی ہسار دھند سنبھالو ہ ہے۔ ہ ہ ے ے ہے۔دفتر میں تو صرف پروڈیکشن کا کام مشین چلنا بند

ےو جائ تو پروڈیکشن پر برا اثڑ پڑ گا اس لئ سار ے ۔ ے ے ہتی اور اس ک اں چلتی ر ےدفتری ٹائم میں تو مشین ی ہے ہ ہ

ر روز ساری مشین کو کھول کر صاف کرنا ہبعد مجھ ے ، اس ک ایک ، اس کی آئیلنگ گریزنگ کرنا پڑتی ےپڑتا ہے ہے

اور ی سارا کام بھی ہایک ڈھیل پرز کو کسنا پڑتا ہے۔۔ ے ے وتا ی انجام دینا ہے۔مجھ اکیل ہ ہ ے ے

، جب س شیا م بابو کی ےپچھل ساڑھ سات برس س ے ے ے یں اپن ماں باپ ک گاؤں ، اس کی بیوی و وئی ےشادی ے ہ ہے ہ ی شادی ک موقع پر و اس ی ک ساتھ ر ر ہمیں ان ے ہے۔ ہ ہ ے ہ ر تول آیا، لیکن پھر جب ےکی ڈولی اٹھوا کر گاؤں س با ہ ے اں ل جائ تو ڈولی کا مونس ہسمجھ میں ن آیا ک اس ک ے ے ہ ے ہ ہ ت اچھا کیا بیٹا ہواپس گاؤں کی طرف مڑوا لیا ی تم ن ب ے ہ ماری بیٹی کو گاؤں ا تھا ک ایک بار ہاس کی ساس ن ک ہ ہ ے و گئی اب ر ل گئ کم س کم رسم تو پوری ۔س با ہ ے ے۔ ے ہ ے یں ر ی گھر بھی تو اسی و تو ب شک ساری عمر ی ہچا ہے۔ ہ ے ہ اں اس و یں ج ہکا لیکن اس کا کوئی اپنا گھر کیوں ن ے ہ ہ ہے وتی وئی انسانیت کی آبیاری ہل آتا تو اس میں بوئی ہ ے

تی ۔ر ہ

Page 353: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہشروع شروع میں تو شیام با بو کی ب چینی کا ی عالم ے وتا تم ہتھا ک سوت میں بھی بیوی ک گاؤں کا رخ کئ ے ے ے ہ یں سنی دتی میں دن رات کرائ پر کوئی اچھا ےگھبراؤ ن ۔ ہ ہ ی کوئی وں جیس وا م میں جٹا ہسا کمر لین کی م ے ۔ ہ ہ ہ ے ہ و اس اں ل آؤں گا مگر برا یں اسی دم ی ہمل گیا، تم ے ہ ہ ر کا، جو اپن چھوٹ دل میں ایک ک اوپر ایک ےبڑ ش ے ے ہ ے ائش ک وئ مگر اتنی اونچائی پر ر ےکئی کمر بنائ ہ ہے ے ہ ے ے اں س ن کی بجائ ی اں ر ےکرائ ک خیال س اس ی ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ے

ےلڑھک کر خود کشی کی سوجھتی پور ساڑھ سات ے ہے۔ یں و میاں اور بیوی ساڑھ ےبرس اسی طرح گزر گئ ہ ۔ ہ ے اں شیام بابو تین سو ۔پانچ سو میل ک فاصل پر و ہ ے ے

پینسٹھ دن تک اپنی بیس دن کی ارنڈ لیو کا انتظار کرتاتا اور وقت آن پر گاڑیوں، بسوں اور تانگوں کو بدل ےر ہ

وئ ےبدل کر و گویا اپن دو پیروں س سرپٹ بھاگت ہ ے ے ے ہ وتی ک اپنی ش اتنی شدید نچتا اور اس کی خوا اں جا پ ہو ہ ہ ہ ہ

وئی بیوی پر و ب اختیار کسی درند کی ےتیار بیٹھی ے ہ ہ ر سال گیا، ہطرح ٹوٹ پڑتا ایک دو تین سال تک تو و ہ ۔

و گیا، ہلیکن چوتھ سال عین چھٹی ک دنوں میں و بیمار ہ ے ے وا تو اس ک بعد ڈھائی سال ےپھر پانچویں سال جو جانا ہ اں جان میں یں جا سکا جو پیس و ےمیں ایک بار بھی ن ہ ے ۔ ہ وں گ ان میں س آدھ بھی منی آرڈر کرا دوں ےضائع ے ے۔ ہ اں، اس کا ایک دو سال ہگا تو بیسیوں کام نکال ل گی ہ ے

ےلڑکا بھی جس ک بار میں اس کی بیوی ن اس لکھا ے ے ے ہے ےتھا ک و اس اپنی پانچویں سال کی چھٹی پر اس کی ہ ہ

�کوکھ میں ڈال آیا تھا لیکن شیام بابو اپنا حساب کتاب کر یں نچا تھا ک اس کا بیٹا اس کا بیٹا ن ۔ک اس نتیج پر پ ہ ہ ہ ے ے ہشاید اسی وج س ڈھائی سال ک اس عرص میں و ے ے ے ہ یں گیا تھا لیکن اس سلسل ےایک بار بھی اس ک پاس ن ہ ے

یں لکھاجو سو ٹھیک ہےمیں اس ن بیوی کو کبھی کچھ ن ہ ے ؟ اور میں بھی کیا کروں؟کبھی اچھ دن ےو بھی کیا کر ے ہ ہے

و جائ گا ۔آ گئ تو سب اپن آپ ٹھیک ے ہ ے ے

م دونوں کا وا تو مار بچ کو اس کا ہاس اور اس ک ہ ے ے ہ ے ے یں م چین س ر یں اپن پاس ل آؤں گا اور پھر وا ی ہی ے ہ ے ے ہ ہ ہ

یں گ ، بڑ چین س ر ے۔گ ہ ے ے ے

Page 354: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا ہے۔اس ک دفتر کا کوئی ساتھی اس کا کندھا جھٹک ر ہ ے و گیا اور و رکی پڑی ہمشین میں شاید کوئی نقص پیدا ہے ہ

!ہے شیام بابو

یں ڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول لی ۔آں ں! شیام بابو ن ہ ہ ے

۔طبیعت خراب تو گھر چل جاؤ ے ہے

ی ذرا اونگھن لگا تھا وں، یوں یں ٹھیک ےکون سا گھر؟ ن ہ ہ ہ ار لئ پانی ےٹک ٹک ٹک ٹک!مشین پھر چلن لگی تم ے ہ ہے۔ ے

"منگواؤں؟

وں ۔ار بھائی، ک دیا نا، ٹھیک ہ ہہ ے

وئ ےاس ک ساتھی ن تعجب س اس ک کام پر جھک ہ ے ے ے ے ے ہے۔سر کی طرف دیکھا اور اپن کام میں الجھ گیا ے ہے

ہے۔شیام بابو کو اپنا جی اچانک بھر ابھرا سا لگن لگا عام ے وتی وتا ک اس اپنی خوشی کی خبر ی ہےطور پر تو ی ہ ے ہ ہے ہ ہ

ی وتا ب خبری میں ہن اداسی کی اس بس جو بھی ے ہے ہ ے ۔ ہ ا اور یوں وتا ک و کیا کر ر یں ی ن ہےوتا اس معلوم ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ

وتا چال جاتا و ب خبر سا اپن ےی سب کچھ بخوبی ے ہ ہے۔ ہ ہنچتا اور اسی حالت میں سار دن ےآپ دفتر میں آ پ ہے ہ ےقلم چال چال کر اپن ٹھکان پر لوٹ آتا اور پھر دوسر ہے ے ے

ہے۔دن صبح کو عین ویس کا ویسا ڈیوٹی پر آ بیٹھتا یعنی ے و ؟ کوئی ، کیا ، کیوں وتا ک و کون یں ی ن ہمعلوم ہے ہے ہے ہ ہ ہ ہ ہ اں اپنی سیٹ و گئی؛ و ی و اس دن تو حد ہتو معلوم بھی ہ ہ ہ

ی کھڑا اں اس ک قریب ہپر بیٹھا اور اس کا باس ی ے ہ ہے ؟"\شیام بابو شیام اں ، بھئی، شیام بابو آج ک ا ہےپوچھ ر ہ ہے ہ ، مگر ا ہےبابو!شیام بابو یقینی طور پر اس کی آواز سن ر ہ

س سر! یں دیتا یں ~، جواب کیوں ن ا تو فورا ۔سن ر ہ ہ ہے ہرن ماری آنکھوں میں ٹھ ر شاید ےایس بھول بھٹک چ ہ ہ ے ہ ے ے ے

یں ان س مخاطب ےکی بجائ روحوں میں لڑھک جات ۔ ہ ے ے ی تھوڑی س جان س ولو، اپنی ی اندر و تو اپن ےونا ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

یں ی یں ویس یں زند کرلو، ورن ی تو جیس ۔ان ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

ہےگوشت کو رگوں میں خون دوڑن کی اطالع ملتی ر تو ے و جاتا جب ، ورن ب خبری میں مٹی تا ہے۔ی زند ر ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ

Page 355: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےشیام بابو کی اپنی زندگی ب پیغام تو اس کیس ے ہے ے و ک ٹیلی گراموں ک ٹیکسٹ برقی کوڈ کی ےمحسوس ہ ہ

یں، یا دھاڑیں مار مارکر رو نس ر ہاوٹ میں کھلکھال کر ہے ہ یں سوکھی مٹی ک یں، یا تجسس س اکڑ پڑ ےر ۔ ہ ے ے ے ہ ہے

، اس اس س کیا؟ شیام ےدل پر آپ کچھ بھی لکھ دیجئ ے ے ؟ ا ہےبابو کو اس س کیا، ک کوئی کس کیا پیغام بھیج ر ہ ے ہ ے یں، محبت کا یا ہاس کی قسمت میں تو کسی کا پیغام ن ےنفرت، خوشی یا غم کا اس کیا؟ ٹیلی گراموں ک گرم ے ےگرم ٹیکسٹ کا کوڈ اس ک ٹھنڈ قلم سولی س لٹک ے ے تا ی لو، وتا ر ہکر سپاٹ سی صورت لئ کاغذ پر ڈھیر ہے ہ ہ ے یں، الفاظ کیوں یں، بس الفاظ ہالفاظ تو نر الفاظ ہ ے

نسو، روؤ، یا جو بھی ؟ ان کو پڑھ ک ہنسیں یا روئیں گ ے ے ہی کرو ی لو ہکرو، تم ہ !

ہلیکن اس وقت ی ک شیام بابو کو اپنا جی یک بارگی ہے ہ ت بھرا بھرا لگن لگا سوچوں کا تاالب شاید بھر بھر ہے۔ب ے ہ نچا اور و انجان میں تیرن لگا ہےک اس ک دل تک آپ ے ے ہ ہے ہ ے ے

ہے۔اور سوکھی مٹی میں جان پڑن لگی ے

وں سٹاپ اور عین اس ہسٹاپ میں بدیس س لوٹ آیا ے یڈ ہوقت صاحب ک چپراسی ن اس کی آنکھوں ک نیچ ے ے ے ے

ہےآفس کا ایک لیٹر رکھ دیا اس ن لیٹر پر نظر ڈالی ے ہے۔ وئ اس دوبار ہاور پھر چونک کر خوشی س کانپت ے ے ہ ے ے

ہپڑھن لگا اس سرکاری طور پر اطالع دی گئی ک ہے ے ہے۔ ے و گیا ار نام دو کمروں کا کوارٹر منظور ہےتم ہ ے ہ !

۔کیدار بابو جمیلکشن!ادھر دیکھو دوستو دیکھو، میرا کیا ؟ ہےلیٹر آیا "

؟ ہےکیا کیا

و گیا ہےمیرا کوارٹر منظور ہ !

اں ؟! و گیا ا کوارٹر منظور ائیں، کیا ک وا؟ ہتو کیا ہے ہ ہ ہ ہ !

و جائ شیام بابو ت اچھا! سب ک لئ چائ ت اچھا!ب ےب ہ ے ے ے ہ ہ !

و و تو جو چا ی کیا، کچھ ادھار د سکت ہار چائ ہ ے ے ے ہ ے ے ۔منگوا لو

Page 356: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں ی تو ہاں، تم فکر ن کرو میں سارا بندوبست کئ دیتا ہ ے ۔ ہ ہوٹل و گیا شیا م بابو!راموادھر آؤ رامو، جاؤ ی اچھا ت ہب ہ ہ ہ و شیام بابو؟ ہوال کو بال الؤ جاؤاب بھابی کو کب ال ر ہے ے

ی جاؤں گا کیدار بابو! ہآج چھٹی کی درخواست د کر ے ا ہےشیا م بابو قصور میں اپن کوارٹر میں بیٹھا کھانا کھا ر ہ ے ا کیا نام ہےاور اس ک کندھوں پر اس کا لڑکا کھیل ر ہے ہ ے ےاس کا؟دیکھو نا، دماغ پر زور ڈال بغیر اپن اکلوت بچ ے ے ے

یں شکر یں آتا کوئی بات ن ی تو نام بھی یاد ن ہکا اپنا ۔ ہ ہے ہ یں و جات ی گاڑھ اور میٹھ ہاور دودھ کھلت ملت ے ہ ے ے ہ ے ے

و بھلی لوگ؟ اگلی چپاتی کب بھیج وگی؟ ی ہاری سن ر ہ ی و ر ہے۔دفتر ک لئ دیر ہ ہ ے ے

وٹل واال تو آگیا بس ایک ایک چاٹ، ایک ہےلو، شیام بابو، ہ ےایک گالب جامن اور کیا؟ ایک ایک سموس چل گا نا شیام ہ

مارا آرڈر بھائی پر نانند ہبابو؟لکھو !

یں چال ک دفتر میں باقی سارا ی ن ہشیام بابو کو پت ہے ہ ہ ہ ل اس ن اں س اٹھن س پ ےوقت کیس بیت گیا و ے ہ ے ے ے ہ ہے۔ ے

ہسب ساتھیوں س وعد کیا ک کل سویر و ان سب ے ہ ہے ہ ے ۔کو ان کی بھابی کی تصویر دکھائ گا ے

ر میں کیس ر گی وں اس ش ۔اتنی بھولی ک ڈرتا ہے ے ہ ہ ہ ہے

۔ڈرو مت شیام بابو بھابی کو النا تو اب شیرببر بن جاؤ ہے ۔

وئ شیام بابو ےدفتر س نکل کر تیز تیز قدم اٹھائ ہ ے ے ےچورا پر آگیا اور پان اور سگریٹ لین ک لئ رک گیا ے ے ہے ہے

وئ ے اور پھر تمباکو وال پان کا لعاب حلق س اتارت ہ ے ے ے ہےلکی لکی وئ ہنتھنوں س سگریٹ کا دھواں بکھیرت ہ ے ہ ے ے

ےسردی میں حدت محسوس کرت و بڑ اطمینان س ے ہ ے ولیا ایک چھوٹی سی ائش ک اڈ کی طرف ہاپن ر ے ے ہ ے

ہے۔کھولی جس میں مشکل س ایک چارپائی آتی ابھی ے ین خان سیٹھ ن اس دھمکی دی تھی ی م ۔پچھل ے ے ے ہ ہ ے اں یں تو چلت بنو ہبھاڑ ک دس روپ بڑھاؤ، ن ے ہ ے ے ے !

ی پچاس روپ وصول کرت ل ےچو ک اس بل کا کرای پ ے ہ ے ہ ہ ے ہے ےو خان سیٹھ اپن خدا س ڈرو ے ۔ !ہ

Page 357: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےلیکن خان سیٹھ ن اپن خدا کو ڈران ک لئ ایک بھیانک ے ے ے ے و جاتا؟ وتی بابو، تو بولو، کیا ق لگایا بلی شریف ن ہق ہ ہ ہہ ہ

اں یں تو خالی کرو ، ن ہساٹھ روپ ہ ے !

وں گا، لو ین خالی کر دوں گا اور سیٹھ س ک ہاسی م ے ے ہ اری قبر کی پور ےسنبھالو اپنی کھولی خان سیٹھ تم ہ ۔

؟ چپک س یں جھگڑ وگڑ کا کیا فائد ےسائز کی لو!ن ے ہ ے ے ہ ہے ۔اس کی کھولی اس ک حوال کر ک اپنی را لوں گا ہ ے ے ے

ت بھری ، لیکن ب ہبس سٹاپ آگیا اور بس بھی کھڑی ہے ہے ی جائ ےوئی شیام بابو ن فیصل کر لیا ک و پیدل ہ ہ ہ ہے ہ ے ہے۔ ہ

ی فاصل تو اس کا سگریٹ جل جل اں س تھوڑا ہےگا ی ہ ہ ے ہ ۔ یں ش ن ، لیکن ابھی اس کی خوا نچا ہکر انگلیوں تک آ پ ہ ہے ہ اتھ کا ٹکڑا پھینک کر ایک اور سگریٹ ہمٹی اس ن ے ہے۔

یں ہسلگا لیا ساوتری کو میری سگریٹ پینا بالکل پسند ن ہے و اور پھیپھڑ بھی اس س تو اچھا ہےپیس بھی جالت ے ۔ ے ہ ے ے

ونٹوں میں دبا لو اور ی ایک سرا جال کر دوسر کو ہمیرا ے ہ ؟ اری ہےدھواں چھوڑت جاؤ! میرا مز کیا سگریٹ س کم ے ہ ے ی مز تو سگریٹ وگریٹ کی ارا ہے۔بھلی لوگ، ایک تم ہ ہ ہ

ی خیال میں بیوی کو ہلت کو گولی مارو آؤ!اس ن خیال ے وئی ایک ہسین س لگا لیا اور مخالف سمت س آتی ے ہے ے ے ، گویا اس کی ساوتری ن اس س ےعورت س ٹکرا گیا ے ہے ے ! اس ن اندھ وار ون ک لئ اپن آپ کو جھٹکا ےالگ ے ے ہ ے ے ے ے ہ اتھ اس عورت کی طرف پھیال دیا ایڈی ہےپن میں اپنا ہ وئی آگ بڑھ گئی ہےاٹ! و عورت غص س پھنکارتی ے ہ ے ے ہ و جان ک باوجود خوش خوش ہےاور شیام بابو شرمند ے ے ہ ہ

ہاور عورت کی پیٹھ کی طرف مون لٹکا کر اس ن ب آواز ے ہہ ا آئی ایم ساری میڈم لیکن اس عورت کی ہے۔بلند ک ہ

ر ٹکرائی ایڈی اٹ ہے۔پھنکار پھر اس ک بند کانوں ک با ہ ے ے !

وئی گرد میں ا اور اڑتی ن کو جھاڑ ر ہشیام بابو اپن ذ ہے ہ ہ ے ی اور ٹکراؤ پرائی نس ر ہےاس کی بیوی زور زور س ہ ہ ے وں جو بال روک ٹوک ساری دراز ! ایک میں ہعورتوں س ے وں میں اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر ۔دستیاں س لیتی ہ ہہ

دیکھوں کسی اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر توی ہدیکھوںکسی اور کی طرف دیکھن کی مجھ ضرورت ے ے

و شیام بابو ن و تم ؟ میر لئ تو بس جو بھی ےکیا ہ ہ ے ے ہے ا نیں، تم ن اپنی بیوی ک ماتھ ےاپن آپ کو ڈانٹ کر ک ے ے ہے ہ ے

Page 358: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ارا ارا بچ تم ہپر خوا مخوا کلنک کا ٹیک لگا رکھا تم ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہ یں، تو اس میں ارا ن ہاور اگر مان بھی لیں ک و تم ہ ہ ہ ہے

اری ارنڈ لیو ہساوتری کا کیا دوش؟ اس کا سارا سال تم ، میرا بچ یں چل سب ٹھیک ہک دس بیس روز کا تو ن ہے ہ ے مار نیٹو کی آنکھیں اس کی طرح چھوٹی ی ےمیرا ہ ہے ہ ، مگر ناک میں بھی کیسا یں ماتھ مجھ پرگیا ہےچھوٹی ۔ ہ ولیا مگر میں ن ابھی تک وں ک دو سال اوپر کا ےباپ ہے ہ ہ ہ یں دیکھا پچھل سال مجھ ایک چکر ےاس ایک بار بھی ن ے ۔ ہ ے ئ تھا آج چھٹی کی درخواست دینا بھی بھول ےکاٹ آنا چا ہ

فت ک ی کروں گا اور اس ال کام ی وں اب کل پ ےگیا ے ہ ہ ہ ۔ ہ اں س نکل جاؤں گا ساوتری کو چٹھی بھی ن ہآخر میں ی ے ہ

وں گا ہلکھوں گا اور اچانک اس ک سامن جاکھڑا ے ے ہساوتری!اور و آنکھیں مل مل کر میری طرف دیکھتی ر ہ ےجائ گی ساوتری و رو د گی ی مجھ کس کی آواز ہ ے ہ ے ی صورت اری ائ اب تو اٹھت بیٹھت تم ہسنائی دی ہ ے ے ے ہے۔ہ

ےدکھائی دیتی نیٹو ک باپو اب تو آ جاؤ!میں آگ بڑھ کر ۔ ے ہے و وش ہاس گل لگا لوں گا اور و میر بازوؤں میں ب ہ ے ے ہ ے ے نچ ہجائ گی ساوتری! ساتری!اپنی کھولی ک سامن پ ے ے ۔ ے اں ہکر اس ن ب اختیار اپنی بیوی کا نام پکارا لیکن و ہے ے ے ہےاس ک تارگھر ک رامو ن آگ بڑھ کر اس جواب دیا ے ے ے ے ے

"بابوجی؟

؟شیام بابو اپن حواس درست کر ےار رامو، تم!کیس آئ ے ے ے وئ ا بابوجی!رامو کی آواز بھاری اور و بولت ےر ہ ے ہ ہے ہے۔ ہ

ا ہے۔تامل برت ر ہ

و؟بولو نا ہاتن اکھڑ اکھڑ کیوں ے ے ے !

وں ۔آپ کا تار الیا ہ

وا ی لکھا اتھ س اں بابوجی، ی تار آپ ک ہمیرا تار؟" ہ ے ہ ے ہ ہ یں گیا ک آپ کا تار کا لفاف ی ن ہ، مگر آپ کا دھیان ہے۔ ہ ہ ہ ہےےایک طرف س کھال لیکن شیام بابو اس دوسری ہے ے

ا ڈسپیچ وال کشن سنگھ کو ےطرف س چاک کر ر ہے۔ ہ ے ہے۔بھی خیال ن آیا شیام بابو، ک ی تار آپ کا ہ ہ ہ

اتھوں س اپنی ےشیام بابو ن تار کا فارم کھول کر دونوں ہ ے ہے۔آنکھوں ک سامن فٹ کر لیا ے ے

Page 359: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےمجھ بھی آدھا راست ط کر ک اچانک خیال آیا بابوجی، ے ہ ے وں ، ی تار تو اپن بابوجی کا میں اس پڑھ چکا ۔ار ہ ے ہے ے ہ ے

ت افسوس ک ساوتری ن خودکشی کر لی سٹاپ ۔ب ہے ے ہ ہے ہ

تیسرا آدمی

(شوکت صدیقی)

ہےدونوں ٹرک، سنسان سڑک پر تیزی س گزرت ر ے ے !

ی ایک دم نشیب میں ہپتمبر روڈ، مشرق کی طرف مڑت ے وئ ٹیلوں ک درمیان کسی ےچلی گئی اور جھک ے ہ ے ہے

وتی رات وئی معلوم انپتی ہے۔زخمی پرند کی طرح ہ ہ ہ ے وائیں وئی و چکی اور آغازl سرما کی بچری ری ہاب گ ہ ہے ہ ہ وئ گزر یں دونوں ٹرک ڈھلوان پر کھڑ کھڑات ی ےچل ر ہ ے ۔ ہ ہ نگم شور پتھریلی چٹانوں میں دھڑک یں ان کا ب ہر ے ۔ ہ ہے

ا "ا ا ایکا ایکی اندھیر میں کسی ن چیخ کر ک ےر ۔ ہ ے ے ہے۔ ہ ، ٹرک روک لو ا ہےکون جا ر ہ !"

وئی لیکن ہرات ک سناٹ میں ی آواز بڑی پراسرار معلوم ہ ے ے وئ لوگوں ن اس پر کوئی توج ن ہٹرکوں ک اندر بیٹھ ہ ے ے ہ ے ے

ہےدی و اس طرح خاموش بیٹھ ر اور دونوں ٹرک جھکی ے ہ ۔ رائی میں تیزی س گزرت ر اس ہے۔وئی چٹانوں کی گ ے ے ہ ہ"روکو، روک لو ٹرکوں ۔دفع ذرا دور س آواز سنائی دی ے ہ ون کی ی موٹر سائیکل اسٹارٹ ےکو!"اور اس ک ساتھ ہ ہ ے

ٹ ابھرن لگی اس کی تیز روشنی دھوپ ۔گھرگھرا ے ہ را جاتی ہےچھاؤں کی طرح ٹرکوں ک پچھل حصوں پر ل ہ ے ے

یں سکت اس لئ ک ی خطر کا االرم ےلیکن ٹرک رک ن ہ ہ ے ے۔ ہ و گئی سڑک بالکل ویران اور ہے ان کی رفتار اور تیز ۔ ہ ہے۔

یں ہدونوں ڈرائیور بڑ ایکسپرٹ ے !!

ی اور قریب! وتی جا ر ہےموٹرسائیکل کی روشنی قریب ہ ہ ی دھڑکن ےاور قریب! اور اس کا شور ٹرکوں ک نزدیک ہ ے یں بڑھ سکتی اس لئ ےلگا ان کی رفتار اب زیاد ن ہے۔ ہ ہ ہے۔ و جان کا پورا اندیش ہے۔ک ڈھلوان پر ٹرکوں ک ب قابو ہ ے ہ ے ے ہ

وت جا ر خوف زد وئ چ م ےدونوں ڈرئیوروں ک س ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے یں لیکن نیلی آنکھوں واال وانچو خاموشی س بیٹھا ےر ہ ہے ا ک اب کیا کرنا ا اور برابر سوچتا ر ہوا سگریٹ پیتا ر ہ ہ ہ

Page 360: اردو ادب کے مشہور افسانے

رائی میں ئ پھر ایک بارگی مستانی ٹیلوں کی گ ہچا ے۔ ہ ےریوالور چلن کی آواز بڑ بھیانک انداز س گرجن لگی ے ے ے یوں ک پاس س سنسناتی ےاور گولی ٹرک ک پچھل پ ے ہ ے ے ا ۔وئی گزر گئی ایک بار پھرکسی ن اونچی آواز میں ک ہ ے ۔ ہیں تو میں ٹائر برسٹ کر دوں گا ۔روک لو ٹرکوں کو، ن ہ "

ر گئ ٹرکوں ی دونوں ٹرک ٹھ ے۔اور اس وارننگ ک ساتھ ہ ہ ے ر پت جھڑ ہک اندر س صرف وانچو اتر کر نیچ آیا با ۔ ے ے ے ی تھیں اور ان کو تیز خنکی وائیں چل ر ہکی شورید ہ ہ ی تھی وانچو ن اپن و ر وئی معلوم ےجسم میں چبھتی ے ۔ ہ ہ ہ

ست ست آ ہلمب اوور کوٹ ک کالروں کو درست کیا اور آ ہ ہ ہ ے ے نچ گیا پھر اس ن جلتی وا موٹر سائیکل ک قریب پ ےچلتا ۔ ہ ے ہ ٹ ک انداز میں سڑک پر پھینک ےوئی سگریٹ کو جھنجھال ہ ہ

ج میں پوچھن ےکر جوت س مسل ڈاال اور بڑ تیکھ ل ے ہ ے ے ے ے ۔لگا

یں" ت ہاس طرح ٹرکوں کو رکوا لین کا مقصد، کیا چا ے ہ ے "آپ؟

وا بھاری بھرکم جسم واال ہلیکن موٹرسائیکل پر بیٹھا وا بلک ہانسپکٹر وانچو ک اس انداز س ذرا بھی متاثر ن ہ ہ ے ے

ن لگا "میں اینٹی کرپشن کا انسپکٹر ےبڑی ب نیازی س ک ہ ے ے وں تا ۔وں اور دونوں ٹرکوں کی تالشی لینا چا ہ ہ "ہ

۔وانچون غور س اس کی طرف دیکھا دھندلی روشنی ے ے ا تھا اور ریو الور و ر ر بڑا کرخت معلوم ہمیں اس کا چ ہ ہ ہ لی نظر میں وا تھا وانچو ن پ ہاس کی انگلیوں میں دبا ے ۔ ہ ہانداز لگا لیا تھا ک بھاری بھرکم جسم واال انسپکٹر پوری ہ

وا شت زد کرن پر تال ہے۔طرح د ہ ے ہ ہ

ےاس ن جھٹ س کاروباری پینترا بدال اور ذرا ب تکلفی ے ے یں اور پھر و مسکرا دیا، اگر ن لگا اچھا تو آپ ہس ک ہ ۔ ے ہ ے

یں تو دیکھئ دونوں ٹرکوں پر آلوؤں ےآپ آفیشلی پوچھت ہ ے یں میں ثبوت میں ڈسٹرکٹ آکٹرائ وئ ےک بور لد ۔ ہ ے ہ ے ے ے

وں چونگی کا ی محصول ہآفس کی رسید پیش کر سکتا ۔ ہ ی ادا کیاگیا اور جو کچھ اصلیت ہےابھی پچھل ناک پر ہے ہ ے ے وں گ اس لئ ک آئرین ٹیٹس کو ی ہو تو آپ جانت ے ے۔ ہ ہ ے ہ

یں ی ال اتفاق تو ن ہاس طرح ل جان کا ی کوئی پ ہے۔ ہ ہ ہ ے ے ا ہے۔سلسل تو ایک مدت س چل ر ہ ے ہ

Page 361: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں، سنا تو کچھ میں ن ال کر بوال "جی ےانسپکٹر گردن ہ ہ ی اور اس لئ کئی گھنٹوں س اس سڑک پر ےبھی ی ے ہے ہ

نسن لگا ی تپسیا تو آپ ن خوا ا تھا " وانچو ہتپسیا کر ر ے ہ ے ہ ۔ ہ ۔مخوا اپن سر مول لی میں ن آپ کو دو مرتب فون کیا ہ ے ۔ ے ہ ےاگر آپ دفتر میں مل جات تو اس طرح کیوں پریشانی

اں سردی میں ن آنا پڑتا مگر ۔اٹھانا پڑتی اور خود مجھ ی ہ ہ ے و ان آپ ک درشن تو ا اس ب ہچلئ ی بھی ٹھیک ر ے ے ہ ۔ ہ ہ ے

!"اور و تین سو روپ احمد پور ک اس ٹرپ میں بچا ےگئ ے ہ ے تا تھا آخر اس ن کرنسی نوٹوں کو اندرونی جیب ےلینا چا ۔ ہ ن لگا ےمیں س نکاال اور انسپکٹر کی طرف بڑھا کر ک ہ ے

وئی اس لئ کچھ ن کچھ نذران لی مالقات ہ"آپ س پ ہ ے ہے۔ ہ ہ ے ی پڑ گا لیجئ ان کو رکھ لیجئ فرمایئ اور ےتو دینا ے۔ ے ۔ ے ہ

ے۔کیا سیوا کی جائ "

ربانی کا ہاینٹی کرپشن انسپکٹر روکھ پن س بوال"اس م ے ے ی ربانی کیجئ ک ان کو اپن اپس ہشکری اب اتنی اور م ے ہ ے ہ ہ۔

ن دیجئ ے۔ر ے ہ "

و گیا دونوں اندھیر و کر خاموش ےوانچو ذرا سنجید ۔ ہ ہ ہ ستانی چٹانوں میں پت ہمیں چپ چاپ کھڑ تھ اور کو ے ے وئ یں آگ کھڑ وائیں چیختی ر وئی ےجھڑ کی بپھری ہ ے ے ۔ ہ ہ ہ

ےٹرکوں ک اندر سرگوشیوں کی دبی دبی آوازیں بھنبھنا ی تھی وانچو ذرا غور کرن لگا ک ی آسانی س مانن ےر ے ہ ہ ے ۔ ہ یں اس سال کو ابھی کچھ اور بھی ےوالی آسامی ن ہے۔ ہ

ر کامیاب ہدکشنا دینا پڑ گی اس لئ ک و جانتا تھا ک ہ ہ ہ ے ۔ ے وتی ی ل پولیس اسٹیشن ک اندر ہجرم کی سازش پ ہے۔ ہ ے ے ہ و سکتا سچ تو ی ہبات دوسری ک سودا بعد میں ط ہے۔ ہ ے ہ ہے یں یں اور مایا ک روپ نیار ہ ک ی سب مایا ک کھیل ے ے ہ ے ہ ہ ہےیں جیب کاٹن واال ےاسی لئ جرائم کی نوعیتیں جداگان ۔ ہ ہ ے

ائ سٹری شیٹر بن سکتا اور کا ر ےزیاد س زیاد ہ ہے ہ ہ ے ہ و جاتا البت اتنا ضرور ہنمایاں انجام دین واال سرمای دار ہے۔ ہ ہ ے

سٹری شیٹر بنن ک لئ پولیس کی سرپرستی ے ک ے ے ہ ہ ہےوتی اور سرمای داری ک لئ گورنمنٹ س ساز ےدرکار ے ے ہ ہے ہ

یں چلتا وانچو ن جیب ک اندر س ےباز کئ بغیر کام ن ے ے ۔ ہ ے ن لگا ست ک ست آ ۔کچھ اور کرنسی نوٹ نکال اور آ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے

ماری ہانسپکٹر تیواری جب تک اس سرکل میں تعینات ر ہے ےانڈسٹری کی طرف س ان کو اس حساب س ان کا حق ے

Page 362: اردو ادب کے مشہور افسانے

"پھر خوشامد کرن ک س انداز میں و ا نچتا ر ہبرابر پ ے ے ے ۔ ہ ہ ےمسکرا کر بوال"لیکن آپ کو اس طرح جاڑ پال میں آ ے

ونا پڑا اب اس پریشانی کا بھی کچھ خیال ہے۔کر پریشان ہ یں دیکھئ اب کچھ اور "لیجئ ی دوسو اور ےکرنا پڑ گا ۔ ہ ہ ے ۔ ے ئ گا اور اپنا ریوالور تو آپ اب اندر رکھ لیجئ خوا ہن ک ے۔ ے ہ ہ

ا ہے۔مخوا آپ س خوف معلوم ر ہ ے ہ "

مگر بھاری بھرکم جسم واال انسپکٹر اسی طرح ناراضگیہےک س انداز میں بوال دیکھئ آپ مجھ غلط سمجھ ر ے ے ۔ ے ے ےیں میں ان دونوں ٹرکوں کو پولیس اسٹیشن ل جائ ے ۔ ہ

یں آؤں گا آپ خوا مخوا میرا بھی وقت خراب ہبغیر باز ن ہ ۔ ہ یں اور و موٹر یں اور خود بھی پریشانی اٹھا ر ہکر ر ہ ہے ہ ہے

۔سائیکل کو اسٹارٹ کرن لگا ے

ٹ ن دم توڑ دیا اس ن بڑی ےاس دفع وانچو کی مسکرا ۔ ے ہ ہ ۔تیکھی نظروں س انسپکٹر کو گھور کر دیکھا اس ے لی بار اس کو خطر کی نوعیت کا ےعرص میں پ ہ ے

وا تھا اس لئ ک دونوں ٹرک کسی طرح بھی ہاحساس ے ۔ ہ ی حکم یں جاسکت تھ کمپنی کا ی ہپولیس اسٹیشن ن ے۔ ے ہ دایت تھی اور اس ذم داری ک لئ کمپنی س ی ےتھا، ی ے ے ہ ہ ہ وار تنخوا ک عالو مینجنگ ہاس کو نو سو روپ ما ے ہ ہ ے

ےڈائریکٹر کی طرف س چھ سو روپ ایکسٹر ا الؤنس ے ےبھی ملتا تھا وانچو کئی ما س اپنی اس ڈیوٹی کو بڑی ہ ۔

ا تھا کمپنی اس کی کار ۔مستعدی س انجام د ر ہ ے ے ی اور بورڈ آف ڈائریکٹر کی کی تی ر ہےگزاریوں کو سرا ہ ہ ونا ت سی باتوں ک لئ اس کو جوابد بھی ہمیٹنگ میں ب ہ ے ے ہ ہپڑتا اور اکثر ایس ب تک سوالوں س اس کو سابق ے ے ے ے ہے و جاتا اس لئ و پانچ سو روپ س ےپڑا ک و بدحواس ے ہ ے ۔ ہ ہ ہ یں د سکتا ورن آئند ہزیاد دو ٹرکوں ک لئ رشوت ن ہ ۔ ے ہ ے ے ہ

ت ممکن ک ہمیٹنگ میں اگر کوئی ڈائریکٹر الجھ گیا تو ب ہے ہ ےزائد رقم اس کو اپنی تنخوا س ادا کرنا پڑ ا ور بات ے ہ

ی دراصل ابھی تک فیکٹری کی تعمیر ہے۔بھی کچھ ایسی ہ ی شگر ہے۔ک لئ کمپنی اپن پاس س صرف روپی لگا ر ہ ہ ے ے ے ے

وا البت یں ہپالنٹ کا کانسسٹرکشن ابھی تک مکمل ن ہے۔ ہ ہ و گی ان ہکمپنی ک و فارم "جن میں ایکھ کی کاشت ہ ے یں اور آلو کی فصلیں تیار کی جا ہمیں ٹریکٹر چلن لگ ے ے یں اور ی آلوؤں ک ساتھ سیمنٹ کی بوریاں اور ی ےر ہ ہ ہ

Page 363: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہآئرن شیٹس بھی ٹرکوں میں الد کر پوشید طور پر بلیک یں کمپنی کو اپنی انڈسٹری کی تعمیر ۔مارکیٹ میں جات ہ ے

ت بڑا سرپلس کوٹا مل گیا ہےک لئ سیمنٹ او آئرن کا ب ہ ے ے ےجس کی سمگلنگ سنسان راتوں میں بڑ پراسرار

وتی اور اس سازش میں پولیس ک عالو ہطریق پر ے ہے ہ ے یں ۔دوسر محکم بھی کمپنی ک شریک ہ ے ے ے

ا اس ۔وانچو غور کرن ک س انداز میں خاموش کھڑا ر ہ ے ے ے یں ی و ر وئی معلوم ہکی گھنی بھوئیں آنکھوں پر جھکی ہ ہ ہ

ر ک تیکھ نقوش مجسموں کی طرح ٹھوس ےاور چ ے ے ہ یں پھر ایک بارگی اس ن ط کر لیا ک اس ےنظر آ ر ہ ے ے ۔ ہ ہے یں وحشت ناک موقعوں ک لئ و ئ ان ہکیا کرنا چا ے ے ہ ے۔ ہ ا کرتا تھا ک جو کچھ کرنا اس ک فیصل ک ےمیش ک ے ے ہے ہ ہ ہ ہ

ی ت اور جو لوگ صرف انجام ہلئ منٹ بھر کا عرص ب ہے ہ ہ ے نچ سکت یں پ یں و کبھی کسی نتیج پر ن ےپر غور کرت ہ ہ ہ ہ ہ ے وا و آگ وال ٹرک ک ےاور پھر بوجھل قدموں س چلتا ے ے ہ ہ ے

ست ست آ نچ گیا اور سرگوشی ک س انداز میں آ ہپاس پ ہ ہ ہ ے ے ہ ۔پکارن لگا ے

اراج" ہنیل کنٹھ آئ نیل کنٹھ، م ے "

ےاور ٹرک ک اندر س مضبوط پٹھوں واال نیل کنٹھ دھنسی ے ہوئی آواز میں بوال کیا سیکرٹری صاب ؟"پھر و اتر کر ہے ۔ ہ

ر اندھیر ےنیچ آگیا اس کا آبنوسی جسم رات ک گ ے ہ ے ۔ ے ن ا تھا وانچو ک ےمیں پرچھائیوں کی طرح دھندال نظر آ ر ہ ۔ ہ

۔لگا "

یں" ہدیکھو نیل کنٹھ ی ساال انسپکٹر تو کسی طرح مانتا ن ہ یں جا و ک دونوں ٹرک تھان پر بھی ن ہاور تم جانت ے ہ ہ ے

ےسکت "

و" ہو سین تان کر بوال، تو حکم ہ ہ !"

ری نیلی آنکھوں وال وانچو ن اس کو بھرپور نظروں ےگ ے ہ ےس دیکھا اور پھر ا سازش کرن ک س انداز میں اس ے ے ے ا "مجھ کو تو صرف الئین ست س ک ہن ایک آنکھ دبا کر آ ے ہ ہ ے

ئ پھر مڑت یں چا ےکلیر، کی ضرورت زیاد جھنجھٹ ن ے۔ ہ ہ ہ ہے۔ وں تم ا "میں جا کر اس س باتیں کرتا ۔وئ اتنا اور ک ہ ے ہ ے ہ

Page 364: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےٹرکوں کی پشت پر س گھوم کر آ جانا سمجھ گئ نا!" ۔ ے ۔اور نیل کنٹھ جیس سب کچھ سمجھ گیا اس کی آنکھیں ے

۔جرائم پیش لوگوں کی طرح خونخوار نظر آن لگیں ے ہ اں س سیدھا اینٹی کرپشن ک انسپکٹر ک پاس ےوانچو و ے ے ہ

وئ دیکھ کر تیزی س بوال ۔چال گیا و اس کو آت ے ے ہ ے ہ ۔

ی" و ر یں کروایا، بال وج دیر ہآپ ن ٹرکوں کو اسٹارٹ ن ہ ہ ہ ے "ہے

ےوانچو بڑی سنجیدگی س بوال "آپ تالشی لیں گ یا ٹرک ے ن لگا ۔اسی طرح چلیں گ " و ک ے ہ ہ ے

یں، یوں جیس آپ" ر تو اب ایسی کوئی ضرورت ن ےبظا ہ ہ ےکی مرضی " وانچو ایک بار پھر کاروباری انداز س

اں؟ مرضی ماری ک ہمسکرایا "انسپکٹر صاحب! مرضی ہ م ن تو اپنی طرف س کوئی کسر اٹھا ن ہتو آپ کی ے ے ہ ہے۔

وتی یں ی ن ۔رکھی مگر آپ کی ناراضگی ختم ہ ہ ہ "

ےو ب نیازی س بوال "دیکھئ ان ب کار باتوں س کوئی ے ے ے ے ہ و، آپ تھان پر نا یں نکل گا آپ کو جو کچھ ک ےنتیج ن ہ ہ ۔ ے ہ ہ

۔چل کر ک لیجئ گا ے ہہ "

ت اچھی بات لیکن اتنا میں آپ و گیا "ب ہےوانچو سنجید ہ ہ ہ وں ک جو لوگ آئرن شیٹس اور تا ہکو ضرور بتا دینا چا ہ ہ یں اور جو اس کو ہسیمنٹ کا سرپلس کوٹا ل سکت ے ے

یں و اپن بچاؤ ک طریق بھی ےسمگل بھی کرا سکت ے ے ہ ۔ ہ ے ر نکلن وں گ چور چوری کرن جاتا تو با ی ےجانت ہ ہے ے ے۔ ہ ہ ے

یں ک ل دیکھ لیتا "اور اس میں شک بھی ن ہکا رست پ ہ ہے ے ہ ہ ا تھا اس لئ ک "یونائیٹڈ انڈسٹریز ی ک ر ہوانچو ٹھیک ے ۔ ہ ہہ ہ

اور ان میں س ایک یں ےلمیٹڈ "ک وڈ ڈائریکٹر ایم ایل ا ۔ ہ ے ے ےتو ریونیو منسٹر کا داماد بھی اور اسی لئ سرکاری ہے ہےمحکموں میں کمپنی کا اثر بھی اور زور بھی لیکن ہے ائ سربست کو ہبھاری بھر کم جسم واال انسپکٹر ان راز ے ہ

وا یں جانتا اس سرکل میں ابھی اس کا نیا نیا ٹرانسفر ہن ۔ ہ تا ہے اس لئ پور عالق میں و اپنی دھاک بٹھا دینا چا ہ ہ ے ے ے ہےیں بنتی ہاور اس لئ ایک آدھ بڑا کیس بنائ بغیر بات ن ے ے وا بندھ اں ہاور پولیس کی مکینک ک مطابق ایک بار ج ہ ے ےگئی پھرتو لکشمی آ کر خود قدم چومتی اور اسی لئ ہے

Page 365: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں آ سکتا وانچو کی باتوں پر جھنبھال ۔و کسی طرح باز ن ہ ہ ۔کر اس ن جواب دیا ے

وں ابھی تو آپ ذرا چل کر" ، آپ ٹھیک ک ر ۔ممکن ہ ہے ہہ ہے ، پھر دیکھیں گ ک آپ لوگ اپن بچاؤ رئ ےحواالت میں ٹھ ہ ے ے ہ

یں ۔کا کونسا طریق جانت ہ ے ہ "

ا ہاس دفع وانچو بھی بپھر گیا اس ن تیزی س ک ے ے ۔ ہ یں میں ت ۔"انسپکٹر صاحب مجھ کیالش ناتھ وانچو ک ہ ے ہ ے وں اں بھی ط کر سکتا ل بات کو ی ۔تھان جان س پ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے اں اکثر ہآپ ک ایس انٹی کرپشن ک انسپکٹروں س ی ے ے ے ے وتا تو اس ہسابق پڑا کرتا اگر ان میں کوئی مل گیا ہے۔ ہ ہطرح مونچھ اونچی کر ک آپ کو بات کرن کی جرات ن ے ے

۔وتی "ہ

ر پر اور ابھی خشونت آ گئی و اس کو ہانسپکٹر ک چ ۔ ے ہ ے ےبڑی تیکھی نظروں س گھورن لگا اور اسی وقت آ ے

ےبنوسی جسم وال نیل کنٹھ ن اندھیر میں س نکل کر ے ے ے نی راڈ" اٹھا کر زور س د مارا ۔اس ک سر پر "آ ے ے ہ ے

ائ کر ک پھٹی وئی کرا ک ساتھ ےانسپکٹر ن دبی ے ہ ے ہ ہ ے ۔وئی بھیانک آواز نکالی اور لڑکھڑا کر سڑک پر گرپڑا اس ہ

ا تھا وا ریوالور ابھی تک کانپ ر ۔کی انگلیوں میں دبا ہ ہ اتھ کو اپن بوجھل جوت س ےوانچو ن جھپٹ کر اس ک ے ے ہ ے ے رگڑ دیا اور ریوالور کو چھین کر ٹیلوں کی طرف پھینکڈی پر ایک بھرپور الت مار کر ہدیا اور اس کی ریڑھ کی

۔بڑبڑان لگا ے

ی ن تھا " اور پھر" ہدھت تیر کی، ساال کسی طرح مانتا ہ ے اراج ڈال دو سال کو ادھر ن لگا "م ےو نیل کنٹھ س ک ہ ے ہ ے ہ ےکنار کی طرف!"اور پھر اطمینان س ایک سگریٹ ے

ےسلگا کر پوچھن لگا "

، ورن بالوج بات یں پڑا را تو ن ہاں ی دیکھ لو ک زخم گ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ۔اور بڑھ جائ گی ے "

، کوئی گھبران یں پڑا اتھ بھرپور ن ن لگا" ےنیل کنٹھ ک ہے ہ ہ ے ہ یں ہے۔کی بات ن ہ "

Page 366: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ بھاری بھرکم ےپھر نیل کنٹھ ن سڑک پر ب سدھ پڑ ہ ے ے ے وا ہجسم وال انسپکٹر کا بازو پکڑا اور اس کو گھسیٹتا ے

ر خون میں ڈوب کر بڑا ہدور تک چال گیا اس کا کرخت چ ہ ۔ ی تھی وئی چل ر می ا تھا اور سانس س ۔بھیانک نظر آ ر ہ ہ ہ ہ ستانی ٹیلوں ک دامن میں وئ کو ےو اسی طرح جھک ہ ے ہ ے ہ ا اور آغازl سرما کی ہکسی الش کی طرح ب جان پڑا ر ے یں اور ایک انپتی ر وائیں پتھریلی چٹانوں میں ہتیکھی ہ ہ

ی گیڈریوں ن شور مچانا شروع کر یں نزدیک ےبارگی ک ہ ہ ۔دیا

ٹ سنسان ون کی گھڑگھڑا ہدونوں ٹرکوں ک اسٹارٹ ے ہ ے ہرات میں ابھرن لگی اور و موٹر سائیکل کو بری طرح ے وئ سڑک پر پھر چلن لگ لیکن احمد پور جان ےروندت ے ے ے ہ ے

، اب و جنوبی ٹیلوں کی طرف مڑ ر تھ اور ےک بجائ ہے ہ ے ے ےکوئی ستر میل کا چکر کاٹن ک بعد دونوں ٹرک پھر ے ہ وئ اں لو ک کھمب پر لگ نچ گئ ج ےاسی چورا پر پ ہ ے ے ے ہے ہ ے ہ ہے

:بورڈوں پر لکھا تھا

۔بلیر گھاٹ، اکیاون میل

۔سجنواں کالں، اٹھار میل ہ

، چوراسی میل ۔شیام باڑ ہ

۔احمد پور، ایک سو باون میل

ی ڈسٹرکٹ آکٹرائ ٹیکس آفس تھا جس ک ےقریب ے ہ ا وئ سائبان ک نیچ ایک دھندال سا لیمپ جل ر ہجھک ے ے ے ہ ے ا وئ کھانس ر ہتھا او ر بوڑھا محرر رجسٹروں کو کھول ے ہ ے ۔ اں پر دونوں ٹرکوں کی چنگی ہتھا ابھی کچھ عرص قبل ی ہ ۔

۔کا محصول ادا کیا گیا تھا

ےوانچو ٹرک پر س اترا اور سیدھا سائبان ک نیچ چال گیا ے ے ست س بوال ج میں آ ےاور سرگوشی ک ل ہ ہ ہ ہ ے :

ےمنشی جی میر خیال میں، آپ ک رجسٹروں میں ٹائم ے وئ و گا " پھر بغیر جواب کا انتظار کئ وتا یں ےتو درج ن ہ ے ہ ہ ہ

ےاس ن چوکن نظروں س چاروں طرف دیکھا اور تیس ے ے ےروپ ک کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئ ے ے

، اگر کوئی دریافت کرن آئ تو ے"لیجئ ان کو رکھ لیجئ ے ے ے

Page 367: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےک دیجئ گا ک دونوں ٹرک کوئی ساڑھ آٹھ بج ک ے ے ہ ے ہہ ، سمجھ گئ نا آپ اں آئ تھ ےقریب ی ے ے ہ !"

و جائ گا پر ی ال دی "ایسا ۔اور بوڑھ محرر ن گردن ے ہ ہ ہ ے ے یں ہکوئی گھبران کی بات تو ن ے !"

م ن لگا "جب تک ق لگا کر ک ہوانچو ڈرامائی انداز میں ق ے ہ ہہ ہ یں اس وقت تک بھال آپ پر کوئی آنچ آسکتی ہےموجود ہ "

، پر بات اتنی سرکار نسن لگا "سو بات تو ی ہےو بھی ہے ہ ے ہ ہ ہے۔اب زمان بڑا خراب لگ گیا ذرا ذرا سی بات میں ہ

یں ۔سسر بال کی کھال نکالت ہ ے ے "

ہاور پھر چونگی ک محرر کو کو مطمئن کر ک و ے ے وا ٹرک ک اندر جا کر بیٹھ گیا دونوں ٹرک پھر ۔مسکراتا ے ہ و گئ سامن پتمبر پور روڈ اندھیر میں بل کھاتی ےروان ے ے۔ ہ ہ

ےوئی چلی گئی مگر دونوں ٹرک پھر اس طرف جان ہے۔ ہےکی بجائ راحیل روڈ کی طرف مڑ گئ وانچو ن گھڑی ے۔ ے ا تھا اور پھر دو بجن س ےمیں وقت دیکھا، اب ڈیڑھ بج ر ے ہ

ی دونوں ٹرک ابیر گڑ پولیس اسٹیشن ک قریب جا ل ےپ ہ ہ ے ہ ر گئ وانچو تھان ک اندر چال گیا اور ڈیوٹی ےکر ٹھ ہ ے۔ ہ

ےانسپکٹر کو ڈیڑھ سو روپ د کر اس ن ایک ٹرک کا ے ے ۔چاالن کرا دیا روزنامچ میں درج کر دیا گیا ہ ۔

" ے، نو بج شب کو راحیل روڈ پر س3136ٹرک نمبر ے تفتیش کرن پر یڈ الئٹس ک پایا گیا وئ بغیر ےگزرت ۔ ے ہ ے ہ ے وا ک اس کی بیٹری خراب تھی ٹرکl مذکور ۔معلوم ہ ہ

ےیونائیٹڈ انڈسٹریز لمیٹڈ کی ملکیت اور اس میں آلو ک ہے ے۔بور لد تھ ے ے "

ہاور اسی طرح حکیم پور ک تھان پر مزید ڈیڑھ سو روپی ہ ے ےرشوت د ک ر دوسر ٹرک کا بھی چاالن کرا دیا گیا اور ے

ےیڈ کانسٹیبل سرکاری روزنامچ میں اندراج کرن لگا ہ :ہ

" ےپون دس بج شب کو ٹرک نمبر راحیل روڈ، پر6228ےو جان ا تھا ک کسی حادث ک ےاتنی تیز رفتار س گزر ر ہ ے ہ ہ ہ ے

رنام سنگھ ن اس کو رکوا ےکا خطر تھا ڈیوٹی انسپکٹر ہ ۔ ہ

Page 368: اردو ادب کے مشہور افسانے

وا ک ڈرائیور مسمی ہکر تحقیقات کی تو ی بھی دریافت ہ ہ ہنظر ک پاس ڈرائیونگ الئسنس بھی موجود ن تھا ے !"

ےاس ک بعد دونوں ٹرک پھر راحیل روڈ پر تیزی س ے ری دھند میں دونوں ہگزرن لگ اور صبحl کاذب کی گ ے ے

ی نچ گئ پھر چھ بج س پیشتر ہٹرک بلیر گھاٹ پر پ ے ے ے۔ ہ وانچو بھارت انجینئرنگ ورکس کی نئی اسٹوڈی بیکر پرےواپس لوٹ پڑا ا ور ابھی دھوپ بھی اچھی طرح پھیلن ۔

ےبھی ن پائی تھی ک اس کی کار فیکٹری ک پھاٹک ک اندر ے ہ ہ و گئی ۔داخل ہ

ےوانچو اپن دفتر میں جا کر حسبl معمول کمپنی ک ے میت سینچر ہکاموں میں الجھ گیا اور رات ک حادث کی ا ے ے

ی جس ون وال اس ڈریلمنٹ س زیاد ن ر ہک روز ہ ہ ے ے ے ہ ے و ہمیں ریلو کی ایک گیرج فیکٹری ک یارڈ ک اندر ڈمیج ے ے ے زار ہگئی تھی اور اس نقصان ک لئ ریلو ن کوئی چار ے ے ے ے رندر ہروپ کا کلیم کیا تھا اور عدالتی کارروائیوں ک لئ ے ے ے

ی موجود تھ ے۔پرشاد، ایڈووکیٹ کمپنی ک مشیرl قانونی ہ ے

ی اور وتی ر ی، تفتیش برابر ہپولیس تحقیقات کرتی ر ہ ہ سپتال ہاینٹی کرپشن کا بھاری بھرکم جسم واال انسپکٹر، ا اور مضبوط پٹھوں واال نیل کنٹھ بھنگ تا ر ہمیں پڑا کرا ہ ا اور اور اپن کوارٹر ک ےچڑھا کر ٹھاٹھ س گالیاں بکتا ے ہ ے ا گایا کرتا وا رات گئ تک اونچی آواز میں آل ۔اندر لیٹا ہ ے ہ

اری بات ن مانی جائ تو ؟" ےاور اگر تم ہ ہ "

یں نکل گا" ےپھر تو کنور صاحب اس کا نتیج کچھ اچھا ن ہ ہ "

ئ ک میں کمپنی کا" ونا چا یں معلوم ہلیکن دیپ چند تم ے ہ ہ ہ وں ۔مینجنگ ڈائریکٹر ہ

یں وتی ر ج میں باتیں ۔کمر ک اندر اسی طرح تیز ل ہ ہ ے ہ ے ے وئ سرخ ےآتشدان میں کوئل چٹخ ر تھ دھکت ہ ے ے۔ ہے ے

ےانگاروں کی روشنی میں وانچو کا گنجا سر چمکن لگا ا وا اپنا بھدا سا پائپ پیتا ر ۔تھا مگر و خاموش بیٹھا ہ ہ ہ ۔

وا ک یخ بست جھونک اندر آ ر تھ اور ےدریچ س ہے ے ہ ے ہ ے ے وئی لو کی ہےفیکٹڑی ک ورکشاپ میں دھڑکتی ہ ے

ر لکی نیلگوں ک ر ا تھا با ہجھنکاروں کا شور سنائی د ر ہ ہ ۔ ہ ے

Page 369: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی ہک لچھ منڈا ر تھ اور اس دھند میں لپٹی ے ہے ے ے وئی ہمینجنگ ڈائریکٹر کی خوبصورت کوٹھی اور نکھری ری ورانڈ میں نیل کنٹھ ی تھی، جس ک با و ر ےمعلوم ہ ے ہ ہ

وا تھا وئ چپ چاپ بیٹھا ۔دیوار س پیٹھ کو ٹکائ ہ ے ہ ے ے ری تاریکی میں ہورانڈ میں بالکل اندھیرا تھا اور اس گ ے ہنیل کنٹھ کا سیا آبنوسی جسم آسیب زد سای کی طرح ہ ہ

ا تھا و ر ۔ڈراؤ نامعلوم ہ ہ

ا اور جب ہنیل کنٹھ اس طرح اندھیر میں خاموش بیٹھا ر ے ےکبھی دیپ چند تیزی س بولتا تو و چونک کر کمر ک ے ہ ے

ہدرواز کی طرف گھبرا کر دیکھتا جیس اب کچھ ن کچھ ے ے وا اطمینان س ی واال لیکن دیپ چند اندر بیٹھا ےون ہ ہے ہ ے ہ

ر پر ٹیبل لیمپ ک "شیڈ "کی ا اس ک چ ےباتیں کرتا ر ے ہ ے ۔ ہ ی اور اس دھندلی روشنی میں اس کا ہےپرچھائیں پڑ ر ہ

ےمنحنی جسم ناٹک ک کسی مسخر کی طرح حقیر نظر ے ا مگر دیپ چند کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ اور ہےآ ر ہے۔ ہ

ت ہکمپنی کی غیر قانونی سازشوں میں اس کا کردار ب م ی بات نیلی آنکھوں واال وانچو بھی جانتا اور اس ہےا ہ ہے۔ ہ ، جس کو میت مینجنگ ڈائریکٹر کو بھی معلوم ہےکی ا ہ یں اس لئ ت ےفیکٹری ک اندر سب لوگ کنور صاحب ک ۔ ہ ے ہ ے ہک و رانی بازار ک عالق کا جاگیردار و کاروباری ہے۔ ے ے ہ ہ ہمکینک س زیاد گھوڑوں کی نسلیں اور عورتوں کی ے

ت کچھ جانتا اس لئ ک ہمختلف قسموں ک متعلق ب ے ہے۔ ہ ے یں اور ہاس ن زندگی بھر ریس میں گھوڑ دوڑائ ے ے ے ےعورت ک جسم پر کسی کیمیا گر کی طرح کوک

یں اور جب س جاگیرداری پر زوال ےشاستری تجرب کئ ہ ے ے یں سرکاری حلقوں میں گشت کرن لگی ےآن کی افوا ہ ے ےیں، اس ن بھی اپن سرمای کو محفوظ کرن ک لئ ے ے ے ے ے ہ

تر ی اپن حق میں ب و جانا ہکسی انڈسٹری میں داخل ے ہ ہ ےسمجھا اور اس دور اندیشی ن اس کو کنور شیوراج ےسنگھ س ایک بارگی یونائیٹڈ انڈسٹریز کا مینجنگ

ہےڈائریکٹر بنا دیا لیکن کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ اس کی وا بلک اس ن بڑی ب یں ےباتوں س ذرا بھی مرعوب ن ے ہ ہ ہ ے

ہہنیازی س ک دیا ے :

وں ۔اور آپ کو ی معلوم ک میں کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ ہ ہ ہے ہ یں مینجنگ ڈائریکٹر ت ی پاس ر ۔سار رجسٹر میر ہ ے ہ ہ ے ے

Page 370: اردو ادب کے مشہور افسانے

و کر بوال "ٹھیک ک تمام رجسٹر ہایک بارگی برافروخت ہے ہ ہ ارا یں مگر اس بات س تم ت اری نگرانی میں ر ہتم ے ہ ے ہ ہ

"مطلب ؟

، وتا وا انسان بڑا خطرناک ن لگا "چوٹ کھایا ہےو ک ہ ہ ے ہ ہ ےکنور صاحب!آپ میر ساتھ حق تلفی کریں گ تو میں ے ےبھی سار رجسٹروں کو کل ڈائریکٹروں کی میٹنگ میں

وں ۔پیش کر سکتا ہ "

و ہمینجنگ ڈائریکٹر ک سانس کی رفتار ایک دم س تیز ے ے ےگئی اور و منحنی جسم وال دیپ چند کو عقابی نظروں ہ وا مز س اپنی ےس گھورن لگا لیکن دیپ چند بیٹھا ے ہ ے ے ا اس لئ ک و اچھی طرح جانتا ک ہکنپٹی کھجاتا ر ہے ہ ہ ے ۔ ہ

یں بگاڑ سکتا و پوری ہمینجنگ ڈائریکٹر اس کا کچھ بھی ن ۔ ہ ےطرح اس ک قابو میں دیپ چند اس کی سازش ک ہے۔ ے

ہےاتن بڑ راز کا محافظ ک و جس وقت بھی چا اس ہ ہ ہے ے ے نچا سکتا بات دراصل ی ک سیمنٹ اور ہکو نقصان پ ہے ہ ہے۔ ہ ، کمپنی وتا ہےآئرن جن داموں پر چور بازار میں فروخت ہ ت کم درج کی جاتی ہےک رجسٹروں میں ان کی قیمت ب ہ ے

ہاور اس طرح اب تک مینجنگ ڈائریکٹر ن پوشید طور پر ے ےکوئی دو الکھ روپی غبن کر لیا لیکن دیپ چند کو اپن ہے ہ

ےاعتماد میں رکھن ک لئ اس ن دس فیصدی کا شریک ے ے ے زار روپ کی ادائیگی ک لئ ےدار بنا لیا تھا اور اس بیس ے ے ہ

ےاس کی نیت بدل گئی اور دیپ چند ک اکثر توج دالن پر ہ ے ا لیکن اس ک لئ کائستھوں ک رواج ےبھی و برابر ٹالتا ر ے ے ہ ہ

زار روپی تلک میں دینا ہے۔ک مطابق ابھی اس کو دس ہ ہ ے تا و سکتی لیکن مینجنگ ڈائریکٹر چا یں ہورن ی سگائی ن ہ ہ ہ ہ ے ک بورڈ آف ڈائریکٹرز س سفارش کر ک اس کی ے ہ ہے

ان س ساڑھ تین سو کروا ےتنخوا کو ڈھائی سو روپ ما ے ہ ہ ے ہ یں اس بیس ےد مگر دیپ چند کو ی رشوت منظور ن ہے۔ ہ ہ ے۔ ی ئ اس لئ ک و اپنی لڑکی کا بیا جلد ہزار روپی چا ہ ہ ہ ے ہے ے ہ ہ ہ

تا ہے۔کر دینا چا ہ

ٹ ک اثر س برا بر ر جھنجھال ےمینجنگ ڈائریکٹر کا چ ے ہ ہ ہ ا اس کی کاروباری زندگی پر وتا جا ر ہے۔غضبناک ہ ہ

ا وتا جا ر ہے۔جاگیرداری کا روپ برابر حاوی ہ ہ

Page 371: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےپھر یکبارگی و کمپنی ک مینجنگ ڈائریکٹر س صرف ے ہ ۔رانی بازار ک عالق کا کنور شیور راج سنگھ ر گیا اس ہ ہ ے

ا ہن میز پر زور س گھونسا مار کر ک ے ے :

ر نکل جاؤ "اور پھر و چیخ کر زور" ہتم میر کمر س با ہ ے ے ے ار جی میں آئ کرو ۔س بوال "جاؤ جو تم ے ے ہ ے "

ہاو ر منحنی جسم واال ناٹک کا مسخر مسکین سی شکل ر چال گیا وئ خاموشی س اٹھ کر درواز ک با ۔بنائ ہ ے ے ے ے ہ ے ری خاموشی چھا گئی آتشدان میں ۔کمر ک اندر گ ہ ے ے

ر یں اور با وئ کوئل کبھی کبھی چٹخن لگت ہدھکت ہ ے ے ے ے ہ ے ی ٹ سنائی د ر ہے۔الن میں دیپ چند ک قدموں کی آ ہ ے ہ ے

ےپھر وانچو ن اپنا بھدا پائپ میز پر رکھ دیا اور مینجنگ ن لگا ےڈائریکٹر س ک ہ ے :

ےکنور صاحب ی آپ ن کیا کر دیا ؟" ہ "

" ی اس کو نوٹس د یں سب ٹھیک کل سویر ےکچھ ن ہ ے ہے۔ ہ ۔کر نوکری س علیحد کر دو ہ ے "

یں چل ےوانچو گھبرا کر بوال "لیکن اس طرح س کام تو ن ہ ے م کو بلیک میل کر ہگا بلک اب تو و اور بھی آسانی س ے ہ ہ ۔

ت س مار خالف ب ، اس لئ ک اس ک پاس ےسکتا ہ ے ہ ے ہ ے ہے یں ۔ڈکومینٹری ثبوت موجود ہ "

ری خاموشی میں کھو گیا اور خود ہکنور شیو راج سنگھ گ ےکو بڑا ب بس محسوس کرن لگا پھر اس ن بڑی ب ے ۔ ے ے

ی کرو ا "اچھا تو اب کچھ تم ۔چارگی س ک ہ ہ ے "

ن لگا، آپ ذرا اندر کوٹھی میں تشریف ل ےوانچو ک ے ہ وئ بھال وت و جائ گا میر ےجائیں، سب کچھ ٹھیک ہ ے ہ ے ۔ ے ہ

ہے۔آپ پر کوئی حرف آ سکتا "

ےکنور شیو راج سنگھ ن خاموشی س اس کی طرف ے وا ست چلتا ست آ ہدیکھا اور پھر کرسی پر س اٹھ کر و آ ہ ہ ہ ہ ہ ے ر چال گیا اس ک چل جان ک بعد وانچو ےکمر س با ے ے ے ۔ ہ ے ے

ن لگا ےن نیل کنٹھ کو اندر کمر میں بالیا اور اس س ک ہ ے ے ے :

Page 372: اردو ادب کے مشہور افسانے

و" اراج، دیکھو دیپ چندا بھی زیاد دور ن گیا ہنیل کنٹھ م ہ ہ ہ نا ک سیکرٹری صاحب ن ےگا تم جا کر اس کو بال الؤ، ک ہ ہ ۔

ر ہبالیا " اور نیل کنٹھ تیز تیز قدموں س کوٹھی ک با ے ے ہے مرا دیپ ہچال گیا تھوڑی دیر بعد جب و لوٹا تو اس ک ہ ے ہ ۔ ر گیا اور ہچند بھی تھا نیل کنٹھ پھرجا کر ورانڈ میں ٹھ ے ۔

ن لگا ےوانچو دیپ چند س ک ہ ے :

ون کو آ یں بوڑھ ےاکاؤٹنٹ صاحب آپ بھی خوب آدمی ہ ے ۔ ہ یں آیا بھال اس چاننا آپ کو ابھی تک ن ۔گئ مگر مزاج پ ہ ہ ے

وتی ہےطرح بھی کوئی بات ط ہ ے "

ی بھانپ گیا ل ہلیکن دیپ چند بھی کم سیانا ن تھا و پ ے ہ ہ ۔ ہ ےتھا ک اس کا "ترپ " ٹھیک پڑا اور اب و اس ک قابو ہ ہے ہ یں سکت اس دفع و بھی ذرا نرمی ہس نکل کر جا ن ہ ے۔ ہ ے ہس بوال "مگر سیکرٹری صاحب ی تو دیکھئ ک کنور ے ہ ے ی بتائی ک یں آ وئ ہصاحب تو میرا گال کاٹن پر تل ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ے

۔میں کرتا بھی تو کیا "

ن لگا "کمال کر دیا آپ ن ے۔وانچو اپن خاص انداز میں ک ے ہ ے لی بار و اس یں ک زندگی میں پ ی ہاتنا تو آپ جانت ہ ہ ہ ہ ے

میش وں ن تو یں ان ہکاروباری بکھیڑ میں آ کر پھنس ہ ے ہ ۔ ہ ے ے یں اور اپنی جاگیر میں من مانی حکومت کی ہحکم چالئ ے وتا ان ی گر ہے۔ دیکھئ رئیسوں س بات کرن کا اور ہ ہ ے ے ے ہے۔، پھر جو کام اں کرت جائی ر بات پر بس ےک سامن تو ے ہ ہ ے ے

ے۔جی چا ان س کرا لیجئ ے ہے "

۔اور دیپ چند ن جیس اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا ذرا ے ے ن لگا "اب کیا عرض کروں ےپشیمانی ک س انداز میں ک ہ ے ے

ےسیکرٹری صاحب مجھ بھی اس وقت نامعلوم کیا ۔ ۔سوجھی ک ان ک سامن ذرا تیزی س بات کرن لگا ے ے ے ے ہ

ےدراصل میں اپنی لڑکی کی سگائی ک سلسل میں ادھر ے یں ک میں بواسیر کا پرانا ی آپ جانت وں ہبڑا پریشان ہ ہ ے ۔ ہ ی اپنی وں روز بروز تندرستی گرتی جا ر ہے۔مریض ہ ۔ ہ

ی اتھ پیل کر دوں، بس اب تو ی ی اس ک ہزندگی میں ے ہ ے ہ ہے۔لگن "

ونا بھی اس اں، لڑکی کا مدردی کرن لگا "جی ہوانچو ہ ے ہ ی لیکن بات ک ےسوسائٹی میں اچھی خاصی مصیبت ہے ہ

وتا تو بھال کنور صاحب انکار لو پر آپ ن زور دیا ہاسی پ ے ہ

Page 373: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں ن الکھوں روپی ریس بازی پر تبا کیا ہکر سکت تھ ان ہ ے ہ ے۔ ے ے۔کیا اس کنیا دان ک لئ و کچھ ن کرت ہ ہ ے ے "ہے۔

ی بتائی ک میں کیا کروں ؟" ہاچھا تو اب آپ ے ہ "

ن لگا "کر گا کیا کنور صاحب ن جب آپ س ےوانچو ک ے ۔ ے ے ہ ۔وعد کیا تو آپ کو اپنا روپی مل گا ے ہ ہے ہ "

ر پر ایک ےمنحنی جسم وال دیپ چند ک روکھ چ ہ ے ے ے و گئی و مسکرا کر بوال "تو ہبارگی زندگی کی رمق پیدا ۔ ہ ی دیجئ سیکرٹری صاحب! آپ کا ےپھر اس کام کو اب کرا ہ

و گا ت بڑا احسان ۔ب ہ ہ "

ہوانچو جلدی س بوال "آپ خوا مخوا مجھ کو شرمند کر ہ ہ ے یں "پھر اس ن میز کی دراز میں س کنجی نکالی ےر ے ہ ہے

ن لگا، لیجئ ےاور دیپ چند ک سامن اس کو ڈال کر ک ے ہ ے ے ےذرا سیف میں س چیک بک نکال لیجئ میں آپ ک لئ ے ے۔ ے

وں اس وقت تو کنور صاحب کا ۔ابھی چیک تیار کئ دیتا ہ ے ی میں ان ل نچن س پ وا سویر آفس پ ہموڈ بگڑا ے ہ ے ے ہ ے ہے۔ ہ ۔س دستخط کروا ک آپ کو چیک د دوں گا آپ بالکل ے ے ے

۔اطمینان رکھیں "

و گیا اس ن کچھ ےاوردیپ چند جیس واقعی مطمئن ۔ ہ ے وئ انداز میں کنجی ا اور چپ چاپ گھبرائ ےبھی ن ک ہ ے ہ ہ

نی سیف ک پاس وئ آ ےاٹھائی اور دیوار ک پاس کھڑ ہ ے ہ ے ے ر وئ گ نچ گیا پھر دیپ چند ن اس ک اوپر لگ ےپ ہ ے ہ ے ے ے ۔ ہ

ےسبزی مائل چھوٹ بلب کو دیکھا جو اپنی ایک آنکھ س ۔ ے ا تھا گویا خطر کی کوئی بات ےاس کی طرف گھور ر ۔ ہ ر کی یں اس ن تال کو کھول کر درواز کو با ہن ے ے ے ہے۔ ہ نی سیف کا اندرونی حص من پھاڑ ےطرف کھینچ لیا آ ہ ہ ہ ۔

وئ مجرمان ہوئ نظر آن لگا اور وانچو گردن موڑ ے ہ ے ے ے ہی دیپ ا اور جیس ہنظروں س ی سب کچھ دیکھتا ر ے ہ ہ ے ینڈل مضبوطی س نی سیف ک نچل خان کا ےچند ن آ ہ ے ے ے ہ ے

ا اسی وقت وانچو ن دیوار میں ےپکڑ کر اس کو کھولنا چا ہ وئ سوئچ کو دبایا دیپ چند ایکا ایکی بڑی بھیانک ۔لگ ے ہ ے ن کی دبی، دبی آوازیں ےآواز س چیخا پھر اس ک کرا ہ ے ۔ ے

انپن لگیں اور وانچو ن جھٹ س ری خاموشی میں ےگ ے ے ہ ہ ری سرخ ہکمر ک اندر اندھیرا کر دیا آتشدان کی گ ۔ ے ے

نگم سای سامن والی دیوار پربڑا ےروشنی میں اس کا ب ہ ہ ے

Page 374: اردو ادب کے مشہور افسانے

یب نظر آن لگا دیپ چند ک حلق ک اندر س بلیوں ےم ے ے ۔ ے ہ ر ی تھیں اور با ہک غران کی سی خوفناک آوازیں نکل ر ہ ے ے ہفیکٹری ک ورکشاپ میں لو ک ٹکران کی آسیب زد ے ے ہے ے ا تھا و ر وا وانچو بڑا پراسرار معلوم ۔تاریکی میں کھڑا ہ ہ ہ

شت تھی اور اس ک گنج سرپر ےاس کی آنکھوں میں د ے ہ ےپسین کی نمی آ گئی تھی پھر و خواب میں بھٹکن وال ے ہ ۔ ہ نی سیف ک وا آ ست قدم رکھتا ست آ ےسایوں کی طرح آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ر گیا اور ذرا دیر تک بالکل ساکت کھڑ ےقریب جا کر ٹھ ہ

ن ک بعد اس ن دیپ چند کی طرف دیکھا جس کا ےر ے ے ہ وا تھا اور و فرش پر ینڈل س الجھا ہاتھ ابھی تک ہ ے ہ ہ

وا تھا دھندلی روشنی میں اس کی پھٹی ۔خاموش پڑا ہ ی تھیں لیکن وانچو و ر ہوئی آنکھیں بڑی ڈراؤنی معلوم ہ ہوا اس کو چپ چاپ دیکھتا وں س کھڑا ہخون خوار نگا ے ہ می ا پھر اس ن نیل کنٹھ کو آواز دی اور نیل کنٹھ س ہر ے ۔ ہ

:ہوئی آواز میں بوال

ہےکیا حکم سیکرٹری ساب؟" "

وئ مین سوچ کو ن لگا "جاؤ ورانڈ میں لگ ےوانچو ک ہ ے ے ے ہ ۔"آف "کر دو اور اس ک بعد کمر ک اندر چل آنا ے ے ے ے "

وا نی سیف پر جلتا ٹ سنائی دی پھر آ ر قدموں کی آ ہبا ہ ۔ ہ ہ ےسرخ رنگ کا چھوٹا بلب بھی بجھ گیا اب خطر کی ۔

اتھ ی دیپ چند کا یں تھی اور اس ک ساتھ ہکوئی بات ن ہ ے ہ ےینڈل پر س چھوٹ گیا اور اس کا ب جان جسم فرش پر ے ہ

ہایک طرف کو لڑھک گیا پھر ذرا دیر بعد کمر کا درواز ے ۔ ن لگا ےکھال اور نیل کنٹھ اندر آگیا وانچو اس س ک ہ ے ۔ :

ر الن میں ل جاؤ میں ابھی ذرا دیر" ۔اس کو اٹھا کر با ے ہ ٹ تھی وئی تھرتھرا وں اس کی آواز میں دبی ۔میں آتا ہ ہ ۔ ہ

ےنیل کنٹھ ن ایک بار بھرپور نظروں س وانچو کو دیکھا ے و ک کیا ی گیا؟ پھر اس ن دیپ چند ا ےجیس و پوچھ ر ہ ہ ہ ہ ہ ے کی الش کو اٹھا کر اپنی چوڑی چکلی پیٹھ پر الد لیا اورےکسی کپڑ کی طرح کمر کو جھکائ سنبھل سنبھل کر ے ر چال گیا پھر وانچو ن دیوار وا کمر س با ےقدم رکھتا ۔ ہ ے ے ہ ~ دبا کر "آف نی سیف ک سوئچ کو احتیاطا وئ آ ےپر لگ ہ ے ہ ے ے"کر دیا اور اپنی کوٹ کی جیب میں س ٹارچ نکال کر ےاس کو روشن کیا پھر اس تیز روشنی میں و سیف ک ہ ۔

Page 375: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئ فلکس ایبل وائر نچا اور اس کی پشت پر لگ ےپاس پ ہ ے ہ ن الیکٹرک وائر وئ بر Pحد کر دیا اور دیوار پر لگ ہکو علی ہ ے ہ ے ہ

ےپرلڈ شیٹ چڑھا کر دونوں اسکرو، اچھی طرح کس دیئ وئ نی سیف کا اندرونی حص من پھاڑ ےلیکن ابھی تک آ ہ ے ہ ہ ہ

ا تھا اور جب و اس ک درواز کو بند کرن لگا ےنظر آ ر ے ے ہ ہ وئی آنکھیں یاد آ ہتو ایکبارگی اس کو دیپ چند کی پھٹی ےگئیں اس کا سارا جسم لرز اٹھا اور آتشدان ک اندر ۔ وئی چتا کی طرح چٹخن وئ انگار کسی جلتی کت ےد ہ ے ے ہ ے ہ ہلگ وانچو کی سانس اب تیزی س چلن لگی اور و ے ے ے۔

ر چال گیا کوٹھی ک اندر بالکل ےبدحواس سا کمر س با ۔ ہ ے ے وئی تھی اس ن جلدی س مین سوئچ ےتاریکی چھائی ے ۔ ہ

لکی ہ"آن" کر دیا اور ایک دم س دریچوں پر روشنی کی ے ریں جھلمالن لگیں اس وقت کوٹھی ک اندر س ےلکی ل ے ۔ ے ہ ہ۔کنور صاحب ک کھانسن کی آواز سنائی دی مگر اس ے ے

ےن ادھر کوئی توج ن دی اور تیزی س ورانڈ کی ے ہ ہ ے اں نیل ر الن میں چال گیا، ج وا با ہسیڑھیوں پر س اترتا ہ ہ ے

ا تھا وانچو ن وا اس کا انتظار کر ر ےکنٹھ کھڑا ۔ ہ ہ ےسرگوشی ک س انداز میں اس کو دھیر س آواز دی ے ے ے

ست چلن ست آ وئ آ ری دھند میں کھوئ ےاور دونوں گ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ٹ سنسان راست پر ےلگ ان ک قدموں کی دبی، دبی آ ہ ے ے۔

ی ۔دور تک سنائی دیتی ر ہ !!

ےرات گئ جب نیل کنٹھ اپن کوارٹر پر واپس آیا تو دھندلی ے ےروشنی میں اس ن ایک دبل پتل بچ کو دیکھا جو ے ے ے

ی نظر میں لی وا کھڑا تھا اس ن پ ہسردی س سکڑا ہ ے ۔ ہ ے چان لیا ک و دیپ چند اکاؤنٹنٹ کا لڑکا منا تھا اور ہپ ہ ہ

ا تھا وئی آواز میں بوڑھ چوکیدار کو پکار ر ہتھرتھرائی ے ہ وا اس ہ"پر بھو بابا" اور پھر پربھو بابا اندر س کھانستا ے

ی حیرت س بوال ےکو دیکھت ہ ے :

" ائ رام، کتن ، اں س نکل پڑ ےار تم اس سم ک ے ہ ے ے ہ ے ے ا ہےزوروں کا جاڑا پڑ ر ہ "

ن لگا بابو جی ابھی تک گھر وا منا ک ۔سردی س سکڑا ے ہ ہ ے وں ن مجھ کو یں سو ان یں گئ ماں جی گھبراتی ےن ہ ۔ ہ ے۔ ہ

ہےپوچھن ک لئ بھیجا اور کرشنا دیوی تو رات کو نکلتی ے ے ے یں ۔ن ہ

Page 376: اردو ادب کے مشہور افسانے

ن لگا ک و کنور صاحب کی کوٹھی پر ہبوڑھا چوکیدار ک ہ ے ہ ل وں گ میں ابھی جا کر ان س ک دوں گا چلو پ ےگئ ہ ۔ ہہ ے ے۔ ہ ے

مرا ہمیں تم کو کوارٹر تک چھوڑ آؤں اور و لڑک کو اپن ہ ے ے ہ وا سب کچھ ہل کر چل دیا نیل کنٹھ اندھیر میں کھڑا ے ۔ ے ن ر کر ک ا پھر ایک بارگی اس ن سنا ک منا ٹھ ےدیکھتا ر ہ ہ ہ ے ۔ ہ

:لگا تھا

ےپربھو دادا تم جا کر بابو جی کو ل آؤ، میں کوارٹر چال" ہےجاؤں گا تم جلدی س آ جانا و ننھی بلو نا! بابو جی ہ ۔ ے ۔ یں آتی خوب زور زور س روتی ہے۔ک بنا اس کو نیند ن ے ۔ ہ ے "

ےاور جیس نیل کنٹھ ک کان ک پاس کوئی سرگوشی ک ے ے ے ار بابو جی کبھی ن لگا جاؤ منا اب تم ےس انداز میں ک ہ ۔ ے ہ ے ی سو ، روت ان ک بغیر یں آئیں گ اور ننھی بلو روت ہن ے ے ے ے ہ

اؤس ک اندر چپ چاپ ےجائ گی و فیکٹری ک پاور ہ ے ہ ۔ ے یں، ن کسی کی کچھ سن سکت یں ن کچھ بولت ےپڑ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے

نچ سکتی یں پ اری آواز اب اس تک ن ۔یں تم ہ ہ ہ ۔ ہ

ت تھک گیا ہاور نیل کنٹھ محسوس کرن لگا ک جیس و ب ہ ے ہ ے ہے۔ اس کا مضبوط پٹھوں واال جسم موم بتی کی طرح

ےپگھلن لگا اور اس ک چاروں طرف جیس دبی، دبی ے ہے ے یں پھر و خواب ک س عالم میں ی ےسسکیاں دھڑک ر ے ہ ۔ ہ ہ نچا اور وا اپن کوارٹر ک درواز پر پ ست چلتا ست آ ہآ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ

ہاس کو کھٹکھٹان لگا لیکن اس شور س و اچانک چونک ے ے ہے۔پڑا اور اس کو یاد آگیا ک درواز تو اندر س بند پھر ے ہ ہ

کوارٹر کی پشت پر جا کر صحن کی پچھلی دیوار کو پھاندہکر و اندر آگیا بالکل اسی طرح جیس و ڈسٹرکٹ جیل ے ۔ ہ

ےکی پتھروں والی اونچی دیوار کو پھاند کر رات ک سناٹ ے وا تھا اس ک پیچھ گشت کرن وال ےمیں فرار ے ے ے ۔ ہ

یں اور پھر ریداروں کی بھیانک سیٹیاں دیر تک چیختی ر ہپ ہ وا و بڑی رات تک ن جان کیا ےاپن کمر ک اندر لیٹا ہ ہ ہ ے ے ے

ا ۔اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں سوچتا ر ہ

ےدوسر دن فیکٹری ک تمام ڈیپارٹمنٹ بند ر اس لئ ہے۔ ے ے و گئی تھی ۔ک چیف اکاؤنٹنٹ دیپ چند کی اچانک موت ہ ہ

اؤس ک اندر پائی گئی اس ن ےاس کی الش پاور ۔ ے ہ ےالیکٹرک بھینرئیر ک سوئچ "بس بار "کو غلطی س چھو ے و سکا اس اطالع ک ےلیا تھا اور اس حادث س و جانبر ن ۔ ہ ہ ہ ے ہ

Page 377: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی و ر ی فیکٹری ک یارڈ میں ی بھی سرگوشیاں ہساتھ ہ ہ ے ہ ہتھیں ک دیپ چند ن خود کشی کر لی اور اس کی وج ہے ے ہ ی تھیں لیکن س و ر ی قیاس آرائیاں ہجانن ک لئ کتنی ہ ہ ہ ے ے ے وئی اور ر کوپروگرام ک مطابق ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہپ ے ہ

ارا ہکنور شیو راج سنگھ کی سفارش پردیپ چند ک ب س ے ے زار کی رقم گزار ک لئ منظور ےخاندان ک لئ پانچ ے ے ہ ے ے

۔کر دی گئی

ی ہے۔۔فیکٹری کی تعمیر ایکا ایکی مت پڑتی جا ر ہ !

یں اور ان تیز وائیں چلن لگی وئی کی ہپھاگن کی م ے ہ ہ ہ ر زرد پھولوں کی ڈالیاں ےواؤں میں سرسوں ک گ ہ ے ہ

یں اور و کھیتوں میں جیس بسنتی آنچل ےجھومن لگتی ہ ہ ے یں کھیتوں میں رات گئ تک ڈھولک اور را جات ےل ۔ ہ ے ہ

ولی ک راگ اور نیچ سروں یں اور ےجھانجنیں بجا کرتی ے ہ ہ یں پھر گاؤں ک اندر بڑ بڑ االؤ ےمیں گائ جات ے ے ۔ ہ ے ے

وائیں ہدھمکن لگیں گ اور گالل اڑن لگ گا پھاگن کی ۔ ے ے ے ے ی پھر ولی آ ر ، ی ولی آ ر یں ک ی ہے۔چیختی پھر ر ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ و جائیں گی وئی کھیتیاں کٹنا شروع اتی ل وں کی ل ہگی ہ ہ ہ ہ روں میں کام کرن وال گاؤں ک لوگ ےاور دور ک ش ے ے ہ ے

ون وال آبی پرندوں ےموسم سرما میں جھیلوں پر اکٹھ ے ہ ے یں یونائیٹڈ و گئ ۔کی طرح اپنی بستیوں میں آنا شروع ہ ے ہ ےانڈسٹریز لمیٹڈ کی فیکٹری ک یارڈ میں مزدوروں کا شور

ا فصل کی کٹائی کرن ک ےروز بروز مدھم پڑتا جا ر ے ہے۔ ہ ےلئ کمپنی ک سار قلی دھیر دھیر فیکٹری کا کام ے ے ے ے

یں کمپنی ن گھبرا کر ان کی کئی ےچھوڑ کر بھاگن لگ ۔ ہ ے ے ےفتوں کی مزدوری روک لی اس بات س قلیوں ک ے ہے۔ ہ

تی و ٹ چھائی ر ر وقت جھنجھال روں پر ہروکھ چ ہے۔ ہ ہ ہ ہ ے یں و کر زور ز ور س چالت ۔ٹائم کیپر آفس میں اکٹھا ہ ے ے ہ

ا ؟" و ر یں ملتی، ایسا کیوں ہےی مزدوری کیوں ن ہ ہ ہ ہ "

" ئ م کو پیس چا ، ا وار آ ر ولی کا ت ؟ ہےی سب کیا ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ "

م کو اپنی مزدوری" ، ئ م کو اپنی مزدوری چا ہاں، ہے ے ہ ہ ہئ ہے۔چا ے ہ "

یں مل سکتی، اس لئ ک کمپنی ہلیکن مزدوری ابھی ن ے ہ یں تو و جائ ن ی تعمیر تی ک شگر پالنٹ جلد ہچا ے۔ ہ ہ ہ ہے ہ

Page 378: اردو ادب کے مشہور افسانے

و جائ گا مگر مزدور لوگ اس ک ت نقصان ےکمپنی کا ب ۔ ے ہ ہ یں رت و گال پھاڑ پھاڑ کر چیخت یں ٹھ ۔باوجود بھی ن ہ ے ہ ے۔ ہ ہ

یں پھر کسی روز تاروں کی چھاؤ ں ۔سب کو گالیاں دیت ہ ے یں ان باتوں کو دیکھ ۔میں اٹھ کر اپنی بستی کو چل دیت ہ ے

کر بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایمرجنسی میٹنگ بالئی گئیوا ک قلی لوگوں کا ریٹ بڑھا دیا جائ اس ے۔اور ی ط ہ ہ ے ہ یں ہلئ ک فیکٹری کی تعمیر میں کسی قسم کی تاخیر ن ہ ے

ئ پھر اس ک بعد مزدوری ک ریٹ بڑھنا ےونی چا ے ے۔ ہ ہو گئ ے۔شروع ہ

ہایک روپی چھ آن یومی ے ہ !

ہایک روپی دس آن یومی ے ہ !

ہایک روپی چود آن یومی ے ہ ہ !

فتوں میں ریٹ بڑھان کا تجرب بھی کچھ ہمگر ان تین ے ہ ی مزدوروں ولی کا االؤ دھمکت وا بلک ہکارگر ثابت ن ے ہ ہ ۔ ہ ہ ونا شروع کر دیا ۔ن اور بھی تیزی س کام پر س فرار ہ ے ے ے

ےر روز ٹائم کیپر، رجسٹر ل کر مینجنگ ڈائریکٹر ک آفس ے ہوئی سی آواز میں رپورٹ سناتا می ۔میں جاتا اور س ہ ہ م ےمینجنگ ڈائریکٹر جھنجھال کر مزدوروں ک ساتھ س ہ ے

۔وئ ٹائم کیپر کو بھی گالیاں دین لگتا پھر ایک روز اس ے ے ہےن وانچو کو اپن دفتر میں بالیا اور پریشانی ک عالم ے ے

ن لگا ےمیں ک ہ :

ا ی ریٹ اس طرح" و ر ہمسٹر وانچو آخر ی سب کیا ہے۔ ہ ہ ہ ۔کب تک بڑھایا جائ گا ے "

ست ست آ ، و آ ا وا نظر آ ر ہمگر وانچو بھی کچھ گھبرایا ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ا کنور صاحب، بات یں آ ر ن لگا:"کچھ سمجھ میں ن ہےک ہ ہ ے ہ

اں کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ی ک ی ترائی کا عالق "ی ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ یں ی ت اچھی ر وں ک فصلیں ب ا ی سن ر ۔اس دفع ی ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

یں یں اب ان و گئ ، کسانوں ک ٹھاٹھ ہراشن کا زمان ۔ ہ ے ہ ے ہے ہ ہی فیکٹری کی نوکری کیا اچھی لگ گی اور ی زمینداری ے ہ ےابالیشن کی خبروں ن تو ان کا اور بھی دماغ خراب کر

ہے۔دیا "

Page 379: اردو ادب کے مشہور افسانے

و کر بوال "تم ن پوری کتھا سنانا ےو اور بھی پریشان ہ ہ ہشروع کر دی اس طرح کیس کام چل گا ی بتاؤ ک ہ ۔ ے ے ۔

و ۔لیبرکا کیس بندوبست ہ ے "

ر کی طرف ےوانچو ذرا دیر تک مینجنگ ڈائریکٹر ک چ ہ ے ا پھر و بڑ اعتماد س بوال "میری سمجھ میں ےدیکھتا ر ے ہ ۔ ہ ، لیکن اس میں خطر بھی اور ی بات آتی ہےتو ایک ہ ہے ہ

و گا ۔روپی بھی اچھا خاص خرچ ہ ہ ہ "

ن لگا "ذرا اپن آپ کو ےمینجنگ ڈائریکٹر جلدی جلدی ک ے ہ ہبچا کر کام کرنا اور روپی کی تم فکر ن کرو، میں ہ

و ہڈائریکٹروں س نبٹ لوں گا اور یوں بھی کچھ کم خرچ ے وئی تو ی ا اگر آئند سیزن تک فیکٹری اسٹارٹ ن ہر ہ ہ ہ ہے۔ ہ

و جائ گی ۔سمجھ لو ک کمپنی دیوالی ے ہ ہ ہ "

ہوانچو پوچھن لگا "آپ ک خیال میں ی بنگالی کیمسٹ ے ے ؟ ، اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہےسانیال کیسا آدمی ہے "

وں ک آدمی تو و کام ال کر بوال "میں سمجھتا ہو گردن ہ ہ ہ ہ ی ہکا انارکسٹ پارٹی میں کئی سال تک ر چکا ان ہے۔ ہ ہے۔ ت بری طرح ہدنوں پولیس ن ایک بار گرفتار کر لیا تھا ب ۔ ے ۔اس کو ٹارچر کیا مگر اس ن ذرا سا بھی سراغ ن دیا تم ہ ے

و ۔اس پر اعتبار کر سکت ہ ے "

ےپھر وانچو ن چپراسی کو آواز دی اور اس کو سانیال ک ے ر ی دیر ک بعد بھد چ ےبالن ک لئ بھیج دیا تھوڑی ہ ے ے ہ ۔ ے ے ے ےواال کیمسٹ دفتر ک اندر آگیا وانچو ن خاموشی ک ے ۔ ے

ری نظروں س جائز لیا اور پھر پوچھن ےساتھ اس کا گ ہ ے ہ ین میں آپ کمپنی ک کام ےلگا "مسٹر سانیال، نومبر ک م ہ ہ ے ۔ اں ، و اں تک مجھ یاد پڑتا ہس بمبئی گئ تھ اور ج ہے ے ہ ے ے ے ہآپ ن گورنمنٹ لیبارٹری س بھی کچھ مشور کیا تھا ے ے

یں ؟ اں کوئی آپ کا جانن واال تو ن ہےو ہ ے ہ "

ر واال سانیال ذرا دیر تک غور کرن ک بعد بوال ےبھد چ ے ے ہ ے اں! میری وائف ک ایک رشت دار اس میں کام کر ہ"جی ے ہ

را بھی تھا یں، جن ک فلیٹ میں دو روز تک ٹھ ۔ر ہ ے ہ ہے "

Page 380: اردو ادب کے مشہور افسانے

ر ایک بارگی جیس دمک اٹھا وا چ ۔اور وانچو کا گھبرایا ے ہ ہ ہ ےو چنگی بجا کر بوال "پھر تو سب کچھ ٹھیک دیکھئ آج ہے۔ ہ

اں س ےرات کی گاڑی س آپ دھلی چل جائیں اور و ہ ے ے ، آپ کو گورنمنٹ نچ جائی از ک ذریع بمبئی پ ےوائی ج ہ ے ے ہ ہ" اور اس ک م کام کرنا ےلیبارٹری ک ذریع ایک بڑا ا ۔ ہے ہ ے ے ےجواب کا انتظار کئ بغیر اس ن ٹیلیفون اٹھا کر دھلی ک ے ے ےواسط سیٹ کی ریزرویشن ک لئ اسٹیشن ماسٹر س ے ے ے

زار روپ کا ڈرافٹ بنوا کر ر تک دس ےگفتگو کی اور س پ ہ ہ ہ ےاس کو د دیا پھر شام ک وقت مینجنگ ڈائریکٹر کی ۔ ے

ےکوٹھی پر سانیال، وانچو ک ساتھ بند کمر ک اندر دیر ے ے ا اور پروگرام ک مطابق شب ےتک راز داران باتیں کرتا ر ہ ہ

و گیا ۔کی ٹرین س دھلی روان ہ ہ ے

ےپانچویں دن فیکٹری میں سانیال کا بمبئی س ٹیلیگرام ت خراب کرشنگ ارڈویئر کا بازار ب ہے۔آیا، لکھا تھا " ہ ہ

یں مال " وانچو ن تار کو کئی بار پڑھا ےسلنڈر ابھی تک ن ہ وا اس "کوڈنیوز "پر غور ہاور اپن دفتر میں خاموش بیٹھا ے

ا پھر کئی روز اور گزر گئ لیکن کوئی اطالع ن ہکرتا ر ے ۔ ہ ۔ملی اور وانچو کی ب چینی بڑھن لگی اس پریشانی ے ے ڈیاں اور بدنما وئی ہمیں اس ک رخساروں کی ابھری ہ ے ون لگی تھیں پھر ایک روز فیکٹری کا کیمسٹ ۔معلوم ے ہ وا ۔سراسیمگی ک عالم میں اس ک دفتر میں داخل ہ ے ے

ٹ س دھندل ر ک بھد نقوش گھبرا ےاس ک چ ے ہ ے ے ے ہ ے وا اس و ر تھ وانچو کرسی پر خاموش بیٹھا ہمعلوم ے۔ ہے ہ

ست س پوچھا ا پھر اس ن آ ۔کو غور س دیکھتا ر ے ہ ہ ے ۔ ہ ے

و؟" ہکیا خبر الئ ے "

"کام تو بن گیا"

و؟ ہوانچو مسکران لگا "تو پھر تم اتن پریشان کیوں ے ے "

۔سانیال درواز کی طرف مڑ مڑ کر دیکھن لگا پھر اس ے ہ وا ن لگا مجھ ایک شخص پر شب ہک قریب جھک کر ک ہ ے ۔ ے ہ ے ا " وانچو لحظ بھر ہ ک و بمبئی س میرا پیچھا کر ر ہے ہ ے ہ ہ ہے

ری خاموشی میں ڈوب گیا پھر اس ن بڑ ےک لئ گ ے ۔ ہ ے ے ا ہاعتماد ک ساتھ ک ے :

Page 381: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا دھوکر آرام کیجئ اس قدر" ے۔اچھا آپ جا کر ذرا سا ن ہ و جائ گا یں سب کچھ ٹھیک ۔گھبران کی کوئی بات ن ے ہ ہ ے

ر چال ا پھر دفتر س با ہسانیال ذرا دیر تک خاموش کھڑا ر ے ہ وا کھڑکی ک قریب آ کر ست چلتا ست آ ےگیا اور وانچو آ ہ ہ ہ ہ ہ ر واال کیمسٹ فیکٹری ک پھاٹک و گیا بھد چ ےکھڑا ے ہ ے ۔ ہ

ا تھا وانچو چپ ۔س نکل کر اپن کوارٹر کی طرف جا ر ہ ے ے ا اور جب ایک موڑ پرو وا اس کو دیکھتا ر ہچاپ کھڑا ہ ہ

و گیا تو و پھر اپنی پر میز آگیا اور ہنظروں س اوجھل ہ ے ہٹیلیفون اٹھا کر مینجنگ ڈائریکٹر کو رنگ کیا و کوٹھی پر ۔ ےموجود تھا وانچو ن بنگالی کیمسٹ ک آن کی اس کو ے ے ۔

ےاطالع دی اور خود بھی دفتر س نکل کر کنور صاحب کی ۔کوٹھی کی طرف چل دیا

ر سناٹ میں دونوں کا ےاور جب رات ذرا ڈھل گئی اور گ ے ہ و گیا، تو وانچو ن فیکٹری کی جیپ اسٹارٹ کی ےشور تیز ہ

جس کی پچھلی سیٹ پر آبنوسی جسم واال نیل کنٹھوا تھا فیکٹری ک احاط س نکل کر جیپ ےخاموش بیٹھا ے ے ۔ ہ

ہروشن نگر روڈ کی طرف مڑ گئی تیر میل تک پخت ہ ۔ وئی تیز ی ک ساتھ ، اس لئ جیپ سنسناتی ےسڑک ہ ے ہے موار پتھریلی سڑک آ گئی تو ی مگر جب نا ہگزرتی ر ۔ ہ

ےجیپ کو جھٹک لگت اور و کھڑ کھڑان لگتی لیکن وانچو ہ ے ے ا ا س ک وا اس کو ڈرائیو کرتا ر ےخاموشی س بیٹھا ۔ ہ ہ ے

وا اور نیل کنٹھ ر پر بڑا پراسرار سکوت چھایا ہےچ ہ ے ہ ا ک جھٹکوں س اس وا سوچتا ر ےپچھلی سیٹ پر بیٹھا ہ ہے ہ ہ ی وائیں چل ر ر پھاگن کی ا با وتا جا ر ہکا سر بوجھل ہ ہ ہے۔ ہ ہ

یں اور ولی کا سندیس التی وائیں جو ہیں پھاگن کی ہ ہ ہ ۔ ہوں کی فصلیں و چکی اب تو گی ہولی جو اب ختم ہے۔۔ ہ ہوئی اتی ل نسیا کی تیز باڑھ س ل یں اور ی ہکٹ ر ہ ہ ے ہ ہ ہ یں جان و جاتی وں کی بالیاں کھیتوں میں ڈھیر ےگی ۔ ہ ہ ہ

اراج ہاشیر گڑھ ک خوبصورت گاؤں میں اب نیل کنٹھ م ے ہےکو کوئی یاد کرتا جس کی کٹائی کا چوپال پر بڑا چرچا

ا کرتا تھا ور ایکا ایکی بانبی کی ل پر جھومن وال ےر ے ے ہ وشی ک عالم میں بڑبڑان لگا ۔ناگ کی طرح و ب ے ے ہ ے ہ

وں" اں میں کسان وں، ہمیں ایک کسان ہ ہ !"

Page 382: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں تو مجرم ی اس کا گال دبوچ لیا، ن ~ ہپھر کسی ن فورا ہ ے ے، تو مجرم پولیس تیرا وارنٹ لئ ابھی تک تالش کر ہے۔ ہے

ی ہے۔ر ہ

ےنیل کنٹھ ن چونک کر دیکھا، سامن وانچو اطمینان س ے ے وا تھا اور پتھریلی سڑک پر جیپ ہاسٹرینگ پر بیٹھا

ی تھی اور ستاروں کی مدھم روشنی میں ہچکول کھا ر ے ہوئی ستانی چٹانیں سایوں کی طرح کوسوں تک پھیلی ہکو ہ ےتھیں پھر ایک بارگی وانچو ن جیپ کو نیچ ڈھلوان پر ے ۔

ےگھما دیا نیل کنٹھ گھبرا کر اپنی سیٹ س چمٹ گیا لیکن ۔ ست گنجان درختوں ک نیچ ست آ وئی آ ےجیپ ڈگمگاتی ے ہ ہ ہ ہ ہ

ر اندھیر میں جا کر ی اور پھر گ ےکچھ دور تک چلتی ر ے ہ ہ ر گئی اور دونوں اتر کر نیچ آ گئ وانچو ن آگ والی ےٹ ے ے۔ ے ہ

ر ہسیٹ ک نیچ س ڈائنا مائٹ ک بھاری کیس کو با ے ے ے ے ےنکاال ی ڈائنا مائٹ جس کو فیکٹری کا کیمسٹ بمبئی س ہ ۔

مرا الیا تھا جس کو گورنمنٹ لیبارٹری س سمگل ےاپن ہ ہ ے زار س زائد روپی ہکیا گیا تھا او ر جس پر کمپنی کا نو ے ہ

اتھوں وا تھا پھر نیل کنٹھ ن اس کو اپن مضبوط ہخرچ ے ے ۔ ہ ےمیں سنبھال لیا اور دونوں اندھیر میں چلن لگ ان ک ے۔ ے ے

ےقدموں ک نیچ خشک پت کھڑکھڑا ر تھ اور درختوں ہے ے ے ے و وئی معلوم انپتی وائیں ستانی وئی کو ہس الجھتی ہ ہ ہ ہ ہ ے را تھا اور پتھریلی چٹانوں میں ت گ ی تھیں اندھیرا ب ہر ہ ۔ ہ ن والی کوکیال ندی کا شور سنائی دین لگا تھا دونوں ۔ب ے ے ہ وئ ےاسی طرح کئی فرالنگ تک چلت ر پھر ایک جھک ہ ے ہے۔ ے

نچ تو پتھروں ےٹیل پر س گذر کر جب و نشیب میں پ ہ ہ ے ے ون لگا یبت ناک معلوم وا دریا کا شور بڑا ےس ٹکراتا ہ ہ ہ ے ت تیز دونوں اؤ ب ہے۔تھا اس وادی میں کیال ندی کا ب ہ ہ ۔

ت اں پر دریا کا دھارا ب یں اور ج سار ہطرف سر بلند کو ہ ہ ہ وا گورنمنٹ ، اس مقام پر سرکاری ڈیم بنا و گیا ہے۔تیز ہ ہے ہ

ائیڈرو الیکٹرسٹی پیدا کرن ک لئ اس کو تعمیر ےن ے ے ہ ے وا اونچائی پر ہکروایا اس بندھ ک پاس پانی گرجتا ے ہے۔ وئی ی میں پتھروں کی بنی ہس گرتا اور قریب ہ ہے ے ریدار ہچھوٹی س عمارت جس ک سامن دو پ ے ے ہے ے

یں ت وئ مستعدی س کھڑ ر ۔سنگینوں کو سنبھال ہ ے ہ ے ے ے ہ ے

دایات ک مطابق نیل کنٹھ، ڈائنامائٹ کو ےپھر وانچو کی ہ وئ پتھروں پر چلن لگا ست بکھر ست آ ، آ وئ ےسنبھال ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

Page 383: اردو ادب کے مشہور افسانے

، وئ ےاور پھر وانچو، اس ک وائر کو مضبوطی س پکڑ ہ ے ے ے ا اس کی تیکھی ۔پتھریلی چٹانوں ک اندھیر میں بیٹھا ر ہ ے ے

وئ نیل کنٹھ کا پیچھا ےنظریں سامن پتھروں پر جات ہ ے ے نچ کر، اچانک و اندھیر میں یں ڈیم ک پاس پ ےکرتی ہ ہ ے ۔ ہ

و گیا اور دریائ ککیال کا تیز دھارا ڈیم ک نیچ ےغائب ے ے ہ وائیں جیس یب شور میں پھاگن کی ا اس م ےگرجتا ر ہ ہ ۔ ہ

وئ سار خوابوں میں ڈھک ےسوگئی تھیں اور سربلند کو ہ ے ہ و ر تھ پھر ایکا ایکی ڈیم ک اوپر ایک دھندلی ےمعلوم ے۔ ہے ہ

رایا اور اسی وقت ہروشنی میں ایک انسانی سای ل ہ ریدار ن چیخ کر وئ پ ےپتھریلی عمارت ک نزدیک کھڑ ہ ے ہ ے ے

ا ۔ک ہ

ر جاؤ" ، ٹھ " " کون ہھالٹ ہے ہے ۔ "

ی بندوق کی تیز آواز وادی ک اندر ےاور اس ک ساتھ ہ ے وا نی گارڈ س چمٹا ہدھڑکن لگی لیکن نیل کنٹھ آ ے ہ ے ا گولی اس کی کنپٹی ک ےڈائنامائٹ کو "فٹ " کرتا ر ۔ ہ

ےپاس س ایک بار زن س گزر گئی وانچو اندھیر میں ۔ ے ے ا ایک می نظروں س ڈیم کی طرف دیکھتا ر وا س ۔بیٹھا ہ ے ہ ہ

ستانی چٹانوں میں چیخن ےدفع پھر بندوق کی آواز کو ہ ہ رائی میں دیر ساروں کی گ ہلگی اور اس کی دھڑکن کو ہ ی وانچو کا جسم تھرتھرا کر ر گیا پھر ایک انپتی ر ہتک ۔ ہ ہ لن لگا گویا اب ۔دم س ڈائنامائٹ کا وائر زور زور س ے ہ ے ے یں ئ مگر نیل کنٹھ ابھی تک ک ہاپنا کام شروع کر دینا چا ے ہ

ا تھا یں آ ر ۔نظر ن ہ ہ

۔کوئی ایک منٹ اس ک انتظار میں گزر گیا ے

ےپھر کئی منٹ بڑی ب چینی ک عالم میں گزر گئ ے ے !!

ہوانچو ن ایک بارگی جھنجھال کر سوچا ک و ڈیم کو اڑا ہ ے ت خطرناک تھا لیکن ہد اس لئ ک اب زیاد تاخیر کرنا ب ہ ہ ے ے۔ ہخطر ک شدید احساس ک باوجود بھی و کچھ ط ن ے ہ ے ے ے ی ک ساتھ ےکر سکا اس لئ ک اگر نیل کنٹھ ڈیم کی تبا ہ ہ ے

یں مرگیا اور بعد میں اس کی الش شناخت کر لی گئی ہو ی سوچ کر و بر و جاتا اور ی ت بڑا خطر پیدا ےتب تو ب ہ ہ ہ ہ ہ

ا اور سامن ڈیم کی ےاذیت ناک لمحوں میں س گزرتا ر ہ ے

Page 384: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا آخر رات کی مدھم روشنی میں نیل ۔طرف دیکھتا ر ہ ست وا آ ہکنٹھ کا کبڑا جسم نظر آیا و پتھروں پر جھکا ہ ہ ہ ۔ ست ا تھا جب و بالکل قریب آگیا تو وانچو ن آ ست آ ر ہآ ہ ے ہ ہ ہ ہ

! " اور نیل کنٹھ ہےس صرف اس قدر پوچھا "سب ٹھیک ے ال دی وانچو ن مزید تاخیر کئ ےن اثبات میں اپنی گردن ے ۔ ہ ے

بغیر ایک بارگی ڈائنامائٹ کو "آن" کر دیا اور پھروئی ٹ پیدا یبت ناک گھڑگھڑا ستانی وادی میں بڑی ہکو ہ ہ ہ اڑیاں لرزن لگیں وئی سربلند پ ۔اور خوابوں میں ڈھکی ے ہ ہ ےسرکاری ڈیم چیتھڑوں کی طرح بکھر کر ر گیا اور دریائ ہ

ن لگا ۔کوکیال کا دھارا بڑی تیزی س نشیب میں ب ے ہ ے

مرا ل کر ےنیلی آنکھوں واال وانچو نیل کنٹھ کو اپن ہ ہ ے ر اندھیر میں تیز تیز قدموں س چلن ےدرختوں ک گ ے ے ے ہ ے ر قدم پر لڑکھڑا جاتا اس ک کندھ ےلگا مگر نیل کنٹھ ے ۔ ہ ۔ ا تھا، جو گولی س بری طرح ےپر س برابر خون ب ر ہ ہہ ے

نچا تو اس ک و گیا تھا اور جب و جیپ ک پاس پ ےزخمی ہ ے ہ ہ و وا ب جان و چک تھ و ڈگمگاتا ہپیر بالکل ب قابو ے ہ ہ ے۔ ے ہ ے و گئی راست ہکر پچھلی سیٹ پر گر پڑا جیپ اسٹارٹ ۔ ہ ۔

ا جیپ تا ر ا اور اس ک زخم س خون ب تا ر ۔بھر و کرا ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ی اور جب و فیکٹری ہچکول کھاتی تیزی س گزرتی ر ہ ے ے ہوشی کی سی کیفیت نچ تو نیل کنٹھ پر ب ہک اندر پ ے ے ہ ے ۔طاری تھی اس کا آبنوسی جسم، چھپکلی کی طرح

و گیا تھا اور اسی لئ کوارٹر میں بھیجن کی ےزردی مائل ے ہ را دیا گیا ۔بجائ اس کو مینجنگ ڈائریکٹر کی کوٹھی پر ٹھ ہ ے

و جان پر وئ ڈیم ک اس طرح تبا ےدریائ کوکیال پر بن ہ ہ ے ے ہ ے ے ہےترائی ک عالق میں بڑی سنسنی پھیل گئی اور ہ ے

لک مچ گیا اس لئ ک اس ہسرکاری حلقوں میں بڑا ت ے ہے۔ ہ ہ وا تھا ۔"بندھ" کی تعمیر پر گورنمنٹ کا کروڑ روپی خرچ ہ ہ ےتحقیقات کرن ک لئ تمام سرکاری افسروں ن بڑی ے ے ے

ی و ر ہدوڑ دھوپ شروع کر دی ڈاک بنگل کی مرمت ہ ہ ہے۔ اؤس " میں سب لوگ "گیسٹ ہتھی اس لئ فیکٹری ک ے ے

ی و ر یں اور بڑی سرگرمی ک ساتھ تفتیش وئ ر ہٹھ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ر مشبت آدمی کو حراست میں ل کر پولیس بری ے ہ ہ ہے۔یں دنوں اچانک ریونیو ی اور ان ہطرح "ٹارچر" کر ر ہے ہ

ہمنسٹر کا داماد نرائن ولبھ فیکٹری میں آگیا و کمپنی کا ۔ م ڈائریکٹر رات کو مینجنگ ڈائریکٹر ک ےسب س ا ہے۔ ہ ے

نچا تو ایک دم ہپرائیویٹ کمر میں جب و اس ک پاس پ ے ہ ے

Page 385: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےس اس پر برس پڑا "کنورصاحب ی آپ ن سب کیا کر ہ ۔ ے ہک رکھ دیا مجھ ایسا جان پڑتا ک ی فیکٹری اب ہ ہے ے ہے۔ ے

ون والی ہے۔برباد ے ہ "

ی سرکاری افسروں کی آمد س ل ےمینجنگ ڈائریکٹر پ ہ ے ہ وا تھا نرائن ولبھ کی باتوں پر و اور بھی ہبوکھالیا ۔ ہ

ست س بوال "بھئی میری سمجھ میں تو و گیا آ ےبدحواس ہ ہ ۔ ہ وں اں س بڑا عاجز آگیا ا میں تو ی یں آ ر ۔کچھ ن ہ ے ہ ہے۔ ہ ہ "

ی مگر آپ یں گ ا "اب تو آپ ایسا ک ی ر تا ۔مگر و ک ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ئ تھا ک گورنمنٹ کا ہکو کم س کم ی تو سوچنا چا ے ہ ہ ے

یں ک اتنی بڑی بات ہانٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ اتنا احمق تو ن ہ وم سیکرٹری ک پاس جو رپورٹ ےکو بھی ن سمجھ سکتا ہ ۔ ہ

ر کیا گیا نچی اس میں اس فیکٹری پر بھی شب ظا ہے۔پ ہ ہ ہے ہ یں، شب کر ہاس لئ ک ادھر جو لیبر کی بالکل کمی ن ہ ہ ے

ی اس لئ ک اب کمپنی وا بھی ایسا ہسکتا دراصل ے ہے ہ ہ ہے۔ ےکو قلیوں کی تالش میں اپن ایجنٹ گرد و نواح کی بھیڑ ر روز سویر صرف تی کمپنی کا لیبر آفیسر ےلگی ر ہ ہے۔ ہ ےپچاس آدمیوں کو اندر بالتا اور و اس ک سامن قطار ے ہ ہے ر ایک کا جسم ٹٹول یں و و جات ہبنا کر خاموش کھڑ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہےکر گوشت ک مضبوط پٹھوں کا انداز لگاتا اور جس ہ ے ہےآدمی کو و فٹ سمجھتا اس کی چوڑی چکلی چھاتی ہ ہپر کھریا س سفید نشان بنا دیتا اس کا مطلب ی ک ہے ہ ہے۔ ے ےاب اس کو فیکٹری میں کام مل گیا اور چود آن روز ہ ہے ےمزدوری مل گی اس کا نام اور پت ٹائم کیپر ک رجسٹر ہ ۔ ے وئ لوگ ر کھڑ ےمیں درج کر دیا جاتا پھاٹک ک با ہ ے ہ ے ہے۔ ےجانوروں کی طرح گردن اٹھا، اٹھا کر ی سب کچھ دیکھت ہ

یں ست باتیں کرت ست آ ج میں آ وئ ل م ہیں اور س ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ !!ہ

ہمینجنگ ڈائریکٹر اور بھی گھبرا گیا و بڑ شکست خورد ے ہ ۔ ن لگا "مجھ کیا معلوم تھا ک ی سب کچھ ج میں ک ہل ہ ے ے ہ ہ ہ ا ک تا ر ی ک و جائ گا وانچو تو مجھ س برابر ی ہبھی ہ ہ ہ ے ۔ ے ہ

و جائ گا " اس یں سب ٹھیک ےکوئی خطر کی بات ن ہ ۔ ہ ے ےطرح وانچو پر سارا الزام رکھ کر و جیس کس قدر ہ

وا یوں ی و گیا اور اس بات کا اثر بھی ٹھیک ۔مطمئن ہ ہ ہ ون ک عالو و رانی ہبھی کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر ہ ے ے ہ

ےبازار ک عالق کا جاگیردار بھی تھا اس لئ نرائن ولبھ ۔ ے ے ےایک دم س وانچو پر بگڑن لگا ے

Page 386: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا تھا ک ی وانچو مجھ کو بڑا" ی ک ل ہو تو میں ن پ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہے۔خطرناک آدمی معلوم پڑتا آپ اس کی سازشوں کو تر طریق ی سب س ب یں سمجھ سکت دیکھئ اب ی ہےن ہ ہ ے ہ ے ے۔ ہ

~ علیحد کر ہک وانچو کو اسی اشوع؟؟ پر فیکٹری س فورا ے ہ ر وقت خطر ، اں موجود ہدیا جائ ورن جب تک و ی ہ ہے ہ ہ ہ ے

وں، میں سب کچھ سنبھال لوں ہسامن آپ پریشان ن ہ ہے ے "گا

ری خاموشی میں کھو گیا اس لئ ک ہمینجنگ ڈائریکٹر گ ے ہ و تا ک وانچو اس ک خالف یں چا ہو کسی طرح ی ن ے ہ ہ ہ ہ ہ

ر خطرناک راز کو جانتا اس طرح ہے۔جائ و اس ک ہ ے ہ ے۔ و جان کا و جان پر اس کا برگشت ےنوکری س برطرف ہ ہ ے ہ ے ن ک بعد ےپورا خوف تھا تھوڑی دیر تک اسی طرح چپ ر ے ہ ۔

ا تھا ک اس بات پر اگر و ن لگا "میں تو سوچ ر ہو ک ہ ہ ے ہ ہ ت بڑی و گیا تو سرکاری گوا بن کر ب ہکمپنی کا مخالف ہ ہ ےمصیبت بن سکتا میرا خیال ک کسی اور طریق س ے ہ ہے ہے۔

، بعد میں دیکھا جائ گا ٹا دیا جائ اں س ابھی ےاس کو ی ے ہ ے ہ ے" اور ی بات نرائن ولبھ ایم، ایل، ا کی سمجھ میں بھی آ ہ نچن ک لئ دیر تک ےگئی اور پھر دونوں کسی نتیج پر پ ے ے ہ ہ وئ باتیں کرت ر اور جب نرائن ہےکمر ک اندر بیٹھ ے ے ہ ے ے ے ر چال گیا تو کنور صاحب ن وانچو کو ےولبھ کمر س با ہ ے ے وا ہبلوا لیا اور ساری باتیں اس کو بتا دیں اور پھر ی ط ے ہ ے۔ک و نیپال کی راجدھانی کھٹمنڈو چال جائ سرحد کو پار ہ ہ و گی اس لئ ک رانا دلیر جنگ ہکرن میں کوئی مشکل ن ے ہ ہ ے

، و کنور صاحب کی م رکن تھ ہجو ریاست ک ایک ا ے ہ ے وں میں اکثر شکار کھیل چک تھ او ر دونوں ےشکار گا ے ہ

ےک آپس میں بڑ اچھ مراسم تھ اور جب تک کھٹمنڈو ے ے ے ین مینجنگ زار روپی م ہمیں ر گا اس کو برابر ایک ہ ہ ہ ہے

۔ڈائریکٹر کی طرف س ملتا ر گا پھر ایک روز فیکٹری ہے ے ۔کی کار میں بیٹھ کر و اسٹیشن کی طرف چل دیا کوئی ہ

ا دفتر میں کام کرن وال اں جا ر یں جانتا ک و ک ےن ے ہے۔ ہ ہ ہ ہ ہ یں ک و کمپنی ک کسی ضروری ےصرف اسی قدر جانت ہ ہ ہ ے

ا اور وانچو کار میں ہےکام ک سلسل میں کلکت جا ر ہ ہ ے ے وئی فیکٹری کی عمارت کو وتی وا دور ہخاموش بیٹھا ہ ہ

ا، جس کی تعمیر ک لئ اس ن خطرناک ےدیکھتا ر ے ے ہ ےسازشیں کی تھیں اور و فیکٹری اس کی آنکھوں س دور ہ

Page 387: اردو ادب کے مشہور افسانے

ری نیلی آنکھیں بڑی ی تھی اس کی گ ہوتی جا ر ۔ ہ ہوتی تھیں ہپراسرار معلوم

و جان کی وج س کوکیال ندی میں بڑا ےسرکاری ڈیم تبا ہ ے ہ ہ ریں ترائی ک میدانی وئی ل ےبھیانک طوفان آگیا بپھری ہ ہ ہے۔ ےعالقوں میں، شب خون مارن وال غنیم کی طرح پھیلتی ے اؤ میں ب اتی فصلیں پانی ک ب ل وں کی ل یں گی ی ہہجا ر ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ ہ یں اور تبا ی وتی جا ر یں ساری بستیاں ویران ہگئی ہ ہ ہ ۔ ہ یں ہحال کسان اپن گھروں کو چھوڑ چھوڑ کر بھاگ ر ہے ے یں ۔اور راحیل روڈ پر مریل انسانوں ک قافل گزرت ہ ے ے ے ےاس لئ ک سیالب زدگان ک لئ امیر گڈ میں سرکار ن ہ ے ے ہ ے

ےرلیف کیمپ قائم کر دیا اس سلسل میں گورنمنٹ کا ہے۔ ، اس میں اعالن کیا گیا ک وا ہجو پریس نوٹ شائع ہے ہے ہ شت پسندی کو دخل ی میں کمیونسٹوں کی د ہےاس تبا ہ ہ

ےجو اپن سیاسی مفاد ک لئ ملک میں ب اطمینانی اور ے ے ے یں اور اس لئ پولیس ن کسان ت ےیجان پیدا کرانا چا ے ہ ے ہ ہی کسان ورکروں کو ہسبھا ک دفتر پر چھاپ مار کر کتن ے ہ ے

ہے۔حراست میں ل لیا ے

ےنیل کنٹھ کنور صاحب کی کوٹھی ک ایک مختصر س ے ا اس ک کندھ ست کرا ر ست آ وا آ ےکمر میں لیٹا ے ہے۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

یں اور اس کا مضبوط پٹھوں وئی ہپر سفید پٹیاں بندھی ہ و گیا ہے۔واال آبنوسی جسم چھپکلی کی مانند زردی مائل ہ ےخون ک زیاد ب جان س اس پر بار بار غشی ک دور ے ے ے ہہ ہ ے

یں اور کنور صاحب ن کمپنی کی طرف س ےپڑت ے ہ ے ےکمشنر ک اعزاز میں اپنی خوبصورت کوٹھی پر ایک

نگام رات گئ تک ےشاندار ڈنر کا انتظام کیا جس کا ہ ہ ہے ا ۔فیکٹری ک اندر گونجتا ر ہ ے

ہتوب شکن

( ہبانو قدسی )

ی تھی آنسو ب روک ٹوک و ر لکان ےبی بی رو رو کر ۔ ہ ہ ہ وئ تھ ے۔گالوں پر نکل کھڑ ے ہ ے

Page 388: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ایسا" یں آتی میرا نصیب ہمجھ کوئی خوشی راس ن ۔ ہ ے ، ایسی ملتی ک گویا کوکا کوال ہ جو خوشی ملتی ہے ہے ہے۔

و کسی ن ے۔کی بوتل میں ریت مال دی ہ "

ی تھیں ہبی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک ر ےاور سانسوں میں دم ک اکھڑ پن کی سی کیفیت ے ے ا تھا کالی کھانسی نا ی پپو بیٹھا کھانس ر ۔تھی پاس ہ ہ ۔

وتا بیچار کا من کھانس کھانس ہمراد کا حمل جب بھی ے ہ ہ اتھ پاؤں ن لگتا اور و جاتا من س رال ب ہکر بینگن سا ے ہ ے ہ ۔ ہ ےاینٹھ س جات امی سامن چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ے۔ ے

ی تھیں جب و ایک ڈی سی کی ہان دنوں کو یاد کر ر ہ ےبیوی تھیں اور ضلع ک تمام افسروں کی بیویاں ان کی مان ہخوشامد کرتی تھیں و بڑی بڑی تقریبوں میں م ہ ۔

، ربن وا کرتیں اور لوگ ان س درخت لگوات ےخصوصی ے ہ ،انعامات تقسیم کروات ے۔کٹوات ے

ر تیسر منٹ مدھم سی آواز میں ےپروفیسر صاحب ہ وا کیا و پروفیسر ہپوچھت "لیکنآخر بات کیا بی بی ہے ہ ہے ے ےصاحب کو کیا بتاتی ک دوسروں ک اصول اپنان س اپن ے ے ے ہ

، صرف ان پرغالف بدل جاتا ستار یں جات ہے۔اصول بدل ن ے ہ میش ہکا غالف، مشین کا غالف، تکی کا غالف درخت کو ہ ۔ ے ! اگر اس کرسمس ٹری کی وتی ےجڑوں کی ضرورت ہے ہ ی داب داب کر مٹی میں کھڑا کر دیں گ تو ےطرح یون ہ

ی ۔کتن دن کھڑا ر گا باالخر تو گر گا ہ ے ۔ ہے ے

ہو اپن پروفیسر میاں کو کیا بتاتی ک اس گھر س رس ے ہ ے ہ نچی تھی اور جس وقت و ربڑ ہتڑوا کر جب و بانو بازار پ ہ ہ ی تھی، تو کیا وائی چپلوں کا بھاؤ چار آن کم کروا ر ہکی ے ہ

ہوا تھا؟

اتھوں ک ےاس ک بوائی پھٹ پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھ ہ ے۔ ے ے وئی تھی ۔ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہ ےسانس میں پیاز ک باسی لچھوں کی بو تھی قمیض ک ۔ ے

وئی تھی اس وئ اور دوپٹ کی لیس ادھڑی ۔بٹن ٹوٹ ہ ے ے ہ ے ےماند حال میں جب و بانو بازار ک ناک پر کھڑ ی تھی ے ہ ے وتا ی روز کچھ ن کچھ وا تھا؟ یوں تو دن چڑھت ہتو کیا ہ ہ ے ہ ا ادھر پچھلی بات تا تھا پر آج کا دن بھی خوب ر ۔ی ر ہ ہ ہ۔بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا ادھر تھپڑ کی ٹیس کم

Page 389: اردو ادب کے مشہور افسانے

۔وتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا جو کچھ بانو ہوا و تو فقط فل سٹاپ ک طور پر تھا ۔بازار میں ے ہ ہ

ی سنتو جمعدارنی ن برآمد میں گھست ےصبح سویر ے ے ہ ے ا تھا ی تو ک ہی کام کرن س انکار کر دیا رانڈ س اتنا ہ ے ۔ ے ے ہوتیں ذرا دھیان س کام کیا کر بس یں ۔ک نالیاں صاف ن ے ۔ ہ ہ ہ

یں پٹخ کر بولی ۔جھاڑ و و ہ

"میرا حساب کر دیں جی"

ےکتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی صبح سویر تام ۔ ےچینی ک مگ میں ایک رس ک ساتھ چائ رات ک ے۔ ے ے

وا تھا چھ ۔جھوٹ چاول اور باسی سالن روز کا بندھا ہ ے ین کی نوکری میں تین نائلون جالی ک دوپٹ امی ک ےم ے۔ ے ے ہ

۔پران سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض ل گئی تھی ے ے ۔کسی کو جرات ن تھی ک اس جمعدارنی ک کر بال لیتا ہہ ے ہ ہ ت من سوکھتا تھا پر و تو طوط ےسب کا سنتو سنتو ک ہ ۔ ہ ے ہ

وئی ک ہکی سگی پھوپھی تھی ایسی سفید چشم واقع ہ ۔ ~ حساب کر جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی ۔فورا

۔دھری جا و جا ہ ہ

۔بی بی کا خیال تھا ک تھوڑی دیر میں آ کر پاؤں پکڑ گی ے ہ د کر ےمعافی مانگ گی اور ساری عمر کی غالمی کا ع ہ ے

اں مل گا پر و تو ایسی دفان ہگی بھال ایسا گھر اس ک ۔ ے ہ ے ۔ ارانی ن و گیا پر سنتو م ر کا کھانا پک کر تیار ہوئی ک دوپ ہ ہ ہ ہ ہ

۔لوٹی

ےسار گھر کی صفائیوں ک عالو غسلخان بھی دھون ے ہ ے ے ۔پڑ اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی ابھی کمر ے مان بی بی آ ی تھی ک ایک م ہسیدھی کرن کو لیٹی ہ ہ ے

مان بی بی ہگئیں من کی آنکھ مشکل س لگی تھی م ۔ ے ے ۔ ۔حسن اتفاق س ذرا اونچا بولتی تھیں منا اٹھ بیٹھا اور ے ر عالج کر ی کھانسن لگا کالی کھانسی کا بھی ہاٹھت ۔ ے ہ ے ومیوپیتھی س آرام آیا ن ڈاکٹری عالج ہدیکھا تھا پر ن تو ے ہ ہ

ے۔س حکیموں ک کشت اور معجون بھی رائیگاں گئ ے ے ے۔ ہبس ایک عالج ر گیا تھا اور ی عالج سنتو جمعدارنی بتایا ہ ہکرتی تھی بی بی! کسی کال گھوڑ وال س پوچھو ک ے ے ے ے ۔ ےمن کو کیا کھالئیں جو ک سو کھال دنوں میں آرام آجائ ۔ ہے ۔ ے

۔گا

Page 390: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی تھی ان ک آن و ر مان بی بی کی ےلیکن بات تو م ے ۔ ہ ہ ہ ےس سار گھر وال اپن اپن کمروں س نکل آئ اور ے ے ے ے ے ے ر میں خورشید کو ایک بوتل لین ک لئ ےگرمیوں کی دوپ ے ے ہ ی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا ک پور ےبھگا دیا ساتھ ہ ہ ۔

ے۔پانچ روپ دین پڑ ے ے

۔خورشید پور تین سال س اس گھر میں مالزم تھی ے ے ےجب آئی تھی تو بغیر دوپٹ ک کھوکھ تک چلی جاتی ے ے ےتھی اور اب و بالوں میں پالسٹک ک کلپ لگان لگی ے ہ

ےتھی چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور من کو پاؤڈر ۔ ر پر ب بی پاؤڈر استعمال کرن ےلگان ک بعد اپن چ ے ے ہ ے ے ے

اتھ ہلگی تھی جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹ اوڑھ کر ہ ۔ ےمیں خالی سکوائش کی بوتل ل کر سراج ک کھوکھ پر ے ے ی تھیں، نقدی وال ٹین و ر نچی تو سڑکیں ب آباد سی ےپ ہ ہ ے ہ

وئی خورشید بولی ۔کی ٹر میں دھرتی ہ ے

ےایک بوتل مٹی کا تیل ال دودو سات سو سات ک صابنتین" ایک نلکی سفید دھاگ کیدو لولی پاپ چار میٹھ ےپان ساد ے ہ

اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی

ےروڑی کوٹن واال انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار ک دو ے وئی سڑک پر اوندھ پڑ تھ ے۔تین خالی ڈرم تاز کوٹی ے ے ہ ہ

ےسڑک پر س حدت کی وج س بھاپ سی اٹھتی نظر آتی ہ ے ۔تھی

دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤںےیاد آگیا دھل میں اسی وضع قطع، اسی چال کی ۔

وا ہسیندوری س رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ے نتی تھی انگریزی صابن س ےکرتی تھی ٹانس کا برقع پ ۔ ہ ہ ے ۔

ۂمن دھوتی تھی اور شاید خمیر گاؤ زبان اور کشت مروارید ۂ ہ ہبمع شربت صندل ک اتنی مقدار میں پی چکی تھی ک ے ہ

اں س گزر جاتی سیب ک مرب کی خوشبو آن لگتی ۔ج ے ے ے ے ہ ےگاؤں میں کسی ک گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس ہخیال س اس کی بیمار پرسی کرن ضرور جاتا ک شاید ے ے

ے۔و اس حکیم صاحب ک پاس دوا لین ک لئ بھیج د ے ے ے ے ے ہ ت ہجب کبھی ماں ک پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو ب ے میش اس نفخ کی مریض ک وتی حکیم صاحب ےخوشی ہ ہ ہ ۔ ہ

ےلئ دو پڑیاں دیا کرت تھ ایک خالی پڑیا گالب ک عرق ے۔ ے ے

Page 391: اردو ادب کے مشہور افسانے

وتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف ک ےک ساتھ پینا ہ ے ~ اس اپن ےعرق ک ساتھ حکیم صاحب کی بیٹی عموما ے ۔ ے ےخط پوسٹ کرن کو دیا کرتی و ان خطوں کو الل ڈب ہ ۔ ے

تا تھا ان لفافوں ل کتنی دیر سونگھتا ر ۔میں ڈالن س پ ہ ے ہ ے ے ۔س بھی سیب ک مرب کی خوشبو آیا کرتی تھی ے ے ے

ر میں اس ک ےاس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپ ہ وا تھا ۔سامن کھڑی تھی اوسار میں سیب کا مرب پھیال ہ ہ ے ے

ےپانچ روپ کا نوٹ نقدی وال ٹر میں س اٹھا کر سراج ے ے ے ےن چپچی نظروں س خورشید کی طرف دیکھا اور ے ی سانس میں اتنا کچھ ک گئی ۔کھنکھار کر بوال"ایک ہہ ہ

؟" ایک بوتل مٹی کا و نا کیا کیا خریدنا ست ک ست آ ہےآ ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ، چار میٹھ ایک ے۔تیلدو سات سو سات صابنتین پان ساد ہ ایک بوتل سیون اپ ۔نلکی بٹر فالئی والی سفید رنگ کی

یں وئ مان آئ ۔کیجلدی کر، گھر میں م ہ ے ہ ے ہ

ل تو سراج ن کھٹاک س سبز بوتل کا ڈھکنا ےسب س پ ے ے ہ ے ۔کھوال اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بوال

و گئی بول اور" ہی تو ہ "

" و ں گی اب بی بی جی ناراض ۔بوتل کیوں کھولی تو ن ہ ے "

" ہےمیں سمجھا ک کھول کر دینی ہ "

" ا تھا تجھ کھولن ک لئ ےمیں ن کوئی ک ے ے ے ہ ے "

ے۔اچھا اچھا بابا میری غلطی تھی ی بوتل تو پی ل میں" ہ ۔ ۔ وں تجھ ےڈھکن والی اور د دیتا ہ ے ے "

ی تھی، اس وقت بی بی ہجس وقت خورشید بوتل پی ر ر ادھر س گزرا اس سٹرا س بوتل ےکا چھوٹا بھائی اظ ے ۔ ے ہ ےپیت دیکھ کر و مین بازار جان کی بجائ الٹا چودھری ے ہ ے ےکالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ ک کوارٹر میں

ی س بوال نچ کر برآمد ۔پ ے ہ ے ہ

یں اور و الڈلی" ی اں بوتل کا انتظار کر ر ہبی بی! آپ ی ہ ہ ہ ی سٹرا لگا کر اں کھوکھ پر خود بوتل پی ر ۔و ہے ہ ے ہ "

Page 392: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےبھائی تو اخبار وال ک فرائض سر انجام د کر سائیکل ے ے ےپر چال گیا لیکن جب دو روپ تیر آن کی ریزگاری مٹھی ہ ے اتھ میں مٹی ک تیل کی بوتل اور ، دوسر ےمیں دبائ ہ ے ے ےبکل میں سات سو سات صابن ک ساتھ سیون اپ کی ےبوتل لئ خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی ک حص کا ے ے

ی اترا ۔غص بھی خورشید پر ہ ہ

" ۔اتنی دیر لگ جاتی تجھ کھوکھ پر ے ے ہے "

"بڑی بھیڑ تھی جی"

ےسراج ک کھوکھ پراس وقت؟" ے "

یں جی سمن آباد میں" وئ مان آئ ت لوگوں ک م ہب ے ہ ے ہ ے ہ یںسب نوکر بوتلیں ل جا ر ت آت مان ب ی م ہےویس ے ہ ے ہ ہ ہ ے

ے۔تھ "

" وں ۔جھوٹ ن بول کمبخت! میں سب جانتی ہ ہ "

و گیا ۔خورشید کا رنگ فق ہ

یں جی آپ" ہکیا جانتی "

" ی تھی یں پی ر ۔ابھی کھوکھ پر کھڑی توبوتل ن ہ ہ ے "

۔خورشید کی جان میں جان آئی پھر و بپھر کر بولی ہ ۔

ےو میر پیسوں کی تھی جیآپ حساب کر دیں جی" ہ وتی یں ہمیرامجھ س ایسی نوکری ن ہ ے "

سنتو کا جانا گویا خورشید ک ےبی بی تو حیران ر گئی ۔ ہ مان ید تھی لمحوں میں بات یوں بڑھی ک م ہجان کی تم ہ ۔ ہ ے و گئ اور کترن بھر ےبی بی سمیت سب برآمد میں جمع ہ ے مان بی بی پر بوتل پال ہلڑکی ن و زبان دراز کی ک جن م ہ ہ ے

و ہکر رعب گانٹھنا تھا و الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہ ہگئیں ک بد نظمی، ب ترتیبی اور بد تمیزی میں ی گھر ے ہ

ہے۔حرف آخر

Page 393: اردو ادب کے مشہور افسانے

ادھر و گیا ~ مکان نوکرانی ک بغیر سونا سونا ~ فانا ۔آنا ہ ے ی، اوپر س پپو کی ےجمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہ

۔۔کھانسی دم ن لین دیتی تھی ے ہ

ےجب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اس اٹھان پچکارن ے ے ےواال تو کوئی موجود تھا اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ ک بچ ے ۔ ہکو اٹھانا پڑتا اس بھی کالی کھانسی کا دور پڑتا تو ے ۔

و جاتی آنکھیں سرخا سرخ نکل ۔رنگت بینگن کی سی ہ وئی پانی کی ٹیوب ہآتیں اور سانس یوں چلتا جیس کٹی ے

ہے۔س پانی رس رس ک نکلتا ے ے

ی ک آخر اس ن کونسا گنا کیا ی سوچتی ر ہسارا دن و ی ے ہ ہ ہ ہ ہے۔ جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن اس ہےےک ساتھ کالج میں پڑھن والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم ے

اں و کپڑ ےپر چلن س پاؤں میں چھال پڑ جائیں اور ی ہ ہ ے ے ے و چکی تھی رات کو ۔دھون وال تھاپ کی طرح کرخت ہ ے ے ے ے۔پلنگ پر لیٹتی تو جسم س انگار جھڑن لگت بدبخت ے ے ے ےخورشید ک دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی

ےکمر میں مکیاں مار دیتی ورن اوئی آئی کرت نیند آ جاتی ہ ی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور ہاور صبح پھر و

وئی روٹیوں کی سی سینک ہتندور میں لگی !

ا ۔اس روز دن میں کئی مرتب بی بی ن دل میں ک ہ ے ہ

یں مل گا تو دیکھیں گ ابھی کل" ے۔م س اچھا گھران ن ے ہ ہ ے ہوں گی دونوں کال من والیاں" پر ہبرآمد میں آئی بیٹھی ے ۔ ہ ے

ہاس اچھی طرح معلوم تھا ک اس س اچھا گھر مل ن ے ے ہ ے سار گھرمیں نظر یں گی ےمل و دونوں اب ٹوک کر ن ر ۔ ہ ہ ہ ے وئی نالی تک ہدوڑاتی تو چھت ک جالوں س ل کر رکی ے ے ے

وئی سیڑھیوں س ل کر اندر ٹپ ٹپ برسن ےاور ٹوٹی ے ے ہ ر جگ ایک ہوال نلک تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہ ے ے ےآنچ کی کسر تھی تین کمروں کا مکان جس ک دروازوں ۔

، ےک آگ ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پرد پڑ تھ ے ے ے ے ہعجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا ن تو ی دولت تھی اور ہ ۔

ی ی غریبی تھی ردی ک اخبار کی طرح اس کا ےن ۔ ہ ہ ہ و چکا تھا جب تک ابا جی زند تھ اور بات ےتشخص ختم ہ ۔ ہ و وا کا احساس پیدا ہتھی کبھی کبھار مائیک جا کر کھلی ہ ہ ۔ ر اور منی ہجاتا اب تو ابا جی کی وفات ک بعد امی، اظ ے ۔

Page 394: اردو ادب کے مشہور افسانے

ہبھی اس ک پاس آ گئ تھ امی زیاد وقت پچھلی ے۔ ے ے ےپوزیشن یاد کر ک رون میں بسر کرتیں جب رون س ے ۔ ے ے

وتی تو و اڑوس پڑوس میں ی بتان ک لئ نکل ےفراغت ے ے ہ ہ ہ ےجاتیں ک و ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حاالت ن ہ ہ

منی کو ن پر مجبور کر دیا اں سمن آباد میں ر یں ی ہے۔ان ے ہ ہ ہ ۔مٹی کھان کا عارض تھا دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی ہ ے ۔کر دی تھیں نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم

ت مرچیں کھالئیں ۔انگلیوں س کرید کر دھر دیتی ب ہ ۔ ے وا کوئل کتا ونٹوں پر د ہکونین ملی مٹی س ضیافت کی ہ ہ ہ ۔ ے ہرکھن کی دھمکی دی پر و شیر کی بچی مٹی کو دیکھ ے

وتی ۔کر بری طرح ریش خطمی ہ ہ

تا تھا، جب اس کالج ک ر جس کالج میں داخل لینا چا ےاظ ہ ہ ہ ےپرنسپل ن تھرڈ ڈویژن ک باعث انکار کر دیا تو دن رات ے

ہے۔ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کر ک روت ر ے ے ہان ک ایک فون س و بات بن جاتی جو پروفیسر فخر ے ے

۔ک کئی پھیروں س ن بنی امی تو دبی زبان میں کئی بار ہ ے ے اں تک ک چکی تھیں ک ایسا داماد کس کام کا جس کی ہی ہہ ہ

ر ن ر میں ن چل نتیج ک طور پر اظ ی ش ےسفارش ہ ے ے ے۔ ہ ہ ہ ت ہپڑھائی کا سلسل منقطع کر لیا پروفیسر صاحب ن ب ے ۔ ہ

ےسمجھایا پر اس ک پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر ت ےسائیکل تھا چند ایک دوست تھ جو سول الئنز میں ر ہ ے ۔ ےتھ و بھال کیا کالج والج جاتا اس سار ماحول میں ۔ ہ ے لمب قد ک دبل پتل ےپروفیسر فخر کیچڑ کا کنول تھ ے ے ے ے۔

ہپروفیسر سیا آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا مال یں دیکھ کر خدا جان کیوں ریگستان ک ےجال رنگ تھا ان ے ہ ۔ ےگل بان یاد آ جات و ان لوگوں کی طرح تھ جن ک ے ہ ے۔ ہ جو اس لئ یں پڑ جات ےآدرش وقت ک ساتھ دھندل ن ے ہ ے ے

یں جات ک ان س سی ایس پی کا ےمحکم تعلیم میں ن ہ ے ہ ہ تر و سکتا و دولت کمان ک کوئی ب یں ہامتحان پاس ن ے ے ہ ۔ ہ ہ وں ن تو تعلیم و تدریس کا پیش اس یں جانت ان ہگر ن ے ہ ے۔ ہ

یں نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند ہلئ چنا تھا ک ان ہ ے ت اچھ لگت تھ جو یں فسٹ ائیر ک و لڑک ب ےتھیں ان ے ے ہ ے ہ ے ہ ۔

ر ک رنگ میں رنگ ست ش ست آ ےگاؤں س آت تھ اور آ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے انت ٹپکتی تھی، دھرتی روں س جو ذ ہجات تھ ان ک چ ے ہ ے ے۔ ے

ن کی وج س ان میں جو دو اور دو چار ےک قریب ر ہ ے ہ ے یں صیقل کرن میں پروفیسر فخر ان ےقسم کی عقل تھی ہ ۔

Page 395: اردو ادب کے مشہور افسانے

و تعلیم کا میالد النبی کا ہبڑا لطف حاصل کرت تھ ے۔ ے یں اور روشنی ہفنکشن سمجھت جب گھر گھر دی جلت ے ے ے۔

ےس خوشی کی خوشبو آن لگتی ان ک ساتھی ہے۔ ے ے -Have پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص

Notsےک انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصر کرت تو ہ ے ت کیونک ان کا مسلک لوئی پاسچر کا ہو خاموش ر ے ہ ہ

ےمسلک تھا کولمبس کا مسلک تھا ان ک دوست جب ۔ ۔ فسٹ کالس، سیکنڈ کالس اور سلیکشن گریڈ کی باتیںیں اتھوں پر نگا ہکرت تو پروفیسر فخر من بند کئ اپن ہ ے ے ہ ے

ےجما لیت و تو اس زمان کی نشانیوں میں س ر گئ ہ ے ے ہ ے۔ ۔تھ جب شاگرد اپن استاد ک برابر بیٹھ ن سکتا تھا جب ہ ے ے ے ۔استاد ک آشیر باد ک بغیر شانتی کا تصور بھی گنا تھا ہ ے ے

یں نکلتا تھا ہجب استاد خود کبھی حصول دولت ک لئ ن ے ے ے۔لیکن تاجدار اس ک سامن دو زانو آ کر بیٹھا کرت تھ ے ے ے

انگیر ک دربار میں میاں میر صاحب کی ےجب و شا ج ہ ہ ہ ! آج تو بال لیا پر اب شرط عنایت : "ا شا تا ک ہےطرح ک ہ ے ہ ہ

ی ک پھر کبھی ن بالنا ۔ی ہ ہ ہے ہ "

"ا حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ تا ےجب استاد ک ۔ ہ و جا ۔کر کھڑا ہ "

لی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر ہجب بی بی ن پ ے د کی مکھیوں جیسا جذب ۂکی نظروں کا مجذوبان حسن ش ہ ہ ۔خدمت اور صوفیائ کرام جیسا اندازl گفتگو اس ل ڈوبا ے ے ے

ہبی بی ان لڑکیوں میں س تھی جو درخت س مشاب ے ے ، باالخر ی آسمان چھون لگ یں درخت چا کیسا ےوتی ے ہ ہے ۔ ہ ہ

ی تا و چا کتن ی ر ہمٹی ک خزانوں کو نچوڑتا ے ہے ہ ہے۔ ہ ہ ے و، باالخر اس کی جڑوں میں نیچ اترت ےچھتنار کیوں ن ے ہ ہ اور پھر پروفیسر کا آدرش تی وس باقی ر ن کی ہےر ہ ہ ے ہ

یں ک مستعار لیا جاتا لیکن بی ہکوئی مانگ کا کپڑا تو تھا ن ہ ے ی سوچتی وا میں جھولن والی ڈالیوں کی طرح ی ہبی تو ے ہ وا یں و ی ک اس کا دھرتی ک ساتھ کوئی تعلق ن ہر ہ ۔ ہ ے ہ ہ

ہے۔میں زند ر سکتی محبت ان ک لئ کافی ے ے ہے۔ ہ ہ

ےتب ابا جی زند تھ اور ان ک پاس شیشوں والی کار ے ہ ےتھی جس روز و بی ا کی ڈگری ل کر یونیورسٹی س ے ے ہ

ے۔نکلی تو اس ک ابا جی ساتھ تھ ان کی کار رش کی ے ۔وج س عجائب گھر کی طرف کھڑی تھی مال کو کراس ے ہ

Page 396: اردو ادب کے مشہور افسانے

نچ تو فٹ پاتھ پر اس ن ےکر ک جب و دوسری جانب پ ے ہ ہ ے وئ اپنی سائیکل کا پیڈل ےپروفیسر کو دیکھا و جھک ہ ے ہ ۔

ے۔ٹھیک کر ر تھ ہے

"!سر سالم علیکم"

ٹ آ گئی ین آنکھوں میں مسکرا ۔فخر ن سر اٹھایا اور ذ ہ ہ ے

و آپ کو" ہوعلیکم السالم مبارک ۔ "

ی ت معزز محسوس کر ر ہسیا گاؤن میں و اپن آپ کو ب ہ ے ہ ہ ۔تھی

ےسر میں ل چلوں آپ کو" "

ےبڑی سادگی س فخر ن سوال کیا"آپ سائیکل چالنا ے یں؟ ہجانتی "

یں جیمیرا مطلب کار کھڑی جی" ہے۔سائیکل پر ن ہے ہ ۔میری "

و گیا اور بی بی اس ک کندھ ک ےفخر سیدھا کھڑا ے ے ہ ۔برابر نظر آن لگی ے

یں ہدیکھی مساستادوں ک لئ کاروں کی ضرورت ن ے ے ے ےوتی ان ک شاگرد کاروں میں بیٹھ کر دنیا کا نظام ۔ ہیں لیکن یں استادوں کو دیکھ کر کار روکت ہچالت ے ۔ ہ ے یں بیٹھتا کیونک ہاستاد شاگردوں کی کار میں کبھی ن ہ

وتا استاد کا آسائش یں ۔شاگرد س اس کا رشت دنیاوی ن ہ ہ ہ ے وتا و مرگ چھاال پر سوتا بڑ ک یں ےس کوئی تعلق ن ہے۔ ہ ۔ ہ ہ ے

ہے۔درخت تل بیٹھتا اور جو کی روٹی کھاتا ے

ابھی چند ونٹوں پر بھڑ ڈس گئی ۔بی بی کو تو جیس ہ ے اتھوں میں ڈگری ل کر فل سائز فوٹو ل و ےثانی پ ہ ہ ے ہ ے

ی تھی اور اب ی گاؤن، ی اونچا ہکھنچوان کا پروگرام بنا ر ہ ہ ے ۔جوڑا، ی ڈگری، سب کچھ نفرت انگیز بن گیا جب مال ہ ےروڈ پر ایک فوٹو گرافر کی دکان ک آگ کار روک کر ے

ا ۔اباجی ن ک ہ ے

"ایک تو فائز سائز تصویر کھنچوا لو اور ایک پورٹریٹ"

Page 397: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں ک ساتھ" ےابھی ن ہ ۔مل کر تصویر کھنچواؤں گی "

و ابھی تک؟" اباجی ن سوال" ےصبح کی بات پر ناراض ہ ۔کیا

" یں یں جی و بات ن ہے۔ن ہ ہ ہ "

ی تھی تو و ر ہصبح جب و یونیورسٹی جان ک لئ تیار ہ ے ے ے ہ ا تھا ک و کنووکیشن ک بعد ےابا جی ن دبی زبان میں ک ہ ہ ہ ے یں ہاس فوٹو گرافر ک پاس ن ل جا سکیں گ کیونک ان ہ ے ے ہ ے ے ہکمشنر س ملنا تھا اس بات پر بی بی ن من تھتھا لیا ے ۔ ے یں کر لیا تب تک و کار ہتھااور جب تک ابا جی ن وعد ن ہ ہ ے

وئی تھی ۔میں سوار ن ہ ہ

۔اب کار فوٹو گرافر کی دکان ک آگ کھڑی تھی ابا جی ے ے ےاس کی طرف کا درواز کھول کھڑ تھ لیکن تصویر ے ے ہ

۔کھنچوان کی تمنا آپی آپ مر گئی ے

ہبی ا کرن ک بعد کالج کا ماحول دور ر گیا ی مالقات ۔ ہ ے ے ے ~ طاقl نسیاں پر بھی دھری و گئی اور غالبا ہبھی گرد آلود

ےر جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اس ہ ہپروفیسر فخر نظر ن آ جات و حسب معمول سفید ے۔ ہ

ے۔قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھ رومن نوز پر عینک وئی تھی اور و کسی کتاب کا غور س مطالع کر ہٹکی ے ہ ہ یلیوں ک ساتھ دکان میں ےر تھ بی بی اپنی دو تین س ہ ے۔ ہے

وم قسم ک رسال درکار تھ وئیاس ویمن اینڈ ے۔داخل ے ے ہ ے ہ ے۔عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ ک پمفلٹ خریدن تھ لو ے ے کیلری ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تالش تھی جو

فتوں میں گھٹا دین ک وا وزن ےسالوں میں بڑھایا ے ہ ہ ی گویا آئین کا یں لیکن اندر گھست ےمشور جانتی ہ ے ہ ے

۔لشکارا پڑا

"سالم علیکم سر"

" ۔وعلیکم السالم" مٹھ ک بھکشو ن جواب دیا ے ے

یں سرمیں آپ کی سٹوڈنٹ" چانا ن ہآپ ن مجھ شاید پ ہ ے ے ۔وں جی " قمر زبیری ہ

Page 398: اردو ادب کے مشہور افسانے

ا ۔اس ن دوستوں کی طرف خفت س دیکھ کر ک ہ ے ے

یں آپ" ی چان لیا قمر بی بیکیا کر ر یں پ ہمیں ن تم ہ ہے ہ ہ ے "ان دنوں؟

یں جی سر" ہمیں جیکچھ ن !"

یلی ن آگ چلن کا اشار کیا دوسری ن کمر ےایک س ۔ ہ ے ے ے ہ ہمیں چٹکی کاٹی لیکن و تو اس طرح کھڑی تھی گویا

و ۔کسی فلم سٹار ک آگ آٹو گراف لین کھڑی ہ ے ے ے

یں پولیٹیکل سائنس میں؟" ی یں کر ر ہآپ ایم ا ن ہ ہ ے "

" ی سر و ر ۔اس کی تو شادی ہے ہ ہ "

نس دیں ۔کھی کھی کر ک ساری کبوتر زادیاں ہ ے

۔بی بی ن قاتالن نظروں س سب کو دیکھا اور بولی ے ہ ے یں جیمیں تو جی ایم ا کروں گی ۔"جھوٹ بولتی ے ہ

ر پر ےاب پروفیسر مکمل پروفیسر بن گیا جو ان چ ہ ۔متانت آ گئی

یں جو آج کل" ہےدیکھئ پڑھی لکھی لڑکیوں کا و رول ن ہ ہ ے۔ یں آپ کو شادی ک بعد یاد رکھنا ی ےکی لڑکیاں ادا کر ر ۔ ہ ہ یں جس بنک ک الکرز ئ ک تعلیم سون کا زیور ن ےچا ے ہے ہ ے ہ ے ہ

ہےمیں بند کر دیا جاتا بلک ی تو جادو کی و انگوٹھی ہ ہ ہ ہے ےجس جس قدر رگڑت چل جاؤ اسی قدر خوشیوں ک ے ے ے

و یں آپ کو اس تعلیم کی زکوP دینا ہدرواز کھلت جات ۃ ۔ ہ ے ے ے ےگی اس دوسروں ک ساتھ ے ۔ Share و گا ۔کرنا ہ "

ت معمولی اور ساد تھی اس نوعیت کی باتیں ۔بات ب ہ ہ یںلیکن فخر تی ~ عورتوں ک رسالوں میں چھپتی ر ہعموما ہ ے

ہکی آنکھوں میں، اس کی باتوں میں و حسن تھا جو وتا جب و پمفلٹ اور وزن ہمیش سچائی س پیدا ہے ہ ے ہ ہ

ےگھٹان کی تین کتابیں خرید کر کار میں آ بیٹھی تو اس کی ر تھا، و بھیگی بھیگی آواز تھی ی چ ۔نظروں میں و ہ ہ ہ ہ

ہپروفیسر فخر کو دیکھن کی کوئی صورت باقی ن تھی ے ر لحظ زیر آب کئ ریں اس ےلیکن اس کی آواز کی ل ہ ہ ے ہ ی شکاری کت ، و ، جاگت سوت ےدیتی تھیں اٹھت بیٹھت ہ ے ے ے ے ۔

Page 399: اردو ادب کے مشہور افسانے

وئی چمکدار آنکھیں ، اندر کو دھنسی ر وا چ ہجیسا ستا ہ ہ ہ ر ونٹ نظروں ک آگ گھومن لگ پھر ی چ ہاور خشک ہ ہ ے۔ ے ے ے ہ ی اندر بل کھائی رسی کی ہبھالئ ن بھولتا اور و اندر ہ ہ ے

۔طرح مروڑی جاتی

ی دنوں اس ن فیصل کیا ک و پولیٹیکل سائنس میں ہان ہ ہ ے ہ ےایم ا کر گی حاالنک اس ک گھر وال ایک اچھ بر ے ے ہ ۔ ے ے وتا وا بھی سوا الکھ کا اتھی مرا ہے۔کی تالش میں تھ ہ ہ ہ ے۔

و کر بھی اونچی نشست والی کرسی ہڈپٹی کمشنر ریٹائر وتا اباجی ک مال و متاع کو گو اندر س ےس مشاب ے ہے۔ ہ ہ ے

ت تھی نوکر چا کر ۔گھن لگ چکا تھا لیکن حیثیتl عرفی ب ہ ی تھی ل سی ن ر و گئ تھ سوشل الئف بھی پ ۔کم ہ ہ ے ہ ے۔ ے ہ ی آت لیکن رشت ڈی سی ےفنکشنوں ک کارڈ بھی کم ے ہ ے ےصاحب کی بیٹی ک چل آ ر تھ اور اعلیP س اعلیP آ ے ہے ے ے ہر تھ اس کی امی گو پڑھی لکھی عورت ن تھی لیکن ے۔ ہے ےبا اثر با رسوخ خواتین کی صحبت ن اس خوب صیقل ے

۔کر دیا تھا اس میں ایک ایسی خوش اعتمادی اور پرکاری وت و گئی تھی ک کالجوں کی پروفیسریں اس ک ےپیدا ہ ے ہ ہ

۔وئ اپن آپ کو کمتر سمجھا کرتیں ے ے ہ

ےجس وقت بی بی ن پولیٹیکل سائنس کرن پر ضد کی تو ے ےامی ن زبردست مخالفت کی ابا جی ن قدم قدم پر ۔ ے میش پولیٹیکل سائنس میں ہاڑچن پیدا کی ک جو لڑکی ہ ہ

ی و اس مضمون میں ایم ا کیونکر کر ےکمزور ر ے ہ ہے ہ ےگی کئی گھنٹوں کی بحث ک بعد ابا جی اس بات پر ۔ و گئ ک و پروفیسر س ٹیوشن ل سکتی ہے۔رضامند ے ے ہ ہ ے ہ

جس روز ریٹائرڈ ڈی سی صاحب کی کار سمن آباد گئیہتو پروفیسر فخر گھر پر موجود ن تھ دوسری مرتب جب ے۔ ہ بی بی کی امی گئیں تو پروفیسر صاحب کسی سیمینار

وئی تیسری ۔میں تشریف ل جا چک تھ مالقات پھر ن ہ ہ ے۔ ے ے ےبار جب بی بی اور ابا جی ٹیوشن کا ط کرن گئ تو ے ے وئ مطالع میں ہپروفیسر صاحب مونڈھ پر بیٹھ ے ہ ے ے ر ک نلک ک ساتھ نیل رنگ کی ےمصروف تھ با ے ے ے ہ ے۔ وئی تھی ٹیوب ویل کا پانی ۔پالسٹک کی ٹیوب لگی ہ

ا تھا لیکن پروفیسر و ر ہسامن ک تنگ احاط میں اکٹھا ہ ے ے ے

Page 400: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےصاحب اس س غافل مٹتی شفق میں حروف ٹٹول ٹٹول ے۔کر پڑھ ر تھ ہے

ارن بجایا پھر خانساماں خانساماں ک کر ل ابا جی ن ہہپ ۔ ہ ے ے ہ ےآوازیں دیں ن تو اندر س کوئی باورچی قسم کا آدمی ہ ۔

ی پروفیسر صاحب ن سر اٹھا کر دیکھا ۔نکال اور ن ے ہ ہ ہباالخر ابا جی ن خفت ک باوجود درواز کھوال اور بی بی ے ے ~ دیر ے۔کو ساتھ ل کر برآمد ک طرف چل ٹیوب غالبا ے ے ے وئی تھی اور مٹی کیچڑ میں بدل چکی تھی ۔س لگی ہ ے

نچ اور وئ سیڑھیوں تک پ ےبڑی احتیاط س قدم دھرت ہ ے ہ ے ے ۔پھر کھنکار کر پروفیسر صاحب کو متوج کیا ہ

ن ک باوجود ن تو اندر س کوکا کوال ےپون گھنٹ بیٹھن ر ہ ے ے ہ ے ہ ےآیا ن چائ ک برتنوں کا شور سنا ئی دیا اس ب اعتنائی ۔ ے ے ہ م س بیٹھ تھ شام ے۔ک باوجود دونوں باپ بیٹی س ے ے ے ہ ے

و چلی تھی اور سمن آباد ی گھروں ک آگ ری ےگ ے ے ہ ہ ےچھڑکاؤ کرن میں مشغول تھ قطار صورت گھروں س ے۔ ے

ر عمر کا بچ نکل کر اس چھڑکاؤ کو بطور ہر سائز اور ہ ہا تھا عورتیں نائیلون جالی ک دوپٹ ےولی استعمال کر ر ے ۔ ہ ہ

ی تھیں ایک ایس طبق کی زندگی جاری ےاوڑھ آ جا ر ے ۔ ہ ے یں ی غریبدونوں ک درمیان ک ہتھی جو ن امیر تھا اور ن ے ہ ہ ہ ۔ ا تھا جب بات پڑھان تک جا ےمرغ بسمل کی طرح لٹک ر ۔ ہ

نچی تو پروفیسر فخر بول ے۔پ ہ

یں پڑھا دوں گا بخوشی" اں میں ان ۔جی ہ ۔ ہ "

امعاف لو بدل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب ن ک ہاب پ ے ہ و جانی ی واضح ل ہکیجئ پروفیسر صاحب! لیکن بات پ ہ ے ہ ے یعنی آپمیرا مطلب آپ کی ئ ہےچا ے ہ Remuneration کیا

"ہو گی؟

ےٹیوشن کی فیس کو خوبصورت س انگریزی لفظ میں ےڈھال کر گویا ڈی سی صاحب ن اس میں س ذلت کی ے

۔پھانس نکال دی

و گیا اور و مونڈھ ےلیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہ ہ ے۔کی پشت کو دیوار س لگا کر بول ے

Page 401: اردو ادب کے مشہور افسانے

دراصل مجھ گورنمنٹ پڑھان کا عوضان دیتی" ہمیںمجھ ے ے ے وں یں کرتاتعلیم دیتا میں ٹیوشن ن ۔ سر اس ک عالو ہ ہ ہ ے ۔ ہے

" "دیکھی ےجو چا جب چا مجھ س پڑھ سکتا ہے۔۔ ے ہے ہے وں ک مجھ پڑھان کا شوق ہے۔جنابمیں اس لئ پڑھاتا ے ے ہ ہ ے

وتا تو بھی پڑھاتا اگر ضلع کا ڈی سی ۔اگر میں تحصیلدار ہ وت ےوتا تو بھی پڑھاتا کچھ لوگ پیدائشی میری طرح ہ ۔ ہ

اتھوں وتی پڑھان کیان ک ر ہیں ان ک ماتھ پر م ے ے ہے ہ ہ ے ے ۔ ہوتی پڑھان کی ۔پر لکیر ے ہے ہ "

ے۔بی بی ک حلق میں نمکین آنسو آ گئ دو غیرتوں کا ے ہمقابل تھا ایک طرف ڈی سی صاحب کی و غیر ت تھی ۔ ہ ر ضلع ک افسرو ں ن کلف لگائی تھی دوسری ۔جس ے ے ہ ے ےآدمی کی غیرت تھی جو گھونگ Idealistic جانب ایک ی جسم پر الد کر چال کرتا ہےکی طرح اپنا سارا گھر اپن ہ ے و ٹ پا کر اس گھونگ میں گوش نشین ہاور ذرا سی آ ہ ے ہ

ہے۔جاتا

ےپروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیں کئ جا ر تھ اور ہے ے ےاس ک ابا جی مونڈھ میں یو ں بیٹھ تھ جیس بھاگ ے ے ے ے

وں ۔جان کی تدبیریں سوچ ر ہ ہے ے

ےفائن آرٹس کا دولت کی ذخیر اندوزی س کوئی تعلق" ہ وں میرا پروفیشن فائن آرٹس کا یں میں سمجھتا ہن ہے۔ ہ ےایک شعب انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرن کی ہے۔ ہ ش بیدار کرناعام ہسعیانسان میں تحصیل علم کی خوا

ناایک صحیح استاد ہسطح س اٹھ کر سوچنا اور سوچت ر ے ے ہے۔ان نعمتوں کو بیدار کرتا ایک تصویر، ایک گیت، ایک یں ساز بجان وال ی کچھ کر پات ےخوبصورت بت بھی ی ے ۔ ہ ے ہ ہکو اگر آپ الکھ روپی دیں اور اس پر پابندی لگائیں ک و ہ ہ اگر و ~ و اتھ ن لگائ تو و غالبا ہساز کو ہ ہ ے ہ ہ Genuine ہے تو وں ۔آپ کی پیشکش ٹھکرا د گامیں ٹیچر ہ ے Genuine

وں زبیری صاحب Fake ٹیچرمیں یں ہن ہ !"

یں ار مانن وال ن ہڈی سی صاحب اپنی بیٹی ک سامن ے ے ہ ے ے ے۔تھ

" ~ سازند مان جائ گا و تو غالبا ۔اور جو پیٹ میں کچھ ن ے ہ ہ ہ "

Page 402: اردو ادب کے مشہور افسانے

" ہپھر و سازند ہ Fake ۔و گا کا اس کی زندگی Passion ہ، ~ و اپن آرٹ کو ایک تمغ و گا بلک غالبا ہس کوئی تعلق ن ے ہ ہ ہ ہ ے و گا ار کی طرح استعمال کرتا ۔ایک پاسپورٹ، ایک اشت ہ ہ "

ہاچھا جی آپ پیس ن لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا" ے ۔کریں "

" اں میں بخوشی پڑھا دوں گا ۔جی ۔ ہ "

" ۔تو کب آیا کریں گ آپ؟میں کار بھجوا دیا کروں گا ے "

چکچا کر و گئیں اور و ہپروفیسر فخر کی آنکھیں تنگ ہ ہ یں جاتا شام ک وقت" "تو میرا تو یں ن "میں تو ک ےبول ہ ہ ے

؟ ےمیرا مطلب ک آپ اس پڑھائیں گ کیس ے ے ہ ہے "

۔ی چار پانچ ک درمیان کسی وقت آ جایا کریں میں پڑھا" ے ہ ۔دیا کروں گا "

ہبی بی ک پیروں تل س یوں زمین نکلی ک اس وقت ے ے ے ےتک واپس ن لوٹی جب تک و اپن پلنگ پر لیٹ کر کئی ہ ہ

ی ۔گھنٹ تک آنسوؤں س اشنان ن کرتی ر ہ ہ ے ے

وت لو ~ مرد کی کشش ک تین پ ےعورت ک لئ عموما ہ ہ ے ے ے انت اور فصاحت ی تینوں اوصاف ہیں ب نیازی، ذ ۔ ہ ے ۔ ہ

یں اسی لئ ایس ےپروفیسروں میں بقدر ضرورت ملت ے ۔ ہ ے ~ اپن و لڑکیاں عموما اں مخلوط تعلیم ےکالجوں میں ج ہ ہ

یںاس محبت کا و جاتی ہپروفیسروں کی محبت میں مبتال ہ یروشپ کی طرح اس کا اثر ہچا کچھ نتیج ن نکل لیکن ے ہ ہ ہے

ر وتا جس طرح ملکیت ظا نوں میں ابدی ہان ک ذ ہے ہ ہ ے ےکرن ک لئ پران زمان میں گھوڑوں کو داغ دیا جاتا تھا ے ے ے ے رl فخر لگ گئی ۔اسی طرح اس رات بی بی ک دل پر م ہ ے

ر آن جان وال س پروفیسر فخر ک احمق پن ےابا جی ے ے ے ے ہ ہکی داستان یوں سنان بیٹھ جات جیس ی بھی کوئی ویت ے ے ے و ان ک ملن وال پروفیسر فخر کی باتوں ےنام کا مسئل ے ے ۔ ہ ہ وں ن بیٹی و چال تھا ک ان نست بی بی کو شب ےپر خوب ہ ہ ہ ہ ے۔ ہ

ی اندر ہکو ٹیوشن کی اجازت ن دی تھی پھر بھی اندر ہ و چک تھ ے۔اباجی فخر کی شخصیت س مرعوب ے ہ ے

Page 403: اردو ادب کے مشہور افسانے

یلی س ملن سمن آباد گئی ےایک دن جب بی بی اپنی س ے ہ ےاور سامن والی الئن میں اس پروفیسر فخر کا مکان ے

ےدکھائی دیا تو اچانک اس ک دل میں ایک زبردست ش اٹھی و خوب جانتی تھی ک اس وقت پروفیسر ہخوا ہ ۔ ہ وں گ پھر بھی و گھر ک اندر ےصاحب کالج جا چک ہ ے۔ ہ ے

ےچلی گئی سار کمر کھل پڑ تھ لمب کمر میں ے ے۔ ے ے ے ے ۔ ہایک چارپائی بچھی تھی جس کا ایک پای غائب تھا اور اس

وئی تھی تینوں کمروں ۔کی جگ اینٹوں کی تھٹی لگی ہ ہ ر طرح ر پیپر اور ر سائز، ی کتابیں تھیں ہمیں کتابیں ہ ہ ۔ ہ ےکی پرنٹنگ والی کتابیں ان کتابوں کو درستگی ک ساتھ ۔

ش بڑی شدت ک ساتھ بی بی ک ےآراست کرن کی خوا ے ہ ے ہ ، زرد رو وئ کپڑ ےدل میں اٹھی جستی ٹرنک پر پڑ ے ہ ے ۔

ی تھیں ہچھپکلیاں جو بڑی آزادی س چھت س جھانک ر ے ے وئ جال ان چیزوں کا بی بی پر ے۔اور کونوں میں لگ ے ہ ے

وا باورچی خان س کچھ جلن کی خوشبو را اثر ت گ ےب ے ے ۔ ہ ہ ہ یں ی تھی لیکن پکان واال دیگچی سٹوو پر رکھ کر ک ہآ ر ے ہ وا تھا بی بی ن تھوڑا سا پانی دیگچی میں ڈاال اور ےگیا ۔ ہ

یلی س مل بغیر آ گئی ۔س ے ے ہ

ےجس روز بی بی ن پروفیسر فخر س شادی کرن کا ے ے ۔فیصل کیا اسی روز جمالی ملک کا رشت بھی آگیا ہ ہ

وٹل میں مینجر ور ک ایک نامی گرامی ہجمالی ملک ال ے ہ وئی شخصیت تھی اپنی پتلون کی ۔تھ بڑی پریس کی ہ ے۔ ےکریز کی طرح اپن چمکدار بوٹوں کی طرح جگمگاتی ۔

ار نظر آت تھ ے۔وئی شخصیتو کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشت ے ہ ہ ہتی ر پر ر میش چ ۔صاف ستھر دانتوں کی چمک ہ ے ہ ہ ہ ے

وٹل کی تنظیم، صفائی اور سروس کا ہجمالی ملک اپن ے ، مدھم وئ ےسمبل تھ ائیر کنڈیشنڈ البی میں پھرت ہ ے ے۔

وئ لف ک بٹن ےبتیوں والی بار میں سرپرائز وزٹ کرت ے ہ ے ال میں وی آئی پیز ک ساتھ پر تکلف وئ ڈائننگ ےدبات ہ ے۔ ہ ے ، ان کا وجود کٹ گالس ک فانوس کی وئ ےگفتگو کرت ے ہ ے

۔طرح خوبصورت اور چمکدار تھا

وٹل ک بڑ مینجر ن بی بی ک ےجس روز اس بڑ ے ے ے ہ ے ےخاندان کو کھان کی دعوت دی اسی روز ڈرائی کلینر

ےس واپسی پر بی بی کی مڈبھیڑ پروفیسر فخر ک ساتھ ے

Page 404: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےو گئی و فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں والی دکانوں ک ہ ۔ ہے۔سامن کھڑ تھ اور ایک پرانا سا مسود دیکھ ر تھ ہے ہ ے ے ے

" واال ر مال مل آٹھ آن ےان س پانچ قدم چھ قدم دور " ے ہ ے ٹ کر و دکان ا تھا ذرا سا ہچیخ چیخ کر سب کو بال ر ہ ۔ ہ ، افریق ریل طوط ہتھی جس میں سرخ چونچوں وال ے ہ ے

ےکی سرخ چڑیاں اور خوبصورت لق کبوتر غٹر غوں غٹر ےغوں کر ر تھ پروفیسر صاحب پر سار بازار کا کوئی ے۔ ہے ماک س پڑھن میں مشغول ا تھا اور و بڑ ان و ر ےاثر ن ے ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ

ے۔تھ

ہکار پار ک کرن کی کوئی جگ ن تھی باالخر محکم تعلیم ۔ ہ ہ ے وئی ہک دفتر میں جا کر پارک کروائی اور پیدل چلتی ے

نچی پرانی کتابیں بیچن وال دور ےپروفیسر فخر تک جا پ ے ۔ ہ وئ تھ کرم خورد کتابوں ک ڈھیر تھ ے۔دور تک پھیل ے ہ ے۔ ے ہ ے

یں امریکن وطن ہایسی کتابیں اور رسال بھی تھ جن ے ے ل سیروں ک حساب س بیچ گئ تھ اور ےلوٹن س پ ے ے ے ے ہ ے ے

ے۔جن ک صفح بھی ابھی ن کھل تھ ے ہ ے ے

"!سالم علیکم سر"

! و گئیالل ہچونک کر سر ن پیچھ دیکھا تو بی بی شرمند ہ ہ ے ے چان کی کرن جاگ ےاس پروفیسر کی آنکھ میں کبھی تو پ ہ ر بار نئ سر س اپنا تعارف تو ن کروانا پڑ گا ۔گی؟ ے ہ ے ے ے ہ

یں سر" ہآپ اتنی دھوپ میں کھڑ ے "

ہپروفیسر ن جیب س ایک بوسید اور گند رومال نکال ہ ے ے ست س بول "ان کتابوں ک پاس ےکر ماتھا صاف کیا اور آ ے ے ہ ہ

تا یں ر ۔آ کر گرمی کا احساس باقی ن ہ ہ "

وئی کیونک ہبی بی کو عجیب شرمندگی سی محسوس ہ میش گردن پر پیسن کی ےجب کبھی و پڑھن بیٹھتی تو ہ ہ ے ہ ون لگتی ۔نمی سی آ جاتی اور اس پڑھن س الجھن ے ہ ے ے ے

" و تو جی میں چھوڑ آؤں آپ کو یں جانا ۔آپ کو ک ہ ہ "

" یں میرا سائیکل ساتھشکری ہن ہے ہ !"

۔بات کچھ بھی ن تھی فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان ہ ےک سامن ایک ب نیاز چھوڑ پروفیسر ک ساتھ جس ے ے ے ے

Page 405: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےک کالر پر میل کا نشان تھا، ایک سرسری مالقات تھی ۔چند ثانی بھر کی لیکن اس مالقات کا بی بی پر تو ے وا میں مل گیا و کر وا سارا وجود تحلیل ۔عجیب اثر ہ ہ ۔ ہ

ی لن کی سکت ن ر ا اور پاؤں میں ہکندھوں پر سر ن ر ہ ے ہ ہ ہ ےتھی حاالنک پروفیسر فخر ن اس س ایک بات بھی ے ہ ۔

وتی پر بی بی ک تو ر توج طلب ےایسی ن کی جو بظا ۔ ہ ہ ہ ہ اتھ س چندن کا ٹیک لگا وں ن اپن ہماتھ پر جیس ان ے ہ ے ے ہ ے ے وٹل ہدیا کھوئی کھوئی سی گھر آئی اور غائب سی بڑ ے ۔

ن آئین خان س نچ گئی جب و شمعوز کی ساڑھی پ ےپ ے ہ ے ہ ہ ۔ ہ نچی تو دراصل و آکسیجن کی طرح ایک ہالبی میں پ ہ

ےایسی چیز بن چکی تھی جس صرف محسوس کیا جا ےسکتا جمالی ملک صاحب شارک سکن ک سوٹ میں ہے۔ ےملبوس، کالر میں کارنیشن کا پھول لگائ گھٹنوں پر کلف

ےشد سرویٹ سرکھ اتن ٹھوس نظر آ ر تھ ک سامن ہ ے ہے ے ے ہ نیاں ٹکائ جھینگ کا پالؤ اور چوپ سوٹی کھان ےمیز پر ک ے ے ہ ی ن و سکا اور و جان یں شب تک ن ہوالی لڑکی پر ان ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وٹل میں ہسک ک مسلسل باتیں کرن والی لڑکی دراصل ے ہ ے یں اگر بی بی کی شادی جمالی ملک س ی ن ےموجود ہے۔ ہ ہ وتی انی آئسنگ لگ کیک کی طرح دالویز ۔و جاتی تو ک ہ ے ہ ہ

۔لفٹ کی طرح اوپر کی منزلوں کو چڑھن والی سوئمنگ ے ر تیرن ےپول ک اس تخت کی طرح جس پر چڑ ھ کر ہ ے ے

ل کئی فٹ اوپر چال جایا کرتا ےواال سمرسولٹ کرن س پ ہ ے ے و گئی ۔ لیکن شادی تو بی بی کی پروفیسر فخر س ہ ے ہے۔

وا اور ہڈی سی صاحب کی بیٹی کا بیا اس کی پسند کا ہ وٹل میں دی گئی جس ک مینجر ےاس شادی کی دعوت ہ ن ک گھر والوں ن چار ڈی لکس ےجمالی صاحب تھ دل ے ہ ے۔ ل س بک کر رکھ تھ اور بڑ ےقسم ک کمر دو دن پ ے ے ے ے ہ ے ے

ن ا دل یں دول ، و اں رات کا آکسٹرا بجا کرتا ہال میں ج ہ ہ ہے ہ ہوٹل میں ی نکاح بھی ت بڑی دعوت ر ہک اعزاز میں ب ۔ ہ ہ ے وئی ساری شادی ی س وٹل وا اور رخصتی بھی ۔ی ہ ے ہ ہ ہ ہ

نگام مفقود تھا ایک ٹھنڈ کا، ایک خاموشی کا احساس ۔کا ہ ہ ال میں یخ بست کولڈ مانوں پر طاری تھا ٹھنڈ ٹھنڈ ہم ہ ے ے ۔ ہ مانوں س مل کر بی بی ر س م وئ سرد م ےڈرنکز پیت ہ ے ہ ے ہ ے

۔اپن میاں ک ساتھ سمن آباد چلی گئی ے ے

Page 406: اردو ادب کے مشہور افسانے

ل ایک اور بھی چھوٹا سا واقع ہلیکن اس رخصتی س پ ے ہ ے ی تھی اور اس ن تیار کی جا ر ل جب دل ےوا نکاح س پ ہ ہ ے ہ ے ۔ ہو گئی ا تھا، اس وقت بجلی اچانک فیوز نایا جا ر ۔زیور پ ہ ہ ہ

و گئی چند ل بتیاں گئیں پھر ائیر کنڈیشنر کی آواز بند ۔پ ہ ے ہ وا لیکن پھر ہثانئ تو کانوں کو سکون سا محسوس ے

ےلڑکیوں کا گرو کچھ تو گرمی ک مار اور کچھ موم ے ہ ر چال گیا اندھیر کمر میں ایک ےبتیوں کی تالش میں با ے ۔ ہ ا ن ر گئی ارد گرد خوشبو کا احساس باقی ر ہآراست دل ۔ ہ ہ ہ

و گیا ۔اور باقی سب کچھ غائب ہ

اب خدا جان ی جمالی ہبتیاں پور آدھ گھنٹ بعد آئیں ے ۔ ے ے ے ۔ملک کی سکیم تھی یا واپڈا والوں کی سازش تھی بجلی ےچل جان ک کوئی دس منٹ بعد بی بی ک درواز پر ے ے ے ے

وئی آواز میں بی بی ن جواب دیا وئی ڈری ۔دستک ے ہ ۔ ہ

"کم ان"

اس ن آدھی وا ےاتھ میں شمعدان لئ جمالی ملک داخل ۔ ہ ے ہن رکھا تھا کالر میں کارنیشن را نیال سوٹ پ ۔رات جیسا گ ہ ہ ی تمباکو ملی کوئی تیز سی ہکا پھول تھا اور اس ک آت ے ے

ےخوشبو کمر میں پھیل گئی بی بی کا دل زور زور س ۔ ے ۔بجن لگا ے

و گیا تھوڑی" مارا جنریٹر خراب ہے۔میں ی بتان آیا تھا ک ہ ہ ہ ے ہ یں آپ ہدیر میں بجلی آجائ گیکسی چیز کی ضرورت تو ن ے

ی ۔کو؟"\ و خاموش ر ہ ہ

ےمیں ی کینڈل سٹینڈ آپ ک پاس رکھ دوں؟" ہ "

ال دیا ۔اثبات میں بی بی ن سر ہ ے

۔جمالی ملک ن شمعدان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا جب ے ر پر پڑا اور ےپانچ موم بتیوں کا عکس بی بی ک چ ہ ے

ہکنکھیوں س اس ن آئین کی طرح دیکھا تو لمح بھر کو ے ے ے ۔تو اپنی صورت دیکھ کر و خود حیران سی ر گئی ہ ہ

" یلیاں کدھر گئیں؟" ۔آپ کی س ہ

یں شاید" ہو نیچ چلی گئی ے ہ "

Page 407: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں بیٹھ جاؤں" و تو تو میں ی ہاگر آپ کو کوئی اعتراض ن ہ ہ ۔چند منٹ "

ال دیا ۔بی بی ن اثبات میں سر ہ ے

ےو اپالو کی طرح وجی تھا جب اس ن ایک گھٹن پر ے ۔ ہہ ہ ےدوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوف کی پشت س لگایا تو ے وئی جمالی ۔بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہ وٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اتھ میں سار ہملک ک ے ہ ے ی ہاس کی بڑی سی انگوٹھی نیم روشنی میں چمک ر

ےتھی اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی ن اپن ے ۔ لی بار دیکھا اور اس کی ایک ل پ ہنکاح س آدھ گھنٹ پ ے ہ ہ ے

ےنظر ن اس اپن اندر اس طرح جذب کر لیا جس ے ے ے ی کو جذب کرتا ی چوس سیا ہے۔سیا ہ ہ

" وں؟" اس ن ےمیں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتا ہ ۔مضطرب نظروں س بی بی کو دیکھ کر پوچھا ے

ی ۔و بالکل چپ ر ہ ہ

" وتا ہےلڑکیاںخاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہ ت بڑی غلطی کر اتھوں و ایک ب ہاور اسی ایک زعم ک ہ ہ ے

یں ۔بیٹھتی ہ "

ےنقلی پلکوں وال بوجھل پپوٹ اٹھا کر بی بی ن ے ے "پوچھا"کیسی غلطی؟

ےکچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑن کو" یں ک یں" و سمجھتی ہخوشی کی معراج سمجھتی ہ ہ ہ ہکسی کی ب نیازی کی ڈھال میں سوراخ کر ک و ے ے

ےسکون معراج کو پالیں گی کسی ک تقویP کو برباد کرنا ۔ د کو عجز و یں کسی ک ز ہخوشی ک مترادف ن ے ہے۔ ہ ے

اں یں ہانکساری میں بدل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث ن ہ و سکتی ی ہدوسروں ک لئ احساسl شکست کا باعث ہے ہ ے ے

بات

انت اور فصاحت کا ی تھیں ذ اتھ میں گھوم پھر ر ہچابیاں ۔ ہ ہ ۔دریا رواں تھا

Page 408: اردو ادب کے مشہور افسانے

و گا؟میرا" ہی زعمعورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہ ی غلطی کر بیٹھی یں لیکن آپ بھی و ین ہخیال تھا آپ ذ ہ ہ تی ہیں جو عام لڑکی کرتی آپ بھی توب شکن بننا چا ہ ہے۔ ہ

۔یں "ہ

" مجھ پروفیسر فخر س محبت ہے۔مجھ ے ے ے "

یں ک اندر" تی ہمحبت؟ آپ پروفیسر فخر کو ی بتانا چا ہ ہ ہ یں اپن تمام وئ ےس و بھی گوشت پوست ک بن ۔ ہ ے ہ ے ے ہ ے یںاور یں سوت ہآئیڈیلز ک باوجود و بھی کھانا کھات ے ۔ ہ ے ہ ے

یں جس یںان کا کوٹ آف آرمر اتنا سخت ن ہمحبت کرت ہ ے یں ۔قدر و سمجھت ہ ے ہ "

و وت تی تھی ک جمالی ملک س ک ک تم کون ہو چا ے ہ ہ ہے ے ہ ہ ہ یں کیا ! تم ن وال ہمجھ پروفیسر فخر ک متعلق کچھ ک ے ے ہ ے ے

اں لیدر ک صوف س پشت لگا کر نچتا ک ی ےحق پ ے ے ہ ہ ہے ہ اتھ میں ل کر اتن بڑ وٹل ک ماسٹر چابیاں ےسار ے ے ہ ے ہ ے

ی تھی اور ہآدمی پر تبصر کرولیکن و ب بس سن جا ر ے ے ہ ہ یں سکتی تھی ۔کچھ ک ن ہ ہہ

وں لیکن جو کچھ" یں ہمیں پروفیسر صاحب س واقف ن ہ ے ت تو ی انداز لگایا ک و اگر مجرد ر ےسنا اس س ی ہ ہ ہ ہے ہ ہ ے ہے

وتاعورت تو خوا مخوا توقعات س وابست کر لین تر ےب ہ ے ہ ہ ہ ہ ؟ و بھال اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گ ےوالی ش ہ ہے ے "

" ۔جمالی صاحب!اس ن التجا کی ے

یں" ہآپ سی لڑکیاں اپن رفیق حیات کو اس طرح چنتی ے ےجس طرح مینو میں س کوئی اجنبی نام کی ڈش آرڈر

ےکر دی جائ محض تجرب کی خاطرمحض تجسس ک ے ے ی "اتن سار حسن کا پروفیسر ےلئ و پھر بھی چپ ر ے ۔ ہ ہ ے۔

و گا بھالمنی پالٹ پانی ک بغیر ےصاحب کو کیا فائد ہ ہ ےسوکھ جاتا عورت کا حسن پرستش اور ستائش ک ہے۔ ین مرد کو بھال کسی ہبغیر مرجھا جا تا کسی ذ ہے

؟ اس ک لئ وتی ےخوبصورت عورت کی کب ضرورت ے ہے ہ ت کافی ہے۔تو کتابوں کا حسن ب ہ "

ا ہشمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھ جل ر ے ی تھی اتھوں کو بغور دیکھ ر ۔تھا اور و کیوٹیکس لگ ہ ہ ے ہ

Page 409: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں مل سکتا" تر قصید گو آپ کو کبھی ن ہمجھ س ب ہ ہ ے یں مل سکتا کیونک میرا گھر ہقمرمجھ سا گھر آپ کو ن ہ

تر کوئی سروس وٹل سروس س ب وٹل میں اور ہاس ے ہ ہے ہ وتی اور مجھ ی بھی یقین ک میری باتوں پر آپ یں ہن ہے ہ ے ہ ہ ر پر چھائیاں پڑ ےکو اس وقت یقین آئ گا جب آپ ک چ ہ ے ے و جائیں گ اور اتھ کیکر کی چھال جیس ےجائیں گی ہ ے ہ ۔

تا تھامیری تو تمنا ہپیٹ چھاگل میں بدل جائ گامیں تو چا ے جب نچت وٹل کی البی میں اکٹھ پ م اس ےتھی ک جب ہ ے ہ ہ ہ

وتا جب اس کی م دونوں کا گزر ۔اس کی بار میں ہ ہ م چلت نظر آت تو امریکن ٹورسٹ س ل ےگیلریوں میں ے ے ے ہ

ماری خوش نصیبی پر ہکر پاکستانی پیٹی بورژوا تک سب، ےرشک کرت لیکن آپ آئیڈیلسٹ بنن کی کوشش کرتی ے

۔یں ی حسن ک لئ گڑھا بربادی کا ہے ے ے ہ ۔ "ہ

ر ا نیال سوٹ، کارنیشن کا سرخ ہساون کی رات جیسا گ ر باالخر درواز وا چ ےپھول اور آفٹر شیولوشن س بسا ہ ہ ہ ے

وئ بوال ۔کی طرف بڑھا اور بڑھ ے ہ ے

و" یں ہکسی س آئیڈیلز مستعار ل کر زندگی بسر ن ہ ے ے میش وں آدرش جب تک اپن ذاتی ن ہسکتی محترم ہ ہ ہ ے ہ

یں لگا اڑوں کا پودا ریگستان میں ن یں پ و جات ہمنتشر ہ ۔ ہ ے ہ ۔کرتا "

ا تھا ک آخری نظر جمالی ہاس میں تو اتنا حوصل بھی ن ر ہ ہ ہ اتھ ڈال ینڈل پر ی ڈال لیتی درواز ک مدور ہملک پر ہ ے ے ۔ ہ

ےکر جمالی ملک ن تھوڑا سا پٹ کھول دیا گیلری س ۔ ے نسن کی آوازیں آن لگیں ۔لڑکیوں ک ے ے ہ ے

وں اس س اپنا کیس" ےمیں بھی کس قدر احمق ۔ ہ pleadاچھا جی مبارک وں جو کبھی کا فیصل کر چکی ا ہےکر ر ہ ہ ہ

"ہو آپ کو

وئ وجی مینجر کو جات و گیا ہہدرواز کھال اور پھر بند ے ہ ے ۔ ہ ہ ےایک نظر بی بی ن دیکھا اور اپن آپ پر لعنت بھیجتی ے

چند لمحوں بعد درواز پھر ہوئی اس ن نظریں جھکا لیں ۔ ے ہر اندر کر ہکھال اور ادھ کھل پٹ س جمالی ملک ن چ ہ ے ے ے

لکی براؤن آنکھوں میں نمی اور ہک دیکھا اس کی ۔ ے ےشراب کی ملی جلی چمک تھی جیس گالبی شیش پر ے

و و گئی وں کی بھاپ اکٹھی ۔آ ہ ہ ہ

Page 410: اردو ادب کے مشہور افسانے

" لیکن مجھ س ا تر آدمی تو آپ کو مل ر ےمجھ س ب ہے ہ ہ ے تر گھر ن مل گا آپ کو مغربی پاکستان میں ۔ب ے ہ ہ "

ےاسی طرح سنتو جمعدارنی ک جان پر بی بی ن سوچا ے ے ی کو اسی طرح اں مل گا کلمو تر گھر ک م س ب ۔تھا ہ ے ہ ہ ے ہ ۔ ہخورشید ک چل جان پر و دل کو سمجھاتی تھی ک اس ہ ے ے ے اں مل گا اور ساتھ ساتھ ےبد بخت کو اس س اچھا گھر ک ہ ے

تر گھر چا ن مل ےبی بی ی بھی جانتی تھی ک اس س ب ہ ہے ہ ے ہ ہ یں تھیں اتن برس ےو لوٹ کر آن والیوں میں س ن ۔ ہ ے ے ہ و گیا آپی آپ ماضی س ےگزرن ک بعد ایک پل تعمیر ۔ ہ ے ے

ہجوڑن واال و دل برداشت انار کلی چلی گئیاس کا خیال ہ ۔ ے ےتھا ک و چار گھٹن کی غیر موجودگی میں سب کچھ ٹھیک ہ ہ ےکر د گی سنتو جمعدارنی اور خورشید تک کو آٹ دال ۔ ے

وا یوں ک جب و اپن و جائ گا لیکن ےکا بھاؤ معلوم ہ ہ ہ ۔ ے ہ اتھ میں لئ بانو بازار میں ےاکلوت دس روپ ک نوٹ کو ہ ے ے ے ےکھڑ ی تھی اور سامن ربڑ کی چپلوں وال س بھاؤ کر ے ے ی تھی اور ن چپلوں وال پون تین س نیچ اترتا تھا ےر ے ے ے ہ ہ

ےاور ن و ڈھائی روپ س اوپر چڑھتی تھی، عین اس وقت ے ہ ہ ےایک سیا کار اس ک پاس آ کر رکی اپن بوائی پھٹ ے ۔ ے ہ

وئ اس ن ایک نظر کار ےپیروں کو نئی چپل میں پھنسات ے ہ ے ۔وال پر ڈالی ے

۔و اپالو ک بت کی طرح وجی تھا ہہ ے ہ

ت ل چند سفید بالوں ن اس کی وجا ہکنپٹیوں ک قریب پ ے ے ہ ے ر بھی لگا دی تھی وقت ن اس ےپر رعبl حسن کی م ۔ ہ ہسینٹ کا کچھ ن بگاڑا تھا و اسی طرح محفوظ تھا ۔ ہ

و ۔جیس ابھی کولڈ سٹوریج س نکال ہ ے ے

پیٹ پر اتھ دیکھ ےبی بی ن اپن کیکر ک چھال جیس ہ ے ے ے ے نظر ڈالی جو چھاگل میں بدل چکا تھا اور ان نظروں کوہجھکا لیا جن میں اب کتیر گوند کی بجھی بجھی سی

۔چمک تھی

ےجمالی ملک اس ک پاس س گزرا لیکن اس کی نظروں ے چان کی گرمی ن سلگی واپسی پر و پروفیسر ہمیں پ ۔ ہ ہ

ےصاحب س آنکھیں چرا کر بستر پر لیٹ گئی اور آنسوؤں وا سیالب اس کی آنکھوں س ب نکال ۔کا رکا ہہ ے ہ

Page 411: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کیا بتاتی ک ت پوچھا لیکن و ان ہپروفیسر صاحب ن ب ہ ہ ہ ے و جائ اس کی جڑیں ی اونچا کیوں ن ےدرخت چا کتنا ہ ہ ہ ہے یں کیا یں و ان تی وس س کریدتی ر ہمیش زمین کو ہ ۔ ہ ہ ے ہ ہ ہن لیا یں جو پ ہسمجھاتی ک آئیڈیلز کچھ مانگ کا کپڑا ن ہ ے ہ تی ک عورت کیس توقعات وابست یں کیا ک ہجائ و ان ے ہ ہ ہ ہ ے۔

ہےکرتی

اور

؟ ہےی توقعات کا محل کیونک ٹوٹتا ہ ہ

ہو غریب پروفیسر صاحب کو کیا سمجھاتی !

~ جمالی ملک بھی بھول چکا تھا ۔ایسی باتیں تو غالبا

ہو بڈھا

(راجندر سنگھ بیدی)

ی تھی میر یں جانتی میں تو مز میں چلی جا ر ےمیں ن ۔ ہ ے ۔ ہ ےاتھ میں کال رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی ک ے ہ

ی اتھ میں اس گھما ر وا تھا اور میں ہتار س کچھ کڑھا ے ہ ہ ے و گئی، کیو ں ک ہتھی کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہ ۔ نچن اور ےمین روڈ پر س ادھر آن والی بسیں اڈ پر پ ہ ے ے ے

اں آ کر ایک دم راست ہٹائم کیپر کو ٹائم دین ک لئ ی ہ ے ے ے ت وت ر ےکاٹتی تھیں اس لئ اس موڑ پر آئ دن حادث ہ ے ہ ے ے ے ۔

ے۔تھ

و گیا یں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ۔بس تو خیر ن ہ ہ ےمیر دائیں طرف سامن ک فٹ پاتھ ک ادھر مکان تھا ے ے ے

وئی اتھ اسکول کی سیمنٹ س بنی ہاور میر الٹ ے ہ ے ے ےدیوار، جس ک اس پار مشنری اسکول ک فادر لوگ ے ے۔ایسٹر ک سلسل میں کچھ سجا سنوار ر تھ میں ہے ے ے

ےاپن آپ س ب خبر تھی، لیکن یکا یک ن جان مجھ ے ہ ے ے ے وںجوان ون لگا ک میں ایک لڑکی ہکیوں ایسا محسوس ہ ے ہ یں جانتی مگر ایک بات ، ی میں ن وتا ۔لڑکی ایسا کیوں ہ ہ ہے ہ ۔ یں دیکھتیں م لڑکیاں صرف آنکھوں س ن ۔کا مجھ پت ہ ے ہ ہے ہ ے ر پور مارا بدن کیس بنایا ک اس کا ہجان پرماتما ن ہ ہے ے ہ ے ے

ےدیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا گدگدی کرن ہے۔

Page 412: اردو ادب کے مشہور افسانے

نسن مچلن لگتا یں ک پورا شریر اتھ لگتا بھی ن ہے۔واال ے ے ہ ہ ہ ہ زاروں ہکوئی چوری چک دیکھ بھی تو یوں لگتا جیس ے ہے ے ے

وتی ہےسوئیاں ایک ساتھ چبھن لگیں، جن س تکلیف ہ ے ے ےاور مز بھی آتا البت کوئی سامن ب شرمی س دیکھ ے ے ے ہ ہے ہ

ہے۔تو دوسری بات

ا تھا اس میں ن دیکھا تو ےاس دن کوئی میر پیچھ آ ر ے ۔ ہ ے ے اں ٹ سی میر جسم دوڑ گئی ج یں، لیکن ایک سنسنا ہن ۔ ے ہ ہ اں برابر میں ایک پرانی شیور لیٹ ی تھی، و ہمیں چل ر ہ ہگاڑی آ کر رکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلک بوڑھا مرد ت معتبر صورت اور رعب داب واال آدمی ہبیٹھا تھا و ب ہ ۔

ر پر عمر ن خوب لڈو کھیلی تھی اس ۔تھا، جس ک چ ے ے ہ ے وا وئی تھی، جیس کبھی اس لقو ہکی آنکھ تھوڑی دبی ہ ے ے ہ

ہو اور وٹامن سی اور بی کمپلیکس ک ٹیک وغیر ے ے ہ، شیرکی چربی کی مالش کرن یا کبوتر کا خون ےلگوان ے یں ایس لوگوں و، لیکن پورا ن و گیا ےملن س ٹھیک تو ۔ ہ ہ ہ ے ے یں مارت اور پھر ےپر مجھ بڑا ترس آتا کیونک و آنکھ ن ہ ہ ہ ہے ے یں جب اس ن میری طرف دیکھا تو ےبھی پکڑ جات ۔ ہ ے ے ل میں بھی اس غلط سمجھ گئی، لیکن چونک میر ےپ ہ ے ے ہ

یں، اس ہاپن گھر میں چچا گووند اسی بیماری ک مریض ے ے ےلئ میں اصل وج جان گئی دیر تک میں اپن آپ کو ۔ ہ ے

ی اس بڈھ کی داڑھی ےشرمند سی محسوس کرتی ر ۔ ہ ہ ۔تھی جس میں روپ ک برابر ایک سپاٹ سی جگ تھی ہ ے ے

اں اس ک کوئی بڑا سا پھوڑا ےضرور کسی زمان میں و ہ ے و گیا لیکن بالوں کو جڑ س غائب و گا جو ٹھیک تو ےنکال ہ ہ ۔کرگیا اس کی داڑھی سر ک بالوں س زیاد سفید تھی ہ ے ے ۔ ےسر ک بال کھچڑی تھ سفید زیاد اور کال کم، جیس ے ہ ے۔ ے ےکسی ن ماش کی دال تھوڑی اور چاول زیاد ڈال دئ ہ ے

ہوں اس کا بدن بھاری تھا، جیسا ک اس عمر میں سب کا ۔ ہو جائ گاکیا میٹرن گوں کگی؟ لوگ ےو جاتا میرا بھی ہ ہے۔ ہ، تم بھی آگ چل کر موٹی اری ماں موٹی یں تم ت ےک ہے ہ ہ ے ہ ی ہو جاؤ گیعجیب بات نا ک کوئی عمر ک ساتھ آپ ے ہ ہے ہیا باپ بڈھ ک قد کا البت پت ن چال، و جائ ہآپ ماں ہ ہ ے ے ۔ ے ہ

ا ی اس ن ک ہکیوں ک و موٹر میں ڈھیر تھا کار رکت ے ہ ے ۔ ہ ہ ۔"سنو "

Page 413: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےمیں رک گئی، اس کی بات سنن ک لئ تھوڑا جھک بھی ے ے ۔گئی

" یں دور س دیکھا" و بوال ۔میں ن تم ہ ے ہ ے

۔میں ن جواب دیا "جی ے "

" ونا وں اس پر خفا ن ا ن جا ر ۔میں جو تم س ک ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

" ا و کر ک ئ میں ن سیدھی کھڑی ۔ک ہ ہ ے ے ہ

ےاس بڈھ ن پھر مجھ ایک نظر دیکھا، لیکن میر جسم ے ے ے ٹ ن دوڑی، کیوں ک و بڈھا تھا پھر اس ک ےمیں سنسنا ۔ ہ ہ ہ ہ

وتی یں معلوم ر س بھی کوئی ایسی ویسی بات ن ہچ ہ ے ے ہ یں وت یں ک بڈھ بڑ ٹھرکی ت ۔تھی، ورن لوگ تو ک ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہ

" اس ن پھر بات شروع کی "اور" ی تھیں ےتم جا ر ۔ ہ اری ی ناگن، دایاں پاؤں اٹھن پر بائیں طرف اور بایاں ےتم ہ ہ

ی تھی ہپاؤں اٹھن پر دائیں طرف جھوم ر ے "

و گئی میں ن اپنی چوٹی کی ےمیں ایک دم کانشس ۔ ہ ےطرف دیکھا جو اس وقت ن جان کیس سامن چلی آئی ے ے ہ ےتھی میں ن بغیر کسی اراد ک سر کو جھٹکا دیا اور ے ے ۔ وئی پھر پیچھ چلی گئی بڈھا ک ہےناگن جیس پھنکارتی ۔ ے ہ ے

ست کر لی اور پیچھ س ا تھا "میں ن گاڑی آ ےجا ر ے ہ ہ ے ہ ت ا" اور آخر و بڈھا ایک دم بوال"تم ب یں دیکھتا ر ہتم ہ ہ ہ

و ۔خوبصورت لڑکی ہ "

و گیا اور میں ہمیر بدن میں جیس کوئی تکلف پیدا ے ے ےکروٹ کروٹ بدن چران لگی بڈھا منتر مگدھ مجھ ۔ ے

یں جانتی تھی اس کی بات کا کیا ا تھا میں ن ہدیکھ ر ۔ ہ ر ک دیسوں میں کسی ، با ےجواب دوں؟ میں ن سنا ہ ہے ے

، وتی ت خوش ہےلڑکی کو کوئی ایسی بات ک د تو و ب ہ ہ ہ ے ہہ یں الٹا اں کوئی رواج ن مار ی ۔شکری ادا کرتی لیکن ہ ہ ے ہ ہے ہ یں، کسی کو کیا م کیسی بھی ہمیں آگ لگ جاتی ہ ہے۔ ہ؟ اور و میں ایسی نظروں س دیکھ نچتا ک ہحق پ ے ے ہ ہ ہے ہ

، گاڑی روک کر بدیسی لڑکیوں کا ۔بھی یوںسڑک ک کنار ے ے یں اٹھار بیس کی ، و تو بڈھوں کو پسند کرتی ہکیا ۔ ہ ہ ہے

ہے۔لڑکی ساٹھ ستر ک بوڑھ س شادی کر لیتی ے ے ے

Page 414: اردو ادب کے مشہور افسانے

؟ تا کیا ہےمیں ن سوچا، ی بڈھا آخر چا ہ ہ ے

" یں کرتا " و بوال "جس ےمیں اس خوبصورتی کی بات ن ہ ۔ ہ ~ و گور رنگ کو اچھا یں مثال ت ےعام آدمی خوبصورتی ک ہ ہ ے ہ

یں ۔سمجھت ہ ے "

یں میرا رنگ ی ر ہمجھ جھر جھری سی آئی آپ دیکھ ہے ہ ۔ ے یں بسبیچ کا میں یں سانوال بھی ن ہے۔کوئی اتنا گورا بھی ن ہ ہ

۔ن تو میں تو شرما گئی ے

" ا اور پھر آگ پیچھ دیکھن لگی ک ہآپ؟ " میں ن ک ے ے ے ہ ے ا؟ یں ر ہکوئی دیکھ تو ن ہ

وئی آئی اور یوں پاس س گزر گئی ک اس ہبس دندناتی ے ہ ہک اور کار ک درمیان بس انچ بھر کا فاصل ر گیا لیکن و ہ ہ ے ے ر ایک ر چیز س ب خبر تھا مرنا تو آخر ہبڈھا دنیا کی ۔ ے ے ہ ےکو لیکن و اس وقت کی ب کار اور فضول موت س ے ہ ہے ؟ وا تھا و ہبھی ب خبر تھا جان کن دنیاؤں میں کھویا ہ ے ۔ ے

اں س گزر و کسی نوکری ہدو تین گھاٹیراما لوگ و ے۔ ے ہ ے۔پگار ک بار میں جھگڑا کرت جا ر تھ ان کا شور جو ہے ے ے ے و گیا دائیں طرف ک مکان ےایسٹر کی گھنٹیوں میں گم ۔ ہ

ےکی بالکنی پر ایک دبلی سی عورت اپن بالوں میں کنگھی وئی آئی اور ایک بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں ہکرتی

وئی واپس اندر چلی گئی ۔س نکال کر نیچ پھینکتی ہ ے ے ےکسی ن خیال بھی ن کیا ک سڑک ک کنار میر اور ے ے ہ ہ ے ا شاید اس لئ ےاس بوڑھ ک درمیان کیا معامل چل ر ہے۔ ہ ہ ے ے

ا تا ر ہک لوگ اس میرا کوئی بڑا سمجھت تھ بوڑھا ک ہ ے۔۔ ے ے ہ مار وا بدن وا، کندنی رنگ، ی گٹھا ارا ی سنوالیا ے"تم ہ ہ ہ ہ ہ ہ ئ اور پھر یکا یک بوال ونا چا ر لڑکی کا ےملک میں ہ ہ ہ

وئی؟ یں اری شادی تو ن ہ"تم ہ ہ "

" " میں ن جواب دیا یں ۔ن ے ۔ ہ

" ے۔کرنا بھی تو کسی گبرو جوان س "

"جی"

ر تک ابل ابل کر آن لگا تھا آپ ۔اب خون میر چ ے ے ہ ے یں؟ ئ تھ یا ن ہسوچئ آنا چا ے ے ہ ے

Page 415: اردو ادب کے مشہور افسانے

تی اس ن ل ک میں اس بڈھ کو کچھ ک ےلیکن اس س پ ہ ے ہ ے ہ ے ۔ایک نئی بات شروع کر دی

یں؟" وئ اں چور آئ و، آج کل ی ہتم جانتی ے ہ ے ہ ہ "

" ا "کیس چور ۔چور؟" میں ن ک ے ہ ے "

" وش کر ک یں ب یںان ےجو بچوں کو چرا کر ل جات ہ ے ہ ہ ے ے یں ایک وقت میں چار چار پانچ ۔ایک گٹھڑی میں ڈال لیت ہ ے

۔پانچ "

ا بھی تو صرف اتنا وئی میں ن ک ہمجھ بڑی حیرانی ے ۔ ہ ے میرا اس بات س کیا تعلق ؟ ے"تو؟ میرا مطلب مجھ ے ہے "

ےاس بڈھ ن کمر س نیچ میری طرف دیکھا اور بوال ے ے ے یں پکڑ کر ن ل جائ یں پولیس تم ے۔"دیکھنا ک ے ہ ہ ہ "

رایا اور گاڑی وا میں ل اتھ ہاور اس ک بعد اس بڈھ ن ہ ہ ے ے ے ےاسٹارٹ کر ک چال گیا میں ب حد حیران کھڑی ۔ ے

ی جب ہتھیچورگٹھڑی، جس میں چار چار پانچ پانچ بچ ے ےمیں ن خود بھی اپن نیچ کی طرف دیکھا اور اس کی ے ے ہبات سمجھ گئی میں ایک دم جل اٹھیپاجی، کمین شرم ن ہ ۔

یں تو بیٹی کی عمر کی تو ؟ میں اس کی پوتی ن ہآئی اس ے ی اور ی مجھ س ایسی باتیں کر گیا، جو لوگ بدیس ےوں ہ ہ ہ

یں کرت اس حق کیا تھا ک ایک لڑکی کو ہمیں بھی ن ے ے۔ ہ ےسڑک ک کنار کھڑی کر ل اور ایسی باتیں کر ایک ے ے ے مت ہعزت والی لڑکی س ایسی باتیں کرن کی اس ے ے ے۔ وئی؟ آخر کیا تھا مجھ میں؟ ی سب اس ن مجھ ےکیس ہ ہ ے

ا؟ ب عزتی ک احساس س میری ی کیوں ک ےس ے ے ہ ہ ے میں کیا ایک اچھ گھر کی لڑکی ےآنکھوں میں آنسو امڈ آئ ے نا جو یں پ یں دیتی؟ میں ن لباس بھی ایسا ن ہدکھا ئی ن ہ ے ہ

و قمیص البت فٹ تھی، جیسی عام ہبازاری قسم کا ہ وتی اور نیچ شلوار کیوں ی ایسا کیوں ہلڑکیوں کی ۔ ے ہے ہ

ےوا؟ ایس کو تو پکڑ کر مارنا اور مار مار کر سور بنا دینا ہئ آخر کوئی ئ پولیس میں اس کی رپٹ کرنی چا ے۔چا ہ ے۔ ہ ؟ اس کی گاڑی کا نمبر؟ مگر جب تک گاڑی موڑ پر ہےتک و چکی تھی میں بھی کتنی مورکھ ۔نظروں س اوجھل ہ ے ، وتا ی یں لیا میر ساتھ ایسا ہےوں جو نمبر بھی ن ہ ہ ے ۔ ہ ہ

Page 416: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں کرتا، وتا وقت پر دماغ کبھی کام ن ی ہمیش ایسا ہے۔ ہ ہ ہ ہوتی میں ی س نفرت پیدا ہے۔بعد میں یاد آتا تو خود ہ ے ہ ہے ی ، ایسی حرکت و ہن سائیکالوجی کی کتاب میں پڑھا ہے ے یں اور یں جو دوسروں کی عزت بھی کرت ہلوگ کرت ے ہ ے ۔اپنی بھی اسی لئ مجھ وقت پر نمبر لینا بھی یاد ن آیا ہ ے ے ۔

و گئی سامن س پودار کالج ک کچھ ےمیں رونکھی سی ے ے ۔ ہ وں ن تو ایک وئ گزر گئ ان ، سیٹیاں بجات ےلڑک گات ہ ے۔ ے ہ ے ے ے

ہنظر بھی میری طرف ن دیکھامگر ی بڈھا؟ ہ !

ی تھی میرا ۔میں دراصل دادر اون ک گول خریدن جا ر ہ ے ے ے ت سردی تھی اں ب ہفرسٹ کزن بیگل سویڈن میں تھا، ج ہ تا تھا ک میں کوئی آٹھ پالئی کی اون کا سویٹر ہاور و چا ہ ہ ون ک ناط و میرا بھائی ہبن کر اس بھیج دوں کزن ے ے ے ہ ۔ ے وا اتھ کا بنا ار ہتھا، لیکن تھا بدمعاش اس ن لکھا "تم ہ ے ہ ے ۔ یں لگ گی!" میر گھر ےسویٹر بدن پر ر گا تو سردی ن ے ہ ہے ےمیں اور کوئی بھی تو ن تھا بی ا پاس کر چکی تھی اور ۔ ہ اں اگر یں ت تھ "آگ پڑھائی س کوئی فائد ن ہپاپا ک ۔ ہ ہ ے ے ے ے ہ

و تو ٹھیک لیکن اگر ہےکسی لڑکی کو پروفیشن میں جانا ہ ی اس کا پروفیشن تو ندوستانی لڑکی کی شادی ہےر ہ ہ ہی ؟" اس لئ میں گھر میں ہپھر آگ پڑھن س کیا فائد ے ہ ے ے ے تی اور آلتو فالتو کام کرتی تھی، جیس سویٹر بننا یا ےر ہ و جائیں اور سینما کا پرو ت رومانٹک ہبھیا اور بھابھی ب ہ ےگرام بنا لیں تو پیچھ ان کی بچی بندو کو سنبھالنا، اس

ہک گیل کپڑوں، پوتڑوں کو دھونا سکھانا وغیر لیکن ے ے ی ن سکی ل ۔بڈھ س اس مڈبھیڑ ک بعد میں جیس ہ ہ ہ ے ے ے ے یں ہمیر پاؤں میں جیس کسی ن سیس بھر دیا پت ن ہ ۔ ہ ے ے ے

و؟ اور بس میں گھر لوٹ آئی ہآگ چل کر کیا ے

ےاتنی جلدی گھر لوٹت دیکھ کر ماں حیران ر گئی اس ن ۔ ہ ے وں لیکن ہسمجھا ک میں اون ک گول خرید بھی الئی ے ے ہ

وئ اس ساری بات ک ہہمیں ن قریب قریب روت ے ے ہ ے ے ہسنائی اگر گول کر گئی تو و چار چار پانچ پانچ بچوں ۔ یں جو بیٹی ماں وتی ہوالی بات کچھ ایسی باتیں بھی ہ ۔

وا میں یں ک سکتی ماں کو بڑا غص آیا اور و ہس بھی ن ہ ہ ۔ ہہ ہ ے ےگالیاں دین لگی عورتوں کی گالیاں جن س مردوں کا ۔ ے یں یں اور بھی مشتعل کرتی یں بگڑتا اور جو ان ۔کچھ ن ہ ہ ہ

ا "اب تجھ کیا بتاؤں ےآخر ماں ن ٹھنڈی سانس لی اور ک ہ ے

Page 417: اردو ادب کے مشہور افسانے

" "لیکن یںکیا جوان کیا بڈھ وت ے۔بیٹا ی مرد سب ایس ہ ے ہ ے ہ ۔ یں ا "پاپا بھی تو ۔ماں" میں ن ک ہ ہ ے "

۔ماں بولی "اب میرا من ن کھلواؤ ہ ہ "

"کیا مطلب ؟"

" یں تھا اس دن؟ کیس راما لنگم کی بیٹی س ےدیکھا ن ے ہ نس کر باتیں کر ر تھ ے۔نس ہے ہ "ہ

و، ماں ک اس مرد کو گالیاں دین س ایک حد ےکچھ بھی ے ے ہ و گیا تھا مگر بڈھ کی باتیں ر ر کر ہتک میرا دل ٹھنڈا ہ ے ہ

ی ی تھیں اور میں سوچ ر ہمیر کانوں میں گونج ر ہ ے یں مل جائ تو میں اور اس ک بعد میں اپن ب ےتھیک ے ے ے ہ

نسن لگی ذرا دیر بعد میں اٹھ کر اندر آ گئی ۔بسی پر ۔ ے ہ ےسامن قدم آدم آئین تھا میں رک گئی اور اپن سراپ کو ے ۔ ہ ے

ےدیکھن لگی کولھوں س نیچ نظر گئی تو پھر مجھ ے ے ۔ ے اس کی چار چار پانچ پانچ بچوں والی بات یاد آ گئی اور

یں اں کوئی ن ون لگیں و ہمیر گالوں کی لویں تک گرم ہ ۔ ے ہ ے و سکتا بدن کا ی تھی؟ ہےتھا پھر میں کس س شرما ر ہ ہ ے ۔ یں کرتیں مردوں کو اچھا ی حص جس لڑکیاں پسند ن ہی ے ہ ہ و جیس لڑک سیدھ اور ستواں بدن کا مذاق ےلگتا ے ے ۔ ہ م عورتوں کو اچھا لگتا ی یں جانت و یں اور ن ہے۔اڑات ہ ہ ے ہ ہ ے ئ ونا چا یں ک مرد کو سوکھا سڑا ے۔اس کا ی مطلب ن ہ ہ ہ ہ ہ وا مطلبچوڑ و تو اوپر س پھیال یں ان کا بدن ےن ۔ ہ ے ہ ہ

، چکلی چھاتی اور مضبوط بازو البت نیچ س ےکاندھ ے ہ ۔ ے ئ ونا چا ی ے۔سیدھا اور ستواں ہ ہ ہ

اں میں ، ج ہاتن میں پاپا بیچ وال کمر میں چل آئ ے ے ے ے ے ےکھڑی تھی میر خیالوں کا و تار ٹوٹ گیا پاپا آج بڑ ۔ ہ ے ۔

ن کر دفتر ، کوٹ جو و پ ہتھک تھک س نظر آئ تھ ہ ے ے ے ے ے وا تھا ٹوپی کچھ پیچھ سرک ، کاندھ پر پڑا ےگئ تھ ۔ ہ ے ے ے ا، "بیٹا" اور پھر ی ک وں ن اندر آ کر ایس ہگئی تھی ان ہ ے ے ہ ۔ ۔ٹوپی اٹھا کر اپن گنج سر کو کھجایا ٹوپی پھر سر پر ے ے

وں اں ان ، ج ہرکھن ک بعد و باتھ روم کی طرف چل گئ ہ ے ے ہ ے ے وں ل ان ہن قمیص اتاری ان کا بنیان پسین س تر تھا پ ے ہ ۔ ے ے ۔ ے ، پھر اوپر طاق س یوڈی ےن من پر پانی ک چھینٹ مار ے ے ے ہ ے

ہکلون نکال کر بغلوں میں لگائی ایک نیپکن س من ے ۔ و کر خود کو وئ لوٹ آئ اور جیس ب فکر ہپونچھت ے ے ے ے ہ ے

Page 418: اردو ادب کے مشہور افسانے

؟" ےصوف میں گرا دیا ماں ن پوچھا "سکنجبین لو گ ے ۔ ے و گئی؟ سکی ختم ا، "کیوں؟ و وں ن ک ہجواب میں ان ہ ہ ے ہ

ی تو الیا تھا، میکن کی بوتل ۔ابھی پرسوں ہ "

جب میں بوتل اور گالس الئی تو ماں اور پاپا آپس میںو گئ ی و خاموش ے۔کچھ بات کر ر تھ میر آت ہ ہ ہ ے ے ے۔ ہے

ےمیں ڈر گئی مجھ یوں لگا جیس و اس بڈھ کی باتیں ہ ے ے ۔ یںو چچا گووند ک بار میں ک ر تھ یں لیکن ن ے۔کر ر ہے ہہ ے ے ہ ہ ہ ہے

وا چچا اندر س کچھ اور ی انداز ےآخری بات س مجھ ی ہ ہ ے ے ر س کچھ اور ۔یں، با ے ہ ہ

و گئی بیچ میں ب موسم واجس میں رات ےپھر کھانا وانا ۔ ہ ہ ےکی برسات کا کوئی چھینٹا پڑ گیا تھا اور گھر ک سامن ے

، ، خاکی خاکی، لمبوتر پت وئ اشوک پیڑ ک پت ےلگ ے ے ے ے ہ ے و گئ تھ سڑک پر کمیٹی کی ر اور چمکیل ے۔زیاد ے ہ ے ے ہ ہ

ہبتی س نکلن والی روشنی ان پر پڑتی تھی تو و چمک ے ے ی تھی ایسا یں چل ر وا مسلسل ن ۔چمک جات تھ ہ ہ ہ ے۔ ے

ی اور وتا تھا ک و ایک ایک جھونکا کر ک آ ر ہےمعلوم ہ ے ہ ہ ہ ےجب اشوک ک پتوں س جھونکا آ کر ٹکراتا اور شاں ے

وتی تو یوں لگتا جیس ستار کا جھاال ےشاں کی آواز پیدا ہ مار نانکو ن بستر لگا دیا تھا میری عادت تھی ک ہ ۔ ے ے ہ ہے۔

ادھر بستر پر لیٹی، ادھر سو گئی، لیکن اس دن نیند تھیی تھی شاید اس لئ ک سڑک پر لگ بلب یں ر ی ن ےک آ ہ ے ۔ ہ ہ ہ ہ

ان پر پڑ تی تھی اور جب ےکی روشنی ٹھیک میر سر ہ ے ےمیں دائیں کروٹ لیتی تو میری آنکھوں میں چبھن لگتی ےتھی میں ن آنکھیں موند کر دیکھا تو بجلی کا بلب ایک ۔ ر کرنیں ال س با ہچھوٹا سا چاند بن گیا جس میں ے ے ہ ۔

ی تھیں میں ن اٹھ کر بیڈ کو تھوڑا سا سرکا لیا ےپھوٹ ر ۔ ہ یں تھیں فرق صرف اتنا ہلیکن اس ک باوجود و کرنیں و ہ ے ی تھیں آپ ۔تھا ک اب و خود میر اپن اندر س پھوٹ ر ہ ے ے ے ہ ہ

و جاتی اور شبد جیوتی و یں جیوتی شبد ہتو جانت ۔ ہے ہ ہ ے ےکرنیں بھی آواز میں بدل گئیںاسی بڈھ کی آواز میں !

ا اور اسی کروٹ لیٹ لیٹ من میں" ےدھت!" میں ن ک ے ہ ے ، ی کرنیں چھوٹ چھوٹ ےگایتری کا پاٹ کرن لگی لیکن و ے ہ ے

ےگول گول، گدرائ گدرائ بچوں کی شکل میں بدلن ے ے ا تھا، ر نظر آ ر ہلگیں ان ک پیچھ ایک گبرو جوان کا چ ہ ہ ے ے ۔ "اس ۔لیکن دھندال دھندال سا و شاید ان بچوں کا باپ تھا ہ ۔

Page 419: اردو ادب کے مشہور افسانے

یں توپھر ہکی شکل اس بڈھ کی شکل س ملتی تھین ے ے ا تھا نس ر ون لگی و ۔اس نوجوان کی شکل صاف ہ ہ ہ ۔ ے ہ

ےاس کی بتیسی کتنی سفید اور پکی تھی اس ن فوج کی ۔ یںپولیس انسپکٹر کی ن رکھی تھی ن ہلیفٹیننٹ کی وردی پ ۔ ہ یںسوٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں و ب حد خوبصورت ےن ہ ہ

ا تھا اپنی نیند واپس الن ک لئ میں ن ٹیچر و ر ےمعلوم ے ے ے ۔ ہ ہ وا نسخ استعمال کرنا شروع کیا میں فرضی ۔کا بتایا ہ ہ ۔بھیڑیں گنن لگی مگر ب کار تھا، سب کچھ ب کار تھا ے ے ۔ ے ےپر ماتما جان اس بڈھ ن کیا جادو جگایا تھا، یا میری ے ے

ی تھی، ی قسمت پھوٹ گئی تھی اچھی بھلی جا ر ہاپنی ۔ ہ ہبیگل ک لئ اون ک گول خریدن بیگل! دھتو میرا ے۔ ے ے ے ے

وئ ےبھائی تھا پھر گول ک اون ک موٹ موٹ بن ہ ے ے ے ے ے ے ۔ وت گئ اور مکڑی ک جال کی طرح میر ےدھاگ پتل ے ے ے ہ ے ے و گیا اب ۔دماغ میں الجھ گئ پھر جیس سب صاف ہ ے ے۔ ےسامن ایک چٹیل میدان تھا، جس میں کوئی ولی اوتار

وئ تھا، تندرست، ن ا تھا و بش شرٹ پ ےبھیڑیں چرا ر ہ ے ہ ہ ۔ ہ ےمضبوط اور خوبصورت الابالی پن میں اس ن شرٹ ک ے ۔ ےبٹن کھول رکھ تھ اور چھاتی ک بال صاف اور سامن ے ے ے ، جن میں سر رکھ کر اپن دکھڑ رون ےنظر آ ر تھ ے ے ے ہے

ا تھا؟ اب مجھ یاد ےمیں مز آتا و بھیڑیں کیوں چرا ر ہ ہ ہے۔ ہ تر تھیںمیں سو گئی ہ و بھیڑیں گنتی میں ت ہ ہے

و گیا ن صرف ی ک میں بار بار خود کو آئین ےمجھ کچھ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ےمیں دیکھن لگی بلک ڈرن بھی لگی بچ بری طرح میر ۔ ے ہ ے وئ تھ اور میں پکڑ جان ک خوف میں ے پیچھ پڑ ے ے ے ے ہ ے ے ےی ی تھی گھر میں میر رشت کی باتیں چل ر ہکانپ ر ے ے ۔ ہ ےتھیں روز کوئی ن کوئی دیکھن کو چال آتا تھا، لیکن مجھ ے ہ ۔ ۔ان میں س کوئی بھی پسند ن تھا کوئی مرا مرگھال تھا ہ ے ےاور کوئی تندرست تھا بھی تو اس ن کنویکس شیشوں

ےوالی عینک لگا رکھی تھی اس صاحب ن کیمسٹری میں ۔ ئ کیمسٹری ان میں یں چا و گی ن ۔ڈاکٹریٹ کی کی ے ہ ہ ۔ ہ ہے۔ و ہس کوئی بھی ایسا ن تھا جو میری نظر میں جچ سک ے ہ ے

و چکی ہنظر جو اب میری ن تھی، بلک اس بڈھ کی نظر ے ہ ہ ےتھی میں ن دیکھا ک اب سینما تماش کو بھی جان کو ے ہ ے ۔ ر میں کئی نئی اور تا تھا، حاالں ک ش یں چا ہمیرا دل ن ہ ہ ہ یرو لوگ ان میں کام ی ہاچھی پکچریں لگی تھیں اور و ہ

Page 420: اردو ادب کے مشہور افسانے

یت تھ لیکن اب و یکایک ہکرت تھ جو کل تک میر چ ے ے ہ ے ے ے ی پیڑ ک ےمجھ سسی دکھائی دین لگ و ویس ہ ے ہ ے۔ ے ے

ےپیچھ س گھوم کر لڑکی ک پاس آت تھ اور عجیب ے ے ے ے وئ اس لبھان کی کوشش ےطرح کی زنان حرکتیں کرت ے ے ہ ے ہ

یں؟ عورت ک وت اں ےکرت تھ بھال مرد ایس ک ہ ے ہ ہ ے ے۔ ے یں دیت ک ی ن شت! و تو اس موقع وئ ہپیچھ بھاگت ے ہ ہ ے ہ ےہ ہ ے ے یں جانت ک ی ن ، تڑپ حد نا، مرد ہو ان ک لئ روئ ے ہ ہ ہے ے۔ ے ے ے ہ

؟ ان میں س ایک بھی تو میری کسوٹی پر پورا ےمرد کیا ہے یں اتر تا تھاجو میری کسوٹی بھی ن تھی ۔ن ہ ہ

ی دنوں میں ن اپن آپ کو پریج ک میدان میں پایا ےان ے ے ہ ا تھا پاکستان و ر اکی میچ ند اور پاکستان ک بیچ اں ۔ج ہ ہ ہ ے ہ ہ

ےک گیار کھالڑیوں میں س کم از کم چار پانچ ایس تھ ے ے ہ ے ند کی ٹیم میں بھی ہجو نظروں کو لوٹ لیت تھ ادھر ے۔ ے چار زاد موجود تھ ی تعداد میں خوابوں ک ش ےاتنی ے ہ ے ہ ی کیوں؟ ہپانچ، جن میں س دو سکھ تھ چار پانچ ے۔ ے نسی آئیپاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقیکیا ہمجھ ے

اکی کیا تھی؟ چمبک پتھر تھی، جس ہکھالڑی تھا! اس کی تی تھی یوں پاس دیتا تھا ی ر ۔ک ساتھ گیند چمٹی ہ ہ ے

یں چلتا تو یوں جیس مینز لینڈ ی ن ےجیس کوئی بات ۔ ہ ہ ے نچ کر ایسا ندوستانی سائیڈ ک گول پر پ ا ہمیں جا ر ے ہ ہے۔ ہ

ےنشان بٹھاتا ک گولی کی سب محنتیں ب کار اور گیند ہ ہ ، بمبئی ک ےپوسٹ ک پار! گول!تماشائی شور مچات ے ے

یں اتری بھارت ی ن ، بغلیں بجات ی ہمسلمان نعر لگات ہ ے۔ ے ے و جات ندوستانی بھی ان ک ساتھ شامل ے۔ک ہ ے ہ ے

ہندوستانی ٹیم کا شنگارا سنگھ تھاکیا کارنر لیتا تھا! جبوا اب دونوں ۔اس ن گول کیا تو اس س بھی زیاد شور ہ ہ ے ے

ےطرف ک کھالڑی فاؤل کھیلن لگ و آزادان ایک دوسر ہ ہ ے۔ ے ے ا لیکن میچ چلتا ر ۔ک ٹخن گھٹن توڑن لگ ہ ے ے ے ے ے

ندوستانی پر بھاری تھی ان میں س کسی ےپاکستانی ٹیم ۔ ہ ر و چیز ہک ساتھ لو لگانا میر لئ ٹھیک بھی ن تھا لیکن ہ ہ ے ے ے ندو و ہانسان کو بھڑکاتی جس کرن س منع کیا گیا ۔ ہ ے ے ے ہے ہےلڑکی کسی مسلمان س شادی کر لیتی یا مسلمان ے

! ہےلڑکی سکھ ک ساتھ بھاگ جاتی تو کیسا شور مچتا ہے ے یں پوچھتا اس لڑکی س ک اس کیا تکلیف تھی ۔کوئی ن ے ہ ے ہ

Page 421: اردو ادب کے مشہور افسانے

ندو، کیا مسلمان اور کیا ی بعد میں ک ہچا و لڑکی خود ہے ہ ہ ہے یں ی س کمین ۔کیا سکھ سب ایک ہ ے ے ہ

ہندوستانی ٹیم میں ایک کھالڑی اسٹینڈ بائی تھا جو سبےس زیاد خوبصورت اور گبرو جوان تھا اس کھال کیوں ۔ ہ ے

؟ کھیل ک بعد جب میں آٹو گراف لین ک یں ر تھ ےن ے ے ے ہے ہ ےلئ کھالڑیوں ک پا س گئی تو میں ن اپنی کاپی اس ے ے وا و ت حیران ہاسٹینڈ بائی ک سامن بھی کر دی و ب ۔ ہ ہ ہ ۔ ے ے

ا "تم کھیلو گ ایک ی ن تھا میں ن اس س ک ے۔تو کھیال ہ ے ے ۔ ہ ہ ے۔دن کھیلو گ کوئی بیمار پڑ جائ گا، مرتم کھیلو گ ے ے۔

، ٹیم ک کیپٹن بنو گ ےسب کو مات دو گ ے ے !"

ر آگیا نم ی پگھل کر با ۔اسٹینڈ بائی کا تو جیس دل ہ ہ ے ےآنکھوں س اس ن میری طرف دیکھا جیس میں جو ے ے ام تھا بھی، ! اور شاید و ال ام وں و ال ی ہکچھ ک ر ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہہ

ی تھی میر ی ک ر ےکیوں ک و سب کچھ میں تھوڑا ۔ ہ ہہ ہ ہ ہ ن کو ےاندر کی کوئی چیز تھی جو مجھ و سب کچھ ک ہ ہ ے ی تھی پھر میں ن اس چائ کی دعوت ےمجبور کر ر ے ے ۔ ہ ےدی، جو اس ن قبول کر لی اور میں اس ساتھ ل کر ے ے ی تھی تو نچ گئی جب میں اس ک ساتھ چل ر ہالرڈ پ ے ۔ ہ

ٹ تھی جو میر پور بدن میں دوڑ دوڑ جاتی ےایک سنسنا ے ہ ےتھی کیس ڈر خوشی بن جاتا اور خوشی ڈر میں ن ۔ ہے ے ۔ ت پتلی تھی ن رکھی تھی، ب ۔چندیری کی جو ساڑھی پ ہ ہ ی شرم میں ایک مز ی تھی اور شرم ہمجھ شرم آ ر ہ ہ ے

ےبھی کبھی کبھی مجھ یاد آتا تھا اور پھر بھول بھی جاتی ۔ یں اس وقت دنیا میں کوئی ۔تھی ک لوگ مجھ دیکھ ر ہ ہے ے ہ یں تھا، میر اور اس اسٹینڈ بائی ک سوا جس کا نام ےن ے ہ

ےج کشن تھا لیکن اس سب پر نٹو ک نام س پکارت ے ے ے ے نچ گئ اور ایک سیٹ پر بیٹھ گئ م دونوں الرڈ پ ے۔تھ ے ہ ہ ے۔

و گئ تھ م دونوں شرابی ے۔ایک دوسر کی قربت س ے ہ ہ ے ے ٹ گئ اور پھر ساتھ ےم ساتھ لگ ک بیٹھ تھ ک الگ ہ ہ ے ے ے ہ

ی ہلگ کر بیٹھ گئ بدنوں میں س ایک بو لپک ر ے ے۔ وئی روٹی ہتھیسوندھی سوندھی، جیس تنور میں پڑی ے م دونوں ک درمیان تی تھی ک ےس اٹھتی میں چا ہ ہ ہ ہے۔ ے

وتی و جائ پیار، جیس پیار کوئی آ ال کارت ڈش ہکچھ ے ے۔ ہ وئ میں ن دیکھا ک و چور ہ چائ آئی جس پیت ہ ے ے ہ ے ے ے ہے۔میر بدن ک اسی حص ا ےنظروں س مجھ دیکھ ر ے ے ہے ہ ے ے

Page 422: اردو ادب کے مشہور افسانے

اں اس بڈھ کی نظریں ٹکی تھیں و بڈھا تھا؟ ماں ہکو ج ۔ ے ہ یں، کیا جوان کیا وت ی ا تھامرد سب ایک س ہن ک ے ہ ہ ے ہ ے

؟ ےبڈھ

ماری بات آگ بڑھ جاتی، لیکن پرنٹو ن سارا ےو سکتا تھا ے ہ ہاتھ میں لیا اتھ اپن ل اس ن میرا ہقلع ڈھیر کر دیا پ ے ہ ے ے ہ ۔ ہ ےاور اس دبا دیا اس حرکت کو میں ن پیار کی اٹھکیلی ۔ ے ہسمجھا لیکن اس ک بعد و سب کی نظریں بچا کر بچا ے

اں اتھ میر شریر ک اس حص پر دوڑان لگا، ج ہکر اپنا ے ے ے ے ہ و ن لگتی میر تن بدن میں آگ ےعورت مرد س جدا ہے۔ ے ہ ے

ےسی لپک آئی میری آنکھوں س چنگاریاں پھوٹن ے ۔ ون لگا میں ر الل ۔لگیںنفرت کی، محبت کی میرا چ ے ہ ہ ہ ۔

اتھ جھٹکا تو اس ن ےباتیں بھولن لگی میں ن اس کا ہ ے ۔ ے و کر رات کو بیک ب میں چلن کی دعوت دی، ےمایوس ے ہ وئ میں ن ایک طرح انکار کر دیا و ~ مانت ہجس فورا ۔ ے ے ہ ے ے ، عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھر پ ہمجھ ے ے یں اس کی تو گالی بھی ب حیا ےتو آتی مگر سیدھ ن ۔ ہ ے ہے وتی اس کا سب کچھ گول یں ۔مرد کی طرح سیدھی ن ہ ہ

، وتا روشنی س و گھبراتی ہےمول، ٹیڑھا میڑھا ہ ے ہے۔ ہ تا ن ڈر، ہاندھیر س اس ڈر لگتا آخر اندھیرا ر ہے ہ ہے۔ ے ے ے ، ان روشنیوں س پر ےکیوں ک و ان آنکھوں س پر ے ے ے ہ ہ

وتی جو سانسوں کی دنیا، یوگ کی ہےایک ایسی دنیا میں ہ ی ، جس آنکھوں ک بیچ کی تیسری آنکھ وتی ہدنیا ے ے ہے ہ

ر نکل تو میر اور پرنٹو ےگھور سکتی گ الرڈ س با ے ہ ے ے ہے۔ ہک درمیان سوا تندرستی ک اور کوئی بات مشترک ن ے ے

ون س و بھی کھسیا چکا تھا ی تھی میر کھسیائ ۔ر ہ ے ے ہ ے ے ۔ ہ وئی ایک ٹیکسی کو روکا پرنٹون ےمیں ن سڑک پر جاتی ۔ ہ ے

ہبڑھ کر میر لئ درواز کھوال اور میں لپک کر اندر بیٹھ ے ے ۔گئی

" " پرنٹو ن مجھ یاد دالیا ۔بیک ب ے ے ے۔

"اور پھر" ےمیں ن طوط کی طرح رٹ دیا "بیک ب ے ے م وئ بولی "ما ۔ٹیکسی ڈرائیور کی طرف من موڑت ہ ے ہ ے ہ "

" یں؟" و بوال ۔بیک ب ن ہ ہ ے

"" م یں" میں ن کرخت سی آواز میں جواب دیا "ما ۔ن ہ ے ہ ""آپ تو ابھی

Page 423: اردو ادب کے مشہور افسانے

" وں تی اں میں ک ۔چلو، ج ہ ہ ہ "

اتھ پھیالیا جو اتنا ہٹیکسی چلی تو پرنٹو ن میری طرف ے م، ، پریل، دادر، ما و گیا ک محمد علی روڈ، بائیکل ہلمبا ہ ہ ہ ا اور مجھ ےسیتال دیوی، ٹیمپل روڈ تک میرا پیچھا کرتا ر ہ

نچ گئی ا آخر میں گھر پ ۔گدگداتا ر ہ ۔ ہ

ےاندر یادو بھیا ایک جھٹک ک ساتھ بھابھی ک پاس س ے ے ے میں سمجھ گئی، کیوں ک ماں کا کڑا حکم تھا ک ہاٹھ ہ ے

ہمیر سامن و اکٹھ ن بیٹھا کریں"گھر میں جوان لڑکی ے ہ ے ے ے" میں ن لپک کر بندو کو جھول میں س اٹھایا اور اس ے ے ہے۔۔س کھیلن لگی بندو مجھ دیکھ کر مسکرائی ایک پل ے ۔ ے ے ۔ک لئ تو میں گھبرا گئیجیس اس سب کچھ معلوم تھا ے ے ے ے ، صرف و وتا یں ک بچوں کو سب پت ت ہکچھ لوگ ک ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ

یں ت ن ۔ک ہ ے ہ

ےگھر میں گووند چاچا بھی تھ جو پاپا ک ساتھ اسٹڈی ے میش کی طرح س ماں کی ناک میں ےمیں بیٹھ تھ اور ہ ہ ے ے وئ تھ عجیب تھا دیور بھابھی کا رشت جب ہ۔دم کئ ے۔ ے ہ ے ، اتھوں لیت تھ لڑن ےملت تھ ایک دوسر کو آڑ ے۔ ے ہ ے ے ے ے

وتی پاپا ان ی ن ، گالی گلوچ ک سوا کوئی بات ۔جھگڑن ہ ہ ہ ے ے ہکی لڑائی میں کبھی دخل ن دیت تھ و جانت تھ نا ک ے ے ہ ے۔ ے ہ

و تو کوئی بول بک بھی، لیکن روز روز ےایک روز کی بات ے ہ ےکا ی جھگڑا کون نمٹائ گا؟ اور ویس بھی سب کچھ ے ہ

ی تو تھا کیوں ک اس ساری ل د ک باوجود ماں ےٹھیک ے ے ہ ۔ ہ ی کو یاد کرتی اور میش گووند وتی تو ہذرا بھی بیمار ہ ہ ہ

، جن س اس کا "پائ الگن" اور ےبھی تو دیور تھ ماں ک ے ے ے و" "ک سوا کوئی رشت ن تھا و ماں کو تحفوں ہ"جیت ر ۔ ہ ہ ے ہ ے یں پڑتا تھا ، لیکن کوئی فرق ن ۔کی رشوت بھی دیت تھ ہ ے ے ت ی ر ےدینا تو ایک طرف گووند چچا تو ماں کو الٹا ٹھگت ہ ہ ے ہتھ لیکن اس پر بھی و اس سب س زیاد سمجھتی ے ے ہ ے ےتھی اور و ل کر الٹا ماں کوی احساس دالت تھ جیس ے ے ہ ے ہ

یں کئی بار ماں ن ےاس کی سو پشتوں پر احسان کر ر ۔ ہ ہے یں" ا "گووند اس لئ اچھا ک اس ک دل میں کچھ ن ہک ے ہ ہے ے ہ یں" اور ت تھ "دماغ میں بھی کچھ ن ی ک میش ی ہاور پاپا ے ے ہ ہ ہ ہ

و جاتی اور جب و ہماں اس بات پر لڑن مرن پر تیار ہ ے ے ۔گووند چاچا س اپنی دیورانی ک بار میں پوچھتی "تم ے ے ے

Page 424: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ملتا "کیا کروں ال ؟"تو جواب ی یں الئ ہاجتیا کو کیوں ن ے ہ ؟ جلی کٹی سنوانا ہےکر؟ تم س اس کی چوٹی کھنچوانا ے ہے؟ ماں جواب میں گالیاں دیتی، گالیاں کھاتی اور چاچاےک چل جان ک بعد دھاڑیں مار مار کر روتی اور پھر ے ے ے ی اں گووند؟ اس بالؤ میرا تو اس گھر میں و ی ک ہو ۔ ے ہے ہ ہ

یش، گوبر یں بھول م و؟ و تو ہ اپن پاپا کا کیا پوچھتی ے ہ ہ ہ ے ہے۔" اور ی میں ن ےگنیش ان ک تو کوئی بھی کپڑ اتروا ل ہ ے ے ے ۔ ت ب ت سیدھا، ب ر بیوی اپن میاں کو ب ، ےر جگ دیکھا ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ

تا شاید اسی میں اس ہے۔وقوف سمجھتی اور و چپ ر ہ ہ ہے ہے۔کا فائد ہ

ےاس دن گووند چاچا ڈائریکٹر جنرل شپنگ ک دفتر میں ےکام کرن وال کسی مسٹر سولنکی کی بات کر ر تھ ہے ے ے

۔اور اصرار کر ر تھ "میری بات آپ کو ماننا پڑ گی ے ے ہے "

ی تھی "اس میں بھی" " ماں ک ر و نا ہتم بخس میں ہہ ۔ ہ " اس پر گووند چچا جل بھن ارا و گا تم ۔کوئی سوارتھ ہ ہ

و؟ کامنی ا "تم کیا سمجھتی وئ ک وں ن چالت ہگئ ان ہ ے ہ ے ے ہ ے۔ " اب مجھ پت چال ک یں ، میری ن ی بیٹی اری ہتم ہ ے ہے۔ ہ ہے ہ ہ

ےمسٹر سولنکی ک لڑک ک ساتھ میر رشت کی بات ے ے ے ے ی اور اس ک بعد کسی کنڈم اسپنڈل کی طرح ےچل ر ہے ہ ، جن کا مجھ آج تک پت ن تھا ۔اور بھی دھاگ کھلن لگ ہ ہ ے ے ے ے

ےگووند چچا ک من میں جھاگ تھی اور و بک ر تھ "توتو ہے ہ ہ ے ےن اجیتا ک ساتھ میری شادی کر دی میں ن آج تک ۔ ے ے

، دور تی تھی، میر مائک کی ہےکبھی چوں چراں کی؟ک ے ے ہ ی بڑی بڑی آنکھیں ۔ک رشت س میر ماما کی لڑکی ہ ہے ے ے ے ے اں رکھوں؟ زندگی اں رکھوں؟ بولوک ہاب ان آنکھوں کو ک ہ

ی آنکھیں اب و مجھ یں؟ و ےکیا آنکھوں س بتات ہ ہ ہ ے ے ہے۔دکھاتی اور تو اور تجھ بھی دکھاتی ے ہے "

لی بار میں ن گووند چاچا کا بریک ڈاؤن دیکھا میں ۔پ ے ہ یں اور اجیتا چاچی س پیار ےسمجھتی تھی و آدرش آدمی ہ ہ

وتا یں اں بچ کیوں ن یں آج ی راز کھال ک ان ک ۔کرت ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہے۔فیملی پالننگ تو ایک نا م

تی یں چا اری بیٹی اسی لئ تو ن ا "کامنی تم ہماں ن ک ہ ے ہے ہ ہ ے " میرا خیال تھا ک ہک اس بھی کسی گڑھ میں پھینک دو ۔ ے ے ہ و گی اور گووند چاچا بائیں ہاس پر اور تو تو میں میں

Page 425: اردو ادب کے مشہور افسانے

، لیکن و ہبازو کی پارٹی کی طرح واک آؤٹ کر جائیں گ ے اری سوگند بھابی اس س ےالٹا قسمیں کھان لگ "تم ۔ ہ ے ے

یں ن مل گا و بڑود کی سنٹرل ریلو کی ےاچھا لڑکا تم ہ ہ ۔ ے ہ ہ ہے۔ورک شاپ میں فورمین بڑی اچھی تنخوا پاتا ہ ہے۔ "

و ن ی تھی ی تھی اور اندر جھال ر ہمیں سب کچھ سن ر ہ ہ ہ ، عقل ، تنخوا اچھی لیکن شکل کیسی ہےلڑکا اچھا ہے ہ ہے تا ؟ اس ک بار میں کوئی کچھ ک ، عمر کیا ہکیسی ے ے ہے ہے مارا یں ی یں فورمین بنت بنت برسوں لگ جات ہی ن ہ ۔ ہ ے ے ے ۔ ہ ہاں کی ن آئ تو ی ہدیس پچاس سال کا مرد بھی بیا ے ے ہ ہے۔

یں اس کی صحت کیسی ت ی ک ۔بولی میں اس لڑکا ہ ے ہ ہ ے وتا؟ اسی دم مجھ یں معلوم یں انٹیلیکچول تو ن ے؟ ک ہ ہ ہ ہے

ہپرنٹو کا خیال آیا جو اس وقت بیک ب پ میرا انتظار کر ے ی ر گا و گااسٹینڈ بائی! جو زندگی بھر اسٹینڈ بائی ا ۔ر ہے ہ ہ ہ یں اس میں صبر ی ن ۔کبھی ن کھیل گا اس کھیلنا آتا ہ ہ ے ۔ ے ہ ا یں پھر مجھ اس غریب پر ترس آن لگا جی چا ہی ن ۔ ے ے ۔ ہ ہےبھاگ کر اس ک پاس چلی جاؤں اس تو میں ن دیکھا ے ۔ ے

اور پسند بھی کیا تھا، لیکن اس فورمین کو جو بیکا تھاپھر جیس من ک اندھیر یں مسکرا ر ےگراؤنڈ میں ک ے ے ہ ہ

الئی یںمس گپتا س مسز سولنکی ک ہمیں مچھر بھنبھنات ے ہ ے !تو کیسی لگوں گیبکواس

، من کا اجال ہےگووند چاچا ک ر تھ "لڑکا تن کا اجال ہے ے ہے ہہ ، اس کا اس بات س پت چلتا ہےاس کی آتما کتنی اچھی ہ ے ہے یں، ہک و بچوں س پیار کرتا بچ اس پر جان دیت ے ے ہے۔ ے ہ ہ ت ا کرت ر ا و، و ی، ی یں، ےاس ک اردگرد منڈالت ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

ےیں اور و بھی ان ک ساتھ غی غی، غو غو، غاں غاں" ہ ہہبسمیں اندر ک کسی سفر س اتنا تھک چکی تھی ک ے ے

۔رات کو مجھ بھیڑیں گنن کی بھی ضرورت ن پڑی ایک ہ ے ے ےسپاٹ، ب رنگ، ب خواب سی نیند آئیایسی نیند جو لمب ے ے

ہے۔رت جگوں ک بعد آتی ے

! ی مار گھر پر موجود تھا ار ی دن بعد و لڑکا ہدو ے ۔ ے ہ ہ ہ اکی ٹیم ک سب ! و ےسب انداز کتن غلط نکل ہ ہ ے ے ے

ہلڑکوںکیا کھیلن وال اور کیا اسٹینڈ بائیسب س زیاد ے ے ے یں کی ی ن ہگبرو، زیاد جوان تھا اس ن صرف کسرت ہ ے ۔ ہ

ر اندر کی گرمی س ےتھی، آرام بھی کیا تھا اس کا چ ہ ہ ۔ ، ان وا تھا رنگ کندنی تھامیری طرح مضبوط د ہتمتمایا ہ ۔ ۔ ہ

Page 426: اردو ادب کے مشہور افسانے

وں، ہمضبوط دانتوں کی باڑھجیس ب شمار گن چوس ے ے ے ے وں، شاید کچ شلغم بھی و ایک ہگاجر، مولیاں کھائی ۔ ے ہ ٹ کو وا تھا اور دوسری طرف اپنی گھبرا ہطرف گھبرایا ہ

ی اس ن مجھ ا تھا آت ادری کی اوٹ میں چھپا ر ےب ے ہ ے ۔ ہ ہ ۔نمست کی، میں ن بھی جواب میں نمست کر ڈالی پھر ے ے ے ہاس ن ماں کو پرنام کیا جب و میری طرف ن دیکھتا تھا ہ ۔ ے وا ک کسی کو پت ن ہتو میں اس دیکھ لیتی تھی ی اچھا ہ ہ ہ ہ ۔ ے یں اور دل دھڑام س ےچال ک میری ٹانگیں کپکپان لگی ہ ے ہ

یں نیچ گر گیا آج کل کی لڑکی ی ک ہے۔شریر ک اندر ے ہ ہ ے یں دینا تھا، اس سٹیریا کا ثبوت ن ہون ک ناط مجھ ہ ے ے ے ے ہ

ی بیچ میں مجھ خیال آیا ک ب کار کی بغاوت ےلئ ڈٹی ر ہ ے ۔ ہ ے یں بنائ تھ ے۔کی وج س میں ن تو اپن بال بھی ن ے ہ ے ے ے ہ

ی ہاس ک ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی و بچھی جا ر ہ ۔ ے یں ل مائیں بچھتی ۔تھی، جیس بیٹوں کی شادی س پ ہ ے ہ ے ے یں، اس کی ماں مر ہمجھ تو یوں لگا جیس و لڑکا ن ہ ے ے

ی ہمٹی اور جان مجھ میں اپن مستقبل کا کیا دیکھ ر ے ے ہے ت خراب تھی اور و اپنی کبھی ہ؟ اس کی اپنی صحت ب ہ ہے

ےکی خوبصورتی اور تندرستی کی باتیں کر ک اپن بیٹ ے ے وتا تھا ک ی تھی یوں معلوم ہک لئ مجھ مانگ ر ہ ۔ ہ ے ے ے

ی یںو بھکارن ک ر ہجیس اس اپنی "ماں" پر بھروس ن ہہ ہ ہ ہ ے ے ؟ لڑک ےتھی لڑکوں کی خوبصورتی کس ن دیکھی ہے ے ۔

وں، کماؤ یںبس اچھ گھر ک وت ہسب خوبصورت ے ے ہ ے ہ ا تھا جیس و ہوںاور و اپنی ماں کی طرف یوں دیکھ ر ے ہ ہ ہی میری ماں ت بڑا ظلم کر ر ہے۔اس ک ساتھ کوئی ب ہ ہ ے

وا میر پاس آ کر بیٹھ گیا اور ن پر و کچھ شرماتا ےک ک ہ ہ ے ہ ے ۔"باتیں کرو" ک حکم پر مجھ س باتیں کرن لگا ے ے ے

وا ی پھر جب بولی تو صرف ی ثابت ل تو میں چپ ر ہپ ہ ۔ ہ ے ہ وں سفید قمیص، سفید پتلون اور یں ۔ک میں گونگی ن ہ ہ ہ ا تھا و ر ن و کرکٹ کا کھالڑی معلوم ی بوٹ پ ۔سفید ہ ہ ہ ے ہ ہ

یں بولر بولر، جو تھوڑا و گا ن یں تو بیٹس مین ہو کیپٹن ن ۔ ہ ہ ہ ٹ کر آگ آتا اور بڑ زور ک سپن س گیند کو ےپیچھ ے ے ہے ے ہ ے اں بیٹس مین اچھا ہپھینکتا اور وکٹ صاف اڑ جاتی ہے۔ ہے

ےو تو چوکسی ک ساتھ گیند کو باؤنڈری س بھی پر ے ے ہی آؤٹ یں تو خود ، ن ہپھینک دیتا ہ ہے !

Page 427: اردو ادب کے مشہور افسانے

ےماں ک اشار پر میں ن اس س پوچھا"آپ چائ پئیں ے ے ے ے ؟ ےگ "

ا اور پھر جیس میری بات" ےجی؟" اس ن چونک کر ک ہ ے یں دھرتی ک پور کر کا چکر کاٹ کر اس ک دما غ ےک ے ے ے ہ

ہمیں لوٹ آئی اور و بوال "آپ پئیں گی؟ "

؟ یں پئیں گ نس دی "میں ن پیوں تو کیا آپ ن ےمیں ہ ہ ہ "

" ۔آپ پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا "

ی تھا جیس ماں ک وئی، ک و بھی ایسا ےمیں حیران ے ہ ہ ہ ہ وتا و ت بعد میں ہسامن میر پاپالیکن ایسا تو ب ہے۔ ہ ہ ے ے

ی ایسا تھا ۔شروع میں ہ

ےچائ بنان ک لئ اٹھی تو سامن آئین پرمیر ی نظر ے ے ے ے ے ا تھا میں ن ساڑھی س ےگئی و مجھ جات دیکھ ر ے ۔ ہ ے ے ہ ۔

ےاپن بدن کو چھپایا اور پھر اس بڈھ ک الفاظ یاد آ ے ے ی ن یں پولیس یںدیکھنا ک وئ اں چور آئ "آج کل ی ہگئ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے

یں ہپکڑ ل تم ے "

و ی دن میں میں پکڑی گئی میری شادی ہبس کچھ ۔ ہ یں، لیکن ہگئی میر گھر ک لوگ یوں تو بڑ آزاد خیال ے ے ے ۔ وں ن جیس مجھ بوری میں ڈال وئ ان ےدیدی پر بٹھات ے ے ہ ے ہ ے

اتھ پاؤں پر کسی کی نظر بھی ن پڑ ے۔رکھا تھا تاک میر ہ ہ ے ہ وں، لیکن صرف اتنا جس میں ہمیں پرد پسند کرتی ہ

ی ہدکھائی بھی د اور شرم بھی ر زندگی میں ایک بار ہے۔ ے اتھوں س وئ وتا ک و دب پاؤں آتا اور کانپت ےتو ہ ے ہ ے ہے ے ہ ہ ہے ہ ٹائ بنا ےاس گھونگھٹ کو اٹھاتا جس بیچ میں س ہ ے ے ہے

یں ملتا ۔پرماتما بھی ن ہ

یں دیکھا کون آیا، نگام میں میں ن تو کچھ ن ہشادی ک ے ے ہ ے وئ ےکون گیا بس چھوٹ سولنکی میر من میں سمائ ہ ے ے ے ۔

نا تھا، جو بھی ہتھ میں ن جو بھی کپڑا، جو بھی زیور پ ے ے۔ ی کی نظروں س دیکھ کر، جیس ےافشاں چنی تھی، ان ے ہ ی تھیں میں سب س بچنا، ی ن ر ےمیری اپنی نظریں ۔ ہ ہ ہ

تی تھی تاک صرف ایک ک سامن کھل ےسب س چھپنا چا ے ہ ہ ے ۔سکوں، ایک پر اپنا آپ وار سکوں جب برات آئی تو میری " ا، "بالکونی پر آ جاؤ، برات دیکھ لو ت ک یلیوں ن ب ۔س ہ ہ ے ہ

Page 428: اردو ادب کے مشہور افسانے

ی ن پکڑ لی میں ن ایک روپ دیکھا ےلیکن میں ن ایک ۔ ہ ہ ے ےتھا جس ک بعد کوئی دوسرا روپ دیکھن کی ضرورت ے

۔ی ن تھی ہ ہ

ےآخر میں ن سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا سب میر ۔ ے ے۔سواگت ک لئ کھڑ تھ گھر کی سب عورتیں، سب ے ے ے

ی تھیں اور و مجھ نسی سنا ئی د ر ےمردبچوں کی ہ ہ ے ہ ے۔گھونگھٹ میں س دھندل دھندل دکھائی د ر تھ ہے ے ے ے ے

یں وتی ر شادی میں وئیں جیسی ہسب رسمیں ادا ہ ہ ہ ےلیکن جان کیوں مجھ ایسا لگتا تھا جیس میری شادی ے ے ، میرا گھونگٹ اور، میرا بر اور گھر ک اشٹ دیو ےاور ۔ ہے

ےکو ماتھا ٹکان ک بعد میری ساس مجھ اپن کمر میں ے ے ے ے ےل گئی تاک میں اپن سسر ک پاؤں چھوؤں، ان ک ے ے ہ ے

اتھ رکھا اور وں ن میر سر پر اتھ لگایا ان ہچرنوں کو ے ے ہ ۔ ہ ےبول "سو تمآ گئیں بیٹی؟ "

ےمیں ن تھوڑا چونک کر اس آواز ک مالک کی طرف ے ۔دیکھا اور ایک بار پھر ان ک قدموں پر سر رکھ دیا کچھ ے

وت تو میں ان قدموں کو دھو دھو کر ےاور بھی آنسو ہ ۔پیتی